Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شخصیت۔۔۔ انا اور اصول حقیقت (۱)

سلیم احمد

شخصیت۔۔۔ انا اور اصول حقیقت (۱)

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    پچھلے باب ’’شخصیت۔۔۔ مثبت اور منفی‘‘ میں، میں نے لکھا ہے کہ شخصیت پسندیدہ تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ جو بچہ اپنے ماں باپ یا ماحول سے اخذ کرتا ہے۔ لیکن یہ پوری سچائی نہں ی ہے، پوری سچائی شایدہمارے ہاتھ بھی نہیں آتی، کیوں کہ یہ تو صرف جرمن فلسفیوں کے پاس ہوتی ہے۔ البتہ ہم یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ہلدی کی ایک گانٹھ کو پوری دکان سمجھنے کے بجائے، زیادہ سے زیادہ گانٹھیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ چنانچہ ایک گانٹھ تو آپ دیکھ چکے ہیں، اب دوسری گانٹھ دیکھیے۔ بچہ جب کسی پسندیدہ تصور کو اختیار کرتا ہے تو کچھ دن کے بعد اس میں ایک اور چیز پیدا ہونے لگتی ہے جو اس کی بنتی ہوئی شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہے، یعنی تصورِ حقیقت مثلاً ایک بچہ یہ تصور اخذ کرتا ہے کہ وہ ایک سچا بچہ ہے۔ چونکہ یہ تصور پسندیدہ ہے، اس لیے اس کے لاشعور میں یہ بات بھی رہتی ہے کہ سچ بولنا مفید اور قابل تعریف بات ہے لیکن فرض کیجیے، آپ کے بچے سے آپ کی گھڑی ٹوٹ جاتی ہے اور وہ سچ بول دیتا ہے کہ گھڑی اس سے ٹوٹی ہے تو آپ کیا کریں گے۔ یقینا اگر آپ محتاط اور باشعور نہیں ہیں تو آپ اسے ڈانٹیں گے۔ اس تجربے سے بچے کو معلوم ہوگا کہ سچ بولنا ہر موقعے پر مفید اور قابل تعریف نہیں ہوتا۔ ممکن ہے اگر آپ کے بچے کا کوئی دوست اس سے کہہ بھی دے کہ یار اگر تو نہ بتاتا کہ گھڑی تجھ سے ٹوٹی ہے تو تجھے ڈانٹ نہ پڑتی۔ ایسا تجربہ دو چار بار عمل میں آجائے تو بچے میں پسندیدہ تصور اور حقیقت کے درمیان باقاعدہ ایک کش مکش کا آغاز ہو جائے گا یعنی وہ یہ فیصلہ نہ کر سکے گا کہ سچ بولنا اچھا ہے یا برا؟ یہاں ایک ہلدی کی گانٹھ مجھے نظر آ رہی ہے۔ بچہ جو پسندیدہ تصور اختیار کرتا ہے، اس کا محرک ’’انا‘‘ ہوتی ہے۔ یہ انا ہی ہے جو اس بات سے خوش ہوتی ہے، ’’آہا، کتنا اچھا بچہ ہے۔‘‘ اور اس سرشاری میں بار بار تعریف سننے کے لیے اس عمل کو دہراتی ہے۔ اب ہم بچے کی مذکورہ بالا کش مکش کے بارے میں علمی زبان میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس کی انا اور اصول حقیقت میں کھینچ تان ہو رہی ہے۔ اس کھینچ تان کا نتیجہ اکثر یہ نکلتا ہے کہ بچے کی شخصیت دو نیم ہو جاتی ہے۔ وہ سچ بولنا چاہتا ہے اور سچ بولنے سے ڈرتا بھی ہے۔ چنانچہ کش مکش کی تکلیف سے بچنے کے لیے وہ جھوٹ بولنا شروع کرتا ہے۔ مگر خود کو سچا بچہ سمجھنا نہیں چھوڑتا۔ ہم آپ زندگی میں ایسے بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں۔ جو جس خوبی کے مدعی ہوتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اسی کے خلاف ہوتا ہے اور جس چیز کا پرچار سب سے زیادہ کرتے ہیں، اسی کی خلاف ورزی بہ کثرت کرتے ہیں۔ یہ وہی بچے ہیں جن کی انا اور اصولِ حقیقت کے ٹکراؤ میں ان کی شخصیت دو نیم ہو گئی ہے۔

    لیکن عنفوان شباب تک ہم جو پسندیدہ تصورات بھی اختیار کرتے ہیں، ان کا مقدر حقیقت سے ٹکرا کر ہی پورا ہوتا ہے۔ ہر اوسط درجے کا طالب علم جانتا ہے کہ جو ’’اچھی‘‘ باتیں اس نے اپنے گھر اور اسکول یا کالج میں سیکھی تھیں۔ عملی دنیا نہ صرف ان سے مختلف ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ان کے خلاف سازش کر رکھی ہے، انا کو اس سے بڑا دھکا لگتا ہے۔ پہلے تو نوجوان مبہوت ہوکر رہ جاتے ہیں اور اس کے بعد شکوہ شکایت کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ بہت سے مایوس ہو جاتے ہیں اور صلح کرلیتے ہیں۔ بہت سے باغی ہو جاتے ہیں، اس طرح باغی اور مصلحت پسند دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک کی انا کمزور ہے، اس لیے صلح کرتی ہے، دوسرے کی طاقتور ہے، اس لیے بغاوت کرتی ہے مگر دونوں اصول حقیقت سے حقیقی رابطہ یا مطابقت پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ سارے سنکی، سارے کلبی، سارے قنوطی، سارے انقلابی، سارے رونا رونے والے، سارے منہ سکوڑ کر ہنسنے والے، سارے گھونسا تان کر بات کرنے والے اسی ناکامی کا مظہر ہوتے ہیں۔ دن سپنے بھی کم زور انا کے اصول حقیقت سے فرار کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہم نے بہت سے لوگ دیکھے کہ بچپن اور جوانی میں اس سے بچ گئے۔ تو ادھیڑ ہو کر یا بڑھاپے میں اس کا شکار ہو گئے۔ خدا اس عمر کے پچھتاووں، خود رحمیوں، خوفوں اور ضرورتوں سے بچائے، ایسے ایسے پہاڑ پگھل جاتے ہیں کہ چشمِ نظاہرہ پتھر کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ شاعروں اور ادیبوں میں اس کے اتنے بہت سے نمونے دیکھے ہیں کہ اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ پتا نہیں کب لکھ دی جائے۔

    لیکن انا اور اصول حقیقت کے ٹکراؤ کا نتیجہ مفاہمت اور بغاوت ہی کی صورت میں نہیں نکلتا، اس کی ایک اور صورت بھی ہے۔ ترک، گوشہ گیری۔ انا نہ مفاہمت کرتی ہے، نہ بغاوت، بس قلعہ بند ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ مذہب کی طرف دوڑ پڑتے ہیں کہ جس انا کو انسانوں اور دنیا پر استعمال نہیں کر سکے۔ اسے خدا پر استعمال کریں گے، نقلِ کفر، کفر نباشد، خدا ان کے لیے خوش اخلاق بیرے کا کام دیتا ہے اور دعا کی شکل میں طرح طرح کے احکام خدا کو دیتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا پردہ مذہب نہیں، ادب ہوتا ہے جو اہمیت ذخیرہ اندوزی کر کے حاصل ہوتی ہے، اسے وہ علم کی ذخیرہ اندوزی سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عہدہ، افسری، مال، دولت سب کی تلافی شاید کسی حد تک شہرت کر دیتی ہے۔ چنانچہ کیا برا ہے۔ اگر کچھ نہ بننے کے غم کا مداوا رسالے میں تصویر چھپوا کر کر لیا جائے اور اس کو وہ ادب دوستی اور علم کی پیاس کا نام دیتے ہیں۔

    فاؤسٹؔ میں بھی علم کی ایسی ہی جھوٹی پیاس تھی۔ افسوس کہ ایسے ادب کو پڑھ کر خود آگہی کے بجائے اور خود فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کئی پروفیسر، کئی نقاد، کئی ادیب ایسی ہی علم دوستی میں مبتلا ہیں۔ فائدہ اس میں یہ ہے کہ ذخیرہ اندوزوں کو پولیس بھی کبھی کبھی پکڑ لیتی ہے اور دوسرے بھی برا بھلا کہتے ہیں۔ ادب کی ذخیرہ اندوزی میں حسب خواہش کرسی صدارت نہیں ملتی تو کم از کم جلسوں میں تقریر کرنے یا ادبی عدالتوں میں جج بننے کے لیے تو بلا ہی لیا جاتا ہے۔

    بہرحال شخصیت کیسی بھی ہو، اصولِ حقیقت سے اس کا ٹکراؤ ہوتا ہے جس سطح پر میں ابھی گفتگو کر رہا تھا، اس سے اوپر کی سطح پر ایک اور عمل رونما ہوتا ہے، بچپن کے پسندیدہ تصورات میں مذہب کا جو حصہ ہوتا ہے، وہ ظاہر ہے بلکہ زیادہ تر پسندیدہ تصورات براہِ راست مذہب یا مذہب کے پیدا کردہ اخلاق کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ اب تک معاشرے میں یہ صورت حال موجود ہے کہ بچپن کے مذہبی تصورات آگے چل کر ’’حقیقت‘‘ سے ٹکرا کر چُور چُور ہو جاتے ہیں۔ کسی کو فزکس کی کوئی دریافت مار رکھتی ہے، کسی کو نفسیات کی، کسی کو حیاتیات کی، کسی کو معاشیات کی۔ مثلاً ہمارے یہاں اس کی ایک مثال سر سیّد ہیں۔ ان کی مذہبیت کا ایک زمانے میں یہ عالم تھا کہ ’’رسالہ در ابطال حرکت زمین‘‘ لکھا تھا۔ مگر ان کے رسالے سے زمیں حرکت سے باز نہ آئی اور مجبوراً سپر ڈالنی پڑی۔ سپر ایسی ڈالی کہ مذہب کے ہر اصول کو عقل اور طبیعیات سے سمجھنے سمجھانے لگے۔ بعض لوگوں میں اس کی الٹی صورت ہوتی ہے۔ وہ مذہب کو طبیعیات کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے طبیعیات کو مذہب کی روشنی میں دیکھنے لگتے ہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شخصیت دو نیم ہوکر دو دائروں میں بٹ جاتی ہے۔ مذہب کا دائرہ ایک طرف، سائنس کا دوسری طرف۔ ایسے بہت سے سائنسدانوں کے بھی نام پیش کیے جا سکتے ہیں اور اہلِ مذہب کے بھی۔ مگر بعض اوقات ترازو کا پلہ ایک طرف زیادہ جھک جانے کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ جیسے ہمارے جوش صاحب ہیں کہ مذہب اور دہریت کے درمیان جھولتے رہتے ہیں مگر ڈنڈی دہریت کی طرف زیادہ مارتے ہیں۔ اقبالؔ میں بھی یہ رجحان تھا مگر ان کا پلڑا مذہب کی طرف زیادہ جھکتا تھا، اس مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مارکس اور نطشے بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں اور نیوٹن اور پاسکل بھی۔

    لیکن بہترین شخصیت شاید وہ ہے جس میں انا اور اصول حقیقت کی متوازن ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔ جو سچ بولنے کو پسندیدہ معیار سمجھ کر قبول کرلے مگر حقیقت کے ٹکراؤ سے پچک نہ جائے۔ پچک نہ جائے اور اچھل نہ جائے۔ منافقت کر کے صلح نہ کر لے اور بھڑک بھڑک کر بغاوت کے نعرے نہ مارے۔ بس اپنے شعور میں دونوں کے لیے جگہ نکالے دونوں کی آگہی پیدا کرلے۔ توازن اور ہم آہنگی صرف شعور میں ممکن ہے۔ شعور میں ممکن ہوکر وہ عمل میں بھی پھیلتی ہے۔ شعور دونوں کی آگہی حاصل کرے تو انا اور اصول حقیقت دونوں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ذریعے قوت حاصل کرتے ہیں۔ شعور چابک دست کوچوان کی طرح بگھی کے دونوں گھوڑوں کو ایک دوسرے کے قدم بہ قدم دوڑاتا ہے اور دونوں کی دوڑ سے زندگی نئی توانائیوں، نئی وسعتوں، نئی گہرائیوں کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔ ادب ہمارے اندر یہی شعور اور آگہی پیدا کرتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے