Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شخصیت۔۔۔ انا اور اصول حقیقت (۲)

سلیم احمد

شخصیت۔۔۔ انا اور اصول حقیقت (۲)

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    پچھلی مرتبہ ہم نے ’’شخصیت اور اصول حقیقت‘‘ کے عنوان کے تحت بتایا تھا کہ بچہ جس پسندیدہ تصور کے تحت عمل شروع کرتا ہے، وہ اس کی انا کی ملکیت ہوتا ہے۔ انا جب اس عمل کو بار بار دہرانے لگتی ہے تو شخصیت بننے لگتی ہے مگر انا کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ وہ ہر قدم پر حقیقت سے ٹکرا کر مجروح ہوجاتی ہے۔ اس لیے مثبت قسم کی مضبوط شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ اس میں حقیقت کا تصور سمویا جائے۔ شخصیت میں حقیقت کے لیے جگہ موجود ہو تو انا حقیقت سے ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہونے کی بجائے اس کو قبول کرکے آگے چلتی ہے اور یوں دونوں اصول متوازن طور پر شخصیت کو قوت پہنچاتے ہیں لیکن اس جگہ ایک وضاحت ضروری ہے۔ حقیقت کا لفظ ہم نے یہاں کسی مابعد الطبیعیاتی معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے جب کہ عام معنوں میں یہاں حقیقت سے مراد ہر وہ خارجی چیز ہے جو انا سے متصادم ہو لیکن انا کا تصادم صرف خارجی چیزوں سے نہیں ہوتا بلکہ بعض اندرونی چیزیں بھی انا کے خلاف عمل کرتی ہیں، مثلاً جبلّتیں، بھوک، پیاس، نیند، جنسی ضرورت سب انا کے دشمن ہیں۔ انا تو یہ چاہتی ہے کہ خود اپنی جگہ مکمل ہو جائے۔ سے نہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ خوف، وہ تو کسی دوسرے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتی۔ پھر جب تسلیم نہیں کرتی تو اس سے کسی تعلق کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے ایک مضمون غالبؔ کی انانیت میں یہ دیکھانے کی کوشش کی تھی کہ غالبؔ انا کے اس مطالبے کو کہاں تک پورا کرتا ہے۔ بہرحال انا کے بالکل برعکس جبلّتوں کا تقاضا یہ ہے کہ دوسروں کو تسلیم کیا جائے۔ جبلّتیں انسان کو انا سے باہر نکلنے پر مجبور کرتی رہتی ہیں۔ بھوک دفتر کے چکر کٹواتی ہے، جنس در محبوب کے، انا کو یہ بہت ناگوار ہوتا ہے، اس کا بس چلے تو جبلّتوں کا گلا گھونٹ کر ہلا کردے۔ مگر جبلّتیں ہلاک نہیں کی جا سکتیں۔ کیوں کہ یہ حیاتیاتی وجود کا بنیادی تقاضا ہیں۔ مجبوراً انا انھیں بے دلی، مجبوری، افسردگی اور تلخی سے صرف اس حد تک تسلیم کرتی ہے کہ وہ کھلم کھلا اس کے مقابلے پر نہ آنے پائیں اور بہت ہوا تو انا کی آنکھیں بچا کر اپنا کام پورا کر لیں جس طرح کسی بزرگ خاندان کی موجودگی میں بچے کھیل کود لیتی ہیں۔ انا کو دادا ابا بننے کا سچ مچ بڑا شوق ہے بلکہ سچ پوچھیے تو خدا بننے کا۔ یہ تو یہ چاہتی ہے کہ بس وہ ہو اور کوئی نہ ہو۔ اور جو کچھ ہو، اس کی اجازت سے ہو، خوشی سے مرضی سے ہو، جبلّتیں انا کا شوق دیکھتی ہیں تو سچ مچ بچوں کی طرح ’’دادا ابا‘‘ سے کھیل شروع کر دیتی ہیں اور ذرا سی دیر میں بڑے میاں کی داڑھی کا تنکا تنکا اکھاڑ لے جاتی ہیں۔ جبلّتیں اور جسم دونوں انا کے ’’ہمچو من دیگرے نیست‘‘ کے نعرے کو تسلیم نہیں کرتے اور انا کی مطلق العنانی کو ختم کرکے اس کو اس کے صحیح مقام پر واپس لانا چاہتے ہیں، دراصل جبلّتیں اور جسم ہی نہیں کائنات کا پورا نظام ہی ’’انا‘‘ کی چودھراہٹ کے خلاف ہے۔ انا جب ان خطرات کو اپنے چاروں طرف دیکھتی ہے تو ہتھیار اٹھا لیتی ہے، وہ کائنات، جبلت، جسم غرض ’’غیر انا‘‘ کے ہر عنصر کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور خوں ریز پنجے نکال کر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ لیکن اسے معلوم ہے کہ وہ تنہا جیت نہیں سکتی، اس لیے ایک عیار دشمن کی طرح وہ ایک دھوکے کی فوج تیار کرتی ہے، لطف یہ ہے کہ اس فوج میں ہر چیز ویسی ہی ہوتی ہے جیسے غیر انا کے پاس مثلاً عشق جبلت کی قوت ہے۔ جبلت عشق کو انا کی شکست کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے اور اسے ہر قسم کے ایسے حربوں سے لیس کرتی ہے جوانا کی ساری قوت توڑ دیں۔ انا نہایت عیاری سے ایک دھوکے کا عشق پیدا کر لیتی ہے۔ جو جبلت کے بجائے انا کا سپاہی ہوتا ہے، اسمیں بظاہر ساری خصوصیات جبلی عشق کی ہوتی ہیں۔ مگر وہ اندر سے کچھ اور ہوتا ہے۔ اخلاق بھی ’’عیر انا‘‘ کی قوت ہے اس کا مقصد بھی عشق کی طرح انا کو زیر کرنا ہے مگر انا نہایت چالاکی سے حقیقی اخلاق کے مقابل پر جھوٹا اخلاق پیدا کر لیتی ہے جو ہر طرح سے سچے اخلاق سے مشابہ ہوتا ہے مگر در اصل انا کا خادم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ مذہب تک جو انا کا قطعی اور اٹل دشمن ہے۔ انا اس کو بھی جھانسا دے جاتی ہے اور سچے مذہب کی جگہ جھوٹا مذہب پیدا کر لیتی ہے، اس جھوٹے مذہب کی عبادات، ریاضتیں، مجاہدے، سب سچے مذہب جیسے ہوتے ہیں مگر در اصل اس کی عبادت گاہ میں خدا کے بجائے انا پوجی جاتی ہے، یوں انا سچی کائنات کے مقابلے پر ایک جھوٹی کائنات پیدا کرتی ہے جس کے زمین و آسمان، شجر و حجر، چرند و پرند سب اصلی کائنات سے مختلف ہوتے ہیں ہیں اور اس خود تخلیق کردہ کائنات میں انا خدا بن کر دم بہ دم کن فیکون کے نعرے مارتی اور انا المعبود کی آوازیں لگاتی ہیں۔ مگر جبلت جسم کائنات اور خدا ’’انا‘‘ کی اس فریب کاری کو برداشت نہیں کر سکتے۔ نیند، بھوک، جنس اور جبلت و جسم کی دوسری قوتیں پے در پے چھاپے مارنے لگتی ہے۔ کائنات اپنے حادثوں کو آواز دیتی ہے۔ بیماریوں، دکھوں، مصیبتوں کے شکر جمع کرتی ہے اور حملہ کردیتی ہے، خدا ڈراؤنے خوابوں اور دہشت ناک کا بوسوں میں ظہور کرنے لگتا ہے۔ اس وقت انا کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا قلعہ ریت پر بنا تھا۔ قلعہ کیا منہدم ہوتا ہے کہ انا کو دورے پڑنے لگتے ہیں۔ وہ کبھی خوخیاتی ہے، کبھی غیراتی ہے، کبھی غرے ڈبے دکھاتی ہے۔ کبھی اپنے پنجوں کی نمائش کرتی ہے اورجب اس سب سے کام نہیں چلتا تو ممیانے لگی ہے۔ روتی بسورتی ہے، ٹسوے بہاتی ہے، ہائے وائے کرتی ہے اور بالآخر گربہ مسکین کی طرح دبک کر بیٹھ جاتی ہے۔ ذرا اس کی آنکھوں کو دیکھو اس کی چندھیائی ہوئی آنکھوں میں گزشتہ فتوحات کی یادوں کے کتنے خواب اب بھی لہرا رہے ہیں۔

    بہرحال خارجی حقیقت کے بعد اب انا کو جو سب سے بڑا خطرہ ہے، وہ اس غیر انا سے ہے جو خود انسان میں موجود ہوتی ہے۔ ایک مضبوط اور مثبت شخصیت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ خارجی حقیقت کے ساتھ اس اندرونی حقیقت کی آگاہی بھی حاصل کی جائے۔ پہلے ہم دکھا چکے ہیں کہ سچا بچہ سچ بولنے پر تھپڑ کھا سکتا ہے۔ اسی طرح اس نیک بچے کو دیکھیے جو مثلاً بوڑھی ہمسایہ عورت کی تیمارداری کے لیے رات بھر جاگنا چاہتا ہے۔ ارادہ نیک ہے پورا ہوگا تو اسے دعائیں ملیں گی۔ تعریفیں ہوں گی اور دعاؤں اور تعریفوں سے انا سرشار ہوگی۔ بچہ بے چارہ سو جان سے یہ عمل کرنے کے لیے تیار ہے مگر ہوتا یوں ہے کہ عین اس وقت جب اسے بڑھیا کو دوا پلانے کے لیے پوری طرح بیدار ہونا چاہیے تھا، وہ سو جاتا ہے۔ بڑھیا اس کے خراٹوں کی آواز سنتی ہے تو دعائیں دینے کی بجائے کوستی ہے کہ سونا ہی تھا تو اتنا ڈھونگ کیوں رچایا۔ ہمارے سب سے نیک ارادوں اور خواہشوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، ہم بڑے جتنوں سے کھیر پکاتے ہیں اور وہ شومی قسمت سے دلیہ ہو جاتی ہے۔ نیک ارادے اور منصوبے الٹے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ گلاب بوتے ہیں تھوہر اگتا ہے۔ ایسے موقعوں پر انا کی حالت ہوتی تو قابل رحم ہے مگر رحم کھانا غلطی ہوگی، رحم کھا کر ہم صورتِ حال کو تو نہیں بدل سکیں گے۔ البتہ انا کو کوئی اور فریب دینے کے لیے تیار کریں گے۔ شخصیت ایسے فریبوں سے مریض، منفی اور کم زور ہو جاتی ہے۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہوں گے جو کبھی یہ رونا روتے ہیں کہ دنیا ان کے نیک کاموں کو نہیں سمجھتی۔ کبھی اس بات پر طنز کرتے ہیں کہ دنیا ان کے کاموں کو تو کیا خود ان کو سمجھنے کی اہل نہیں ہے، کبھی اس بات پر ہنستے ہیں کہ ان کا پالا کن احمقوں سے پڑا ہے، کبھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ در اصل جیسے وہ ہیں، اگر دوسرے بھی ویسے ہوتے تو جانتے انا، انا، انا، ناآسودہ انا۔ بیمار شخصیتیں ناآسود انا کا چلتا پھرتا اشتہار ہوتی ہیں مگر ہم ان کو اس عمل کو سمجھ سکتے ہیں، انا کو بھی اور حقیقت کو بھی۔ چاہے وہ خارجی ہو یا داخلی۔ خارجی اور داخلی طور پر اصول حقیقت کو سمجھ کر ہم انا سے ان کی ہم آہنگی کا امکان پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی ہی شخصیت کی بہار ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے