پاکستانی ادب وہ ادب ہے جو پاکستان کے بارے میں ہو۔ اس حساب سے بہترین ادب پاکستانی گائیڈ ہے۔ ایک دوسر ی بات اور کہی جا سکتی ہے۔ پاکستانی ادب وہ ہے جو پاکستان میں لکھا جائے۔ اس تعریف کی رو سے پاکستان میں جو ادب لکھا جا رہا ہے پاکستانی ہے اور اس پر بحث و مباحثے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی ادب وہ ہے جو ان زبانوں میں لکھا جا رہا ہے جو پاکستان میں بولی جاتی ہیں تو یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ یہ زبانیں ہندوستان میں بھی بولی جاتی ہیں۔ آخر میں ایک بات رہ جاتی ہے، پاکستانی ادب وہ ہے جو مسلمانوں کی روایت کے مطابق ہو لیکن اس میں یہ دقت ہے کہ مسلمان تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں۔ غرض کہ کوئی ایسی کلید نہیں ملتی جس سے پاکستانی ادب کے مسئلے کو کھولا جا سکے اور ہندوستان میں پیدا ہونے والے ادب کے مقابلے پر اس کی انفرادیت کو ثابت کیا جا سکے۔
پھر ہندوستانی ادب تو ایک مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ بھی دکھانا ہے کہ پاکستانی ادب دنیا کی اور قوموں کے ادب سے کس طرح مختلف ہے اور خود دنیائے اسلام میں پیدا ہونے والے ادب کے مقابلے پر اس کی کیا انفرادیت ہے؟
ادب کسی قوم کے مخصوص طرز احساس کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ طرز احساس خدا، کائنات اور انسانوں کے بارے میں اس قوم کے اجتماعی تجربات اور رویوں سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں بنیادی طور پر یہ طرز احساس مشترک ہے۔ وہ ایک ایسے خدا پر یقین رکھتے ہیں جو ایک طرف کائنات سے ماورا ہے اور دوسری طرف کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی صفات کا ظہور ہے۔ وہ ایک طرف عرش پر مستوی ہے، دوسری طرف قلب انسان میں سمایا ہوا ہے اور ہماری شہ رگ سے زیادہ ہمارے قریب ہے۔ کائنات کے بارے میں مسلمانوں کا طرز احسا س یہ ہے کہ یہ ایک مسلم کائنات ہے جس کے ذرے اور ستارے، شجر اور حجر سب کے سب احکام خداوندی کے پابند ہیں اور زبان حال سے اپنے خالق کی تسبیح و تمجید میں مصروف ہیں اور ہر لمحہ اس کے حضور میں سربہ سجود ہیں۔
اس کائنات کو خدا نے انسان کے لیے مسخر کیا ہے اور اس کی ہر چیز کو اپنی معرفت کی ایک نشانی بتایا ہے۔ اس لیے کائنات کے حقائق پر غوروتفحص مسلمانوں کا فرض ہے۔ اس کے ذریعے مسلمان خدا کی لامحدود صفات کا علم حاصل کرتا ہے۔ یہ کائنات چوں کہ انسانوں کے لیے مسخر کی گئی ہے اس لیے انسان کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائے۔ انسانوں کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے انہیں ایک نفس واحد سے پیدا کیا ہے۔ اس لیے نوع انسانی ایک وحدت ہے جسے رنگ ونسل، خون اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ امتیازات صرف شناخت کے لیے ہیں۔ انسانوں میں واحد امتیاز صرف عقیدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ جو لوگ خدا کی وحدانیت، کائنات کی حقیقت اور نوع انسانی کی وحدت کے قائل ہیں، وہ ایک طرف ہیں اور جو انہیں نہیں مانتے وہ دوسری طرف ہیں۔ اس امتیاز کے علاوہ انسانوں میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔
انسان کا ایک تعلق جہاں دوسرے انسانوں سے ہے وہاں خود اپنے نفس سے بھی ہے۔ اسلام کی رو سے نفس انسانی کے بھی کچھ حقوق ہیں اوران کا پورا کرنا اسلامی شریعت کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔ نفس کے ذریعے انسان دنیا سے وابستہ ہے اور ترک دنیا کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں کا یہ مجموعی طرز احساس مسلمانوں کے ادب میں بھی اپنا اظہار کرتا ہے اور اسلامی ادب کی انفرادیت اسی سے پیدا ہوتی ہے۔
لیکن مجموعی طور پر مسلمانوں کا طرز احساس ایک ہونے کے باوجود قوموں کے لحاظ سے اس طرز احساس کی مختلف شکلیں ہیں۔ عربی، ایرانی، ترکی اور ہندی مسلمانوں کا طرز احساس بنیادی طور پر ایک ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف بھی ہے۔ اس اختلاف سے ان کے ادب کا اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ ہم اگر ان قوموں کے ادب کی روح کو سمجھناچاہتے ہیں تو ہمیں اس وحدت اور اختلاف دونوں کو جاننا پڑےگا۔
پاکستان پہلے ہندوستان کا حصہ تھا اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ ایک ہزار سال پر محیط ہے۔ ایک ہزار سال میں یہاں کے مسلمانوں نے جو عربی، ایرانی، ترکی اور مقامی باشندوں پر مشتمل تھے، اپنی ایک تہذیب پیدا کی اور اپنا ایک مخصوص اور منفرد طرز احساس پیدا کرکے دکھایا۔ یہ طرز احساس ہندی مسلمانوں کی تہذیب کے جملہ مظاہر میں جاری و ساری ہے اور اسے ایک ایسی انفرادیت بخشتا ہے جو اسے دوسری مسلمان قوموں کی تہذیبوں سے مختلف بناتی ہے۔ پاکستانی ادب کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس طرز احساس کو جاننا ضروری ہے۔
ہندی مسلمانوں کی تہذیب اور اس کے مخصوص طرز احساس کامطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ شعروادب میں اب تک یہ بات پوری طرح نہیں سمجھی جاتی کہ ہندی مسلمانوں کے شعروادب کس طرح دوسری مسلمان قوموں کے شعروادب سے مختلف ہیں۔ مثال کے طور پر ایک غزل ہی کے مسئلے کو لیجئے۔ اردو غزل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فارسی غزل کی نقالی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس غزل کے پیچھے جو طرز احساس کام کر رہا ہے وہ عجمی طرز احساس کی نقل ہے۔ یہ خیال اتنا عام ہے کہ اس کی تردید آسان نہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس تہذیب نے فن تعمیر میں ’’تاج محل‘‘ اور موسیقی میں ’’امیر خسرو‘‘ کو پیدا کیا، وہ شعروادب میں صرف نقال کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ خیال اتنا عام ہوا کہ اس کے نتیجے کے طور پر لوگوں نے اردو شعروادب پر یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ اس نے ہندوستان کی زمین میں اگنے کے باوجود ہندوستان سے کچھ حاصل نہیں کیا۔
ان سب خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو شعر وادب کے پیچھے کوئی حقیقی تجربہ نہیں ہے اور طرز احساس کے اعتبار سے یہ صرف ایک بناوٹی چیز ہے۔ یہ اعتراضات طرح طرح کی موشگافیوں کے ساتھ آپ کوتمام درسی کتابوں میں مل جائیں گے لیکن ہمارے نزدیک یہ خیالات جتنے مشہور ہیں اس سے زیادہ غلط ہیں۔ ہندی مسلمانوں کا اپنا ایک اجتماعی تجربہ اور اجتماعی طرز احساس ہے او ر وہ شعروادب کے پیچھے بھی اسی طرح کام کر رہا ہے جس طرح ان کی تہذیب کے دوسرے مظاہر میں۔ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم اس کی تفصیلات کو اس مختصر سے مضمون میں بیان کر سکیں۔ تاہم چند اشارے ضرور کیے جا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ہم اردو شعروادب کی مرکزی روایت کا تعین کریں اور اسے غزل کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اردو غزل کے زمین وآسمان فارسی غزل کے زمین وآسمان سے قطعی مختلف ہیں اور اس کے مجموعی رویے، طرز اظہار، اسالیب اور لب ولہجہ فارسی غزل سے مختلف ہے۔ میں نے محمد حسن عسکری کے زیر اثر اپنے مضمون میں میر کی غزل اور حافظ کی غزل کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں تہذیبوں کے طرز احساس کے فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی اور انشاء للہ تفصیل سے اس پر کسی اور وقت بات کروں گا۔ لیکن یہاں اشارتاً کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم صرف اس بات پر غور کریں کہ فارسی غزل میں جو بلند آہنگی پائی جاتی ہے وہ اردو غزل میں کیوں نہیں ملتی تو شاید بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں آ سکتی ہیں۔
فارسی غزل کی بلند آہنگی جذبے کے مکمل اثبات سے پیدا ہوتی ہے۔ فارسی غزل جذبے کو انسانی وجود کے دوسرے مطالبات سے الگ کر لیتی ہے اور جذبے کو اپنی جگہ مکمل سمجھتی ہے۔ جبکہ اردو غزل جذبے کودوسرے انسانی مطالبات کے ساتھ ملاکر دیکھتی ہے۔ بالخصوص ان مطالبات کو جنہیں ہم انسانی کمزوریاں سمجھتے ہیں۔ فارسی غزل اور اردو غزل میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ انسانی مجبوریوں اور کمزوریوں کی طرف فارسی غزل کا رویہ تحقیر کا ہے جبکہ اردو غزل ان کا احترام کرتی ہے۔ دونوں کا مجموعی رویہ کچھ اس قسم کا ہے۔ حافظ کہتے ہیں،
گدائے میکدہ ام لیک وقت مستی بیں
کہ ناز بر فلک و حکم برستارہ کنم
اس کے مقابلے میں میر کا انداز یہ ہے،
جگر کاوی، ناکامی، دنیا ہے آخر
نہیں آئے گر میر، کچھ کام ہوگا
فارسی غزل میں انسانی کمزوریوں اور مجبوریوں کی طرف تحقیر کا جو رویہ پایا جاتا ہے وہ اردو میں عجمی روایت کے سب سے بڑے شاعر غالب کے یہاں کیا بن گیا ہے، اگر صرف اس کا مطالعہ ہی صحیح بنیادوں پر کیا جائے تو بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ ہمارے نزدیک اردو غزل کی مرکزی روایت میں خدا، کائنات اور انسانوں کے بارے میں ایک بالکل نیا طرز احساس ملتا ہے جو مسلمانوں کے شعروادب میں ایک منفرد چیز ہے۔ تعجب ہے کہ مسلمانوں کو اس کااحساس نہیں ہے لیکن ایک ہندو (فراق) کو اتنا شدید احساس ہے کہ ان کی ساری زندگی مسلمانوں کے طرز احساس سے لڑنے ہی میں گزر گئی۔
ہمیں اگر پاکستانی ادب کو سمجھنا ہے تو ہندی مسلمانوں کے مخصوص طرز احساس کو سمجھنا ہماری اولین ذمہ داری ہے کیونکہ پاکستان اسی تہذیبی روایت کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا ہے جو برصغیر میں مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے سمجھ کر ہی ہم اپنے تاریخی سفر میں آگے بڑھ سکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں پہلے پاکستان کی روح کو سمجھنا پڑےگا اور پھراس کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کی طرف بڑھنا ہوگا۔
پاکستان کی روح کیا ہے؟ اسے ہم برصغیر میں ہندی مسلمانوں کے مرکزی طرز احساس اور برصغیر میں ان کے بنیادی اجتماعی مسائل اور تجربات کو سمجھے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔ برصغیر میں مسلمان ایک فاتح قوم کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے۔ چند ابتدائی تجربات کے بعد انہوں نے اسے اپنا وطن بنا لیا اور اس کے ساتھ ہی ایک بنیادی مسئلہ سے دوچار ہو گئے۔ برصغیر کی اکثریت غیرمسلموں پر مشتمل تھی اور سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی بقا اور استحکام کے لیے غیرمسلم اکثریت کی طرف کیا رویہ اختیار کیا جائے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی پوری فکری اور ذہنی تاریخ اسی سوال کے اردگرد گھومتی ہے اور ان کے مجموعی رویے اسی مسئلے کے حل سے پیدا ہوتے ہیں۔
مسئلہ یہ تھا کہ یا تو برصغیر کی اکثریت کو مسلمان بنا لیا جائے، یا دونوں کے درمیان ایسے مشترک عناصر دریافت کئے جائیں جس سے مفاہمت ویگانگت کی راہ نکل سکے۔ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ تبلیغی نقطہ نظر سے برصغیر میں مسلمانوں کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ صوفیائے کرام کی کوشش کا نتیجہ تھی۔ حضرت داتا گنج بخش، خواجہ معین الدین اجمیری، حضرت نظام الدین اولیا اور صوفیہ کے متعدد سلسلے پورے برصغیر میں اسلام کی تبلیغ کی کوششوں میں جتنے کامیاب ہوئے اتنی کامیابی کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں ہوئی۔ اب صوفیہ کرام کے بنیادی رویے کا جائزہ لیا جائے تو اس میں وحدت الوجودی فکرکا غالب حصہ نظر آتا ہے۔ یہ فکر جن انسانی رویوں کو پیدا کرتی ہے، اس کے بغیر اس کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو صوفیہ کو حاصل ہوئی لیکن دوسر ی طرف خود برصغیر کی غالب اکثریت کا مسئلہ بھی یہی تھا کہ وہ مسلمانوں کی غالب قوت سے کیامعاملہ کرے اوران کے سامنے بھی دوہی راستے تھے۔ یا تو دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے اندر جذب کر لیں یا پھر اشتراک اور مفاہمت کا کوئی راستہ نکالیں۔
اب ان کی طرف سے بھی یہ دونوں کوششیں شروع ہوئیں۔ برصغیر میں مسلمانوں اور غیرمسلم اکثریت کی اس بنیادی کشمکش کو سمجھ کر ہی ہم نہ صرف مسلمانوں کے تہذیبی، فکری اور معاشرتی رویوں کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ سیاسی مسائل کو سمجھنے کی کلید بھی ہمارے ہاتھ آ سکتی ہے۔ اب اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں اور
غیرمسلم ا کثریت کے درمیان عمل اور ردعمل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس میں کبھی ایک عنصر غالب آنے لگتا کبھی دوسرا۔ صوفیہ وحدت الوجود کی طرح غیر مسلم اکثریت کے پاس بھی ایک فکر موجودتھی جو وحدت الوجود فکر سے مفاہمت کر سکتی تھی۔ میرا اشارہ ویدانتی فکر کی طرف ہے۔ ان دنوں کے اشتراک سے بھگتی تحریک پیدا ہوئی اور رام اور رحیم کی وحد ت کا تصور پیدا ہونے لگا۔
اشتراک اور مفاہمت کے نقطہ نظر سے یہ ایک کامیاب تحریک تھی لیکن اشتراک اور مفاہمت کے رویوں میں جب کبھی غیرمسلم اکثریتی پلڑا بھاری ہوا، مسلمانوں میں اس کے ردعمل کی صورتیں پیدا ہوئیں، مثلاً یہ اشتراک چونکہ ویدانتی فکر اور وحدت الوجود کے ذریعے عمل میں آ رہا تھا، اس لیے اس کے جواب میں وحدت الشہودی فکر کا ردعمل غالب ہوا۔ سیاسی میدان میں اکبر اور داراشکوہ کے رویے خاص طور پر قابل غور ہیں۔ اکبر کے رویوں میں ہندو عناصر کا رویہ بہت بڑھ گیا تھا۔ شاہجہاں تک اس نے دوبارہ توازن حاصل کر لیا۔ داراشکوہ نے اکبر کے مقابلے میں زیادہ فکری رویوں کا اظہار کیا اور مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اشتراک کی زیادہ گہری بنیاد رکھی۔
’’مجمع البحرین‘‘ کے دیباچے میں اس نے صاف لکھا ہے کہ یہ کتاب مغلیہ خانوادے کی ہدایت کے لیے ہے اور دارا شکوہ کو یقین تھا کہ اس کے ذریعے مسلمانوں اور غیرمسلم اکثریت کا مسئلہ زیادہ آسانی اور استحکام کے ساتھ حل ہو سکےگا۔ اورنگ زیب کے رویوں میں مسلمانوں کا ردعمل زیادہ شدید ہو جاتا ہے۔ بعد میں اس ردعمل کا بھی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
معاشرت اور سیاست کے محاذوں پر یہ کشمکش جن رویوں کا اظہار کر رہی تھی وہ شعر ادب کے رویوں کو بھی متعین کر رہے تھے۔ امیر خسرو، فیضی، ملک محمد جائسی، ولی، میر، درد، غالب کی شاعری میں اس کشمکش اور اس فکری رویے کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ اقبال کے ’’جاوید نامہ‘‘ میں بھی دیکھئے تو گوتم، بھرتری ہری اور خدا دوست کے کردار مسئلے کی مرکزی صورت کی طرف اشارہ کرتے نظرآتے ہیں۔ سیاست میں بھی یہ رویے جس طرح سرسید تحریک، تحریک خلافت، مجلس احرار، خاکسار تحریک، مسلم لیگ اور نیشنلسٹ مسلمانوں کے طرز عمل اور طرز فکر میں ظاہرہوئے ہیں، ان سب کا مطالعہ ہمیں بتا سکےگا کہ پاکستان کا مطالبہ کس لیے مسلمانوں کی اجتماعی آواز بن گیا۔ یہ مطالبہ دراصل اس کشمکش کے آخری حل کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔ پاکستان کا مطلب تھا غیرمسلم اکثریت کے مسئلے سے ہمیشہ کے لیے نجات۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک ہزار سال سے جس کشمکش میں مبتلا تھے، حصول پاکستان سے اس کا خاتمہ ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اس مخصوص طرز احساس کی بھی آخری منزل آ گئی جو ہندی مسلمانوں کی انفرادیت کو پیدا کر رہا تھا۔ کیونکہ یہ طرز احساس بنیادی طور پر ہندوستانی تہذیب کی روح سے مسلمانوں کے تصادم یا ملاپ ہی سے وجود میں آیا تھا۔ تصادم اور ملاپ کے الفاظ میں نے خاص طور پر استعمال کیے ہیں کیونکہ ان کے تعلق میں یہ دونوں باتیں شامل تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد جو مسلمان ہندوستان میں رہ گئے ہیں، ان میں یہ طرز احساس اسی حد تک زندہ رہ سکےگا جس حد تک وہ اپنی تہذیبی روح کی حفاظت کر سکیں گے۔ ورنہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ ہندو اکثریت میں جذب ہو جائیں یا کم از کم شکست خوردہ ہوکر اپنی انفرادیت چھوڑ دیں۔ یہ بڑ ا ہول ناک تصور ہے لیکن یہ ایک ایسا خطرہ جس سے آنکھیں چراکر بات نہیں کی جا سکتی۔ البتہ پاکستان میں اب ایک نیا طرز احساس پیدا ہوگا۔ اس میں کچھ عناصر تو پرانے طرز احساس کے ہوں گے اور باقی نئے حالات کے مطابق نئے عناصر کے تال میل سے بنیں گے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے اگر میں کہوں کہ اب ہماری تہذیب میں کسی امیر خسرو کی پیدائش نہیں ہو سکےگی یہاں تک کہ حالی اور اقبال کے رویے بھی شاید باقی نہ رہ سکیں تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ سب اپنے اختلافات کے باوجود ہندی مسلمانوں کے اسی طرز احساس کی پیداوار تھے جس کی بنیاد کے خاتمے کا ہم تجزیہ کر چکے ہیں۔
اب ہم ایک کھلے ہوئے مستقبل کی طرف بڑھیں گے جس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا قبل ازوقت بھی ہے اور ناممکن بھی۔ تاہم میں اس ضمن میں ایک سب سے بڑے خطرے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ خطرہ اتنا حقیقی ہے کہ اس سے نہ صرف اس بات کا امکان ہے کہ ہم مستقبل میں نیا پاکستانی تشخص نہ پیدا کر سکیں بلکہ یہ امکان بھی ہے کہ جس تشخص کو ہم نے ہندو اکثریت کے مقابلے پر قائم رکھا، اسے بھی برقرار نہ رکھ سکیں۔ میرا اشارہ مغربی تہذیب کے خطرے کی طرف ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے ہم چند داخلی اسباب کی بناپر جن کا تجزیہ میں پھر کسی اور وقت کروں گا، مغربی تہذیب کی طرف اتنی تیزی سے نہیں بڑھ رہے تھے جتنے پاکستان بننے کے بعد بڑھ رہے ہیں۔ یہ تہذیب ہماری جڑوں میں اثرونفوذ کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ہماری اندرونی مزاحمت ختم ہوکر رہ گئ ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہزاروں سالہ طرز احساس کے خاتمے یا کمزوری سے جو خلا پیدا ہوا گا، کیا اس میں ہم کوئی طرز احساس پیدا کر سکیں گے جو ہمیں ا س یلغار سے بچالے اور جس کے ذریعے ہم اپنا کوئی نیا تشخص پیدا کر لیں۔ پاکستانی ادب کا مقصد اسی نئے طرز احساس اور نئے تشخص کا مسئلہ ہے۔ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف ہم ماضی کے طرز احساس سے کٹ گئے ہیں یا رفتہ رفتہ کٹ رہے ہیں۔ دوسری طرف نیا طرز احساس نئی بنیادوں کی تلاش کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا۔ لوٹ پھر کر اسلام کی طرف نظر جاتی ہے۔ لیکن تہذیبی معاملات میں مجرد اسلام کے کوئی معنی نہیں۔ یہاں تو یہ دیکھا جائےگا کہ اسلام داخلی اور خارجی طور پر ہمارے اندر اور باہر وہ کون سی نئی شکلیں پیدا کرتا ہے جو ماضی سے مختلف ہوں۔
پاکستان کا تہذیبی بحران اسی مسئلے کا پیدا کردہ ہے اور جب تک اس بحران سے کوئی معین صورت تشکیل پذیر نہ ہو، پاکستانی ادب کا پیدا ہونا بھی ناممکن ہے۔ اس کے بغیر یا تو ہم ماضی کے طرز احساس کو دہراتے رہیں گے اور پھر کچھ دنوں کے بعد ہمارے لیے ناممکن ہو جائےگا۔ یا پھر ہم اپنا تشخص مکمل طور پر کھوکر ایک ایسی قوم بن جائیں گے جو کسی مغربی قوم کی بے روح نقل ہو۔ ہمارا موجودہ شعروادب اسی خطرے کی غمازی کرتا ہے۔
مجھے احساس ہے کہ اس بحث میں بہت سی باتیں تفصیلی گفتگو چاہتی ہیں اور جگہ جگہ وضاحتوں کی ضرورت ہے لیکن میں نے یہ مضمون صرف ابتدائی بات چیت کے لیے لکھا ہے۔ اگر کچھ لوگوں کو اس سے دلچسپی ہوئی اور اس پر غوروفکر کی کسی تحریک کا اظہار ہوا تو انشاء اللہ آئندہ اس پر بہت کچھ لکھا جا سکےگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.