اب تک ہم شخصیت کے بارے میں جو کچھ کہہ چکے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے،
(۱) شخصیت ذات سے الگت ہوتی ہے اور اس پر ایک اضافہ ہے۔
(۲) شخصیت اس تصور سے پیدا ہوتی ہے جو ہم اپنی ذات کے بارے میں رکھتے ہیں۔
(۳) یہ تصور ہمیشہ پسندیدہ اور خوش آیند ہوتا ہے جسے ہم ماں باپ یا اپنے ماحول سے اخذ کرتے ہیں۔
(۴) ہمیشہ یہ تصور انہ کی ملکیت ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شخصیت انا کا ایک پسندیدہ تصور ہے، جو وہ اپنی ذات کے بارے میں رکھتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انا ہمیشہ غیر انا سے برسرِ پیکار رہتی ہے۔ یہ غیر انا کیا ہے؟ حقیقت ہے۔ حقیقت کے دو پہلو ہیں: ایک خارجی، دوسرا داخلی۔ خارجی حقیقت میں کائنات، فطرت، ماحول، معاشرہ اور دوسرے انسان شامل ہیں۔ آپ اجازت دیں تو ایک نام اور لے لوں خدا اور داخلی حقیقت میں محسوسات، جذبات، جبلّتیں وغیرہ۔ یہ انا سے ٹکرائی ہیں۔ اس ٹکراؤ سے شخصیت کی تعمیر ایک مشکل کام بن جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات ناممکن بن جاتا ہے اور اگر کسی طرح شخصیت بن بھی جائے تو کم زور، مریض اور غیرمنظم ہوتی ہے۔ صحت مند، بھرپور اور منظم شخصیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انا اور حقیقت کے درمیان توازن اور ہم آہنگی پیدا ہو۔ انا اس کی اہل نیں ہے اور حقیقت بے پروا انا اس اندھے کی طرح ہے جسے سڑک پار کرنا ہے۔ حقیقت اس بس کی طرح جو سڑک سے گزر رہی ہے۔ اندھا بس کے نیچے بھی آ جائے تو بس کو پروا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فطرت نے انا کو اندھا بنا کر بس کے آگے چھوڑ دیا ہے؟ یقیناً یہ بڑا ظلم ہوتا اگر فطرت اندھے کو آنکھیں نہ دیتی۔ ہماری آنکھ شعور ہے۔ ہم نے لکھا تھا کہ انا اور خارجی و داخلی حقیقت کے ٹکراؤ کو دور کرنے کا صرف ایک طریقہ تھا۔ طریقہ یہ ہے کہ شعور میں دونوں کے لیے جگہ نکالی جائے۔ شعور بیک وقت انا اور غیر انا دونوں کی آگاہی ہے۔ شعور انا اور غیر انا دونوں کو دیکھتا ہے۔ اور دونوں کا تعلق پیدا کرتا ہے۔ تعلق انا بھی پیدا کرتی ہے مگر اس طرح جس طرح اندھا بس کا شور سن کر کبھی آگے پیچھے کبھی دائیں بائیں ہٹتا ہے۔ اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ بس کدھر ہے اور وہ کدھر؟ لیکن شعور صیح تعلق پیدا کرتا ہے۔ میں نے غلط کہا پیدا نہیں کرتا۔ صرف بتاتا ہے کہ صحیح تعلق کیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شعور کا فریضہ آنکھوں کی طرح صرف ایک ہے، دیکھنا۔
مگر آنکھوں کا دیکھنا کئی شرطوں کا تقاضا کرتا ہے۔ آنکھیں بند نہ ہوں کھلی ہوں، آنکھوں پر کوئی رنگین چشمہ نہ ہو، ورنہ چیزیں دوسرے رنگ میں نظر آئیں گی۔ دیکھنے کا زاویہ صحیح ہو، ورنہ چیزیں ٹیڑھی میڑھی، چھوٹی بڑی ہو جائیں گی۔ انا شعور سے اس وقت کام لے سکتی ہے جب یہ شرائط پوری کرے۔ شرائط کا شعور بھی شعور ہی دیتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ آنکھیں ہزار نعمت ہیں۔ انا کے لیے شعور ہزار نعمت ہے۔ مگر انا اکثر کفرانِ نعمت کرتی ہے۔ کفرانِ نعمت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ولیش نعمت کی نمک حرامی کرکے اس کی ملکیت غصب کرلی جائے۔ انا غاصب ہے، وہ شعور کو جو خدا کی، فطرت کی، کائنات کی یعنی غیرانا کی ملکیت ہے، غصب کرکے اپنی ملکیت بنا لیتی ہے۔ وہ کہتی ہے ’’میری آنکھیں‘‘ اور پھر اپنی آنکھوں سے جو چاہتی ہے، کرتی ہے۔ کبھی ان پر پٹی باندھ دیتی ہے، کبھی رنگین چشمہ پہنا دیتی ہے، کبھی ان کے فطری زاویے کو الٹ پلٹ کر دیتی ہے۔ یہاں تک کہ کبھی آنکھیں پھوڑ دیتی ہے۔ شعور انا کا غام ہو کر اپنا فریضہ ادا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اب وہ دیکھتا ہے جو انا چاہتی ہے، اس رنگ میں دیکھتا ہے، جو انا کو مرغوب ہے، اس زاویے سے دیکھتا ہے جو انا کو پسند ہے، جو زاویہ اور رنگ انا کو پسند نہیں، وہ شعور سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انا اگر کسی چیز کو دیکھنا ہی نہ چاہے تو غلام شعور بھی اسے دیکھنے سے انکار کر دیتا ہے۔ یوں اندھے کا رہنما بھی اندھا بن جاتا ہے، اور دونوں میں اللہ ملائی جوڑی کا سا مزہ اتا ہے۔ ہم روزمرہ زندگی میں ایسے اندھوں کو اس کثرت سے دیکھتے ہیں کہ ان کے عادی ہو گئے ہیں۔ اب ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآنِ حکیم نے کہا ہے کہ گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ بصارت، سماعت، گویائی سب غیر انا کی ملکیت تھے۔ انا نے ان پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب یہ سب قوتیں اس کی غلام ہیں۔ حریت پسندوں کو غلام بنانے کا تجربہ امریکہ، برطانیہ، فرانس سب کو ہو چکا ہے۔ ہٹلر اور مسولینی بھی یہ تجربہ کرچکے ہیں مگر ان کا انجام ہمارے سامنے ہے اور کچھ اور سامنے آ جائے گا۔ انا نے بھی غیر انا کی آزاد قوتوں کو مفتوح کیا ہے، اس کی ہٹلریت کی سزا اس کو ملے گی۔
غیر انا۔۔۔ انا سے اس غاصبانہ حرکت کا انتقام اس طرح لیتی ہے۔ جیسے کوئی اندھے کو غلط راستہ بتا کر دوڑا دے جس پر کنواں ہے۔ انا اپنے زور میں دوڑاتی چلی جاتی ہے، اس کی محکوم بصارت بڑھاوا دیتی ہے۔ ہاں یہی صحیح راستہ ہے، محکوم سماعت کہتی ہے، ’’ارے میں تو منزل کے بلاوے سن رہی ہوں۔‘‘ اور محکوم گویائی نعرے مارتی ہے۔ بڑھے چلو، بڑھے چلو، مقصد تو جلدی سے جلدی کنویں میں گرا دینا ہے۔ افسوس کہ کنویں میں گر کر بھی سزا پوری نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ ساری محکوم قوتیں استہزا اور طنز کی دیویاں بن جاتی ہیں۔ وہ اندھے سے پورا پورا لطف لینے کے لیے کہتی ہیں۔ واہ واہ کیا خوشنما منزل ہے۔ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک بندر نے مٹی کا چبوترا بنایا، اس پر گوبر لیپا اور چڑھ کر بیٹھ گیا اور ہر آنے جانے والے سے کہتا تھا، ’’کہو چاندی کا چبوترا، سونے کا تخت، تخت پہ بیٹھا راجا بخت۔‘‘ محکوم قوتیں انا کو سچ مچ راجا بخت بنا دیتی ہیں۔ ہم معاشرے میں جب ایسے راجا بختوں کو دیکھتے ہیں تو کیسا مزہ آتا ہے کہ مٹی اور گوبر کو کم بخت کیا سمجھ رہے ہیں۔
پتہ چلا کہ شعور کا ہونا کافی نہیں۔ شعور کا اس کے حقیقی مالک کے پاس رہنا ضروری ہے یعنی غیرانا کے پاس، شعور جب غیر انا کے پاس ہوتا ہے تو جو کچھ بولتا ہے۔ وہ وحی ہے، الہام ہے۔ کلمۂ حق ہے، نعرۂ صداقت، آوازِ سروش، ندائے ہاتف ہے، نفسِ جبریل ہے، دیوبانی ہے، نغمۂ خداوندی ہے۔ وید ہے، گیتا ہے، توریت ہے، زبور ہے، انجیل ہے اور بے شک قرآن ہے۔ باقی جو کچھ ہے وہ شعور نہیں، انا کے بچھڑے کی آواز ہے۔ کتنے ہیں کہ اس بچھڑے کی آواز پر جھوم رہے ہیں اور جھوم جھوم کر مستی میں سجدے کر رہے ہیں، اس کی سزا ایک مرتبہ بنی اسرائیل کو مل چکی ہے اور انا کے بچھڑے کے ہر پوجنے والے کو ملے گی۔
لیکن شعور کو اس کی صحیح جگہ پر رکھنے کا ایک چھوٹا سا ذریعہ ادب بھی ہے۔ سچا ادب ہمیشہ ہمیں دکھاتا ہے کہ شعور غیر شخصی چیز ہے۔ یہ انا کا خادم نہیں، غیر انا کا آلۂ کار ہے۔ دنیا کی بہترین شاعری، ادب اور فلسفہ ہمیں اس سے زیادہ نہیں بتاتے جو ادب ہمیں یہ بتاتا ہے، وہ سچا ادب ہے۔ سچا ادب ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ شعور کے شخصی بن جانے یا ان کا غلام بن جانے سے شعور پر کیا گزرتی ہے۔ شعور پر بھی اور خود انا پر بھی۔ لیکن ہر ادب سچا نہیں ہوتا۔ سچے ادب اور جھوٹے ادب میں فرق یہ ہے کہ جھوٹا ادب اس شعور کا اظہار کرتا ہے جو انا کا غلام ہو چکا ہے، یہ جھوٹا ادب اس غلامی کو پختہ تو کرتا ہے، اسے دائمی اور ناقابلِ رہائی بناتا ہے۔ یہ اندھے کو اندھے پن کی داد دیتا ہے اور میٹھی میٹھی باتوں سے مسحور کر کے اپنے اندھے پن پر اور معزور کر دیتا ہے۔ یہ بات پبلیشروں کے خلاف نہ سمجھی جائے اور رائٹرز گلڈ والے اسے اپنے اوپر طنز نہ سمجھیں تو کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے بازار جھوٹے ادب سے بھرے پڑے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.