Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

قومی بیداری میں اکبر کا حصہ

ممتاز حسین

قومی بیداری میں اکبر کا حصہ

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    اکبر کا غیر ظریفانہ کلام بیشتر صوفیانہ اور واعظانہ ہے، لیکن جب وہ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار طنز و مزاح کی صورت میں کرتے ہیں تو محفل لوٹ پوٹ ہو جاتی ہے۔ کبھی خیال کی ندرت سے تو کبھی الفاظ کے تصرف سے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یا تو اول اول اکبر کو اپنا مخصوص طرز اظہار نہیں ملا تھا یا یہ کہ انگریزوں کی ملازمت نے انہیں اس طرز اظہار کے اپنانے پر مجبور کیا۔ بہرحال اکبر کا یہ طنز و مزاح ایسا بے ضرر بھی نہیں کہ یہ کہا جا سکے کہ وہ اپنی سنجیدہ شاعری میں واعظ اور طنزیہ شاعری میں صرف مضحک ہیں۔ دونوں میں ایک ہی اکبر ہیں۔ واعظ اور مصلح اکبر جو اپنی طنزیہ شاعری میں اس جذبہ انتقام کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں کہ اچھا یوں نہ سنوگے تو یوں سہی۔

    ان کی تصویر دیکھنے سے ان کا چہرہ ترشی مائل قدر ے تلخی لئے ہوئے معلوم ہوتا ہے۔ یہ ترشی اور تلخی ان کی ہنسی میں بھی اتر آتی ہے۔ اکبر کا کمال یہ ہے کہ وہ بات تو اپنی ہی کہتے ہیں لیکن زبان کا تصرف کچھ اس انداز کا ہوتا ہے کہ اس سے ان کے موافق اور مخالف دونوں ہی محظوظ ہوتے ہیں۔ وہ اکبر واعظ اور مصلح کو بھول جاتے ہیں اور ان کی شاعرانہ کاری گری پر حیرت کرنے لگتے ہیں۔ اس سے طنز و مزاح کے شاعر اکبر زیادہ ابھر ے ہیں اور سیدی اصلاح کے ناقد اکبر کچھ کچھ پردہ خفا میں چلے گئے ہیں۔ اکبر کی فکر سیدی اصلاح کی تنقید میں ابھری ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مصلح ہیں۔

    اکبر کو یہ معلوم تھا کہ وہ ایک گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دے رہے ہیں اور قوم کا قافلہ اسی پیروئی مغرب پر چلےگا جس پر سرسید نے اسے لگا دیا ہے، لیکن وہ اپنا فرض پورا کر رہے تھے۔ سرسید کی تحریک اصلاح کے شداید اور عواقب سے لوگوں کو متنبہ کر رہے تھے اور موقع ملنے پر وہ لوگوں کو ان سے بھڑکا بھی دیتے۔ اکبر کے ان پر فن اشعار سے محظوظ ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس ذہنی اور روحانی کشمکش کو سمجھا جائے جوان دونوں کے درمیان تھی۔ اس کے سمجھنے کے بعد ہی ہم معلوم کر سکیں گے کہ اکبر کا حصہ ہماری قومی بیداری میں کیا ہے۔

    اکبر نے خاصی طویل عمر پائی تھی۔ وہ ۱۸۵۷ء میں بارہ سال کے تھے اور چودہ سال کی عمر سے تادم مرگ اس حاکم فرنگی قوم کی ملازمت سے وابستہ رہے جس کے جال کو وہ اپنے دانت سے کسنے کے بجائے کاٹنے میں مصروف رہے۔ یہ جال صرف محکومی کا نہیں بلکہ مغرب کی سائنسی تہذیب اور جمہوری اداروں کا بھی تھا۔ اکبر نے ان دونو ں میں کم فرق کیا۔ انہوں نے محکومی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اس فلسفہ ترقی کی بھی مخالفت کی جو قوموں کی مادی خوش حالی سے تعلق رکھتی ہے۔ اکبر نے ایک ادنی محرر کے درجے سے ترقی کرکے سیشن جج کے رتبے کو پہنچنے والی اپنی ترقی کو تو گوارا کر لیا، انہیں یہ بھی گوارا تھاکہ ان کا بیٹا لندن سے بیرسٹری پاس کرکے آئے اور ڈپٹی کلکٹر بنے۔ لیکن یہ گوارا نہ تھا کہ مغرب کی سائنسی تہذیب یہاں کی تہذیب پراثر انداز ہو۔

    جس طرح ہمیں ہربات کا علم بہت دیر میں ہوتا ہے، قریباً اس وقت ہوتا ہے جب سر چھپانے کے لئے ریت بھی باقی نہیں رہتی ہے، اسی طرح ہمیں اس بات کا علم بھی بہت دیر میں ہوا کہ ہم انگریزوں سے جنگ ۱۸۵۷ء میں نہیں بلکہ اس سے پہلے ہی ہار چکے تھے۔ یہ لڑائی مسیحیت اور اسلام کی نہیں بلکہ مغرب کے ابھرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام اور مشرق کے صدیوں پرانے جاگیردارانہ نظام کے درمیان تھی۔ یہ لڑائی مغرب کی سائنس اور ٹکنالوجی اور مشرق کے پرانے علوم و فنون، مغرب کی اسٹیم مل اور مشرق کی پن چکی، مشرق کی توڑے دار بندوق اور مغرب کی ان فل رائفل کے درمیان تھی۔ لیکن مشرق کا پرانا ذہن اپنی شکست کا سبب صرف اخلاقی زوال میں دیکھتا۔۔۔ سرسید اور حالی نے اس کے علاوہ مادی اور تاریخی اسباب پر بھی نظر ڈالی۔ مغربی تہذیب سے کچھ سمجھوتا چاہا، مگر اکبر الہ آبادی نے ان کی ساری باتیں سنی ان سنی کر دیں اور ماضی پرستی کی طرف جھک گئے۔

    دنیا بدل گئی ہے وہ ہیں ہمیں کہ اب تک

    اپنے مقام پر ہیں اپنے مکان پر ہیں

    اب تک ہے یاد ہم کو اپنی بلند نامی

    اب بھی مٹے ہوئے ہم مٹتے نشان پر ہیں

    مذہب سرسید کو بھی عزیز تھا اور اکبر کو بھی، لیکن اس امر میں کہ ہابس، لاک، نیوٹن، بنتھم اور مل کے خیالات سے اپنے مذہب کو کیوں کر محفوظ رکھا جائے، دونوں کے طریق کار میں اختلاف تھا۔ سرسید نے مذہب کو سائنس سے ہم آہنگ کرکے ایک نیا علم الکلام وضع کیا جس کے ذریعے سے وہ مغربی عقلئین کا مقابلہ معقولات کی سطح پر کرنا چاہتے۔ اکبر کو یہ طریق کار پسند نہ تھا۔ وہ مشرق کے مریض کا علاج عقل کے بجائے عشق سے کرنا چاہتے تھے،

    انکشاف راز ہستی عقل سے ممکن نہیں

    متصل ہو، سطح ظاہر سے، یہ وہ باطن نہیں

    یوں توفلسفہ وحدت الوجود کے دونوں ہی قائل تھے لیکن اکبر صوفیاء کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے مذہب کی حقیقت، عشق اور مشیت میں تلاش کرتے اور سرسید حکما کے راستے پرچلتے ہوئے اسے اعمال الہی یا قوانین فطرت میں ڈھونڈتے، ایک نزاعی مسئلہ ان بزرگوں کے درمیان قومی عادات و اطوار اور رسومات کی تغیر پذیری سے متعلق بھی تھا،

    وضع کہن کا مٹنا اس کی یہ رت نہیں ہے

    تیشے سے توڑ دو تم ایسا یہ بت نہیں ہے

    اکبر کے اس شعر میں تم کا اشارہ سرسید کی طرف ہے جو رسم و رواج کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے اور پرانی رسموں کو چھوڑنے اور نئی رسموں کو اختیار کرنے کی تلقین کرتے۔ اکبر ان کی اس کوشش پر ہنستے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی وضع کہن کے تعلق سے ایک کڑی رنجش اکبر کو عورتوں سے بھی ان کی بے پردگی کے باعث پیدا ہو گئی تھی گویا اس کے ذمہ دار بھی سرسید ہی تھے۔ بہرحال مختصر یہ کہ اکبر کا یہ خیال تھا کہ جن لوگوں نے مسلمانوں کو ترقی کی پٹی پڑھائی ہے، ایسا انہوں نے شیطان کی سازش سے کیا ہے،

