شعر و شاعر
ہر آدمی کو ہر لحظہ بے شمار باتیں یا چیزیں شعوری لیکن زیادہ تر تحت الشعوری طورپر متاثر کرتی رہتی ہیں۔ پھر شعوری تاثرات بھی تحت الشعور میں اتر آتے ہیں۔ تحت الشعور انھیں تاثرات کا ایک عالم انتشار ہے۔ ان تاثرات کا ہضم ہونا اسی حالت میں ممکن ہے جب یہ متوازن اور منظم ہو جائیں اور ان سے ہماری داخلی زندگی میں پوری اکائیاں بنیں۔ یہ تنظیم و توازن و سالمیت جہاں تک شعور محض کا تعلق ہے، وجدان کی کارفرمائی سے ہی ممکن ہے۔
ہر آدمی کی داخلی زندگی میں منتشر، غیر منظم، غیر متوازن، ناقص اور ادھورے تاثرات ایک خاموش ہیجان کے موجب ہوتے ہیں۔ اس کی روحانی زندگی میں بدہضمی کا سا عالم رہتا ہے۔ جب روح کو پیٹ کی شکایت ہوگی اور وہ بھی تحت الشعوری طور پر تو زندگی کا توازن، زندگی کا اعتدال، زندگی کا سکون وطمانیت، زندگی کی داخلی شگفتگی، زندگی کے نشاط و فرحت میں فرق آجائے گا۔ زندگی کو یہی داخلی صحت بخشنا فنون لطیفہ کی اصل غرض و غایت ہے۔
جن لوگوں کی زندگیوں پر خارجی ناخوشگوار واقعات اثر انداز نہیں ہوئے، جو توانا اور تندرست ہیں، خوشحال ہیں، صاحب ثروت وعزت ہیں، جن کی گھریلو زندگیاں قابل رشک ہیں، ایسے لوگ بھی رہ رہ کے اپنی زندگی میں ایک ناآسودگی، ایک کمی اور ایک بے نام نقص کا احساس کرتے رہتے ہیں۔ اس بے کیفی یا داخلی گھٹن کا سبب وہی داخلی انتشار ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ ایسے لوگوں کی اداسی یا ذہنی پراگندگی یا داخلی بے چینی کا علاج فنون لطیفہ ثابت ہوتےہیں۔ خوش نصیب سے خوش نصیب عاشق کو عشقیہ نغمے سہارا دیتے ہیں۔ پوری انسانی تہذیب و تمدن، تمام خارجی طمطراق کے باوجود فنون لطیفہ کی محتاج ہے۔ فنون لطیفہ کے بغیر تمدن بیمار پڑ جاتا ہے اور ایک بیماری نہیں سیکڑوں بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہر سماج میں حقیقی معنوں میں شاعر و فنکار بہت محدود تعداد میں ہوا کرتے ہیں۔ ان کے اندر داخلی زندگی کے انتشار سے پیدا ہونے والا بحران غیر معمولی طور پر شدید ہوا کرتا ہے۔ پوری انسانیت ایک داخلی انتشار یا پریشاں خاطری کا شکار رہتی ہے لیکن یہ انتشار ایک شاعر کے اندر بہت شدید شکل اختیار کرلیتا ہے اور اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے،
مجھ کوشاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم لاکھوں کئے جمع تو دیوان ہوا
ہوتا یہ ہے کہ عام انسانوں کی طرح شاعر کی زندگی کے تاثرات، ذاتی دکھ سکھ، ذاتی غم وغصہ، ذاتی خوشگوار ی یا ناگواری، ذاتی علم و ادراک تک محدود نہیں رہتے، ان سرحدوں کو توڑ کر یہ تاثرات اس کے وجدان یا جمالیاتی احساس کے عالم میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں انتشار تنظیم کی شکل اختیار کرتا ہے۔ غیرہم آہنگی، ہم آہنگی سے بدل جاتی ہے۔ بے سُراپن، شعور اور تجربے کی موسیقی سے بدل جاتا ہے۔ اسی طریقۂ کار سے شعر کی تخلیق ہوتی ہے، اسی داخلی عمل سے تخلیق شعر کے وقت شاعر اپنے اس وجود کو حقیقی معنوں میں پا جاتا ہے، جسے انتشار نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔
شاعر کی تخلیق سے ہزارہا آدمی جو شعر کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن شعر سے متاثر ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں، اپنی ٹوٹی پھوٹی ہستیوں کو پھر سے جڑتا ہوا دیکھتے ہیں اور بہت حد تک ان کی زندگیاں بھی پوری اکائیاں بن جاتی ہیں۔ اس بے مثال خدمت کے لیے امیر غریب سبھی یعنی پورا سماج شاعر کی عزت کرتا ہے۔ بظاہر شاعر انھیں کچھ نہیں دیتا لیکن بباطن یعنی شعر کے پردے میں ان کی داخلی زندگی کے تمام زخموں کو مندمل کر دیتا ہے۔ شاعر انھیں زندگی کا نسخہ دیتا ہے، ان کے انتشار کو ہم آہنگی سے بدل دیتا ہے، ان کے کرخت تجربوں کو مترنم بنا دیتا ہے، ان کے ذہن کی دھندلی تصویروں کو واضح کردیتا ہے۔ شاعری میں ہماری زندگی کے گرد آلود تجربے اپنے حقیقی خط وخال سے روشناس ہوتے ہیں۔ اس آئینے میں وہ اپنی اصلی صورت پہچان لیتے ہیں۔
زندگی کے خارجی مسائل کا حل شاعری نہیں لیکن وہ داخلی مسائل کا حل ضرور ہے۔ ایسا تو نہیں ہے کہ زندگی کے ہر داخلی مسئلے اور بے شمار تاثرات کا جمالیاتی پہلو ایک ہی شاعر دیکھ سکے یا دکھا سکے لیکن مرکزی مسائل و تاثرات کا بہت بڑا حصہ ایک حقیقی اور بڑے شاعر کی آواز میں حل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
شاعری کا مقصد ہم جو کچھ بھی سمجھیں اس کا حقیقی مقصد بلند ترین وجدانی کیفیات و جمالیاتی شعور پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ کیفیت و شعور اپنی جگہ خود ایک بلند ترین مقصد ہے۔ یہاں تک کہ جد و جہد اور عمل کے متعلق بھی شاعری کا مقصد تحریک و ترغیب عمل نہیں ہے بلکہ عمل کا اور جمالیاتی و وجدانی احساس کرانا۔
تو کیا عمل کی دنیا میں شاعری کی کارفرمائی مطلق نہیں؟ شاعری اور دیگر فنون لطیفہ بہ یک وقت ضد عمل ہیں اور روح عمل ہیں۔ ضد عمل تو اس لئے ہیں کہ جیسا اوپر کہا جا چکا ہے، ان کی غرض وغایت وجدان جمال پیدا کرنا ہے لیکن عمل کے بھی تو سیکڑوں پہلو ہیں، عمل میں محض کھردری افادیت نہیں ہوتی۔ انسانی عمل میں ایک داخلی ارتقاء بھی شامل رہا ہے جو ہماری قوت ارادی میں رچاؤ، روشنی، تربیت یافتگی، لطافت، نرمی و نزاکت اور وجد آفریں محرکات پیدا کرتا ہے۔ اس طرح جمالیاتی شعور براہ راست نہیں مگر بالواسطہ عمل پر اثرانداز ہوتاہے۔ یہ شعور افادیت کی دنیا کو وسعت، گہرائی، بلندی اور سجاوٹ عطا کرتا ہے۔ قوت ارادی میں اور عمل میں ایک ترتیب ومعنویت پیدا کرتا ہے۔ جب قوت ارادی اور عمل جمالیاتی محرکات سے محروم ہو جاتے ہیں تو ان میں اکھڑپن آجاتا ہے اور تعمیری ترغیبات اکثر تخریبی ترغیبات بن جاتی ہیں۔ ہندو دیومالا میں شکتی کی تصویر بہت حسین ہے۔ شہرۂ آفاق رزمیوں اور ناٹکوں میں ہیرو محض سورما نہیں بلکہ حسین و جمیل بھی ہوتا ہے۔ اس لئے عمل اور جمالیات باہم بےتعلق نہیں ہیں۔
بہت سے مفکروں نے بڑے صنعتی شہروں، کارخانوں، مکانوں، مزدوروں کی چالیوں، کارخانوں میں کام کرنے کے طریقوں میں اور اس زندگی کے ماحول و فضا کی بدصورتی کار رونا رویا ہے۔ ان کی یہ تحریریں اسی لئے تو وجود میں آئیں کہ مندرجہ بالا چیزیں دیکھ کر ان کے جمالیاتی اور اخلاقی احساس کو ٹھیس لگی۔ اخلاق جس کا عمل سے اتنا اہم تعلق ہے خود جمالیاتی تصورات کا پروردہ ہے۔ ایک مفکر نے یہاں تک کہہ دیا کہ فن، اخلاق سے زیادہ با اخلاق یا خلیق ہے۔ یہ سب صحیح ہے لیکن فنون لطیفہ کو براہ راست عمل کا ہنگامی نعرہ نہیں بنایا جا سکتا۔ جیسے جیسے رائے عامہ تربیت یافتہ اور منظم ہوتی جائے گی اس کے دباؤ ہی سے وہ بہت سی برائیاں دور ہو جائیں گی جن کے لئے ہم انقلاب اور عمل کے نعرے لگاتے ہیں۔ عمل بھی اسی دن صحیح معنوں میں مقصد حیات کی تکمیل کا آلہ بنے گا جب وہ ایک فن بن جائے گا لیکن جیسا کہ میں اوپر اشارہ کر چکا ہوں، عمل کے جمالیاتی تصور کے علاوہ ایسی اہم چیزوں کا جمالیاتی تصور بھی ضروری ہے جن کا تعلق عمل سے نہیں ہے۔ جدید مفکران عالم اب اس طرح کا اظہار خیال کرنے لگے ہیں کہ اگر فنون لطیفہ کی رگ حیات زندگی سے محروم رہی تو صرف منظم یا افادی عمل یا بلند سے بلند عملی دریافتیں تہذیب کو مکمل نہیں کر سکتیں اور زندگی کے نقائص کو دور نہیں کر سکتیں۔
جہاں تک داخلی زندگی کا تعلق ہے، حیات انسانی کا غالباً سب سے مرکزی مسئلہ اس کی جنسی زندگی سے متعلق ہوتا ہے۔ اسی لئے عشقیہ شاعری، اگر اس میں خلوص کی گہرائی ہو اور انسانی لہجے کی گھلاوٹ ہو، سب سے زیادہ اپیل کرتی ہے پھر مناظر قدرت کی رنگارنگی اور رنگا رنگ معنویت کی اپیل بھی ہمہ گیر ہوتی ہے۔ اسی لئے ایسی نیچریہ شاعری جس میں منظر کشی کے ساتھ ساتھ تخیل کی گہرائی بھی ہو بہت بلند خیال کی جاتی ہے۔ عشق اور مناظر قدرت کے علاوہ کائنات اور انسانی حیات سے متعلق مرکزی تاثرات بھی ہمہ گیر دل کشی رکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر دو طرح سے حقیقی شاعری کی جاسکتی ہے۔ اجمالی طور سے اور تفصیلی یا تخصیصی طور سے یا بہ یک وقت دونوں طریقوں سے۔ پھر وقتی مسائل، سماجی، اخلاقی، سیاسی ایک ایسا اہم پہلو رکھتے ہیں کہ وہ وقتی اور مخصوص اور محدود ہوتے ہوئے بھی شاعر کے وجدان میں تحلیل ہوکر ہمہ گیر بن جاتے ہیں اور ان پر ابدیت کا سایہ پڑنے لگتا ہے۔
اگر ان موضوعات میں ڈوب کر شاعری کی جائے تو اس کی اپیل بھی ہمہ گیر ہوگی۔ اس طرح کی شاعری میں خطرہ اس بات کا رہتا ہے کہ وہ بڑی حد تک ہنگامیت زدہ ہوکر رہ جائے یا ان مسائل کا شعور نامکمل طور پر ہی جمالیاتی شعور بن سکے اور ان کی عارضیت ان کی ابدیت پر مسلط اور حاوی ہو جائے۔ بجائے گیان دھیان کے چیخ و پکار کی عمل داری ہو جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ ان موضوعات کے علاوہ سائنس اور فلسفے کی دریافتیں، انسانی عمل کے کارنامے بلکہ خود فنون لطیفہ کے نمونے اور ان کی اہمیت بھی بلند ترین شاعری کے موضوعات ہیں۔ یہاں تک کہ بلند فنکاری اور بلند شاعری، بلند شاعر بھی بلند ترین شاعری کے موضوعات رہے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ شاعری کرنا نسبتاً آسان ہے لیکن شاعری میں روح شاعری کوٹ کوٹ کر بھر دینا بہت مشکل ہے۔ یاد رہے کہ جو دماغی کاوش سائنس، فلسفہ اور دوسرے تمام علوم کے لئے درکار ہے اس سے کم دماغی کاوش کالی داس، شیکسپئر، فردوسی اور دوسرے عالم گیر شعرا کے کارناموں کی تخلیق و تکمیل میں صرف نہیں ہوئی ہے۔
شاعری میں صداقت یا واقعیت کا سوال ایک بہت دلچسپ سوال ہے۔ دنیا کے بڑے شعراء ایک دسرے کی آواز باز گشت نہیں ہوتے۔ ہرایک کے وجدان کی اپنی نوک پلک ہوتی ہے، اپنے خط و خال ہوتے ہیں، اپنی شخصیت ہوتی ہے، ہر ایک کا اپنا رنگ ہوتا ہے، اپنا طرز احساس اور انداز بیان ہوتا ہے، ہرایک کا اسلوب احساس اور اسلوب اظہار الگ ہوتا ہے۔ شعراء مشترک موضوعات پر قلم اٹھائیں تو ان کی شاعری امتیاز کے اہتمام کے باوجود بہ یک وقت صداقت اور واقعیت کی حامل کیسے ہوسکتی ہیں؟ اس لئے کہ حقیقت اور شاعر کے شعور کے امتزاج یا میل جول سے تخلیق شعر ہوتی ہے۔
ہر شاعر کا مزاج اپنی ایک انفرادیت رکھتا ہے۔ اس انفرادیت کے آئینے میں حقیقت کی جھلک بگڑ کے نہیں پڑتی بلکہ سنور کے پڑتی ہے۔ شاعروں کی مختلف آوازیں سب کی سب سچائی کی آوازیں ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شاعرانہ شخصیت کی تعمیر وتخلیق میں اس کی داخلی تربیت میں آغاز آفرینش سے آج تک کے تمام زمانے، نسل انسانی کی مکمل تاریخ کارفرما ہوتی ہے اور سب سے زیادہ کارفرما ہوتا ہے ادب و کلچر کا وہ ورثہ جو شاعر کو مل جائے۔ انفرادیت، اگر ہم غور کریں تو سراسر مانگے تانگے کی چیز ہے۔ ہر شاعر کا ’’میں‘‘ ہزاروں ’’ہموں‘‘ سے بنا ہے۔ اس کی شخصیت و انفرادیت حقیقتاً ایک کمپوزٹ فوٹو گراف ہے بلکہ شاعری کا نہیں، ہم سب کے جنم تک اپنے مخصوص خط و خال کے باوجود نسل، ملک، زمانہ اور آباء و اجداد کی دین ہیں۔
ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا بھر کی شاعری مختلف المزاج شعر کی تخلیق ہے تو کسی شخص کے لئے اس کے اپنی ذاتی مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ تمام شاعری اس قدر کشش یا اپیل کیوں رکھتی ہے۔ ایک طرف تو نسل و قومیت و انفرادیت کے اختلافات ہیں اور ایک طرف ہر طرح کی کامیاب شاعری کی عالم گیر اپیل ہے جسے دیکھتے ہوئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شاعری زبان، قومیت، نسلیت، ملک و ملت، ایمان، مذہب اور ذاتی مزاج کے حدود کو توڑ دیتی ہے اور تمام انسانوں کا ورثہ بن جاتی ہے، اتناہی نہیں بلکہ تربیت یافتہ رائے عامہ عموماً متفقہ طور پر شعراء کے مدارج اور مرتبے بھی متعین کرتی ہے۔ ان کی قدریں متفقہ آنکتی ہیں۔
ہمیں بہت کم شاعروں کے حالات زندگی معلوم ہیں۔ ان کے متعلق کچھ خارجی واردات ہمیں معلوم ہوجاتے ہیں لیکن ان کے دل کی سوانح عمری تفصیل سے ہمیں پڑھنے کو نہیں ملتی لیکن اگر ہم شعر سے صحیح طور پر متاثر ہوں تو شاعر کے کلام میں اس کے دل کی سوانح عمری، اس کی وجدانی شخصیت کا ارتقاء ہم دیکھ سکتے ہیں۔ جتنی دیر ہم صحیح معنوں میں کسی شاعر کے کلام سے متاثر رہتے ہیں اتنی دیر تک ہماری شخصیت اس شاعر کی شخصیت بن جاتی ہے۔ من تو شدم، تو من شدی والا معاملہ ہے۔ ہر انسان کے اندر پوری انسانی دنیا جی رہی ہے اور شاید پوری کائنات جی رہی ہے، ہم شاعر کے کلام سے قریب قریب صحیح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فطرت اور اس کے مناظر، زندگی اور اس کے واقعات اور سانحات میں کن کن چیزوں اور باتوں سے شاعر مستقل طور پر متاثر ہوا ہے اور کس انداز سے متاثر ہوا ہے۔
عموماً بلند عشقیہ شاعری کرنے والا شاعر غیر معمولی شدت جذبات و احساسات کے ساتھ عاشق بھی ہوتا ہے لیکن عشقیہ شاعری کرنے والے شاعر یا دوسری قسم کی شاعری کرنے والے شاعر کی خاموش نشو و نما بچپن ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ بچپن ہی سے اس کا مزاج بنتا ہے خواہ اسے خود اس کاپتہ نہ ہو کہ آگے پیدا ہونے والے عشقیہ جذبات و رجحانات اس کے اندر پل رہے ہیں۔ جب اسے جنسی محرکات کی خبر بھی نہیں ہوتی اور وہ ایک طفل معصوم ہوتا ہے۔ اس وقت یہ آہستہ آہستہ اگنے والے جذبات مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ والدین کی محبت، بھائی بہنوں کی محبت، ہم جماعتوں کی محبت اور ہم عمروں کی محبت، کچھ پڑوسیوں کی محبت، کچھ قصے کہانیوں کے کرداروں سےمحبت، کچھ خاص مناظر یا مقامات سے محبت کی شکل میں یہ جذبات ایام طفلی میں ظاہر ہوتے ہیں اور جوانی میں غیر معمولی شدت کے ساتھ عشقیہ جذبات کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔
حقیقی اور پر خلوص عشقیہ شاعری میں شاعر کی مکمل شخصیت اور بچپن کے زمانے ہی سے اس کی زندگی کے تمام رد عمل سمٹ آتے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں بہت ہچکچاتے ہوئے اپنی غزلوں، رباعیوں اور کچھ نظموں کا ذکر کروں تو مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ بچپن میں مجھے جس قدر شدید اور پرخلوص لگاؤ گھر یا باہر کے چند لوگوں سے تھا، مناظر فطرت سے غیر معمولی طور پر متاثر ہونے کی حالتیں، موسیقی، نغمہ اور دیگر فنون لطیفہ کا جو مجھ پر اثر پڑتا تھا، جو استعجاب اور محویت خاص موقعوں پر مجھ میں پیدا ہو جاتی تھی، جمال انسانی کا غیر معمولی اثر جو میرے دل پر ہوتا تھا، کائنات کی پاکیزگی اور اپنے ساتھ اس کی قربت اور مانوسیت کا جو احساس مجھ کو ہوتا تھا، پھر پر عظمت کارنامے میرے لئے جو کشش رکھتے تھے اور جس شدت سے مجھے متاثر کرتے تھے، زندگی کے وہ نظریے اور آدرش جو میرے اندر پل اور بڑھ رہے تھے، یہ تمام باتیں جو مجھے متاثر کر کر کے میرے تشکیل کر رہی تھیں، ان سب کی جھلک میری شاعری کا ایک حساس پڑھنے والا پالے گا اور میرے تجربوں کی آواز سن لے گا اور میرے شعور کی جھنکار اس کے کانوں میں پڑے گی۔
اگر ہم شاعر کے تاثرات کو شاعر کا مذہب کہہ سکیں تو اس مذہب میں ہمیں کچھ خاص باتیں ملیں گی۔ عالم مجازیا مادی کائنات کی عظمت کا احساس جتنا شاعر یا فن کار کو ہوتا ہے اتنا ہما شما کو نہیں ہوتا۔ جتنا بڑا شاعر ہوگا اتنا ہی زبردست اس کا یہ احساس ہوگا۔ شاعر کسی غیر مرئی حقیقت اور اس کے پاک اور لامحدود ہونے کے مقابلے میں محسوسات کی دنیا کی عظمت کا قائل ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کی بھی مابعد الطبعیاتی رگ ہو یا اس کی شخصیت میں عینیت اور روحانیت کو کم یا زیادہ دخل ہو لیکن اس کے وجدان کو بار بار عالم آب و گل میں اترنا پڑے گا۔ شاعر کے مذہب میں بجائے خدائے پاک کے زمین پاک کا کلمہ پڑھا جاتا ہے۔ مظاہر فطرت پر اس کا ایمان ہوتا ہے۔ گوشت پوست کی زندگی پر اس کا اٹل عقیدہ ہوتا ہے۔ وہ اس کفر کو ایمان کی روشنی اور بلندی دے دیتا ہے اور ایسا کر کے وہ اس ہیجان اور شعوری اور نیم شعوری انتشار و بحران کا علاج کر پاتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.