شاعری اور نثر کا فرق
اسلوبیات اور ساختیات کے ماہروں کا کہنا یہ ہے کہ NORM یا معمول نثر ہے اور شاعری دراصل اس معمول میں وقفے PAUSE یا انحراف DEVIATION کا نام ہے۔ ان لوگوں نے یورپ کی کلاسیکی شاعری، رومانی شاعری اور جدید شاعری کے جائزے اور اعداد وشمار کی مدد سے یہ ثابت کیاہے کہ کلاسیکی شاعری میں وقفوں یا انحراف کا تناسب زیادہ نہیں ہے، رومانی شاعری میں اس سے زیادہ ہے اور جدید شاعری میں سب سے زیادہ۔
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ کیا نثر کو فارم سمجھا جائے اور شاعری کو انحراف۔ دوسرا یہ کہ کیا یہ جائزہ قابل اعتماد کہا جاسکتاہے اور اس کی بنا پر ایسے اہم معاملات میں کوئی حکم لگایا جاسکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ایسے مسائل پر قواعد داں، ماہر لسانیات، شاعر، نثر نگار، نقاد، منطقی، سب اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بات کرتے ہیں۔ ادب کے طالب علموں کا یہ حق ہے کہ ہم ادب کی زبان کی روشنی میں ان مسائل پر بات کریں۔ دوسرے پہلوؤں پر غور ہو سکتا ہے مگر بنیادی مسئلہ ادبی زبان اور ادبی اظہار کا ہے۔
ہمارے کلاسیکی نقادوں کے نزدیک شاعری سب کچھ تھی اور نثر اس کے مقابلے میں کمتر۔ بات یہ ہے کہ ادبی تنقید تخلیق کے پیچھے چلتی ہے اور اس کی روشنی میں اپنے اصول اور قواعد و ضوابط متعین کرتی ہے۔ یونانی ادب کے کتنے شاندار سرمایے کے مقابلے میں اردو نثر کا سرمایہ کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے کتنا کمتر تھا، جب شاعری اور نثر کی خصوصیات اور اقسام پر بحث شروع ہوئی۔ اس لیے اس بحث میں قدما کی تعریفوں کو ملحوظ رکھنا تو ضروری ہے مگر ان پر تکیہ کرنا اور انھیں قول فیصل سمجھنا درست نہ ہوگا کیونکہ اس عرصے میں گنگا میں بہت پانی بہہ گیا ہے اور اب جہاں تک ان زبانوں کا سوال ہے نثر کا بھی اچھا خاصا سرمایہ فراہم ہو گیا ہے۔
اردو شاعری کی عمر ابتدائی نمونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ساڑھے تین سو سال کی ہے اور نثر کی عمر پونے دو سو سال کی اور ادھر سو سال میں اس نے نمایاں ترقی کی ہے، اس لیے اب سارے ادبی سرمایے کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہمیں شاعری اور نثر کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کلاسیکی نظریات کو نظر انداز کرنے کے بجائے ہمیں ان کے ساتھ جدید نظریات پر بھی غور کرنا ہوگا اور حسب ضرورت کلاسیکی نظریات میں تبدیلی کرنی ہوگی۔ اردو تنقید صرف عربی یا فارسی تنقید پر تکیہ نہیں کر سکتی، اسے سنسکرت اور ہندی تنقید کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا اور مغربی تنقید کو بھی، جو بڑی حد تک عالمی معیاروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہاں ان عالمی معیاروں کو بجنسہ اختیار کرنے کے بجائے ان کی روح کو جذب کرنا ہوگا۔ ہر ادب کی اپنی بنیاد ہوتی ہے، مگر اس پر جو رنگ محل تعمیر کیا جاتا ہے اس کے نقش ونگار عالمی ہوتے ہیں۔ مقامیت اور آفاقیت دونوں میں ایک گہرا رشتہ ہے۔
ایک اور بات شروع میں کہنی ضروری ہے۔ میرے نزدیک نظم اور نثر کے فرق پر غور کرنے کے بجائے شاعری اور نثر کے فرق پر غور کرنا چاہیے۔ ہمارے یہاں شاعری کی دو قسمیں کہی جا سکتی ہیں۔ ایک نظم، دوسری غزل۔ غزل بھی ایک طرح کی نظم ہے مگر اسے اپنی روایت اور تاریخ کی بنا پر الگ حیثیت مل گئی ہے۔ سہولت کے لئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاعری نظم ہے جس میں مربوط اور مسلسل اظہار ہے، وہ شاعری غزل ہے جس میں ہر شعر منفرد ہوتاہے مگر دوسرے اشعار سے قافیے اور اکثر ردیف کے ذریعہ سے منسلک ہوتا ہے۔
جدید ادبی سرمایے کی روشنی میں نظم کی پھر دو قسمیں ہو جاتی ہیں، ایک پابند نظم، جس میں بحر ایک ہی ہوتی ہے اور عام طور پر مختلف ہیئتوں سے کام لیا جاتاہے مگر قافیے کا التزام ہوتاہے اور کبھی کبھی ردیف کا بھی۔ دوسرے آزاد نظم، جس میں ہرمصرعے میں بحر کے ارکان میں تبدیلی کی گنجائش ہوتی ہے۔ اردو میں آزاد نظم در اصل ایک بحر سے آزاد نہیں ہے اس لیے صحیح معنی میں آزاد نظم نہیں کہی جاسکتی بلکہ جسے آج نثری نظم کا نام دیا جاتا ہے، دراصل وہ آزاد نظم ہے مگر چونکہ ہمارے یہاں آزاد نظم اب خاصی رائج ہو گئی ہے، گو اس میں بحر ایک میں رہتی ہے، صرف ارکان چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اسے آزاد نظم کہا جاسکتا ہے۔ ادبی نقادوں کو چلن کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ گو اس کا غلام ہونے کی اسے ضرورت نہیں۔
جب ہم شاعری میں پابند نظم، آزاد نظم اور غزل سبھی کو شامل کرتے ہیں تو پھر شعر کی تعریف اسی لحاظ سے کرنی ہوگی اور نثر کی تعریف بھی شاعری سے بنیادی فرق کی روشنی میں۔ یہ کام اتنا آسان تو نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے مگر اس کی کوشش بہرحال ضروری ہے۔ بحر الفصاحت میں شعر کی تعریف اس طرح کی گئی ہے،
’’شعر اس کلام موزوں کا نام ہے جو اوزان مقررہ میں سے کسی وزن پر اور مقفیّٰ ہو اور بالقصد موزوں کیا گیا ہو۔‘‘ (ص، ۵۰) مراۃ الشعر میں شعر کی تعریف یوں ملتی ہے، ’’و کلام موزوں و مقفے جو مقدمات موہوم پر مشتمل ہو اور ان کی ترتیب سے نتائج غیر واقعی پیدا کرے، مگر اس طرح کہ وہم کو حقیقت، حقیقت کو وہم کر دکھائے۔’‘ (ص۴)
اب اگر وزن اور قافیے کی شرط لازمی قرار دی جاتی ہے تو ہمارے یہاں آزاد نظم اور نثری نظم اور نظم معریٰ تینوں شاعری کے دائرے سے خارج ہو جاتی ہیں جو ہمیں گوارا نہ ہونا چاہئے، اس لیے قدما کی تعریفوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ خوش قسمی سے حالی کو اس بات کا احساس تھا۔ انھوں نے مقدمۂ شعر و شاعری میں لکھا ہے کہ ’’شعر فی نفسہ وزن کا محتاج نہیں البتہ وزن کی شرط نظم کے لیے ہے۔’‘ حالی قافیے کو بھی نظم کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اگر ہم پابند نظم کی اصطلاح استعمال کریں تو حالی کی اس تعریف سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ عروضی تو صرف وزن ہی کے التزام کو شاعری کہتے ہیں، منطقی ’’اعلا درجے کے استعاروں اور عمدہ تشبیہوں پر زور دیتے ہیں جن کے ذریعہ سے تاثیر پیدا ہو اور فرحت یا رنج و غم حاصل ہو۔‘‘ (بحر، ص، ۵۲)
بہر حال اپنے سارے سرمایے اور عالمی میلانات پر نظر رکھتے ہوئے اب شاعری کے سلسلے میں کولرج کی اس تعریف سے مدد مل سکتی ہے۔ نثر ان مناسب الفاظ سے عبارت ہے جو اپنے مناسب مقامات پر ہوں اور شاعری ان سب سے زیادہ مناسب الفاظ پر جو اپنے مناسب مقامات پر ہوں، یعنی شاعری میں زور الفاظ اور ان کے حسن پر ہے اور نثر میں خیالات پر جن کے لیے لفظ صرف ایک آلہ ہے۔ غالبؔ کی اس نکتے پر نظر تھی تبھی تو انھوں نے کہا ہے،
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
یعنی شاعری میں اکائی لفظ ہے۔ جب کہ نثر میں اکائی فقرہ یا جملہ ہے۔ اس بات کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ شعر تخلیقی اظہار ہے اور نثر تعمیری اظہار۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نثر میں تخلیقی اظہار نہیں ہوتا۔ آخر ناول، افسانے، انشائیے وغیرہ میں نثر میں تخلیقی رنگ تو ہوتا ہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شاعری میں لفظ کی اہمیت بجائے خود ہے۔ نثر میں لفظ فقرے یا جملے ہی میں اپنی پوری توانائی ظاہر کرتا ہے۔ شاعری میں لفظ کا فنکشن یا تفاعل نثر میں لفظ کے فنکشن یا تفاعل سے مختلف ہے۔ شعر میں لفظ، استعاراتی یا تمثیلی یا علامتی پہلو لیے ہوتا ہے۔ نثر میں استعارے یا علامات استعمال ہوتے ہیں، مگر لفظ استعاراتی یا علاماتی اکیلا نہیں ہوتا، پورے فقرے یا جملے میں علاماتی یا استعاراتی ہوتا ہے۔ استعارہ عام فہم بھی ہوسکتا ہے اور نسبتاً ابہام یا اشکال کا حامل بھی۔ مگر ارسطو کے اس قول کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ استعارہ شعر کی روح ہے اور شاعر اس میں سب سے زیادہ اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔
شاعری میں تخیل صورت گر ہوتا ہے۔ اہمیت صورت گر تخیل کی ہے صرف تخیل کی نہیں۔ اہمیت بذات خود محاکات کی نہیں محاکات کے اس تصویر لینے کی ہے جو تجربے کے رس اور جس سے مالامال ہو۔ بحر الفصاحت اور مراۃ الشعر میں شعر کی جو تعریفیں ملتی ہیں وہ نامکمل ہیں۔ ان میں وزن اور قافیے پر زور ہے، لیکن لفظ کے خلاقانہ استعمال، اس کی جدلیاتی نوعیت، اس کی پہلو داری اور تہہ داری پر نہیں۔ شمس الرحمن فاروقی نے شعر، غیرشعر اور نثر میں، شاعری میں لفظ کے جدلیاتی استعمال، اجمال، ابہام پر زور دیا ہے۔ میرے نزدیک جدلیاتی سے پہلوداری بہتر ہے۔
جہاں تک اجمال کا تعلق ہے، اس سے بہتر لفظ کفایت ہے۔ شاعری میں لفظ بکفایت استعمال ہوتے ہیں، نثر کے مقابلے میں اس میں محذوفات زیادہ ہوتے ہیں لیکن مفہوم تک رسائی میں نہ صرف کوئی فرق نہیں پڑتا، کچھ زور بڑھ ہی جاتا ہے۔ ابہام میرے نزدیک شاعری کی لازمی خصوصیت نہیں۔ آخر ہمارے یہاں سہل ممتنع کی اصطلاح اور حالی کے یہاں سادگی پر زور بے معنی نہیں۔ جس طرح سہل ممتنع کو شاعری کی معراج سمجھنا درست نہیں، اس طرح ابہام کو لازم سمجھنا بھی ضروری نہیں۔ اچھی شاعری سہل ممتنع کی بھی ہو سکتی ہے اور ابہام کی بھی۔ ابہام پر زیادہ زور دینے کی وجہ سے فاروقی کا اہم مضمون یک طرفہ ہو گیا ہے۔ اس طرح انھوں نے بندش کی چستی، برجستگی، سلاست، روانی، ایجاز، زور بیان کو نثر کے خواص ٹھہرا کر میرے نزدیک وقتِ نظر سے کام نہیں لیا۔
بات یہ ہے کہ اعلا درجے کی شاعری سہل ممتنع میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے اور ابہام میں بھی۔ یہاں سوال شاعر کے انداز نظر اور موضوع کا آتا ہے۔ شاعر اگر لفظ کو محسوس خیال، مخصوص تجربے یا منفرد تصور کا گہوارہ بنادے، اگر اس کی نظر نادرہ کار، تازہ کار اور لالہ کار ہو، اگر وہ مانوس چیزوں میں نئے جلوے اور نامانوس کیفیات میں مانوس بوباس پیدا کرسکے، اگر وہ لفظ کو نشتر یا تلوار یا موج مے یا رنگ شفق بنا سکے، اگر وہ لفظ میں ایک طلسمی دنیا سمو سکے تو لفظ کائنات بن جاتا ہے۔ اس طرح یہ لفظ لازمانی بن جاتا ہے۔
شاعری تاثرات، کیفیات دیتی ہے۔ نثر معلومات۔ شاعری ذہن میں کوندے کی لپک پیدا کرتی ہے۔ نثر ذہن میں چراغاں کرتی ہے۔ شاعری پہلے سب کچھ کرتی تھی۔ اس لیے کچھ لوگوں نے اس سب کچھ کو شاعری کی روح سمجھ لیا، لیکن جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا گیا، شاعری کی زبان مخصوص اور اس کا کام ایک مخصوص معیار کا ہوتا گیا۔ اب عام ابلاغ کا کام نثر نے سنبھال لیا ہے اور ہر تمدن کی ترقی نثر کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ شاعری کو زوال ہو گیا یا اس کا درجہ نثر سے گر گیا۔ اب اختصاص کے اس دور میں شاعری بھی اختصاصی ہو گئی۔ مضمون کے شروع میں، میں نے ماہرین اسلوبیات اور ساختیات کے حوالے سے یہ جو بات کہی تھی کہ جدید شاعری میں نثر کے نارم NORM سے جو انحراف بڑھ گیا ہے، اس کی وجہ ہی شاعری کے اپنے مخصوص رول کو اپنانے کے ہیں۔ اس کے یہی معنی ہیں۔
چونکہ کلاسیکی شاعری نثر کے فارم سے زیادہ قریب تھی، اس لیے اس دور میں شاعری کی تعریف میں یا شعر کی تعریف میں بعض ایسے پہلوؤں پر توجہ تھی، جو نثر کی خصوصیت ہیں یا پھر وزن اور قافیے کی شرط تھی، جو شاعری میں یقیناً اہمیت رکھتے ہیں مگر شعریت کی روح دراصل ان میں بعض لفظ کے شاعرانہ استعمال میں ہے۔ وزن کی شاعری میں بنیادی اہمیت نہیں۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ اس طرح آہنگ کے مقررہ، باقاعدہ اور مرتب سانچے کام میں لائے جاتے ہیں۔ بہرحال شاعری میں آہنگ کی بنیادی اہمیت ہے۔ نثر بھی ایک آہنگ رکھتی ہے، مگر یہاں آہنگ زیادہ ڈھیلا ڈھالا، زیادہ آزاد اور بقول درائی ڈن DRYDEN ایک دوسرے قسم کا آہنگ ہے۔
لیکن شاعری کی ہر تعریف ایسی جامع ہونی چاہیے کہ اس میں غزلوں اور مختصر نظموں کے علاوہ طویل نظموں، مثنویوں اور مختلف اصناف اور مختلف ہیئتوں کے لیے گنجایش نکل سکے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی پڑےگی کہ طویل نظموں یا مثنویوں میں چونکہ ایک بڑی بساط ہوتی ہے، اس لیے اس میں شاعری کو شاعری کے علاوہ کچھ نثری صفات سے بھی کام لینا پڑتاہے۔ ان میں ایک صفت تو تعمیری ہے۔ جس طرح سنگ مرمر کے ٹکڑوں کو جوڑنے کے لیے اور ایک ڈیزائن تیار کرنے کے لیے ایک ایسے مسالے کی ضرورت ہوتی ہے جو سنگ مرمر سے علاحدہ ہے، اس طرح طویل نظموں میں شاعری کو ایسی چیزوں سے بھی کام لینا پڑتا ہے جو دراصل شاعری کے ذیل میں نہیں آتیں۔ خالص سونے کا زیور نہیں ہوتا، اس میں ڈیزائن کچھ میل سے وجود میں آتا ہے، یہ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی والی بات ہے۔
اس طرح شاعرانہ بیان تخیل کی صورت گری کی مدد سے لفظ کا تخلیقی استعمال کرتا ہے۔ اس کے امکانات سے کام لیتا ہے۔ اس میں معنی کی تہوں اور پرتوں کو آشکار کرتا ہے۔ وہ زبان کی عام اسکیم یا اس کے مانوس نظام سے ایک خاص رشتہ قائم کرتاہے اور اس خاص رشتے کے ذریعہ سے لسانی اجزا اپنا نیا نظام بنالیتے ہیں۔ عام زبان سے یہ انحراف، شاعرانہ زبان کے اپنے نظام کے مطابق ہوتا ہے اور شاعرانہ زبان کی اسکیم سے انحراف عام زبان کے مطابق ہوتا ہے۔ دونوں کو اس طرح نئی تب و تاب اور نئی توانائی ملتی رہتی ہے۔ اس معنی میں شاعر نئی زبان بناتا ہے اور اس نئی زبان سے عام زبان زیادہ سرمایہ دار، زیادہ پہلو دار، زیادہ جاندار اور طرحدار ہو جاتی ہے۔ شاعر جو نئی ترکیبیں وضع کرتا ہے، ان کے ذریعہ سے معنی آفرینی، حسن آفرینی اور اختصار تینوں کا حق ادا ہوتا ہے۔
شاعری میں جو وقفے یا PAUSES آتے ہیں، ان میں ایک تناسب، ایک ترتیب، ایک موزونیت ہوتی ہے۔ آہنگ نثر میں بھی ہوتا ہے۔ اس کا تجربہ وقفوں یا PAUSES کے پیٹرن یا ڈیزائن سے کیا جا سکتا ہے، مگر شاعری میں یہ پیٹرن خاصا چوکس، خاصا باقاعدہ اور خاصا مترنم ہوتا ہے، نثر میں زیادہ آزاد۔ دونوں میں بل بھی ہے اور لہجے کی کھنک بھی مگر شاعری میں یہ زیادہ محسوس اور منظم ہوتا ہے، نثر میں نسبتاً خاموش۔ ایک میں تموج ہے دوسرے میں بہاؤ، ایک میں اتار چڑھاؤ کا مظاہرہ ہے دوسرے میں خاموش روانی کا۔ پھر نثر کے ایک فقرے یا جملے میں برمحل رابطے کے الفاظ ہوتے ہیں جن کا وجود ضروری ہے، شاعری میں یہ برمحل رابطے محذوف ہوتے ہیں۔ شاعری کم سے کم الفاظ سے زیادہ زیادہ اثر پیدا کرتی ہے، زیادہ سے زیادہ خیال کی دنیا میں ہلچل پیدا کرتی ہے۔
شاعری محشر خیال اور محشر الفاظ ہے۔ نثر روانی روش اور چراغ انگیز ہے۔ صناعی اور آرایش و زیبایش کی دونوں میں گنجایش ہے اور یہ عام طورپر کلاسیکی زبانوں کے الفاظ سے آتی ہے مگر جس طرح انگریزی شاعری اور انگریزی نثر لاطینی زبان کی گرفت سے آزاد ہوئی، اسی طرح اردو بھی اب عربی، فارسی الفاظ کی گرفت سے آزاد ہورہی ہے۔ ہاں لاطینی ہویا عربی، فارسی دونوں سے کام شاعری اور نثر میں برابر لیا جائےگا، مگر انگریزی زبان کی جینس یا اردو زبان کے مزاج یا اردوپن کے دائرے کے اندر رہ کر۔
شاعری کے سلسلے میں تو ہمارے قدما کی تعریفیں اب بھی ایک حد تک مفید ہیں، گو ان میں بعض اہم پہلوؤں کی پاسداری نہیں ہے مگر نثر کے سلسلے میں ہماری پرانی تعریفیں ہماری مدد بہت کم کرتی ہیں، بلکہ ایک حد تک گمراہ کن ہیں مثلاً نثر مرجز، نثر مقفے، نثر مسجع، دراصل نثر کے اپنے حسن کو چھوڑ کر شاعری کے روایتی زیور سے آراستہ ہونے کی کوشش کرتی ہیں، اس لیے ان اصطلاحوں کی اب صرف تاریخی اہمیت ہے، ان میں جو قسم سب سے مفلس سمجھی گئی یعنی نثر عاری، وہی سب سے زیادہ سرمایہ دار ہے۔
بھلا بتائیے کہ وہ نثر جس میں ’’وزن ہو اور قافیہ ہو، یا جس میں قافیہ تو ہو مگر وزن نہ ہو یا جس میں پہلے فقرے کے تمام الفاظ دوسرے فقرے کے تمام الفاظ سے وزن و حرف آخر میں موافقت رکھتے ہوں۔’‘ نثر ہے یا شاعری کی زنجیروں میں ایک قیدی۔ یہ نثر در اصل نہ نثر کی مردانگی رکھتی ہے نہ شاعری کی نسائیت بلکہ یہ ایک تیسری جنس ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک جسے نثر عاری کہا گیا ہے، وہی نثر کا جوہر رکھتی ہے۔ اس میں لنگڑا لنگڑا کر چلنے کے بجائے ایک بے پروا خرام ہے۔ یہ درست ہے کہ یہ تشبیہ، استعارے، پیکر وغیرہ سے زیادہ کام نہیں لیتی۔ غالباً سمویل جانسن نے سویفٹ کے متعلق کہا تھاکہ یہ شیطان استعارے کا بھی خطرہ مول نہیں لیتا مگر اچھی نثر اگر اپنے آداب کو ملحوظ رکھے تو استعارے یا تشبیہ کی چاشنی اس میں کبھی کبھار مزا دے جاتی ہے۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شاعری میں اس کی جگہ اسٹیج کے مرکز میں ہے۔ نثر میں حاشیے میں۔ شاعری دھنک ہے، نثر سفید رنگ۔ شاعری وہ چاندی ہے جس میں لطیف سایے بھی ہیں اور ہر شے کچھ طلسمی، کچھ پراسرار نظر آتی ہے۔ نثر وہ دھوپ ہے جس میں ہر شے آئینہ ہوتی ہے۔ متمدن انسان نثر سے زیادہ کام لے گا، لیتا رہے گا، مگر وہ شاعری کے مخصوص جادو، اس کی زبان کی سچائی اور چارہ گری، اس کی خیال انگیزی اور معنی آفرینی سے کبھی بے نیاز نہ ہو سکےگا۔ اردو شاعری میں میر، نظیر، انیس، غالب، اقبال، فیض، فراق، راشد، میرا جی، سب نے اپنے اپنے طور پر شاعری کی ہے۔ نظیر نے سب سے زیادہ الفاظ استعمال کیے ہیں، مگر جیساکہ شبلی نے کہا کہ شائستہ الفاظ انیس نے زیادہ استعمال کیے ہیں۔
شاعری لغت سازی نہیں ہے، میر نے سہل ممتنع کابھی حق ادا کیا ہے مگر صرف سہل ممتنع کی وجہ سے میر کی میری مسلم نہیں، ان کے لفظ کے خلاقانہ استعمال کی وجہ سے ہم انھیں خدائے سخن کہتے ہیں۔ غالب اور اقبال استعارہ سازی کی وجہ سے اور تراکیب میں جہان معنی آباد کرنے کی وجہ سے زبان کو ہر موضوع کے اظہار پر قادر بناتے ہیں اور حدیث دلبری کو صحیفۂ کائنات۔ فیض اور فراق ان شاہراہوں کو بارونق بناتے ہیں، مگر راشد اور میراجی کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے ان پگڈنڈیوں کی سیر کی جو بقول اختر الایمان افق کو چھو سکتی ہیں۔
میرا من کی باغ و بہار سے پہلے میرے نزدیک اردو نثر میں اردو پن تھا ہی نہیں وہ فارسی کو بھونڈی نقل تھی۔ وجہی کی ترنگ دربار کی پرتکلف فضا کے دھندلکے میں غائب ہو چکی تھی۔ میرامن، خطوط کے غالب، سرسید، حالی، شبلی، نذیر احمد، عبد الحق اور حال میں عابد حسین، منٹو اور عصمت کی نثر، نثر کے جوہر سے آشنا ہے۔ محمد حسین آزاد ہوں یا ابوالکلام آزاد، یہ اچھی اور معیاری نثر برابر نہیں لکھ پاتے، کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھا ہی جاتے ہیں۔ موضوع کے لحاظ سے شاعری اور نثر دونوں میں ہلکے اور گہرے رنگ ہوتے ہیں۔ شاعرانہ نثر کی بھی نثر میں گنجایش ہے مگر اس کا مزاج نثر کا مزاج اور اس کا آہنگ نثر کا آہنگ ہونا چاہیے۔ نثر کو اوقاف کی سیڑھیوں کی ضرورت ہے۔ شاعری انھیں پھلانگ سکتی ہے۔ بقول غالب،
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.