    شیطان نے ترکیب تنزل یہ نکالی

    ان لوگوں کو تم شوق ترقی کا دلا دو

    آدمی کا شیطان آدمی ہے۔ اسی کے بہکانے اور ورغلانے سے انسان نے ترقی کی ہے۔ اکبر کو یہ بدگمانی اس شیطان سے اس لئے تھی کہ وہ اس راز سے آشنا نہ تھے کہ اس کی قوت انکار ہی سے قصہ آدم رنگین بنا ہے اور اسی کی کارستانیوں نے ہمارے سفر حیات کو غیر مختتم بھی بنایا ہے جس کے نتیجے میں یہ فلسفہ ترقی وجود میں آیا۔ چنانچہ علامہ اقبال کو، جو اس راز سے آشنا تھے، اکبر کے برخلاف یہ کہنا پڑا،

    آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

    منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

    اقبال نے جو یہ راز تاروں کی زندگی سے پا لیا تھا، اسے اکبر انسانوں کی زندگی سے بھی نہ پا سکے۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ وہ تبدیلی کو محسوس نہ کرتے ہوں۔ اس سلسلے میں ان کا رویہ یہ تھا کہ تبدیلی اندر سے ہونی چاہئے۔ وہ محکومیت کے دباؤ میں کسی تبدیلی کو قبول کرنے کے قائل نہ تھے۔ اسی لئے وہ آزادی کے مسئلے پر، ان لوگوں کے ساتھ تھے جو ملک میں مکمل سیاسی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں حکومت ان سے اس قدر زیادہ بدگمان ہو گئی تھی کہ اس نے ان کے پیچھے اپنی سی آڈی ڈی بھی لگا رکھی تھی۔ تہذیبوں میں تبدیلیاں کیوں کر پیدا ہوتی ہیں ؟ یہ ایک سماجیاتی عمل ہے۔ اس کو پوری طرح سمجھنے سمجھانے کے لئے وقت درکار ہے لیکن اتنا جاننا ضروری ہے کہ خارجی اثرات ہر تہذیب میں ملتے ہیں، کسی قوم کی کوئی تہذیب خالص نہیں ہوا کرتی، لیکن جب کسی تہذیب میں تبدیلی محکومی کی حالت میں ہوتی ہے تویہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون سی شئے حاکم قوم کی نقالی کی صورت میں آ رہی ہے اور کون سی تاریخی تمدنی ضرورت کے تحت۔

    چنانچہ اکبر کو تبدیلی سے اتنا بغض نہیں تھا جتنا مغرب کی اس اندھی تقلید سے، جس نے ہمارے معاشرے میں ایک مضحک صورت حال پیدا کرتی تھی۔ چنانچہ یہی سبب ہے کہ جہاں وہ طرز کہن پر اڑے ہوئے نظرٓتے ہیں، وہاں وہ مغرب کی ملوکیت اور ہماری غلامانہ ذہنیت کو بھی اپنے طرز کا نشانہ بناتے ہیں۔ اکبر یہ جنگ نقالی کے بجائے، ہمارے اندر تخلیقی قوتوں کو ابھارنے کی تھی۔ چنانچہ ان کی مذہب دوستی بھی ملا کی مذہب دوستی سے بالکل مختلف تھی،

    میرا مسلک کچھ جدا ہے شیخ کے اسلام سے

    یاں خدا سے کام ہے ان کو خدا کے نام سے

    اکبر کی جدوجہد مسلمانوں کو طوفان مغرب میں غرق ہونے سے بچانے اور انہیں اس خودی سے آشنا کرنے کی تھی جس کی تفسیر علامہ اقبال نے کی۔ یہاں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ علامہ اقبال کی ابتدائی دور کی شاعری پراکبر کی شاعری کا گہرا اثر تھا اور اقبال کا شاہین تو اکبر ہی کا عطیہ تھا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے