ناول، حقیقت نگاری اور غالب
یہ درست ہے کہ اردو میں ناول کی داغ بیل ڈپٹی نذیر احمد نے ڈالی اور مختصر افسانے کے باوا آدم منشی پریم چند ہیں۔ پھر بھی میرا یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ نئے اردو فکشن کی تاریخ غالب سے شروع ہونی چاہئے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ادب میں غالب کی ذات ایک دوراہا ہے۔ شاعری کی ایک روایت یہاں آکر تکمیل حاصل کرتی ہے اور اختتام پذیر ہوتی ہے۔ فکشن کی ایک روایت یہاں سے اپنا آغاز کرتی ہے۔ گویا غالب قدیم شاعری کا حرف آخر اور نئے فکشن کا حرف آغاز ہے۔ اول الذکر پر نقادوں کا بالعموم اتفاق ہے۔ موخرالذکر بات میں غالب کے خطوط کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہنے کی جسارت کرتا ہوں۔
غالبؔ کے خطوط اب تک محققوں اور نقادوں کی زد میں رہے ہیں۔ محققوں نے ان خطوط کے سلسلہ میں موشگافیاں بہت کیں۔ نقادوں نے زبان وبیان کی خوبیاں بہت بیان کیں، کچھ اس قسم کی کہ غالب نے مراسلہ نگاری میں ایک نیا ڈھنگ نکالا، القاب اور آداب کے تکلفات ختم کئے اور بات کو سادگی سے کہنے کی رسم ڈالی یا یہ کہ اردو نثر کو تکلف وتصنع سے پاک کیا اور سلیس وسادہ نثر کی بنا ڈالی۔ ان بزرگوں نے کبھی اس نثر کی روح تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی یا اس نثر نے کبھی انہیں اپنی روح تک رسائی نہیں کرنے دی اور کبھی ان بزرگوں نے یہ تردد نہیں کیا کہ آخر غالب خیروعافیت کے مضمون کے سوا جو مضمون باندھتا تھا وہ کس شے کی غمازی کرتے ہیں۔ ایسے مضمون باندھ کر غالب نے کیا کرنے کی کوشش کی تھی۔
سلیس وسادہ نثر تو سرسید احمد خاں بھی لکھ رہے تھے بلکہ سرسید احمد خاں کی نثر غالب کی نثر سے شاید زیادہ ہی سلیس وسادہ ہے۔ اس لئے جو چیز غالب کی نثر کو انفرادیت اور امتیاز بخشتی ہے وہ سلاست وسادگی نہیں کچھ اور ہے۔ یہ کچھ اور کیا ہے جو غالب کی نثر کو ایک طرف داستانوں کی نثر سے اور دوسری طرف سرسید احمد خاں کی نئی نثر سے الگ کرتا ہے۔ معاف کیجئے غالب کا ایک شعر بہت غلط سمجھا گیا ہے۔ شعر یہ ہے،
بقدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لئے
اس کا مطلب بالعموم یہ سمجھا گیا کہ غالب شعر کے میدان میں کسی ایسی فارم کے متلاشی تھے جہاں انہیں بیان کی وسعت میسر آ سکتی مگر اردو شاعری میں خالی غزل تو نہیں تھی اور اصناف بھی تھیں۔ غالبؔ نے ان اصناف کو کیوں نہیں آزمایا۔ مثنوی لکھتے اور میر حسن بن جاتے۔ رزمیہ لکھتے اور فردوسی بن جاتے۔ اصل میں غالب کو جو تجربہ پریشان کر رہا تھا وہ اپنے بیان کے لئے وسعت شاعری میں نہیں کہیں اور مانگ رہا تھا۔ وہ تجربہ اپنے اظہار کے لئے کسی شعری صنف کا نہیں بلکہ کسی نثری صنف کا متقاضی تھا۔ غالب کے اس تجربہ کو اگر ہم سمجھ لیں تو پھر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ سکتی ہے کہ غالب کو اپنے بیان کے لئے جس وسعت کی تلاش تھی وہ انہیں ناول ہی میں میسر آ سکتی تھی۔ مگر ناول کی صنف اردو میں ہنوز ایک نادریافت علاقہ تھی۔
بیان کے لئے وسعت تو داستان میں بھی میسر آ سکتی ہے اور غالب کو داستانوں سے اچھی خاصی دلچسپی بھی تھی مگر غالب کا تجربہ اور قسم کا تھا۔ غالب کے لئے وہ تہذیب ایک تجربہ بن گئی تھی جس کا نقطہ عروج دلی شہر تھا۔ یہ شہر اپنے گلی کوچوں، اپنے بازاروں، اپنی حویلیوں اور اپنی خلقت کے ساتھ غالب پر ایک تخلیقی تجربے کی صورت وارد ہوا تھا۔ وہ اسے اسی طور بیان کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے عہد کی تہذیب اور معاشرت کا استعارہ بن جاتے۔ داستان میں ہم عصر زندگی کو بیان کرنے کی کوئی روایت نہیں تھی۔ ناول کی صنف اس بیان کی متحمل ہو سکتی ہے۔
شہر کے حوالے سے معاشرتی ناول لکھنے کی روایت اب ہمارے لئے جانی بوجھی چیز ہے۔ مگر اس وقت تک بیان کا یہ علاقہ دریافت نہیں ہوا تھا۔ اس علاقے کو اس زمانے میں آگے پیچھے دو شخصوں نے دریافت کرنے کی کوشش کی۔ ایک غالب نے ایک اور ایک سرشار نے۔ سرشار کے لئے لکھنؤ اپنے تہذیبی رنگ وبو کے ساتھ ایک تخلیقی تجربہ بنا۔ اس شخص نے اس تجربے کے زور سے داستان کی روایت سے نکل کر معاشرتی ناول کی طرف پیش قدمی کی۔ مگر فسانہ آزاد بیچ ہی میں رہ گیا۔ غالب دلی کے حوالے سے جو معاشرتی ناول لکھنا چاہتے تھے، وہ اس صنف کے نظروں سے اوجھل ہونے کی وجہ سے خطوط کی صورت میں بکھر گیا۔ ان خطوط کو پڑھئے اور دیکھئے کہ ان میں ایک پورے معاشرتی ناول کی بساط بچھی ہوئی ہے۔
ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ غالب کے لئے دلی شہر ایک بھرپور تخلیقی تجربہ اس وقت بنتا ہے جب وہ ایک سانحہ کی زد میں آکر برباد ہونے لگتا ہے۔ ان خطوط میں غارت زدہ شہر کی تصویر زیادہ بھرپور ہے۔ اس تصویر کے پس منظر میں وہ شہر اپنی جھلک دکھا رہا ہے، جب وہاں امی جمی تھی اور جب وہ شاداب تہذیب کی علامت تھا۔ سرشارؔ نے آباد لکھنؤ کو بہت جذبے سے بیان کیا ہے۔ غالب نے برباد دلی کو بہت درد کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ایک کو آباد گلی کوچے رجھاتے ہیں۔ دوسرے کو برباد محلے رلاتے ہیں۔
اس ذیل میں یہ واقعہ بھی پیش نظر رہے تو اچھا ہے کہ ۱۸۵۷ء کے واقعہ کے ساتھ غالب کی اردو شاعری کا دور تمام ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ اس معرکہ میں جہاں مجاہدین آزادی شہید ہوئے وہاں شاعر غالب بھی شہادت پا گیا۔ ہمارے زمانے کے نقادوں نے سن ستاون کو غالب کی شاعری میں تلاش کرنے کی بہت کوشش کی اور کچھ غزلوں میں یہ مضمون اپنی طرف سے ڈھونڈ بھی نکالا، مگریہ غزلیں اس واقعہ سے بہت پہلے کی تھیں۔ اصل میں نقاد غالب کے یہاں اس تجربے کو غلط جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔ اس واقعہ کے ساتھ ساتھ شاعر گزر چکا تھا اور نثرنگار پیدا ہو چکا تھا۔ یوں سمجھئے کہ تجربے کی نوعیت ہی بدل گئی تھی۔ اب غالب کا تخیل اس سطح پر سفر نہیں کر سکتا تھا کہ، کاش کہ پرے ہوتا عرش سے مکاں اپنا۔
اب فرش اپنی بربادیوں کے ساتھ اس کے لئے تجربہ بن رہا تھا اور یہ تجربہ ایک نئے اظہار کا تقاضا کر رہا تھا۔ اس اظہار نے شاعری سے ہٹ کر نثر کی وضع لی۔
اس پس منظر میں یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ غالب کی نثر سرسید احمد کی نئی نثر اور داستان کی پرانی نثر دونوں سے کیوں مختلف ہے۔ سرسید احمد خاں کو کسی تہذیب کا تجربہ پریشان نہیں کر رہا تھا، مسائل پریشان کر رہے تھے۔ وہ عقل اور استدلال کے میدان کے آدمی تھے۔ نئی صورت حال میں انہوں نے اپنے حساب سے ایک نثرکا علاقہ دریافت کیا اور استدلالی نثر کی روایت کی بنیاد رکھی۔ غالب کو مسائل نہیں ایک تجربہ پریشان کر رہا تھا۔ اس تجربے کے بیان نے نثر کو تخلیقی نثر بنا دیا۔ داستانوں کی نثر بھی تخلیقی نثر کے ذیل میں آتی ہے مگر وہاں تجربے کی نوعیت مختلف ہے۔ اس تجربے نے تخیلاتی نثر کو جنم دیا۔ غالب کی نثر حقیقت نگاری کے اسلوب میں ہے اور اردو میں نئے فکشن کی روایت نے غلط یا صحیح اسی اسلوب سے آغاز کیا۔ اس لئے میں نے عرض کیا کہ نئے اردو فکشن کی تاریخ غالب سے شروع ہوتی ہے اور اس نثر نے جو آگے چل کر اردو ناول اور افسانے میں پھلی پھولی، غالب کے خطوط میں اپنا اولین اظہار کیا۔
کہنے کو تو میں نے یہ بات کہہ دی کہ غالب کی نثر حقیقت نگاری کے اسلوب میں ہے مگر اب میں سوچ رہا ہوں کہ میں کہیں اس کوشش میں تو نہیں ہوں کہ غالب کو کسی طرح سرخاب کا پر لگ جائے اور وہ اس مخلوق کے لئے قابل قبول بن جائے، جو حقیقت نگاری کو ادب اور آرٹ کا واحد سرمہ بصیرت سمجھتے ہیں مگر غالب کو پہلے ہی سرخاب کے بہت سے پر لگ چکے ہیں۔ مجھے کیا پڑی ہے کہ میں اپنی طر ف سے اس میں کوئی سرخاب کا پر لگاؤں اور اب حقیقت نگاری شاید سرخاب کا پر ہے بھی نہیں۔ ایک وقت تھا کہ قدیم اساتذہ فن بالعموم یہ کہہ کر رد کئے جاتے تھے کہ انہیں اپنے عہد کی سماجی حقیقتوں کا شعور نہیں تھا اور ان اساتذہ کے وکلا کھینچ تان کر کے ان کے یہاں سے حقیقت نگاری نکالتے اور انہیں قابل قبول بنانے کے جتن کرتے۔
مگر اب وہ وقت آیا ہے کہ بورس شوخوف صاحب نے حقیقت نگاری کی بحث میں دوستو وفسکی کو بھی حقیقت نگار مان لیا اور پرانے قصے کہانیوں میں بھی انہیں حقیقت کی جھلک نظر آنے لگی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب فنکار اپنی دانست میں حقائق کی دنیا سے باہر نکل جاتا ہے، تب بھی وہ دراصل حقائق کی دنیا ہی میں رہتا ہے۔ وہ اس کے سوا کچھ نہیں کرتا کہ جس کل کو ہم حقیقت کہتے ہیں، اس کے اجزا کو نئے سرے سے ترتیب دے کر ایک نئی شکل میں پیش کرتا ہے۔ داستانوں میں جو دیو پری اور ان دیکھی نرالی مخلوقات نظر آتی ہیں، ان کو بھی شوخوف صاحب نے حقیقت کے دائرے سے نہیں نکلنے دیا اور کہہ دیا کہ لکھنے والا یہاں صرف اتنا کرتا ہے کہ واقعی مخلوقات میں جو اجزا و عناصر نظر آتے ہیں انہیں مبالغہ آمیز شکل دے دیتا ہے، ان کی ترتیب بدل دیتا ہے، ان کے نئے اور نرالے مرکب بناتا ہے۔
اس کے بعد ہمارے لئے کتنی سہولت ہو گئی ہے کہ ہم اپنے سارے داستانی ادب کو حقیقت نگاری کا ادب ثابت کر دیں۔ ویسے بھی ان داستانوں میں جابجا ایسے مقام آتے ہیں جو آج کے کسی بھی حقیقت نگار افسانہ نگار کے مقابلے میں ہم عصر زندگی کی زیادہ مؤثر تصویر پیش کرتے ہیں۔ مگر میں اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ یہ داستانی ادب کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہوگا۔ یہی ہوگا ناکہ حیدر بخش حیدری اور نہال چند لاہوری بہتر کو الٹی کے منشی پریم چند بن جائیں گے۔
داستانوں میں توحقیقت کا تصور الگ تھا۔ اس حقیقت کے ادراک کا اسلوب الگ تھا۔ داستانوں میں حقیقت نگاری کا تصور بنیادی طور پر اسی تصورِ حقیقت سے مختلف ہے جو حقیقت نگاری کی اصطلاح میں کارفرما نظر آتا ہے۔ داستانوں میں آدمی دیکھی اور ان دیکھی حقیقتوں کے درمیان سانس لے رہا ہے۔ سماجی عمل کے ساتھ ساتھ اس سے ماورا ایک عمل جاری ہے کہ اس کے بننے بگڑنے میں اپنا کرشمہ دکھا رہا ہے۔ سوا س صورت میں شوخوف صاحب کی دی ہوئی مراعات داستان کے کام نہیں آ سکتی۔ ہاں غالب کا معاملہ مختلف تھا۔ اس کا احساس کئی کئی سطحوں پر سفر کرنا جانتا تھا۔ وہ بلندیوں میں پرواز کرتا تھا اور زمین پر چل سکتا تھا۔ شاعری میں اس کے احساس کی مار اس سطح پر تھی۔
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
خطوط میں تمنا اپنے پہلے قدم میں ہے۔ گلیاں، محلے، حویلیاں، کنویں، موسم، لوگ باگ یعنی سماجی عمل اپنی تفصیلات کے ساتھ اور متحرک تصویروں کی صورت میں، مگریہاں اس قسم کی کوئی اپج نہیں آتی جس قسم کی IMAGES اس کی شاعری میں آتی ہیں۔ نہ شاعرانہ امیجیز، نہ شاعرانہ بیان۔ یہ کام تو غالب اس وقت کرتا جب سامنے کی چیزں پر قابل مشاہدہ حقیقت پر، اس کی گرفت ڈھیلی ہوتی۔ یہ کام اس نے بعد میں آنے والے حقیقت نگار افسانہ نگاروں کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ جب حقیقت نگاری کے اسلوب میں لکھنے والے کی گرفت چیزوں اور سماجی حقیقتوں پر ڈھیلی ہوتی ہے تو وہ شاعری اور رقیق القلبی سے کھانچے بھرتا ہے اور جب تجریدی اور علامتی اسلوب میں لکھنے والے کی گرفت اپنے تجربے پر ڈھیلی ہوتی ہے تو وہ انٹلیکچول بیانات سے خانہ پری کرتا ہے۔ ہمارے اردو کے حقیقت نگار افسانے اور علامتی افسانہ دونوں میں ایسے کھانچے بہت نظر آتے ہیں، جو اسی طرح پر ہوئے ہیں۔
میں نے ابھی غالب کے ساتھ ساتھ سرشار کا ذکر کیا تھا۔ شاعرانہ بیانات سرشار کے یہاں بھی نظر نہیں آئیں گے اور منشی پریم چند کو بھی اس سہارے کی چنداں ضرورت نہیں تھی کہ جس معاشرتی حقیقت کو وہ شخص بیان کر رہا تھا، اس پر وہ گرفت بھی رکھتا تھا۔ اس سہارے کی ضرورت تو ان حقیقت نگار افسانہ نگاروں کو پیش آتی تھی جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے سائے میں لکھنا شروع کیا تھا۔ بس یہیں سے اردو میں حقیقت نگاری کے اسلوب کا زوال شروع ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.