ساجد رشید کی یاد میں
ساجد رشید سے میرے مراسم قریب تیس پینتیس برس پرانے تھے۔ وہ عمر میں مجھ سے پندرہ برس چھوٹے تھے مگر ہماری دوستی میں عمر کا فاصلہ کبھی مانع نہیں ہوا۔ ویسے بھی ساجد رشید کو شروع سے اپنے سے عمر میں بڑوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے کا شوق رہا ہے۔ ان کی شکل و شباہت اور قد کاٹھی بھی کچھ ایسی تھی کہ وہ اپنی طبعی عمر سے بڑے معلوم ہوتے تھے۔ جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ ان کی عمر اٹھاراہ انیس سے زیادہ کی نہیں رہی ہوگی۔ انہوں نے کوئی ڈرامہ لکھا تھا جو ممبی کے پاٹکر ہال میں کھیلا جانے والا تھا اور جس میں انہوں نے کام بھی کیا تھا۔ وہ مجھے ڈرامہ دیکھنے کی دعوت دینے آئے تھے۔ اس وقت تک انہوں نے افسانہ نگاری شروع نہیں کی تھی۔ ڈرامے کا نام اور موضوع مجھے یاد نہیں رہا مگر ڈرامے میں مہاتما گاندھی کا بھی ایک چھوٹا سا رول تھا۔ میں ڈرامہ دیکھنے گیا۔ ڈرامہ کسی امیچور گروپ نے تیار کیا تھا۔
جب ڈرامہ شروع ہوا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مہاتما گاندھی کا رول ساجد رشید ادا کر رہے ہیں۔ وہ اسٹیج پر بہت معمولی میک اپ میں آئے تھے مگر حُلیے جُثے سے باپو کی پرچھائیں معلوم ہو رہے تھے۔ گویا نو عمری میں ہی ساجد رشید کے اندر ایک پختہ کار شخص جنم لے چکا تھا۔ ان کی سوچ اور ان کے کام ہمیشہ ان کی عمر سے دو قدم آگے چلتے تھے۔ صحافت کا شوق بھی ان کے اندر ابتدا ہی سے پر پُرزے نکال رہا تھا۔ انہوں نے اپنے کالج کے زمانے میں سائکلو اسٹائل پر’ لوٹ پوٹ‘ نام کا ایک ہفتہ وار اخبار بھی نکالا۔ اصرار کر کے اس میں مجھ سے بھی دوچار مضامین لکھوا ڈالے۔ وہ اپنا جیب خرچ بچا کر اور چند دوستوں سے چندہ لے کر اخبار نکال رہے تھے۔ ظاہر ہے یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکتا تھا۔ دوچار مہینوں بعد ہی اخبار بند ہوگیا۔ تب تک وہ میرے علاوہ ممبئی کے دیگر افسانہ نگار انور خان، انور قمر اور علی امام نقوی وغیرہ سے متعارف ہو چکے تھے۔ ان دنوں یعقوب گلی کے عوامی سینٹر میں اور حفیظ آتش امروہوی کی کھولی پر افسانہ نگاروں کا جگٹھا ہوتا تھا جس میں افسانہ نگار اپنے افسانے سناتے تھے۔ وہاں ساجد رشید بھی آنے لگے۔ وہیں انہیں افسانہ نگاری سے بھی دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے افسانے لکھنا شروع کر دیا۔ اگرچہ انہوں نے افسانہ نگاری ہمارے بعد شروع کی مگر بہت جلد وہ اردو کے مختلف رسالوں میں ہمارے ساتھ چھپنے لگے۔
ساجد رشید کا مزاج سیماب صفت تھا مگر ان کے اندر جو صلاحیتیں تھیں وہ ہمہ جہت تھیں وہ ایک بیباک صحافی اور طبعزاد افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ ایک عمدہ ڈیزائنر، کارٹونیسٹ، ڈرامہ نگار، ایکٹر، ایڈیٹر اور ایک پر جوش مقرر بھی تھے۔ ان کے سینے میں ایک درد مند دل تھا اور وہ ہمیشہ دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونے کو بیتاب رہتے تھے۔
عموماً وہ لوگوں میں ایک مذہب بیزار شخص کے طور پر مشہور تھے جب کہ ایسا نہیں تھا ان کے ملنے جلنے والوں میں کئی مولوی مُلا اور مذہبی شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کو بھی کبھی مذہب سے دور رہنے کی تلقین نہیں کی۔ ان کے گھر سے متصل مسجد سے روزانہ پانچ وقت لاوڈاسپیکر پر اذان ہوتی تھی۔ اذان سن کر وہ کانوں میں انگلیاں نہیں ٹھونس لیتے تھے۔ دراصل ان کے بدخواہوں نے انہیں کچھ زیادہ ہی بدنام کردیا تھا۔ وہ مذہب بیزار نہیں تھے لیکن صوم صلوٰۃ کے پابند بھی نہیں تھے۔ البتہ وہ مذہبی کٹر پن کے خلاف ضرور تھے۔ انہوں نے قلمی طور پر ہی نہیں عملی طور پر بھی ہمیشہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ وہ ایک سچے اور پکے سیکولر مزاج شخص تھے۔ ان کا مشہور کالم زندگی نامہ، میں تو انہوں نے ہمیشہ ہی مذہبی کٹر پنتھیوں کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ اس جرأت و بیباکی کا انہیں خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ انہیں آئے دن فون پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں اور ایک دن سچ مچ ان پر ایک جاں لیوا حملہ بھی ہوا مگر ان کی کج کلاہی اور بانکپن میں کبھی کمی نہیں آئی۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک اپنے کالم میں مذہبی کٹرپن کو نشانہ بناتے رہے۔ ان کی سیکولر مزاجی پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر یہاں صرف ایک واقعہ پر اکتفا کیا جاتا ہے جس سے ان کی روشن خیالی اور انسان دوستی کی ایک جھلک بھر ملتی ہے۔ یہ بات غالباً ۹۰ کے الیکشن کی ہے۔ ممبئی کے کرلا حلقے سے ساجد رشید بھی جنتا دل کے امیدوار تھے۔ مسلم لیگ کی طرف سے ان کے خلاف زبردست پروپگنڈہ کیا جا رہا تھا۔ ان کے خلاف پمفلٹ چھاپے جا رہے تھے اور ان پر رکیک اور اوچھے حملے کیے جا رہے تھے۔ یہاں تک مشہور کردیا گیا تھا کہ ساجد رشید ہندوانہ رسموں کے دلدادہ ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں کے نام تک ہندوانہ رکھے ہیں اور یہ کہ ان کے ایک بیٹے کا نام راہل ہے وغیرہ۔۔۔ ساجد رشید کے لیے یہ سخت آزمائش کے دن تھے مگر ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہیں آئی، وہ کڑی آزمائش میں بھی اپنی سیکولر فکر پر مضبوطی سے قائم رہے اور مصلحت پسندی کو نزدیک پھٹکنے نہیں دیا۔
اسی الیکشن مہم کے دوران وہ نہرو نگر کی چالیوں کا دورہ کر رہے تھے جہاں ہندو اکثریت رہتی ہے۔ ایک چالی میں ایک بارہ تیرہ برس کی ہندو لڑکی نے مہاراشٹر کی روایت کے مطابق پیتل کی ایک تھالی میں سیندور، ہلدی اور جلتا ہوا دیا رکھ کر ان کی آرتی اتاری اور ان کے ماتھے پر تلک لگایا۔ انہوں نے شگون کے طور پر تھالی میں پانچ روپے کا نوٹ رکھا اور ہاتھ جوڑ کر پر نام کیا۔ یہ سب دیکھ کر ان کے ساتھ جو مسلم رضا کار تھے وہ بڑے جزبز ہوئے۔ جب ان کا قافلہ آگے بڑھا تو دس پندرہ قدم چلنے کے بعد ان کے الیکشن ایجنٹ نے جو کہ ہندو تھا آہستہ سے کہا۔ ’’ساجد بھائی! ماتھے کا تلک پونچھ دو۔‘‘ انہوں نے سنی ان سنی کردی اور چلتے رہے۔ جب ایجنٹ نے تیسری بار تلک پونچھنے کو کہا تو ساجد نے پوچھا۔ ’’تم بار بار تلک پونچھنے کے لیے کیوں کہہ رہے ہو؟‘‘ ایجنٹ بولا۔ ’’آگے مسلم محلہ ہے۔ لوگوں نے آپ کے ماتھے پر تلک دیکھ لیا تو مسلم ووٹ کٹ جائیں گے۔‘‘
