رجعت پسند ادب کیا ہے؟
رجعت پسند ادب کیا ہے؟ کی اس تعریف اس سے زیادہ مشکل ہے کہ ترقی پسند ادب کیا ہے۔ کیونکہ ترقی کاراستہ صرف ایک ہی ہوتا ہے اور پیچھے لوٹنے کی راہیں مختلف ہوتی ہیں۔
انسانی معاشرت کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ نئے اور پرانے کی جنگ ہردورمیں ہوتی رہی ہے۔ وہ قوتیں جونئے کی تعمیر میں حصہ لیتی ہیں انہیں ہم ترقی پسند کہتے ہیں۔ اس کے برعکس جو پرانی قدروں سے چمٹی رہنا چاہتی ہیں، جو نئے کو بڑھنے سے روکتی ہیں اور نئے اور پرانے کی کشمکش کا حل ماضی میں ڈھونڈتی ہیں انہیں ہم رجعت پسند کہتے ہیں۔ یوں کہنے میں تو یہ بات معمولی سی ہوتی ہے اور اس سے انکار کرنا ایک آدھ رجعت پسندوں کے لئے بھی مشکل ہے لیکن پھانس تو وہاں پڑ جاتی ہے جب ہم ایک مخصوص دور میں ترقی کی صورت متعین کرکے رجعت پسندی کی راہوں کا سراغ لگاتے ہیں، پھر تو کوتاہ آستینوں سے بھی بت جھڑنے لگتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ترقی اور رجعت کی راہوں کو کون متعین کرے۔ اس سوال کا طبقاتی سماج میں اٹھنا لازمی ہے۔ کیونکہ مرنے والا طبقہ خود اپنی زبان سے اپنی موت کو ترقی کا زینہ نہیں کہہ سکتا ہے۔ وہ اپنے محکوم بندوں کے تاریخی دعوؤں کی تردید ضرور کرےگا۔ وہ ان کے فلسفے اور نظریے کو جھٹلائےگا، ان کی ترقی کے راستے کو تخریب کا راستہ بتلائے گا۔ یہی وہ سبب ہے کہ ترقی اور رجعت کی نظریاتی جنگیں بھی لڑی جاتی ہیں۔ یہ لڑائیاں تو تو میں میں، کفروالحاد، بہتان اور جھوٹ کے الزامات ہی تک محدود نہیں رہتی ہیں بلکہ انسانی خون میں رنگ بھی جاتی ہیں۔
بظاہر دیکھنے میں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید کلیسا اور مسجد یا مندر اور مسجد کے گنبد ٹکراگئے ہیں۔ دو مختلف عقائد، یا خیال آپس میں گتھ گئے ہیں۔ دو تہذیبیں دست و گریباں ہو گئی ہیں، دو قومیں اپنے نسلی اور قومی امتیازات کا رجز پڑھ رہی ہیں لیکن حقیقت اس سے مختلف ہوتی ہے۔ یوں توان لڑائیوں کے جزوی بہت سے اسباب ڈھونڈے جا سکتے ہیں لیکن بنیادی سبب اقتصادی مفاد کا تحفظ ہوتا ہے اور یہ اقتصادی مفاد ہمیشہ طبقوں میں بٹا ہوتا ہے اس لئے رجعت اور ترقی دونوں ہی کا فلسفہ طبقاتی مفاد کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس چیز کو سمجھنے کے لئے مجرد قسم کا فلسفہ یہ خدمت انجام نہیں دے سکتا ہے۔ اسے صرف مثالوں ہی کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایسی مثالیں جو آپ کے زمانے کی ہوں، جو آپ کے ماحول اور گرد و پیش کی ہوں۔
پاکستان میں صرف ایک ہی ترقی پسند تحریک ہے۔ اس تحریک کے اغراض و مقاصد اور نصب العین متعین ہیں۔ اس تحریک کی طبقاتی بنیاد بھی ہے۔ لیکن اسی پاکستان میں رجعت پسندی کی بے شمار شکلیں ہیں۔ کوئی ہمیں اسلام کے نام پر ماضی کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے توکوئی اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کرتا ہے، کوئی ایک ملک اور ایک ملت کے نام پر بورژوا قومیت کا نام لیتا ہے تو کوئی امریکہ کی جمہوریت کا راستہ بتاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان تمام منازل سے آگے نکل کر فسطائیت کا حل پیش کرتے ہیں۔
یہ چیزیں رجعت پسند ہیں کہ نہیں، اس کا فیصلہ اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ آپ ان حلقوں کو جانچیں جہاں سے یہ نعرے اٹھائے جاتے ہیں۔ بات بڑی صاف سی ہے۔ ماضی کی طرف وہی طبقہ لوٹےگا جس کا کوئی مستقبل نہ ہو۔ مزدور کسان اور متوسط طبقے کے انسانوں کا مستقبل تو آج نصف کرہ ارض پر ماہ نوبن کر چمک رہا ہے۔ اس اجالے میں اندھیرے کی طرف وہی لوٹےگا جس کے کسی مخصوص مفاد پر چوٹ پڑ رہی ہو۔ بڑی پرانی مثل ہے، ’’گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔‘‘ اور اس چیز کا انہیں بھی علم ہے، پھر بھی وہ کف افسوس ملتے ہوئے گزرے ہوئے وقت کی طنابیں کھینچنے پر مصر ہیں تاکہ جاگیردارانہ نظام کی قدریں زندہ رہیں۔ عوام آگے نہ بڑھیں۔ پرانے سماجی رشتے برقرار رہیں اور ان کی ادارہ جاری محفوظ رہے اور ان چیزوں کے ساتھ ساتھ ان کی وہ عقائد ی اور جذباتی زندگی جو پرانی سماجی قدروں سے متعین ہو چکی ہے، متزلزل نہ ہونے پائے۔
بات اتنی ہی ہے، خواہ اسے لمبے چوڑے فلسفے کے ساتھ ہی کیوں نہ پیش کیا جائے۔ فلاطوں سے لے کر برگسان اور اسٹیین کے عینی فلسفوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ حقیقت کو مادی اور روحانی خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ مادی حقیقیت کو تغیر پذیر اور روحانی حقیقت کو غیر تغیر پذیر بتایا جاتا ہے۔ یہی دوئی زمانے کے حق میں بھی قائم کی جاتی ہے۔ گزرنے والے زمانہ کو زمان مکانی بتاتے ہیں اور نہ گزرنے والے زمانہ کو زمان لامکانی کہتے ہیں۔ علامہ اقبال اسی فلسفے کے ماتحت مادی حقیقت کو واپس لانے کے دعویدار نہیں ہیں بلکہ روحانی حقیقت کو واپس لانے کے۔ لیکن یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ زندہ انسانوں کی روح ان کے تن بدن سے جدا نہیں ہوتی ہے۔ پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ وہ روحانی قدریں جو ایک مخصوص قسم کے مادی معاشرے کا نتیجہ تھیں اور جو اس معاشرے کے خاتمے کے ساتھ اس کے جسم سے جدا ہو گئیں، اب پھر ایک نئے جسم اور ایک نئے معاشرے میں لوٹ سکیں۔ یہ آواگون میر ی سمجھ میں تو نہیں آتا ہے خواہ علامہ اقبال اسے تشکیل نو ہی کانام کیوں نہ دیں۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس کا احساس خود ان کے یہاں بھی موجود ہے اور جب انہیں اپنے اس خیال میں کچھ کھوٹ یا کچھ تضاد سا نظر آتا ہے (کیونکہ تاریخ کی حرکت اور مادے کے تغیر کو ماننے کے بعد تضاد کا محسوس کرنا لازمی ہے) تو وہ مشینوں پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ کیونکہ مشینی دور ہی نے سرمایہ اور محنت کے اس تضاد کو جنم دیا جو آج نہ صرف سرمایہ دارانہ نظام ہی کے درپے ہے بلکہ طبقاتی نظام اور استحصال کی بنیاد ہی کو ختم کرنا چاہتا ہے اور طبقاتی نظام کی بنیاد کے ختم ہونے کے امکانات تو اسی وقت پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ آپ مادی اور روحانی قدروں کا باہمی رشتہ ڈھونڈیں۔ اوران کی بدلتی ہوئی تصویر کو مادی تاریخی ارتقا کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ حاکم کے سر پر ظل سبحانی کا چترنہ لگائیں، سماجی رشتوں کو ربانی شریعت سے متعین نہ کریں۔
سماجی علت و معلول کے تسلسل کو جو مادی ہیں، غیر سماجی اور غیر مادی علت پر ختم نہ کریں۔ تاریخی محرکات کا سبب تصورات کو نہ ٹھہرائیں۔ سماجی اسباب کو اور تاریخی ارتقا کو خیال کا ارتقا نہ سمجھیں بلکہ انسانوں کی زندگی کا ارتقا سمجھیں۔ کیونکہ ارتقا کے عینی تصورات انسانوں کو اپنی تاریخ بنانے میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ اسے سماجی اسباب پر حاکمانہ اقتدار حاصل کرنے سے روکتے ہیں۔ ابن آدم کی روح پر گناہ اولین کا سایہ ڈالے رہتے ہیں۔ وہ نزول آدم کو استغفار کی منزل سمجھتا ہے۔ اپنی زمینی زندگی کا سفر بنا دیتا ہے اور اگر وہ مادی زندگی کی طرف متوجہ بھی ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو، وہ بھی تومادے ہی سے بناہے تو وہ مادی زندگی کو روحانی زندگی کے لئے صرف ایک ذریعے کی طرح استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ مادی زندگی کے ذریعے کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ جس کا اقتدار حیات کے خزانے پر ہو، جس کا اقتدار ذرائع پیداوار پر ہو۔
آج پاکستان کے بہت سے ادبی حلقے اسی روحانی فلسفے کے شکار ہیں۔ ممکن ہے کہ ان حلقوں کے افراد سرمایہ دار، جاگیردارنہ ہوں لیکن ان کی اپنی اس محرومی سے اس فلسفے کی طبقاتی بنیاد میں کوئی کمزوری نہیں آتی ہے۔ یہ فلسفہ انسانی محنت کے لوٹنے والے حاکم طبقے کا فلسفہ ہے۔ یہ محکوموں کو بھرپور طاقت کے ساتھ ابھرنے سے روکتاہے۔ یہ روحانیت کے نام پر پرانے سماجی رشتوں کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اور جس حد تک اس فلسفے میں قوت حاصل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اس کا مقصد رجعت پسندی اور طبقاتی مفاد کو مضبوط کرنے کا ہوتا ہے۔ اس فلسفے کی مخالفت ادب اور زندگی میں بڑی شدت کے ساتھ کرنی چاہئے کیونکہ یہ فلسفہ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کی بنیاد کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور اگر یہ فلسفہ سرمایہ داری کی مخالفت کرتا ہے تو اس کا مقصد تاریخ کے اس دور کی طرف لوٹنے کا ہوتا ہے جبکہ سرمایہ دار اور مزدور کا تضاد نہ تھا۔
یہ فلسفہ سرمایہ اور محنت کے تضاد کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ یہ تاریخی تضاد کو آگے بڑھاکر مستقبل میں حل ڈھونڈنے کے بجائے تاریخ کو پیچھے لے جانا چاہتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کی مخالفت اس لئے بھی کرتا ہے کہ سرمایہ داری نے اپنے عروج اور شباب کے زمانے میں مادی علوم کے بڑھنے میں مدد کی ہے اور مادیت کا پرچار کیا ہے۔ اس نے انسانی وجود کو حیاتیاتی ارتقا کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ اس نے انسانی معاشرے کے طبقاتی تضاد کو ابھارکر اس بات کا موقع دیا کہ ہم تاریخی ارتقا کے مادی اسباب کا پتہ چلا سکیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ سرمایہ داری نے تقدیر کی حکومت کے اٹھ جانے کا موقع خود بہم پہنچایا ہے کیونکہ تقدیر کی حکومت اس وقت تک نہیں اٹھ سکتی تھی جبب تک کہ ماحول پر قابو پانے کی صلاحیت نہ ہو۔
یہ صلاحیت سائنس اور مادی علوم نے بہم پہنچائی ہے۔ یہ صلاحیت و یو پیکر مشینوں کے دھڑکتے ہوئے سینے میں ہے۔ یہ صلاحیت، ایٹم کے جگر میں ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ روحانی فلسفہ پاکستان کے سرمایہ داروں کے لئے بھی قابل قبول ہے۔ وہ بھی مقدر پرستی اور احیائی میلانات کی تعلیم دے رہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان کے سرمایہ دار سرمایہ داری کے بڑھاپے کی اولاد ہیں۔ چنانچہ ان کے حصے میں فلسفہ، حکمت اور تعلیم تو درکنار زیادہ دولت بھی ہاتھ نہ آئی۔ وہ اپنے چھوٹے موٹے سرمایہ کے باوجود زیادہ تر دلالی کا کام انجام دے رہے ہیں۔ خواہ وہ دلالی بدیسی سامراج کی ہو یا جاگیرداروں کی اور جب ترقی پسند قوتیں ان کے اس مذموم پیشے پر حملہ کرتی ہیں، سامراجی نظام پرحملہ کرتی ہیں تو وہ سامراج سے گٹھ جوڑ کرکے انہیں دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی ان رجعت پسند کوششوں پر بدیسی سامراج سے اجرت کے طالب ہوتے ہیں۔
بالکل یہی تصویر آپ کو یہاں کے ان رجعت پسند ادیبوں کی تحریروں میں ملےگی جو کبھی سرمایہ داری کی معذرت خواہی میں اشراکیت کی مخالفت بورژوا قدروں کے نظریے سے کرتے ہیں تو کبھی اشتراکیت کی مخالفت مذہبی قدروں کے نظریے سے کرتے ہیں۔ کیونکہ آج جاگیردار اور سرمایہ دار دونوں ہی کو خطرہ صرف مزدور طبقے ہی سے ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں صرف یہی طبقہ اس قابل ہے کہ استحصال کی بنیادوں کو ختم کرکے تمام محنت کش انسانوں کو آزاد کرائے۔
پاکستان میں رجعت پسندی کی ایک بڑی واضح صورت ہے۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رجعت پسندی کی تمام گلیاں احیائی میلان کی شاہراہ سے ملتی جا رہی ہیں۔ لیکن رجعت پسندی کچھ انہیں صورتوں میں آکر دم نہیں توڑ لیتی۔ مغرب میں جہاں صرف سرمایہ داری کا دور دورہ ہے، جہاں جاگیردارانہ نظام کے عقائد کے خلاف سرمایہ داری نے بہت کچھ جہاد کیا ہے، وہاں رجعت پسندی آج نت نئے انداز میں سر اٹھا رہی ہے۔ اس مغربی رجعت پسندی کو سمجھنے کے لئے تھوڑے سے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
سرمایہ داری کی بحرانی زندگی ۱۸۲۵ء سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ سال ہے جبکہ سرمایہ داری ایک عالم گیر قسم کے اقتصادی بحران میں گھر جاتی ہے۔ اسی سال کے بعد سے یہ نظام اقتصادی بحران کے دورے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ۱۸۲۸ء میں فرانس میں مزدوروں کی منظم جماعت سرمایہ داروں سے مورچہ لینا شروع کر دیتی ہے۔ یہی وہ ابتدائی جنگ تھی جو ۱۸۲۸ء میں یورپ کے تمام ملکوں میں مزدوروں کی انقلابی جدوجہد کی صورت میں نمودار ہوئی۔ لیکن مزدوروں کا انقلاب ناکامیاب رہا کیونکہ مزدوروں کی قیادت پیٹی بورژوا طبقے کے ہاتھ میں تھی۔ مزدوروں کی انقلابی جدوجہد اور انقلاب کی ناکامی دونوں ہی کا اثر نہ صرف فرانس ہی کے ادب پر پڑا، بلکہ پورے یورپ کے ادب پر پڑا ہے۔ اس زمانے سے پہلے ڈیڑھ سو سال کے ادب کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ اس کا تعلق سماجی زندگی سے بہت گہرا تھا۔
ادب اور سماج کے اس رشتے خود بورژدا مفکرین نے متعین کیا تھا۔ کیونکہ اس وقت بورژدا طبقہ اپنے تاریخی دعوے کے ساتھ جاگیر دارانہ نظام کے جنگ کر رہا تھا۔ اور وہ یہ جنگ اس وقت تک نہیں کر سکتا تھا جب تک کہ وہ انسانی شعور کو بیدار نہ کرے۔ ادب کو زندگی سے قریب نہ لائے، اسے جد وجہد کا آئینہ نہ بنائے۔ چنانچہ بالخصوص کلاسکی حقیقت نگاری کے دور کا ادب اس وقت کی سماجی زندگی کا آئینہ بنار ہا ہے۔ اس نے انسا ن کو نہ صرف اس کے ماحول میں پیش کیا ہے۔ بلکہ ماحول کو اس کی فطرت پر اثر انداز ہوتے بھی دکھایا ہے۔ لیکن جس وقت سے مزدور طبقہ بورژوا طبقے کے خلاف منظم جنگ کرنے لگا، بورژدا طبقہ اپنے اس ادبی نظرئے سے پیچھے ہٹتا گیا۔ وہ ادب کو اپنے سماجی زندگی سے الگ کرنے لگا۔ ادب برائے ادب کی تحریک اسی کوشش کا نتیجہ تھی۔ لیکن سماجی زندگی سے بہ یک وقت گریز کرنا ادیبوں کے لئے ممکن نہ تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ عام محنت کش انسانوں سے دور ہو کر اپنے کو بورژ دا طبقے تک محدود کر سکتے تھے۔
چنانچہ شروع شروع میں یہی ہوا اور انہوں نے بڑی جرات کے ساتھ پورژا طبقے کو بے نقاب بھی کیا ہے لیکن جس حد تک ان کا اعتماد مزدور تحریک اور عام محنت کش انسانوں کی جد و جہد میں کمزور ہوتا گیا، ان کی زندگی میں مجہولیت، فراریت، ناامیدی اور عوام دشمنی کا جذبہ بیدار ہوتا گیا اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب مستقبل کا نشاط انگیز تصور کمزور ہو جاتا ہے، جب عوامی طاقتوں سے اعتما د اٹھ جاتا ہے تو بجز خودکشی کرنے اور نراجیت پھیلانے کے کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا ہے۔ فرانس میں ادب برائے ادب کی تحریک انیسویں صدی کے اواخر میں انہیں خیالات کے ماتحت پروان چڑھتی رہی۔ بالآخر 1890 کے بعد نئے ادیبوں کی نفسیات اس قدر مریض ہو جاتی ہے کہ اپنی زندگی سے مکمل نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
میں اس سلسلے میں پال دلیری کی تحریر سے ایک مختصر سا اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ’’تاثرات اور اظہار کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج ہے۔ مجھ میں اس چیز کے سمجھنے اور اس سے محظوظ ہونے کی مکمل صلاحیت ہے جس کے بیان پر مجھے اقتدار نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ناول میں کرداروں کی تخلیق کیسے ہوتی ہے۔ ناول نگار زندگی پیش کرتے ہیں اور میرا مقصد زندگی کو خارج کرنے کا ہے۔ میرا یہ مخصوص زاویہ نظر، ناول، تاریخ، سیاست کسی بھی شے کے بارے میں معقول نظریہ قائم کرنے میں حائل ہوتا ہے۔‘‘
تقریبا یہی فلسفہ انگلستاں میں آسکر وائلڈ کا تھا جو فرانس کے انحطاطی ادیبوں سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ لیکن ادب برائے ادب تو ایک حربہ تھا رجعت پسند خیالات کی تبلیغ کا، چنانچہ اسی حقیقت کو چھپانے کے لئے انہوں نے اپنے اظہار کو زیادہ سے زیاہ مشکل بنانے کی بھی کوشش ہے۔ جو صفائی فلابیر کے اسلوب میں ہے وہ 1890کے انحطاطیوں میں نہیں کیونکہ فلابیر نے اپنے کو صرف بورژوا طبقے تک محدود کر لیا تھا۔ اس نے زندگی کو بالکل خارج کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ لیکن یہ بات ملارمی اور پال دلیری کے یہاں نہیں ہے۔ کیونکہ وہ زندگی سے گریز کر کے، اپنے خارجی ماحول سے گریز کرکے صرف ذہنی دنیا کی نامعلوم بستی کی سیر کرانا چاہتے تھے۔ چنانچہ ان کی شاعری خوابوں کے رموز کی شاعری بن کر رہ گئی، یہ رمزیہ شاعری، مریض احساسات، عالم خواب اور جنون کی شاعری پورے یورپ پر چھا گئی۔ یہ چیز شاعر ہی تک محدود نہیں رہی بلکہ زندگی سے گریز کرنے کی کوشش ناولوں میں بھی نمودار ہوئی۔ چنانچہ 1901میں جیمس جوائس نے ایک مختصر سے پمفلٹ میں لکھا کہ کہ کوئی بھی آدمی اس وقت تک صداقت اور خیر کا عاشق نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ عوام سے نفرت نہ کرے۔ اور فنکار باوجود اس بات کے کہ وہ عوام کو استعمال کر سکتا ہے اپنے کو ہمیشہ ان سے الگ ہی رکھتا ہے۔
عوام سے نفرت کرنے کا جذبہ، ادب کو مریض احساسات اور تصورات تک محدود رکھنے کا جذبہ، ادب کو زندگی کی تمام تخلیقی قوتوں سے منقطع کر کے اسے عالم خواب میں لے جانے کی کوشش بورژ وا طبقے کے لئے بے معنی نہ تھی کیونکہ یہ زمانہ بورژوا طبقے کے لئے ایک ایسا زمانہ تھا جبکہ وہ اپنے جسمانی عیش و راحت سے اکتا چکا تھا۔ وہ حسن کی تلاش میں تھا، روح کی تلاش میں تھا۔ اور یہ دونوں چیزیں خارجی دنیا میں اس کے لئے بے معنی تھیں۔ کیونکہ حسن کی دیوی خون آشام بھتنی بن چکی تھی۔ اور روح بال روم کے عشق میں مبتلا تھی۔ اب اسے خواب دیکھنے کی ضرورت تھی، عالم بالا کی سیر کرنے کی ضر ورت تھی۔ وہ خارجی دنیامیں خودکشی کرنے کے بعد اب اپنی باطنی دنیا میں پناہ لینا چاہتا تھا۔ کیونکہ اس کا اپنا یہ ذاتی تجربہ تھا کہ اس نے خارجی ماحول کی تخلیق میں کیا کچھ نہیں کیا، پھر بھی وہ حیوان ہی رہا۔ یہی احساس نفسیاتی کرب میں مبتلا کر کے اسے مابعد الطبیعاتی دنیا کی طر ف راجع کرتا ہے۔
لیکن قبل اس کے کہ وہ اس دنیا کی طرف پرواز کرے ابھی اسے چند اور منزلوں سے گزرنا تھا۔ اس زمانے کو آپ آسانی کی خاطر جنگ عظیم کے دو چار برس پہلے کا زمانہ کہہ سکتے ہیں۔ اسی زمانے میں فرائیڈ نے بورژوا اور متوسط طبقے کی نفسیات کا فلسفہ بھی پیش کیا۔ یہاں چونکہ فرائیڈ کے فلسفے کا مکمل تبصرہ مقصود نہیں ہے، اس لئے میں صرف ان کلیات کو پیش کروں گا جس کا اثر براہ راست ادب پڑا ہے۔ فرائیڈ نے معاشی محرکات کی جگہ جنسی جذبے کو زندگی کی جدو جہد میں ودیعت کیا، اور اس جذبے کو تمام سماجی مظاہر کی بنیاد بتایا۔ چنانچہ انسانی جد وجہد کی پوری تاریخ فرائیڈ کے ہاتھوں جنسی جذبے کی جدو جہد کی تاریخ بن جاتی ہے لیکن جد وجہد کے الفاظ تو مخالف قوتوں سے متصادم ہونے کے مفہو م کو بھی چھپائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ فرائیڈ کے یہاں یہ تصادم جنسی جذبے اور تہذیب کے تصادم میں ظاہر ہوتا ہے۔
فرائیڈ کا جنسی جذبہ جبلت کی سطح پر اپنی زندگی کا اظہار چاہتا ہے لیکن تہذیب اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے کیونکہ تہذیب کا ایک کام ایک نئی فطرت کی تعمیر کا بھی ہے۔ انسان نے تہذیب ہی کی مدد سے اپنی فطرت پر قابو پایا ہے، اور اسے بدلتا رہتا ہے۔ چونکہ فرائیڈ کو اس نظریے سے انکار ہے اس لئے اس کا جنسی جذبہ تہذیبی قوتوں سے بر سر پیکار رہتا ہے۔
فرائیڈ کے اس فلسفے نے جہاں ادب میں رجعت پسندی کی بے شمار راہیں کھولیں، فسطائیت کی درندگی کے لئے ایک منطقی جو از بھی پیدا کیا۔ فسطائیت کی یہ کوشش ہے کہ وہ انسان کو جذباتی میلانات کا شاہکار بنائے، جنگ و جدال اور نسلی عصبیتوں کو انسان کی ازلی اور ابدی فطرت بتائے، تہذیب و تمدن، سائنس، علم و حکمت کو عقل کی ناپائیدار کا رستانیاں بتائے۔ اسے حسن اتفاق سمجھئے کہ نازی حکومت نے فرائیڈ کو اس کے ملک سے جلاوطن کر دیا، لیکن فرائیڈ کا فلسفہ ڈی ایچ لارنس کے ہاتھوں فسطائیت کی جڑوں کو مضبوط کرتا رہا۔ ڈی ایچ لرنس نے فرائیڈ کے فلسفہ کو صرف اپنے نالوں میں نہیں برتا ہے بلکہ عملی طور سے اس فلسفے پر عمل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ وہ تہذیب اور تمدن سے بھاگ کر میکسیکو میں ریڈانڈینوں کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگا تھا۔
لیکن یہ تو فرائیڈ کے فلسفے کا صرف ایک جزو ہوا۔ اس کی سب سے بڑی دریافت تو لاشعوری کی دنیا کی ہے۔ فرائیڈ کے یہاں لاشعور کی دنیا شعو رکی دنیا سے بالکل الگ ہے۔ یہ دنیا تہذیب و تمدن کے مراسلات کی دنیا نہیں ہے۔ یہ دنیا جنسی جذبے کے جبلی میلانات کی دنیا ہے، یہاں ہر بات پر اسرار اور عجیب الخلقت ہوتی ہے، لاشعور کی دنیا جنسی جذبے کے ایک ایسے ڈرامے کی دنیا ہے جس کا ہر کردار ایک رمز، جس کا ہر منظر ایک داستان عشق ہوتا ہے۔ چنانچہ جب یہ ڈرامہ بذریعہ حافظہ شعور کی دنیا میں منتقل ہوتا ہے تو یہ اپنی اصلی کہانی کھو دیتا ہے موجودہ دور میں لاشعور نگاری کی مختلف تحریکیں اس فلسفے سے فیض حاصل کرتی رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ فلسفہ کیوں رجعت پسند ہے۔
اس کا جواب بڑا ہی سادہ ہے۔ ادب ایک شعوری تخلیق ہے، اس کے خام مسالے کو وہ خارجی دنیا سے اپنی ذہنی قوتوں سے حاصل کرتا ہے۔ ادب داخلی بن کر پھر خارجی ہو جا تا ہے۔ کوئی بھی ادبی تخلیق خارجی سے ماورا تصورات کی مصوری کر ہی نہیں سکتی ہے۔ چنانچہ جب کوئی فن کار لاشعور کی رمزیہ داستان کو پیش کرتا ہے تو وہ جان بوجھ کر کھلی ہوئی حقیقت کو توڑ مروڑ کر عجیب الخلقت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ فلسفہ سرمایہ دار طبقے کے لئے بہت مفید ثابت ہوا ہے، کیونکہ اس کی سب سے بڑی کوشش یہی رہی ہے کہ وہ حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کرے، ایسی صورت اور ایسے اسالیب میں پیش کرے کہ ان کا پہچاننا اور سمجھنا مشکل ہو جائے اور حقیقت سے گریز کر کے باطنی دنیا کا ایک ایسا افسانہ پیش کرے جس کی تمام تصوریں الٹی سیدھی اور حیران کن ہوں۔
یہ بات میں کچھ اپنی ہی طرف سے نہیں کر رہا ہوں۔ اس کا اقرار خود لاشعور نگاروں نے کیا ہے۔ چنانچہ اندرے بریٹن اور ہربرٹ ریڈ دونوں نے ہی لاشعور نگاری کی تعریف اس طرح کی ہے کہ سرریلزم کا کام انتشار کو حیرت میں تبدیل کر دینا ہے۔ یہ انتشار بورژوا نظام کا ہے جسے وہ تماشئہ حیرت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ اس انتشار کے اسباب خارجی دنیا میں ڈھونڈھے نہ جا سکیں، اس انتشار کی صورت کو پہچانا نہ جا سکے۔ اس کی اصلی کہانی کا راز معلوم نہ ہو سکے۔
یہ فلسفہ دوسری جنگ عظیم کے زمانے تک ایسی بری طرح تمام سرمایہ دارانہ ملکوں میں پھیلا کہ بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ سارے ادیبو ں کو فرائیڈ کا ہسٹریا ہو گیا۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں جب ترقی پسند قوتوں نے اس کہن سالہ قحبہ (یعنی سرمایہ دارانہ نظام) کو شدید صدمہ پہنچایا تو ہسٹریا کا دورہ کسی قدر کم ہو گیا۔ کیونکہ ہسٹریا کا ایک علاج طمانچہ بھی ہے۔ اس لئے اس دور میں اب انتشار حیرت افزا نہیں رہا ہے۔ اب لا شعور میں چوہے نہیں کودتے ہیں۔ اب تو ایک دوسرا ہی فلسفہ تیار کیا جا رہا ہے، وہ نیا فلسفہ کلیسائی اور مذہبی عقاید کی طرف لوٹنے کا ہے۔ مزدور وں کے سماجی اور طبقاتی شعور کے ڈھانے کا ہے۔ انسانی عظمت اور اس کی ترقی کی داستان کو پوچ ثابت کرنے کا ہے۔ اس لئے فلسفے کا مقصد مقدر پرستی کی ترویج ہے۔
سومرسٹ مام، ٹی ایس ایلٹ، ازراپائونڈ، اندرے مارلو، سارتر وغیرہ اسی فلسفے کی تبلیغ کر رہے ہیں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو چونکہ یہ بات معلوم ہے کہ اب یہ فلسفہ چلنے کا نہیں ہے۔ چڑھتے ہوئے سیلاب کے مقابلے میں صرف بے عملی پھیلانے ہی سے تو کام نہیں چل سکتا ہے، اس لئے اس کے تدارک اور روک تھام کی صورتیں نکالنی چاہیں۔ چنانچہ ہیگ اور پیرس میں یورپ کے متحدہ ممالک کی جو کانفرنسیں ہوئیں، ان میں ایک مشترکہ خطرہ کے مقابلے میں ملکی آزادی اور حب الوطنی کو ڈالر کے عوض میں بیچنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ کانفرنسیں مسٹر چرچل اور مسٹر بلوم کی صدارتوں میں ہوئیں۔ ان کانفرنسوں میں بہت سے ادیبوں نے بھی شرکت کی۔ چنانچہ آندرے مارلو کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سیاسی سازش کا کچھ تو عکس ادبی تحریک میں ملنا چاہئے، چنانچہ آج بڑے زور وشور سے پین یو ر پیزم اور کا سماپولٹینزم کے فلسفے کی تبلیغ کر رہے ہیں۔
یہ ایک نئی بیداری اور ایک نئی تنظیم اسی لئے وجود میں لائی گئی ہے تاکہ ملکی آزادی اور حب الوطنی کو بیچ کر عوامی طاقتوں کے خلاف جنگ کی جائے اور اگر ممکن ہو تو انسانوں کو قرون وسطی کے دور میں واپس لایا جائے تاکہ فسطائی مظالم قائم کرنے کا جواز مل سکے۔ اب اس متن میں دیکھئے کہ اندر مارلو کیا چاہتا ہے۔ وہ ایک تقریر میں لکھتا ہے کہ ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یورپ کی قدریں ترقی اور عقلیت کی قدریں نہیں ہیں۔ مغرب کی طاقت پر اسرار قوتوں کو قبول کرنے میں ہے۔
یہاں بھی آپ وہی چیز دیکھتے ہیں، رجعت پسندی کی بے شمار سڑکیں، احیائی میلان کی شاہر اہ میں ملتی جارہی ہیں، سائنس اور ترقی سے منہ موڑ کر کلیسائی عقیدوں کا دامن پکڑ ا جا رہا ہے، مستقبل سے گریز کر کے ماضی کے غار میں پناہ لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ آج ترقی کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور وہ راستہ آگے بڑھنے کا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو آگے بڑھنا نہیں چاہتا۔ خواہ وہ حقیقت کو کتنا ہی توڑ مروڑ کر کیوں نہ پیش کرے، کتنے ہی الجھا دے اور طبقاتی بیچ بچاؤ کی باتیں کیو ں نہ کرے، پیچھے مڑکر دیکھنے کے لئے مجبور ہے۔ یہ مختصر سا تاریخی خاکہ میں نے اس لئے پیش کر دیا ہے کہ آپ رجعت پسندی کو سیاسی اسباب اور طبقاتی مفاد کی روشنی میں دیکھ سکیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ طبقاتی نظام میں ادبی مورچے پر ترقی پسندی اور رجعت پسندی کی کشمکش کیونکر چلتی ہے، نئے اور پرانے کی جنگ کیونکر ہوتی ہے۔ ابھرنے والاطبقہ مرنے والے طبقے کے خلاف کیونکر جنگ کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ ہماری نظر میں ترقی کا مفہوم سماجی ہے۔ ہم یہ دیکھنے کی پہلے کوشش کرتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کو بہتر بنانے میں کس حد تک ذرائع پیداوار کو ترقی دی ہے۔ پیداوار کو کتنا بڑھایا ہے اور اسے کس طرح سماج میں منظم کیا ہے۔ انسان کی یہی جدوجہد تہذیب وتمدن اور کلچر کے وسائل کونہ صرف وسیع کرتی ہے بلکہ انہیں عوام کی ملکیت بھی بناتی ہے۔ کیونکہ یہ انسان کی محنت ہی ہے جو کلچرکی قدروں کو جنم دیتی ہے، خواہ وہ محنت غلام کی ہو، کسان کی ہو یا مزدور کی ہو۔ یہی محنت کش حکمران طبقے کو پیداوار کی محنت سے آزاد کرکے اس بات کا موقع دیتے ہیں کہ وہ تہذیب اور تمدن کی بلندعمارت کو کھڑا کر سکے۔ حکمران طبقہ قانون وضع کرتا، اسٹیٹ کی مشینری کو قائم کرتا ہے۔ فلسفے اور ادب کی تخلیق اور ان کی ترویج کرتا ہے۔
جس حد تک یہ تمدنی کوششیں کلچر کی بنیادی طاقتو ں کو مستحکم کرتی ہیں اور ذرائع پیداوار کو ٹیکنیکل اعتبار سے آگے بڑھاتی ہیں، پیداوار کی قلت اور بدنظمی کو دور کرتی ہیں، کلچرنہ صرف ترقی پاتا رہتا ہے بلکہ اس کی قدریں محنت کش انسانوں کے قریب بھی پہنچتی ہیں۔ لیکن جس حدتک یہ تمدنی کوششیں کلچر کی بنیادی طاقتوں کو مستحکم نہیں کرتی ہیں، ذرائع پیداوار کو آگے نہیں بڑھاتی ہیں، پیداوار کی قلت اور بدنظمی کو دور نہیں کرتی ہیں، اس کی قدریں نہ صرف محنت کش انسانوں سے دور رہتی ہیں بلکہ سماجی ترقی میں سدباب بن جاتی ہیں، انسانی آزادی کو وسیع کرنے کے بجائے انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور جس حد تک محنت کش عوام اس رکاوٹ، اس بدنظمی کے خلاف جنگ کرتے ہیں، حکمران طبقے کا کلچر نت نئے روپ سے انہیں مفلوج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
کیونکہ تمدنی وسائل پر اقتدار رکھنے کے باعث وہ اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ جس طرح چاہے خارجی حقائق کی تعبیر کرے اور انہیں عام انسانوں کے درمیان پھیلائے۔ یہ تمام چیزیں شعوری ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ غیرشعوری بھی ہوتی ہیں۔ کیونکہ انسانی ذہن جن قدروں کو صداقت سمجھ کر قبول کر لیتا ہے، انہیں قدروں کے معیار پر وہ خارجی حقائق کی بدلتی یا بگڑتی ہوئی صورتوں کے بارے میں اپنا فیصلہ بھی صادر کرتا رہتا ہے۔
ہم ترقی اور رجعت کے انہی اصول پر کلچر کی اعلیٰ سے اعلیٰ قدریں، لطیف سے لطیف خیالات، پیچیدہ سے پیچیدہ فلسفے اور حسین سے حسین ادب کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہمارا یہ سائنسی نظریہ ماضی کے تمام کلچر اور ادب کو ایک قلم مسترد نہیں کر سکتا ہے۔ ہمارا نقطہ نظر صرف تنقیدی ہوتا ہے، ہم رجعت پرست چیزوں کو مسترد کر دیتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کے ترقی کے دورہی میں کیوں نہ پیش کی گئی ہوں اور ہم ترقی پسند چیزوں کو قبول کرکے ایک نئے امتزاج کی طرف آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ تو ہماری جانچ پڑتال کا ایک بنیادی اصول ہوا۔ لیکن ترقی اور رجعت کی تمام راہوں کو پہچاننے کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔ کیونکہ انسانی تاریخ بڑی پیچیدہ اور متضاد صورتوں میں حرکت کرتی رہی ہے۔ اس نے غلامی، تعطل اور جمود کے قلعے میں عجیب غریب عنوان سے رخنے پیدا کئے ہیں۔ یہی ضرورت مزید وضاحت کے لئے مجبور کر رہی ہے۔
انسان اپنی زندگی کے ابتدائی دنوں سے سماجی کوششوں کے ذریعے قانون فطرت کو سمجھنے اور فطرت کی طاقتوں پر تصرف حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا آیا ہے۔ کیونکہ انسان ہی ایک ایسا ذی روح نوع ہے جو اپنے رزق کا خالق بھی بناہے اور یہ خالق اس وقت تک نہیں بن سکتا تھا جب تک کہ اسے تخلیق کاعلم نہ ہو، اشیا کی ہیئت اور اس کے تغیر و تبدل کا رازنہ جانتا ہو۔ انسان کی اس جدوجہد نے مادی علوم اور سماجی علوم کو فروغ دیا ہے اور وہ ان سب چیزوں کو عملی تجربوں سے سیکھتا رہا ہے، اس لئے صرف وہی علم تخلیقی علم اور سائنس کا رتبہ اختیار کر سکتا ہے جوعمل کی کسوٹی پر پورا اتر سکے۔ ایسے تمام وجدانی، وہمی، قیاسی اور گیانی علم جو اپنی صداقت کو عمل کے میدان میں منوا نہیں سکتے ہیں، جو انسانی تجربوں کی حدود سے باہر ہیں، علم کے میدان سے خارج ہیں۔ قانون فطرت کے سمجھنے کے صرف ایک ہی معنی ہیں کہ ہم اس کے قوانین کے ماتحت انسانی عمل و حرکت کے ذریعے خاطر خواہ نتیجے مرتب کرسکیں۔ یہ ممکن ہے کہ ہم بہ یک وقت خاطر خواہ نتیجے مرتب کر سکیں لیکن جس حد تک ہم اس منزل سے قریب ہوتے جاتے ہیں وہ علم پختہ تر ہوتا جاتا ہے۔
چونکہ ہم نے یہ تمام علوم زندگی کے تجربوں اور علم سے حاصل کئے ہیں، اس لئے ہمارے علوم کے ذرائع مادی حواس ہیں جو ایک مادی دماغ کی مشینری کے تابع ہیں۔ ان ذرائع کے علاوہ ہمارے پاس علم کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اگر ہمارا ادب اپنی تاریخی منزل کے مطابق ادراک و فہم کے ان ذرائع سے قریب نہیں ہے تو وہ باطل اور رجعت پسند ہے۔ اگر ہمارا ادب اپنے وقت کی مادی جستجو اور مادی علوم کے مخالف ہے تو وہ رجعت پسند ہے۔ اگر ہمارا ادب قانون فطرت کو انسانی فہم و ادراک سے ماورا بتاتا ہے تو وہ رجعت پسند ہے۔ اگر وہ انسان کو اپنی تخلیقی قوتوں میں مجبور محض ثابت کرتا ہے تو وہ رجعت پسند ہے۔ اگر ہمارا ادب ایک مخصوص عہد کے معاشرتی قانون کو ازلی اور ابدی ثابت کرکے انسانوں کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے تو وہ رجعت پسند ہے۔
یہ تمام کلیے پہلے سے نہیں گڑھے گئے ہیں۔ یہ صرف عملی تنقید کے بعد ہی وجود میں آئے ہیں، لیکن ان کا صحیح اطلاق اس وقت تک نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ ہم ایک مخصوص دور کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات کا جائزہ نہ لیں۔ فکری جدوجہد کی مادی اور طبقاتی بنیادوں کونہ جانچیں۔ نئے اور پرانی قوتوں کو متعین نہ کریں۔ کیونکہ ماضی کی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو آج بے معنی ہو چکی ہیں اور جن کا عملی اعادہ رجعت پسندی ہے۔ لیکن اپنے وقت میں ترقی کی قوتوں کا ساتھ دے چکی ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ انہوں نے ترقی کی قوتوں کا مکمل طور پر ساتھ دیا ہے۔ وہ اکثر متضاد میلانات کے ساتھ بھی مدد کرتی رہی ہیں۔ ڈارون کے ایسا مادی مفکر بھی بورژوا مفکرین کی غیبت سے آزاد نہ ہو سکا۔ تاریخ کی یہ پیچیدگیاں ایسی ہیں کہ ہمیں بے انتہا محتاط اور ناقدانہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اس تنقیدی نقطہ نگاہ کا محور انسان کی آزادی، اس کے اپنے ماحول کی غلامی سے آزادی، اقلیم ضرورت سے اقلیم آزادی کی طرف جست لینے کا محور ہے۔
ہر دور کے ادیب نے انسانوں ہی کے بارے میں لکھا ہے۔ لیکن اگراس نے اس انداز سے نہیں لکھا کہ اس کی آزادی کے حدود وسیع ہوں، اس کی زندگی کامراں ہو، اس کی تخلیقی قوتیں بیدار ہوں بلکہ اس انداز سے لکھا ہے کہ اس کی غلامی برقرار رہے، اس کی تخلیقی قوتیں مفلوج رہیں، اس کی زندگی کی جدوجہد ناتوانی اور پشیمانی کا شکار ہوکر رہ جائے اور محنت کا زرین پسینہ عرق انفعال بن کر اس کے مغرور سر کو جذبہ عبدیت میں جھکا دے تو یہ کہنا پڑےگا کہ وہ ادب ترقی پسند نہیں ہو سکتا ہے۔ خواہ ماحول کی مجبوریاں کتنی ہی پرزور سفار ش کیوں نہ کریں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ ادب ایک ایسے تاریک ماحول کا ہو، جبکہ مادی علوم پر پہرے بٹھا دیے گئے ہوں اور حکمران طبقے نے مسلسل محکوموں کے سر کو جھکائے ہی رکھنے کی کوشش کی ہو تو ہمارا نظریہ کیا ہونا چاہئے۔ اس کا جواب بہت ہی واضح ہے۔ انسانی سماج کبھی بھی جامد و ساکت نہیں رہا ہے اورنہ رہ سکتا ہے۔ ایسا ہوا ہے کہ ترقی کی قوتیں بہت ہی کمزور اور سست رفتار ہو گئی ہیں۔ تاریکی نے ماحول کو مغلوب کر لیا ہے۔ پھر بھی انسان ترقی کی طرف رینگتا ہی رہا ہے، خواہ اس نے یہ ترقی کا سمت انکار ہی کے راستے اختیار کیوں نہ کیا ہو۔ یورپ اور ایشیا دونوں ہی کی تاریخ میں ایسے ادوار آئے ہیں جبکہ پرانا نظام اور اس کو قائم رکھنے والا حکمران طبقہ انحطاط، عفونت اور تاریکی کی منزلوں میں سڑتا گلتا رہا ہے، لیکن وہ نئی قوت جو اس نظام کوختم کرکے نیا نظام اورنئی قدریں اس وقت لا سکیں، وجود میں نہیں آئی ہیں۔
ایسی صورت میں اس تاریکی کو صرف چیرنے کی کوشش، اس منحوس قلعے کو صدمہ پہنچانے کی کوشش، اس کے قانون سے انکار کرنے کی کوشش، مابعدالطبیعات کے جال سے باہر نکلنے کی کوشش، اپنے مادی حواس کو بروئے کار لانے کی کوشش، مادی لذتوں کی طرف جھکنے کی تمنا اور جذبہ عبدیت سے انکار کی کوشش ترقی کا راستہ تھا اور جس حد تک اس دور کے ادب میں یہ چیزیں ہیں وہ ترقی پسند رجحانات کی آئینہ دار ی کرتی ہیں اور جس حد تک وہ ان چیزوں کے ساتھ مخالف تصورات لائے ہیں، رجعت پسند ہیں۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے ادب نے مسیحی رہبانیت اور کلیسائی فلسفے کے خلاف اسی طرح جنگ کی ہے۔ اسی جدوجہد نے یونان کے فلسفے کو قبول کرکے آگے بڑھانے میں مدد کی ہے۔ چنانچہ نشاۃ ثانیہ کا انسان جب چودھویں صدی عیسوی میں اس تاریکی سے باہر نکلتا ہے تو سب سے پہلے اپنی عظمت کا اعتراف کرتا ہے اور اپنے سینے کو دوری جنت کے غم سے پاک کرتا ہے۔ نشاۃ ثانیہ کے ادب کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس نے قرون وسطی کے انسان کو روحانی جیل سے باہر نکال کر اسے مادی لذتوں اور جسمانی احساسات کی سیر کرائی۔ اس نے انسانوں کو ان گناہوں کی طرف بڑھنے کا حوصلہ دیا جن کا نام سن کر تسبیحیں ہلنے لگتی تھیں۔ یہ ایک صدائے احتجاج تھی اس روحانی فلسفے کے خلاف جس میں جسم کی نفی کی جاتی تھی، یہ احتجاج تھا اس کلیسائی الہیاتی فلسفے کے خلاف جو تمام تر تصوراتی اور غیر سائنسی تھا اور جس کا تعلق مادی حواس اور انسانی تجربوں سے نہ تھا۔ یہ صرف صدائے احتجاج ہی نہ تھی بلکہ ایک حملہ تھا اس روحانی فلسفے کے قلعے پر جس میں ابن آدم اسیر تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ ہماری ادبی تاریخ میں اس قلعے کو ڈھانے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ فارسی ادب میں اس قلعے کو ڈھانے میں گبروترسا کے پیگن فلسفہ حیات، یونانی علوم، عقل پسندی کی تحریک اور انکار شریعت کی جدوجہد نے بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ لیکن یہ تمام کوششیں صرف قلعے کو کمزور کرنے ہی میں کامیاب رہی ہیں، وہ اس قلعے کو ڈھانہ سکیں کیونکہ اس سرزمین میں مادی علوم فروغ نہ پا سکے۔ یہاں کا تاجر طبقہ TRADERS COMUNITY یورپ کے بورژوا طبقہ کی طرح شاہیت کا مد مقابل نہ بن سکا اور جب اس نے ہاتھ پیر نکالنے شروع کئے تو بدیسی سامراج نے اسے مفلوج کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک آفتاب تازہ سرزمین روس سے بلند نہیں ہوا اور وہاں کے مزدوروں نے اپنے ملک کے پسماندہ انسانوں کو آزاد نہیں کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے قلعے میں شگاف پیدا نہیں کیا۔ یہاں کا انسان ۱۹۱۸ء کے پہلے یہ اعلان نہ کر سکا کہ،
توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام
دوری جنت کو روتی چشم آدم کب تلک
آج جب کہ پورے کرہ ارض پر محکوم اور مظلوم انسانو ں کی دنیا اپنی غلامی کی زنجیریں توڑ رہی ہے تو رجعت پسند طاقتیں اپنے خوفناک اور بھیانک ماضی کو بھی جگا رہی ہیں۔ آج سرمایہ دارانہ ممالک کے ادیب مجبور، مقہور اور محبوس آدم کے تصور کو پھر ہمارے ذہنوں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ازرا پاؤنڈ انسانوں کو نباتاتی دنیا کے درجے سے بھی نیچے گرا رہا ہے، اندر ے مارلو ترقی اور سائنس کی قدروں سے انکار کرکے مقدر پرستی کی تعلیم دے رہا ہے، جین پال سارتر انسان کی آزادی نفی حیات میں ڈھونڈ رہا ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ اورآڈن اسے کلیساؤں کے عقیدوں کی طرف لوٹا رہے ہیں، سوساٹ انسان کو میکاولی کے روباہ سے بھی زیادہ خطرناک بناکر پیش کر رہا ہے۔ وہ انسان کو صرف حیاتیاتی جبلتوں کا شکار بناتا ہے، جہاں عقل کا کام اس کے ناخنوں کو تیز کرنے کا ہے۔
یہ تمام رجعت پسند ادیب ماضی کی بھیانک روایات کو رجعت پسندی کی خدمت میں مجتمع کر رہے ہیں۔ یہ کام صرف یورپ ہی میں نہیں ہو رہا ہے بلکہ ہندوستان اور پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ آج حسن عسکری اور اس کے رفقا ادب برائے ادب کانعرہ بلند نہیں کر رہے ہیں بلکہ انسان کو حیوا ن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے ماحول پر قابو نہ پانے والا حیوان مطلق بناکر اسے جذبہ عبدیت میں غرق کرنا چاہتے ہیں۔ حسن عسکری نے انسان کی ازلی اور ابدی خصوصیت ظلم اور جہل بتلائی ہے۔ ان دو لفظوں میں رجعت پسندی کی پوری تفصیل چھپی ہے۔ اسے جہل اختیار کرنا چاہئے تاکہ وہ انسانی عقل و شعور، ترقی اور سائنس کی قدروں سے محروم ہو جائے۔ اسے ظلم کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنے ملک کی ترقی پسند قوتوں پرحملہ کرے، اسے ظلم کرنا چاہئے تاکہ وہ ہمسایہ ملکوں پر حملہ کرے، اسے ظلم کرنا چاہئے تاکہ وہ تیسری جنگ عظیم میں ڈالرکی خدمت انجا م دے سکے۔
ایسا کیوں ہے کہ آج قرون وسطی کے تاریک فلسفوں نے سرمایہ داری کے رجعت پسند فلسفوں سے معانقہ کر لیا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آج انسان اپنی آزادی کی وہ جنگ لڑ رہاہے جس کے بعد وہ انسانوں کی غلامی اور اپنے ماحول کی غلامی سے آزاد ہو جائےگا۔ ظاہر ہے کہ ترقی کی اور رجعت کی اس جنگ میں، نئے اور پرانے کے اس معرکے میں، انسانی غلامی کے تمام تصورات اور تمام فلسفے ختم ہونے والے ہیں۔ یہ جنگ دو بلاک کی جنگ نہیں ہے۔ یہ آزادی اور غلامی کی جنگ ہے، یہ جنگ انسانیت کی عظمت، غرور، عزم ویقین کی جنگ ہے۔ ان ناپاک درندوں کے خلاف جو انسان کو مجہول آلہ کار سمجھتے اور جو اس کے عزم ویقین اور غرور کو ڈھانا چاہتے ہیں، یہ جنگ استحصال کی بنیادوں کو ختم کرنے کی جنگ ہے اور یہی وہ سبب ہے کہ طبقاتی نظام کے وہ تمام رجعت پسند فلسفے اور ادبی نظریے جو استحصال کو اپنے اپنے ددر میں سہارا دیے ہوئے تھے، سرمایہ دارانہ نظام کی مدد کے لئے دوڑ رہے ہیں۔
آج وہ وقت ہے کہ ہم بھی صف اعدا کے مقابل اپنے رہبر کو پہچانیں، اپنے ماضی کو بیدار کریں، اس کی ترقی پسند روایات کو ڈھونڈیں، اس انسان کو ڈھونڈیں جس نے زخموں سے چور ہوکر بھی اپنی غلامی کو تسلیم نہیں کیا۔ اس عزم ویقین کی آہنی قوت کو تلاش کریں جو دارورسن کے نیچے آکر بھی یہ کہتی رہتی کہ، اگر زندگی دوبارہ ملے تو میں اسی راستے پر چلوں گا۔ اس سچائی کو ڈھونڈیں جو صفحات سے آزاد ہوکر اپنی حقیقت کو منواتی رہی۔۔۔ اوریہ کام ہم صرف مزدور طبقے کی قیادت ہی میں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ طبقہ نہ صرف مستقبل ہی کا ا مین ہے بلکہ انسانی عقل، شعور کا محافظ بھی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام انسانی عقل و شعور کو ڈھاکر بہیمانہ جبلت، جذبہ عبودیت، شہوانی اور عصباتی جذبات کی تعلیم دے رہا ہے، اس کے برعکس دنیا کا صرف محنت کش طبقہ اور سوویت روس اور چین کا نیا انسان عقل و شعور، سائنس اور ترقی کی پاسبانی کر رہا ہے۔
یہی وہ حقیقتیں ہیں جن کے باعث رجعت پسندی کی شکلیں نہ صرف بے نقاب ہو رہی ہیں، بلکہ ایک تنگ و تاریک گلی میں سمٹتی بھی جا رہی ہیں اور جس حد تک ان کی عفونت اور گندگی بے نقاب ہوتی جا رہی ہے ہماری ترقی پسندی کا سونا بھی نکھرتا جا رہا ہے۔ ہمارا مستقبل تابناک ہوتا جا رہا ہے اور آپ یقین کیجئے کہ ماضی کی ترقی پسند روایات کا وہی منکر اور شمن ہوتا ہے جس کو مستقبل کا یقین نہ ہو اور جس کو مستقبل عزیز نہ ہو۔
چنانچہ میں ایسی انقلاب پسندی کو بھی رجعت پسندی سمجھتا ہوں جو ماضی کو بلاتفریق مٹانا چاہتی ہو۔ جو انقلاب برائے انقلا ب کی مدعی ہو اور جسے ماضی میں صرف ویرانیاں ہی ویرانیاں نظر آتی ہوں لیکن ہم ماضی کی چند چیزوں کو مسترد بھی کرتے ہیں اور اس سے منقطع بھی ہوتے جاتے ہیں۔ ہم ماضی کی رجعت پسند چیزوں کو مسترد کر دیتے ہیں، ہم صرف ترقی پسند چیزوں کو چن کر انہیں ایک نئی کیفیاتی تبدیلی کے لئے آگے بڑھاتے ہیں اور جس حد تک ہم اپنی اس کوشش میں انقلابی جست بھرتے ہیں، ہم ماضی سے علیحدہ بھی ہوتے جاتے ہیں۔ اسی کو پرانے سے نئے کی طرف جست کرنا بھی کہتے ہیں۔
اگر آپ اس مضمون میں رجعت پسندی کی کچھ اور شکلیں بھی دریافت کرنا چاہیں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ رجعت پسند نہیں کیونکہ یہاں صرف بنیادی اصولوں سے بحث کی گئی ہے اور اگر آپ غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ انہیں اصولوں پر ہیئت پرستی کے ایسے رجعت پسند رجحان کو بھی جانچا جا سکتا ہے۔ ہیئت پرستی حقیقت کی صحیح ترجمانی میں آڑے آتی ہے، ہیئت پرستی رجعت پسند خیالات کی تبلیغ کا آلہ کار بنتی ہے، ہیئت پرستی ادب کو زندگی کے سرچشمے سے سیراب ہونے سے روکتی ہے، ہیئت پرستی ادب کو عوام کی ملکیت بننے سے روکتی ہے، ہیئت پرستی زندگی کی خدمت کرنے سے پرہیز کرتی ہے، لیکن ادبی حسن اور ادبی معیار کو برقرار رکھنے کا دام ہیئت پرستی نہیں ہے کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ ادبی معیار کا تعین اوسط درجے کی نگارشات سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کا تعین اعلیٰ درجے کی نگارشات سے کیا جاسکتا ہے اور یہیں پر ہمیں تمام قرنوں کے مینارہ نور کو دیکھنا پڑتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.