Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

صورت و معنی

ممتاز حسین

صورت و معنی

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    ادبی کارخانے میں صورت اور معنی کے باہمی رشتے کو سائنسی طور پر دریافت کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ اس مسئلے پر صرف اس وقت سے صحیح روشنی پڑنے لگی ہے، جب سے جدلیاتی مادیت کا اسکول وجود میں آیا ورنہ اس سے پہلے تو اس پر عینی اسکول ہی کے مفکرین نے روشنی ڈالی ہے۔

    عینی اسکول سے وہ اسکول مراد ہے جو خیال کو مادے ے پر مقدم سمجھتا ہے اور جو خیال اور مادے کے باہمی رشتوں کو اس طرح سمجھاتا ہے کہ خیال مادے کو حرکت میں لاتا ہے۔ اسی منطق کے تحت ارسطو نے صورت ہی کو فن کا محرک بتایا ہے اور وہ صورت کو ذہن کی تخیلی قوت کے ساتھ وابستہ کر دیتا ہے جو اپنے آخری درجے میں ایک ماورائی قوت کے ساتھ منسلک ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مادہ غیر متشکل سی شئے ہے۔ جو چیز اسے شکل عطا کرتی ہے وہ خیال کی متشکلانہ قوت ہے۔ یعنی صورت کا احساس۔ اس چیز کا تذکرہ میں نے اس لیے ضروری سمجھا کہ ہمارے یہاں بھی یہی خیال رائج تھا۔

    اس سے یہ مراد نہیں کہ ہمارے یہاں معنی کو اہمیت ہی نہیں دی گئی بلکہ جب کبھی فن اور ادب کو جانچنے کا وقت آیا ہے تو صورت گری کو اصل فن ٹھہرایا گیا ہے۔ نتیجہ اس کا ظاہر ہے، ہم خواہ اس بات کو کتنی ہی بار دہراتے رہیں کہ معنی کو بھی اہمیت ہے ہمارے بہت سے قدیم شعرا صورت پرستی کے الزام سے بچ نہیں سکتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہمارے سماج میں ایسا وقت آیا ہے کہ خیالات کی تقلید کو حسن قرار دیا گیا ہے تو شعر و ادب صرف صورت پرستی کا نام رہ گیا ہے۔ آج جب کہ نئی طاقتیں اپنے ساتھ نئے خیالات لا رہی ہیں تو شعر و ادب کے سوئے ہوئے محافظ کھنکار کھنکار کر کہتے ہیں کہ حضور اس میں نیرنگ تماشا اور جلوہ صورت تو ہے ہی نہیں۔

    اگر آپ ان کی بحث میں قدیم مفروضات کی بنیاد پر حصہ لیتے رہیں گے تو یہ جھگڑا کبھی ختم نہ ہو سکےگا۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جدید سائنسی اور سماجی معلومات نے زندگی اور مادے کے بارے میں نئی تحقیقات بہم پہنچائی ہیں۔ دنیا کی تمام چیزیں مادی ہیں۔ انسانی ذہن مادے کی پیداوار ہے اور انسانی خیال مادی حقائق کا ایک عکس ہے، جو مادے پر اثر انداز بھی ہوتا ہے۔ سماجی زندگی میں مادے اور خیال کے اس جدلیاتی عمل کو ہم انسانی عمل ہی کے ذریعے محسوس کرتے ہیں۔ جس طرح خیال اور مادے، سماجی شعور اور زندگی کا باہمی عمل جدلیاتی ہے، یعنی ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی طرح صورت ومعنی کا عمل بھی جدلیاتی ہے لیکن ہر صورت میں جس طرح مادہ مقدم ہے خیال پر اور زندگی مقدم ہے سماجی شعور پر، اسی طر معنی مقدم ہے صورت پر۔

    اس مادی زندگی کا دوسرا راز یہ ہے کہ یہاں ہر چیز ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ دنیا کا ہر وجود اپنے اندر اپنا نفی مخفی رکھتا ہے۔ اس اندرونی تضاد کے باہمی ٹکراؤ، ردو قبول، پھر نفی کی نفی سے ایک نئی صورت پیدا ہوتی رہتی ہے، اس قانون سے صورت ومعنی کی جدلیات آزاد نہیں ہیں۔ نیا معنی نئی صورت بھی لاتا ہے۔ ادب کے بارے میں صرف یہی کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہر دور کے ادب کا معنی بدلتا رہا ہے بلکہ یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ صورت بھی بدلتی رہی ہے۔ معنی کے بارے میں تو یہ بات بڑی آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ نئے طریق پیدا وار اور اس کے آزاد کئے ہوئے نئے سماجی رشتوں کے باعث ادب کا معنی بدلتا رہا ہے لیکن صورت کی تبدیلی کیونکر وجودمیں آتی ہے۔ اس کا سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے۔

    بات یہ ہے کہ صورت اور معنی کا باہمی رشتہ ذریعے اور مقصد کا بھی ہے۔ ہر سماجی دور کا ادیب زندگی کی تصویر اسی آئینہ میں دیکھتا ہے جسے وہ حقیقت سمجھتا ہے۔ اگر مادی حقائق سے گریز کرکے صرف ماورائی حقیقت ہی پر نگاہ رکھی جاتی ہے تو نہ صرف ادب کا مقصد ہی بلکہ اس کی صورت بھی بدل جاتی ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ مادہ خود سے متحرک نہیں ہے بلکہ اس کو حرکت میں لانے والی ایک ماورائی طاقت ہے تو خیال کی صحیح مصوری کا بگڑنا لازمی ہے۔ خیالات حسیہ تو رہ سکتے ہیں لیکن وہ (SENSUOUS ACTIVITY) حسیہ عمل نہیں بن سکتے ہیں۔ تصوف کی شاعری اس کی واضح مثال ہے۔ وہاں خیالات تو حسیہ ہیں لیکن ان میں عمل کی قوت مفقود ہے اور یہ کام اسی وقت ممکن نہ تھا جب کہ زبان کو اظہار حقیقت میں ایک پردہ بناکر حائل کر دیا جائے اور خیالات کے اظہار میں ایک ایسا گوشہ تلاش کیا جائے جس سے دو معنی نکل سکیں۔ یا مادی معنی کو صرف اس خیال سے مجازی سمجھا جائے کہ اسے ایک ماورائی حقیقت کے انکشاف کا ذریعہ بناتا ہے۔

    فارسی قصیدے کو تو چھوڑیے، ایران میں اس کی ابتدا تو دربار ہی سے ہوئی لیکن غزل کی ابتداء اس وقت سے ہوئی جبکہ ایران عربوں کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے۔ آزادی کا نیا جذبہ اور بدلا ہوا ماحول وطنی خصوصیات کو ابھرنے کا موقع دیتا ہے۔ دقیقی لب لعلین اور زروشتی مذہب کا طالب ہوتا ہے اور اگر چند روایتوں کو صحیح مانا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہی شاہنامے کی داغ بیل بھی ڈالتا ہے۔ ادھر رودؔ کی سبزہ زاروں کی آزاد زندگی کا حسن سمیٹ لیتا ہے۔ یکایک قصیدے سے ٹوٹ کر غزل وجود میں آتی ہے۔ یہ تبدیلی جو غزل کو وجود میں لاتی ہے، قصائد کی صورت کو بھی بدل دیتی ہے۔ قصائد ایرانی بہار اور تغزل کے اظہار سے اس قدر بھرپور ہو جاتے ہیں کہ بعض وقت تو غزل اور قصیدے میں کچھ فرق ہی نہیں رہ جاتا ہے۔

    آزاد ایران کی زندگی کے رشتے ایرانی ادب میں رومانوی تحریک کو جنم دیتے ہیں۔ قومی جذبات اور پیگن طرز زندگی کے بے لاگ اظہار کے لیے جس قسم کے جوش و خروش، سادگی اور حسن کا تقاضا تھا، اس کے لیے عربی زبان کی لغت سے بوجھل اور لفظی صنعتوں میں ڈوبا ہوا قصیدہ بالکل بے معنی ہو چکا تھا۔ اسی لیے غزل اور مثنوی کو زیادہ فروغ حاصل ہوا، لیکن جب ان ہی اصناف کو اور بالخصوص غزل کو صوفیوں نے اپنایا تو غزل کی زبان میں بنیادی تبدیلی پیدا ہو گئی۔ انہوں نے اپنے ذہن پر ایک سکر کی کیفیت طاری کی اور ایسے رموز، تشبیہ اور استعارے استعمال کئے جن کا تعلق بے خبری، مستی اور رقص و سرود سے تھا۔ معنی کی یہ تبدیلی غزل کی صورت پر بھی اثر انداز ہوئی۔

    باوجود اس بات کے کہ ابتدائی دور کی غزلوں کی Lyricism صوفیوں کی غزلوں میں موجود ہے، پھر بھی ان کا اثر قدرے مختلف ہے۔ وہ خود سپردگی کا ایک ایسا جذبہ پیدا کرتی ہے، جن میں جوش اور حرکت کے بجائے تفکر اور تعطل عمل ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ تصوف کی تحریک عربوں کے تشدد پسند عمل اور غیر حسی ادراک حقیقت کے خلاف تھی اور اگر حسیہ اظہار حقیقت Lyricism میں باقی رہی تو اس کا سبب یہ تھا کہ ایرانی شعراء باوجود اسلامی عقائد رکھنے کے جذباتی طور پر ایرانی پیگزم ہی سے متاثر تھے، اس کی بڑی اچھی مثال حافظؔ کا کلام ہے۔

    حافظ کی غزل میں تو معنوی تسلسل اور جذبے کی وحدت کا تاثر قائم بھی ہے لیکن متاخرین یعنی صائبؔ اور کلیمؔ کے یہاں تو قطعی انتشار کا پتہ چلتا ہے، یہ انتشار کسی نہ کسی حد تک تمام ہی صوفی غزل گو شعرا کے یہاں ملتا ہے اور جو صوفی نہیں تھے ان کے یہاں تقلیدی انتشار ہے۔ اس انتشار کے جہاں اور بھی اسباب تھے، ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ سماجی شعور کو عملی میدان میں دریافت کرنے کے بجائے اپنی ذاتی فکر اور خیال کو زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ یوں تو انفرادی شعور سماجی شعور کا جزو ہے لیکن اس جزو کی صداقت کو سماجی عمل کی کسوٹی پر رکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ صوفی تفکر کو عمل پر مقدم سمجھتے تھے، اس لیے وہ اپنے شعور کو سماجی عمل کے تابع کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ وہ صرف ترویج خیال کے ذریعے قلب ماہیت کرنا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ہمارے ملک میں سماجی شعور کسی منظم تحریک کی صورت میں بیدار نہ ہو سکا، غزل کا انتشار یعنی ایک فرد کے خیالات کا انتشار، ہمارے ذہنوں پر مسلط رہا۔

    اس حقیقت کا انکشاف ۱۸۵۷ء کے بعد ہوا جب کہ جاگیردارانہ نظام کے خاندانوں کی اکائیاں فنا ہونے لگیں اور جب ملک اور قوم کو زندہ رہنے کے لیے افراد کی اکائیوں پر بھروسہ کرنا پڑا اور وہ اکائیاں اسی وقت قوت حاصل کر سکتی تھیں جبکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کی بخشی ہوئی نیشنلزم میں اپنے کو ضم کرتیں۔ اگر ایک طرف نیشنلزم کے نام پر تنظیمیں ہونے لگیں تو دوسری طرف مادی علوم کا پرچار شروع ہوا۔ جس حدتک متوسط طبقے میں ان چیزوں کا شعور بیدار ہوتا گیا، غزل کی تنگنائی کا احساس بھی بڑھتا رہا۔ سماجی شعور کی اسی بیداری نے ایک نئے معنی کے ساتھ نئی صورت کو بھی جنم دیا۔ اب نظموں کا آغاز ہوا۔

    حالیؔ کے سامنے بڑی کشمکش تھی۔ نیچرل شاعری کے لیے اس بات کی سخت ضرورت تھی کہ الفاظ ثانوی معنی میں استعمال نہ کئے جائیں، تشبیہ و استعارہ براہ راست خارجی حقائق کا عکس ہوں اور خیالات نہ صرف حسیہ ہوں بلکہ عملی محرکات کا بھی ثبوت دیں، چونکہ حالیؔ کسی قدر احیائیت سے بھی متاثر تھے اس لیے وہ بھر پور طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی لائی ہوئی نیشنلزم اور رومانیت کا اظہار نہ کر سکے۔ اگر ایک طرف وہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے سیکھنا چاہتے تھے تو دوسری طرف جاگیردارانہ نظام کی اخلاقی قدروں کو قائم بھی رکھنا چاہتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ وہ غزل کی Lyricism کو نظموں میں منتقل نہ کر سکے۔ ان کے دل میں بے لاگ اظہار جذبات کا ولولہ نہ تھا بلکہ ایک محتسب تازیانہ لئے کھڑا تھا۔ ادھر غزل کی دنیا محتسب سے پرہیز کرتی۔ رہ گیا اخلاقی شاعری کا سرمایہ تو وہ صوفیوں کے یہاں جتنا بھی ہے اس سے انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا ہے۔

    یہ حقیقتیں تھیں جن کی وجہ سے حالیؔ کو غزل سے بدکنا پڑا۔ جس حدتک غزل کی خرافات کا تعلق ہے ان کا ردعمل مستحسن ہے لیکن جس حدتک غزل کی Lyricism اور حسیہ اظہار حقیقت کا تعلق ہے، یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو اپنی نظموں میں منتقل نہ کر سکے۔ اخلاقی شاعری کا ایک یہ بھی وطیرہ رہا ہے کہ وہ کلاسیکی اسلوب سے متاثر رہی ہے۔ اگر مولانا حالیؔ میں نیشنلزم کا جوش اور ولولہ نہ ہوتا تو شاید وہ بھی پوپ (انگریزی شاعر) کی طرح صرف کلاسیکی انداز سخن کو اپناتے لیکن چونکہ وہ اپنے مذہب میں ملٹن کی طرح اصلاح پسند واقع ہوئے تھے، اس لیے ایک ایسی صنف کو اپنایا جو مذہبی کام انجام دے چکی تھی۔ یعنی ’’مسدس۔‘‘ شاید یہ کہنا زیادہ غلط نہ ہوگا کہ ’’مسدس‘‘ کی صنف خطابت کے لیے غزل یا نظم کے فارم سے زیادہ موزوں ہے۔ مولانا کا واعظانہ رجحان اور ان کی نظموں کا کھردرا پن اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ غزل کی Lyricism اور اس کا حسیہ اظہار مولانا کے مصلحانہ طرز تخاطب سے برسر پیکار تھا۔

    غزل کی نغمگی کی آمیزش فکر کے ساتھ برابر ہوتی رہی ہے۔ یہ عرفیؔ، فیضیؔ، غالبؔ اور اقبالؔ کے یہاں ہے لیکن اس کی آمیزش ایسے تصورات کے ساتھ نہیں ہو سکتی ہے جو کسی اخلاقی نظام کے بنے بنائے ہوئے تصورات ہوں اور وہ تصورات خود فن کار کے اپنے تجربات اور مشاہدات کے نہ ہوں۔ اس کی واضح مثال ہمیں علامہ اقبالؔ ہی کی شاعری میں ملتی ہے۔ ایک طرف ان کی وہ غزلیں اور نظمیں جن میں خود ان کے اپنے خیالات، تاثرات کافی ردو قبول کے بعد ان کی شخصیت کا حصہ بن کر ابھرے ہیں، دوسری طرف ایسی مثنویاں اور غزلیں اور نظمیں ہیں جہاں وہ مبلغ کی حیثیت سے بول رہے ہیں۔ ناظم اور شاعر کا یہ فرق ایک ہی شاعرکے یہاں موجود ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ہم صورت اور معنی کے باہمی اثر پذیری کے قانون کو دریافت بھی کر سکتے ہیں۔

    شعر کہنا ایک (CRAFT) فن بھی ہے۔ یوں تو خیالات کے اظہار کے اور بھی فارم ہیں۔ آپ باتیں کرتے ہیں، بحث مباحثہ اور مناظرہ کرتے ہیں، تقریر کرتے ہیں، مقالہ لکھتے ہیں، ڈرامہ اور ناول لکھتے ہیں لیکن سب کا طرز تخاطب الگ الگ ہے۔ ممکن ہے آپ ایک ہی خیال کو مختلف فنون کے ذریعے پیش کرنا چاہیں لیکن ہر فن کے چند حدود ہیں جو اس کے اپنے نہیں ہیں، جو دائمی اور اٹل نہیں ہیں، پھر بھی وہ ایسے حدود یا آداب ہیں جو مخصوص مقاصد کے ماتحت متعین ہوئے ہیں۔ یہ حدود زیادہ سے زیادہ اثر پیدا کرنے کے لیے وضع کئے گئے ہیں۔ انسانی ذہن کو راغب کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ آپ کہیں استدلال سے کام لیتے ہیں، منطقی حدود میں گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کہیں اپنی شخصیت کو پسِ پشت ڈال چلتے پھرتے انسانوں کی زبان سے حقیقت کو پیش کرنا چاہتے ہیں اور کہیں محسوسات اور جذبات کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان تمام صورتوں میں گو بظاہر مقصد ایک ہی ہے، اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانا، لیکن راستے مختلف ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ مقصد ذریعے کی صداقت کو ثابت کرتا ہے لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا واقعی وہ مقصد حاصل بھی ہوا۔

    ادب سماجی تعلیم کا ایک ذریعہ ہے لیکن ایک ایسی تعلیم کا ذریعہ جو انسان کی نفسیات کو ڈھال سکے، جو اس کے ضمیر اور خمیر کا حصہ بن سکے، جو انسانی شعور کو اس حدتک بیدار کرسکے کہ اگر وہ خواب کے عالم میں بھی اس کے اثر کو بھلانا چاہے تو نہ بھلا سکے۔ اسی معنی میں استالین نے فن کار کو انسانی روح کے انجینئر کے نام سے یاد کیا ہے۔ ادب زندگی پر دو رویہ جھپٹتا ہے۔ ایک طرف تو وہ خارجی حقائق کو بدلنے کے لیے اکساتا ہے اور دوسری طرف انسانی نفسیات کو نئی قدروں کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ ادب اگر مشاہدات، محسوسات اور تصورات کے اس خزانے کو ہاتھ نہیں لگاتا ہے جن کی یاد آوری پر عام آدمیوں کو اختیار نہیں ہے تو پھر ادب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی ہے۔

    انسان کا حافظہ بڑا زود فراموش ہے۔ وہ کرب ودرد، سنگین جرائم، فاقہ، قحط، جنگ سب کی یادیں فراموش کر دیتا ہے۔ وہ اپنی محبت کے طوفانی ہنگاموں کو بھی بھول جاتا ہے، وہ ماں کی محبت، بچے کا ہمکنا سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ ایک فن کار کو ہم پر اسی لئے برتری حاصل ہے کہ وہ ہماری ان تصویروں کو زندہ کر دیتا ہے۔ وہ واقعات کو انگلیوں پر گناتا نہیں بلکہ ان کی چلتی پھرتی تصویروں کو قلم بند کر دیتا ہے۔ وہ خارجی حقائق کی تصویر کے ساتھ اس کسک، درد اور امنگ کو بھی پیش کرتا ہے جو ان سے متعلق تھے اور پھر ان جذبات سے متاثر ہو کر ان عملی حرکات کے سروں کے آگے کردیتا ہے جن سے ایک قدم آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا ہوا تھا۔

    اگر ادب میں یہ تین سمتی تصویر نہیں ابھرتی ہے تو ہم اسے ناقص ادب سمجھنے پر مجبور ہیں۔ یہ چیز ہم اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے ہیں جب تک ہم انسانی روح کی انجینئری سے واقف نہ ہوں۔ گورؔ کی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ بہت قدیم زمانے سے انسانی روح کو گرفتار کرنے کے لیے ادیبوں نے ایک جال پھینک رکھا ہے۔‘‘ اگر اس جال میں انسانی روح گرفتار نہیں ہوتی ہے تو یہ ماننا پڑےگا کہ ہمارا جال ٹوٹا ہوا ہے یا ہم اپنے فن سے واقف نہیں ہیں۔

    لیکن یہ فن صرف صورت کی بازی گری سے پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی چیز جامد اور ساکن نہیں ہے۔ صرف اوپر ی صورتوں کی شبیہیں اتارنے کا نام ادب نہیں ہے۔ حقائق کے سینے میں اترکر اندرونی تضاد کو معلوم کرنا، جدلیاتی طریق کار کو پہچاننا، نئی صورت کی بنتی ہوئی شکل کو دیکھنا ضروری ہے۔ ادب کے حدود ان ہی معنوں میں مصوری اور بت تراشی کی حدود سے وسیع ہیں۔ شعر و ادب کا مسالہ انسانی حافظہ اور الفاظ ہیں اور جب یہ اظہار کا پیکر اختیار کرتے ہیں تو صرف تصویروں کو ذہن پر مرتسم نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک مخصوص جذبے اور عمل کی قوت کو بیدار کرتے ہیں۔

    ایک وہ ادیب یا شاعر جو ادب کو جذبے اور عمل کی قوت سے محروم کرنا چاہتا ہے وہ بالعموم صورت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی نظر ظاہری روپ پر ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ظاہری روپ کی نقاشی میں کامیاب بھی ہو سکے لیکن اس کا ادبی تجربہ ہمیشہ ادھورا ہوگا کیونکہ وہ حقیقت کو معلوم کرنے سے عاجز رہتا ہے۔ وہ متحرک حقیقت کے مقابل اپنی جس غیر جانب داری کا اظہار کرتا ہے وہی غیر جانبداری اسے مرتی ہوئی حقیقت سے زیادہ قریب کر دیتی ہے۔ خواہ وہ اس مرتی ہوئی حقیقت کا تجزیہ جذباتی میلانات کے ساتھ اس کی شخصیت کا جزو بن چکا ہے۔ انیسویں صدی کے یورپی حقیقت نگاروں نے اکثر و بیشتر اس قسم کی مرتی ہوئی حقیقت کی تصویر کو بڑی بے تعلقی کے ساتھ پیش کیا ہے لیکن اس کا اثر، افسردگی، زندگی کی بے مقصدیت اور زمانے کے بہاؤ میں انسان کی مجہول انفرادیت کے تصورات کے مرتب کرتا ہے۔ یہاں ان حقیقت نگاروں سے جو چیز سیکھنے کی ہے وہ ان کا اختصار، جامعیت اور لفظوں کا سائنٹفک استعمال ہے۔ وہ ہر لفظ کو صحیح جگہ پر استعمال کرتے ہیں۔

    رومانوی دور میں جو اظہار خیال میں شدید جذباتیت، غلو اور مبالغہ تھا، ان کے ردعمل میں وہ غیر جذباتی لہجہ، اختصار اور واقعیت نگاری کو جنم دیتے ہیں۔ جہاں تک سائنفک طرز تحریر کا تعلق ہے اسے ہم اپناتے ہیں لیکن جہاں انہوں نے جذباتی بے تعلقی کے پردے میں نامیہ زندگی کی بڑھنے والی طاقت کے نہ صرف جذباتی میلان ہی کو فراموش کیا ہے بلکہ اس کو دیکھنے سے بھی گریز کیا ہے، ہم انہیں حقیقت دشمن بھی سمجھتے ہیں کیونکہ ایک مرتی ہوئی حقیقت کے ساتھ تو جذباتی بے تعلقی کسی حدتک برتی بھی جا سکتی ہے۔ بڑھتی ہوئی حقیقت جو انسانیت کی فلاح و بہبود لانے والی ہے، اس کے ساتھ جذباتی بے تعلقی کا اظہار پوری انسانیت سے دشمنی کرنے کے برابر ہے۔ پھر یہ کہ ادب کو جذباتی اور حر کی میلان سے خارج کر دینا سماج دشمنی کی کوشش ہے۔

    ہمارا علم، ہمارا فن سب سماجی کوششوں کا نتیجہ ہے، اسے صرف سماجی ترقی ہی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہمارا فن نئے اور پرانے کی جنگ میں اپنی طرف داری اور جذباتی میلان کا اظہار نہیں کرتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر پرانے کا طرف دار ہے۔ میں نے اس چیز کا اظہار اس لیے کیا ہے کہ یہ تمام باتیں جن کا تعلق بنیادی اعتبار سے معنی کے ساتھ ہے، صورت پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

    یورپ میں رومانیت کی تحریک پرانے عقائد اور خیالات کے خلاف ایک بغاوت بھی تھی لیکن چونکہ اس بغاوت کی بنیاد سماجی ارتقا کے قانون پر نہ تھی۔ اس کا اظہار خالص جذباتی تھا۔ اس میں سائنس اور فکر کی آمیزش نہ تھی۔ اگر ایک طرف اس نے تصوراتی جنگ کا خواب دکھایا تو دوسری طرف ماضی کی اندھا دھند پرستش بھی کی، لیکن بنی نوعِ انسان کی بہبودی کے حق میں اس کا جذباتی اظہار اور کلاسکی صورت پرستی کی مخالفت اس کے ایسے کارنامے ہیں جنہیں تاریح فراموش نہیں کر سکتی ہے لیکن اس تحریک کا جذباتی مبالغہ توارد، ضرورت کے تعینات کو نہ پہچاننا، یہ تمام چیزیں حقائق کی مصوری کو مؤثر بنانے میں ناکام رہی ہیں۔

    اس طرح واقعیت نگاری (NALARABISM) جو یورپ میں حقیقت نگاری کے روپ میں ابھری، اشیاء کی جزئیات نگاری میں اس بری طرح ڈوب گئی کہ حقیقت اس کی نگاہ سے بالکل ہی پوشیدہ ہو گئی۔ دنیا کا کوئی بھی ادب تعمیم کے بغیر وجود میں آ ہی نہیں سکتا ہے اور جس طرح ہر تعمیم میں تفصیل ہوتی ہے، اسی طرح ہر تفصیل میں تعمیم کا جزو موجود ہوتا ہے۔ صرف تفصیل نگاری اتنی ہی مضر ہے جتنی کہ صرف تعمیم نگاری۔ جس حدتک صرف تعمیم نگاری ادب کو فلسفہ بنا دیتی ہے، اس طرح صرف تفصیل نگاری ادب کو سطحی رپورٹ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ تعمیم کے فقدان سے فکر کی قوت گھٹنے لگتی ہے۔ یہ تمام خامیاں سماجی زندگی کی بنیادی حقیقت کو نہ جاننے سے پیدا ہوتی ہیں۔

    جس طرح سنگ ریزوں کے جگر کو چیر کر ہی ہم اس کی اصل ماہیت کو سمجھ سکتے ہیں، اسی طرح انسانی روح کو ہم سماجی زندگی کی متضاد طاقتوں کی نبرد آزمائی ہی میں گرفتار کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ سماج کا ہر فرد اس جنگ میں کامیاب ہو جاتا ہے، کتنے تھک کر بیٹھ جاتے ہیں تو کتنے نئی زندگی کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر تو ایسے ہوتے ہیں جو میدان کا رزار میں اور اپنے ذہن میں اس جنگ کو لڑتے رہتے ہیں۔ کسی بھی دور کی سماجی حقیقت کو گرفت میں لانے کے لیے آپ ان کرداروں سے پرہیز نہیں کر سکتے ہیں جو خواہ کسی وقت میں اقلیت ہی میں کیوں نہ ہوں لیکن یہ جنگ لڑتے جاتے ہیں۔

    اب کرداروں کے ٹائپ کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ ایک حقیقت نگار صرف اسی ٹائپ کے کرداروں کی مصوری سے حقیقت کو گرفت میں نہیں لا سکتا ہے جو مرتی ہوئی حقیقت یا اپنے ماحول کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔ اس حقیقت کی تصویر موجود ہوتی ہے لیکن وہ ادھوری ہے۔ پوری حقیقت کو پیش کرنے کے لے اس ٹائپ کے کرداروں کو منتخب کرنا ضروری ہے جو گولیوں سے گھائل ہوکر بھی انسانیت کا پرچم اڑاتے جاتے ہیں۔ یہیں پر صورت اور معنی کی باہمی آمیزش اور ان کے جدلیاتی طریق کار کے سمجھنے کا موقع بھی ہاتھ آتا ہے۔

    اگر فرض کر لیا جائے کہ ہم حقیقت کی جدلیاتی صورت کو سمجھ گئے ہیں، ہمارے سامنے وہ کردار اور مظاہر بھی ہیں جو اس حقیقت کے حامل ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو کس طرح پیش کریں کہ اگر وہ ایک طرف حقیقی، زندہ اور متحرک معلوم ہوں تو دوسری طرف ہمیں جذباتی اظہار اور عمل کے لیے بھی بیدار کرتی رہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جسے ہم الگ الگ نظم ونثر کے اصناف کو سامنے رکھ کر ہی جانچ سکتے ہیں۔

    شاعری کا میدان نثر کے میدان سے مختلف ہے۔ میں پہلے شاعری کو لیتا ہوں۔ اگر ہم منظوم ڈرامے اور منظوم ناول کو چھوڑ دیں جن کا تعلق حقیقت میں افسانے FICTION سے ہے اور صرف اس قسم کی شاعری کو لیں جس میں زندگی کے تاثرات، خیالات اور مشاہدات کو ایک نظریاتی وحدت اور ضبط کے ساتھ نظم کیا جاتا ہے تو اس چیز کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔

    پہلی بات تو یہ ہے کہ شعر کی زبان حسیہ تصورات کی زبان ہے اور یہی سبب ہے کہ شعرکے دقیق سے دقیق تصورات بھی ہمارے اندر کسی نہ کسی احساس یا ایسی ذہنی تصویر کو بیدار کرتے ہیں جس کا تعلق براہ راست احساس سے ہوتا ہے۔

    ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ

    سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

    اس شعر میں سنگ کا لفظ کسی مخصوص شکل کے سنگ کی تصویر نہیں ابھارتا ہے بلکہ اس چوٹ کا احساس بیدار کرتا ہے جو پتھر کھانے کے بعد محسوس ہوتی ہے، یہاں سر کا لفظ آتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید ابھی ابھی سر پھوٹا ہے۔ ممکن ہے کہ شاعر اس جذبے کی ترجمانی کسی اور طرح بھی کر لیتا لیکن ایک داخلی احساس کو خارجی تصویر کے ساتھ ہم آہنگ کر دینا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ماضی کے کتنے تصورات بیک وقت ذہن میں گھوم جاتے ہیں اور شاید یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ بچپن ہی کے زمانے میں زیادہ تر سر پھوٹتے بھی ہیں۔ بہرحال اس شعر میں جو ذہنی تصویر پیش کی گئی ہے، اس کا ظاہری مقصد تو ایک جذبے یا احساس کی ترجمانی ہے۔ اصل مقصد اس کا ایک اخلاقی نکتہ کی ترسیل ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اخلاقی نکتہ کسی شعر میں اتنا غالب آ جائے کہ ترسیل جذبہ ختم ہو جائے تو اس صورت میں شعر ناکامیاب ہوگا۔

    اس سے پتہ چلتا ہے کہ احساس ادراک سے الگ نہیں ہے۔ یوں تو کسی بھی چیز کا ادراک احساسات کے بغیر ناممکن ہے لیکن جب ادراک کی ہوئی چیزوں کے تصورات صداقت کی علامتیں MATITUDES بن جاتی ہے تو وہ احساسات SENSATIONS ہی ہیں لیکن مادی علوم کا فلسفہ تجزیہ ABSTRCTION سے آزاد نہیں ہو سکتا ہے۔ یہاں اس قسم کے فلسفے اور علم کا تذکرہ نہیں ہے جو خالص تخیلی اور تصوراتی ہیں اور جن کی بنیاد انسانی عمل، تجربے اور احساسات پر نہیں ہے بلکہ مادی فلسفے کا ذکر ہے۔

    شعر فلسفے کے مقابلے میں اسی لیے زیادہ مؤثر ہے کہ شعر ادراک کے پورے طریق کار کو چھونے کی کوشش کرتا ہے اور فلسفہ طریق کار کو چھوڑ کر صرف تعمیمات کو پیش کرتا ہے۔ یہی بنیادی امتیاز دونوں کے ذریعۂ اظہار کو بھی متاثر کرتا ہے۔ شاعر کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تاثرات، مشاہدات اور علوم کے حسی رشتوں کو چھیڑ کر جذبے اور عمل کی قوت کو بیدار کرے۔ اگر ذہنی تصویریں حسی نہیں ہیں تو وہ جذبے کی آفرینش کا سبب نہیں بن سکتی ہیں اور اگر جذبہ بیدار نہ ہو تو حقائق کو ادراک کرنے کی قوت گھٹ جاتی ہے۔ یہی ضرورت شاعر کو تشبیہ اور استعارے کی زبان استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک تشبیہ اور استعارے عام مشاہدے کے نہ ہوں گے اور ان کا تعلق ہماری قوت حسیہ سے نہ ہوگا وہ ترسیل جذبہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

    شاعری، موسیقی سے بھی اسی ضرورت کے ماتحت قریب آئی کہ موسیقی جذبات کو چھونے میں بڑی سرعت اور تندہی سے کام لیتی ہے لیکن موسیقی کے ذریعے حقائق کا ادراک مشکل سے ہوتا ہے، تا وقتیکہ اصوات الفاظ کے جامے میں نہ ہوں، جو شاعری کی صورت اور معنی پر بحث کرتے وقت ان دونوں چیزوں سامنے رکھنا ہوگا۔ تشبیہ اور استعارے دوراز کار، پیچیدہ، مرکب اور غیر معمولی تجربے یعنی عالم خواب کے نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ ان کے اظہار میں ایک ایسی سنگیت ہونی چاہئے جو ترسیل جذبہ کو آسان کر دے اور یہ سنگیت خود شاعر کے منظم جذبات اور اظہار فکر کی وحدت کا نتیجہ ہوتی ہے۔

    رغبت کا جذبہ تو خیر حسین تشبیہ اور استعارے سے ہی ابھرتا ہے لیکن نفرت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے اگر آپ مسخ شدہ تشبیہ اور استعارے سے کام لیں گے تو آپ ناکام رہیں گے کیونکہ داغدار اور مکروہ ذہنی تصویروں سے تکدر تو پیدا ہو سکتا ہے لیکن قدر آفریں نفرت کا جذبہ بیدار نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ کام پیپ اور ناسور کی تشبیہوں سے نہیں چل سکتا ہے۔ قدر آٓفرین نفرت اور تخریب کا جذبہ اتناہی مقدس ہے جتنا تعمیر اور تخلیق کا اور یہ جذبہ اسی وقت ہمیں عمل کی طرف راغب کر سکتا ہے جبکہ ہم اس جذبے کو زندگی کی ایک حسین قوت بناکر پیش کریں۔ اس جذبے کی بڑی اچھی ترجمانی مخدوم محی الدین نے ’’حویلی‘‘ میں کی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ شاعری میں اس قسم کے معنی اور مقصد کے لیے کسی قسم کی صورت کی ضرورت ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ معنی ہمارے اظہار کے طریقے کو کیونکر متاثر کرتا ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں کے چند حدود ہیں جو زبان اور اظہار خیالات کے اسالیب ہم نے ورثے میں پائے ہیں، وہ ہمارے مقاصد کی ترسیل پر اثر انداز بھی ہو سکتے ہیں۔ کوشش یہ کرنی ہے کہ ان کے حدود کم ازکم ہمارے اظہار خیال میں حائل ہوں کیونکہ تا وقتیکہ زبان میں خاطر خواہ سماجی عمل سے ترقی نہ ہو سکے اور اس طرح اظہار خیال میں زیادہ لوچ اور بانکپن پیدا نہ ہو سکے، ہم اس کے حدود پر قابو بھی نہیں پا سکتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہ ہمارا مقصد صرف اظہار خیال نہیں ہے بلکہ اپنے خیالات اور جذبات کو پر تاثیر بناکر پیش کرنے کا ہے، ان میں زیادہ سے زیادہ دلکشی، زیادہ سے زیادہ جاذبیت اور زیادہ سے زیادہ حسن پیدا کرنے کا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں شعری ادب کے تمام خزانے کو پرکھنا ہے، لوک گیت اور عوامی سنگیت کو جانچنا ہے۔

    ہمارے وہ انقلابی شعرا جو اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں، ان کے لیے غزل کی زبان سے بیک وقت بغاوت کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ غزل کی زبان میں سات سو سال کا شعری خزانہ دفن ہے اور یہ شعری خزانہ تمام تر درباری نہیں ہے، اس میں عام انسانوں کی دکھی زندگی کارس، ان کی بغاوت، ان کا عزم، علوہمتی سبھی کچھ موجود ہے۔ آج اس خزانے کو کھنگالنے کی ضروت ہے اور یہ کام مٹی سے سونا چھاننے کے برابر ہے۔ سونا ذرات ہی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے اگر غزل کے شعری پیکر پر ایک طرف تصوف کا سایہ منڈلاتا رہا تو دوسری طرف اس نے رومانوی بغاوت Lyricism گہری فکر اور حسیہ اظہار خیال کا موقع بہم پہنچایا ہے۔

    دوسری طرف اس کی معنویت میں ایک گہری انسان دوستی اور سماجی تنقید کے گراں بہا موتی بھی چھپے ہوئے ہیں۔ ان کی انسان دوستی خواہ کتنی ہی پرانی نہ ہو جائے، ہمارے لیے بالکل بے معنی نہیں ہو سکتی، ان کی روایات کو ردو قبول کے بعد ایک نئی کیفیاتی تبدیلی کے لیے آگے بڑھانا ہمارا ہی کام ہے۔ ہمارے وہ انقلابی شعراء جنہوں نے غزل کی Lyricism اور رومانوی انقلابیت کو سائنٹیفک انقلابی معنی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، کافی مقبول ہوئے ہیں۔

    یہ دوسری بات ہے کہ اکثر ان کا رومانوی تصور حیات انقلابی معنی ابھارنے سے قاصر رہتا ہے۔ یہ خامی ان کے نظریے کی ہے جو اظہار پر اس طرح اثر انداز نہیں ہوتا ہے کہ غزل کا ابہام ختم کردے۔ اگر انقلابی شعور تیز ہو، جذبات انقلابی بانکپن کے حامل ہوں تو ہماری نظمیں اور غزلیں ایک نئے حسن کے ساتھ ابھر سکتی ہیں۔ یہ حسن جدید ترین شعرا میں ساحرؔ نے ’’نیا سفر ہے پرانے چراغ گل کر دو‘‘ اور ’’آہنگ انقلاب‘‘ میں پیدا کیا ہے۔ یہ حسن بعض بعض ان نئی غزلوں میں نظر آ جاتا ہے، جن میں ایک تسلسل اور وحدتِ خیال کے ساتھ انقلابی معنی کا اظہار کیا گیا ہے۔ انقلابی معنی کو غزل کی Lyricism کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کرنا کہ ایک نیا نغمہ، ایک نئی آگہی اور لفظوں میں عمل وحرکت کی دھار پیدا ہو جائے، ایک مشکل کام ہے لیکن فن تو جگر کا وی کا کام ہے اور آج کے ادیب کو تو شاید پہلے سے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ وہ زیادہ باشعور ہے اور اس کی توجہ صورت ومعنی دونوں ہی پر ہوتی ہے۔

    وہ ڈھیلا پن، ابہام اور ایہام، گنجلک خیالات، دوراز کار تشبیہ اور استعارے اور خالص تصوراتی اظہار کو برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جلدی سے سپر ڈال دینا اور ماضی کی صحت مند روایات سے اس حدتک بغاوت کرنا کہ شعر و نغمہ کی صورت ہی مسخ ہو جائے، اپنی کمزوری کا اعلان کرنا ہے۔ روس میں پشکن نے جس وقت شاعری شروع کی تو اس کے پاس اتنا بھی ادبی ورثہ نہ تھا، جتنا کہ اس وقت ہمارے پاس تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ روس کے امراء ادبی مورچے پر فرانسیسی ادب کی نقالی کر رہے تھے لیکن پشکن نے اپنی زبان کے اظہار کو خرادا، اور مانجھا۔ لوک گیت اور کتھاؤں سے چیزیں مستعار لیں۔ جمہوریت اور آزادی کے جذبات اور خیالات سے آراستہ کرکے روسی عوام کے لیے ایک نئی شاعری کی داغ بیل ڈالی جو ’’شرفا‘‘ کی شاعری سے محتلف ہے، جو عوامی گیت کی سطح سے بلند ہے اور جس میں موسیقی اور رس، زندگی کی تڑپ اور آزادی کا جذبہ روس کے جمہوری ادب میں سب سے زیادہ گراں قدر ہے۔

    آج پشکن پوری قوم کی زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ پشکن انہیں معنوں میں سب سے زیادہ روسی ہے۔ اس کا جواب دینا کم ازکم میرے لئے مشکل ہے کہ انگلینڈ ایک دوسرا شیکسپئر، جرمنی ایک دوسرا گویٹے اور ایران ایک دوسرا فردوسی یا حافظؔ کیوں نہ پیدا کر سکا لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج بھی ان کا کلام نہ صرف ان کے ملکوں میں بلکہ دوسرے ملکوں میں بھی بڑی وارفتگی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ میں اسے کوئی معجزہ نہیں سمجھتا اور نہ یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ اب شاعری کا دور ختم ہو گیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ رومانوی دور کے بعد شاعری کو بے جان حقیقت نگاری اور صورت پرستی نے بڑا نقصان پہنچایا ہے اور یہ چیزیں سرمایہ دارانہ نظام کے انحطاط کی لائی ہوئی ہیں اور جب اسے اپنے خالص صورت پرستی اور بے جان کیفیت کا احساس ہوا تو اس نے واہمے، لاشعور اور دھندلکے میں قدم رکھنا شروع کیا۔

    اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے تضاد سے گریز کرنے کی کوشش کی اور جن حدتک یہ زندگی کے مسائل سے گریز کرتی رہی، یہ ذہنی انتشار اور غیر ہم آہنگی کو بھی جنم دیتی رہی۔ ذہنی انتشار اور غیر جذباتی اظہار کے لیے اس نے ایسی صورتیں بھی گڑھیں جو جذباتی تنظیم کو متزلزل تو کر سکتی ہیں لیکن نئی قدروں سے ہم آہنگ کرنے کا امکان نہیں رکھتی ہیں۔ اس قسم کی شاعری ہماری زبان میں بھی ملتی ہے لیکن وہ بہت تھوڑی سی ہے۔ اس کا اظہار میراجیؔ اور اس قسم کے دوسرے شعراء کی بلینک ورس میں ہوا ہے۔ یہ صنف ہماری زبان میں نئی ہے۔ اس کی تاریخ اسمٰعیل میرٹھی کے وقت سے مرتب کی جا سکتی ہے۔ بلینک ورس صرف ایک صنف ہے اور صورت اطلاق صرف سخن پر نہیں ہو سکتا ہے۔

    میرے خیال میں بلینک ورس کی ایسی ہی نظمیں کامیاب ہو سکتی ہیں جنہوں نے داخلی سنگیت اور حسیہ حقیقت نگاری کو جگہ دی ہے۔ اس ضمن میں شاعری کو ایک نئی دولت حاصل ہوئی ہے۔ وہ دولت تشبیہ و استعارہ کی بلند عمارتوں کی ہے۔ یہاں ایک استعارہ ایک مکمل تصویر کی صورت میں پھیلتا ہے اور پھر وہ تصویر اپنا سفر آغاز کرتی ہے۔ اس قسم کی قلمی حقیقت نگاری کی گنجائش فی الحال بلینک ورس میں زیادہ نظر آتی ہے لیکن پابند نظموں اور غزلوں میں اس کا نباہ مشکل نہیں ہے۔ بشرطیکہ ہم پابندی کے مفہوم کو بدل دیں۔ قافیہ اور ردیف کے التزام خصوصی کی جگہ اگر ہم وزن الفاظ کی قید لگادیں تو پابند نظموں کے میدان میں زیادہ وسعت پیدا ہو جائےگی لیکن یہ تمام تجربے ہمارے مقصد اور معنی کے پابند ہیں۔

    اگر ہم اپنے شعور اور جذبے کو ایسی صورت اور ایسی تصویروں میں پیش کر رہے ہیں جن سے عوام مانوس نہیں ہیں، جو ان کی تعلیم میں مددگار نہیں ہو رہے ہیں تو ہمیں نئے تجربوں کو ترک کرکے ان اظہار کو اپنا نا چاہئے جن سے وہ مانوس ہیں، جن کی روایت سے وہ آشنا ہیں۔ آج کے دور میں جبکہ ہم کلچر اور ادب کو عام کرنا چاہتے ہیں اور اسے عوام کی تعلیم کا ذریعہ بھی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کا خاص طور سے لحاظ رکھنا ہے کہ وہ کون سی سنگیت، کون سا پیکر اور کون سا اظہار کا طریقہ ہے جو ان کے دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔ اگر ایک طرف ادیب عوام سے سیکھتا ہے تو دوسری طرف ان کو کچھ دیتا بھی ہے۔ سیکھنے سکھانے کا یہ طریقہ ترسیل و تخاطب اور تعلیم کی نفسیات سے آزاد نہیں ہے۔ اگر آپ عوام کے سرپر کھڑے ہوکر بولیں گے اور اس سے مراد ان کی تعلیم لیں گے تو وہ دن دو ر نہیں جبکہ وہ یہ کہہ دیں کہ ’’ زبان یار من ترکی دمن ترکی نمی دانم۔‘‘

    یہ کام کبھی کبھی خطابت سے بھی لیا جاسکتا ہے لیکن اس خطابت کو شاعری سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم ترسیل خیالات کے ساتھ شعری ادب کی تخلیق بھی کرتے جاتے ہیں۔ ہم جذبات کے ایسے سانچے مرتب کرتے جاتے ہیں جو جاندار اور حسیہ ہوتے ہیں، جو برسوں ذہن ودماغ میں رکے اور تھمے رہتے ہیں۔ یہ خوبی اسی وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ ہم انسانی نفسیات کا گہرا مطالعہ کریں، اسے سماجی رشتوں میں رکھ کر دیکھیں اور ان رشتوں سے متعین کی ہوئی جذباتی تنظیم کی ساخت کو دیکھ کر یہ معلوم کریں کہ وہ کون سے محرکات ہیں جن کی کسک صدیوں تک سینوں میں بند رہتی ہے، وہ کون سے جذبے ہیں جو موت سے بے خبر بناکر آگے دھکیلتے رہے ہیں، وہ کون سا شعور ہے جو سینے کے داغ کو کھرچ کھرچ کر مٹاتا رہتا ہے۔

    یہ انسان گوشت پوست کا انسان ہے۔ اس کے ساتھ اس کے جذبات اور خیالات کی بھی تاریخ ہے۔ یہ اپنی تاریخ غیر شعوری جذبے کے ماتحت بھی بناتا رہا ہے اور آج شعوری جذبے کے ماتحت بھی بنا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جو انسان ہمارا مخاطب ہے، وہ شعور اور جذبات کی کون سی منزل میں ہے، اس کے شعور کو مہمیز کیوں کر لگائی جا سکتی ہے، اس کے جذبات میں کیونکر طوفان اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کا بہت کچھ سراغ ان ادبی سانچوں میں بھی مل سکتا ہے جنہیں ہمارے انسان دوست شعراء چھوڑ گئے ہیں۔ اگر وہ جذباتی سانچے موسیقی سے ہم آمیزہیں تو ہمیں یہ سوچنا پڑےگا کہ کہیں ہمارا تیر نشانے سے خالی تو نہیں جا رہا ہے، وہ سینے جنہیں ہم برمانا چاہتے ہیں، ہمارے خون جگر سے پیوست ہیں کہ نہیں۔ مخاطب اور خطیب کی یہی قربت، شاعر اور سماج کا یہی رشتہ اسے نہ صرف عوام کی زندگی سے قریب رکھتا ہے بلکہ اس کے خیالات اور جذبات سے بھی قریب کر دیتا ہے۔

    اگر کسی شاعر کے کلام میں اس کا اپنا ماحول، اس کا اپنا کلچر اور اپنی تاریخ نہیں ہے تو وہ بین الاقوامی سطح پر نہیں پہنچ سکتا ہے۔ وہ اپنے ملک کے سماجی رشتوں کی روشنی میں اپنے ہی ملک انسانوں کے ضمیر اور خمیر کو دیکھنے کے بعد دوسرے ملک کے انسانوں تک پہنچتا ہے۔ جس حد تک اس کی تعلیمات اپنے ملک کے انسانوں کے لیے صحیح ہوتی ہیں، دوسرے ملکوں کے انسانوں کے لیے بین الاقوامی صداقت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔ جب وہ اس جدلیاتی طریق کار سے قومیت کی سطح سے بین الاقوامی سطح پر پہنچتا ہے تو وہ پوری انسانیت کا نقیب بن جاتا ہے کیونکہ اس کرۂ ارض کے تمام انسانوں کے بنیادی مسائل ایک ہی قسم کے ہیں۔ وہ ایک بہتر زندگی اور انسانیت کا وجدانی تصور چاہتے ہیں لیکن اس منزل تک پہنچنے کے لیے شاعر یا ادیب اپنے کلچر کی قومی ہیئت کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔ جو چیز اس کو بین الاقوامی رشتے میں گوندھتی ہے، وہ اس کے کلام کا جمہوری اور اشتراکی مواد ہے۔

    نئے اور پرانے کی جنگ ہر ملک اور ہر سماج میں ہوتی رہی ہے۔ دنیا کی تاریخ خود اپنے ملک کی تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے۔ بین الاقوامی ادب کا مطالعہ اسی لیے کیا جاتا ہے کہ اپنے ادب اور اپنے مخاطب کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ لیکن جب اپنے ملک کے مظلوموں اور محکوموں کو ایک نئے مرحلۂ زیست کی طرف اکسانا ہوتا ہے تو اس تعلیم سے فائدہ اٹھاکر نئی حقیقت کو اسلاف کے محبوب لباس میں پیش کیا جاتا ہے۔ چونکہ حقیقت اور اظہار کا رشتہ جدلیاتی ہے اس لئے نئی حقیقت کے آنے سے پرانا لباس بھی بدل جاتا ہے، لفظوں میں نیا معنی، تشبیہوں میں نئی قوت اور استعاروں میں نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی بھی فنکار کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ وہ پرانی صورت کو ایک نیا روپ دے دے۔ عوامی ادب اور سنگیت کے بہت سے پرانے فارم انہیں معنوں میں اپنائے گئے ہیں۔

    وہ نئی قوت جو اس طریقِ کار سے پیدا ہوتی ہے، اس بات کے امکانات کو وسیع کر دیتی ہے کہ ملکی ادب بین الاقوامی ادب کے اثرات کو تیزی کے ساتھ قبول کر سکے لیکن جب ادب کو صورت ومعنی کے خانوں میں الگ الگ بانٹ کر صرف صورتوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو نہ صرف صورت پرستی ہی آنا لازم ہے بلکہ ادب بے جان بھی ہو جاتا ہے۔

    آپ اپنے معنی کا اظہار اپنی زبان کے الفاظ ہی کے ذریعے کرتے ہیں۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے اس زبان کے الفاظ کی ایک تاریخ ہوتی ہے۔ زندگی کے مختلف موڑ میں ان سے مختلف قسم کے اظہار کا کام لیا گیا ہے۔ غزل کی زبان میں اس کا خطرہ موجود ہے کہ اس میں ابہام باقی رہ جائے کیونکہ غزل کی زبان سے ابہام کا کام لیا گیا ہے۔ اس سے بچنے کا یہ راستہ نہیں ہے کہ ہم اس کی لغت ہی ترک کر دیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنے خیال کی صفائی سے اس کے ابہام کو ختم کردیں، پرانے تشبیہ اور استعارے کے تصور آفریں رخ کو بدل دیں۔

    لیکن غزل کی زبان سائنس کی زبان نہیں بن سکتی ہے کیونکہ غزل کی زبان شعر کی زبان ہے۔ یہ ذہنی تصویروں کی تعمیرات کے لیے وضع کی گئی تھی۔ اب موجودہ دور کی غزل کے چند ایسے اشعار پیش کرنا چاہتا ہوں جن میں ابہام قطعی نہیں ہے۔

    داغ ہیں آستانِ آدم پر

    آسمانوں کی جبہ سائی دیکھ

    بن گئے ہیں گناہ کے مدفن

    پار ساؤں کی پارسائی دیکھ

    اے نظامِ کہن کچھ آہٹ لے

    وہ دبے پاؤں موت آئی دیکھ

    منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں

    وہی انداز جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا

    سانس ہے گرم وتیز سینے میں

    ہوئی جاتی ہے دیر جینے میں

    پھونک ڈالے جو نظم کہنہ تمام

    آگ ایسی ہو تیرے سینے میں

    ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

    نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگزر پھر بھی

    یہ بزم عام بھی اے دوست بزم عام نہیں

    نگاہیں اٹھتی ہیں لیکن کسی کسی کے لیے

    اسی دنیا کے کچھ نقش و نگار اشعار ہیں میرے

    جو پیدا ہو رہی ہے حق و باطل کے تصادم سے

    غمِ حیات وہی، دورِ کائنات وہی

    جو زندگی نہ بدل دے وہ زندگی کیا ہے

    زمیں جاگ رہی ہے کہ انقلاب ہے کل

    وہ رات ہے کوئی ذرہ محو خواب نہیں

    بزمِ فطرت کا جمال آئینہ در آئینہ ہے

    دور تک ختم نہیں سلسلے نظاروں کے

    اگر بدل نہ دیا آدمی نے دنیا کو

    تو جان لوکہ یہاں آدمی کی خیر نہیں

    فراق

    یہ تو اس قسم کے اشعار ہیں جن میں ابہام مطلق نہیں ہے۔ اس قسم کے اشعار کے علاوہ نئی نظموں اور غزلوں میں ایسے بہت سے پرانے رمزو کنائے استعمال کئے جا رہے ہیں جن کی تصویر آفرینی یا اشاریت کا رخ بدلا ہوا ہے۔

    مزاجِ عشق کو لازم ہے اب بدل جانا

    کہ کچھ دنوں سے تو سنتے ہیں حسن بھی ہے حزیں

    فراق

    یامخدوم کی نظم ’’انقلاب‘‘ کے تقریباً تمام ہی بند،

    اے جانِ نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے

    ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے

    ہجومِ شوق سرِرہ گزر کب سے ہے

    گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

    میرا ذاتی خیال ہے کہ مخدوم کے اس بند کو مسیح موعود کا انتظارِ شوق سمجھ کر کوئی بھی مسلمان پڑھ سکتا ہے لیکن اس سے اس بند کے حسن میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح فراق گورکھپوری کے جو اشعار میں نے پیش کئے ہیں اسے ہر وہ جماعت اپنے اپنے موقع پر پڑھ سکتی ہے جو زندگی، انقلاب، تبدیلی، تغیر کے تصورات کو استعمال کرنا چاہتی ہے مگر اس موقع پرستی سے ان اشعار میں کوتاہی پیدا نہیں ہوتی ہے۔ شعر و ادب انسانی زندگی اور عوام الناس کے بارے میں ہوتے ہیں اور اگر ان کی زندگی کی کروٹ اور تڑپ کو کوئی جماعت استعمال کرے تو وہ قصور نہ تو شاعر کا ہے اور شعر کا۔ وہ قصور اس طبقے یا جماعت کا ہے جو زبردستی شاعر کے مافی الضمیر کو اپنے ذاتی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے یا اپنے تصورات میں اسیر کرنا چاہتی ہے۔

    فراق گورکھپوری کے اشعار کو بہت سے مسلم لیگی رہنما اپنی تقریروں کو زیب دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں تو کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ فراق گورکھپوری نے مسلم لیگ کو مدنظر رکھ کر اشعار لکھے ہیں۔ میں خود علامہ اقبال کے مختلف اشعار کو استعمال کرتا رہاہوں۔ حالانکہ جس شعور اور اغراض کے ماتحت انہوں نے اشعار لکھے ہیں وہ میرے شعور اور اغراض سے مختلف ہیں۔ تاہم ان میں جس حد تک خارجی حقائق کی خارجیت موجود ہوتی ہے، ان کا ذاتی عقیدہ ان اشعار پر اثر انداز نہیں ہوتا ہے، میں انہیں استعمال کرتا ہوں۔ شعر میں اگر اتنی ہمہ گیریت اور آفاقیت ہو کہ وہ انسانوں کی اکثریت کی زبان پر چڑھ جائے تو اس کے یہ معنی نہیں ہوتے ہیں کہ اس سے ہماری طبقاتی صف بندی پر حرف آتا ہے۔ اکثر ہمارے اشعار کو ہمارے دشمن بھی گنگناتے ہیں خواہ وہ چھپ کر ہی کیوں نہ گنگنائیں۔ گور کی اور رومان رولاں کی تعریف بورژوا طبقہ بھی کرتا ہے اور شولو خوف کا ناول and Quiet flour The Don مغرب کی بورژوازی میں بھی مقبول ہوا۔ خواہ ان کی تعریف اور نقد کا انداز ہم سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔

    لیکن ہمیں ورثے میں صرف غزل ہی کی زبان نہیں ملی ہے۔ ہمیں مثنوی، مرثیے اور نظم کی زبان بھی ملی ہے۔ خارجی حقائق کے بیان میں ان اصناف کو یدطولی حاصل ہے۔ ان کے بیان کی صفائی، سادگی، سلاست اور تسلسل غزل کی شدید داخلیت اور انتشار کو دور کر سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے مرثیہ کا رزمیہ حصہ انقلابی نظموں کی تخلیق میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ کیفی اعظمی نے اپنی انقلابی نظموں میں اس چیز سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ تمام چیزیں تفصیلات کی ہیں۔ ان پر ہمیں کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

    اردو نثر کی صورتیں بھی اسی طرح معنی اور مقاصد سے متعین ہوئی ہیں۔ اردو نثر کی ابتدا تصوف کے رسالوں اور داستانوں سے ہوتی ہے۔ صوفیوں کا مقصد کسی نہ کسی صورت میں اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کا تھا۔ اردو نثر کا کوئی معیار ان کے سامنے نہ تھا اور نہ ان کے نثر نگاروں میں اتنی صلاحیت ہی تھی کہ وہ خود کوئی معیار پیدا کر سکتے۔ کیونکہ اس وقت بہترین دماغ شعری ادب کی تخلیق میں لگے ہوئے تھے، نتیحہ یہ ہوا کہ ان رسالوں کی زبان نثری اظہارِ خیال کے لئے معیاری نہ بن سکی۔ مجبوراً نثری اظہار کے لیے لوگوں کو فارسی نثر کی روایات کی طرف جھکنا پڑا۔

    ابوالفضل اور ظہوری کی نثر صورت پرستی کا بہترین نمونہ تھی۔ ان کے خیالات میں کوئی ندرت وجدت نہ تھی۔ وہ نثر اس لیے لکھتے تھے کہ اپنی لفظی علمیت اور صناعی کا مظاہرہ کر سکیں۔ فارسی نثر کی یہ زبان ’’ہست وبود‘‘ کو بدل کر رسمی خط و کتابت، تقریظ اور دیباچے کی زبان تو بن سکتی تھی لیکن داستانوں کی زبان نہیں بن سکتی تھی کیونکہ داستانوں کے لیے کسی حدتک روانی اور سلاست کی ضرورت تھی۔ نوطرز مرصع ضرور ہے لیکن ادق نہیں ہے۔ میرامّن نے صحیح معنوں میں اردو نثر کی تخلیق کی لیکن باوجود اس امر کے کہ وہ بول چال کی زبان کو تحریر میں ڈھالنا چاہتے تھے، لفظی صنعتوں کے التزام سے بالکل آزاد نہیں ہو سکے۔ ہم وزن لفظوں اور فقروں کے علاوہ کہیں کہیں قافیہ کا التزام بھی ملتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اردو نثر میر امن کے ہاتھوں بھی فارسی نثر کی روایات سے بالکل آزاد نہ ہو سکی۔ یہ بات کچھ میر امن ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ غاؔلب جیسا فنکار جس نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا، وہ بھی ان رعایتوں کو برتتا رہا ہے۔

    غاؔلب کی نثر کی تقلید اسی لیے مشکل ہو گئی ہے کہ وہ فن کارانہ نثر تھی۔ اگر اس میں کہیں کہیں صورت ومعنی کا بہترین امتزاج ہے تو کہیں صورت پرستی کی جھلکیاں بھی موجود ہیں۔ اردو نثر لفظی صنعتوں کے بچے کھچے اثرات سے تو سرسید ہی کی کوششوں سے آزاد ہوئی۔ سرسید بھی اس نتیجے تک بہت دیر میں پہنچے۔ آثارالصنادید کی زبان تکلفانہ ہے لیکن سرسید تحریک کے نثری اسلوب بالکل ہی بے تکلفانہ ہیں۔ یہ ضرورت ایک انقلابی تبدیلی کے باعث پیدا ہوئی۔ جب تک خیالات رکے تھمے اور مسلمہ قدروں کے گرد گھومتے رہتے ہیں تو عام روش یہی ہوتی ہے کہ صورت گری پر زیادہ وقت صرف کیا جاتا ہے اور جب پرانی زندگی کے بطن سے نئے خیالات کے دھارے پھوٹنے لگتے ہیں تو وہ اپنے لیے نئے راستے بھی تلاش کرتے ہیں۔

    اگر سرسید اپنے آپ کو صرف پندونصائح ہی تک محدود رکھتے تو اردو زبان میں اتنی وسعت نہ پیدا کر سکتے۔ یہ وسعت ایسے موضوعات کے لانے سے پیدا ہوئی جن کا تعلق سائنس اور علوم طبعیات سے تھا لیکن صرف موضوعات ہی نے سرسید کے اسلوب کو متعین نہیں کیا بلکہ ان کے پیچھے ان کا مقصد بھی شامل تھا۔ وہ اپنے خیالات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے۔ یہ دونوں ہی چیزیں ان کے اسلوب پر اثر انداز ہوئیں۔ ان کی زبان متوسط طبقے کے لیے عام فہم اور کافی حد تک(Realistic) حقیقت نگارانہ ہے۔ لیکن سرسید کی زبان اظہار جذبات کے لیے کوئی راہ نہیں کھولتی ہے۔

    وہ تخیلی اڑان کے لیے تو کسی حد تک کارآمد ہے۔ کیونکہ سرسید کو بورژوا قدروں کو مثالی بناکر پیش کرنے کی بھی ضرورت تھی اور یہ چیز تخیل کی رنگ آمیزی کے بغیر ناممکن تھی۔ اس کی اچھی مثال ان کے تخیلی مضامین میں ملتی ہے۔ پھر بھی ان مضامین میں کوئی جذباتی بہاؤ نہیں ہے اور یہ بات سرسید اسکول کے تمام ہی عقل پسند مصلحین کے لیے صحیح ہے۔ ممکن تھا کہ یہ لوگ ہمیں کچھ زیادہ دیتے، اگر یہ فرانس کے عقل پسند مفکرین کی طرح مادی فلسفے کے پورے طور سے حامی ہوتے۔ پھر بھی سرسید نے اپنی ذاتی کوششوں سے بہت کچھ دیا ہے اور اس اسکول کا یہی وہ تنہا شخص ہے جو تجدیدیت سے بہت کم متاثر ہے۔ ورنہ ڈپٹی نذیر احمد تو اچھے خاصے تجدیدیت سے متاثر ہیں۔

    یہی سبب ہے کہ وہ یورپ کے انیسویں صدی کے ناول کے فارم اپنا نہ سکے۔ ان کے ناول کا فارم تو اس دور کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ اس سے مسیحی قدروں کی تبلیغ کا کام لیا جاتا تھا۔ مولانا کے کردار بھی قدروں کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی کوئی کشمکش نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی مخالف قدروں سے بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ اس طرح ناول کے پورے سفر کو دماغ کے راستے طے کر دیتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس قسم کے ناول دلچسپ بھی ہوں لیکن مولانا کے ناول دلچسپ ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مولانا نے اپنے مخاطب کی نفسیات کو سامنے رکھ کر لکھا ہے۔ ان کے زیادہ تر ناول لڑکیوں اور لڑکوں کے نصاب تعلیم کے لیے لکھے گئے تھے۔

    اس کے بعد اردو نثر کا رومانوی دور آتا ہے۔ مولانا عبدالحلیم شرر اسکاٹ کی ناولوں کا چربہ اتارتے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ماضی کی اندھا دھند پرستش بھی کرتے ہیں۔ اسلامی عہد کے کارناموں کو ڈرامائی شکل میں پیش کرتے ہیں۔ چونکہ مولانا عہد عتیق کی تجدیدیت سے متاثر تھے، اس لئے انہوں نے اپنا یہ فریضہ بنا لیا کہ مسیحی مغرب کی لائی ہوئی قدروں کا اپنے عہد عتیق میں جواب پیدا کریں۔ محبت کی آزادی سرمایہ دارانہ نظام کی لائی ہوئی قدر تھی۔ مولانا نے اس قدر کو اپنانے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بالآخر مسلمانوں ہی نے صدائے احتجاج بلند کی کہ آخر یہ کیا بکواس ہے۔

    بہرحال مولانا کی رومانیت اس حد تک تو قائم ہی رہی کہ انہوں نے اتھاہ جذباتیت، عقیدت مندی، مبالغہ اور غلو سے کام لیا اور یہ چیزیں ان کے اسلوب اور ان کے ناولوں کے فارم پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ مولانا کے اسلوب میں نہ صرف غلو اور مبالغہ ہی ہے بلکہ تخیل کی شدید رنگ آمیزی بھی ہے۔ ان کی تحریر میں جذباتیت کے باعث بہاؤ تو ہے لیکن حقیقت نگاری سے دور کا بھی بھی واسطہ نہیں ہے۔ ان کے ناول کے کردار جیتے جاگتے نہیں۔ ناولوں کے پلاٹ میں پہلے سے سوچی ہوئی بات اور یکسانیت ہے۔ بہرحال اس اسلوب نے جذبات نگاری کی راہیں ضرور کھولیں۔

    پہلے حقیقت نگار ناولسٹ مرزا محمد ہادی رسوا ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں انیسویں صدی کی حقیقت نگاری سے متاثر ہیں۔ وہ غلوا ور مبالغے کی زبان استعمال نہیں کرتے ہیں اور نہ اپنے کرداروں کو رومانوی مہم کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے کرداروں کو آگے بڑھنے میں کافی دشواریوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ مرزا صاحب تجدیدیت سے آزاد تھے۔ اس لئے ان کی تحریر بھی اس کے اثرات سے پاک ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ مرزا صاحب کا مطالعہ سطحی ہے۔ وہ صرف اوپر ہی سطح کو کریدتے رہتے ہیں، نہ تو وہ تفصیلات کے استاد ہیں اور نہ ان کے ایجاز و اختصار میں اتنی جامعیت ہے کہ پوری حقیقت کو سمیٹ لیں۔ تاہم اردو نثر کو حقیقت نگاری کی بنیاد پر کھڑا کر دینے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ مرزا صاحب کے یہاں سطحیت اس لیے بھی ہے کہ وہ پیشہ کمانے کے لیے ناول لکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے ناولوں پر کبھی بھی زیادہ وقت صرف نہیں کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بجز ’’امراؤ جان ادا‘‘ کے ان کا کوئی بھی ناول قابل اعتنا نہیں اور یہ ناول سطحیت سے پاک ہے۔

    منشی پریم چند نے انہیں روایات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وہ نہ تو رومان نگار ہیں اور نہ انیسویں صدی کے ایسے واقعیت نگار جو واقعات کی تفصیل نگاری تک اپنے آپ کو محدود کر لیتے یا حقیقت کے بارے میں اپنی بے تعلقی کا اظہار کرتے۔ وہ چونکہ اصلاح پسند اور انسان دوست تھے، اس لئے انہوں نے مظاہر کی مصوری کے ساتھ جذباتی اظہار ہمدردی اور اصلاح کے فلسفے کی تبلیغ کو بھی قائم رکھا۔ ان کی ہمدردی نہ صرف مظلوم اور محکوم انسانوں ہی کے ساتھ ہے بلکہ اوپری طبقے کے نیک انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ چونکہ وہ نیت کو عمل پر مقدم کر دیتے ہیں، اس لیے وہ حقیقت نگار نہیں ہیں۔ وہ کسانوں کی زندگی کو رومانوی انداز میں پیش نہیں کرتے ہیں۔ وہ واقعات کی مصوری میں مبالغے سے کام نہیں لیتے ہیں اور نہ ان کی خارجیت پر اپنے تخیل کی رنگ آمیزی کرتے ہیں۔ لیکن وہ کانگریسی سیاست کے مبلغ بن جاتے ہیں اور گاؤں کے زمینداروں کو ایمان لانے پر مجبور کرنے لگتے ہیں تو ان کا تبلیغی لہجہ حقیقت نگاری کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ مگر جب وہ اپنی نظر سماجی تبدیلی کے طریق کار پر رکھتے ہیں تو وہ اشتراکی حقیقت نگاری سے قریب ہو جاتے ہیں۔ پریم چند نے یہ رتبہ صرف گئو دان میں حاصل کیا ہے۔

    اس مختصر جائزے کے بعد میں اس حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہوں کہ شعوری یا نیم شعوری طور پر آپ کا معنی اور آپ کا مقصد ادب کی صورتوں کو متعین کرتا ہے۔ اگر آپ کا ذہن گنجلک ہے تو ادبی صورت بھی گنجلک ہوگی۔ اگر آپ اپنے لیے یہ ضروری نہیں سمجھتے ہیں کہ آپ کے خیالات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنا چاہئے تو آپ ان صورتوں سے پرہیز کریں گے جو عوام میں مقبول ہیں اور اگر آپ کو اپنے واضح خیالات، تاثرات، مشاہدات اور محسوسات کو اپنے ذہن کی ایک منظم وحدت کے ساتھ دوسروں تک پہنچانا ہے اور ان کے جذبات میں بھی ایک منظم وحدت پیدا کرنا ہے تو آپ کو ان چیزوں پر غور کرنا ہے، جن سے آپ کی بات میں اثر اور آپ کی تصویر میں جان پیدا ہو سکے۔

    افسانہ ہو یاناول، ان کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ کس حدتک زندگی کے طریق کار، سماجی تبدیلی کے طریق کار کو یقین آفریں انداز میں پیش کرتا ہے اور یہ یقین آفرینی اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب کہ کردار نارمل ہوں، وہ خود چلیں پھریں اور بات کریں اور اگر آپ کو خود ہی بولنا ہے تو آپ اس ٹائپ اور طبقے کے کردار کو پیش کریں جو آپ کے ٹائپ اور طبقے کی نمائندگی کرتے ہوں۔ طبقاتی طرفداری اور جذباتی اظہار کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو بات آپ اپنے کردار سے نہ کہلا سکیں، اسے آپ خود کہنے لگیں۔ خوبی یہ ہے کہ ایسے کردار چنیں جو آپ کے دل کی باتیں خود کر سکیں۔ آپ کی طبقاتی اور جذباتی ہمدردی کردار کے انتخاب میں جھلکنی چاہئے۔ حقیقت نگاری کی دوسری شرط یہ ہے کہ آپ ضروری تفصیلات سے کام لے کر نتائج تک پہنچیں، زندگی کے فلسفے اور تعمیمات تک پہنچیں تاکہ پڑھنے والوں کو فائدہ پہنچے، نہ کہ تفصیلات کی موشگافیوں میں پڑ کر حقیقت کو کھو بیٹھیں۔

    حقیقت صرف واقعات کو بیان کر دینے یا کسی ایک مخصوص مظہر کو حقیقت کے اور دوسرے مظاہر سے الگ کرکے پیش کرنے سے گرفت میں نہیں آتی ہے۔ حقیقت تک پہنچنے کے لیے سماجی ارتقاء کی بنیادوں تک پہنچ کر سماجی ترقی کی رفتار اور سمت معلوم کرنا ضروری ہے۔ فرض کر لیجئے کہ آپ نے اپنے سماج کے کسی ایک مظہر کی مصوری بہت یقین آفریں انداز میں کی ہے۔ پھر بھی اگر وہ مظہر حقیقت تک رہنمائی نہیں کرتا ہے، اپنے بنیادی تضاد کو بے نقاب نہیں کرتا ہے تو آپ حقیقت کی مصوری میں ناکام ہیں۔ کردار ہوں یا مظاہر، یہ سب حقیقت تک پہنچنے کے ذرائع ہیں اور اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اگر آپ اپنے سماج اور نظام کی حقیقت کو نہیں جانتے ہیں تو آپ کے کردار اور مظاہر کے اتنخاب میں کوئی وحدت اور تنظیم نہ ہوگی۔ آپ کا انتخاب یونہی سرِراہے یا کسی ذاتی پسندیدگی کے باعث ہوگا اور اگر آپ اپنے سماج اور نظام کی حقیقت کو جانتے ہیں تو آپ ایسے مظاہر اور کردار کو منتخب کریں گے جو حقیقت کے پورے طریق کار کو کھول سکیں گے۔

    طوائف کی زندگی، طوائف بازاری، جنسی گھٹن، سرمایہ دارانہ نظام کے نمائندہ مظاہر نہیں ہیں، یہ مظاہر تو دور غلامی سے چلے آرہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے تو صرف ہیئت میں تبدیلی کردی ہے۔ اس نظام کی استحصالی بنیادوں تک پہنچنے کے لیے یہ مظاہر بڑے پر پیچ ہو جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے تضاد نے حقیقت کو اس قدر واضح کر دیا ہے کہ اسے براہ راست سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ حقیقت محنت اور سرمایہ کا تضاد ہے۔ وہ حقیقت کسان اور زمیندا ر کی جنگ ہے۔ وہ حقیقت عام انسانوں کی اقتصادی جدوجہد اور غلامی کے خلاف جنگ ہے۔ یہ حقیقتیں مطلق ہیں، یہ حقیقتیں زندہ اور متحرک ہیں۔ ان کے معرکے ہمارے مشاہدہ میں روز آتے ہیں، ہم اس معرکے کو اپنی انفرادی سطح پر بھی محسوس کرتے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ ادبی تجربے میں منتقل نہیں کر پاتے ہیں۔

    اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ان کا تعلق اس طبقے سے ہے جو اقتصادی کشمکش اور زبوں حالی کی چوٹ براہ راست اپنے سینے پر لیتے ہوئے بھی آنکھیں چرانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ یہ سوچ کر آنکھیں چراتا ہے کہ شاید اس کی قسمت بدل جائے۔ یہ قسمت اتفاقات اور حادثات کی نہیں ہے۔ اس کی قسمت کو بنانے اور بگاڑنے میں ایک ایسے نظام کے خارجی قانون کو دخل ہے جو ہمدردی، تأسف اور انسانی خدمات سے آزاد ہے۔ اس نظام کے قانون کو جان کر اس نظام کے بدلنے ہی میں اپنی قسمت کا فیصلہ ہے۔ یہ نظام دنیا کے مزدور اور محنت کش عوام کی متحدہ کوششوں سے بدلا جا رہا ہے۔ یہ نظام کرۂ ارض میں بدلا جا چکا ہے۔ متوسط طبقے کے ادیبوں نے اگر حقیقت کو محسوس نہیں کیا تو وہ کسی بھی زندہ جاندار ادب کی تخلیق نہیں کر سکتے ہیں۔

    ہمارا یہی سماجی اور ادبی شعور، یہی معنی اور ادراک حقیقت کا نظریہ متحرک زندگی کے مسالے سے ایک ایسا پیکر تراشتا ہے جو زندگی، حرکت، صداقت اور حسن کا ثبوت اس بات میں دیتا ہے کہ وہ اپنی داستان خود سے کہتا ہوا منزل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہاں صورت، معنی اور تخلیقی جذبہ ایک نامیاتی وحدت میں عمل کرتے ہیں اور اگر ادراک حقیقت مکمل نہیں ہے، ذہن صاف نہیں ہے تو تخلیقی جذبہ بھی ادھورا ہوگا اور صورت بھی بے معنی ہوگی۔ صورت ومعنی کا یہ رشتہ گوشت اور خون کے رشتے سے بھی زیادہ قریبی ہے۔ جس طرح صرف صحت مند خون حسین عضلات کو جنم دیتا ہے، اسی طرح صرف زندہ اور متحرک حقیقت یعنی صحت مند معنی ہی حسین پیکر تراشتا ہے۔ مریض اور ناپاک خون سے صورت اگر بن بھی جائے تو حسن پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔

    یہ حسن جو معنی اور صورت کے جدلیاتی رشتے سے ابھرتا ہے، جو صورت و معنی کے روابط میں ایک نامیہ اکائی کی طرح رہتا ہے، یہ حسن جو ابھرتی ہوئی حقیقت کا طرف دار اور مستقبل سے ہمکنار ہوتا ہے، ایک معصوم بچے کی طرح توجہ کا بھی طالب ہوتا ہے۔ آپ صرف وہی لفظ لکھیں جس کی ضرورت ہے اور جس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے۔ آپ صرف اتنی ہی تفصیل نگاری کو دخل دیں جتنی کہ ضرورت ہے، اتنی ہی انقلابی رومانیت سے کام لیجئے جتنی کہ نئی حقیقت کو ابھارنے کے لیے ضروری ہے۔

    اور اگر اس تمام جتن کے بعد آپ کی تصنیف بے جان اور بے حسن رہ جائے تو آپ اپنے سے سوال کریں۔ ’’میں جھوٹا تو نہیں، میرے نظریے اور عمل میں دوئی تو نہیں میری ہمدردی ظاہری اور میرا یقین ڈھلمل، تو نہیں۔‘‘ جب اس کا جواب کچھ امید افزا ملے تو آپ دوسرا سوال کریں، ’’کیا میں نے اپنی صلاحیتوں کو پہچان کرکے ادھر رخ کیا تھا، کیامیں شعور اور جذبے کی پوری طاقت کے ساتھ اپنے حافظے پر جھپٹا تھا، کیا میں نے اس کی تمام تہوں کو ادھیڑ کو پورے خزانے کا جائزہ لیا تھا، کیا لکھتے وقت میرے سینے کا زخم کھلا ہوا تھا اور میری نگاہیں مستقبل کے منظر دیکھ رہی تھیں؟‘‘ اور اگر آپ کو اس کا جواب اثبات میں ملے تو پھر آپ یہ سمجھئے کہ آپ نے جو کچھ لکھا ہے، وہ ٹھیک ہے اور اس کا منکر یقیناً آپ کا دشمن ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے