نظیر اکبرآبادی اور اردو شاعری میں واقعیت و جمہوریت کا آغاز
نظیر اکبرآبادی اور اردو شاعری میں واقعیت و جمہوریت کا آغاز
مجنوں گورکھپوری
MORE BYمجنوں گورکھپوری
آج میں بچپن کی زندگی اوراس کے اصول و عقاید پر غور کرتا ہوں تو صرف ایک نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور وہ یہ کہ بچپن میں ہم جو کچھ ہوتے ہیں وہ ہماری اصلی فطرت ہوتی ہے جس پر زمانہ کی رفتار اور تہذیب و مدنیت کے بڑھتے ہوئے احساس کے ساتھ سیکڑوں ہزاروں پردے پڑ جاتے ہیں، یہاں تک کہ ہماری فطرت کچھ کی کچھ نظر آنے لگتی ہے۔ تہذیب و تربیت جہاں انسان میں طرح طرح کی لطافتیں اور نفاستیں پیدا کرتی ہے وہاں اس کو ریاکار اور حقیقت فراموش بھی بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچپن، جوانی اور بڑھاپا دونوں کے مقابلے میں زندگی سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
جب ہم مڑکر اپنے اس دور پر نظر ڈالتے ہیں جس کو معصومیت اور بےشعوری کا دور کہتے ہیں اور اس وقت کے فیصلوں کا بعد کی عمر کے فیصلوں سے مقابلہ کرتے ہیں تو اکثر اس وقت کے فیصلے زیادہ سچ اور زیادہ ناقابل تردید معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بچپن کے فیصلے فطری اور بےساختہ ہوتے ہیں۔
مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جبکہ نظیر اکبرآبادی کے نام سے میں پہلے پہل واقف ہوا۔ عمر وہ تھی جس کو صحیح معنوں میں بچپن کہنا چاہئے جبکہ آزادی اور خرمی، انسان کا مذہب ہوتاہے۔ مجھے ابھی تک اردو نہیں پڑھائی گئی تھی۔ عربی اور فارسی پڑھ رہا تھا۔ فارسی زبان اور فارسی شاعری سے کافی واقفیت حاصل ہو چکی تھی اور اب فارسی زبان سے کوئی اجنبیت باقی نہیں تھی۔ عربی کے مدارج طے کرائے جا رہے تھے۔ اب خیال ہوا کہ اردو کے لئے زمین تیار ہو چکی ہے اور اب اردو کتابوں کا بھی مطالعہ کراتے رہنا چاہئے۔ دو کتابیں منتخب کی گئیں۔ ’’آرائش محفل‘‘ یعنی قصہ حاتم طائی اور’’کلیات نظیر اکبرآبادی۔‘‘
بچپن کے تصورات مادی دنیا سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات میں اپنے گردوپیش کی دنیا سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور جو چیزیں ہمارے محسوسات اور تجربات کی دنیا سے زیادہ قریب ہوتی ہیں، انہیں کی ہم قدر زیادہ کرتے ہیں۔ میں پڑھنے کو سعدی، غنی، صائب سبھی کو تھوڑا تھوڑا درسی طور پر اور بہت کچھ اپنے شوق سے پڑھ چکا تھا، مگر اب سب کو حقیقتاً اپنے سے بیگانہ پا رہا تھا۔ سب ایسا معلوم ہوتا تھا زمین سے اوپر کہیں آسمان کے پاس سے باتیں کر رہے ہیں۔ ان میں سے جو شخص سب سے زیادہ اپنے قریب سے بولتا ہوا معلوم ہوتا تھا وہ سعدی تھے، وہ بھی ’’گلستاں‘‘ اور’’بوستاں‘‘ والے سعدی۔ ان عالم بالا والوں کے بعد نظیر اکبرآبادی کی آواز سنی تو ایسا محسوس ہوا کہ کوئی بالکل اپنی بغل میں برابر کھڑا ہوا ہے اور مانوس زبان میں گفتگو کر رہا ہے۔
آپ سمجھئے ’’بنجارہ نامہ‘‘اور ’’ہنس نامہ‘‘ دونوں تمثیلیں ہیں۔ اس وقت بھی مجھے یہی بتایا اور ذہن نشین کرایا گیا تھا اور بظاہر میں سمجھ بھی گیا تھا، اگر سمجھنے کے صرف یہی معنی ہیں کہ بتائی ہوئی بات حافظہ میں محفوظ ہو گئی۔ لیکن درحقیقت میری سمجھ میں ایک بات آئی تھی وہ یہ کہ شاعر ایسی باتوں کا ذکر کر رہا ہے جو برابر میرے تجربے میں آتی رہتی ہیں اور جن سے میں اچھی طرح مانوس ہوں۔ میں دیہات میں پیدا ہوا اور دیہات ہی میں بچپن گزرا اور دیہات ہی میں ابتدائی تعلیم و تربیت پائی۔ مجھے نہ جانے کتنے فارسی اشعار زبانی یاد تھے، لیکن میرے خیال میں ان کا مصرف صرف یہ تھا کہ ان کے معنی بتائے جائیں یعنی ان کو اپنی زندگی کے اجزائے ترکیبی نہیں پاتا تھا۔ برخلاف اس کے جب میں یہ پڑھتا،
چنڈول، اگن، ابلقے، جھپاں، بئے، ڈھیر
مینا و بئے کلکلے بگلے بھی سمن پر
طوطے بھی کئی طور کے ٹوئیاں کوئی لہبر
رہتے تھے بہت جانور اس پیڑ کے اوپر
اس نے بھی کسی شاخ پر گھر اپنا سنوارا
یا یہ پڑھتا،
گرتو ہے لکھی بنجارہ اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے
اے غافل تجھ سے بھی چاتر اک اور بڑا بیوپاری ہے
کیا شکر مصری قندگری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے
کیا واکھ منقا سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائےگا جب لادچلے گا بنجارہ
تو ان سب چیزوں سے اپنے کو مانوس پاتا تھا۔ سب ایسی چیزیں تھیں جو روزانہ زندگی کی ترکیب میں داخل تھیں۔ جن پرندوں کے نام گنائے گئے تھے، ان میں سے شاید کوئی ایسا ہو جن کے انڈوں بچوں کی تلاش میں دیہات کے لڑکے صبح سے شام تک مارے مارے نہ پھرتے ہوں۔ بنجارے اور اسی قماش کے دوسرے خانہ بندوش لوگ آئے دن اپنے گاؤں سے گزرتے تھے اور اکثر گردوپیش کے آم کے باغوں میں ڈیرے ڈال دیتے تھے۔ مزدوروں کو کھیپ لادتے ہر وقت دیکھتا تھا اور ہلکی اور بھاری کھیپ کا پورا اندازہ تھا۔ بیوپاری روز آیا کرتے تھے اور وہی چیزیں گاؤں میں بیچ جاتے تھے جن کی فہرست نظیرنے دی ہے۔ میں ان کے ’’بڑے بیوپاری‘‘ کو بھی اس قسم کا ایک بیوپاری سمجھتا تھا۔
غرض کہ نظیر پہلے شاعر تھے جن کو میں نے زمین پر کھڑے ہوئے زمین کی چیزوں کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے پایا اور پہلی مرتبہ میں نے یہ محسوس کیا کہ شاعری کا تعلق روئے زمین سے بھی ہے۔ یہ احساس کبھی میرے دل سے گیا نہیں، البتہ میر اور غالب، نظیری اور عرفی، ملٹن اور ورڈسورتھ کے پیدا کئے ہوئے اثرات میں ایک مدت تک کھویا ضرور رہا۔ آج جبکہ میں نظیر کی شاعری اور اس کی نوعیت پر دوبارہ غور کرنے بیٹھا ہوں تو لڑکپن کے وہ نقوش اور وہ احساسات عود کر آئے ہیں اور مجھے ان کے اندر ایسی صحت اور صداقت نظر آ رہی ہے کہ اتنی مدت بعد بھی نہ تو میں ان سے انکار کر سکتا ہوں اور نہ ان میں کوئی قابل لحاظ ترمیم یا اضافہ۔ نظیر اکبرآبادی کے متعلق میری اب بھی وہی رائے ہے جو اس وقت تھی۔ آج میں اپنے انہیں ارتسامات کو شرح و تفصیل کے ساتھ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اردو شاعری میں نظیر اکبرآبادی کی حیثیت متعین کرنا آسان کام نہیں ہے، اس لئے کہ ا ب تک اہل نقد ونظرنے ان کی کوئی قابل لحاظ حیثیت تسلیم نہیں کی۔ نظیر کو پڑھتے سب تھے۔ الہی نامہ، برسات کی بہاریں، بنجارہ نامہ، ہنس نامہ، تندرستی نامہ، ریچھ کا بچہ کے اشعار اکثروں کے زبان پر چڑھے رہے ہیں۔ لیکن جب ان کو کوئی مرتبہ دینے کا موقع آتا ہے تو سب اس طرح خاموش ہو جاتے ہیں یا زیر لب کچھ کہہ کے رہ جاتے ہیں، جیسے نظیر کا نام لینا آداب مجلس کے خلاف ہو۔
یہ توسب محسوس کرتے رہے ہیں کہ اردو شاعری میں نظیر ایک نئی قوت اور ایک نیا امکان ہیں، مگر کوئی اس کا اعتراف کرنا نہیں چاہتا۔ تذکرہ نگاروں نے ان کو اچھوت سمجھ کر ان سے پہلو بچایا ہے۔ وہ تذکرے گنتی کے ہیں جن میں نظیر کا بھی کوئی ذکر ہو اور ان میں بھی ان کے خلاف فیصلے ملیں گے۔ شیفتہ، جو نظیر کے حلم و خلق و انکسار کا اعتراف کرتے ہیں جب ان کی شاعری کا ذکر آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ’’اس کے بہت اشعار ہیں جو سو قیوں کی زبان پرجاری ہیں اوران اشعار پر نظر رکھتے ہوئے ان کو شعراء کی تعداد میں شمار نہ کرنا چاہئے۔ (ترجمہ از’’گلشن بے خار‘‘)
پرانے تذکرہ نگاروں میں شیفتہ بڑے مبصر اور منصف مزاج واقع ہوئے تھے، لیکن نظیر کے متعلق انہوں نے بھی وہی حکم لگایا جو ان کے پیش روؤں نے لگایا تھا اور جوان کے معاصرین لگا رہے تھے۔ شیفتہ کا اس میں کوئی قصور نہیں، سوا اس کے کہ وہ مروجہ معیار شاعری اور مروجہ اصول تنقید سے تھوڑی دیر کے لئے انحراف نہ کر سکے اور شیفتہ کو کیا کہئے، آزاد سے لے کر اس وقت تک اردو شاعری اور اردو ادب کی جتنی معتبر اور قابل قدر تاریخیں لکھی گئی ہیں ان میں رام بابو سکسینہ کی ’’مختصر تواریخ ادب اردو‘‘ کو چھوڑکر کسی میں نظیر کا تذکرہ نہیں ملےگا۔ مخمور صاحب (مؤلف) ’’روح نظیر‘‘ اپنی کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں،
’’مولانا محمد حسین آزاد صاحب ’’تذکرہ آب حیات‘‘ کی وسیع جستجو سے نظیر کے پوشیدہ رہنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آزاد نظیر کو شاعر نہ سمجھتے تھے، دوسرا یہ کہ ان سے سہو ہوا۔ آزاد کی جوہر شناس نگاہ کے متعلق یہ شبہ کرنا کہ وہ نظیر کے قائل نہ تھے ہم بہتان سمجھتے ہیں۔ پس یہ خیال ایک منٹ کے لئے بھی قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ البتہ دوسری وجہ زیادہ قرین قیاس ہے۔‘‘
ہم اس کو آزاد کے ساتھ مخمور کا بڑھا ہوا حسن ظن سمجھتے ہیں۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ آزاد کی نظر اتنی ہی ’’جوہر شناس‘‘ تھی جتنی کہ مخمور سمجھتے ہیں تو آزاد کو نظیر میں کوئی جوہر نظر نہیں آ سکتا تھا۔ وہ اسی کو شاعری کا جوہر سمجھتے تھے جس کو نسلاً بعد نسل لوگ شاعری کا جوہر مانتے آئے تھے۔ مخمور کا یہ خیال بہت صحیح ہے کہ ’’گزشتہ زمانہ میں مذاق سخن اس درجہ مصنوعی اور غیرفطری ہو گیا تھا کہ فطرت شناسوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہ رہی تھی۔‘‘ یہ مصنوعی معیار اور غیرفطری اسلوب اردو شاعری کے راستے میں آج تک زحمتیں پیدا کر رہا ہے اور اس کو فطرت شناس نہیں ہونے دیتا۔
نظیر کی طرف اب لوگوں کی توجہ جا رہی ہے اور اب یہ آواز سننے میں آنے لگی ہے کہ نظیر تنہا اپنی ذات سے ایک دبستاں اور بجائے خود ایک جماعت تھے۔ لیکن اس قسم کی گول گول باتوں سے کام نہیں چلتا۔ یہ تو پہلی اور سطحی نظر میں ہر شخص کو معلوم ہو جاتا ہے کہ نظیر اردو شاعروں کے عام جھنڈ سے الگ ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری میں اجتہاد کیا اور ایسا اجتہاد جس کو روایات سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ نظیر اپنے رنگ کے تنہا شاعر تھے لیکن اس کے در پردہ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ بد راہ تھے اور اکثر نقادوں کا دبا ہوا اشارہ بھی یہی ہے۔ ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ نظیر کے اجتہاد کا راز اور اس کی اہمیت کیا ہے؟
نظیر سے جن لوگوں نے بحث بھی کی ہے، انہوں نے ان کی زندگی او ر ان کی شاعری کے اخلاقی اور تمثیلی پہلو پر ضرورت سے زیادہ زور دیا ہے، اوراس سے آگے یا تو کچھ کہہ سکے ہی نہیں ہیں، یا کہنے کی ہمت نہیں پڑی ہے مگر اردو کا ہر شاعر کم وبیش یہی رہا ہے۔ تمثیل و کنایہ اردو شاعری کی گویا گھٹی میں پڑے ہیں اور مضامین کے اعتبار سے عشق، تصوف اور اخلاق انہیں تین چیزوں کا ہماری شاعری میں غلبہ رہاہے۔ لہذا اس کو نظیر کا طرہ امتیاز نہیں کہا جا سکتا۔ اگر محض یہی ہوتا تو آج اردو شاعروں کی محفل میں نظیر اس قدر بیگانہ نہ نظر آتے اور اردو شعراء ان کے ساتھ ایسی سرد مہری کا برتاؤ نہ کرتے۔
حقیقت یہ ہے کہ نظیر نے اردو شاعری میں اس بغاوت اور انقلاب کی بنیاد ڈالی جس سے ہمارے شاعر اور ادیب آج تک موانست اور مساوات نہیں پیدا کر سکے ہیں۔ اردو شاعری نے اپنے تمام اکتسابات اور کمالات کے باوجود زندگی کی وہ نانمائندگی نہیں کی جو اس کو کرنا چاہئے تھا۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ اس نے اپنے تصورات و مفروضات اپنے روایات وصور، اپنے اصول و اسالیب غرض کہ تمام معیار اور تمام تخیل ایران سے لئے اور فارسی شاعری سے اپنا دستور مرتب کیا، اس لئے کہ اہل حکومت کی مادری زبان فارسی تھی اور درباروں میں فارسی کی آؤبھگت تھی۔ نتیجہ جو ہونا چاہئے ظاہر ہے۔ اردو شاعری میں ہم کو اپنے ملک کا سارا جغرافیہ، ساری تواریخ، سارے روایات و اساطیر بدلے ہوئے نظر آنے لگے۔ ہمالیہ اور بندھیاچل کی جگہ الوندوبسیتون کھڑے ہو گئے، گنگا۔ جمنا کی جگہ جیحوں وسیحون موجیں مارنے لگے۔ نل اور دمینتی کو فرہاد اور شیریں نے معزول کر دیا۔ ہیر اور رانجھا کو قیس ولیلی نے گدی سے اتار دیا۔
ہماری شاعری نے اپنے ملک و معاشرت سے نہ مواد لئے نہ اسالیب اور ایک دو رازخیال اور موہوم زندگی کو اپنا ماخذ رکھا اور اسی کو اپنا موضوع بنایا۔ دوسرا سبب اردو شاعری کا زندگی سے بے تعلق اور بےگانہ رہ جانے کا یہ ہوا کہ اس کی جو صنف بادشاہوں اور درویشوں کی سرپرستی اور اثر میں سب سے زیادہ رائج اور مقبول ہوئی وہ غزل ہے، جس میں ہر شعر میں ایک مضمون کو مکمل کرنا پڑتا ہے۔ ایسی شاعری زندگی کے تمام حالات، واقعات اور تمام معاملات و مسائل سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتی۔ غزل بھی انسانی زندگی کی ایک ضرورت ہے لیکن وہ ہر ضرورت پر حاوی نہیں ہو سکتی۔ غزل کی ہیئت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس کا کام ان کیفیات و مشاہدات کو اشاروں میں بیان کرنا ہے جو کسی طرح شرح و تفصیل کی متحمل نہ ہو سکیں۔ لیکن انسان کی زندگی میں روز بروز وسعت اور پیچیدگی بڑھتی گئی ہے اور ہم کو نظم و نثر دونوں میں ایسے اصناف کی ضرورت رہی ہے جو ہماری خارجی اور باطنی زندگی کا پورا پورا حق ادا کر سکیں۔
نظیر کو اردو شاعری کی کوتاہیوں کا احساس اس وقت ہوا جبکہ ان کے آگے پیچھے کی دنیا میں کسی کو بھی ان کا احساس نہیں ہو سکتا تھا۔ نظیر پڑھے لکھے آدمی تھے۔ ان کی فارسی کی قابلیت اچھی خاصی تھی، عربی سے بھی ناواقف نہیں تھے۔ انہوں نے عمر بھر معلمی میں بسر کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مروجہ نصاب کے مطابق پڑھے لکھے ہوں گے۔ کم سے کم اتنی فارسی تو ضرور جانتے ہی ہوں گے کہ اگر چاہتے تو میر یا سودا، مصحفی یا انشا، آتش یا ناسخ کے رنگ کی شاعری کو اختیار کر سکتے تھے۔ پھر ان کے کلام سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ فارسی زبان اور فارسی شاعری سے کافی واقف اور مانوس تھے۔ لیکن انہوں نے بالقصددلی اور لکھنؤ دونوں دبستانوں سے بالکل الگ اپنا ایک رنگ نکالا۔
اس لئے کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ مروجہ اردو شاعری کو نہ ملکی رسوم و روایات سے کوئی تعلق ہے اور نہ عوام کی زندگی سے اور وہ مقدس الہامی کتابوں کی آیات کی طرح ہمیشہ ایک چیدہ اور برگزیدہ لوگوں کے حلقہ کی چیز بنی رہے گی۔ عوام زیادہ سے زیادہ اس کو صحف سماوی کے قسم کی چیز سمجھ کر اس سے مرعوب رہیں گے، لیکن اس سے کوئی اثر قبول نہیں کر سکتے۔ اس احساس کے ماتحت انہوں نے ایسی شاعری کی بنیاد ڈالی جو اپنے ملک کی پیداوار معلوم ہو، جس سے کثیر سے کثیر تعداد میل اور یگانگت محسوس کرے، جو عوام کی روزمرہ زندگی کی نمائندگی کرے اور جس میں یہ صلاحیت ہوکہ عوام کی زندگی کی ترکیب میں داخل ہوکر اس کی تہذیب و ترقی میں مددگار ثابت ہو سکے۔ نظیر کے کلام کے مطالعہ سے پڑھنے والے پر جو مجموعی اثر ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ شخص اردو شاعری میں واقعیت اور جمہوریت کی بنیاد ڈالنے کی پہلی کوشش کر رہا ہے۔
یہ بڑی بات تھی کہ نظیر کسی کے شاگرد نہ تھے۔ کم سے کم اس کا پتہ نہیں چلتا۔ ان کا کلام پڑھ کر یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ہندی کے بعض شعراء کا اثر ان پر خاصا ہے، خصوصیت کے ساتھ کبیر کا، یا پھر میر سے وہ کچھ متاثر معلوم ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنی شاعری کے لئے جو نیا رستہ نکالا وہ کبیر اور میر دونوں کے راستوں سے منفرد اور ممتاز ہے۔ شاعری کا ملکہ ان کے اندر فطرتاً موجود تھا اور انہوں نے صرف فطرت اور حقیقت کو اپنا استاد بنایا۔ اگر یہ کہا جائے کہ نظیر اکبر آبادی اپنے رنگ کے موجد تھے جو انہیں پر ختم ہو گیا تو یہ کوئی تنقیدی بات نہ ہوگی، اس لئے کہ اکثر بڑے شاعر اپنے رنگ کے موجد ہی ہوتے ہیں۔ غالب اپنے رنگ کے موجد تھے اور خود ہی اس کے خاتم بھی ہوئے۔ جرأت بھی اپنے رنگ کے موجد تھے۔ اس لئے نظیر کے متعلق صرف یہ کہنا کہ وہ اپنے رنگ کے موجد تھے کافی نہیں۔ وہ اپنے رنگ کے صرف موجد ہی نہیں تھے بلکہ اور رنگوں کے منکر بھی تھے۔ انہوں نے سارے مروجہ اسالیب وصور ہی سے انحراف کیا۔
سب سے پہلی بات جو پہلی ہی نظر میں معلوم ہو جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ اگر قصائد اور مثنویات کو نظم میں شمار نہ کیا جائے اور نظم کی اصطلاح کو جدید معنوں میں استعمال کیا جائے تو نظیر اردو کے پہلے نظم نگار ہیں۔ لکھنے کے لئے انہوں نے غزلیں بھی لکھی ہیں، اس لئے کہ غزل کا ہر طرف زور تھا اور کوئی شاعر اس وقت تک شاعر تسلیم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ وہ اپنے کو غزل کا مرد میدان ثابت نہ کر دے، لیکن اول تو غزل نظیر کا کارنامہ نہیں ہے۔ وہ اپنی نظموں کے بل پر زندہ رہے اور زندہ رہیں گے۔ دوسرے باوجود اس کے کہ غزل میں اپنے اجتہاد اور مروجہ رسوم و روایات سے انحراف کی سب سے کم گنجائش ہے، نظیر نے حتی الامکان اپنے لب ولہجہ اور انداز بیان سے اس کی کوشش کی ہے کہ وہ زمین کے ہی قریب رہیں اور ان کی باتیں آسمانی باتیں نہ ہونے پائیں۔ مثال کے طور پر چند شعر سنئے،
پیش جاتی نہیں ہرگز کوئی تدبیر نظیر
کام جب آن کے پڑتا ہے زبردستوں سے
اپنا وہ خوش لباس بسنتی دکھا نظیر
چمکایا حسن یار نے کیا کیا بسنت کا
جودل تھا وصل میں آباد تیرے ہجر میں آہ
بنی ہے شکل اب اس کی اجاڑ بن کی سی
ہزار تن کے چلیں بانکے خوبرو لیکن
کسی میں آن نہیں تیرے بانکپن کی سی
وہ دیکھ شیخ کو لاحول پڑھ کے کہتا ہے
یہ آئے دیکھئے ڈاڑھی لگائے سن کی سی
کہاں تو اور کہاں اس پری کا وصل نظیر
میاں تو چھوڑ یہ باتیں دیوانہ پن کی سی
دیکھ کر کرتی گلے میں سبز دھانی آپ کی
دھان کے بھی کھیت نے اب آن مانی آپ کی
یاوہ غزل جس میں نظیر نے اپنے یار کو بسنت کی خوشخبری سنائی ہے اور جس کا مطلع یہ ہے،
مل کر صنم سے اپنے ہنگام دل کشائی
ہنس کر کہا یہ ہم نے اے جاں بسنت آئی
نظیر اکبرآباد خیالات کے شاعر نہیں ہیں بلکہ واقعات کے شاعر ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ خیالات انسان کو بہکا کر دنیائے آب وگل سے دور لے جاتے ہیں اور اس کے اندر انسانی ہمدردی باقی نہیں رہنے دیتے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے اندر یہ احساس کام کر رہا تھا کہ انسان کا سب سے بڑا انسانی جرم وہ ہے جو وہ بلند خیالی اور بلند معیاری کے پردے میں کرتا ہے۔ خود اپنے خیالات کو اتنا بلند کر لینا اور اپنے مذاق کو اتنا رچ لینا کہ آپ ساری خلقت انسانی سے الگ ایک مخلوق ہو جائیں اور عوام الناس آپ کو ادنی اور حقیر نظر آنے لگیں، کوئی بہت بڑا اکتساب نہیں ہے۔
نظیر کے کلام کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خوش دل اور شگفتہ مزاج رفیق مل گیا ہے جس کو انسان اور انسانی دنیا سے محبت ہے، جو انسان کی بے قدری نہیں کرتا، جو انسانی زندگی کی کم مائیگی کا احساس پیدا کرکے دلوں کو افسردہ نہیں کرتا، جو اپنی رفاقت سے ہمارے اندر ایک تقویت پیدا کرتا ہے اور ہم کو یہ اطمینان دلاتا ہے کہ زندگی صرف دکھ درد کا نام نہیں ہے، ہنسی خوشی بھی زندگی ہی کی باتیں ہیں، یہاں کانٹے بھی بھی ہیں، پھول بھی ہیں۔ کانٹوں کو نظر میں رکھو اور پھولوں سے دل خوش کرو۔
نظیر ہندوستان کے شاعر تھے اور ہندوستان کی جمہوری زندگی کو انہوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اسالیب اور لب و لہجہ کو عوام سے ہم سطح رکھا۔ یہاں تک کہ ان کی شاعری کو عامیانہ اور بازاری سمجھا جانے لگا۔ لیکن ان کا نفس جمہور کا نفس اور ان کا ضمیر سماج کا ضمیر تھا، جس کو ایسے اعتراضات کی پرواہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہیں کھلے الفاظ میں کہا نہیں ہے، مگر ان کا انداز بتاتا ہے کہ وہ شاعری کو جمہوری زندگی کا آئینہ سمجھتے تھے۔ شاعر کو کوئی حق نہیں کہ وہ خلق اللہ کی زندگی سے بیگانگی برتے اور اپنے کوان سے علیحدہ اور برگزیدہ سمجھے اور حقیقت یہ ہے کہ جو شاعر اپنے کو ایک مخصوص اور برگزیدہ حلقہ یا طبقہ کی چیز سمجھتا ہے اور عوام کی زندگی کو قابل اعتنا نہیں سمجھتا وہ معاشرت اور سماج کا مجرم ہے۔
نظیر خالص ہندوستانی شاعر تھے۔ ہندوستان کی زندگی اور ہندوستان کے رسوم و روایات ان کی شاعری کے لازمی عناصر ہیں۔ وہ اپنے گردوپیش کی زندگی کے عام سے عام واقعات کے ساتھ سچی موانست رکھتے ہیں اور انہیں سے اپنی شاعری کے لئے مواد حاصل کرتے ہیں۔ نظیر اردو کے پہلے شاعر ہیں جن کا کلام پڑھ کر ہندوستان کے حالات اور عام معاشرت اور یہاں کے رسم ورواج کے متعلق معلومات حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ’’برسات کی بہاریں‘‘ دیکھئے،
مارے ہیں موج ڈابر دریا ڈونڈ رہے ہیں
مورو پپہیے کوئل کیا کیا ڈمنڈ رہے ہیں
جھڑکر رہی ہیں ندیاں نالے امنڈ رہے ہیں
برسے ہے مینھ جھڑا جھڑ بادل گھمنڈ رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
کتنوں کومحلوں اندر ہے عیش کا نظارا
یا سائبان ستھرا یا بانس کا اُسارا
کرتا ہے سیر کوئی کوٹھے کا لے سہارا
مفلس بھی کر رہا ہے پولے تلے گزارا
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
سبزوں پہ بیر بہٹی ٹیلوں اوپر دھتورے
پسو سے مچھروں سے روئے کوئی بسورے
بچھو کسی کو کاٹے کیڑا کسی کو گھورے
آنگن میں کنسلائی کونوں میں کنکھجورے
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
آپ نے دیکھا اردو شاعری اب تک اس زبان اور اس انداز سے نا آشناتھی۔ اگر شعراء برسات کا نقشہ کبھی کھینچتے بھی تھے تو وہ نہ جانے کس خطہ کی برسات ہوتی تھی۔ نظیر کوشش کے ساتھ یہ زبان اور یہ اسلوب استعمال کرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان کی شاعری موضوع اور زبان دونوں کے اعتبار سے عوام کی زندگی اوران کے جذبات و خیالات سے قریب سے قریب ہو، بلکہ جہاں تک ہو سکے خواص کی دنیا سے دور اور ان کے لئے غیر مانوس ہو۔ اس لحاظ سے نظیر اور ہندی کے مشہور کوی کبیرداس میں خاصی مناسبت نظر آتی ہے۔ کبیرداس کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی زبان وہ ہو جس کو عوام کی زبان کہہ سکیں اور جس کو خواص کی مہذب اور مصنوعی زبان سے کوئی واسطہ نہ ہو۔
کبیر اور نظیر دونوں کی زندگی اور دونوں کی شاعری اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ وہ خواص سے اپنے کو بیگانہ پاتے تھے۔ اس لئے کہ خواص اپنے کو خدا کی خاص مخلوق سمجھتے ہیں اور عوام کو ادنی اور ذلیل سمجھ کرنفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پھر یہ بھی نہیں کہ ان کو قابل نفرت قرار دے کر ان سے بے تعلق ہو جائیں، بلکہ ان کے حقوق کو غصب کرنے کے لئے اوران سے خدمتیں لینے کے لئے ان کی گردنوں پر تسمہ پاکی طرح سوار بھی رہتے ہیں۔ کبیر اور نظیر دونوں صحیح معنوں میں جمہوری شاعر تھے۔ فرق یہ ہے کہ کبیر کے خلوص اور ان کی بڑھی ہوئی انسانیت پر ان کی وہ جھلاہٹ غالب آ گئی تھی جوان کو اپنے ماحول اور اپنے زمانہ کے سماجی نظام سے تھی اور ان کے اندرکلبیت (Cynicism) کا بھی ایک میلان پیدا ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کی زبان عوام کی زبان ہوتی ہے۔ ان کے خیالات ایسا انوکھا پیرایہ لئے ہوتے ہیں کہ عوام وخواص دونوں ان کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر انتہائی ضد میں نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی بات کو سمجھے۔
نظیر فطرتاً خوش مزاج تھے۔ یہی خوش مزاجی ان کی زندگی اور ان کی شاعری کا سب سے بڑا جوہر ہے۔ افسردگی اور اضمحلال، یاخفگی اور جھلاہٹ کو ان کی طبیعت سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ وہ انسان کو فطرتا ًایک اچھی مخلوق اور اس کی زندگی کو اصلیت کے اعتبار سے ایک اچھی زندگی سمجھتے تھے اور اس میں جتنی خرابیاں ہیں ان کو خارجی اور عارضی خیال کرتے تھے جو اس قابل نہیں کہ اس پر اپنی توجہ ضائع کی جائے۔ دنیا کے شاعروں نے بالعموم اردو اور فارسی شاعروں نے بالخصوص انسانی زندگی کی بنیادی خرابیوں پر اس قدر زور دیا ہے کہ اب وہ ’’اوج ثریا‘‘ تک ہم کو خراب نظر آنے لگی ہے۔
نظیر کا سارا کلام پڑھ جائیے، آپ کو کبھی یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہماری زندگی کوئی خراب چیز ہے۔ ان کے کلام میں جابجا سوزوگداز اور درد مندی بھی موجود ہے، بالکل اسی طرح جس طرح واقعی زندگی میں بھی یہ عناصر جابجا موجود ہوتے ہیں، مثلا ًجوگی نامہ، جوگن نامہ، یا وہ مسلسل غزل پڑھئے جس کے دو شعر مطلع اور مقطع یہ ہیں۔
یہ جواہر خانہ دنیا جو ہے باآب وتاب
اہل صورت کا ہے دریا اہل معنی کا سراب
خواب کہئے اس تماشے کو نظیر اب یا خیال
کچھ کہا جاتا نہیں واللہ اعلم بالصواب
توان سے ہمارے دلوں میں سوزوگداز اور درمندی کی ایک ہلکی اور لطیف کیفیت تو ضرور پیدا ہوتی ہے، لیکن ہم افسردہ اور زندگی سے دل برداشتہ نہیں ہوتے۔ جو نظمیں خالص اخلاقی مقصد سے لکھی گئی ہیں، ان کو پڑھ کر بھی ہمارا دل دنیا سے سرد نہیں ہوتا اور ہم تیاگ ویراگ کی طرف نہیں مائل ہوتے۔ بنجارہ نامہ، ہنس نامہ، فنانامہ پڑھ کر ہم اپنے اندر بس ایک آگاہی پانے لگتے ہیں، جیسے کسی نے سوتے سوتے چونکا دیا ہو اور ہم ہوشیار ہو گئے ہوں ’کلجگ‘ جیسے عنوان پر بھی نظیر جب لکھتے ہیں تو اس سے ہمارے اندر ہوشیاری کے ساتھ ساتھ زندگی کی ایک نئی لہر پیدا ہوتی ہے۔ جس کو دنیا کلجگ کہتی ہے نظیر اس کو کرجگ بتاتے ہیں اور سمجھاتے ہیں۔
جو چاہے لے چل اس گھڑی سب جنس یاں تیار ہے
آرام میں آرام ہے آزار میں آزار ہے
اوروں کا بیڑا پار کر تیرا بھی بیڑا پار ہے
کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودانقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
اپنے نفع کے واسطے مت اور کا نقصان کر
تیرا بھی نقصان ہوئےگا اس بات پر تو دھیان کر
کھانا جو کھاتا تو دیکھ کر پانی پئے تو چھان کر
یاں پاؤں کو رکھ پھونک کر اور خوف سے گزران کر
کلجگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے
کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
دیکھا آپ نے اچھا خاصا ’’معاشرتی عہدنامہ‘‘ ہے۔ روسو نے ’’معاشرتی معاہدہ‘‘ کا پیغام اس سے زیادہ کیا کہا ہے؟ اصطلاحی جزئیات سے قطع نظر کر لیجئے تو آج اشتراکیت اور جمہوریت اس سے زیادہ اور کیا چاہتی ہے؟ پرنس کرو پاٹکن نے اپنی مشہور کتاب ’’امداد باہمی‘‘ (Mutualaid) میں اور کیا بتایا ہے؟ ’’زندہ رہو اور زندہ رہنے دو‘‘ کا جو نعرہ اس وقت بلند ہو رہا ہے وہی نظیر کے کلجگ کا بھی پیغام ہے۔ ’’زندہ رہو اور زندہ رہنے دو اور سب کو زندہ دیکھ دیکھ کر خوش ہو۔‘‘ اردو میں نظیر پہلے شاعر ہیں جن کی شاعری انسانیت کی آواز معلوم ہوتی ہے اور جو انسانیت کی فطری اور اصلی قدر سے ہم کو آگاہ کرتی ہے۔
نظیر کی شاعری میں شروع سے آخر تک وہ عنصر چھایا ہوا ہے جس کو’’روح عصر‘‘(ZEITGEIST) کہتے ہیں اور جدید اصول تنقید کی روسے جس کے بغیر ادب صحیح معنوں میں ادب نہیں ہوتاہے۔ اردو شاعری میں یہ عنصر کم ہے اور جس قدرہے وہ اتنے پردوں میں ہے کہ اس کو پہچاننا اور نامزد کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ اردو کا کوئی شاعر ایسا نہیں جس کا کلام پڑھ کر اس کے زمانہ کی معاشرت اور سماجی حالات کا صحیح اندازہ ہو سکے۔ ہاں اگر شاعر قصیدہ گو ہوا تو زیادہ سے زیادہ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کس بادشاہ کے زمانے میں تھا، یا کس امیر کے دربار سے توسل رکھتا تھا۔ برخلاف اس کے نظیر کا کلام اپنے وقت اور اپنے ماحول کا آئینہ ہے۔
واقعات و حالات اور رسوم و روایات کی جیسی زندگی سے معمور تصویریں نظیر نے ہم کو دی ہیں، وہ اردو شاعری کے حصے کی چیزیں نہیں تھیں۔ ایسی مرقع نگاری میر حسن اور میر انیس کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔ ایسے مرقعے تو کچھ انگریزی شاعری کے مورث اعلیٰ چاسر ہی کے یہاں نظر آتے ہیں۔ یہ محاکاتی قدرت کچھ چاسر ہی کو نصیب ہوئی تھی۔ فرق یہ ہے کہ چاسر نے ہر طبقہ اور ہر جماعت کی تصویریں اتاری ہیں۔ نظیر نے اس کا کوئی اہتمام نہیں رکھا اور جمہور کی روزمرہ کی زندگی سے واسطہ رکھا۔ وہ اسی کو زندگی سمجھتے تھے جو کثیر سے کثیر تعداد اور وسیع سے وسیع دائرہ پر احاطہ کرے۔ اگر اولیت کے اعتبار سے ولی کو اردو شاعری کا چاسر کہنا چاہئے تو فنی مماثلت کے اعتبار سے نظیر اردو شاعری کے چاسر ہیں۔
نظیر جس چیز یا جس واقعہ کو بیان کرتے ہیں اس کی ہو بہو تصویر اتار کر رکھ دیتے ہیں جیسے اصل کا ایک مثنیٰ تیار کر دیا ہو۔ ’’آگرہ کی تیراکی‘‘ کا جو نقشہ نظیر نے کھینچا ہے، اس کا لطف اس وقت بھی خوانچہ والوں سے لے کر شہر کے رئیسوں تک ہر وہ شخص اٹھا سکتا ہے جو ایک گزرے ہوئے زمانہ اور ایک اٹھی ہوئی رسم کو ابھی ایک دم نہ بھول گیا ہو۔ چند بند ملا حظہ ہوں،
جھرنے ے لے کے یارو سبحا کاتا پیالہ
چھتر ی سے برج خونی دارا کا چونترا کیا
مہتاب باغ سید تیلی قلعہ و روضہ
غل شور کی بہاریں انبوہ سیر چرچا
ہر اک مکاں میں ہوکر ہشیار پیرتے ہیں
اس آگرہ میں کیا کیا اے یار پیرتے ہیں
باغ حکیم اور جو شیوداس کا چمن ہے
ان میں جگہ جگہ پر مجلس ہے انجمن ہے
میوہ مٹھائی کھانے اور ناچ دل لگن ہے
کچھ پیر نے کی دھومیں کچھ عیش کا چلن ہے
ہر اک مکاں میں ہوکر ہشیار پیرتے ہیں
اس آگرہ میں کیا کیا اے یار پیرتے ہیں
برسات میں جو آکر چڑھتا ہے خوب دریا
ہرجا کھری و چادر بند اور ناند چکوا
مینڈا بھنور اچھالن چکر سمیٹ مالا
مینڈا گھمیر تختہ کسے پچھاڑ کرآ
واں بھی ہنر سے اپنے ہشیار پیرتے ہیں
اس آگرہ میں کیا کیا اے یار پیرتے ہیں
تربینی میں اہاہا ہوتی ہیں کیا بہاریں
خلقت کے ٹھٹھ ہزاروں پیراک کی قطاریں
پیریں، نہاویں، اچھلیں، کودیں، لڑیں، پکاریں
لیتے وہ چھینٹ غوطے کھا کھا کے ہاتھ ماریں
کیا کیا تماشے کرکر اظہار پیرتے ہیں
اس آگرہ میں کیا کیا اے یار پیرتے ہیں
جاتے ہیں ان میں کتنے پانی پہ صاف سوتے
کتنوں کے ہاتھ پنجرے کتنوں کے سرپہ طوطے
کتنے پتنگ اڑاتے کتنے سوئی پروتے
حقوں کا دم لگاتے ہنس ہنس کے شاد ہوتے
سو سو طر ح کا کرکر بستار پیرتے ہیں
اس آگرہ میں کیا کیا اے یار پیرتے ہیں
کچھ ناچ کی بہاریں پانی کے کچھ لتاڑے
دریا میں مچ رہے ہیں اندر کے سو اکھاڑے
لبریز گلرخوں سے دونوں طرف کرارے
بجرے و ناؤ چپو ڈونگی بنے نواڑے
ان جمگھٹوں سے ہوکر سرشار پیرتے ہیں
اس آگرہ میں کیاکیا اے یار پیرتے ہیں
سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعہ نگاری چاسر کے بوتے کی بھی بات نہیں تھی۔ چاسر اتنی وسیع واقفیت اور اس قدرمتنوع معلومات کہاں سے لاتا؟ نظیر کی زندگی ہی ایسی گزری کہ ان کے تجربات اور معلومات کا اس قدر وسیع اور ہمہ گیر ہونا لازمی تھا۔ نظیر نے اپنا دائرہ موضوع کسی خاص فرقہ کی زندگی تک محدود نہیں رکھا۔ انہوں نے نہ اپنی زندگی میں مذہب اور مشرب کو کوئی اہمیت دی نہ شاعری میں۔ سب جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کے بیشتر اوقات ہندوؤں میں گزرے۔ اس کے اور اسباب جو کچھ بھی ہوں، مگر ایک اہم سبب یہ ضرور تھا کہ نظیر جمہور پرست تھے اور ان کو احساس ہو رہا تھاکہ یہ مذہبی امتیازات بھی سماجی مدارج کی طرح خواص کے پھیلائے ہوئے فساد ہیں۔ نظیر نے ہندوؤں کے رسوم و روایات کی طرف زیادہ توجہ رکھی، اس لئے کہ وہ دیکھ رہے تھے ہندوستان کی معاشرت کے غالب عناصر یہی ہیں۔
نظیر نے یوں تو حمد، نعت، معجزہ حضرت علیؓ اور معجزہ حضرت عباسؓ سبھی پر نظمیں لکھی ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ سب محض برائے بیت ہیں۔ ان میں وہ جان نہیں ہے جو کنھیاجی کے جنم، بانسری، ہرکی تعریف، مہادیوجی کے ایک ایک لفظ میں موجود ہے۔ نظیر کا قلم انہیں چیزوں میں جان پیدا کر سکتا تھا جن سے ان کے ملک کی عام زندگی میں جان تھی۔ آپ ساری ’’کلیات نظیر‘‘ پڑھ جائیے صرف ایک نظم ’’عیدالفطر‘‘ کے بیان میں ملے گی اور اس میں وہ زور و کیفیت اور وہ بے ساختگی نہیں ہے جو دیوالی، ہولی، بلدیوجی کا میلہ میں ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ ایک ہولی کے بیان میں لکھتے ہیں،
ہو ناچ رنگیلی پریوں کا بیٹھے ہوں گلرورنگ بھرے
کچھ بھیگی تانیں ہولی کی کچھ ناز وادا کے رنگ بھرے
دل بھولے دیکھ بہاروں کو اور کانوں میں آہنگ بھرے
کچھ طبلے کھڑکیں رنگ بھرے کچھ عیش کے دم منہ چنگ بھرے
کچھ گھنگھرو تال جھنکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اس رنگ رنگیلی مجلس میں وہ رنڈی ناچنے والی ہو
منہ جس کا چاند کا ٹکڑا ہو اور آنکھ بھی مے کی پیالی ہو
بدمست بڑی متوالی ہو ہر آن بجاتی تالی ہو
مے نوشی ہو، بیہوشی ہو، بھڑوے کے منہ پر گالی ہو
بھڑوے بھی بھڑوا بکتے ہوں تب دیکھ بہاریں ہولی کی
اسی ہولی کا دوسری جگہ یوں نقشہ کھینچتے ہیں،
یا سوانگ کہوں یا رنگ کہوں یا حسن بتاؤں ہولی کا
سب ابرن تن پر جھمک رہا اور کیسر کا ماتھے ٹیکا
ہنس دینا ہر دم ناز بھرا دکھلانا سج دھج شوخی کا
ہر گالی مصری قند بھری ہر ایک قدم اٹکھیلی کا
دل شاد کیا اور موہ لیا یہ جو بن پایا ہولی نے
ہر جاگہ تھال گلالوں سے خوش رنگت کی گلکاری ہے
اور ڈھیر عبیروں کے لاگے سو عشرت کی تیاری ہے
ہیں راگ بہاریں دکھلاتے اور رنگ بھری پچکاری ہے
منھ سرخی سے گلنار ہوئے تن کیسر کی سی کیاری ہے
یہ روپ جھمکتا دکھلایا یہ رنگ دکھایا ہولی نے
دیوالی کا جشن دیکھئے،
ہر اک مکان میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر اک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دوالی کا
کسی کے دل کو مزہ خوش لگا دوالی کا
عجب بہار کا دن ہے بنا دوالی کا
جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تیوہار
کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار
کھلونے کھیلوں بتا سوں کا گرم ہے بازار
ہر اک دکان میں چراغوں کی ہو رہی ہے بہار
سبھوں کا فکر ہے اب جابجا دوالی کا
مکان لپ کے ڈھلیا جو کوری رکھوائی
جلا چراغ کو کوڑی وہ جلد جھنکائی
اصل جواری تھے ان میں تو جان سی آئی
خوشی سے کود اچھل کر پکارے او بھائی
شگون تم کرو پہلے ذرا دیوالی کا
شگن کی باز ی لگی پہلی بار گنڈے کی
پھر اس سے بڑھ کے لگی تین چار گنڈے کی
پھری جو ایسی طرح بار بار گنڈے کی
تو آکے لگنے لگی پھر ہزار گنڈے کی
کمال نرخ لگا پھر تو آ دیوالی کا
کسی کو داؤ پہ لامکی موٹھ نے مارا
کسی کے گھر پہ دھرا سوختہ نے انگارا
کسی کو نرو نے چوپڑ کے کر دیا زارا
لنگوٹی باندھ کے بیٹھا ازار تک ہارا
یہ شور آکے مچا جا بجا دیوالی کا
’’راکھی‘‘ سے چند شعر ملاحظہ ہوں،
چلی آتی ہے اب تو ہر کہیں بازار کی راکھی
سنہری سبز ریشم زرد اور گلنار کی راکھی
بنی ہے گوکہ نادر خوب ہر سردار کی راکھی
سلونوں میں عجب رنگین ہے اس دلدار کی راکھی
نہ پہنچے ایک گل کو یار جس گلزار کی راکھی
مچی ہے ہر طرف کیا کیا سلونوں کی بہار اب تو
ہر اک گلرو پھرے ہے راکھی باندھے ہاتھ میں خوش ہو
ہوس جو دل میں گزرے ہے کہوں کیا آہ میں تم کو
یہی آتا ہے جی میں بن کے بامھن آج تو یارو
میں اپنے ہاتھ سے پیارے کے باندھوں پیار کی راکھی
پھریں ہیں راکھیاں باندھے جو ہر دم حسن کے تارے
تو ان کی راکھیوں کو دیکھ میری جاں چاؤ کے مارے
پہن زنار اور قشقہ لگا ماتھے اوپر بارے
نظیر آیا ہے بامھن بن کے راکھی باندھے پیارے
بندھا لو اس سے تم ہنس کر اب اس تیوہار کی راکھی
ان نظموں میں سب سے زبردست خصوصیت وہ انسانی انداز اور وہ واقعیت ہے جس کی مثالیں اردو تو خیر ایک طرف دوسری زبانوں میں بھی کم ہی ملتی ہیں۔ ہمارے مدعیان فضیلت نے نظیر کی اس انسان پرستی کو سوقیت اور ابتذال کہہ کر بدنام کرنا چاہا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک مدت تک نظیر کی طرف توجہ کرنے کی لوگوں کی ہمت نہیں ہوئی۔ مگر حقیقت کے اوپر اگر پردہ ڈالا جائے تو زیادہ عرصہ تک نہیں ٹھہر سکتا۔ اس وقت بھی لوگوں کو احساس تھا کہ نظیر اردو شاعری میں ایک نئے امکان اور ایک نئی قوت کو بروئے کار لاتا ہے۔ البتہ اس وقت مذاق اور معیار کے اجارہ داروں کا رعب کچھ ایسا طاری تھا کہ کوئی زبان سے وضع اور عادت کے خلاف کسی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا تھا۔ مگر اب ہماری زندگی میں نئی قدریں اور نئے معیار پیدا ہو گئے ہیں اور ہمارے مذاق اور میلانات بندشوں سے آزاد ہو رہے ہیں۔ اب ہم کو صحیح احساس ہو رہا ہے کہ نظیر نے اردو شاعری کو کیا دیا۔ اور اب ہم اس کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ نظیر نے اردو میں خارجی اور واقعی شاعری کا امکان پیدا کیا اور اس کو ایک جمہوری چیز بناکر پیش کیا۔
نظیر کا حق مارنے کی ہمارے شاعروں اور نقادوں نے بڑی کوشش کی مگر حق کبھی نہ کبھی حقدار کو پہنچ ہی جاتا ہے۔ بظاہر نظیر ہم کو اپنے تنہا رنگ کے تنہا شاعر نظر آتے ہیں جس کی نہ کسی نے تعریف کی نہ تقلید۔ لیکن غائر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ نظیر کا اثر آئندہ نسلوں پر کتنی دور تک ہوا ہے، بالخصوص غدر کے بعد اردو شاعری نے جو نیا جنم لیا ہے اور نظم نگاری کی جو تحریک پھیلی ہے اس میں کہیں شعوری اور کہیں غیر شعوری طور پر نظیر کا اثر برابر کام کرتا رہا ہے۔ حالی اور آزاد جو جدید نظم اردو کے دو زبردست معمار ہیں، نظیر سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ اسماعیل میرٹھی کے وہاں تو یہ اثر اور بھی واضح اور نمایاں ہے۔
میرا دعوی ہے کہ ہماری زبان میں اگر ریچھ کا بچہ، کورا برتن، تندرستی نامہ، اومس، موسم زمستاں، برسات کی بہاریں، بنجارہ نامہ، ہنس نامہ، مفلسی وغیرہ نظمیں موجود نہ ہوتیں تو برکھارت، رحم و انصاف کا جھگڑا، اسلم کی بلی، دال اور حالی اور اسماعیل کی اور اسی قسم کی نظمیں ابھی نہ جانے کتنی دیر بعد ہم کو ملتیں اور ان کے راستے میں نہ جانے کیا کیا دقتیں ہوتیں۔ اس کو مانتے ہوئے ہماری طبیعت ہچکچاتی ہے، اس لئے کہ حالی سے لے کر اس وقت تک اردو کے نظم نگاروں کا اسلوب عموماً نظیر کی یاد نہیں دلاتا۔
نظم میں بھی اسی فضیلت شاہی کا رواج چلا جو غزل اور قصیدہ میں چلتا رہا اور غیرملکی عناصر ہماری شاعری میں کم وبیش اسی طرح غالب رہے، لیکن حالی کی برکھارت، مناجات بیوہ، شکوہ ہند اور اسماعیل میرٹھی کی اکثر نظموں میں نظیر کا کافی رنگ ہے جو ان شاعروں کے اپنے اپنے انفرادی رنگ کے ساتھ سمویا ہوا ہے۔ ان لوگوں کے بعد اردو نظم کے آمر اقبال ہوئے جو فطرتاً ایک مفکر شاعر تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ وہ جب تک فارسیت میں پناہ نہ لیں اپنے خیالات کو، جو ایک خاص سطح سے تھے، ادا نہیں کر سکتے تھے۔ اگرچہ وہ اپنے نغمہ کو ’’ہندی‘‘ بتاتے ہیں، مگر ان کو زبان میں ہندی عنصر اور الفاظ کی جتنی کمی ہے شاید ہی کسی دوسرے اردو شاعر میں ہو۔ ایک عرصہ تک وہ اردو نظم کے قائد اعظم رہے اور نظم نگاروں کی نئی نسل ان کی تقلید کو اپنے لئے فخر سمجھتی رہی۔
لیکن گزشتہ بیس برس کے اندر اردو شاعری میں کافی انقلابی آثار پیدا ہو گئے ہیں اور اب ہم اپنی شاعری کے رواجی معیار کو اپنی نئی زندگی اور اس کے نئے میلانات اور نئے مطالبات کے لئے ناقص پا رہے ہیں۔ اب ہم کو احساس ہو رہا ہے کہ ہم کیسی دنیا کے حصہ میں ہیں اور کیسی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس احساس کا اثر ہماری شاعری پر بھی نمایاں طور پر پڑ رہا ہے۔ ہماری شاعری کے معیار اور اسلوب بدل رہے ہیں۔ اس وقت اگر کوئی شاعر ہم پر صحت بخش اثر ڈال سکتا ہے تو وہ نظیر اکبرآباد ی ہیں۔
ہماری شاعری میں ا ب بھی واقعیت کے مقابلہ میں تخیلیت اور جمہوریت کے مقابلہ میں انفرادیت کا عنصر ناگوار حد تک غالب ہے۔ اپنے حال میں مبتلا رہنا اور اپنے نفس کے اندر کھو جانا اردو شاعر کا مزاج ہو گیا ہے اور اب اس کو اس طلسمی حصار سے باہر لانے کے لئے نظیر ہی جیسے رہبر کی ضرورت ہے جو ہم کو خارجیت کی طرف لے جاتا ہے اور آنکھیں کھول کر خدا کی وسیع دنیا سے کیف اندوز ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ ساری اردو شاعری میں ہم کو نظیر ہی ایک ایسی ہستی ملتی ہے جو اپنے نفس کے زنجیروں میں جکڑی ہوئی نہیں ہے۔ یہ محض میرا دعوی نہیں ہے، میں خلا میں باتیں نہیں کر رہاہوں بلکہ بالکل نئی نسل کے ان شاعروں کو پڑھئے جو جمہوریت اور انقلاب کی طرف مائل ہیں تو ان کو آپ نظیر سے قریب تر پائیں گے، اگرچہ ایسے شاعروں کی تعداد ابھی تک بہت کم ہے۔
اس سلسلہ میں مجھے ایک شاعر کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا ہے۔ مجھے حیرت تھی کہ احسان دانش کے وہاں ایسی بے لاگ خارجیت کہاں سے آئی، جس کا اردو شاعری میں ان سے پہلے پتہ نہیں چلتا۔ میری حیرت کو خود احسان دانش نے دور کر دیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اگر کسی شاعر کا غور اور شوق سے مطالعہ کیا ہے تو وہ نظیر ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ یہ تفصیلی واقعیت اور یہ اضطراری عمومیت نظیر ہی کی دین ہو سکتی تھی۔ احسان دانش اردو شاعری میں بالکل نئے امکانات کا پتہ د ے رہے ہیں جن کا جائزہ ابھی نہیں لیا گیا ہے اور انہوں نے ہم کو ان امکانات کو کام میں لانے کا ڈھنگ بھی بتا دیا ہے۔ ان کی شاعری اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اردو شاعری کیا ہو سکتی ہے اور آئندہ وہ کیا ہوگی۔ جو شاعری کہ ’باغی کا خواب‘ بیان کرنے کی قدرت رکھتی ہو وہ کیا نہیں ہو سکتی اور کیا نہیں کر سکتی، اگر اس کو ایک تنگ وتاریک قفس سے نکل کر کھلے میدان میں آنے کی اجازت دے دی جائے۔
آخر میں مجھے ان لوگوں سے کچھ کہنا ہے جو اساتذہ کی رائے کی کورانہ تقلید میں نظیر کی شاعری کو مبتذل سمجھتے آئے ہیں۔ جس چیز کو ہم ابتذال بتاتے ہیں وہی نظیر کا فن ہے۔ یہ اصل میں دو عقیدوں اور دو معیاروں کا سوال ہے۔ عام طور سے ہم شاعری کو خواص کی چیز سمجھتے رہے ہیں۔ اس لئے اس کے جتنے اصول و اسالیب مرتب ہوئے وہ خواص کی معاشرت سے ماخوذ کئے گئے۔ نظیر کا عقیدہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ شاعری کو عوام کی زندگی کی چیز سمجھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے جو اسلوب اختیار کیا وہ عوام کی زندگی سے ماخوذ تھا۔ ان کی زندگی اور ان کی شاعری دونوں میں ایسی بہت سی باتیں ملتی ہیں جو مصنوعی مروجہ مذاق اور معیار پر پوری نہیں اترتیں اور جو ایک خاص زاویہ نگاہ سے مبتذل اور سوقیانہ معلوم ہوتی ہیں۔
اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ نظیر کثیر سے کثیر تعداد کی زندگی کو زندگی سمجھتے تھے اور جس چیز کو ہم ابتذال یا سوقیت کہتے ہیں وہ اس کو اس کثیر سے کثیر تعداد کی زندگی کی عام اور لازمی خصوصیت پا رہے تھے۔ اس لئے اس سے احتراز کرنا ان کے خیال میں ایک قسم کی فرعونیت تھی۔ دوسرے نظیر فطرتا ًبے جھپک قسم کے انسان تھے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے ایک یہ بھی اثر ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کا کلام ہے جس کے نفس میں وہ گرہیں یا رکاوٹیں (Inhibitions) بہت کم ہیں جو تہذیب و معاشرت کے خراب نتائج میں سے ہیں۔ ایسا شخص ایسی ہی شاعری کر سکتا تھا اور ایسی شاعری ایسے ہی شخص کے بس کی بات تھی جس کے اندر نفسیاتی حائلات اور مرکبات (Complexes) نہ ہوں۔ اس کو آپ اور جو جی چاہے کہہ لیجئے، لیکن وہ بڑا سچا اور بے نفس انسان ہوتا ہے۔ ریا اور تصنع سے اس کو دور کی بھی کوئی نسبت نہیں ہوتی۔
نظیر کی زندگی اور شاعری دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دل کے اچھے اور سچے آدمی تھے۔ جو جمہوریت اور واقعیت ان کی شاعری کی ممتاز ترین خصوصیت ہے اور جس کو اب تک ابتذال اور سوقیت سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے وہ دراصل سچائی اور بےنفسی ہے۔ یہ سچائی اور بےنفسی بڑی پر اثر اور کارگر قوت ہوتی ہے، خاص کر اس وقت جبکہ انسان اپنے نفس کی بھول بھلیاں میں اس طرح کھوکر رہ گیا ہوکہ اس کادم گھٹ رہا ہو اور اس کو کوئی دوسری قوت باہر نہ لاسکتی ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.