قدریں، ان کی ماہیت اور ارتقاء
اکثر غیرمرئی (abstract) الفاظ کی طرح لفظ قدر (Value) بھی عموماً نہایت مبہم اور مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔ قدر کو زیادہ تر ایک معاشی تخیل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن معاشیات میں اس لفظ کے معنوں کو واضح کرنے کے لیے اس کے ساتھ لفظ قیمت کابھی اضافہ کردیاجاتا ہے۔ مثلاً دن بھر کی مزدوری یا روٹی کی قیمت سے ہماری مراد عام طور پر یا تو کسی انسانی حاجت کی مقدارِ تشفی ہوتی ہے۔ یا وہ اضافی تخمینہ جوکسی نہ کسی صورت میں کوئی انسانی جماعت اس مقدارکا مقرر کرتی ہے۔ اخلاقی معنوں میں بھی یہ لفظ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حسن، صداقت وغیرہ قدر بالذات ہیں اور طاقت، علم وغیرہ قدر بالواسطہ۔ لیکن حقیقتاً لفظ قدر ان کے علاوہ اور بھی بہت سے معنوں میں مستعمل ہے۔ ہمارے اکثر فیصلوں کا بنیادی عنصر کسی چیز کی قدر معلوم کرنا یا کم از کم اس کا اندازہ لگانا ہوتا ہے۔ اور ہم کسی چیز کو اچھی یا بری، خوبصورت یا بدصورت۔ خیر یا شر۔ کارآمد یا بیکار۔ دلچسپ یا غیردلچسپ۔ مفید یا غیرمفید۔ صائب یا غیرصائب صرف اس کی قدر کا اندازہ لگانے کے بعد کہہ سکتے ہیں۔ اور اس کاتعلق اس کی اخلاقی قدر یا معاشی قیمت سے ہونا ضروری نہیں۔ ایک نظم یا ایک تصویر باوجود اخلاقی طور پر غیرموثر ہونے کے اچھی یا بری ہوسکتی ہے۔ قوس قزح، نمودِ صبح، چاندنی رات اخلاقی قدر اور اقتصادی قیمت سے بے نیاز ہونے کے باوجود خوبصورت ہیں۔ اچھی اور بری۔ یہ الفاظ تو اس قدر عام ہیں کہ ہم ہر اس چیز کو اچھی کہتے ہیں جس میں کسی قسم کی کوئی بھی قدر موجود ہو اور اگر اس میں وہ قدر موجود نہیں ہے تو وہ ہمارے نقطۂ نظر سے بری ہے۔ اچھا مکان۔ اچھا موسم۔ اچھی کرسی۔ اچھا میچ۔ اچھا دوست۔ اچھا شہر۔ اچھی کتاب وغیرہ وغیرہ روزمرہ کے مستعمل الفاظ ہیں۔ حالانکہ مندرجہ بالا تمام چیزوں میں جس قدر کو ہم نے بنیاد بناکر اسے اچھا کہا ہے۔ وہ لفظ قدر ہر موقع پر بالکل مختلف معنوں میں استعمال ہواہے۔ اگر ہم لفظ قدر پر غور کریں تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ لفظ مندرجہ ذیل معنوں میں استعمال ہوتاہے (۱) معاشی (۲) اخلاقی (۳) مذہبی (۴) فنی (۵) تمدنی (۶) ذہنی (۷) جسمانی اور (۸) تفریحی۔
تعریف
بہرحال ہم لفظ قدر کو مندرجہ بالا کسی بھی معنی میں استعمال کریں۔ اس کا ایک مفہوم ہمیشہ اس کے ساتھ منسلک رہتا ہے۔ جسے ہم لفظ ’’معیار‘‘ سے ادا کرسکتے ہیں۔ ہم کسی چیز کو گراں قدر صرف اسی وقت کہہ سکتے ہیں جب وہ ایک خاص معیار کے مطابق ہو۔ اگر وہ اس متعین معیار کے مطابق نہیں تو وہ ہماری نظر میں بے وقعت ہوتی ہے۔ جس قدر وہ معیار کے مطابق ہوگی۔ اتنی ہی زیادہ گراں قدر ہوگی۔ اور جس قدر کم ہوگی اتنی ہی کم وقعت۔
اقسام
قدر کی دو مختلف قسمیں ہیں۔ قدر بالذات (intrinsic value) اور قدر بالواسطہ (extrinsic value) ۔ اگر کوئی قدر بذاتِ خود باوقعت ہے اور اس کاحصول خود ایک مقصد تو اسے ہم قدر بالذات کہتے ہیں۔ مثلاً یینتھم اور مل کے نطقۂ نظر سے مسرت قدر بالذات ہے۔ کانٹ کے زاویہ نگاہ سے نیک ارادہ، افلاطون کی نگاہ میں صداقت، حسن اور خیر۔ گرین کے خیال میں تکمیلِ نفس۔ ہیگل کے نقطہ نظر سے فلسفہ اور فن۔ سقراط کی نظروں میں علم اور اقبال کے لیے خودی اور عشق۔ قدربالذات کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ وہ چیز یا صفت یا تصور خود اپنی ذاتی قدر کے لحاظ سے حامل قدر ہے۔ اس کے برخلاف شیکسپیئر ہیملٹ کی زبان سے یہ الفاظ ادا کراتا ہے ’’نہ کوئی چیز خیر ہے اور نہ شر صرف سوچ بچار اسے ایسا بنادیتی ہے‘‘ ۔ برکلے اور دوسرے عینیت پسند مفکرین بھی قدر بالذات بلکہ دنیا کی ہر حقیقت کے لیے کسی موضوع اور نفس کی موجودگی لازمی اور ضروری سمجھتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ اس کی موجودگی ضروری خیال کرتے ہیں بلکہ قدر بالذات کی موجودگی اس کی اپنی موجودگی اور نقطہ نظر کی موجودگی پر منحصر ہے۔ اگر کوئی موضوع اور نفس موجود نہ ہو۔ تو قدربالذات کی موجودگی کا سوال ہی باقی نہیں رہتا۔ موجودہ مفکرین کی زبردست اکثریت پہلی رائے سے متفق ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس میں کافی شک و شبہ کی گنجائش ہے کہ اگر کوئی ہستی کسی قدر کے متعلق سوچنے، محسوس کرنے اور اس پر عمل کرنے والی نہ ہو تو اس قدر کو دوسری قدروں سے بہتر کہا جاسکے۔ کسی چیز یا صفت یا تصور کو دوسری قدروں سے بہتر ماننے یا اسے صرف قدر ماننے کے لیے یہ داخلی پہلو ازحد ضروری ہے۔ کہ کوئی ایسی ہستی بھی موجود ہو جو اس میں کشش محسوس کرے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ قدر کے قدر ہونے کی وجہ یہ داخلی پہلو ہے۔ حسن ایک قدر ہے اور قدر رہے گا۔ چاہے اس سے محظوظ ہونے والا کوئی ہو یا نہ ہو۔ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا علم حاصل کرنے کے لیے کسی ہستی کے داخلی پہلو کی ضرورت ہوتی ہے۔ نہ کہ اس کی موجودگی کے لیے۔ یہاں ایک اور بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ حقیقتاً قدر بنیادی صفت ہے نہ کہ اس کی کشش۔ ہم اگر کسی چیز میں کشش محسوس کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بذاتِ خود قدر ہے۔ یا اس میں قدر موجود ہے۔ نہ کہ وہ قدر اس وجہ سے بن جاتی ہے کہ ہم اس کی طرف کشش محسوس کرتے ہیں۔ کولرج کے الفاظ میں ’’اپالوبیلوڈیر اس وجہ سے حسین نہیں ہے کہ ہم اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ بلکہ ہم اس سے محظوظ اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ وہ حسین ہے۔‘‘
یہاں ایک خاص غلطی سے انتباہ ضروری ہے۔ ہم جب کسی قدر کو حاصل کرلیتے ہیں تو اس کا حصول موجبِ لذت و مسرت ہوتا ہے۔ اس سے یہ دھوکا ہوسکتا ہے کہ کسی شے یا صفت کے قدر ہونے کا دارومدار اس لذت پر ہے جو اس کے حصول کے بعد ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ یہی وہ عالمگیر غلطی ہے جس میں ارسیٹپس سے لے کر موجودہ لذتیت پسند مفکرین تک گرفتار رہے ہیں۔ اگرچہ ہر قدر لذت بخش ضرور ہوتی ہے۔ اور اگر کوئی قدر لذت بخش نہ ہو تو وہ قدر ہی نہیں ہوسکتی۔ لیکن ہم اس قدر کو اس لذت و مسرت کی بنا پر قدر نہیں کہتے۔ جو اس سے حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ کوئی شے یا صفت بذاتِ خود یا کسی اور مقصد کی بناپر قدر ہوتی ہے۔ اور احساسِ لذت اسے قدر جاننے کی محض ایک علامت اور اس کا ذہنی پہلو ہے۔
اب ہم قدر بالذات کے متعلق اہم ترین مسئلہ پر آتے ہیں اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ قدر بالذات کی وقوع پذیری اور موجودگی کی ذمہ داری کس چیز پر ہے؟ ماحول۔ شخصیت یا عاقبت پرستی پر۔
مختلف مذاہب نے عموماً عاقبت پرستی پر زور دے کر ان چیزوں کو قدر مانا ہے۔ جو حیات بعد الممات کو بہتر بنانے میں مدد دیں۔ مثلاً عبادت۔ فاقہ۔ جذب و مستی۔ نفس کشی۔ لیکن یہ تمام قدریں (اگر انہیں قدریں کہا جاسکتا ہے) حقیقتاً قدر بالذات نہیں بلکہ قدر بالواسطہ ہیں۔ اگرچہ مذاہب نے ان چیزوں کو قدر بالواسطہ نہیں بلکہ قدر بالذات بھی مانا ہے۔ لیکن اس نظریہ کو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض عینیت پرستوں نے قدربالذات کا ماخذ شخصیتوں کو مانا ہے۔ اقبال بھی بعض مرتبہ اس نظریے کے بہت قریب آجاتے ہیں :
غلامی کیا ہے؟ ذوقِ حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا!
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا!
وہی ہے صاحبِ امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندرسے نکالا گوہر فردا!
ان مفکرین کے خیال میں زبردست شخصیتیں ہمیں قدر بالذات سے روشناس کراتی ہیں۔ اور صرف وہی قدریں قدر بالذات ہیں۔ جن کی تائید کوئی زبردست شخصیت کرے۔ لیکن آخر ان قدروں کو قدربالذات کہنے کی وجہ؟ کوئی بھی شخصیت چاہے وہ کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہو۔ اپنے ماحول سے علیحدہ رہ کر کسی بھی زمانہ پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ ہمارے لیے کسی بھی شخصیت کے ماورائی معیار قابل قبول نہیں ہوسکتے۔ ان کی قبولیت کی شرطِ اول یہ ہے کہ وہ اس ماحول کی مضبوط اور گہری بنیادوں پر استوار کی گئی ہوں۔ تو کیا قدروں کی ذمہ داری ماحول پر ہے؟ اگر ہم تاریخِ عالم پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ماحول ہی قدر بالذات کو پیدا کرتا، پرورش کرتا، پروان چڑھاتا اور باقی رکھتا ہے۔ قدر بالذات کی وقعت سے انسانوں کو روشناس کراتا ہے۔ بلکہ یہاں تک کہاجاسکتا ہے کہ قدر بالذات میں جو کشش ہوتی ہے اس کی موجودگی کا اصل سبب بھی یہی ماحول ہوتا ہے۔ جیسے جیسے ماحول اپنے اندرونی تضاد کو مٹاتے ہوئے ارتقائی منازل طے کرتاجاتا ہے۔ ان قدروں کا مفہوم بھی زیادہ عمیق اور وسیع ہوتا جاتا ہے۔ اور جب ماحول کی تبدیلی ارتقائی اصول پر نہیں بلکہ انقلابی اصول پر ہوتی ہے تو نیا ماحول پرانی قدروں کومٹاکر نئی قدریں پیدا کردیتا ہے۔
اب آئیے ذرا ماحول اور قدر بالذات کے مسئلے پر کچھ گفتگو کریں۔ کیونکہ اصل میں مسئلہ یہی ہے استخزاجی مفکرین تو اسے ایک بے بنیاد مفروضہ قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ قدر بالذات ماحول اور انسانی تجربہ سے ماورا ہے۔ نہ وہ کبھی تبدیل ہوسکتی ہے اور نہ اسے کوئی تبدیل کرسکتاہے۔ اس کی موجودگی کا علم ہمیں استخراجی طور پر ہوتا ہے نہ کہ استقرائی طریقہ سے۔ وہ وقت اور جگہ کی قیود سے آزاد ہے۔ زمانہ اس پر کبھی اور کسی صورت میں بھی اثر انداز نہیں ہوسکتا۔
ماحول کی تبدیلی قدروں کو تبدیل نہیں کرتی۔ ان کی تبدیلی کی وجہ ذرائع پیداوار میں تبدیلی، سائنس کی ترقی، مذہبی تصورات کی تبدیلی، ارتقا، تمدنی اور سیاسی حالات کا تغیر و تبدل، علم و ادب کی ترقی وغیرہ وغیرہ نہیں۔ کیونکہ وہ تو تبدیل ہو ہی نہیں سکتیں۔ خود ماحول کی بنیادیں ان قدروں پر استوار ہیں۔ ان مفکرین کے زاویہ نگاہ سے اگر یہ ابدی قدریں ہی تبدیل ہوجائیں تو سماج کا ختم ہوجانا لازمی امر ہے۔ اس لیے ان کے تبدیل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چاہے انہیں کوئی مانے یا نہ مانے۔ بہرحال وہ موجود ہیں اور رہیں گی۔
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
تند و سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
عینیت پرستوں کا نظریہ
سقراط وہ پہلا بڑا مفکر ہے جو اخلاق کی بنیاد عالمگیر اور کبھی تبدیل نہ ہونے والی قدروں پر رکھتا ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے کہ اگر اس کا یہ نظریہ صحیح ہے تو پھر اس کی کیا وجہ ہے کہ دو مختلف والدین اور اساتذہ اپنے احکام ا مر و نہی میں ایک دوسرے سے متفق نہیں مختلف سوسائٹیوں کے قوانین مختلف ہیں۔ ایک ہی سوسائٹی طرزِ حکومت اور وقت کی تبدیلی کے ساتھ اپنے قوانین بھی تبدیل کردیتی ہے۔ تو جواب دیتاہے کہ ’’جوہر اخلاق (قدریں) تو ان احکام اور قوانین کا اصل سبب جاننے میں مضمر ہے۔ اس معیار کے معلوم کرنے میں پوشیدہ ہے جو انہیں مبنی برانصاف بناتا ہے‘‘ افلاطون اپنے استاد سے بھی ایک قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ استاد تو کم از کم سوچنے سمجھنے کا حق سب کو عطا کرتاہے۔ لیکن شاگرد تو یہ حق صرف ایک یا چند مفکر شاہوں کو دیتا ہے جنہیں قدرت کی طرف سے یہ صلاحیت ملی ہے کہ وہ اس سبب اور معیار کو معلوم کرسکیں۔ اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے۔ ان کا فرض تو مفکرین کے احکام پرایمان بالغیب لاکر ان پر عمل کرنا ہے۔ وہ زندگی کی روزمرہ مشغولیتوں اور اخلاقی معیار کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کو دو مختلف چیزیں بتاتا ہے۔ اور پہلی (قدر بالواسطہ) کی بنیادتجربہ پر رکھ کر اس میں تبدیلی کا قائل ہے۔ لیکن دوسری (قدر بالذات) کو استخراجی مان کر اسے ابدی ازلی اور مستقل حقیقت بنادیتا ہے جس میں تبدیلی ممکن ہی نہیں۔ کانٹ اور بٹلر بھی افلاطون کے نقشِ قدم پر چل کر عقلِ عملی اور ضمیر کے ذریعہ قدر بالذات کو ابدی اور کبھی تبدیل نہ ہونے والی قدریں مانتے ہیں۔ اقبال بھی علم اور وجدان اور علم اور عشق میں حدِواصل قائم کرکے مقامِ شبیری اور اندازِ کوفی و شامی میں فرق پیدا کرتے ہیں۔
بہرحال آخر ان مفکرین کے لیے وہ کون سی حقیقتیں ہیں جو قدر بالذات ہیں اور جنہیں یہ عینی اور استخراجی مفکرین وقت اور جگہ کی دسترس سے دور سمجھتے ہیں۔ اور اس قدر دور کہ وہ نہ کبھی کسی طوفان سے آشنا ہوسکتی ہیں اور نہ انہیں قائم رہنے کے لیے ماحول پر اپنی بنیادیں استوار کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ سقراط کے لیے وہ قدر علم ہے۔ افلاطون کے لیے حسن۔ صداقت اور خیر۔ کانٹ کے خیال میں نیک ارادہ، اقبال کے لیے عشق اور خودی۔ اور اسی طرح دوسرے عینی مفکرین کے واسطے مختلف غیرمرئی تصورات۔ لیکن غالباً کانٹ کے نیک ارادہ کے علاوہ ان میں اور کوئی بھی ایسا تصور نہیں جس کی منطقی طریقہ سے واضح اور غیرمبہم تعریف کی جاسکے۔
حسن جسے تقریباً سب سے زیادہ عینی مفکرین نے قدر بالذات مانا ہے۔ ابہام میں سب سے بڑھا ہوا تصور ہے۔ افلاطون سمپوزیم، میں حسن کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے ’’حسنِ کامل۔ منفرد۔ سادہ اور غیرفانی ہے۔ جو خود نہ بڑھتا ہے اور نہ ہی گھٹتا ہے۔ اور دنیا کی تمام چیزوں کو جن کی خوبصورتی بڑھتی یا گھٹتی رہتی ہے۔ عطا کیا گیا ہے‘‘ ۔ ایک اور جگہ وہ حسن کو ماورائے ادراک جوہر بتاتا ہے۔ جو صرف غایت انبساط کی حالت میں تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ فلاطینوس کہتا ہے ’’اس عقل میں شرکت کی بنا پر جس کا منبع ذاتِ خداوندی ہے۔ اجسام حسین بن جاتے ہیں‘‘ ۔ ہیگل مابعدالطبیعاتی انداز سے حسن کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے۔ ’’فنی حسن وہ حسن ہے جو محض نفس یا روح ہی سے پیدا نہیں ہوجاتا۔ بلکہ وہ خود اپنے آپ کو بھی بار بار جنم دیتا رہتا ہے۔ فن کامقصد صداقت کو حسیاتی طریقہ سے ظاہر کرنا اور ہمارے سامنے حسیات اور عقل کے تضاد کی مصالحت کو پیش کرنا ہوتا ہے‘‘ ۔ کزن مذہبی طریقہ سے حسن کی تعریف کرتا ہے ’’چونکہ ہم خدا کو تمام چیزوں کااصلِ اصول مان چکے ہیں۔ اس لیے وہ کامل حسن کا بھی اصل اصول ہے۔ حسن کااصل دوطریقوں سے ہے۔ اول بطور جسمانی خالق کے اور دوم بطور ذہنی اور اخلاقی دنیا کے باپ کے۔ صرف ذاتِ خداوندی میں حسنِ کامل اور خیر کل یکجا پائے جاسکتے ہیں‘‘ ۔ بریڈلے کے لیے حسن لامتناہیت کا پر تو ہے۔ جی۔ فیٹائل اسے روحِ تخیل قرار دیتا ہے۔ رسکن کے الفاظ میں ’’حسن کائنات کے تخلیقی جذبہ کااظہار ہے‘‘ سقراط اور برکلے کے خیال میں افادیت۔ موزونیت اور مناسبت حسن کے اجزا ہیں۔ ارسطو اور کانٹ تناسب ہم آہنگی اور ترتیب پر زور دیتے ہیں۔ شلر۔ الیگزنڈر اور لینگ فیلڈ اجزا میں تناسب اور کل میں اتحاد کو حسن سمجھتے ہیں۔ لوثر ے اور رسکن مسرت کو حسن کا جزو اعلیٰ خیال کرتے ہیں۔ نطشے اور اقبال کے خیال میں طاقت حسن کا بنیادی عنصر ہے۔ تصورِ حسن کی طرح ان عینی مفکرین کے دوسرے پیش کردہ تصورات بھی کم و بیش اسی طرح مبہم ہیں۔ ان تمام تصورات میں ایک چیز ضرور مشترک ہے۔ اور وہ ہے ابدیت۔ ازلیت اور ماورائیت۔ اور اس کی اصل وجہ ان تصورات کا صرف ابہام ہے۔
اگر ہم ان تصورات کا ذرا بھی تجزیہ کریں تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ قدریں ہماری مادی دنیا سے اس قدر دور نہیں جس قدر انہیں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان مفکرین نے انہیں حقیقی زندگی سے بالکل غیرمتعلق کرکے ماحول۔ انسانی جدوجہد۔ وقت اور مقام سے بالکل آزاد کردیا۔ اور یہ نہ سوچا کہ اس طرح وہ تصورات خوبصورت ہونے کے باوجود بے معنی الفاظ بن کر رہ جائیں گے۔ جونہی ہم ان تصورات کو بامعنی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ماحول۔ وقت۔ مقام وغیرہ سے اثرپذیر ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ جب تک ان کاتعلق ماحول سے نہ ہو۔ وہ با معنی بن ہی نہیں سکتے۔ اور اگر ان کا تعلق ماحول۔ وقت اورمقام سے ہوگا۔ تو لازمی طور پر ان کے معنی بھی وقت اور ماحول کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہیں گے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ بھی یہ کہنے لگیں کہ:
زمانہ ایک، حیات ایک کائنات بھی ایک دلیلِ کم نظری قصہ جدید و قدیم
غرض بلاخوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ماحول قدریں پیدا کرتا ہے۔ اور یہ قدریں زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ تاریخ ہمارے اس نظریے کی کہاں تک تائید کرتی ہے۔
بنی اسرائیل
تاریخِ عالم میں ہماری نظر سب سے پہلے جس زمانے پر جاتی ہے وہ بنی اسرائیل کا زمانہ ہے۔ اس زمانے اور ماحول پر نظر رکھیے اور دیکھیے کہ جن چیزوں کو بنی اسرائیل قدر مانتے تھے۔ وہ کس طرح اور کس حدتک ماحول کے مطابق تھیں۔ مادی مشکلات اور فراعنہ کے ظلم و ستم نے ان کی زندگی وبالِ جان بنارکھی تھی۔ اس لیے ان کے واسطے سب سے بڑی قدر زندگی تھی۔ لیکن سماجی زندگی نہیں بلکہ انفرادی زندگی ’’میں نے تمہارے سامنے موت اور زندگی دونوں پیش کردی ہیں۔ جونسی چیز چاہو منتخب کرلو‘‘ ان کے واسطے زندگی کے ماپنے کا پیمانہ خوشحالی اور مادی ضروریات کی فراہمی تھا۔ وہ زندگی کو پیمانۂ امروز و فردا سے ناپتے تھے۔ اور چونکہ اس قوم کو خدا کے مخصوص بندے کہہ کر ایک مرکز پر جمع کیا گیا تھا۔ اس لیے اس کے لیے دوسری زبردست قدر خدا اور اپنے بادشاہ کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا تھا۔ کسی انسان کا مالدار ہونا اس کے اخلاقی طور پر بہتر ہونے کا زبردست ثبوت سمجھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ خدا اس سے خوش ہے۔ خیر و شر کو مال و دولت سے ناپاجاتاتھا۔ مقصدِ زندگی خوش حالی اور طویل زندگی تھا۔ ذہنی اور جمالیاتی قدروں کا کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ اگر ہم ایک قوم کے اندر طبقاتی کشمکش کو پیش نظر رکھیں۔ تو یہ چیز صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایک طرف زندگی اور وہ بھی مادی زندگی اور دوسری طرف خوفِ خدا۔ اطاعتِ امیر۔ تسلیم و توکل۔ صبر و شکر کو کس طرح ایک ہی قوم قدریں مان سکتی ہے۔ آخر انفرادی حقوق کی کیوں اس قدر حفاظت کی گئی کہ چوری اور زناکو تاریخِ عالم میں غالباً پہلی مرتبہ اخلاقی۔ روحانی اور معاشرتی جرم قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ دیا گیا کہ اگر کوئی شخص اپنے نوکر کو جان سے مار ڈالے تو اس کے بدلے میں آقا کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ غلام اس کا مال ہے۔ یا اگر کوئی آقا اپنے نوکر کو اتنا مارے کہ اس کا دانت ٹوٹ جائے یا آنکھ جاتی رہے تو اس کی سزا آقا کو صرف یہ دی جائے کہ وہ نوکر کو آزاد کردے (توریت اخراج ۲۱/۱۶۔ ۲۷) شاہی خاندان کی عظمت و تقدس کو یہ کہہ کر بچایا گیا کہ ’’عدل و مساوات کے نام سے شہزادوں کی بے حرمتی کرنا ٹھیک نہیں‘‘ (امثال ۱۷/۲۶)
ہندوستان
اسی قسم کے ماحول کا ردِّعمل ہندوستان میں دیکھیے۔ کیا آپ اسے صرف اتفاق یا حادثہ کہہ سکتے ہیں کہ آریوں نے شمالی ہند کو فتح کرلیا ہے۔ مفتوح قوم کے اکثر افراد جنوبی ہند میں پناہ ڈھونڈھ رہے ہیں۔ اور باقی شودر کے نام سے غلام بنالیے گئے ہیں۔ منو قوانین بناتے ہیں اور صاف صاف کہہ دیا جاتا ہے ’’ایک شودر کو چاہے وہ زرخرید ہویا نہ ہو۔ ایک برہمن اپنی خدمت گزاری کے لیے مجبور کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ خدائے مطلق نے شودر کو محض برہمن کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘ نہ صرف یہ بلکہ ’’اگر شودر کو اس کا آقا آزاد بھی کردے۔ جب بھی شودر خدمت گزاری سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ خدمت گزاری اس کی فطرت میں ہے۔ تو پھر اسے اس سے کون نکال سکتا ہے۔‘‘ (منو ۸/۴۱۳۔ ۴۱۴) وہ کسی حالت میں دولت جمع نہیں کرسکتا۔ بلکہ صرف دووقت اپنا پیٹ بھر سکتا ہے۔ ’’ایک شودر کو کسی حالت میں بھی دھن دولت جمع نہیں کرنی چاہیے خواہ وہ ایسا کرنے کے قابل ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ شودر کے دولت پر قبضہ کرنے سے برہمنوں کو نقصان پہنچتا ہے۔‘‘ (منو ۱۰/۱۲۹) لیکن اگر وہ غریب غلطی سے ایسا کر بھی لے تو ’’ایک برہمن بے کھٹکے شودر کے مال پر قبضہ کرسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شودر کی کوئی چیز اس کی ملکیت نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ ایسا شخص ہے جس کا مال اس کا آقا لے سکتا ہے‘‘ (۸/۴۱۷) کوئی شودر اپنا پیشہ تبدیل نہ کرسکتا تھا ’’اگر کوئی ادنیٰ ذات کا آدمی لالچ کی وجہ سے اعلیٰ ذات کے پیشوں سے روزی کمانے کی کوشش کرے تو بادشاہ کو چاہیے کہ اسے فوراً خارج البلد کردے۔ اور اس کا سارا مال و اسباب ضبط کرلے (۱۰/۹۶) شودر کی جان کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے ’’بلی۔ بڑی چھپکلی۔ مینا۔ مینڈک۔ کتا۔ چھپکلی۔ الو یا کوے کو مارنے پر مارنے والے کو ویسا ہی برت رکھنا چاہیے جیسا کہ شودر کو مارنے پر رکھا جاتا ہے۔‘‘ (۱۱/۱۳۲) ان قوانین کی اصل وجہ کیا آپ ماحول اور اس کی ضروریات کے علاوہ اور بھی کہیں پاسکتے ہیں؟
عیسائیت
اب ذرا بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ مصر سے چل کہ فلسطین آجائیے۔ زمانہ بھی بدل چکا ہے اور جگہ بھی۔ اور اس کا اثر ذرا اس زمانے کی قدروں پر دیکھیے۔ کہ کیا۔ کس طرح اور کس قدر گہرا ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کا زمانہ ہے۔ رومتہ الکبریٰ میں آگسٹس کی فرمانروائی ہے۔ اور فلسطین میں ہبروڈس اس کا نائب ہے۔ عوام میں مقابلہ کا احساس پیدا ہوچکا ہے۔ لیکن طاقت کے زور پر اعلیٰ طبقے کا مقابلہ ابھی ان کے لیے ناممکن ہے۔ بنی اسرائیل کے اس پہلے دور میں جس کاہم ابھی مندرجہ بالا سطور میں ذکر کرچکے ہیں۔ قوم ایک تھی۔ اور قومیت کا بنیادی تخیل ’’یہود اسرائیل کا خدا ہے۔ اور اسرائیل یہودا کی قوم ہے۔‘‘ (چیمبرس انسائیکلوپیڈیا) اس قوم میں ہر زمانہ کی طرح دو طبقے تھے۔ لیکن ان کا مقابلہ حکمران طبقہ سے تھا۔ اس لیے بنی اسرائیلیوں کے درمیان تعلقات کو استوار کرنے کے لیے متضاد قدریں پیش کی گئی تھیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں اعلیٰ اور ادنیٰ طبقے نسلی اور مذہبی حیثیت سے بھی مختلف تھے اور حضرت عیسیٰ کا مخاطب صرف ایک طبقہ تھا۔ وہ طبقہ جس کے دل میں اعلیٰ طبقہ سے مقابلہ کرنے کی خواہش موجود تھی لیکن طاقت اور ہمت نہ تھی۔ اس لیے انہوں نے صرف ایک اس طبقہ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر صرف ایک قسم کی قدریں پیش کیں۔ اور وہ قدریں یہ تھیں۔ تحمل۔ بردباری۔ امن وصلح۔ ظلم و ستم سہنا۔ گالیاں کھانا۔ ان کے نقطۂ نظر سے صرف قتل ہی گناہ نہیں بلکہ اپنے بھائی کو گالی دینا۔ اسے دھتکارنا۔ بلاوجہ اس سے ناراض ہونا بھی موجب عذابِ خداوندی ہے۔ صرف زنا ہی پاپ نہیں۔ بلکہ پرائی عورت کی طرف بری نگاہ سے دیکھنا بھی زنا کا مرتکب ہونا ہے۔ اور اس کا علاج آنکھ یا ہاتھ کاٹ پھینکنا ہے۔ انہوں نے صرف اپنے پڑوسیوں سے ہی محبت کرنا نہیں سکھایا بلکہ دشمنوں سے بھی۔ اور کہا کہ جو تمہیں گالیاں دیں۔ انہیں دعائیں دو۔ جو تم سے نفرت کریں۔ ان کے ساتھ نیکی کرو۔ بلکہ اگر کوئی تمہارے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا بایاں گال بھی اس کے سامنے پیش کردو۔ اس قسم کی انفعالی قدروں کے پیش کرنے اور اس زمانے میں ان کے منظور ہوجانے کی اصل وجہ کیا تھی؟ کیا اس زمانے کے خاص ماحول اور وقت کی ضرورت کے علاوہ اس کا کچھ اور بھی جواز پیش کیا جاسکتا ہے۔ ٹالسٹائی نے زار کے زمانہ میں جو قدریں پیش کیں آخر ان کی وجہ کیا ہے۔ مہاتما گاندھی نے جو عدمِ تشدد کے فلسفہ کو اپنایا۔ اس کی تہ میں کیا چیز کام کر رہی تھی۔ اور پھر جس طرح وہ اپنے نظریات کو مختلف معنی پہناتے رہے اس کے پس پردہ کیا چیز تھی؟ اور اس کے برخلاف جب نطشے چیخ چیخ کر کہتا ہے ’’خبردار، خبردار۔ بدھ مت اور عیسائیت یہ دونوں منفی وار انفعالی مذاہب ہیں۔ کیونکہ یہ ایک فرد اور دوسرے فرد کی بنیادی وقعت اور قدر میں تمیز ہی نہیں کرتے۔ عیسائیت ہمیں تباہی کے غار کی طرف لے جارہی ہے۔ یہ بیکار۔ نکمے اور غلیظ عناصر سے بھرپور ہے۔ اس کا سرچشمہ نکمے اور بیکار لوگوں کی بغاوت ہے۔ انجیل رذیل انسانوں کی بشارت ہے۔ دنیا میں عیسائیت سے زیادہ تباہ کن اور موجبِ ترغیب کذب اور کوئی مذہب نہیں۔ کوئی بھی شریف انسان معیارِ عیسائیت سے واسطہ نہیں رکھ سکتا۔ عیسائیت فخر۔ ذمہ داری۔ جوش۔ پرشان وشکوہ حیات۔ جنگ و فتح کی جبلت۔ جذبات کی پرستش۔ بدلہ کا خیال۔ غصہ۔ عشرت پسندی۔ شوقِ فتوحات اور علم سے منکر ہے۔ اس لیے ہمیں اسے رد کردینا چاہیے‘‘ (بحوالہ تاریخ فلسفہ مغرب ازرسل ۷۹۳) اسے آپ صرف مجذوب کی بڑ نہیں کہہ سکتے۔ یہ ایک خاص زمانہ اور قوم کی روح کی تڑپ ہے۔ آخر حضرت عیسیٰ اور نطشے کے خیالات کے اس تضاد کی اصل وجہ کیا ہے؟ کیا صرف دو شخصیتوں کے خیالات کااختلاف؟ اگر اسے صرف یہ بھی مان لیا جائے۔ جب بھی اس کی وجہ سیاسی۔ معاشی۔ تمدنی اور ذہنی حالات کے اختلافات کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے۔ ذہنی اختلاف سے مطلب خارجی زندگی کے سیاسی معاشی۔ علمی ادبی تغیرات کے اثرات، عمل اور ردِّعمل سے ہے نہ کہ صرف ماورائی طریقہ سے داخلی زندگی کے نقطۂ نظر میں تبدیلی۔
یونان
اب ذرامصر اور فلسطین سے یونان آئیے۔ اور اس کے بھی خاص شہر ایتھنز میں یہ قدم اٹھانے میں آپ کو وقت کے لحاظ سے آگے کی طرف بڑھنے کی بجائے ذرا پیچھے قدم اٹھانا پڑے گا، اور وہاں کی علمی۔ ادبی۔ فنی اور سیاسی زندگی کو دھیان میں رکھیے اور پھر سقراط کے علم، افلاطون کے خیر۔ حسن اور صداقت۔ ارسطو کے اعتدال۔ اینٹی ستھینز بانی مدرسہ کلبیت کی فطری زندگی۔ ارسی پس بانی مدرسہ سیرتینیت اور اپیکیورس بانی مدرسہ اپیکیوریہ کی لذت و مسرت کے نظریات پر نظرڈالیے۔ کیا سقراط کانظریہ علم سوفسطائیوں کی کج بحثوں کا ردِّعمل نہ تھا۔ افلاطون کی عینیت اور ماورائیت کی اصل وجہ آپ اس زمانے کے یونان کی سیاسی پست حالی کی ابتدا کے علاوہ اور کہیں بھی پاسکتے ہیں؟ جس کی انتہائی شکل آپ کو کلبیت اور رواقیت کی فطری زندگی میں ملے گی۔ کہ اگر ہم تصورات کی دنیا میں اپنے آپ کو فراموش نہیں کرسکتے۔ تو کم از کم اپنی دنیا آپ میں بساکر وہاں تو زندگی گزارسکتے ہیں۔ ارسطو کا نظریہ اعتدال اخلاقیات اور جمالیات میں افلاطون کی عینیت کے ردِّعمل کی کوشش اور سیاسیات میں سکندر کے بڑھتے ہوئے حوصلے کے علاوہ اور کیا ہے۔ سیرنیت اور اپیکیوریہ کی لذتیت اور فلسفہ مسرت بھی اس زمانے کی انحطاط پذیر زندگی سے اگر گریزنہیں تو اور کیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ افلاطون حسن کامل اور صداقتِ ابدی کے نظریات اشرفیہ طبقے کے لیے پیش کرتا ہے۔ ارسطو نظریۂ اعتدال عملی انسانوں یعنی متوسط طبقہ کے لیے۔ اور کلبیہ اور رواقیہ اور سیرینیہ اور اپیکیوریہ باوجود اپنے متضادنظریات کے ان عوام کے لیے زندگی سے ایک راہِ فرار تلاش کرتے ہیں۔ جو یونان کی زندگی میں ناکامیوں سے دوچار ہے۔ اور غلاموں کا تو کوئی ذکر ہی نہیں کہ انہیں تو اس زمانے میں انسان ہی نہ سمجھا جاتا تھا۔ اور ابھی ان میں اتنا شعور نہ تھا کہ کوئی مفکر ان کے نظریات بھی پیش کرتا۔ تقریباً تین صدیوں کے اس زمانہ میں اس قدر متضاد نظریات کی وجہ آپ کو بجز طبقاتی کشمکش کے اور کہیں نہیں مل سکتی۔
ایران
اسی زمانے میں ذرا ایران۔ چین اور ہندوستان کی سیر کیجیے۔ ایران کاملک ہے اور تقریباً پانچویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے، جمشید مرچکا ہے۔ لیکن اسے خدا ماننے والے بھی موجود ہیں۔ سیاسیات میں مطلق العنانیت کا دور دورہ ہے۔ تمدنی زندگی کا عجب حال ہے۔ پیشہ زراعت کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور روزی حاصل کرنے کے لیے قزاتی اور ڈاکہ زنی کو احسن۔ امن و امان مفقود ہے۔ اور ہر طرف افراتفری کی حالت ہے۔ ان حالات میں لازمی طور پر ان کا تضاد ظاہر ہونا ضروری ہے۔ یہ تضاد ظاہر ہوتا ہے۔ اور زرتشت اسے سمجھ کر زندگی کے لیے ایک نیا نظام اور نئی قدریں پیش کرتا ہے۔ خیال۔ لفظ اور عمل کی پاکیزگی پر زور دیتا ہے۔ مطلق العنانیت کو ختم کرنے اور جمہوریت کو قائم کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک ماورائی ہستی یزداں کو خیر کل بلکہ تمام خیر کا منبع قرار دیتا ہے۔ اور اس کے مقابلے میں مکمل شر اہرمن کو اس کا مد مقابل ٹھہرا کر اس کی قسمت میں شکست لکھ دیتا ہے۔ اور اس طرح ایرانیوں کو تسلی دیتا ہے۔ کہ اگرچہ کبھی کبھی شرخیر پر فتح حاصل کرلیتا ہے۔ لیکن یہ فتح صرف عارضی ہے، اصلی فتح تو خیر ہی کو حاصل ہوگی۔ زرتشت کی یہ آواز اعلیٰ طبقے کے خلاف عوام کی آواز تھی۔ لیکن عوام میں ابھی تک پوری طاقت نہیں تھی۔ اعلیٰ طبقے نے عوامی طبقہ کی طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کی جس کانتیجہ ایک طرف سا سانی حکمرانوں کی مطلق العنانیت اور دوسری طرف اس کے ردِّعمل کے طور پر مزوک کے نظریات کی شکل میں نمودار ہوا۔
چین
چین میں مخصوص جغرافیائی حالات کی بناپر زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی بہت کم اور نہایت آہستہ آہستہ ہوئی ہے۔ زندگی کی رو کی اس آہستہ خرامی کی وجہ سے انسانی دماغ کی صنعت گری کو اپنے جوہر دکھانے کا خوب موقع ملا۔ علم و ادب اور فنون لطیفہ نے خوب ترقی کی۔ لیکن جہاں تک اجتماعی زندگی کا تعلق تھا۔ اس میں اس کا شعور اور احساس بہت کم تھا۔ وہ زندگی کے ہنگاموں سے دورفنونِ لطیفہ میں مست تھے۔ چین کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کنفیوشش نے جن قدروں پر زور دیا ہے۔ وہ صرف انفرادی ہیں۔ جن کا اجتماعیت سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ ہاں حاکم وقت کی بے چون و چرا اطاعت گزاری کو ضرور لازمی قرار دے دیا گیا۔ کیوں؟ صرف اس وجہ سے کہ وہ تو اہل چین کی عادت ثانیہ ہی تھی۔ وگر نہ کسی ملک میں تقریباً ڈھائی ہزار سال تک ایک ہی خاندان کی حکومت قائم رہنا کیا کم تعجب خیز نہیں؟ مستقل طبقاتی برتری جس قدرہمیں چین میں ملتی ہے۔ اس قدر کسی بھی ملک میں نہیں ملتی۔ جس کی وجہ چین کی جغرافیائی حالت۔ وہاں کے مخصوص حالات اور ان کا اثر اہل چین کے ذہنوں پر تھا۔ کنفیوشش نے اعلیٰ طبقہ کو تعلیم کی اہمیت کا احساس دلاکر اس برتری کو اور بھی مستحکم کردیا تھا۔
ہندوستان
ہندوستان میں مہاتما بدھ اور مہابیر جین کی تعلیم عملِ تضاد کی ایک زبردست ضرورت تھی۔ ذات پات کی بندشیں۔ نسل و نسب کے امتیازات، غیرمساوی حالات۔ علم کی محدودیت۔ برہمنوں کی دیوتائیت اور ان کے ظلم و ستم کا چکر۔ ان حالات میں بغاوت کی جو آواز بلند ہوئی۔ وہ بدھ کی نہیں تھی۔ بلکہ ان عوام کی تھی جن پر زندگی کی تمام راہیں مسدود کردی گئی تھیں۔ عوام نے برہمنوں کے خلاف بغاوت کی۔ اور بہت حدتک کامیاب لیکن اس زمانہ کے معاشی حالات نے انہیں زندگی کے روشن پہلو سے مستفید نہیں ہونے دیا۔ اس لیے انہوں نے زندگی سے فرار ہی میں نجات سمجھی۔ بدھ مت کے انفرادی اور منفی ہونے کا اصل سبب یہی ہے۔ بدھ مت نے زندگی کی جن قدروں پر زور دیا ہے۔ اس سے یہ چیز پوری طرح واضح ہوجاتی ہے۔ مثلاً سچ بولنا۔ خیرات۔ نروان۔ رحم۔ ضبط۔ تحمل۔ قربانی۔ ایثار۔ صفائے قلب۔ اطاعت۔ فرمانبرداری۔ عوام جو بدھ کے مخاطب تھے۔ ان میں اس وقت اجتماعیت کا اس قدر فقدان تھا کہ بدھ کے پرچار میں ہمیں کوئی بھی سماجی قدر نہیں ملتی۔ کنفیوشش کے ہاں ہمیں ایک حد تک سماجی قدروں؟ کی مل جاتا ہے۔ کیونکہ اس کا خطاب صرف متوسط اور ادنیٰ طبقہ ہی سے نہ تھا۔ بلکہ اعلیٰ طبقہ سے بھی تھا۔ جس کے سپر دوہ اس زمانہ کے دستور کے مطابق حکومت کی باگ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بدھ کے ہاں اس کا بالکل فقدان ہے۔ اوراس کی وجہ صاف ہے۔ کہ اس زمانہ کے مخصوص حالات نے عوام کے دلوں میں سماجی زندگی سے زبردست نفرت بھردی تھی۔ زندگی میں ان کا منتہائے نظر بھکشو بننا تھا۔ اور اس زندگی کے بعد نروان حاصل کرنا۔
رومتہ الکبرےٰ
اب ذرا رومتہ الکبرےٰ کی طرف قدم بڑھائیے۔ جو اپنی چند خصوصیات کی بناپر ہماری توجہ کا خاص مستحق ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل خصوصیات قابل غور ہیں۔ روم بحیثیت ایک ملک کے حکمران ملک تھا۔ جس کی فرمانروائی میں جزائرِ برطانیہ سے لے کر سرحدِ ہندوستان تک کا علاقہ شامل تھااور مصر۔ ایران اور مقدونیہ کی قدیم وعظیم الشان سلطنتیں اس کے ماتحت تھیں۔ (۲) تاریخِ عالم میں ہمیں سب سے پہلے طبقاتی تقسیم اپنی پوری وضاحت کے ساتھ یہاں ملتی ہے۔ حکمران طبقہ کی طاقت او رغلاموں کی مظلومیت کا تضاد ہمیں قدیم تاریخ میں کہیں بھی اس سے زیادہ صاف اور واضح نہیں ملتا۔ (۳) یہاں سیاسی طاقت کا انحصار دولت پر تھا۔ جو پہلے دوسرے ممالک کو فتح کرکے حاصل کی گئی۔ اور بعد میں ان سے تجارت کرکے بڑھائی گئی۔ رومن سوسائٹی کی ان خصوصیات کااثر ان کے علم و ادب۔ فنونِ لطیفہ اور خاص طور پر فنِ تعمیر پر پڑا۔ ان کی شاعری اسرائیلیوں کی بزمیہ شاعری کے برخلاف رزمیہ تھی۔ ان کے ہاں یونانیوں کی منطق اور بحث کی بجائے فنِ خطابت باوقعت تھا۔ یونانیوں کا فنِ تعمیر حسن۔ لطافت۔ نزاکت کا نمونہ تھا۔ او ررومیوں کی تعمیر شدہ عمارتیں عظیم، گرانڈیل اور پرشکوہ تھیں۔ یونانی اپنے دیوتاؤں کے مندر تعمیر کرتے تھے۔ لیکن رومی مینارِ فتوحات۔ عشرت گاہیں۔ شاندار پل۔ تھیٹر اور سرکس۔
رومن سوسائٹی کی مندرجہ بالا خصوصیات کا دوسرا زبردست اثر ان کے طرزِ حکومت پر ہوا۔ یونانی نظریات میں سے اپنے مطلب کے نظریات تلاش کیے گئے۔ اور ان کی بنیاد پرنئے قوانینِ حکومت بنائے گئے۔ روما میں اس وقت اعلیٰ۔ متوسط اور ادنیٰ تینوں طبقے موجود تھے۔ اعلیٰ طبقہ روما کے ان پرانے خاندانوں کے افراد پر مشتمل تھا۔ جنہوں نے روما کی سلطنت کو فتوحات کے ذریعہ اس قدر وسیع کیا تھا۔ اس طبقہ کے افراد یا تو مختلف صوبوں میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ یا پھر سپاہیانہ زندگی گزارتے تھے۔ متوسط طبقہ مفتوح اقوام کے ان افراد پر مشتمل تھا۔ جو گو اپنی قابلیت اور ذہانت کی بناپر اعلیٰ طبقہ سے کسی طرح کم نہ تھے۔ لیکن مفتوح ہونے کی بناپر ان کی وہ عزت نہ ہوسکتی تھی۔ جو روما کے اصلی فاتحین باشندوں کی تھی۔ ان کا کام زیادہ تر تجارت اور صنعت و حرفت تھا۔ گو انہوں نے بعد میں رفتہ رفتہ سیاسی عہدے بھی حاصل کرنے شروع کردیے تھے۔ ادنیٰ طبقہ غلاموں پر مشتمل تھا۔ جن کا کام زراعت تھا۔ شروع میں ان کی حالت بہت ابتر تھی۔ یہ اپنے آقاؤں کی ملکیت تھے، جنہیں ان غلاموں کو قتل تک کرنے کا اختیار تھا۔ کیٹو کے یہ الفاظ ان کی زبوں حالی ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ’’اگر وہ سو نہ رہے ہوں تو انہیں ہمیشہ کام میں مشغول رکھو۔ کام اس قدر سخت ہو جس قدر ممکن ہوسکتا ہے۔ اور جب وہ اس قدر بوڑھے ہوجائیں کہ کام نہ کرسکیں تو یا تو انہیں فروخت کرڈالو یا پھر بھوکا مرنے کے لیے چھوڑدو‘‘ ۔ غلاموں نے اس حالتِ زار کے خلاف بغاوتیں بھی کیں۔ جن میں سب سے مشہور اسپارٹیکس کی سرکردگی میں ۷۴ء قبل مسیح کی بغاوت تھی۔ اور جس میں شکست کے بعد چھ ہزار غلاموں کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا تھا۔
رومیوں کے لیے ایک طرف غلامی کو برقرار رکھنے کا مسئلہ تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی تمام زراعت ختم ہوجاتی۔ اور دوسری طرف ان کے لیے اصولِ مساوات کا پرچار لازمی امر تھا۔ کیونکہ انہوں نے دنیا کا ایک زبردست حصہ فتح کرلیا تھا۔ اور اس تمام علاقے کو صرف طاقت کے زور پر اپنے قبضہ میں نہ رکھاجاسکتا تھا۔ اس لیے انہوں نے مفتوح علاقوں کے باشندوں کے واسطے افیم کی چند گولیاں تیارکیں۔ اور ان پر شکر لپیٹ کر ان کا نام قانونِ فطرت۔ عقلی رہبری۔ مساوات۔ عدل اور فرض رکھا۔ غلاموں کی موجودگی کا جواز انہوں نے ارسطو کے ان الفاظ سے پیدا کیا کہ ’’انسانوں کی دوقسمیں ہیں۔ ایک وہ جو رہبری کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور دوسری وہ جنہیں رہبری کی ضرورت ہے۔‘‘ ہندوستان میں شودروں کی قسمت پر مہر لگانے کے لیے مذہب کی آڑلی گئی تھی۔ اور روما میں عقل کی۔ اور اس کی وجہ دونوں ممالک کی ذہنی کیفیتوں کا فرق تھا۔ لیکن روما میں غلاموں کی تعداد کے پیش نظر انہیں یہ بھی تسلی دے دی گئی کہ ’’ہم سب مشترک والدین (زمین) کی اولاد ہیں۔ قسمت ایک انسان کو غلام بنادیتی ہے۔ غلامی صرف ایک خارجی چیز ہے۔ جو انسان کے جسم پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ جسم آقا کی ملکیت ہوسکتا ہے۔ لیکن روح تو آزاد ہے‘‘ متوسط طبقہ کو قبضہ میں رکھنے کے لیے فرض کو قدر بالذات بناکر پیش کیا گیا۔ کہ بغیر ادائگی فرض کے امن اور خوشحالی قائم ہی نہیں رہ سکتی۔ اور ان کا فرض کیا قرار پایا۔ ریاست کی اطاعت۔ سماج کے توازن کو قائم رکھنا۔ اور دوسرے انسانوں کے حقوق میں مخل نہ ہونا۔ کانٹ کے نظریہ فرض کے خلاف اس نظریہ فرض کے متعلق یہ تو ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ صرف انفرادی قدر نہ تھا۔ بلکہ سماجی۔ لیکن اس لفظ اور اس کے معنوں کے اختراع کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ صرف طبقہ اعلیٰ کے حقوق کی حفاظت کی غرض سے۔ مساوات اور عدل کی قدریں پیش کی گئیں۔ لیکن ان کے معنی مسخ کردیے گئے۔ اور کہہ دیا گیا کہ مساوات اور عدل انسانوں کے لیے ہیں۔ لیکن تمام انسانوں کے لیے نہیں۔ بلکہ انسانوں کے صرف اس طبقے کے لیے جنہیں قانون نے ایک لڑی میں پرودیا ہے۔ اور جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد کل کی فلاح و بہبود کو بنالیا ہے۔ کل کی فلاح و بہبود سے جو ان کا مقصد تھا۔ اس کی تو تشریح کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اور یہ تمام قدریں پیش کس طرح کی گئیں۔ فطرت اور عقل کو رہبر بناکر۔ اور پھر ان کی بنیادوں پر وہ مجموعہ قوانین بنایا گیا۔ جواس وقت تک اکثر یورپین ممالک کے مجموعہ قوانین کی بنیاد ہے۔
نشاۃِ ثانیہ
زمانہ قدیم کے بعدعہد متوسط کو چھوڑ کر اب نشاۃِ ثانیہ اور دور اصلاح پر آجائیے۔ نشاۃِ ثانیہ سے پہلے یورپ کی حالت دیکھیے اور غور کیجیے کہ کیا ان حالات کا لازمی نتیجہ نشاۃِ ثانیہ اور اس کی اصلاحات کی ظہور پذیری نہ تھا۔ سیاسی طور پر جاگیرداری اورقبائلی سرداروں نے عوام پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ ہولی رومن ایمپائر موجود تھی۔ لیکن حقیقتاً نہ ہولی تھی، نہ رومن اور نہ ہی ایمپائر۔ یورپ کے تمام ممالک میں فیوڈل لارڈز (جاگیرداروں) کی حکومت تھی۔ اورعوام کی زندگی ان کے رحم و کرم پر تھی۔ کھیتوں کے کمیروں (serfs) کی حالت غلاموں سے بھی گئی گزری تھی۔ مختلف ممالک کے بادشاہ ان لارڈزکے ہاتھوں میں کھلونے بنے ہوئے تھے۔ اور یہ لارڈز تنازع البقاء کے اصول کے ماتحت اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کو بڑھانے اور دوسرے لارڈز کو ختم کرنے کے درپے رہتے تھے۔ مذہبی طور پر پوپ اور اس کے حواریوں نے عیسائیت کو بالکل مسخ کرکے آخرت پر اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ جنت کی کنجیاں ان کے قبضے میں تھیں۔ اور وہ خود جنت کے ٹھیکیدار تھے۔ تعلیم کے دروازے عوام پر بالکل بند تھے۔ انہیں مذہبی معاملات پر غور و خوض کرنے کی مطلق اجازت نہ تھی۔ جو شخص اس کی جرأت بھی کرتاتھا۔ اس پر ’’کفر‘‘ کا فتویٰ لگادیا جاتا تھا۔ اور صرف فتویٰ لگانے پر اکتفا نہ کی جاتی تھی۔ بلکہ عبرت ناک طریقوں سے اس کی جان بھی لے لی جاتی تھی۔ تاکہ جسم کو مصائب میں مبتلا کرکے کم از کم روح کو تو بچالیا جائے۔ معاشی طور پر عوام کی خستہ حالی کا اندازہ تک نہیں لگایا جاسکتا۔ ان کی زبردست اکثریت کھیتوں میں کمیروں کی حیثیت سے کام کرتی تھی۔ زمین پر ان کے مالکانہ حقوق کا سوال تو الگ رہا۔ وہ اپنے لارڈ کی مرضی کے بغیر دوسری جگہ جا تک نہیں سکتے تھے۔ یورپ میں یہ حالات تھے۔ ان حالات کا اندرونی تضاد اپنی انتہائی لحد کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن ابھی تک یورپ کو کوئی ایسا باشعور دماغ نہ مل سکا تھا۔ جو تاریخی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر ان حالات کے خلاف آوازبلندکرتا۔ یورپ کی خوش قسمتی سے ان کا تعلق مسلمانوں سے ہونا شروع ہوا۔ آٹھویں صدی میں مسلمانوں نے اسپین کو فتح کرلیا تھا۔ شروع میں تو یورپ کی عیسائی قومیں اس روشنی کی طرف سے آنکھیں بند کیے رہیں۔ لیکن آخر کب تک! رفتہ رفتہ اندلس کی اعلیٰ درس گاہوں میں یورپ کے طلبا بغرضِ تعلیم آنے لگے۔ اور اس طرح یورپ میں آہستہ آہستہ نئے خیالات پھیلنے شروع ہوئے۔ صلیبی جنگوں نے عوام کو ایک دوسرے سے متعارف کرایا۔ اور اس کے بعد تجارت نے رہی سہی کسر کو بھی پورا کردیا۔ یونانی علوم عربوں کی راہ سے یورپ میں داخل ہونے شروع ہوئے۔ اور انہوں نے یورپ کے ساکن دماغ میں ہلچل مچانی شروع کردی۔ سب سے پہلے اس ہلچل کا اثر ہمیشہ کی طرح اہل علم پر پڑا اور ان میں بغاوت کے آثار رونما ہوئے۔ انگلینڈ میں فرانسس بیکن۔ فرانس میں ڈیکارٹ اور اٹلی میں گیلیلیو پیدا ہوئے۔ اس کے بعد جرمن میں بنیز اور انگلینڈ میں نیوٹن آئے۔ اور ان کے بعد تو یہ قافلہ اس قدر بڑھا کہ انہوں نے زندگی کے ہر شعبے کو بدل کر رکھ دیا۔ انہوں نے جہالت۔ عقائد اور توہم پرستی کے خلاف زبردست آوازاٹھائی۔ اور عقل کو رہبر بناکر نئی نئی راہیں دریافت کیں۔
مذہب کے میدان میں کالون اور لوتھر سے بہت پہلے چودھویں صدی میں انگلینڈ میں دے کلف اور بوہمیا میں جان ہس نے پوپ کی طاقت کے خلاف آواز اٹھائی۔ پوپ اور گرجا کی دنیاوی طاقت پر حملہ کیا گیا۔ اور حضرت عیسیٰ کی تعلیمات سے اس زمانہ کی پاپائیت کامقابلہ کرکے عوام کو اصل عسائیت کی طرف دعوت دی گئی۔ انجیل کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔ اور اس طرح عیسائیت کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان کے بعد لوتھر اور کالون وغیرہ آئے۔ انہوں نے پاپائے روم اور پاپائیت کے خلاف اس قدر زبردست آوازاٹھائی کہ یورپ مذہبی اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم ہوگیا اور کیتھولک مذہب حالتِ نزع میں گرفتار!
سیاسی لحاظ سے فیوڈل ازم کی تباہ کاریوں کے خلاف آہستہ آہستہ بادشاہوں کی طاقت بڑھنی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے انگلینڈ فرانس اور اسپین میں اور ان کے بعد جرمنی اور ا ٹلی میں زبردست بادشاہت قائم ہوئی۔ مذہبی اور سیاسی لحاظ سے مرکزیت کاخاتمہ ہوگیا۔ انگلینڈ میں ہنری ہشتم نے مذہب کو سیاسیات کا غلام بنایا۔ اور اٹلی میں میکاولی نے ایسے نظریات پیش کیے جو اس زمانہ کی ہوا کا رخ بتاتے ہیں۔ ان نظریات نے سیاست سے اخلاق کو بالکل باہر نکال پھینکا۔ میکاولی کے ان نظریات پر ظاہری طور سے سخت تنقید ہوئی۔ لیکن حقیقتاً ہر ریاست نے نہایت ذوق و شوق سے اپنایا۔ اور اپنی اپنی قومی حکومتوں کومضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کی۔
معاشی طور پر اس زمانہ میں اس قدر زبردست انقلاب آیا کہ زندگی کے دوسرے شعبوں کی تبدیلیوں کو اگر اس انقلاب کے اثرات قرار دیا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ چودھویں صدی کی ’’سیاہ موت‘‘ نے serfdom کا بالکل خاتمہ کردیا۔ کمیرے اور غلام اب آزاد حیثیت کے مالک ہوکر کاشتکار بن گئے۔ معاشی آزادی کی طرف عوام کا یہ پہلا زبردست قدم تھا۔
مشرقِ بعید
ہندوستان اور امریکہ سے نئے تجارتی تعلقات نے ایک طرف تاریخِ عالم میں متوسط طبقہ کی اہمیت بڑھائی۔ اور دوسری طرف جغرافیائی حالات پر پورا اثر کیا۔ تاجروں اور صناعوں نے معاشی اور سیاسی آزادی کے لے آہستہ آہستہ جدوجہد شروع کی۔ تجار تجارت کے مرکز میں تھے اس لیے ان کی قوت میں زبردست اضافہ ہوا۔ یہ کوئی اتفاق نہ تھا کہ لندن اور پیرس انقلابات کے مراکز بن گئے۔ بلکہ یہ معاشی حالات کی تاریخی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سترھویں صدی کے انگلستان میں باہمی جنگ میں لندن اور دوسرے بڑے بڑے شہروں کے باشندے پالیمان کے ساتھ تھے۔ اور دیہاتی باشندے بادشاہ کی طرف۔ یہ متوسط طبقہ روزبروز ترقی کرتا رہا۔ چھپائی کی ایجاد۔ فیوڈل ازم کا خاتمہ۔ تجارت کی ترقی۔ عقل کی برتری۔ مذہب میں مرکزیت کی بجائے انفرادیت۔ بارود کا استعمال ان تمام عناصر نے متوسط طبقہ کو آگے بڑھایا۔ اور انہی عناصر نے اسے اس قدر طاقتور کردیا کہ انگلینڈ امریکہ اور فرانس میں وہ سیاسی انقلابات لانے کا موجب بنا۔ معاشی تبدیلی نے سیاسی آزادی کانعرہ بلند کیا۔ ملٹن نے کہا ’’فطری طور پر تمام انسان برابر پیدا ہوئے ہیں‘‘ اب فطری قوانین کی بجائے فطری حقوقِ خداوندی پر مہر تصدیق ثبت کرنا چاہی۔ لیکن اب بادشاہ کے حقوق پر زور دے کر بادشاہ کوعوام کا غلام بنادیا۔ لوئی چہار دہم نے ایک عرصہ تک شہنشاہیت کی لاش اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھی۔ لیکن آخر کب تک! اسے تو اپنی زندگی ہی میں ہر طرف تباہی نظر آرہی تھی۔ لیکن یہ تباہی تھی کس کی؟ یہ تباہی تھی فرسودہ نظام کی۔ شہنشاہیت کی۔ اور انہیں تباہ ہونا ہی تھا۔
غرض نشاۃِ ثانیہ اور دورِ اصلاح میں زندگی کے ہر پہلو میں تبدیلیاں ہوئیں۔ اور اس قدر بنیادی طور پر اور قدروں کی دنیا ہی بدل گئی۔ صبر و تحمل۔ استقلال۔ قناعت۔ استغنا۔ تسلیم۔ توکل۔ رضا۔ شکر۔ ضبط۔ فرماں برداری۔ اطاعت۔ رحم۔ خداشناسی۔ تقدیر۔ تقلید۔ ایمان۔ رہبانیت۔ ریاضت۔ گوشہ نشینی کی جگہ اب تلاشِ حقیقت۔ تنظیم۔ نظم و ضبط۔ خودداری۔ حق پرستی۔ انصاف۔ مساوات۔ انفرادیت۔ باہمی مروت۔ بھائی چارگی۔ جرأت۔ ہمت۔ ظلم کا مقابلہ۔ جدوجہد۔ عقل۔ تشکک۔ حق پرستی نے لے لی۔ قدروں کی اس تبدیلی کی وجہ کیا مندرجہ بالا معاشی۔ سیاسی۔ علمی۔ ادبی۔ مذہبی اور ذہنی تبدیلیوں کے علاوہ اور بھی کچھ ہوسکتی ہے۔ کہیں طبقہ امراءنے ان تبدیلیوں کے آگے سر جھکا دیا۔ اور ان ممالک میں ارتقائی طور پر یہ تبدیلیاں آگے آگے آہستہ آہستہ بڑھتی رہیں۔ لیکن بعض ممالک میں رجعت پسند قوتیں ان تبدیلیوں کا مقابلہ کرتی رہیں۔ اس مقابلے کی وجہ سے عملِ ارتقا نے انقلاب کی شکل اختیار کرلی۔ جس ملک میں رجعت پسندی جتنی زیادہ طاقتور تھی۔ اس ملک میں انقلاب کی رو اتنی ہی تند وتیز تھی۔ ان حالات نے ایک طرف یہ کیا۔ اور دوسری طرف وہ ذہن پیدا کیے جنہوں نے متوسط طبقہ کو ان حالات سے پوری طرح واقف کردیا۔ اور انقلاب کو نزدیک سے نزدیک تر لانے کا موجب بنے۔ ادھر صنعتی انقلاب شروع ہوچکا تھا۔ جس نے انقلابی تحریک کو اور زیادہ تقویت دی۔ اور دوسری طرف طبعی حیاتیاتی اور تمدنی علوم نے بھی آہستہ آہستہ ترقی شروع کی۔ غرض ان سب کا نتیجہ انقلاباتِ امریکہ اور فرانس کی شکل میں نمودار ہوا۔ ان انقلابات نے نشاۃ ثانیہ کی قدروں کو اور زیادہ عمیق بنادیا۔ اور چند قدروں مثلاً آزادی۔ مساوات اور اخوت پر بہت زیادہ زور دیاجانے لگا۔ لیکن انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کی تیزگامی اور جدید علوم کی پوری طرح ترقی نے دنیا میں پھر زبردست ہلچل مچادی۔
انیسویں صدی
لیکن ذرا ٹھیرئے۔ سیاسی۔ معاشی اور علمی ترقی سے حالات میں جو تبدیلی ہوئی۔ اس پر تو ایک نگاہ ڈال لیجیے۔ انقلاب فرانس سے پہلے ہی بعض ممالک میں جذبہ قومیت پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔ انقلاب نے اسے ہوا دی۔ اور ’’ان ہولی الائنس‘‘ کے ظلم و ستم نے اس چنگاری کو شعلہ بنا دیا۔ اور پہلے یورپ اور بعد میں تقریباً دنیا کے ہر ملک میں جذبۂ قومیت پوری طرح پھیلنا شروع ہوا۔ اور اس کے نتیجے کے طور پر جمہوریت کو فروغ ہوا۔ لارڈ برائس کے الفاظ میں ’’ستر سال پہلے (اس وقت سے تقریباً ایک صدی پیشتر) لفظ جمہوریت، نفرت یا خوف کا موجب تھا۔ اور اس وقت یہ لفظ قابل تعریف ہے‘‘ آج سے سوا سو سال پہلے سوئٹزرلینڈ کے چند کنٹونز کے علاوہ دنیا میں کہیں جمہوریت کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اور اس وقت سو سے زیادہ ممالک کا طرزِ حکومت کسی نہ کسی شکل میں جمہوری ہے۔ لیکن جہاں جذبہ قومیت کا یہ زبردست فائدہ ہوا۔ وہاں چند نقصانات بھی ہوئے قومی اور نسلی طور پر احساسِ برتری۔ معاشی مفاد کی خاطر پست اقوام کو غلام بنانا۔ دوسری قوموں کو اپنے برابر نہ ہونے دینا۔ دوسرے ممالک کا خوف اور اس خوف کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی تیاریاں۔ گزشتہ دو عظیم جنگیں ان ہی اسباب کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ان جنگجوں کافائدہ بھی زبردست ہوا۔ عوام قومیت سے متنفر اور بین الاقوامیت بلکہ انسانیت کے متمنی ہوگئے۔
صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک کی زیادہ آبادی شہروں میں منتقل ہوگئی۔ مصنوعات اس قدر زیادہ تیار ہونے لگیں کہ ان کے لیے منڈیاں تلاش کرنی پڑیں۔ جس کے نتیجہ کے طور پر دنیا کو جنگ کی تباہ کاریوں کا سامناکرنا پڑا۔ ہر ملک میں خود اندرونی طور پر وہاں کے باشندے سرمایہ اور محنت کے دو مختلف بلکہ دشمن کیمپوں میں منقسم ہوگئے۔ بورژوازیادہ مالدار ہوگئے۔ اور پرولتاریہ زیادہ طاقتور۔ سرمایہ اورمحنت کا مقابلہ شروع ہوا۔ بعض ممالک میں تو محنت نے سرمایہ کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اور دوسرے ممالک میں بھی وہ دن دور نہیں۔ ذرائع آمدو رفت کی ترقی نے سیاسی دائرہ بندی۔ زبان۔ رسوم اورعقائد کے اختلافات میں کافی حد تک کمی کردی۔ اورتمام انسانوں کو اپنے مشترکہ مسائل پر متفقہ طور پر سوچنے سمجھنے کا موقع دیا۔ اس سے زیادہ یہ ہوا۔ کہ دنیا کے تمام انسانوں کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ تمام دنیا کے انسانوں کی زبردست اکثریت باوجود معمولی اختلافات کے ایک ہے۔ اور انہیں رجعتی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فی الحقیقت ایک ہوجانا چاہیے۔
حیاتیاتی اور تمدنی علوم کی دنیا میں ڈارون اور اسپنسر کے نظریہ ارتقاء نے مرکزِ ثقل ہی منتقل کرکے رکھ دیا۔ اب ہر چیز، واقعہ اور اصول کی تشریح ارتقائی اصول پر ہونے لگی۔ ڈارون نے تو اصولِ ارتقاء کو صرف حیاتیاتی علوم تک محدود رکھا۔ لیکن اسپنسر نے اس اصول کو تمدنی اور اخلاقی علوم پر بھی عائد کردیا۔ فکری دنیا میں ہیگل پہلے ہی تضاد کے اصول پر ارتقا کو مان چکا تھا۔ مارکس نے اس اصول کو بنیاد بناکر جدلیاتی طور پر معاشی اداروں کی تشریح کی۔ غرض زندگی کاکوئی شعبہ ایسا نہیں رہا۔ جو اصولِ ارتقا کی دسترس سے باہر رہا ہو۔
قدرتی طور پر ان تمام تبدیلیوں کا اثر قدروں پر بھی ہوا۔ اور نہایت زبردست۔ کہا جاچکا ہے کہ سیاسی۔ معاشی اور علمی ترقی نے نشاۃِ ثانیہ کے زمانہ کی قدروں کو بہت عمیق اور وسیع بنادیا تھا۔ لیکن جیسے جیسے یہ تبدیلیاں زیادہ ہوتی رہیں۔ اسی نسبت سے ان تبدیلیوں کا ساتھ دینے کے لیے قدریں نہ صرف اپنے مفہوم کے لحاظ سے عمیق ہوتی رہیں۔ بلکہ کچھ قدریں سرے سے بالکل ہی بدل گئیں۔ قومیت کی بجائے پہلے بین الاقوامیت اور پھر انسانیت کے نظریات پیش ہوئے۔ آزادی اور جمہوریت کے نظریات صرف سیاسیات تک محدود نہ رہے۔ بلکہ ان کااثر مذہب۔ اخلاقیات معاشیات اور قانون پر بھی ہوا۔ استخراجی احکام کو بے چون و چرا ماننا ناممکن ہوگیا۔ صرف وہ احکام قابلِ قبول سمجھے گئے جن کا مخرج خود انسان اس کی عقل اور اس کے تجربات ہوں۔ معاشی حالات نے فرد کی انفرادی حیثیت کو کمزور کرکے اس کی سماجی حیثیت کو تقویت دی۔ اور ان قدروں پر زور دیا جانے لگاجو اس کی تکمیلِ نفس میں مدد کی بجاے اسے ماحول سے زیادہ سے زیادہ مطابق کرسکیں۔ اسپنسر کے نزدیک زندگی عبارت ہے ’’اندرونی علائق کی بیرونی علائق کے ساتھ مستقل تطبیق سے‘‘ دوسرے الفاظ میں کسی ذات کا اپنے ماحول کے ساتھ مطابق رہنے کی پیہم جدوجہد کا نام زندگی ہے۔ اس لحاظ سے اس کے نزدیک نیک کردار وہ ہے جو اس عملِ تطبیق اور جدوجہد میں معاون ہواور اگر مزاحم ہو تو کردار بد ہے۔
اشراکِ عمل کی قدر نے پہلے مقابلہ کے لیے جگہ خالی کی۔ لیکن بعد میں لفظ مقابلہ کے معنوں میں زبردست تبدیلی ہوگئی۔ مقابلہ کامطلب افراد میں جہد للبقا کانہیں رہا۔ بلکہ معاشی طبقات میں مقابلہ کاہوگیا۔ اوراس طرح اشتراکِ عمل کاصالح جز مقابلہ میں شامل ہوگیا۔ اسے اس طرح سمجھیے کہ اشتراکِ عمل ایک Thesis تھا۔ اس میں سے اس کا تضاد anti thesis مقابلہ نکلا۔ اور ان دونوں نے مل کر ایک sync thesis پیش کیا۔ جو اصل میں تو مقابلہ تھا۔ لیکن اس میں اشتراکِ عمل کے صالح اجزا ءموجود تھے۔ اسی طرح اتحاد۔ اطاعت۔ قناعت رحم نے اپنی جگہ تنظیم۔ جرأت و ہمت۔ جدوجہد۔ انصاف کے لیے خالی کردی۔ لیکن ان نئی قدروں میں پرانی قدروں کے صالح اجزاء ضرور باقی رہے۔
غرض ہم دیکھتے ہیں کہ ماحول کی ضرورتیں قدروں کو تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ لیکن بعض قدریں آپ ایسی بھی پائیں گے جو شروع سے لے کراب تک موجود ہیں۔ کیا یہ وہ قدریں ہیں۔ جن پر زمان و مکان نے کوئی اثر نہیں کیا۔ نہیں۔ اگر آپ ان کے معنوں پر غور کریں تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ جہاں تک نام کاتعلق ہے۔ وہ تو ضرور ہی پرانے نام ہیں۔ لیکن معنوں کے لحاظ سے وہ بالکل تبدیل ہوگئی ہیں۔ ارسطو اعتدال کو جن معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ کیا ہم بھی اس لفظ کو صرف انہیں محدود معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ کیا افلاطون کے انصاف اور ہمارے انصاف میں کچھ فرق نہیں۔ کیا صداقت کے معنی جیمز اور ڈیوی کے نزدیک وہی ہیں جو یونانیوں کے نزدیک تھے۔ یاجن معنوں میں یہ لفظ نشاۃِ ثانیہ میں مستعمل تھا۔ لذت و مسرت کے معنوں میں ارسٹیپس اور اپکیورس سے لے کر مل۔ سجوک اور راشڈل تک کس حد تک تبدیلی ہوچکی ہے۔
غرض ہم دیکھتے ہیں کہ ہرزمانے میں ماحول کی ضروریات کے مطابق قدریں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ آج سے چند صدیاں پیشتر جو قدر تھی۔ آج وہ قدر نہیں رہی۔ اوراگر آج وہ قدر ہے بھی تو اس کے دووجوہ ہیں۔ اولاً تو یہ کہ اس قدر کے معنوں میں اس حدتک تبدیلی ہوچکی ہے اور وہ قدر اپنے معنوں میں اس حدتک وسعت اور عمق پیدا کرچکی ہے کہ اسے پرانی قدر کہنا ہی غلط ہے۔ اور دوسرے یہ کہ قوموں کی زندگی کو ناپنے کی اکائی سال و ماہ نہیں ہوتی۔ بلکہ صدیاں ہوتی ہیں۔ ہم صرف تیس صدیوں کو دیکھ کر منطقی طور پر اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے کہ چونکہ اس عرصے میں یہ قدر، قدر ہی رہی ہے۔ اس لیے یہ قدر ازلی اور ابدی ہے۔ ماحول کے بعض عناصر جلد جلد تبدیل ہوتے ہیں۔ اور ان سے متعلق قدریں بھی جلد جلد تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن بعض عناصر نسبتاً دیرمیں تبدیل ہوتے ہیں۔ اور ان سے متعلق قدریں ان کے ساتھ ہی دیر میں تبدیل ہوتی ہیں۔ لیکن صرف اس بنا پر کہ ان کی تبدیلی ہمارے علم میں نہیں۔ اس میں ازلیت اور ابدیت کی تلاش سعی لاحاصل ہے۔
قدروں کے متعلق جس دوسرے نتیجے پر ہم پہنچے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک ہی زمانے میں ایک ہی ملک میں مختلف طبقوں کی مختلف قدریں ہوتی ہیں۔ اعلیٰ طبقہ کی قدریں متوسط طبقہ کی قدروں سے مختلف ہوں گی۔ اور ان دونوں کی قدریں ادنیٰ طبقہ کی قدروں سے علیحدہ ہوں گی۔ تینوں طبقوں کااخلاقی، مذہبی، فنی اور تمدنی معیار مختلف ہوتاہے۔ اور اگر دو یا تینوں طبقے کسی قدر کو قدر مانتے ہیں تو اس کے معنوں میں ہر طبقے کے واسطے اس قدر اختلاف ہوگا کہ اسے ایک قدر کہنا بالکل غلط ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.