میں نے شخصیت، انا اور لاشعو ر کے بارے میں اب تک جو کچھ لکھا ہے، حتی الامکان غیرعلمی انداز میں لکھا ہے۔ شاید میں چاہوں بھی تو علمی انداز اختیار نہیں کر سکتا۔ وجہ ظاہر ہے ایک تو میں علمی آدمی نہیں ہوں۔ دوسرے علمی آدمیوں کو دیکھ کر ڈر بھی گیا ہوں۔ شوکت سبزواری، عبادت بریلوی سے کون نہیں ڈرے گا۔ میرا تو سیدھا سادا اصول یہ ہے کہ جو کچھ میرے تجربے میں آتا ہے اور میں اس تجربے کو جہاں تک سمجھ سکتا ہوں، لکھ دیتا ہوں، چنانچہ مجھے یہ خوش فہمی بالکل نہیں ہے کہ کالج کے لڑکے ان مضامین کو پروفیسر فائق کی کتاب ’’مسائلِ نفسیات‘‘ کی طرح پڑھیں گے، یہ تو اپنے تجربے کو سمجھنے سمجھانے کی صرف ایک کوشش ہے اور بس۔ سمجھانے سے بھی زیادہ سمجھنے کی۔ اس لیے جب میرے دوست احمد ہمدانی نے میرا پہلا مضمون پڑھ کر مجھ سے یہ پوچھا کہ میں ایلیٹ کے شخصیت سے فرار ہونے والے نظریے کی تائید کرکے کہیں یہ تو نہیں کہہ رہا ہوں کہ شاعر کو ایگو اور سپر ایگو سے بھاگ کر اِڈ کی طرف بڑھنا چاہیے تو میں چپ سا ہو گیا۔ یہ تینوں اصطلاحیں فرائیڈ کی ہیں، میں فرائیڈ کو اس بیسویں صدی کا بہت بڑا آدمی سمجھتا ہوں، اس وجہ سے نہیں کہ وہ بہت بڑا معالج یا سائنسدان تھا اور اس نے اپنے نظریات کی تائید میں ہزاروں انسانوں پر تجربے کیے تھے۔ یہ بھی بڑی مرعوب کن بات ہے، مگر میں تو اس لیے قائل ہوں کہ دراصل اس کی تجربہ گاہ صرف ایک ہی تھی، خود وہ یوں دیکھیے تو میرے یہ ہلکے پھلکے مضامین خود فرائیڈ کی چھوٹی سی پیروی کا نتیجہ ہیں۔ بہرحال اپنی جہالت کے باوجود میں چاہتا تو اِڈ پر تھوڑی بہت علمی گپ زنی ضرور کر سکتا تھا، اس لیے احمد ہمدانی صاحب کے جواب میں چپ رہا تو یہ سوچ کر کہ یہ سوال تو ممتاز صاحب سے بھی پوچھ لیں گے۔ جب ممتاز حسین موجود ہیں تو میرا بولنا کیا ضروری ہے۔
لیکن اس مضمون کا عنوان انا اور لاشعور رکھ کر میں نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ بیاض کے دیباچے میں شاعری کو شعور کی اولاد کہہ کر جو گزری، وہ بھولنے کی چیز نہیں۔ ایسے ایسے علمی آدمی بگڑے ہیں کہ جہالت کا آسرا نہ ہوتا تو بھاگ کھڑا ہوتا۔ بہرحال اب عنوان رکھ ہی دیا ہے تو کیے کو بھگتنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اس لیے آیئے بات شروع کرنے سے پہلے ایک بار اپنی کہی ہوئی دو ایک باتیں دہرا دوں۔ میں نے کہا کہ انا اور حقیقت کے ٹکراؤ میں انا مجروح ہو کر مریض، غیرمتوازن اور غیرمنظم ہو جاتی ہے۔ جس سے کم زوریا منفی شخصیت پیدا ہوتی ہے۔ شخصیت کو اس خرابی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انا حقیقت کے مقابل ہو کر پچکنے یا اچھلنے نہ لگے بلکہ اس سے متوازن، حقیقت پسندانہ اور بھرپور رشتہ قائم کرلے۔ یہ رشتہ قائم ہو جائے تو شخصیت میں انا اور اصولِ حقیقت دونوں کی جگہ نکل آتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے قدم بہ قدم چل کر شخصیت کو مستحکم، توانا اور بھرپور بناتے ہیں۔ میں نے اس رشتے کے لیے شعور کو ضروری قرار دیا ہے۔ ہمارے مادری پدری اصول والے سجاد باقر مجھے یاد دلائیں گے کہ شعور تو خود انا کی روشنی کا دائرہ ہے لیکن ان کے اس اعتراض سے پہلے میں جلدی سے اپنی باتوں کو مکمل کر لوں۔ میں نے جب شعور کا لفظ کہا تو اس کی دو صورتیں میرے ذہن میں تھیں، ایک کو آزاد شعور، دوسرے کو غلام شعور کہہ لیجیے، آزاد شعور غیر انا کی ملکیت ہوتا ہے۔ غلام شعور انا کی۔ یا یوں کہیے کہ انا جب اس شعور کو جو غیر انا کی ملکیت ہے، غصب کر لیتی ہے اور اس کی حاکم بن کر اسے اپنا آلۂ کار بنا لیتی ہے تو غلام شعور وجود میں آتا ہے۔ یہ شعور کی مسخ شدہ شکل ہوتی ہے۔ مسخ ہو کر یہ اتنا چابک دست، تیز اور سفاک ہو جاتا ہے کہ چلتی ہوئی تلوار بھی اس کا مقابلہ نہیں کر ستکی۔ پچھلے بس برس سے میں عورتوں میں بالخصوص اس مسخ شدہ شعور کی پیدائش کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح اس نام نہاد شعور نے نسائیت کا قتل عام کیا ہے مگر یہ ایک الگ بحث ہے، پھر کبھی سہی۔ بہرحال میں یہ کہہ رہا تھا کہ عام انسانوں میں ہم جس شعور کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہ غلام شعور ہوتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے۔ عام زندگی عمل کی زندگی ہے۔ یعنی سماجی عمل کی۔ سماجی عمل کے محرکات ابتداءً جبلی یا حیاتیاتی ہوتے ہیں مگر سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ ان میں انا کا عمل بھی شامل ہو جاتا ہے۔ مثلاً روٹی حاصل کرنے کے لیے انسان جو کچھ کرتا ہے، وہ تو حیاتیات ضرورت ہے، مگر جب انسان کی جدوجہد اس سے آگے بڑھ کر سماجی مرتبے یا حیثیت سے وابستہ ہو جاتی ہے تو یہ عمل حیاتیاتی یا جبلی نہیں رہتا۔ یہ انا کا عمل بن جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ انا ہر حیاتیاتی عمل میں اتنی دخیل ہو جاتی ہے کہ اسے اس کے مرکز سے ہٹا کر خود اس کی جگہ براجمان ہو جاتی ہے۔ ایسے انسانوں کا کل عمل انا کے تابع ہوجاتا ہے، چاہے کوئی پیسا جمع کرلے، چاہے عورتیں۔ جن بے چاروں کو یہ نہیں ملتا، وہ خیالی ’’فتوحات‘‘ پر گزر اوقات کرتے ہیں۔ یعنی شاعر اور ادیب بن جاتے ہیں۔ اس طرح عملی شعور انا کا غلام ہوتا ہے۔ انسان جوں جوں ایسے عمل میں زیادہ گرفتار ہوتا جاتا ہے۔ اس کا اصل یعنی آزاد شعور جسے میں نے غیر انا کی ملکیت کہا ہے۔ غائب ہونے لگتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ اتنا غائب ہو جاتا ہے کہ اس کی جگہ صرف خواب میں باقی رہ جاتی ہے۔ انا اور عملی شعور کی یہ فتح یابی موجودہ معاشرے کی روح ہے۔ مگر وہ کہہ چکا ہوں کہ انا کچھ کر لے، خدا کائنات، جبلّتیں اور جسم یعنی غیر انا کی قوتیں اس کی مطلق العنانی کو برداشت نہیں کر سکتیں۔ وہ چاروں طرف سے اس پر حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ نتیجہ اختلال ذہن غیر انا، انا کے قلعے کو مسمار کر دیتی ہے۔ مسمار نہیں کر سکتی تو گولے مار مار کر فصیلوں میں شگاف ڈال دیتی ہے۔ آپ ان شگافوں کے اندر انا کی شکست خوردہ فوج دیکھ سکتے ہیں۔ یہ خود رحمی ہے جو اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ وہ احساسِ کمتری ہے جو خود بہ خود بیٹھا بیٹھا گھلا جا رہا ہے۔ وہ غرور ہے جو غرا غرا کر نئی مورچہ بندی کے منصوبے سوچ رہا ہے۔ غالباً اب ہم فرائیڈ کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ میں یہ عملی یا انانیت کا غلام شعور ہی تو ہے جس کے مقابلے پر گمشدہ آزاد شعور کو فرائیڈ نے لاشعور کہہ دیا ہے۔
میں نے فرائیڈ کو بیسویں صدی کا بڑا آدمی کہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ جو میں سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس نے یہ بات دریافت کی۔ نہ صرف دریافت کی کہ بلکہ اسے سائنٹفک حقیقت بنا دیا کہ موجودہ تہذیب میں انسانی اعمال کی محرک انا ہے۔ اور انسانی شعور انا کا تابع ہو گیا ہے۔ چنانچہ فرائیڈ کے نزدیک اختلالِ ذہنی انا کے اس عمل کا نتیجہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کے حیاتیاتی یا جبلی وجود کی فطری خواہشات کو دباتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں شعور میں بھی نہیں آنے دیتا۔ تحلیل نفسی کا اصول ایسی دبی ہوئی خواہشات اور رجحانات کو شعور میں لے آنا ہے۔ فرائیڈ اور اس کے مقلد اسے لاشعور سے شعور میں لانے کا عمل قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ صرف اصطلاحات کا جھمیلا ہے۔ یہ کہیے کہ لاشعور سے شعور میں آتا ہے، یا یہ کہیے کہ غاصب انا کا غلام شعور آزاد ہو کر غیر انا کی ملکیت میں چلا جاتا ہے۔ بات ایک ہی ہے صرف ناک کو پکڑنے کا فرق ہے۔ میں ناک کو جس طرح پکڑنا چاہتا ہوں، وہ اگر فرائیڈ سے مختلف ہے تو اس کی وجہ میری ضد یا خود پسندی نہیں ہے بلکہ بات یہ ہے کہ میں نے اپنے بزرگوں کو ناک اسی طرح پکڑتے دیکھا ہے، یہ ہماری تہذیب کی روایت ہے۔ ہماری تہذیب غیر انا کے حقیقی اور آزاد شعور کو لاشعور نہیں کہتی ہے، شعور کہتی ہے۔ لاشعور وہ کہیں جن کو صرف غلام شعور کا تجربہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.