Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاعری اور شخصیت

سلیم احمد

شاعری اور شخصیت

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    جدت پسند لوگوں میں ٹی ایس ایلیٹ کے ایک فقرے کی بڑی دھوم ہے جس میں ایلیٹ نے کہا ہے کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں ہے بلکہ شخصیت سے فرار ہے۔ اس موضوع پر اتفاق سے ایک مذاکرہ بھی سننے میں آیا جس سے معلوم ہوا کہ کسی بات کی دھوم مچانے کے لیے اسے سمجھنا ضروری نہیں ہوتا، اس کے بعد سے میں نے باقاعدہ یہ مہم چلائی ہے کہ مجھ سے جو کوئی اس فقرے کا ذکر کرتا ہے، میں اس سے اس کے معنی ضرور پوچھتا ہوں۔ سب سے اچھا جواب نظیرؔ صدیقی سے ملا جنھوں نے اپنی پروفیسری سے شرمائے بغیر صاف کہہ دیا کہ وہ ایلیٹ کے اس فقرے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ دوسروں کے اور ان کے جواب میں صرف اتنا فرق ہے کہ دوسرے لوگ یہ اعتراف نہیں کرتے تھے، بہرحال جہاں تک اس فقرے کے جواب کا تعلق ہے، میں نظیرؔ صدیقی کا پیرو ہوں، یعنی اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے بھی اس کے معنی معلوم نہیں ہیں لیکن ہمارے یہاں ممتاز حسین صاحب ایک ایسے ادیب ضرور ہیں جنھیں اس فقرے کے معنی اس حد تک معلوم ہیں کہ اس کی تفہیم ہی نہیں تردید بھی کرسکتے ہیں، انھوں نے ایک پورا مضمون کھینچ مارا ہے جس میں ایلیٹ کو یہ گالی دی گئی ہے کہ اس نے شخصیت سے فرار کا نظریہ صرف اپنی ٹھنڈی شاعری کے جواز کے لیے پیش کیا ہے۔ اتفاق سے ہربرٹ ریڈ صاحب بھی ایلیٹ کو یہ بتانے بیٹھے تھے کہ اس کے ذہن میں شخصیت اور کردار کا فرق واضح نہیں ہے۔ چنانچہ ہربرٹ ریڈ صاحب نے ایلیٹ کو یہ سمجھایا کہ شاعری شخصیت سے نہیں کردار سے فرار کرتی ہے۔ ہربرٹ ریڈ صاحب کے خیال کے مطابق کردار ایک ٹھوس بلکہ ٹھس چیز ہے جب کہ شخصیت اس کے مقابلے پر بڑی لچک دار اور سیال چیز ہے۔ کردار عمل سے پیدا ہوتا ہے اور عمل کے لیے ضروری بھی ہے۔ چنانچہ کردار کی محدودیت سے آزاد ہوتا ہے مگر یہ آزادی اسے، شخصیت کے اندر رہ کر ہی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ممتاز صاحب کا تنقیدی رتبہ اسی سے ظاہر ہے کہ وہ ایلیٹ اور ہربرٹ ریڈ کے درمیان حکم بن کر بیٹھ گئے اور ہربرٹ ریڈ کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ بڑے آدمیوں کی بڑی باتیں، ہم جیسے ایرے غیرے پچ کلیان کیا بول سکتے ہیں۔ چنانچہ عافیت اسی میں معلوم ہوتی ہے کہ نظیرؔ صدیقی کے ساتھ اعتراف کرلیا جائے اور ضیا جالندھری صاحب کے خیالات سنے جائیں۔

    البتہ میں نے ایک چالاکی ضرور کی کہ نہ جاننے کا اعتراف کرنے کے بعد دوسروں سے پوچھنے میں دیر نہیں لگائی۔ ملّا کی دوڑ مسجد تک، اپنے سب کچھ تو عسکری صاحب ہی ہیں۔ پوچھنے کی ہر بات انھی سے پوچھتا ہوں۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ ان کے اوراد و وظائف میں حارج ہوں گا تو سب سے پہلے انھی کے پاس جاتا مگر ان کی مصروفیت کو دیکھتے ہوئے مجبوراً لارنس کے پاس جانا پڑا۔ لارنس نے جمہوریت پر بحث کرتے ہوئے ایک باقاعدہ مضمون شخصیت اور انفرادیت پرلکھا ہے۔ چنانچہ کیا برا ہے اگر ہم اختصار کے ساتھ لارنس کے خیالات کا جائزہ لیں۔ لارنس کے خیال میں انفرادیت شخصیت سے زیادہ بنیادی چیز ہے، آپ مجھے یاد دلائیں گے کہ یہ پہلا خیال ہی الٹا ہے کیوں کہ انفرادیت شخصیت کی صفت ہوتی ہے، اس لیے انفرادیت شخصیت کے مقابلے پر فروعی ہے۔ اصل چیز شخصیت ہے، انفرادیت اس کی شاخ ہے۔ لیکن لارنس کے کچھ اپنے دلائل ہیں۔ ان دلائل کو واضح کرنے کے لیے ہمیں انفرادیت اور شخصیت کے انگریزی مترادفات کو دیکھنا چاہیے۔ انفرادیت individuality کا ترجمہ ہے اور شخصیت personality کا۔ لارنس کہتا ہے کہ انڈویجولٹی اسی چیز کو کہتے ہیں جو ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ تجزیہ ہوتی ہے، یعنی جوہری۔ یہ بسیط حقیقت ہے اور کسی چیز سے مرکب نہیں ہے، اس کے مقابلے پر پرسنلٹی ایک لفظ ‘پرسنا’ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں، مصنوعی چہرہ جسے ناٹک والے اپنے اصلی چہروں پر لگاتے ہیں۔ یہ ایک اوڑ؍ی ہوئی، اوپر سے عائد کی ہوئی اکتسابی چیز ہے۔ چنانچہ لارنس کا استدلال یہ ہے کہ ایک اکتسابی چیز ایک فطری جوہر کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اب ہم انفرادیت اور شخصیت دونوں کو ایک اور لفظ ذات کے مقابل رکھ کر دیکھیں گے۔ ذات کا انگریزی مترادف self ہے۔ ان تینوں میں رشتہ یہ ہے کہ انفرادیت ذات کا تعین ہے اور شخصیت ذات کا تصور۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہمارے وجود کے تین پہلو ہیں،

    (۱) جیسے ہم ہیں

    (۲) جیسے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں اور

    (۳) جیسے ہم دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں

    جیسے ہم ہیں، یہ مقامِ ذات ہے۔ اس کا پورا علم ناممکن ہے لیکن اس ذات کا ہم خود ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور کو دوسروں پر ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل کر شخصیت بناتی ہیں۔ اب شخصیت کے دو پہلو ہوئے: ایک داخلی، ایک خارجی۔ خارجی پہلو عمل اور قول میں ظاہر ہوتا ہے، اسے ہم کردار کہتے ہیں مگر کردار وار شخصیت دونوں ذات پر ایک اضافہ ہیں اور مصنوعی ہیں۔ عمل اور ظہور کی دنیا میں یہ دونوں ضروری ہیں کیوں کہ ان کے بغیر ذات ظاہر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اپنے مقام پر ان کی اہمیت مسلم ہے مگر ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شخصیت اور کردار کے پیچھے اصلی ذات اسی طرح موجود ہوتی ہے جس طرح مصنوعی چہرے کے پیچھے خود ایکٹر اب ہم لارنس کے اس خیال کو شاعری کے مسئلے سے ملا کر دیکھیں گے۔

    عام زندگی میں انسان کی دنیا عمل کی دنیا ہے۔ عمل کی دنیا میں وہ سب سے پہلے ایک معاشرے کا حصہ ہوتا ہے۔ ایک باپ، ایک بیٹا، ایک آقا، ایک ملازم، ایک تاجر، ایک گاہک۔ عمل کی دنیا کی یہ ضرورت اسے ایک خاص رویے اور طریقۂ کار اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ زیادہ پختہ ہوکر یہ رویہ اور طریقۂ کار اس کی پوری زندگی پر حاوی ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے سوچنے اور محسوس کرنے کے طریقے کو بھی متعین کرنے لگتا ہے۔ چانچہ آپ ایسے لوگوں کو روز دیکھتے ہیں جو کلرک ہیں تو ساری زندگی میں کلرک ہی بن کر رہ گئے ہیں۔

    کلرک، کلرک بن کر رہ جاتا ہے اور وزیراعظم، وزیراعظم، حالانکہ یہ مصنوعی چہرہ لگانے سے پہلے وہ ‘انسان’ تھا، یعنی اس میں بے شمار چیزیں بننے کے امکانات موجود تھے۔ عمل کی زندگی میں اس مصنوعی چہرے کے مستقل استعمال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ استعمال کرنے والے کی کھال میں پیوست ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اسی کو اپنا چہرہ سمجھنے لگتا ہے۔ مگر شاعر کا پہلا کام خود آگہی ہے۔ خود آگہی جتنی مکمل ہے، تخلیقی فن کار اتنا ہی بڑا ہے۔ چنانچہ فن کار کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ مصنوعی چہرے کو ہٹا کر برابر اپنا اصلی چہچہ دیکھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ برگساں نے اسی خیال کو اس طرح ظاہر کیا ہے کہ عملی زندگی انسانی فطرت پر ایک چھلکا چڑھا دیتی ہے۔ یہ چھلکا عام آدمیوں میں موٹا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اصلی فطرت کو نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن فن کار وہ ہوتا ہے جو اس چھلکے کے اُس پار دیکھ سکے۔ برگساں کا خیال ہے کہ جب کبھی کوئی ایسا فن کار پیدا ہوگا، جو اس چھلکے کے اُس پار اس طرح دیکھ سکے جس طرح شفاف شیشے کے پار دیکھا جاسکتا ہے تو دنیا کا سب سے بڑا فن کار وجود میں آجائے گا۔ برگساں کے خیال میں پوری تہذیب بھی ایک چھلکے کی طرح ہے، اس لیے فن کار تہذیب سے بھی، دھوکا نہیں کھاتا اور یوں انفرادی اور اجتماعی دونوں مصنوعی چہروں کے اندر جھانکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اب ایلیٹ کے اس فقرے کے معنی صاف ہیں کہ شاعری شخصیت کا اظہار نہیں، شخصیت سے فرار ہے یعنی شاعری مصنوعی چہرے سے بھاگ کر اصلی چہرے کی طرح جاتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ شخصیت کے اظہار کے قائل ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جو مصنوعی چہرے ہی کو اصل سمجھتے ہیں اور اس کو طرح طرح کی رنگ آمیزیوں کے ساتھ دوسروں کو دکھاتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خود آگہی کے بجائے خود فریبی اور جہاں فریبی میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیجیے یہ تو بالکل سادہ سی بات ہے مگر شاید اس کی تفہیم اس لیے نہیں ہوتے کہ اسے سمجھنے کے لیے ٹی ایس ایلیٹ کی ایک شرط ضروری ہے، یہ کہ سمجھنے والے کے پاس شخصیت موجود ہو۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے