Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شخصیت اور اسلوب

سلیم احمد

شخصیت اور اسلوب

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    ’’شخصیت اور شاعری‘‘ میں ہم نے اپنے وجود کے بارے میں تین امتیازات قائم کیے تھے،

    (۱) جیسے کہ ہم ہیں

    (۲) جیسا ہم تصور کرتے ہیں اور

    (۳) جیسے ہم دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں یا کرتے ہیں۔

    ہم نے لکھا تھا کہ جیسے ہم ہیں، وہ ہماری ذات ہے۔ باقی ہم جیسا سوچتے ہیں کہ ہم ہیں اور جیساکہ دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں کہ ہم ہیں، یہ شخصیت ہے۔ شخصیت کا اظہار دو چیزوں میں ہوتا ہے، عمل میں اور قول میں۔ جب ایک آدمی بار بار ایک ہی قسم کا عمل کرتا ہے اور ایک ہی قسم کی باتیں کرتا ہے۔ تو کردار ظہور میں آتا ہے، کردار سب میں ظاہر چیز ہے۔ شخصیت نیم پوشیدہ، نیم ظاہر، اور ذات بالکل پوشیدہ، کردار میں ہم دھوکا دے سکتے ہیں۔ یا خود کو دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے بارے میں یہ تصور رکھتے ہوں کہ ہم بہت قابل آدمی ہیں مگر قول و عمل میں ہم اپنے کو منکسر آدمی ظاہر کرتے ہوں، ’’اجی میں کس قابل ہوں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تصور اور عمل میں دوئی پیدا ہوگئی ہے۔ بعض اوقات ہمیں اس دوئی کا خود پتا نہیں ہوتا، مثلاً اس بچے کی مثال یاد کیجیے جس نے جھوٹ بولنا تو شروع کردیا۔ مگر خود کو سچا سمجھنا نہ چھوڑا۔ یعنی وہ اپنے تصور میں سچا ہے اور عمل میں جھوٹا، ہم خوداس سے باخبر ہوں یا بے خبر دوسرے جو ہمارے سب سے ظالم ناقد ہیں۔ ہماری شخصیت کی اس دوئی کو تاڑ لیتے ہیں۔ ہمیشہ یہ دوئی شخصیت کے دو نیم ہونے کا پتا دیتی ہے لیکن جب شحصیت میں یہ دوئی نہ ہو تو تصور اور قول و عمل کی مطابقت عمل میں آتی ہے۔ یہ ہم آہنگ شخصیت ہے، پھر بھی قول و عمل کا دائرہ شخصیت کا پورا اظہار نہیں کرتا، یہ شخصیت کی مدھم سی تصویر ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے کردار میں ہماری شخصیت کے کئی رنگ، کئی پہلو دب جاتے ہیں۔ وہ ظاہر تو ہوتی ہے مگر ایسی نہیں جیسی وہ ہو بہو ہے۔ شخصیت کے زیادہ سے زیادہ اظہار کا ایک ذریعہ فنونِ لطیفہ ہیں، خصوصاً ادب و شعر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنا جو تصور رکھتے ہیں، وہ قول و عمل سے زیادہ شعر و ادب میں بہتر طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ ایلیٹ نے کہا ہے۔ شاعری کا مقصد شخصیت کا اظہار نہیں، شخصیت سے فرار ہے یعنی ہم جیسا خود کو سمجھتے ہیں، اس سے گزر کر اس کی طرف بڑھتے ہیں۔ جیسے ہم ہیں، دوسرے لفظوں میں زیادہ سے زیادہ خود آگاہی حاصل کرتے ہیں۔ خودآگاہی اور جہاں آگاہی ایک دوسرے کی تکمیل ہیں، اس لیے ہم خود کو جاننے میں دوسروں کو جانتے ہیں اور دوسروں کو جاننے میں خود کو لیکن جو لوگ شخصیت کے اظہار کے قائل ہیں، وہ خود آگاہی اور جہاں آگاہی کی ایک منزل پر رُک جاتے ہیں۔ یعنی شخصیت سے کبھی فرار نہ کرکے اس میں تبدیلی کا دروازہ بند کرلیتے ہیں۔ شخصیت یوں ہمارے تخلیق کردہ پورے شعر و ادب میں موجود ہوتی ہے۔ لیکن اس کا نچوڑ اسلوب میں ہوتا ہے۔ یہاں شخصیت کا عطر نکل آتا ہے۔ اسلوب شخصیت کا عطر ہے، جوہر ہے، بجلی کی وہ رو ہے جو پوری شخصیت میں دوڑی ہوئی ہے۔ اس لیے کہنے والے کہتے ہیں کہ اسلوب ہی شخصیت ہے، ہمارا سوال یہ ہے کہ جو لوگ شخصیت کے اظہار کے بجائے شخصیت سے فرار کرنا چاہتے ہیں، کیا ان کا اسلوب نہیں ہوتا؟ جواب یہ ہے کہ ہوتا ہے مگر وہ شخصیت کی طرح اسلوب سے بھی فرار کرتے ہیں۔ ہر اسلوب اپنی آگاہی کا نتیجہ ہوتا ہے، خودآگاہی میں اضافہ کے ساتھ ہی اسلوب بدل جاتا ہے۔ خود آگاہی کے ساتھ بھی اور جہاں آگاہی کے ساتھ بھی۔ خود آگاہی میں تغیر سے اسلوب کے بدلنے، اور بدلتے رہنے کی مثالیں ہم پھر کسی اور وقت دیں گے۔ لیکن جہاں آگہی یا دوسروں کی آگاہی سے ہمارا اسلوب جس طرح بدلتا ہے، وہ سامنے کی چیز ہے۔ ہمارے گھر دعوت ہے۔ ہم بزرگوں اور غیروں سے کہتے ہیں، ’’براہِ کرم غریب خانے پر تشریف لاکر ماحضر تناول فرمایئے۔‘‘ تعلق کی اور زیادہ مساوی اور قریبی صورت میں ہم کہتے ہیں، ’’کل آپ کی دعوت ہے، ضرور تشریف لایئے گا۔‘‘ اور بالکل ہی قریب کے اور برابر کے دوست سے کہتے ہیں، ’’یار کل کھانا میرے ساتھ کھانا۔‘‘ دیکھیے دوسروں نے ہمارے اسلوب کو کتنا بدلا ہے۔ اسی طرح دوسروں کی آگاہی سے ہمارا اسلوب اس وقت بھی بدلتا ہے، جب ہم ان کی اہلیت کے مطابق ان سے گفتگو کرتے ہیں، فلسفے کے جاننے والوں سے فلسفیانہ اصطلاحات میں، شاعرانہ طبیعت رکھنے والوں سے شاعرانہ اسلوب میں اور عام لوگوں سے بالکل عام انداز میں۔ ایک فلسفے کے طالب علم سے ہم کہتے ہیں، ’’کیا تمھیں معلوم ہے کہ خیر اور شر میں کیا فرق ہے؟ ایک دوسرے آدمی سے شاید ہم صرف یہ کہیں، ’’جناب نیکی کو بدی جاننا ضروری ہے۔‘‘ غالباً ایک بچے سے صرف اتنا کہنا ہی کافی ہوگا۔‘‘ میاں اچھے برے میں تمیز پیدا کرو۔‘‘ ایک ہی حقیقت اظہار کی مختلف سطحوں پر مختلف اسلوب اختیار کرلیتی ہے۔‘‘ ’’قطرہ وجودِ دریائے عدم میں شامل ہوگیا۔‘‘ تعین لا تعین میں مل گیا۔ یوں ہمارے مخاطب کی حیثیت اور مرتبہ، مزاج اور کردار، علم و ادراک ہمارے اسلوب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یعنی ہم اپنے اسلوب کو اس کے مطابق بناتے رہتے ہیں۔ نتیجہ شاید یہ نکلا کہ خود آگاہی اور جہاں آگاہی دونوں اسلوب کی دشمن ہیں۔ اسلوب کی بھی، اور شخصیت کی بھی۔ ایک اندر سے، دوسری باہر سے۔ ہماری شخصیت اور اسلوب کو کچھ سے کچھ بنا دیتی ہے۔ دراصل اسلوب پرستی اور شخصیت پرستی، دوتوں دوسرے درجے کے لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ صفِ اوّل کے لوگوں میں نہیں۔ میرؔ کا کلام دیکھیے، اردو شاعری بلکہ اردو زبان کا کوئی اسلوب ایسا نہیں ہے جو میرؔ کے کلام میں نہ پایا جاتا ہو۔ چرکین سے لے کر اقبالؔ تک۔ لیکن یہاں ایک توضیح ضروری ہے۔ شخصیت سے فرار ’’بے شخصیتی‘‘ نہیں ہے بلکہ شحصیت ہی تو وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر شخصیت کے زنداں سے نکلا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اسلوب سے فرار بھی ’’بے اسلوبی‘‘ نہیں ہے، اسلوب سے فرار بھی اسلوب پیدا کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔

    لیکن وہ لوگ جو شخصیت اوراسلوب کے اندر رہنا چاہتے ہیں۔ وہ دو طرح کی حد بندیاں کرتے ہیں، ایک حد بندی اپنے اندر۔ ایک اپنے باہر۔ اندر کی حد بندی انھیں ذات کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے۔ دوسری حد بندی ’’دوسروں‘‘ کی طرف۔ وہ دونوں طرف ایک حصار سا کھینچ لیتے ہیں اور اسی میں مگن رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بچے کے پیار، محبوبہ کے التفات اور ایٹم بم کے دھماکے سے بھی نہیں بدلتے۔ جب میں نے اسلوب کو شخصیت کا جوہر کہا تو اس سے میری مراد یہ تھی کہ ایسے لوگوں کی شخصیت ان کے اسلوب میں پوری پوری موجود ہوتی ہے اور جب ہم ان کے ایک فقرے سے یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے باریمیں کیا خیال رکھتے ہیں، دوسروں کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں اور دنیا کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اقبالؔ کا اسلوب ایک ایسے نیم فلسفی شاعر کا اسلوب ہے جو دوسروں کو بے خبر جان کر انھیں عمل کی تلقین کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہدایت نامہ بے خبراں کا اسلوب ہے۔ لطف یہ ہے کہ بے خبراں کی بے خبری کے احساس کے باوجود اقبالؔ اپنا فلسفی ہونا نہیں بھولتے۔ حالیؔ کے اسلوب اور اقبالؔ کے اسلوب میں یہ فرق ہے کہ حالیؔ بے خبروں کو تلقین کرنا چاہتے ہیں تو بے خبروں کی سطح پر اتر کر ان سے بات کرتے ہیں۔ جوشؔ کا اسلوب اس پُرجوش خطیب کا اسلوب ہے جو دوسروں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ ابوالکلام آزادؔ کا اسلوب پہاڑ کی چوٹی سے بولنے والے جھوٹے مسیحا کا اسلوب ہے۔ مذکورہ بالا چند مثالوں کے بارے میں مجھے اعتراف ہے کہ وہ پورے اقبالؔ، پورے حالیؔ، پورے جوشؔ اور پورے آزادؔ کا احاطہ نیں کرتیں، ان لوگوں میں کئی اور چیزیں بھی موجود ہیں اور سب میں خود آگاہی اور جہاں آگاہی کے ایسے لمحات بھی آتے ہیں۔ جس سے اسلوب ہی بدل جاتا ہے، مگر ہماری گفتگو شخصیت اور اسلوب کے اس انداز پر ہے، جو اُن پر عام طور پر غالب رہتا ہے۔ اسلوب میں، ہمارے احساس و خیال کے سارے رویے اور تیور موجود ہیں۔ سعدی نے کہا کہ آدمی جب تک نہیں بولتا، اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔ بعض لوگ تو اسلوب کو دیکھ کر یہاں تک اندازہ لگا لیتے ہیں کہ آدمی جنسی فعل کیسے کرتا ہوگا۔ چنانچہ عسکری صاحب نے کہا ہے کہ اسلوب پوری سوانح عمری ہوتا ہے اور ایسی سچی سوانح عمری جس میں کوئی بات چھپائی نہیں گئی بلکہ چھپ نہیں سکی۔ اسلوب ہمارے عیب و ہنر قوت و کم زوری، عمق و سطحیت، ذکاوت و حمق، حساسی اور بے حسی کا ایسا پردہ در ہوتا ہے کہ باتونی بیوی بھی نہ ہوگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے