Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شخصیت۔۔۔ مثبت اور منفی

سلیم احمد

شخصیت۔۔۔ مثبت اور منفی

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    اپنے پہلے باب ’’شخصیت اور شاعری‘‘ میں، میں کہہ چکا ہوں کہ شخصیت ’’ذات‘‘ کے تصور کو کہتے ہیں۔ ذات ایک نامعلوم اکائی ہے جس کی وسعت، عمق اور بلندی ناقابلِ پیمائش ہے، ہم اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ ’’ہے‘‘ کیا ہے، کیسی ہے، اس کا ہم علم نہیں رکھتے، البتہ اس کا ایک ’’تصور‘‘ ضرور رکھتے ہیں۔ مثلاً میں اپنے بارے میں کچھ سوچ سکتا ہوں، آپ کچھ اور۔ جب ہمارے بارے میں اپنا یہ سوچنا مستقل ہو جاتا ہے اور جب ہم لوٹ پھر کر بار بار اپنے متعلق چند تصورات کی تکرار کرنے لگتے ہیں تو ان سے ہماری شخصیت بننے لگتی ہے۔ عموماً یہ تصورات پسندیدہ ہوتے ہیں جنھیں ہم ابتداً اپنے ماحول سے اخذ کرتے ہیں جب بچے کو ماں ’’میرا چاند‘‘، ’’میرا شہزادہ‘‘ ہے، جب باپ اس کی کسی خوبی پر اسے شاباش دیتا ہے تو بچہ ان تصورات کو اپنانے لگتا ہے اور فطری طور پر تخیل کے ذریعے ایک بڑے تصور کی باریک جزئیات اور تفصیلات مرتب کرنے لگتا ہے۔ یہ عمل شخصیت کی پیدائش میں مدد دیتا ہے۔ شریف لڑکا، بہادر لڑکا، ہمدرد لڑکا۔۔۔ یہ سب لڑکے کے وہ تصورات جن کی مدد سے ماں باپ اور دوسرے اسے ایک سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ بہت آسانی سے اپنے بچوں میں اس سانچے کے بننے کا عمل دیکھ سکتے ہیں۔ جب بچہ ان میں سے کسی تصور کو قبول کرنے لگتا ہے تو پھر رفتہ رفتہ سانچے کو پختہ کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ آپ بچے کی کسی غلطی پر اس کو اس طرح ٹوکتے ہیں ’’چھی چھی‘‘ تم تو بڑے نیک لڑکے ہو، تم نے اپنی بہن کو کیوں مارا۔‘‘ بچے نے اپنی بہن کو یوں مارا کہ وہ ’’صرف‘‘ نیک نہیں تھا کچھ اور بھی تھا۔ وہ غصہ ور، شرارت پسند اور حسد کرنے والا بھی تھا، مگر اب وہ بار بار ’’نیک لڑکے‘‘ کے تصور کو اپنے سامنے رکھنے لگتا ہے اور اس تصور کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ایک سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے۔ جب یہ زیادہ مکمل اور پختہ ہوجائے گا تو شخصیت پیدا ہوجائے گی۔ ہم یہ سانچہ کس ذریعے سے پیدا کرتے ہیں؟ پسندیدگی کے اظہار سے۔ ولیم جیمس نے لکھا ہے کہ پسندیدہ بننے کی خواہش انسان کی سب سے گہری خواہش ہے۔ بچے میں اس خواہش کی موجودگی آپ کے لیے، آپ کے کام کو آسان بنا دیتی ہے اور آپ ہنستے ہنساتے بچے کو اپنے اشاروں پر نچانے لگتے ہیں۔ البتہ یہاں، ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ بچہ صرف ہمارے ’’شعوری‘‘ اعمال سے متاثر نہیں ہوتا، وہ ہمارے ’’غیرشعوری‘‘ اعمال سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ مثلاً ایک گھر میں بچے کو نیک اور بااخلاق شخصیت میں ڈھالنے کا عمل کیا جا رہا ہو، مگر گھر کے، افراد خود اس کے خلاف عمل کر رہے ہوں تو بچہ ان اعمال سے بھی متاثر ہوتا ہے اور اس میں ایک کش مکش پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ان اعمال کو پسندیدہ سمجھے جنھیں گھر والے، زبانی دُہراتے رہتے ہیں یا ان اعمال کو جن پر وہ خود عامل ہیں۔ بچے سے زیادہ حساس اوربھانپنے والا اور کوئی نہیں ہوتا، وہ ماں کی غصہ بھری نگاہ میں پیار کو اس طرح پڑھتا ہے جس طرح آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں، اسی طرح جھوٹے پیار کو بھی وہ اچھی طرح جان لیتا ہے، میں تو جب کسی اولاد کو یہ کہتے سنتاہوں، ’’ابا کو نیکی سے کیا فائدہ ہوا جو میں نیک بنوں۔‘‘ تو میں فوراً سمجھ لیتا ہوں کہ اس گھر میں لاشعوری طورپر نیکی کے خلاف شکایتیں ضرور کی جاتی ہوں گی اور نیکی پر اعتماد میں کمی ضرور پائی جاتی ہوگی۔

    بہرحال شخصیت اس طرح ذات سے ایک الگ چیز ہے جس طرح بس ڈیزل سے چلتی ہے، اسی طرح اس کا ڈیزل پسندیدہ تصور ہے۔ یہ تصور ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ذرا اس وقت کی کیفیت کا اندازہ کیجیے، جب کوئی حسینہ آپ سے کہہ دے کہ ’’آپ بہت خوب صورت ہیں۔‘‘ بار بار آئینہ دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور ٹائی کی گرہ سو سو بار کھول کر دوبارہ باندھی جاتی ہے۔ اسی طرح ایک شاعر کو دیکھیے جسے اس کے شعر کی بھرپور داد ملی ہو۔ امیرؔ مینائی کا کہنا ہے کہ سو بوتلوں کا نشہ بھی اتنا نہیں ہوتا۔ یہ سرشاری بار بار حاصل کرنے کے لیے ہم پسندیدہ عمل کو بار بار دُہراتے ہیں۔ ایک عمل جب بار بار دُہرایا جاتا ہے تو وہ ہمارے دوسرے اعمال کو بھی متاثر کرنے لگتاہے اور اپنے اردگرد اپنے اثر کا ایک دائرہ بنا لیتا ہے۔ یہ دائرہ شخصیت کے سانچے میں بنتا ہے اور خود، شخصیت سے بھی محدود تر ہوتا ہے۔ اب یوں سمجھیے کہ سب سے بڑا دائرہ ذات کا ہوتا ہے، پھر اس کے اندر ایک اس سے چھوٹا دائرہ شخصیت کا بنتا ہے اور پھر شخصیت کے اندر ایک اس سے بھی چھوٹا دائرہ بنتا ہے، اس دائرے کو ہم کردار کہتے ہیں، بڑے اور چھوٹے دائروں کی یہ ترتیب اندرونی نقطۂ نظر سے ہے، یعنی جب ہم اپنے وجود پر اپنے اندر سے غور کریں تو پہلا دائرہ ذات کا ہے، دوسرا شخصیت کا تیسرا کردار کا، سب سے بڑا پہلے، پھر اس سے چھوٹے۔ لیکن اگر اپنی ذات کو باہر سے دیکھیں تو ترتیب الٹ جاتی ہے، باہر سے دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے وجود کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جس طرح دوسرے اسے دیکھتے ہیں یا وہ دوسروں پر ظاہر ہوتا ہے۔ اب کردار پہلے ہے۔ پھر شخصیت، پھر ذات، اب کردار سب سے بڑا دائرہ بن جاتا ہے۔ اور ذات سب سے چھوٹا۔ کردار بار بار دُہرایا ہوا عمل ہے، ایک آدمی کو بار بار ایک ہی قسم کے کام کرتے اور ایک ہی قسم کی باتیں کرتے دیکھ کر پہلے ہم اس کے ’’کردار‘‘ کو سمجھتے ہیں اور پھر کردار سے شخصیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ بس ہمارے علم اور قیاس کی یہ حد ہے۔ ذات ہمارے لیے ’’سر مکتوم‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔

    موجودہ زمانے میں ’’بچہ‘‘ میں شخصیت کا جلد پیدا ہوجانا اچھی بات سمجھا جاتا ہے۔ نئے بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے بزرگوں کو اچھی خاصی بڑی عمر تک معلوم نہیں ہوسکیں۔ ایسے بچے جن میں شخصیت جلدی پیدا ہوجائے، انھیں ذہین سمجھا جاتا ہے اور ماں باپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنے دوستوں کو ان کی ذہانت کے کرتب دکھلاتے ہیں۔ ایسے بچوں کی ذہانت میں کوئی کلام نہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ وقت سے پہلے ’’قیدی‘‘ بن چکے ہوتے ہیں۔ بچوں ہی کو نہیں، بڑوں کو بھی قیدی بنانے کی ترکیبیں ہمیں معلوم ہوچکی ہیں۔ ہماری حکومتیں اعزازات اور تمغے دیتی ہیں۔ پبلسٹی کے ادارے تصویریں چھاپتے ہیں اور تاجر حضرات ریڈیو اور ٹیلی وژن پر گا گا کر ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کی مصنوعات استعمال کیں تو ہر طرح کی پسندیدگی اور کامیابی ہمارے گرد چکر لگائے گی۔

    میں نے کہا، شخصیت کا ڈیزل وہ پسندیدہ تصورات ہیں جو بچہ اپنے ماں باپ یا ماحول سے اخذ کرتا ہے، استادوں اور کتابوں سے سیکھتا ہے، مشاہدے اور مطالعے سے حاصل کرتا ہے۔ یہ شخصیت کا مثبت پہلو ہے۔ شخصیت کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ منفی پہلو شخصیت ان روایتی معنوں میں پسندیدہ تصورات کے برعکس عمل کرتی ہے۔ ایسے بچے ان مسلّم اقدار و تصورات کے خلاف ہوتے ہیں جو گھر اور معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ اس عمل سے ڈاکو اور انقلابی دونوں پیدا ہوتے ہیں اور فراقؔ کا خیال ہے کہ پیغمبر بھی۔ غالبؔ نے جب ’’دینِ بزرگان‘‘ کے خلاف عمل کو فرزندِ آذرؔ کا عمل قرار دیا تو اس کے پیچھے بھی یہی خیال موجود تھا کہ اس قسم کی بغاوت پیغمبری میں بھی موجود ہوتی ہے۔ فراقؔنے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہر نیا پیغمبر ایک معنوں میں لادین ہوتا ہے کیوں کہ مروّجہ دین کی نفی کرت ہے۔ بغاوت کی تعریف میں بس اس سے زیادہ نہیں کہا جاسکتا۔ پیغمبروں کا تجربہ عام لوگوں سے اتنا مختلف ہوتا ہے کہ اس پر گفتگو کرنے کے لیے غالبؔ اور فراقؔ جیسی ہمت ہی چاہیے۔ اس لیے میں اپنی گفتگو اپنے جیسے عام آدمیوں تک محدود رکھوں گا۔ گھر اور معاشرے کی اقدار بالعموم ’’باپ‘‘ کی اقدار ہوتی ہیں۔ باپ خوش ہو تو کھلونے اور پیسے سب ملتے ہیں اور معاشرہ خوش ہو تو کیا نہیں ملتا۔ اس صورت میں منفی شخصیت والے بچوں کی بغاوت ’’باپ‘‘ کے خلاف ہوتی ہے۔ باپ کے خلاف یہ بغاوت کیوں پیدا ہوتی ہے۔ اور اس کا سرچشمہ کہاں ہے، اس کے بارے میں کوئی قطعی بات آسانی سے نہیں کہی جاسکتی۔ فرائڈ کا خیال ہے کہ اس بغاوت کا سرچشمہ ایک نفسیاتی الجھن ہے جو بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ فرائڈ اسے ایڈیپس الجھن کا نام دیتا ہے۔ یعنی بچہ ماں سے محبت کرتا ہے اور بلا شرکتِ غیرے اس کا مالک بننا چاہتا ہے لیکن باپ کو شریک غالب دیکھ کر اس سے جلنے لگتا ہے۔ چنانچہ باپ کے خلاف منفی عمل شروع ہوجاتا ہے اور وہ باپ کے ہر پسندیدہ معیار کو ٹھکرانے لگتا ہے۔ یہی چیز آگے چل کر معاشرے کی اقدار سے بغاوت کا سبب بنتی ہے۔ باپ سے بغاوت کے سبب کو اتنی گہرائی میں نہ لے جایا جائے۔ تو ایک عام سطح پر اس کا مظاہرہ ہمیشہ اس وقت ہوتا ہے جب بچہ ماں باپ میں اختلاف پاتاہے۔ کبھی کبھی تو یوں ہوتا ہے کہ ماں باپ کا اختلاف بچے کو شدید الجھن میں مبتلا کردیتا ہے کہ ماں کی پسندیدگی اختیار کرے یا باپ کی۔ لیکن عموماً فیصلہ ماں کے حق میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ بچہ ماں کو کم زور پاتا ہے۔ ’’ماں کم زور ہے اور مجھ سے زیادہ محبت کرتی ہے۔‘‘ باپ طاقت ور ہے اور مجھ سے محبت کرنے والی کے خلاف ہے، اس طرح شعوری یا غیرشعوری طور سے بچہ ماں کا طرف دار بن جاتا ہے اور باپ کے خلاف منفی عمل شروع ہوجاتا ہے۔ بعض صورتوں میں جب باپ نہ ہو، یا ماں نہ ہو یا دونوں نہ ہوں، اس وقت بچے کو اپنے ذاتی معیارات پیدا کرنے پڑتے ہیں۔ جو وہ اپنے کھیل کود کے ساتھیوں یا ماحول کے دوسرے عناصر سے اخذ کرتا ہے۔ بغیر ماں باپ کے بگڑے ہوئے بچے بیشتر اسی عمل کا نمونہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر وہ کسی اور پسندیدہ شخصیت کو معیار بنا لیں تو کامیاب شخصیت بن جاتے ہیں۔ مثلاً استاد یا کوئی اور شفیق بزرگ۔ معاشرے کی کامیاب شخصیتیں بالعموم ’’مثبت‘‘ اور ناکام شخصیتیں بالعموم ’’منفی‘‘ ہوتی ہیں۔ میں تو جب کسی منفی شخصیت کو دیکھتا ہوں تو سب سے پہلے اس کے ماں باپ کے ’’ابتدائی ماحول‘‘ کے بارے میں سوچتا ہوں۔ موجودہ معاشرے میں بغاوت کا جو عام رجحان چلا ہوا ہے، اس کا آغاز ہمارے گھروں میں ہوا ہے، بعض شخصیتیں مثبت اور منفی عمل کا آمیز ہوتی ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک تضاد اور کش مکش بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیشہ ایسی شخصیتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کی ابتدائی زندگی میں ماں باپ کے معیاراتِ پسندیدگی مختلف تھے یا جہاں سے بھی انھوں نے یہ معیارات اخذ کیے ہیں، ان کے سرچشموں میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ کبھی کبھی یہ کش مکش اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان کسی قسم کے عمل ہی کے ناقابل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ اختلالِ ذہنی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اب ان سب باتوں کا ادب اور شاعری سے یہ تعلق ہے کہ ادب اور شاعری ان باتوں کی آگاہی میں مدد دیتے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ادیب کا پہلا فریضہ خود آگہی ہے یعنی ادیب اپنی شخصیت میں الجھ کر نہیں رہ جاتا ہے۔ بلکہ اس سے ماورا جانے اور اس کے آگہی کے روشن دائرے کو پھیلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ادیب کی منزل شخصیت نہیں ’’لاشخصیت‘‘ ہے۔ وہ شخصیت کو چھوڑ کر لاشخصیت کی طرف مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن اس عمل کے معنی شخصیت کو ترک کردینا یا شخصیت سے بے خبر ہوجانا نہیں ہے۔ دراصل لاشخصیت کی طرف بڑھ کر ہی ادیب شخصیت کو بھرپور طور پر سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ ٹی ایس ایلیٹ کے اس فقرے کے، کہ شخصیت سے فرار کو صرف وہ سمجھے گا جس کے پاس خود شخصیت ہو، یہی معنی ہیں۔ پھر وہ شخصیت کا تابع نہیں رہتا ہے، شخصیت اس کے تابع ہوجاتی ہے۔ شخصیت بھی اور کردار بھی۔ میں ان دونوں کو مصنوعی چہرہ کہہ چکا ہوں جو ایکٹر اپنے اصلی چہرے پر لگاتے ہیں۔ لاشخصیت کے مرکز میں اتر کر ادیب یہ دکھاتا ہے کہ انسان ہر رول ادا کرنے کا اہل ہے، بس شرط یہ ہے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ مصنوعی چہرے کے ایک رول کے سوا کچھ نہیں۔ ویدانت میں ’’کرم یوگ‘‘ کا کل فلسفہ ہمیں اتنا ہی بتاتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے