نون۔ میم۔ راشد کو اردو پڑھنے والوں کی اکثریت میرا جی کی طرح نئے ڈھنگ سے نئی اور عجیب باتیں کہنے والے شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے۔ یہ نہیں کہ راشد اور میرا جی میں بہت زیادہ یکسانیت ہو۔ دونوں نظم آزاد کے شاعر ہوتے ہوئے بھی اپنے طرز بیان اور موضوع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں میرا جی کی شاعری زندگی میں عورت کے بہت کم ہونے کا ماتم ہے۔
راشد کی شاعری زندگی میں عورت کے بہت زیادہ ہونے کا بے باک اعلان۔ میرا جی عورت کے تصور سے لذت یا پریشانی حاصل کرتے تھے، راشد عورت کے جسم سے لذت اور کبھی کبھی پریشانی حاصل کرتے ہیں۔ میرا جی اپنی ان الجھنوں اور پریشانیوں کا اظہار پیچیدہ اور غیر مانوس طریقوں سے کرتے تھے راشد جو کچھ کہتے ہیں جرأت اور بے باقی سے کہتے ہیں۔ میرا جی کی شاعری پیار اور لذت سے محروم رہنے والے انسان کا احساس کمتری ہر جگہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ راشد کی شاعری میں جسم خریدنے کی حیثیت رکھنے والے انسان کے غرور اور اعتماد کی جھلک ملتی ہے۔
راشد اور میرا جی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں لیکن عام آدمی کا رویہ انکے متعلق یکساں ہے۔ اسکی یہ وجہ نہیں کہ یہ دونوں نظم آزاد کے شاعر ہیں اور یہ چیز اردو شاعری کے لیے نئی ہے۔ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں شعراء کا رویہ بھی عام آدمی اور اسکی زندگی کے متعلق قریب قریب یقساں ہے۔ انکی شاعری میں عام آدمی کو اپنی زندگی کے دکھ درد، اپنی زندگی کی جدجہد کہ جھلک نہیں ملتی اور جو کچھ ملتا ہے اس سے اس دور میں عام آدمی کے لیے دل چسپی برقرار رکھنا نا ممکن ہو گیا ہے یہ دونوں شاعر عام آدمی سے کسی قسم کا ربط رکھنے کے قائل نہیں۔ انہیں اپنی ذات اور اسکی جنسی اور ذہنی الجھنوں سے فرصت نہیں ملتی۔ اور نون۔ میم۔ راشد اگر کبھی بہ درجۂ مجبوری عوام سے دلچسپی لیتے ہیں تو جیسا کہ ہیاتلاہ انصاری نے “نون۔ میم۔ راشد” پر لکھا ہے کہ “انہیں عوام بھوتوں کی طرح وہشتناک نظر آتے ہے”،
جاگ اے شمع شبستان وصال
آ میرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم
بے پنہ سیل کے مانند رواں
جیسے جنات بیابانوں میں
(دریچے کے قریب)
راشد کی شاعری کا گہرا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عوام سے راشد کا یہ خوف خالص طبقاتی قسم کا ہے، راشد متوسط طبقے کے ان شاعروں میں سے ہیں جو اوپری طبقے کے اقدار پر جان دیتے ہیں جو ذہنی طور پر اپنا رشتہ اوپری طبقے سے جوڑنے کی زندگی بھر کوشش کرتے رہتے ہیں اور اوپری طبقے کے زوال کو اپنا زوال سمجھتے ہیں۔ راشد کا یہ خوف ویسا ہی خوف ہے جیسا کہ کسی مل مالک کو مزدوروں کے مشتعل گروہ کو مل کی طرف بڑھتے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے۔ عوام کے متعلق یہی وہ رویہ ہے جس نے راشد کی شاعری کو عوام میں مقبول ہونے سے روک دیا ہے۔
راشد کی مقبولیت کا زمانہ دوسری جنگ عظیم اسکے چند برس پہلے سے لیکر اسکے خاتمے تک سمجھا جاتا ہے، اس زمانہ میں بھی وہ صرف خاص پڑھے لکھے، انٹیلیکچئل لوگوں میں مقبول ہوئے اور اسکے کئی اسباب ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں نئی ادبی تحریک میں کئی عناصر بری طرح گھل مل گئے تھے ”ادب براے زندگی“ کا نعرہ تو ہر طرف گونجنے لگا تھا لیکن اسکے واضح تصور سے اچھے اچھوں کے ذہن خالی تھے۔ صحتمند اور باشعور تنقید کے فقدان کے باعث اچھے برے ادب میں تمیز کرنا قریب قریب ناممکن ہو گیا تھا۔ ”ماورا“ کے تعارف میں کرشن چندر نے لکھا تھا،
”بظاہر یہ انقلاب کا زمانہ ہے۔ اس دور میں ایشیا کے اکثر حصوں میں صنعتی، ماشی اور سیاسی بیداری پیدا ہو گئی ہے، فرسودہ، گندے نظام کو تباہ کر دینے کی آرزوؤں اور ارادوں کے چرچے ہیں۔۔۔ ہندوستان میں جہاں ملک کے شاندار مستقبل کے خاکے کھینچے جا رہے ہیں وہاں ایک نئے ادب کی بنیاد بھی رکھی جا رہی ہے۔“
نئے ادب کی بنیاد رکھی جا رہی تھی لیکن کن اصولوں اور نظریوں پر اور کن مقاصد کے پیش نظر یہ بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ یہ چیز ذہنی اور عملی دونوں حیثییتوں سے مبہم تھی۔ نئے ادب کی تحریک نے زور پکڑا جدت طرازی، عریاں نگاری، غلط قسم کی حقیقت نگاری اور ترقی پسندی یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے کچھ اس طرح الجھ کر رہ گئیں کہ ان کا الگ کرنا مشکل ہو گیا۔ ایک طرف سے نئے ادب کی مخالفت شروع ہوئی دوسری طرف سے حمایت، مخالفت کرنے والے نسبتاً کمزور تھے انہیں شکست ہوئی، حمایت کرنے والوں میں سرپھرے نوجوانوں کے علاوہ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ، متوسط اور اوپری طبقوں کے انٹیلیکچئل اور بڑی بڑی تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین شامل تھے، ان کی فتح ہوئی اور جو کچھ ان کے قلم سے نکلا ادب کہلایا، بے راہروی کی ایک آندھی آئی اور سارے ادبی ماحول پر چھا گئی شاعری پر اس آندھی کا غبار نسبتاً زیادہ پڑا۔ عورت کے بارے میں کچھ کھلم کھلا لکھنے پر برسوں سے جو پابندی عاید تھی وہ دوسری ادبی روایات کے ساتھ ٹوٹی اور کچھ اس طرح کہ اس وقت کے تمام جدید شعراء نے عورت کو موضوع سخن بنایا، غم دوراں اور انقلاب تک کی باتیں عورتوں کو مخاطب کر کے کہی گئیں۔ میرا جی اور مخمور جالندھری نے گندی نظمیں لکھیں اور فیض احمد فیض جیسے با شعور شاعر نے کہا،
ہاے اس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط
اپنا موضوع سخن اس کے سوا کچھ بھی نہیں
میرا جی نے سمبو لزم (SYMBOLISM) کی تحریک کی آڑ لیکر مہمل نگاری شروع کی، حلقۂ ارباب ذوق کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ لاہور جدید ادبی تحریکوں کا مرکز بنا اور نون۔ میم۔ راشد کو ڈاکٹر ’تاثیر‘ اور ’فیض‘ وغیرہ نے ایشیا کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کر لیا۔
راشد کو میرا جی اور دوسرے جدید شعراء سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اسکے کئی اسباب ہیں اول تو یہ کہ راشد نے اردو شاعری کو نظم آزاد دی۔ یہاں اس سے بحث نہیں کہ اردو کہ سب سے پہلی نظم آزاد کون سی ہے اور کس نے لکھی ہے۔ راشد کا سب سے بڑا کارنامہ تو یہ ہے کہ انہوں نے کئی برس کی محنت اور جانفشانی سے نظم آزاد میں اتنی نغمگی اور روانی پیدا کی کہ اسکو سننے کے بعد سب سے پہلے جو خیال ذہن میں آئے وہ یہ نہ ہو کہ اسکے مصرعے چھوٹے بڑے ہیں۔
راشد وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اردو نظم کو غزل سے علیحدہ کیا، ان کی نظموں کے مصرعے غزل کے مصرعے نہیں، نظم کے مصرعے معلوم ہوتے ہیں۔ جوش کی نظم میں قافیوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اکثر اشعار خیالات قافیوں کی انگلی پکڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ برخلاف اس کے راشد کی نظم میں خیال سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خیال کبھی آہستہ اور کبھی تیز اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے اور اپنے پیچھے قدموں کے نشان کی طرح مصرعے چھوڑتا جاتا ہے۔ جوش کی تکنیک یہ ہے کہ وہ باتیں بیان کر کے (اگر چاہتے ہیں تو) نتیجہ اخذ کرتے ہیں لیکن راشد کی نظموں کی ابتدا اس نتیجہ سے ہوتی ہے جو باتوں پر غور و خوض کرنے کے بعد اخذ کیا جاتا ہے۔ راشد کی نظموں میں بھرتی کے مصرعے بہت کم ملتے ہیں۔ راشد اپنی نظموں میں کم سے کم مصرعوں میں زیادہ سے زیادہ بات کہنے کے عادی ہیں ہر چیز بڑے ادبی ضبط کے بعد حاصل ہوتی ہے، کیونکہ نظم آزاد میں خوبصورت مصرعے آسانی سے کہے جا سکتے ہیں، اور ان خوبصورت (بھرتی کے) مصرعوں کو نظم میں نہ شامل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس سلسلے میں راشد آج بھی جبکہ نظم آزاد اردو شاعری کا ایک اہم جزء بن چکی ہے اپنے فن میں یکتا ہیں۔ سردار جعفری تک کے یہاں جو اس وقت نظم آزاد کے سب سے بڑے کامیاب شاعر ہیں بھرتی کے مصرعہ بہت ملتے ہیں وہ کم بات کو زیادہ سے زیادہ مصرعوں میں کہنے کے عادی ہیں جو فنی اعتبار سے ٹھیک نہیں۔
مندرجہ بالا خصوصیات کے علاوہ وہ چیز جس نے راشد کو خواص میں مقبولیت دینے میں سب سے زیادہ حصہ لیا ہے وہ ہے ان کی شاعری کی نئی فضا، نیا ماحول۔ راشد کی شاعری میں جو فضا جو ماحول ملتا ہے وہ اردو شاعری کے لیے بالکل نیا ہے اور انکی شاعری کو پسند کرنے والوں کو زندگی کے حقائق سے فرار کرنے کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت اور رنگین ماحول کسی اور شاعر کی نظموں میں نہیں ملتا بال روم، شراب خانے، خلوت گاہیں، مہکتے ہوئے شبستاں، قالین، سیج اور ہر جگہ اپنی مرضی کے مطابق کھیلتے رہنے کے لیے جوان عورت کا جسم، ان چیزوں کی مدد سے راشد اپنی شاعری میں ایک طلسمی فضا قائم کرتے ہیں جو فراریت پسند ذہن انسانی کو بڑی جلدی اسیر کر لیتی ہے۔ مثلاً راشد کی نظموں کے یہ حصے،
چاند کی کرنوں کا بے پایاں فسوں پھیلا ہوا
اور میرے پہلو میں تو
تیرے سینہ کے سمنزاروں میں اٹھیں لرزیشیں
میرے انگاروں کو لینے کے لیے
اپنی نکہت اپنی مستی مجھ کو دینے کے لیے
(ایک رات)
قہوہ خانے کی شبستانوں کی خلوت گاہ میں
آج کی شب تیرا وجدانہ ورود
عشق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب
(آنکھوں کے جال)
تیرے بستر پہ میری جان کبھی
بیکراں رات کے سناٹے میں
ضربۂ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضاء مدہوش
(بیکراں رات کے سناٹے میں)
اک شبستاں۔۔۔
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج
(انتیقام)
ان حصوں کے مطالعے سے راشد اور انکو پسند کرنے والوں کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔ راشد کی کامیاب نظمیں وحی ہیں جن میں راشد نے عورت کو سامنے بٹھلا کر بات کی ہے۔ یہ ان کا نہایت ہی فیوریٹ طریقہ ہے، اور وہ لذت لے لے کر ایک ایک مصرعہ نظم کرتے ہیں۔
ان کی اس ٹیکنک سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ عورتیں جن سے وہ اکثر اپنی نظموں میں باتیں کرتے ہیں کس طرح کی ہیں۔ وہ خود کبھی نہیں بولتیں، خاموش رہتی ہیں عیاش انٹیلیکچوئل کے ذہن سے نکلتا ہے سنتی رہتی ہیں۔
رخصت، خواب کی بستی، رفعت، طلسم جاوداں، ہونٹوں کا لمس، اتفاقات، ایک رات، سپاہی، زوال، اظہار، آنکھوں کے جال، عہد وفا، شاعر درماندہ، دریچے کے قریب، رقص، بیکراں، رات کے سناٹے میں، انتقام اور بعد کی چند نظموں کو ایک ساتھ رکھ کر مطالعہ کرنے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ عورت جو چپ چاپ ان کی خواہشات کا کھلونا بنتی نظر آتی ہیں طوائف کے علاوہ اور کوئی نہیں۔
اس طوائف کے متعلق ان کا رویہ ہمدردانہ نہیں ہے، کیونکہ دراصل ان کا موضوع طوائف نہیں بلکہ خود ان کی ذات ہے۔ اور چونکہ ان کی ذات کا طوائف سے نہایت ہی گہرا تعلق ہے اسی لیے اسکی الجھنوں کے تذکرے کے وقت وہ طوائف کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان سب نظموں کے پیچھے ایک عیاش انٹیلیکچوئل کا ذہن کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔
راشد کی شاعری میں ہر غم سے فرار کا طریقہ عیاشی ہے۔ ان کے نزدیک جسمانی لذت ہر شیئ سے اہم ہے لیکن وہ کبھی کبھار ذہنی عیاشی کے بھی قائل ہیں۔ کبھی کبھار انہیں شبستانوں میں پڑے پڑے مشرق کے افلاس اور ہندوستان کی غلامی کا احساس ستاتا ہے وہ وطن کو آزاد کرانے کے لیے محبوبہ (طوائف) سے رخصت ہوتے ہیں۔ لیکن جب سمجھ میں نہیں آتا تو ایک انگریز طوائف کے ساتھ رات بسر کرنے کے بعد متمئن ہو جاتے ہیں کہ “وطن کی بے بسی کا انتیقام لے لیا۔” ایک اییسی عورت کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کو جو خود اس نظام کا شکار تھی جس نے ہندوستان کو اپنے آہنی پنجوں میں جکڑ رکھا تھا انتقام لینے سے تعبیر کرنا راشد کے ذہنی افلاس کی بہت واضح مثال ہے۔
راشد کی تمام نظموں کو ایک ساتھ پڑھنے کے بعد انکے مجموعی تأثر سے یہ بات بالکل ظاہر ہو جاتی ہے کہ راشد عہد حاضر کی مشکلات کو سمجھنے سے کتراتے ہیں کہیں کہیں ان کی شاعری میں بورجوا انسان دوستی کی جھلک ملتی ہے۔ لیکن وہ جھلک بھی نہایت دھندھلی اور مبہم ہے، اور کہیں کہیں تو انکی یہ انسانیت دوستی جاگیردارانہ ہوس پرستی اور خاطر خواہ جسمانی لذت کی کمی کے احساس سے ابھرتی ہے۔ طوائف کے بارے میں ان کے دو مصرعوں کا اقتباس مضامین میں اکثر پیش کیا جاتا ہے،
تیری مژگاں کے تلے گہرے خیال
بے بسی کی نیند میں الجھے ہوئے
ان مصرعوں سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ راشد کو اس طوائف سے بڑی ہمدردی ہے جس کو انہوں نے رات بھر کے لیے خریدا ہے۔ لیکن یہ چیز ٹھیک نہیں۔ راشد کی شاعری سے راشد کے جس موڈ کا پتہ چلتا ہے اسکی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ راشد کو یہ ہمدردی اس طوائف سے نہیں بلکہ اپنی تفریح سے ہے وہ سوچتے ہیں کہ طوائف کی مژگاں تلے یہ گہرے خیال پریشان کرنے کے لیے نہ ہوتے تو وہ زیادہ لذت حاصل کر سکتے اور بس۔ دراصل یہ مصرعے اس اکتاہٹ سے پیدا ہوئے ہیں جو ہر رات عورت خریدنے والے آدمی کو کسی کسی وقت خاص عورت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس اکتاہٹ کے احساس کو ہمدردی یا انسان دوستی کہنا ایسا ہی ہے جیسے راشد کو ایشیا کا سب سے بڑا شاعر سمجھنا۔
”ماورا“ تک راشد کی شاعری ایک اییسے شاعر کی شاعری ہے جو زندگی کی حقیقتوں سے فرار کرنے کے لیے شراب پیتا ہے، عورتیں خریدتا ہے، شبستان آباد کرتا ہے اور راتیں اییشمستی میں بسر کرنے کے بعد دریچے کے قریب کھڑے ہوکر عوام کو دیکھتا ہے اور خائف ہوکر پردے کے پیچھے آ جاتا ہے اس طرح کی شاعری اس وقت جو کچھ بھی مقبول ہوئی ہوگی، جب ادب کی نئی قدریں واضح نہ ہوئی تھیں، ادب اور زندگی کے گہرے تعلقات کا کوئی واضح تصور ذہنوں میں نہ تھا (ورنہ کرشن چندر راشد کی کتاب کا تارف لکھ کر خواہم خواہ انکی کمزوریوں کو ڈفینڈ نہ کرتے۔) دوسری جنگ عظیم کے بعد جب یہ چیزیں واضح ہوئیں تو راشد کی شاعری کا بت بھی حقائق کی ضرب سے ٹوٹا۔ ترقی پسند ادب کی تحریک نے زور پکڑا اور راشد ماضی کی چیز بن کر رہ گئے۔
راشد کی شاعری اس ادبی حقیقت کی نہایت ہی واضح مثال ہے کہ کوئی شاعر انداز بیان کی دل کشی ہی کے بل بوتے پر زیادہ دن تک زندہ نہیں رہ سکتا، عظیم ادبی تخلیق کی بنیاد ٹھوس اور آزمائے ہوئے نظریات پر ہوتی ہے۔ اسکے پیچھے ایک ایسے سوچنے سمجھنے والے ذہن کی طاقت کا ظاہر ہونا ضروری ہے جو وقت کے تقاضوں کو ادبی حیثیت سے پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جس ادبی تخلیق کو یہ مضبوط بنیاد نہیں ملتی اسکی مثال اپنی تمام فنی دل کشی کے باوجود ریت پر بنائے ہوئے محل کی سی ہوتی ہے۔ راشد نے ریت پر ایک محل بنایا تھا، اسے ہوائیں لے اڑیں۔
طویل خاموشی کے بعد راشد نے پھر لکھنا شروع کیا ہے، دیکھیں کیا لکھتے ہیں،
قطعات
سجی سجائی سی زلفوں کو دیکھنے والے
اے گرد رہ سے اٹے بکھرے بکھرے بال بھی دیکھ
سفید چاند کی کرنوں سے کھیلنے والے
سیاہ رات کے یہ گھٹتے بڑھتے جال بھی دیکھ
قمقمے جلتے ہوئے دیکھ کر ایوانوں میں
میری پلکوں پے ستارے سے بکھر جاتے ہیں
جانے کیوں میرے تخیل کی نگاہوں میں ندیم
جھونپڑے تیرہ و تاریک ابھر آتے ہیں
(ساتھی اعظمی)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.