راجندر سنگھ بیدی: کچھ یادیں کچھ باتیں
ترقی پسند دور کے افسانہ نگاروں میں منٹو کرشن چندر کے بعد تیسرا بڑا نام راجندر سنگھ بیدی کا ہے۔
بیدی نے منٹو اور کرشن چندر کے ساتھ بیسویں صدی کے چوتھے دہے کے آخر میں لکھنا شروع کیا مگر شروع شروع میں انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جو کرشن چندر اور منٹو کو نصیب ہوئی۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ بیدی کے پاس نہ کرشن چندر جیسی رومانی نثر تھی نہ منٹو جیسی جرأت و بیباکی تاہم ان کے پاس وہ فنکارانہ بصیرت ضرور تھی جو قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا نظارہ کر لیتی ہے۔ ان کا مشاہدہ تیز اور تخیل بلند تھا۔ اپنے دوسرے افسانوں کے مجموعہ ’گرہن‘ کے دیباچے میں خود بیدی فرماتے ہیں۔
’’جب کوئی واقعہ مشاہدے میں آتا ہے تو میں اسے من وعن بیان کر دینے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ حقیقت اور تخیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اسی کو احاطۂ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں۔‘‘
بیدی اپنے عہد کی سب سے بڑی تحریک یعنی ترقی پسند تحریک کے ہم نوا ضرور تھے مگر کرشن چندر کی طرح انہوں نے اپنے فن کو تحریک کا مینی فیسٹو اور افسانے کو نظریاتی تبلیغ کا ذریعہ نہیں بنایا اس لیے ان کا فن مقصدیت کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھنے سے محفوظ رہا۔
بیدی کا محبوب موضوع انسانی رشتے بالخصوص عورت اور مرد کا رشتہ ہے۔ عورت کو ان کے افسانوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے افسانوں کی عورت رومان پسند افسانہ نگاروں کی طرح نہ جنّتِ ارضی کی حور ہے نہ ترقی پسندوں کی عورت کی طرح وہ اپنے آنچل سے پرچم بنانے کا گرُ جانتی ہے۔ یہ نچلے متوسط طبقے کی خالص ہندوستانی عورت ہے جو ان کے افسانوں میں کبھی مدن کی اندوبن کے آتی ہے تو کبھی سندر لال کی لاجونتی، کبھی رسیلا کی ہولی بن جاتی ہے تو کبھی رتن کی درشی۔ دوسرے روپ میں وہ ببّل کی سیتا اور اغوا کی کنسوہے اور کوکھ جلی میں وہ ایک ماں کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ عورت کو انہوں نے نہ اتنا گرنے دیا کہ وہ طوائف ہوجائے نہ اسے عظمت کی ان بلندیوں پر بیٹھا دیا جہاں وہ دیوی بن جاتی ہے۔ ان کے افسانوں میں عورت ہزار روپ اختیار کرکے بھی عورت ہی رہتی ہے۔ کیوں کہ عورت ہی زندگی کی تخلیق کا سر چشمہ اور کائنات کی تصویر کا رنگ ہے۔
جنس بھی بیدی کے افسانوں کا ایک اہم عنصر ہے مگر ان کے تصور جنسی میں ہوسناکی، سفلہّ پن اور لذتیت نام کو نہیں ملتی بلکہ جنس کے جسمانی پہلو کی ایسی تقدیس و تطہیر کردی گئی ہے کہ وہ تخلیقی عمل کا استعارہ بن جاتا ہے۔ مابعد الطبیعاتی فضا سازی، استعاراتی اسلوب، معنوی تہہ داری، اشاریت اور رمزّیت بیدی کے فن کے وہ عناصر ہیں جن سے ان کے افسانوں کا خمیر تیار ہوتا ہے۔ ان کی بھولا، کوکھ جلی، گرہن، گرم کوٹ، لاجونتی، اپنے دکھ مجھے دے دو، ببّل، میتھن، کلیانی اور ایک باپ بکاؤ ہے، کہانیاں اردو افسانوی ادب کے وہ شہہ پارے ہیں جن کی چمک کو ماہ و سال کی گرد بھی ماند نہ کرسکی۔
میں نے اور میری نسل کے افسانہ نگاروں نے یقیناًانھیں پڑھتے ہوئے لکھنا سیکھا ہے۔ جب ہم نے لکھنا شروع کیا تو ان کی شہرت بام عروج پر تھی۔ وہ اپنی فلمی مصروفیات کے سبب بمبئی کی ادبی محفلوں میں بہت کم شریک ہوتے تھے۔ میں نے دو ایک بار دور سے بس ان کی ایک جھلک دیکھی تھی۔ بعد میں ان سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ یہاں، انھیں چند ملاقاتوں کے دھندلے نقوش کو جھاڑ پونچھ کر پیش کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔
بیدی صاحب سے میری پہلی ملاقات ۱۹۷۸ ء کے اوائل میں ان کے ماٹونگا والے فلیٹ پر ہوئی تھی۔ میں اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ’ننگی دوپہر کا سپاہی‘ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ بیدی صاحب اس وقت کسی فلم کی اسکرپٹ ٹائپ کر رہے تھے۔ مجھ سے معذرت چاہتے ہوئے ایک منٹ کی اجازت طلب کی اور اسکرپٹ کا پیراگراف مکمل کرلیا۔ پھر ٹائپ رائٹر سے اٹھ کر صوفے پر میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ میں نے اپنی کتاب ان کی خدمت میں پیش کی۔ انہوں نے نہایت شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کتاب کو اِدھر ادھر سے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے۔ ان کے دستِ شفقت کا وہ مشفقانہ لمس میں آج بھی محسوس کر سکتا ہوں۔ بیدی صاحب کو میں نے پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ مجھے وہ خاصے تھکے تھکے سے لگے۔ اندر کے کمرے میں گرنتھ صاحب کا پاٹھ ہو رہا تھا۔ میرے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ آج ان کی اہلیہ کی برسی ہے۔ اپنی اہلیہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کچھ اداس سے ہوگئے اور کہا۔ ’’ان کے نہ ہونے سے میں اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کرتا ہوں۔‘‘ جملہ پورا کرتے کرتے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ انہیں یوں اچانک چشمِ نم دیکھ کر میں قدرے گھبرا گیا۔ بہت دنوں بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ بے حد رقیق القلب واقع ہوئے ہیں بات بات پر آنکھیں نم ہوجانا ان کی طبعیت کا خاصہّ ہے۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد وہ سنبھل گئے اور پھر اِدھرُ ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ میں تقریباً ایک گھنٹے تک ان کی دلچسپ اور دلپذیر باتوں سے محظوظ ہوتا رہا۔ ان کی گفتگو میں مجھے بیک وقت بچوں کی معصومیت اور بزرگانہ شفقت کا احساس ہوا اور پہلی ہی ملاقات میں ان کی سحر انگیز شخصیت نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اور میں مہینوں اپنے ہم عصر قلم کاروں سے اس ملاقات کا ذکر بڑے فخر سے کرتا رہا۔
چند مہنیوں بعد ہی پتا چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہواہے اور ھسپتال میں داخل کردیے گئے ہیں۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ موت کے منہ سے نکل آئے۔ ان کی صحت یابی کی خوشی میں مہاراشٹر اردو اکیڈمی کی جانب سے ایک چھوٹی سی تقریب رکھی گئی تھی۔ کئی لوگ شریک تھے۔ سبوں نے بیدی صاحب کو ان کی صحت یابی پر مبارک باد دی۔ آخر میں بیدی صاحب نے اظہارِ تشکر کے طور پر بڑی مشکل سے چند کلمات کہے۔ ان کی زبان میں لکنت آگئی تھی اور جملے بے ربط ادا ہو رہے تھے۔ کیسا درد ناک منظر تھا۔ وہی بیدی صاحب جو محفل میں زبان کھولتے تو ساری محفل زعفران زار ہو جاتی تھی۔ آج ان کے حلق میں کانٹے سے پڑ رہے تھے۔ اور آواز میں گرہیں لگ رہی تھیں۔ دوران تقریر انہوں نے کسی بات پر باقر صاحب کو مخاطب کرنا چاہا۔ باقر صاحب سامنے کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے مگر بیدی صاحب باقر صاحب کا نام بھول گئے تھے۔ کوشش کے بعد بھی انہیں باقر صاحب کا نام یاد نہیں آیا۔ فالج نے ان کی یاد داشت کو متاثر کر دیا تھا اور وہ اپنے عزیز ترین ساتھی کا نام بھول گئے تھے۔ حاضرین میں سے کسی نے انہیں باقر صاحب کا نام یاد دلایا مگر اس کے بعد وہ تقریر جاری نہ رکھ سکے اور دل برداشتہ ہوکر بیٹھ گئے۔ ان کی آنکھوں میں بے بسی کے آنسو چھلک رہے تھے۔ دیگر حاضرین کے ساتھ میں بھی ان سے مصافحہ کر کے، ان کے لرزتے ہاتھوں کو چوم کر واپس چلا آیا۔
پھر تقریباً دو برس بعد ان کے بیٹے نریندر سنگھ بیدی کا انتقال ہوگیا۔ نریندر سنگھ بیدی نے بحیثیت فلم ساز اور ہدایت کار فلم انڈسٹری کو چند نا قابل فراموش فلمیں دی ہیں۔ فلم انڈسٹری میں انہوں نے اپنا مقام بنا لیا تھا۔ ان کی ناگہانی موت سے سبوں کو صدمہ ہوا۔ مگر بیدی صاحب کے غم کا اندازہ کون لگا سکتا ہے۔ فالج نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ ہونہار بیٹے کی موت نے انہیں چور چور کر دیا۔
ایک دن میں اپنے دوست شکیل چندر کے ساتھ ان کی مزاج پرسی کے لیے ان کے کھار والے مکان پر پہنچا۔ شکیل کے ان کے ساتھ دیرینہ مراسم تھے۔ بیدی صاحب ہم سے تپاک سے ملے۔ بیٹے کی موت کا غم ان کے روئیں روئیں سے ٹپک رہا تھا مگر انہوں نے گفتگو سے قطعی اس کا اظہار ہونے نہیں دیا۔ زبان کی لکنت پر اب وہ ایک حد تک قابو پا چکے تھے۔ ہم لوگ کافی دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہے۔ پرانے اور نئے افسانے کا بھی ذکر آیا۔ نئے افسانے سے بیدی صاحب بہت مطمئین نہیں تھے۔ ویسے انہوں نے بتایا کہ ’’میں نئے لکھنے والوں کو گاہے گاہے پڑھتا رہتا ہوں مگر ان میں سے بیشتر میری سمجھ میں نہیں آتے۔‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے ادب سے کہا۔ ’’بیدی صاحب! آخر جنریشن گیپ بھی تو کوئی چیز ہے۔‘‘
کمرہ ان کی ہنسی سے روشن ہوگیا۔ پھر دوسرے ہی لمحے بڑے دکھ سے کہا۔ ’’میرا لکھنا بالکل بند ہوگیا ہے۔ ہاتھ میں رعشہ رہتا ہے۔ خیالات میں انتشار کی سی کیفیت رہتی ہے۔ البتہ تھوڑا بہت مطالعہ کر لیتا ہوں مگر سنجیدہ موضوعات پر ذہن مرتکز نہیں ہوپاتا۔‘‘ انہیں بیماری سے زیادہ، نہ لکھ پانے کا صدمہ تھا۔ ان کے کمرے میں چاروں طرف کتابیں بکھری ہوئی تھیں۔ انہوں نے انتہائی حسرت سے کہا کہ وہ ان ساری کتابوں کو اب شاید ہی کبھی پڑھ پائیں۔ پھر شکیل سے کہنے لگے۔ ’’کسی روز آکر ان میں سے کچھ کتابیں چھانٹ کر باقی کتابیں کسی لائبریری کو ڈونیٹ کر دو۔ ورنہ میرے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔‘‘
بعد میں مجھے شکیل نے بتایا کہ وہ ایک روز بیدی صاحب کے گھر گئے تھے اور انہوں نے کتابیں چھانٹنا شروع کیں۔ بیدی صاحب صوفے پر چپ چاپ بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ جس کتاب کو وہ اپنے پاس رکھنا چاہتے، شکیل اسے شیلف میں لگا دیتے۔ باقی کتابوں کی ایک طرف ڈھیریاں لگاتے جارہے تھے۔ شکیل نے انہیں کتابوں کے ڈھیریوں میں میرا افسانوی مجموعہ بھی نکال کر ڈال دیا۔ بیدی صاحب نے شکیل کو ٹوکتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں اسے شیلف میں لگا دو۔‘‘
شکیل نے جب مجھے یہ بات بتائی تو مجھے خوشی کے ساتھ قدرے فخر کا احساس ہوا۔ گویا بیدی صاحب نئے لکھنے والوں سے مطمئین چاہے نہ ہوں مایوس قطعی نہیں تھے۔
ایک روز سریندر پرکاش نے مجھے اور انور قمر کو بتایا کہ کل وہ بیدی صاحب سے ملے تھے اور وہ آپ لوگوں کو یاد کر رہے تھے۔ تین چار روز بعد سریندر پرکاش، انور قمر، مشتاق مومن اور میں ان کے گھر پہنچے۔پتا چلا کہ وہ ہواخوری کے لیے جوہو گئے ہیں۔ ہم لوگ انھیں ڈھونڈتے ہوئے جو ہو پہنچے۔ بیدی صاحب اپنے کسی شناسا کے ساتھ ٹہلتے ہوئے مل گئے۔ ہمیں دیکھتے ہی ان کا چہرہ کھِل اٹھا۔ سریندر جی نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے، انور قمر نے بھی تقلید کی، مشتاق مومن اورمیں نے ان کے ہاتھ چومے۔ میں دیکھ رہا تھا ان کی آنکھوں میں ہمارے لیے بے پناہ شفقت تھی۔ ہم سب وہیں ریت پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کے وہ شناسا رخصت ہوگئے۔ اس روز بیدی صاحب کافی خوش دکھائی دے رہے تھے۔ سریندر جی سگریٹ پی رہے تھے اور حسب عادت سگریٹ مٹھی میں پکڑے گہرے اور طویل کش کھینچ رہے تھے۔ بیدی صاحب ان کی سگریٹ نوشی کے اس انداز سے کافی محظوظ ہوئے اور بولے۔ ’’کبھی ہم بھی اسی طرح سگریٹ پیتے تھے۔‘‘
پھر میں نے بھی ان کی اجازت سے سگریٹ جلائی اور انھیں بھی سگریٹ پیش کی۔ پہلے تو منع کیا۔ پھر ایک لمحہ توقف کے بعد بولے۔
’’کوئی سگریٹ سلگا دے تو میں پی لوں گا۔‘‘
انور قمر نے سگریٹ سلگائی اور انھیں پیش کی۔ بیدی صاحب نے محتاط انداز میں دو تین کش لیے مگر وہ سگریٹ سے خاطر خواہ لطف اندوز نہ ہوسکے اور سگریٹ ریت میں دباکر بجھادی۔ اس دن بیدی صاحب سے خوب باتیں ہوئیں۔ وہ رک رک کر شکستہ لہجے میں گفتگو کر رہے تھے مگر اس شکستگی میں بھی ان کے جملوں کی شگفتگی برقرار تھی۔ دوران گفتگو پتا نہیں کیسے باقر صاحب کا ذکر نکل آیا۔ سریندر جی نے بتایا، آج کل باقر صاحب سے ان کے تعلقات کشیدہ ہیں، پھر آگے کہا۔ ’’باقر صاحب زود رنج ضرور ہیں مگر ان کے دل میں کچھ نہیں ہوتا۔‘‘ بیدی صاحب نے مسکرا کر برجستہ کہا۔ ’’دماغ میں بھی کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
ہم سب بے ساختہ ہنس دیے بیدی صاحب توقف کے بعد بولے۔
’’بھائی وہ آدمی مجھے بہت پسند ہے۔ پتا نہیں، وہ لوگوں سے کیوں کر لڑلیتے ہیں۔ مجھ سے تو کبھی جھگڑا نہیں ہوا۔‘‘
اس کے بعد ہم ایک کولڈڈرنک اسٹال پر پہنچے۔ کولڈڈرنک پینے کے بعد سریندر پرکاش نے بل ادا کرنا چاہا مگر بیدی صاحب نے باصرار انھیں منع کردیا اور خود آگے بڑھ کر پیسے دیے۔ ہم سمجھے تھے وہ کار میں جو ہو آئے ہوں گے مگر انہوں نے بتایا کہ’ اب ان کے پاس کار نہیں رہی اور یہ کہ روزانہ کھار سے جوہو ٹیکسی یا اسکوٹر سے ہوا خوری کے لیے آنا ان کے لیے خاصا مہنگا شوق ہے۔ اس لیے وہ جوہو ہفتے عشرے میں ہی آپاتے ہیں اور روزانہ کھار ہی میں مکان کے قریب ایک گارڈن میں چہل قدمی کے لیے چلے جاتے ہیں۔ حالات کی یہ کیسی ستم ظریفی تھی کہ ملک کا اتنا بڑا ادیب فلم اسکرپٹ رائٹر اور پروڈیوسر اپنی عمر کے آخری پڑاؤ پر ایک معمولی کار رکھنے کی بھی استعداد نہیں رکھتا تھا۔ یہی سب سوچتے ہوئے ہم نے انھیں اسکوٹر میں سوار کرادیا اور وہ سب سے دوبارہ ملنے کا وعدہ لے کر گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔
ان سے آخری ملاقات ان کی موت سے دو ماہ قبل انھیں کے مکان پر ہوئی تھی۔ کینسر کے آپریشن کے بعد وہ ھسپتال سے گھر آگئے تھے۔ میں اور شکیل چندر ان کی عیادت کو پہنچے۔ دروازہ انھوں نے ہی کھولا تھا۔ بیدی صاحب اب کافی سکڑ سمٹ گئے تھے۔ پاؤں گھسٹ گھسٹ کر بڑی مشکل سے چندر قدم چل پاتے تھے۔ وہ اس وقت اس بے برگ و بار درخت کی مانند دکھائی دے رہے تھے جس کی جڑوں کو کیڑے چاٹ چکے ہوں مگر جس کی ٹنڈمنڈ شاخیں اس کے قدموں میں سستانے والے مسافروں کے لیے دستِ دعا کی طرح بلند رہتی ہیں۔ انہوں نے دوچار باتیں بھی کیں مگر آواز بھر اّئی ہوئی اور لہجہ خاصا شکستہ تھا۔ مشکل ہی سے بات سمجھ میں آتی تھی۔ وہ کچھ مضطرب بھی دکھائی دیے۔ پتا چلا کہ ان کا چھوٹا بیٹا اور بہو جرمنی سے آنے والے ہیں۔ اس روز زیادہ گفتگو بھی نہ ہوسکی۔ ہم لوگ بعد میں آنے کا وعدہ کر کے چلے آئے مگر پھر ملنے کا موقع نصیب نہیں ہوا۔ بس شمشان ہی میں ان کے آخری درشن کر سکے۔
بیدی صاحب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ مگر ان کا فن اس ناقابلِ تسخیر سلسلۂ کوہ کی مانند ہمارے سامنے پھیلا ہوا ہے جس کی سر بلند دلکش چوٹیاں آنے والی نسلوں کو دعوت شوق نظارہ کے ساتھ ذوقِ جادہ پیمائی کی ترغیب بھی دیتی رہیں گی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.