ساجد کو ایجنٹ کی یہ بات ناگوار معلوم ہوئی۔ انہوں نے قدرے درشت لہجے میں کہا ’’جس خلوص اور پریم سے اس بچی نے یہ تلک لگایا ہے میں ووٹوں کے کٹ جانے کے ڈر سے اسے نہیں پونچھوں گا۔ یہ تلک کیا ہے ایک پاوڈر ہی تو ہے جسے سیندور کہتے ہیں۔ میرے ماتھے پر انسانی خون کا تلک تو نہیں ہے نا۔۔۔؟ میرا ایمان اتنا کمزور نہیں ہے کہ سیندور یا تلک لگانے سے ڈگمگا جائے۔ آرتی اتارنا اور گُلال اڑانا مہاراشٹر کے کلچر کا حصہ ہے۔ اپنے ملک کے کلچر سے محبت کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ ساجد رشید کی کھری کھری باتیں سن کر بے چارہ ایجنٹ اپنا سامنہ لے کر رہ گیا۔ وہ پنڈت نہرو کے اس قول کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے کہ اکثریت کی فرقہ پرستی اقلیت کی فرقہ پرستی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ فرقہ پرستی چاہے اکثریت کی ہو یا اقلیت کی ہر صورت میں خطرناک ہوتی ہے۔ وہ کہتے تھے ہندو طبقے میں بھی کٹر پن ضرور ہے مگر ان میں سیکولر فکر رکھنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے مگر مسلم طبقے میں انتہا پسندی عام ہے اور سیکرلر مزاج رکھنے والے اگر ہیں بھی تو آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مسلم فرقہ پرستی پر زیادہ کھل کر لکھتے تھے جس سے مسلمانوں کی اکثریت ان سے ناراض رہتی تھی مگر انہیں کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ دل سے چاہتے تھے کہ عام مسلمان قومی دھارے میں شامل ہوکر دیگر قوموں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلیں۔ تنگ نظری، تعصب اور علاحدگی پسندی کی دلدل میں گرکر اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ ہندو فرقہ پرستی کو بالکل ہی کلین چٹ دیتے تھے۔ انہیں جہاں اور جب بھی موقع ملتا وہ ہندو فرقہ واریت کے خلاف بھی برابر لکھتے تھے اور ضرورت پڑنے پر اپنے نقصان کی پرواہ کیے بغیر عملی قدم بھی اٹھاتے تھے۔ انہوں نے ۱۹۸۵ کے الیکشن میں شیوسینا کے خلاف گواہی دی تھی جس کے سبب ولے پارلے کا الیکشن باطل قرار دیا گیا تھا اور شیوسینا کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔ ممبئی میں شیوسینا یا بال ٹھاکرے کے خلاف گواہی دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی مگر ساجد رشید نے بغیر کسی خوف اور تردد کے اس کام کو انجام دیا تھا فرقہ واریت، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے خلاف کہیں سے بھی آواز اٹھتی ساجد رشید کی آواز اس میں ضرور شامل رہتی۔
اپنے کالم زندگی نامہ، کے علاوہ اپنے افسانوں میں بھی ساجد رشید نے سخت گیرمذہبی رویّوں کے خلاف کھل کر لکھا ہے۔ ایک چھوٹا سا جہنم، زندہ درگور، چادر والا آدمی اور میں، اور راکھ جیسی کہانیاں اس کی گواہ ہیں۔
ساجد رشید ایک بہادر اور حوصلہ مند انسان تھے۔ زندگی میں انہوں نے بڑے بڑوں سے لوہا لیا۔ ان کی جرأت اور بیباکی کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا ان کے سینے میں فولاد کا دل ہوگا مگر افسوس ایسا نہیں تھا۔۔۔ حق و انصاف کے لیے سینہ سپر ہوجانے والے اس مضبوط شخص کا دل آبگینے کی طرح نازک تھا جو نوک نشترکی ایک ٹیس برداشت نہ کر سکا اور ۱۱؍جولائی ۲۰۱۱ کو پارہ پارہ ہوکر بکھر گیا۔
اب ساجد رشید ہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کی یادیں ان کی باتیں اور ان کے کارنامے ہمیں ہمیشہ ان کے ہونے کا احساس دلاتے رہیں گے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.