Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شاعر فراق گورکھپوری

ممتاز حسین

شاعر فراق گورکھپوری

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

     

    معاصرین فراق میں سے کوئی دوسرا شاعر بجز ان کے ایسا نظر نہیں آتا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس نے جو اثاثہ اپنے مرنے کے بعد چھوڑا ہے اس میں اس کی شاعری اور نثر ہی اہم نہیں ہے بلکہ اس کی شخضیت کا انوکھاپن، اس کی گفتگو، اس کے اقوال ظرافت و ذکاوت بھی اپنی دلچسپی میں کچھ کم اہم نہیں ہیں۔

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی شخصیت اور پر لطف گفتگو کا ذکراس لئے ہماری دلچسپی کا باعث ہے کہ ان کی شاعری ہمیں پسند ہے اوریہ دنیا کا طریقہ ہے کہ اپنے اپنے ہیرو کی چھوٹی بڑی بات میں لوگ دلچسپی لیتے ہیں اور اس جستجو میں رہتے ہیں کہ مزید باتیں اس کی شخصیت اور زندگی سے متعلق معلوم ہوں۔ یا یہ کہ ان باتوں کے جاننے سے ان کی شاعری کے لاشعوری مٹیریل اور اس کے ارتفاعی اور تخلیقی عمل سے شناسائی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اس کے اشعار کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔۔۔ خواہ اس علم سے اس کی شاعری کی قدروقیمت کو متعین کرنے میں کوئی مددملے یا نہ ملے۔ کیونکہ قدروقیمت کا تعین تفہیم شعر سے ایک جداگانہ عمل ہے۔ ہرچند کہ تفہیم شعر مقدم ہے۔

    قبل اس کے کہ ان سوالات سے متعلق ہم کوئی خاطرخواہ جواب دریافت کریں، دورحاضر کے دو بڑے ماہرین نفسیات فرائیڈ اور ینگ کے نظریات شعر کو بھی جاننا ضروری ہے۔ فرائیڈ شعر کہنے کی علت کو ایک نفسی مرض اور اس کے حاصل کو حرماں نصیبی کا خواب بتاتا ہے۔ چنانچہ فرائیڈ کے یہاں شاعری، شاعر کی مریض شخصیت کا ایک شاخسانہ بن کررہ جاتی ہے۔ اس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر وہ نفسی مرض یا نیوراسیس میں مبتلا نہ ہوتا، کوئی اندرونی رکاوٹ اور پابندی اس کی جنسی خواہشات کو حقیقت کا روپ دینے میں حائل نہ ہوتی، تووہ نارمل انسان رہتا اور شعر کہنے کی علت یانفسی مرض سے آزاد ہوتا۔ میر کا شعر ہے،

    کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا
    وہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا

    میر کی شاعری کا مطالعہ اگر ان کی شخصیت اور زندگی کے حوالے سے کیا جائے تو اس کے بہت کچھ شواہد ملتے ہیں کہ ان کی شاعری ابتدا اپنے عشق پر پردہ ڈالنے اور اپنی جنسی خواہشات کو دبائے رکھنے کے نتیجے میں ظاہر ہوئی، لیکن چونکہ ان کی شاعری بڑی تہہ دار ہے، تہہ درتہہ معنوں کی حامل ہے جس میں ان کے عہد کی سماجی، سیاسی اور مذہبی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی بھی پوشیدہ ہے، اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی شاعری کی تہہ میں ان کے عشق یا جنسی جذبے ہی کی خواہش پوشیدہ ہے۔ میر کی شاعری اتنی متنوع اور پہلودار ہے کہ اس پر چوما چاٹی کے قصوں کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ میر کی شاعری میں وہ شے بھی ہے جس کے بارے میں غالب نے کہا ہے،

    مشو منکر کہ در اشعار ایں قوم
    ورائے شاعری چیزے دگر ہست

    چنانچہ جب ہم اس ’’چیزے دگر‘‘ سے مراد زندگی اور کائناتی وجود سے متعلق گیان دھیان اور تہذیبی اقدار کے شعور کو لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ فرائیڈ کا نظریہ شعر، اس شاعری کی تشریح نہیں کرتا ہے جسے ’’چیزے دگر‘‘ کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس شاعری میں غیر شخصی محرکات اور عوامل بھی کارفرما نظر آتے ہیں۔ فرائیڈ کے اس نظریے کے برعکس ینگ کا یہ نظریہ ہے کہ شاعری ہو یا کوئی دوسرا آرٹ، غیرشخصی اور معروضی ہوتا ہے۔ شاعری میں شخصی پہلو ’’ایک گناہ‘‘ ہے۔ شاعر خواہ اپنے لئے، جو شاعری کو منتخب نہیں کرتا ہے بلکہ شاعری اپنے حصول مقاصد کے تحت شاعر کوبہ حیثیت ایک میڈیم استعمال کرتی ہے۔۔۔ شاعری اس کو منتخب کرتی ہے۔ اس خیال کے حامل غالب بھی تھے جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک فارسی کے شعر میں کہا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ میں مرتبہ شاعری پر راضی نہ تھا، شاعری نے خود یوں خواہش کی کہ میں شاعر بنوں۔

    بہر حال اس سلسلے میں ینگ کا خیال قابل توجہ ہے کہ وہ شاعر کو بحیثیت انسان اور بحیثیت فنکار دو مختلف زاویوں دیکھتا ہے۔ وہ اس خیال کا حامل ہے کہ شاعر بحیثیت انسان عام انسانوں کی طرح، اپنا مزاج، قوت ارادی اور شخصی عزائم رکھ سکتا ہے۔ لیکن بحیثیت ایک فنکار یاشاعر وہ ’’ایک اجتماعی آدمی‘‘ ہوتا ہے۔ ایک ایسا آدمی جو پوری انسانیت کی لاشعوری نفسی زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ ’’اجتماعی لاشعور‘‘ یا غیرشعوری نفسی زندگی۔۔۔ سائیکی یا روح کیا ہے ؟ اس کی تشریح وہ سائنسی بنیادوں پر نہیں کر پایا ہے۔ لیکن جو چیز اس کے یہاں واضح ہے، وہ یہ ہے کہ شاعر کا پیغام پوری انسانیت کے لئے اور کئی نسلوں کے لئے ہوتا ہے۔

    اس شاعری میں اظہار کی کیا صورتیں ہوتی ہیں، یہاں ہم اس پر بحث نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس بات کو زیر بحث لائے ہیں کہ شاعری میں اظہار شخصیت ینگ کے نزدیک ایک گناہ ہے اور وہ اس حد تک شاعر کی شاعری کو اس کی شخصیت سے جدا کرتا ہے کہ شخصیت کے حوالے سے وہ کسی شاعر کی شاعری سمجھنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ وہ یہ نہیں کہتا ہے کہ معالج کو بھی اپنے علاج کی ضرورت ہے بلکہ معالج کی تمام اخلاقی کمزوریوں کو معاف کرنے کو تیار ہے خواہ وہ کتنی ہیبت ناک کیوں نہ ہوں، بشرطیکہ وہ اپنی شاعری میں پوری انسانیت کا معلم اور معالج ہے۔

    شاعری غیرشخصی اور معروضی ہوتی ہے۔ یہ نقطہ نظر ٹی ایس ایلیٹ اور ان کے حلقے کے بعض دوسرے لوگوں کا بھی تھا۔ چنانچہ وہ اپنے ایک مضمون ’’انفرادی صلاحیت اور روایت‘‘ میں یہ لکھتے ہیں کہ ’’شاعری شخصیت سے گریز ہے۔‘‘ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ادھر جذبات کی ٹونٹی کھول دی اور ادھر اشعار صادر ہونے لگے۔ ایلیٹ کا یہ نظریہ ورڈس ورتھ کے اس نظریہ شعر کے برخلاف ہے کہ شاعری ان جذبات کی بازآفرینی کانام ہے جن کو شاعر اپنی تنہائی اور خموشی کے عالم میں اپنے حافظے میں مجمتمع ہوتے ہوئے پاتا یا مجتمع کرتا ہے۔

    آج ہم اردو کے جس شاعر کی شخصیت اور شاعری پر اظہار خیال کے لئے جمع ہوئے ہیں، یعنی فراق گورکھپوری، وہ ورڈس ورتھ کی شاعری کے عاشق تھے اور ہرچند کہ تنقید میں ان کا مسلک جمال پرستوں کا تھا، وہ انہی کی تاثراتی تنقید کو تخلیقی تنقید کا نام دیتے ہیں لیکن جہاں تک کہ ان کی شاعری کا تعلق ہے، اس میں ورڈس ورتھ کے مذکورہ خیال کا پرتو ملتا ہے۔ ان کی شاعری بھی سکوت نیم شبی کی پروردہ ہے۔ جو لمحات کہ ان کی زندگی میں شعری اثر کے زاویے سے اہم رہے ہیں، انہیں وہ اپنے الفاظ میں مقید کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کی شاعری بھولے ہوئے لمحوں کی بازآوری نہیں بلکہ باز آفرینی ہے۔ وہ لمحات غیر متعین سے ہوتے، تاہم ایک دھندلی سی تصویر ان کے حافظے میں ان کی محفوظ رہتی،

    شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس
    دل کو کئی کہانیاں یا د سی آکے رہ گئیں

    ان کے اس تخلیقی عمل کا احساس اس طرح بھی ہوتا ہے کہ فراق نے اپنے کو ہمیشہ عالم ہجر اورعالم تنہائی میں دریافت کیا ہے۔

    تنہائی کی راتوں نے اکثر مجھ کو ملوایا ہے مجھ سے
    اس وقت یہ سمجھا میں کیا ہوں جب ہجر میں جی گھبرایا ہے

    چنانچہ فراق کی شاعری پر گفتگو کرتے وقت یہ تو نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری اور شخصیت دو الگ الگ چیزیں ہیں یایہ کہ ان کی شاعری تمام ترغیر شخصی ہے۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس میں بڑی معروضیت ہے اور اس کی تفہیم کے لئے ان کے شخصیت نامے کا کوئی ضمیمہ درکار نہیں ہے۔ مشرقی شعریات کا ایک اصول رہا ہے کہ،

    خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
    گفتہ آید در حدیث دیگراں

    یعنی شاعری میں ایک ایسی عمومیت یا تعمیم اور معروضیت ہوتی ہے کہ اس پر جگ بیتی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ہر شخص اسے اپنے دل کی بات سمجھتا ہے۔ فراق کی غزلیہ شاعری کی یہ ایک بڑی خصوصیت ہے کہ جہاں اس میں محبوب کے خط و رخسار کا ذکر نہیں ہے وہاں وہ جرأت و انشا کی ایسی غزلوں کی خصوصیت سے بھی عاری ہے جو کھل کھیلنے کے عالم کی ہے۔ فراق کی شاعری تمام تر دنیائے مجاز کی شاعری ہے۔ پھر بھی اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے ان کی ایسی غزلوں سے صرف نظر کرلیں جو مصحفی اور حسرت کی تقلید میں کہی گئی ہیں (مومن کانام فراق کی عشقیہ غزلوں کے سلسلے میں غلط لیا جاتا ہے) جن میں رنگینی پیرہن یا قبائے ناز کے رنگ وبو کی باتیں ہیں یا اس قسم کا کوئی شوخ مصرع آ گیا ہے، کسی گھونگھٹ ہی کو سرکاؤ کہ کچھ رات کٹے۔۔۔ تو ہم یہ محسوس کریں گے کہ ان کی بیشتر غزلیں بدن کی دنیا سے مرتفع ہوکر، عشق و محبت، درد زیست اور حیات و کائنات کی حقیقت کی نقاب کشائیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ویسے اشعار اردو کے عام متصوف شعرا کے یہاں بھی ملتے ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ جو درجہ دوم کے متصوف شعرا ہیں وہ یہ کہتے نظر نہیں آتے کہ اس زمینی زندگی کی نجات اسی زمینی زندگی میں ہے۔ اس زمینی زندگی کا حشر و نشر، دوزخ اور جنت سب کچھ اسی زمینی زندگی میں اور اسی زمین پر ہے۔

    اقبال، جوش اور فراق (اقبال، جوش اور فراق سے سینئر تھے اور ان کے خیالات کا اثران دونوں ہی کے یہاں ملتا ہے بہر حال ان تینوں کو ۳۶ء کے ترقی پسند شعرا کا پیش رو کہا جائےگا) ان تینوں شاعروں نے زندگی کو مجرد طریقے سے دیکھنے کے بجائے اسے آئینہ ایام یا تاریخ کے آئینے میں دیکھا اوراس نتیجے پر پہنچے کہ اس زندگی کا کوئی عقبی (Hereafter) نہیں۔ یہ زندگی تو دائمی ہے۔ اس کا حشر ونشر سب کچھ اس زمین پر اور جس خاک کے پردے سے بقول میر یہ انسان نکلے ہیں اسی خاکی زندگی میں ان کی نجات پوشیدہ ہے اور پھر اس تصور حیات کے ساتھ ساتھ جب اس خیال سے ہمارے درمیان جگہ بناتی کہ زندگی واحد اور مائل بہ ارتقا ہے۔ تسلسل، حیات کو ہے نہ کہ فنا کو اور زمان و مکان اس حیات کے تکوینی اجزا ہیں تو پھر اصلاح اخلاق کے دائرے سے نکل کر ہماری زندگی اپنی نجات کا ذریعہ یا اپنی اصلاح اور ترقی کا ذریعہ، آزادی اور معاشرے کی تشکیل نو میں دیکھنے لگی۔

    اس خیال کو شاعری میں پروان چڑھانے کاسہرا اقبال کے سرہے اور یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ فراق اپنی اس تنقید کے باوجود جو وہ اقبال کی اسلامی شاعری کے متعلق کیا کرتے تھے، اقبال کے خیالات سے بہت متاثر تھے۔ جہاں ارتقا ہے وہاں تغیر و انقلاب بھی ہے۔ اس خیال کا پرتو فراق کی شاعری میں اس قدر زیادہ ہے کہ ہمیں لا محالہ فراق کو بھی تغیر و انقلاب کا شاعر ماننا پڑتا ہے، خواہ ہمیں ان کے بعض بعض خیالات سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ جو لوگ فراق کی عشقیہ شاعری کو میر و غالب، مصحفی، حسرت اور فانی کی عشقیہ شاعری کے پس منظر میں پڑھتے آئے ہیں وہ اس نکتے کو ابھارنے سے قاصر رہے ہیں کہ فراق عرف عام کے عشقیہ شاعر یا یہ کہ ٹھیٹھ عشقیہ شاعر نہیں ہیں۔ وہ  درد زیست اور درد کائنات کے شاعر ہیں۔ اور وہ اس درد کا محرک جذبہ عشق کو ٹھہراتے ہیں،

    رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہونے لگا
    خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم

    مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا کہ فراق عشق کو اس کے متعارف معنوں میں استعمال نہیں کرتے۔ وہ بھی اقبال کی طرح اسے ایک اصول تفرید اور تخلیقی قوت تصور کرتے تھے۔ عشق ان کے یہاں فرائیڈ کا Erose بھی ہے اور برگساں کا Elan Vital بھی۔ اس عشق کی قوت سے نہ صرف نسل انسانی قائم ہے بلکہ تہذیبیں بھی جنم لیتی رہی ہیں۔ اس خیال کا اظہار انہوں نے اپنے مضامین میں کئی جگہوں میں کیا ہے۔

    فراق ایک بہت اچھے شاعر تھے لیکن وہ کوئی بڑے مفکر نہ تھے۔ کوئی بڑی فکر نہ ان کی شاعری میں ملتی ہے اور نہ ان کے مضامین میں۔ فکری سطح پر ان کی شاعری نہ تو اقبال کے درجے کو پہنچتی ہے اورنہ جوش ہی کے درجے کو جو ان کا ایک Complex بھی تھے۔ پھر بھی یہ کہا جائے کہ وہ اردو کے ان اہم شاعروں میں سے تھے جنہوں نے اردو شاعری کے رخ کو پیش پا افتادہ مضامین کی ترجمانی سے ایک ایسی سمت کی طرف موڑ دیا جو حیات آفریں اور سماجی زندگی کو منقلب کرنے والی ہے۔ مانا کہ ایسے اشعار  فراق کی شاعری میں تھوڑے سے ہیں جو ان کے انقلابی جذبے کے غماز ہیں لیکن جتنے بھی ہیں وہ اہم ہیں۔ فراق کی وہ شاعری جس سے کہ انہیں پہچانا جاتا ہے ایک delayed action یعنی تاخیر سے عمل میں آنے والی شاعری ہے۔

    فراق میں ایک بت شکن یا باغی شاعر مدتوں سے پوشیدہ رہا۔ وہ اس زمانے میں بھی سویا رہا جب وہ عملی حیثیت سے سیاست کے میدان میں تھے اور آزادی کی لگن میں جیل بھی گئے۔ اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے کہ غنچگی کے عالم سے ایک پھول بننے کاعمل ان کی شاعری میں اتنی تاخیر سے کیوں شروع ہوا؟ میں اس سوال کو کھلا رکھتا ہوں۔ لیکن ۳۶ء کے زمانے سے جب سے ان کا مکالمہ نوجوان ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں سے شروع ہوا، اور ایک بائیں بازو کی سیاست کانگریس کے اندر بھی شروع ہوئی توہ ایک شاعر جمال سے ایک شاعر جلال یا شاعر انقلاب بھی بنتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ موڑ ان کی شاعری میں ترقی پسند تحریک سے متاثر ہونے کے بعدآیا۔ اسی زمانے میں انہوں نے نئی زندگی کا ایک خواب دیکھا اور ایک نئے انداز سے غزل خواں ہوئے،

    فراق ہمنوائے میر وغالب اب نئے نغمے
    وہ بزم زندگی بدلی وہ رنگ شاعر ی بدلا

    سانس ہے گرم و تیز سینے میں
    ہوئی جاتی ہے دیر جینے میں

    پھونک ڈالے جو نظم کہ نہ تمام
    آگ ایسی ہو تیرے سینے میں

    فراق کی ایک دشواری یہ تھی کہ جیسا کہ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جب کہ انہوں نے شاعری شروع کی ان کی اپنی کوئی آواز نہ تھی۔ وہ ہر کسی کے پیچھے یا کسی کسی کے پیچھے جسے وہ لائق اعتنا سمجھتے یا جس میں کرب و اضطراب یا سوز و گداز دیکھتے دوڑتے اور اس کے لہجے میں حتی کہ اس کے فقروں میں شعر کہتے۔ فراق کی شاعری میں نقالی کا دور خاصا طویل ہے اور اسے انہوں نے اپنی شاعری کی فطری سست رفتاری سے تعبیر کیا ہے لیکن اس سے انہیں ایک فائدہ بھی پہنچا۔ اردو شاعری کا انہوں نے بڑا گہرا مطالعہ کیا اور شروع میں تو حسرت کی طرح انتخابیت کے عالم میں تھے لیکن آخر آخر انہوں نے اپنے کو میر کی آواز میں دریافت کر ہی لیا،

    صدقے فراق اعجاز سخن کے کیسی اڑائی یہ آواز
    ان غزلوں کے پردے میں تو میر کی غزلیں بولیں ہیں

    فراق شعر وہ پڑھنا اثرمیں ڈوبے ہوئے
    کہ یاد میر کے انداز کی دلا دینا

    میں نے یہ جملہ لکھتے ہوئے کہ انہوں نے اپنے کو میر کی آواز میں دریافت کر ہی لیا، قدرے توقف کیا۔ مبادا غلط ہو۔ کئی بار سوچا۔ مصحفی کو بھی درمیان میں لایا۔ آخر اسی پر میرے دل نے گواہی دی کہ زندگی بھر کی نقالی اور اور یجنلٹی کے بعد (فراق کے یہاں یہ تضاد نقالی اور اور یجنلٹی کا، مستقلاً ملےگا) اپنی جس آواز کو انہوں نے نرم لو سے تشبیہ دی،

    میں نے اس آواز کو مرمر کے پالا ہے فراق
    آج جس کی نرم لو ہے شمع محراب حیات

    اورسوز گداز کی جس کیفیت پر فخر کیا ہے وہ میر کا سوز و گداز ہے، لیکن اپنے کو میر کی آواز میں دریافت کرنا اور  میر کی نقالی کرنے میں فرق ہے۔ اول تو یہ کہ فراق کی شاعری معاصر زندگی اوران کے اپنے پیچیدہ جذبات کی ترجمان ہے۔ اس میں ماضی نہیں حال بولتا ہے۔ دوسرے یہ کہ چونکہ ان کی معاصر زندگی مایوسیوں سے نہیں بلکہ امیدوں سے بھری ہوئی تھی، اس لئے ان کے پردہ غم میں امید کی کرن بھی نظر آتی ہے۔ فرا ق کی یہ شاعری امیدوں کی، وعیدوں کی شاعری ہے،

    پردہ یاس میں امید نے کروٹ بدلی
    شب غم تجھ میں کمی تھی اسی افسانے کی

    چنانچہ ان کی یہ آواز میر کی آواز سے جدا بھی ہونے لگتی ہے۔ ان کی اصلی آواز وہ ہے جس میں کوئی گونج اور تھرتھراہٹ تا دیر قائم ہتی ہے۔ بقول ان کے، میری آواز کی رسائی دیکھ۔

    اے نظام کہن کچھ آہٹ لے
    وہ دبے پاؤں موت آئی دیکھ

    کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نورسا
    کچھ فضا کچھ حسرت پرواز کی باتیں کرو

    دکھاتو دیتی ہے بہتر حیات کے سپنے
    خراب ہوکے بھی یہ زندگی خرا ب نہیں

    رکا ہے قافلہ غم کب ایک منزل پر
    کب انقلاب زمانے کا ہم رکاب نہیں

    فراق کی یہ آواز میر کی آواز سے جداگانہ ہے۔ ان کی معاصر زندگی کے پرامید جلوؤں کی غماز ہے۔ پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہوگا کہ انہوں نے اپنے کو میر کی آواز میں دریافت کیا۔ شاعری کا گہرانا تار وایات سے ہوتا ہے۔ اپنے کھرے کھوٹے کو کسی نہ کسی آواز سے ٹکرانا ہوتا ہے۔ فراق نے بھی اپنے کو مختلف آوازوں سے ٹکرا ٹکراکر دیکھا۔ میر کے لہجے میں جو نرمی ہے، وہ ان کے دل کو بھائی کہ وہ بھی اک دل غم دیدہ کھتے تھے لیکن جو فقیری یا ترک کہ میر کی شاعری میں ہے، وہ ان کے یہاں کہاں ہے؟ فراق کو اگر  ماضی کا کوئی دور ملا ہوتا تو وہ تن مار کر فقیری اختیار کر لیتے لیکن ان کی زندگی کا آغاز تو آزادی کی جدوجہد میں اس زنجیر پائی سے ہوا کہ اس کا ایک ہی تقاضا تھا،

    اہل جنوں کو وسعتیں کچھ اور مل گئیں
    دل بڑھ گیا ہے پاؤں میں زنجیر دیکھ کر

    چنانچہ فراق کی شاعری معاصر زندگی کی شاعری ہے۔ نئے خیالات کی کروٹوں کی شاعری ہے اور اس جذبہ عمل کی غمازہے کہ آج نہیں تو کل، یہ خیالات رنگ لائیں گے۔

    چنانچہ یہی سبب ہے کہ انہوں نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے غزل کے علاوہ اور بھی اصناف سخن کی طرف رخ کیا۔ ۳۶ء سے وقفے وقفے سے اپنے انقلابی اور رومانی جذبات کا اظہار مسلسل گوئی کی اصناف یا نظم کی صورت میں کرتے رہے اور یہ سلسلہ بہت دنوں تک قائم رہا۔ لیکن جو دلکشی انہوں نے اپنی غزلوں میں پیدا کی، اس دلکشی کی حامل یہ نظمیں نہیں ہیں۔ ان کی نظموں میں ان کی نرم لو آواز خاصی بلند ہوتی ہوئی نظر آتی ہے اور جس بلند آہنگی کو دوسروں کی نظموں میں ناپسند کرتے تھے وہ بلند آہنگی ان کی ان نظموں میں درآتی ہے۔

    وہ جوش کی شاعری کو لاؤڈ پوئٹری، گاتی بجاتی شاعری کا بھی نام دیتے، لیکن جوش کے تتبع یا اس کے چیلنج میں وہ اکثر نہ صرف نظموں میں بلکہ غزلوں میں بھی وہی بلند آہنگی استعمال کرتے ہوئے اور وہی طنطنہ دکھاتے ہوئے نظر آتے ہیں جو جوش کی شاعری میں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ انقلابی شاعری جب کہ وہ دوسروں سے مخاطب ہوتی ہے اور خود کلامی کے اندازمیں نہیں ہوتی ہے، بلند آہنگ ہونے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

    چنانچہ میں ان کی سیاسی اور نیم سیاسی نظموں کو اہمیت دیتے ہوئے بھی ان کو یہاں معرض بحث میں لانا نہیں چاہتا، کیونکہ ان کی غزلیں ان کی نظموں پرغالب آ چکی ہیں۔ ان کی نظمیں ان کی شاعری میں، ان کی غزلوں کے مقابلے پر دوسرے درجے کی ہیں۔ اس کا سبب غالباً یہ ہے کہ وہ کسی تسلسل کے ساتھ سوچنے والی فکر کے شاعر نہ تھے۔ ان کے یہاں خیالات تیز رفتار تجلیات کی صورت میں آتے ہیں۔ وہ ایک وجدانی شاعر تھے اور ہرچند کہ وہ معقولات سے بھی استفادہ کرتے لیکن اپنے کو فکر کے معاملے میں کسی تنطیم کا پابند نہ کرتے اوران کو اس امر کا ادعا تھا کہ وہ کوئی فلسفیانہ فکر کے آدمی تھے۔

    ان کے جو کچھ بھی خیالات نیو ویدانتیزم (Neo-Vedantism) تصوف ہندی اور تصوف اسلامی اور جدید یورپ کے مفکرین کے تھے وہ انہیں اپنی غزلوں میں یا تو  کھپا چکے تھے یا کھپاتے رہتے تھے اور ان کے پاس نظموں میں کہنے کے لئے کوئی بات نہیں رہ گئی تھی لیکن انڈین سولیزیشن اور ہندو کلچر کی بالخصوص ایسی بہت سی باتیں تھیں جن کا اظہار مسلمان شعرائے ہند، اپنی غزلوں میں نہیں کر پائے تھے۔ فراق نے اردو شاعری کی اس کمزوری کو پا لیا تھا اور وہ اس کا مداوا کرنا چاہتے تھے، چنانچہ ان کی وہ رباعیات جو صوفیانہ نہیں ہیں بلکہ روپ اور رس کی حامل ہیں، اردو شاعری میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہیں۔ میرا اشارہ ان کی ان رباعیوں کی طرف ہے جو ’’روپ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔

    ان رباعیوں کے بارے میں کوئی رائے دینے سے پہلے اس ہندی کلچر کے پس منظر کی وضاحت کرنا چاہوں گا جس کی کچھ جھلکیاں ان رباعیات میں ہیں اور جس کے اظہار کی کمی کی شکایت فراق نے اردو شعرا کی شاعری سے بحث کرتے ہوئے کی ہے۔

    ہند آریائی تہذیب کے بارے میں یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ یہ دو متضاد قطبین کے درمیان ڈولتی رہی ہے۔ ایک طرف ترک دنیا، ترک لباس، ترک لذات اور پھر ترک ترک کی ثقافت ہے تو دوسری طرف انتہاسے زیادہ شہوانی (Sensusal) ثقافت ہے جس کا مظاہرہ بعض بعض مندروں کے مجسموں، سنگی نقوش اور تصویروں میں ہوا ہے۔ غالباً آخرالذکر ثقافت کے اظہار کا یہ سبب ہو کہ جنسی وصل کی ریت تنترک جوگیوں کے درمیان مذہبی تقدس کے ساتھ محرمان راز کی موجودگی میں منائی جاتی۔ غالباً روحانی وصل کے ایک سمبل کی حیثیت سے یا یہ کہ روحانی وصل کا اسے ایک ذریعہ تصور کیا جاتا یایہ کہ بدن کی شگفتگی ہی سے روح کی شگفتگی ہے۔ بہر حال اس ریت کے پیچھے خواہ ان میں سے کوئی بھی خیال کارفرما رہا ہو، یہ حقیقت ہے کہ اسی جنسی وصل سے نسل انسانی کاتسلسل اور اسی ابدی کھیل سے دنیا کی رنگا رنگی اور گرماگرمی بھی ہے۔

    ایسی صورت میں نہ تو لذت وصل کو برا کہا جا سکتا ہے اور جسم کو ناپاک تصور کیا جا سکتا ہے لیکن ترک کے فلسفے نے ان تنترک جوگیوں کے تصور حیات کے علی الرغم، دنیا کو مایا، چھایا، غیر حقیقی اور جسم کو ناپاک قرار دے کر اسے طرح طرح کی اذیتیں پہنچانے کی طریقت کو رواج دیا اور یہ چیزیں ہندی تہذیب کی اس حد تک ایک سمبالک مظہربن گئیں کہ مغرب میں لوگ ہندی تہذیب کو سنت سادھوؤں اور جادوگروں کی تہذیب سے عبارت کرنے لگے۔ یہ تصویر کا ایک رخ تھا لیکن بے اثر نہ تھا۔ ہندی تہذیب میں بہت کچھ پیگنزم یا فطرت پرستی بھی ہے اور عقبی کا تصور یا بیکنٹھ اور نرک کا تصور خاصا کمزور ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشرہ جنسی قحط زدگی کا ستایا ہوا رہا ہے اور آزاد محبت کے اظہار پر اس قدر پابندیاں، سماجی، مذہبی، طبقاتی اور جات واری عاید رہی ہیں کہ یہ اسی کا ردعمل ہے کہ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کا ادب، اور فلمیں تو 90 فیصد آزاد محبت کے موضوع پر مبنی رہی ہیں اور ابھی تک وہ صورت حال نہیں پیدا ہوئی ہے کہ محبت کی کوئی شادی، بین الجماعتی قسم کی بغیر فساد کے ہو سکے۔

    چنانچہ اس پس منظر میں جسم کو حرمت بخشنا اور اس کی لذتوں کو جائز قرار دینا خواہ وہ لذت وصل ہی کیوں نہ ہو، اس آزادی کا عمل ہے کہ بدن، روح کے ناروا دباؤ Super ego اور ظلم سے آزاد ہو رہا ہے۔ فرائیڈ کی نفسیات اور مغربی ادب کے مطالعے نے بھی اس عمل کو تقویت پہنچائی ہے۔ فراق نے اس آزادی کے عمل کو محسوس کیا لیکن انہوں نے اسے روایتی چوکھٹے میں دیکھنے کی کوشش کی۔ اس سے عورتوں کی آزادی کا مسئلہ حل نہیں ہو پاتا ہے۔

    عورت آزاد اور مقصود بالذات ہے۔ اسے خودیہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے اور اسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن روایتی ہندی تہذیب میں اس کویہ آزادی حاصل نہ تھی۔ وہ سب کچھ تھی لیکن آزاد نہ تھی۔ ایسی صورت میں اسے صرف ایک مرد ہی کے نقطہ نظر سے نہ دیکھنا چاہئے، بلکہ اسے خود بولنے کا موقع دینا چاہئے۔ بہر  حال فراق نے راماین کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ ہندو تہذیب میں عورت ایک ماں، بہن، گھر کی رانی ہی نہیں بلکہ ایک بیوی کی حیثیت سے وہ سیج پر ایک فاحشہ کے روپ میں بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس خیال کو انہوں نے اپنی ایک رباعی میں بھی نقل کیا ہے،

    ماں اوربہن بھی اور چہیتی بیٹی
    گھر کی رانی بھی اور جیون ساتھی
    پھر بھی وہ کامنی سراسر دیوی
    اور سیج پہ بیسوا وہ رس کی پتلی

    چنانچہ انہوں نے اس کے تمام روپوں کے تعلق سے مجموعہ ’’روپ‘‘ میں رباعیاں لکھی ہیں۔ اول تو یہ کہ ان رباعیوں کا بیشتر حصہ فن شاعری سے زیادہ فن تشبیہ نگاری کے مظاہرے پر مبنی ہے اور اگر تشبیہات سے کھیلنا ہی شاعری ہے تو یہ جدید شاعری نہیں بلکہ قدیم شاعری کا فن ہے۔ لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ یہ شاعری ہے اور ضرور ہے لیکن استعارے کی شاعری کے مقابلے میں نیچے درجے کی شاعری ہے۔

    شاعری کا ایک دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی ہر لذت کو خواہ وہ لذت کام و دہن ہو یا لذت گوش و چشم یالذت لمس یا لذت وصل ہو، ایک ادبی پیکز بخشتی ہے۔ اسے جسمانی لذت کے احساس سے بلند کر کے جمالیاتی احساس بخشتی ہے۔ فراق غزلوں میں یہی احساس پیدا کرتے ہیں لیکن ’’روپ‘‘ کی رباعیات میں وہ جابجا اپنے اس معیار سے گرے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ جمالیاتی احساس اس لذت سے جس کا وہ غماز ہوتا ہے مرتفع ہو جاتا ہے۔ جسمانی سطح کی لذتیں (Sensual Pleasures) یعنی تخیلی تصویروں (Sensuous images) میں تبدیل ہو جاتی ہیں، اس سے صرف تخیل لطف اندوز ہو جاتا ہے۔ شہوانی جذبہ بیدار نہیں ہوتا۔

    رنگ شکستہ صبح بہار نظارہ ہے
    یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا

    غالب کے یہاں اس شعر میں دم صبح جس لذت وصل کی یاد کی طرف اشارہ ہے وہ اس قدر لطیف ہے کہ اسے صحیح معنوں میں ادبی اظہار کا نام دیا جا سکتا ہے۔ فراق اپنی ان رباعیات میں اس لطافت کو نہیں پہنچتے ہیں اور اس سطح پر رہتے ہیں جو اکہری زبان کے استعمال اور جسمانی سطح کی ہے، ہنگام وصل پینگ لیتا ہوا جسم۔۔۔ کوئی بڑا مصرع نہیں ہے لیکن ادبی اظہار سے کمتر درجے کا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جو تشبیہات انہوں نے استعمال کی ہیں ان کا کچھ حصہ ادبی معیار کا نہیں ہے، کس خواب کی تعبیر ہے یہ شان جمال۔۔۔ اس طرح کے مصرعے اگر بیشتر نہیں تو اکثر مل جاتے ہیں۔ لیکن اول توتشبیہات میں اتنی تکرار ہے کہ ان کی ہر رباعی دوسری رباعی کی بازگشت معلوم ہوتی ہے۔ پھریہ کہ ان کی ان رباعیات میں سراپا کی تصویر کشی کے علاوہ کوئی کہانی، کوئی پلاٹ، کوئی ڈراما کوئی رمزیت نہیں ہے۔ اوریہ رباعی نگاری کے آداب ہنر کے منافی ہے۔

    جوش کی رباعیات میں جو کیفیت مختصر کہانیوں کی ہے وہ فراق کی ان رباعیات کی تشبیہات میں نہیں ہے۔ چند رباعیوں میں انہوں نے چھوٹے چھوٹے ایسے مناظر کی تصویر کشی کی ہے جو عورت کی گھریلو زندگی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان رباعیات میں بھی کوئی کہانی پن یا ایسا کوئی ارتکاز فکر پیدا نہیں کر پائے ہیں جو فارسی اور اردو کی اعلیٰ رباعیات میں ملتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ کہنا پڑےگا کہ اردو شاعری میں سنگھار رس کی مختصرنظموں کی جو  کمی تھی، اس کو انہوں نے اپنی رباعیوں سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندی کے لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی چوپائیاں بہاری اور رس لین کے یہاں بہت ہیں۔ اتنا تو مجھے بھی اندازہ ہے لیکن فراق کے یہاں اس کا معاملہ کچھ اور تھا۔ وہ اپنے Complex جوش کو متوجہ کرکے کہتے ہیں،

    آنکھیں ہوں تو دیکھ ان ترانوں کا کمال
    الفاظ کے زیر وبم سے اڑتا ہے گلال!

    اوروں کے یہاں کہاں یہ تیور یہ رچاؤ!
    کیا سے کیا کر دیا ہے اردوک ا خیال!

    اب آخر میں فراق کی شاعری کے بارے میں ایک اور بات کہنا چاہوں گا جس کا ذکر اس پورے افسانے میں نہیں آیا ہے اور جس کے اظہار سے ان کی شاعری کا ایک اور ہی گوشہ روشن ہو سکتا ہے، وہ ہے ان کا استفادہ مغرب کا گوشہ۔

    مولانا محمد حسین آزاد نے یہ بات غالباً ۱۸۶۶ میں لکھی تھی کہ اب اردو زبان اور ادب کی ترقی کا دارومدار انگریزی زبان وادب سے استفادے پر منحصر ہوگا۔ ان کی یہ بات حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔ انگریزوں نے انگریزی تعلیم کے ذریعے جو ایک دریچہ مغربی زبان اور ادب کی طرف کھولا وہ اردو زبان اورادب کی ترقی میں بڑا معاون اور مددگار ثابت ہوا اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس زمانے سے ہمارا قبلہ استشراق بدل گیا ہے۔ کیا نظم اور کیا نثر، کیا شاعر یاور کیا فکشن، کیا انشا اور کیا مضمون نگاری، اب ان سارے میدانوں میں مغربی زبان وادب بالخصوص انگریزی زبان و ادب سے استفادہ کیا جانے لگا ہے۔

    چنانچہ اس زمانے سے صرف ایسے ہی لوگ اردو زبان اور ادب کو کچھ دے سکے ہیں جو انگریزی زبان اور ادب سے بھی واقف تھے اور اگر مشرقی تعلیم سے فارغ التحصیل لوگوں نے بھی کچھ اس دور میں دیا ہے تو وہ اس طرح کہ وہ اپنے کسی رفیق یا دوست سے انگریزی کی کتابیں پڑھواکر اس کے مفاہیم کو اپنے ذہن میں بٹھاتے اور پھر اس پر اپنے خیال کی عمارت تعمیر کرتے۔ اس درمیانی کڑی کے لوگوں میں سرسید احمد خاں، شبلی، حالی، آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ قابل ذکر ہیں اور جب ان کا دور ختم ہوا تووہ لوگ آئے جو انگریزی زبان اور ادب سے براہ راست واقف تھے اور بخوبی واقف تھے۔ فراق گورکھپوری کا نام انہیں لوگوں میں لیا جائےگا۔

    وہ انگریزی ادب کے استاد اور معلم تھے اور اس کی باریکیوں سے بخوبی واقف تھے۔ وہ مغربی علوم، فلسفے اور منطق سے بھی شناسائی رکھتے تھے اور ان کی گرفت انگریزی ادب کے اسالیب اور اس کے معنی و مطالب کی تفہیم پر اتنی مستحکم تھی کہ وہ کم سے کم مطالعے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتے۔ وہ کوئی بڑے اسکالر نہ تھے۔ لیکن ایک دراک ذہن رکھنے کے باعث وہ ادب کی گہرائیوں میں بہت جلد اتر جاتے۔ چنانچہ مسلسل انگریزی ادب پڑھانے کی وجہ سے انگریزی ادب ان کے ذخیرہ معلومات یا حافظے کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ و ہ ان کے تحت الشعور میں رہتا۔ چنانچہ وہ اکثر اوقات نامعلوم یا شعوری طور پر بھی، انگریزی زبان کی تراکیب اور فقروں کو اپنی نظم و نثر میں اس طرح جڑ دیتے کہ یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ فریز (Phrase) اور یہ ترکیب انگریزی زبان سے مستعار لی گئی ہے۔ کبھی کبھی وہ انگریزی شعرا کے اشعار کا آزاد ترجمہ بھی اپنے اشعار میں کر دیا کرتے۔

    چنانچہ ان کے کلام کو توجہ سے پڑھنے والا مغرب سے اس استفادہ کو اچھی طرح محسوس کر سکتا ہے۔ بعض جگہوں میں تو فٹ نوٹ ہیں۔ انہوں نے اس استفادے کو ظاہر بھی کیا ہے۔ لیکن کہیں کہیں اس طرح ہضم کر لیا ہے کہ اس کو ظاہر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے 1 اور ایسا رویہ انہوں نے اردو کے اساتذہ کے ساتھ بھی روا رکھا ہے۔ وہ ان کے مصرعے کے مصرعے اپنے اشعار میں ضم کر لیتے ہیں یا بادنی تغیر ضم کر لیتے ہیں لیکن اس سے ان کی اوریجنلٹی پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ انہو ں نے نہ صرف اردو شاعری کو بلکہ اردو زبان کو بھی بہت کچھ دیا ہے۔ انہوں نے نئی سے نئی ترکیبیں وضع کی ہیں۔ نئے سے نئے استعارے خلق کئے ہیں اور ہندی اورسنسکرت کے متعدد ایسے الفاظ اردو زبان کے دائرے میں وہ کھینچ لائے ہیں جو بغیر کسی غرابت کے اردو کے معلوم ہوتے ہیں اور جو مدتوں سے فراق کے ایسے لفظوں کے نباض شاعر کا منہ تک رہے تھے۔

    فراق کی اردو دوستی مشہور ہے۔ وہ اس کے لب ولہجے کی نرمی اور شائستگی کے اس قدر دلدادہ تھے کہ وہ اس سنسکرت آمیز جدید ہندی کوسخت ناپسند کرتے جو اردو لب و لہجے سے مستفید نہ ہوتی اور جو لفظوں کی فصاحت اور غرابت کا کوئی معیار نہ رکھتی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہندی کے دشمن نہ تھے۔ وہ ہندی کو اردو کے سرمایہ الفاظ، لب ولہجہ کی شائستگی اور اس کے معیار فصاحت سے پر مایہ بنانے کے حامی تھے۔ ہندی کے لوگ ان کی اس بات کو پوری طرح سمجھ نہیں پائے۔

    ان کا موقف ہندی زبان کے بارے میں یہ تھا کہ گزشتہ سات سو سال کے عرصے میں جس ہندی زبان نے شہری زندگی پاکر ترقی کی ہے وہ اردو ہے۔ اس شہری زندگی کی ترقی یافتہ زبان سے کٹ کر یعنی اردو سے کٹ کر، جدید ہندی یا کھڑی بولی کی کوئی ثقافتی حیثیت نہیں ہے۔ اسی طرح وہ اردو کے لوگوں سے بھی کہا کرتے کہ انہیں علاقائی زبانوں کے ادب اور ہندی اورسنسکرت کے ادب سے بھی شناسائی حاصل کرنی چاہئے تاکہ وہ ہند کی کی جامع تہذیب کو اپنے کلام میں جگہ دے سکیں۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ آج اردو کا کوئی بھی شاعر جو ہند کے بیشتر حصے کے لوگوں سے مخاطب ہونا چاہتا ہے خواہ اس کا وہ تخاطب بالواسطہ ہی کیوں نہ ہو، وہ ہند کی مختلف زبانوں کے ادب، بالخصوص ہندی اور سنسکرت کے ادب کو جانے بغیر مخاطب نہیں ہو سکتا ہے۔

    جب میں ان ساری باتوں کو سمیٹے ہوئے اپنی ذات سے یہ استفسار کرتا ہوں کہ ایک شاعر کی عظمت کی وہ کیا نشانیاں ہیں جو اوروں کے یہاں ملتی ہیں اور فراق کے یہاں نہیں ہیں، تو مجھے اس کا کوئی جواب ملتا ہوا نظر نہیں آتا ہے۔ اس وقت میں یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہرچند کہ وہ ایک مشت خاک سہی لیکن اس کی شاعری عظمتوں سے خالی نہیں۔

    فراق نے جہاں زندگی کواس کی اس سطح پر دیکھا ہے جو دھول، مٹی، چلچلاتی ہوئی دھوپ میں عرق ریزیوں سے عبارت ہے، جو محنت اور حصول رزق کی دنیا ہے، جہاں زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھے ہوئے لوگ، چھوٹے چھوٹے مادی فوائد کے تعاقب میں دیوانہ وار دوڑتے بھاگتے ہوئے اور اپنی اس دوڑ میں دوسروں کو روندتے ہوئے کچلتے ہوئے نظرآتے ہیں، وہاں سکوت نیم شبی میں انہوں نے اپنے وجود کے اس رشتے کو بھی محسوس کیا ہے جس کا تعلق کائناتی زندگی سے ہے۔

    یہ بات دوچار یا اپنے نظام شمسی کے دس سیاروں کی دشت پیمائی کی بات نہیں ہے۔ بلکہ اس سے آگے ان ان گنت آفتابوں سے جو پیدا ہوتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں، یہ راز معلوم کرنے کی بات ہے کہ یہ زندگی کیا ہے؟ اس کا پہلا اور آخری سرا کیا ہے اور اگریہ بے کراں اور لاحد زمان و مکاں ہے تو پھر وہ ناظورہ نظارہ سوز جواز خود پیچ و تاب میں ہے جو اپنے وجود کو اپنی ہی ذات کے آئینے میں منکشف کرتا رہتا ہے، جو آپ اپنا غیر بھی ہے، کون ہے ؟ یا کیا ہے ؟ فراق کی شاعری کا ایک حصہ ان سوالات کے تعلق سے صوفیانہ فکر کا بھی حامل ہے۔ انہوں نے رمز حیات کو تاروں کی مدھم روشنی میں بھی پڑھا ہے۔

    فراق کی شاعری ان کے اپنے الفاظ میں ایک جنگل سہی، خود روپودوں، خاردار جھاڑیوں اور بےگانہ اشجار سے پر سہی لیکن اس میں ایسے سربلند درخت بھی ہیں جو شاخ طوبی کو چھوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب ان کے کچھ ایسے ہی اشعار ملاحظہ ہوں۔

    تارے ہیں آبدیدہ دل آسماں گداز
    پہنچی ہے دور تک مرے شعر و سخن کی بات

    فراق دیکھ کسی شب گداز قلب نجوم
    چھڑا ہوا ہے سکوت ابد کا فسانہ

    مر ی غزل میں ملےگا تجھے وہ عالم راز
    جہاں ہیں ایک ازل سے حقیقت اور مجاز

    جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلوؤں کی
    چراغ دیروحرم جھلملائے ہیں کیا کیا

    کہیں چراغ کہیں گل کہیں دل برباد
    خرام ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا

    ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے
    نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

    اک بات کہتے کہتے کبھی رک گیا تھا حسن
    وہ ماجرا فراق مجھے بھولتا نہیں

    توڑا ہے لامکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
    زندان عقل، تیری تو کیا کائنات ہے

    یہ جنگ کیا ہے لہو تھوکتا ہے نظم کہن
    شگوفے اور کھلائےگا وقت شعبدہ باز

    دیکھ رفتار انقلاب فراق 
    کتنی آہستہ اور کتنی تیز

    روح آدم گواہ ہے کہ بشر 
    ابھی شائستہ گناہ نہیں

    قید کیا رہائی کیا ہے ہمیں میں سب عالم
    رک گئے تو زنداں ہے چل پڑے بیاباں ہے

    یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
    ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ

    زمین جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل
    وہ رات ہے کوئی ذرہ بھی محو خواب نہیں

    بہت دنوں میں محبت کو ہو سکا معلوم
    جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

    چھڑتے ہی غزل بڑھتے چلے رات کے سائے
    آواز مری گیسوئے شب کھول رہی ہے

    ہر ذرے پہ اب کیفیت نیم شبی ہے
    اے ساقی دوراں یہ گناہوں کی گھڑ ی ہے

    غرض کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
    وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

    جولا نگہ حیات کہیں ختم ہی نہیں
    منزل نہ کر حدود سے دنیا بنی نہیں


    حاشیہ
    (۱) زندگی کیا ہے اس کو آج اے دوست
        سوچ لیں اور اداس ہو جائیں

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے