پچھلے ابواب میں ہم نے دکھایا ہے کہ شخصیت کیا ہے، کیسے بنتی ہے، اس کا بننا کیوں ضرور ہے۔ اس کے بننے کے لیے کیا کیا جائے۔ اس کا انا سے کیا تعلق ہے۔ وہ اصولِ حقیقت سے کس طرح متاثر ہوتی ہے۔ شعور اس کے بننے میں کیا حصہ لیتا ہے۔ وہ کب مثبت اور کب منفی ہوتی ہے۔ صحتمند شخصیت کیا ہے، وہ مریض کمزور اور دو نیم کیوں ہو جاتی ہے۔ اب جوان، تندرست، بھرپور شخصیت آپ کے سامنے ہے۔ اس کے دانت پورے ہیں۔ کوئی عیب شرعی نہیں، کان، آنکھ، ناک سے درست ہے۔ بھوکی پیاسی نہیں، کھا پی کر تگڑی ہو چکی ہے۔ ہم نے اسے کیوں تیار کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ قربانی کے لیے شخصیت قربانی کا جانور ہے۔ یہ قربانی کس کے لیے ہوگی، ذات کے لیے شخصیت کو ذات کی قربان گاہ پر قربان کیا جائے گا۔ ہم نے اسے پالا پوسا، بیماری آزاری سے بچایا۔ بھوک پیاس سے محفوظ رکھا۔ اسے خوب غذا کھلائی، خوب ٹہلائی ملائی کی۔ اب ہم اس کی گردن پر چھری رکھیں گے۔ نرم دل لوگ کہیں گے، یہ بڑی سفاکی کا کام ہے۔ بچے قربانی ہوتے دیکھتے ہیں تو افسوس کرنے لگتے ہیں۔ مگر قربانی پر افسوس کرنا منع ہے۔
میری بچی نے ایک بکرا پالا، سال بھر کھلایا پلایا، بقرعید کے دن قربان ہونے لگا تو رونے لگی، وہ بکرے کو ’’بکرا چاچا‘‘ کہتی تھی۔ قصائی نے چھری مجھے دی تو ڈر گئی، وہ اتنی روئی کہ میرا ہاتھ رک گیا۔ پھر میں نے اسے ڈانٹا اور چھری پھیر دی۔ بکرا ذبح ہو گیا تو وہ روتے ہوئے چلّائی، ’’بکرے چاچا کٹ گئے۔‘‘ جب ہم شخصیت کی قربانی کرنا چاہتے ہیں تو ہماری انا بہت شور مچاتی ہے۔ چیختی چلّاتی ہے اور بس نہیں چلتا تو رونے لگتی ہے مگر قربانی کا فریضہ ادا کرنا ضروری ہے۔ بکرے چاچا کی گردن پر چھری تو پھرے گی۔ یہ فرزند آذرؔ کی سنت ہے۔ خلیل اللہ نے بیٹے کو قربان کرنا چاہا۔ شخصیت بھی بیٹے کی طرح ہوتی ہے، کیا ہم نے اسے بیٹے ہی کی طرح نہیں پالا۔ کیا وہ ہمارا لخت جگر نہیں ہے۔ ہمارے خون جگر سے نہیں پلی؟ لیکن اس کی قربانی کا حکم ہے۔ شخصیت جتنی بڑی ہے، قربانی بھی اتنی ہی عظیم ہے۔ اب ایک اور مثال دیکھیے۔ چکرورتی راجا گھوڑے کی قربانی کرتا ہے۔ وہ گھوڑے کو سجا بنا کر چھوڑ دیتا ہے کہ جہاں چاہے جائے۔ وہ جہاں گیا، وہاں اس کا خیر مقدم ہوا، اس کے قدموں پر تاج نچھاور کیے گئے، اس کی کلغی میں ہیرے ٹانکے گئے۔ اس کی رکابوں پر باج و خراج نچھاور کیا گیا۔ جس نے ایسا نہ کیا، اس کو تلوار کے ذریعے ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا۔ آخر سفر ختم ہوا۔ گھوڑا واپس آیا، اب گھوڑے کی قربانی ہوگی۔ یہ چکرورتی راجا کی شخصیت ہے۔ فریضۂ قربانی تو اتنا لازمی ہے کہ مسیحیت کے عقیدے کے مطابق خدا نے اپنے بیٹے کو قربان کیا۔ وہ بھی کلام تھا جو گوشت و پوست میں ظاہر ہوا تھا، جس طرح شخصیت تصور سے وجود میں آتی ہے۔ یوں دیو مالا روایات، اور اساطیر سب قربانی پر متفق ہیں لیکن شخصیت قربان ہو کر پھر زندگی ہو جاتی ہے جس طرح مسیح دوبارہ زندہ ہو گئے، جس طرح اسماعیل کی جگہ مینڈھا قربان ہوا۔ شخصیت دوبارہ زندہ ہو کر ذات کے برابر تخت پر بیٹھتی ہے اور ذات کی نائب ہوتی ہے، اس کا حکم ذات کے حکم کی طرح ناطق ہے، وہ جو امر کرتی ہے۔ وہ ذات کا امر ہوتا ہے، جو شفاعت کرتی ہے، وہ پوری ہوتی ہے۔ اب اسے دیکھو تو ذات کا آئینہ ہے۔ ذات اس کے چہرے میں اپنا چہرہ دیکھ رہی ہے، اس کا ہاتھ ذات کا ہاتھ ہے۔ اس کا پاؤں ذات کا پاؤں ہے، وہ ذات ہی ہے جو شحصیت میں ظاہر ہو گئی ہے، اب ذات اور شخصیت میں کوئی فرق نہیں۔ کوئی پردۂ امتیاز نہیں اور ہے بھی تو اتنا باریک کہ نہ ہونے کے برابر۔ اب دونوں غیر نہیں۔ عین یک دیگر ہیں۔ کائنات کی ہر شیئ اس قربانی کی دعوت دے رہی ہے۔ پکار پکار کر قربان گاہ کی طرف بلا رہی ہے، خود ہمارے وجود کا ایک ایک حصہ اس کے لیے بے تاب ہے۔ جبلّتیں بھی کہہ رہی ہیں۔ شعور بھی کہہ رہا ہے، احساس بھی کہہ رہا ہے۔ بس ایک انا ہے جو اس فریضۂ قربانی سے گریزاں ہے، حیلے بہانے کر رہی ہے۔ عذر تراش رہی ہے۔ ہچر مچر کر رہی ہے۔ کہیں پنجے نکالے دانت پھاڑے مدافعت کے لیے تیار ہے۔ گائے کی طرح ڈکرا رہی ہے، بکری کی طرح ممیا رہی ہے، اونٹ کی طرح بلبلا رہی ہے، اس کے ہاتھ پاؤں باندھو اور گردن پر چھری رکھو، اس کے لیے موت کا ذائقہ چکھنا ضروری ہے مگر یہ موت کے دروازے سے گزر کر دوبارہ زندہ ہو جائے گی۔ انائے شخصی کے بجائے انائے ذات بن جائے گی۔ پھر یہ ایک ایسا جانور بن جائے گی جو قربان ہو کر پل صراط کی سواری بنے گی۔ بسم اللہ اللہ اکبر، بسم اللہ اللہ اکبر...
اب ٹی ایس ایلیٹ کے فقرے کو ایک بار پھر دیکھیے۔ اس نے کہا، ’’شاعری شخصیت سے فرار ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں، فرار بہت معمولی لفظ ہے، اس لفظ میں شدت نہیں، گہرائی نہیں، پوری صداقت نہیں۔ یہ لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس کا کہنے والا ایک ایسے معاشرے ایک ایسی تہذیب کا فرد ہے جو شخصیت میں اتنی الجھ گئی ہے کہ اس پر فرار جیسا خفیف الاثر لفظ بھی گراں ہوگا۔ شاعری شخصیت سے فرار نہیں۔ فرار بھگوڑے کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں جو حقیقت کا سامنا نہ کر سکیں جن میں یہ ہمت نہ ہو کہ اپنی اصلیت کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیں جو عمل شہادت کا بار گراں نہ اٹھا سکیں، جو حریف مقابل کو دیکھ کر صرف آنکھیں چرا لیں۔ شاعری شخصیت سے فرار نہیں، شخصیت کی قربانی ہے شاعری بھی، اخلاق بھی، مذہب بھی۔ جہاں تخلیق ہے، وہاں قربانی ہے۔ کسی نے اسے شخصیت سے فرار کہا، کسی نے نفی خودی، کسی نے بالارادہ انتشار حواس، کسی نے سپردگی، کسی نے صبر و رضا، کسی نے انہدام نفس، کسی نے اثبات حق۔ مگر یہ سب اپنی اپنی رسائی، اور اپنے اپنے حدود کے اندر قربانی کی مختلف قسمیں، مدارج اور مرتبے ہیں۔ اس قربانی کے عمل ہی سے تخلیق کا دروازہ کھلتا ہے۔ کیوں کہ تخلیق، عرفان ذات اور عرفان کائنات ہے جو شخصیت کی قربانی کے بغیر ممکن نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.