دنیا کے ہر ملک کا ادب ایک ایسے دور سے گزرتا ہے جب معاشی بحران اور سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے شاعروں اور ادیبوں کے ذہنو ں میں زندگی کے سارے نئے مسائل الجھ جاتے ہیں۔ تاریخ کا بہتا ہوا دھارا اپنی راہ بناتا ہوا بڑھتا ہے۔ طریقہ پیداوار میں تبدیلی نئی قدروں کو جنم دینے میں پیش پیش رہتی ہے۔ مختلف فلسفہ حیات کو سمجھنے کے لیے اس رشتہ کو دیکھنا پڑتا ہے جس سے وہ سماجی مسائل سے منسلک ہیں اور اس رشتہ کی تلاش اس دور کے معاشی زندگی کے الجھاوے کو سامنے لاتی ہے۔
معاشی قوتیں ان پوشیدہ دھاروں کی طرح ہیں جو اندر بہتے رہتے ہیں اور آہستہ آہستہ کناروں کو کاٹتے ہوئے اپنے لیے نئی جگہ بناتے جاتے ہیں۔ صنعتی انقلاب ایک دو سال میں رونما نہیں ہوا بلکہ ایک صدی کے عرصے میں اس نے جاگیرداری کے نشانات تک مٹا دیے۔ آج ادب دیوانگی کا نتیجہ نہیں ہے اور نہ الہامی تصورات کا کرشمہ ہے۔ زندگی کے نت نئے مسائل شاعروں اور ادیبوں کو اپنا مواد جمع کرنے کے لیے ان سے سماجی شعور اور سیاسی بیداری کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان مسائل کو سمجھنے کے لیے تجربے کے ذاتی ردعمل کے علاوہ مختلف علوم کی طرف جانا پڑتا ہے۔ آج کسی موضوع پر چند اشعار موزوں کرنے کے لیے ’’شعری رو‘‘ کافی نہیں ہے۔ شعری تجربے کے لیے جو دت طبع میں اتنی جسارت نہیں ہے کہ وہ نئی تحریک کا باعث ہو سکے اور اس کے لیے ذہن بیدار کے ساتھ ساتھ سماجی شعور کا ہونا بھی لازمی ہوتا جا رہا ہے۔
اس سے ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ قدیم شاعروں کے یہاں سماجی شعور نہیں تھا اور یہ کوئی سائنسی دور کی چیز ہے۔ ایک بہت مشہور اور دور قدیم کے عظیم شاعر دانتے کی نظم مقدس طربیہ پڑھتے وقت آج بھی اس دور کی مکمل تصویر سامنے آ جاتی ہے۔ اس دور کے عروج میں جو اس کے کارنامے تھے اور عیسائی مذہبی تحریک کی سخت گیری اور اس کے خلاف تحریکوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ دانتے کی زندگی کی حدود نکرویولس کی بڑی دیوار یں کھینچتی ہیں اور نکرویولس کو’’مردوں کا عالمی شہر‘‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن اس کی تیز نظر نے ان دیواروں کے افق کو پار کرکے نئی دنیا کا سراغ لگایا۔
اس نظم کا اصل موضوع انسان کا زوال اور ترقی کی تجدید ہے۔ صرف قدیم دیومالا اور حکمت کی تنگ فضا میں نظم سمٹ کر نہیں رہ گئی ہے۔ اس دور کے سارے تجربات، مختلف فلسفہ خیالات، اضافی اور ماورائی بحثوں کی کہکشاں سے لے کردانتے کی صبح وشام کے مشاغل کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس نظم میں دانتے کی شخصیت کے سارے پہلو ملتے ہیں۔ دانتے جو میونسپل آفیسر تھا، دانتے جو نیا فن کار تھا، دانتے جوگیٹو کا دوست تھا، دانتے جو ایک ڈپلومیٹ تھا، جو ڈی مونریکا کا مصنف تھا، جو تھامس آکینے کا طالب علم تھا۔ اور یہ نظم اس کی مکمل شخصیت کی آئینہ داری کرتی ہے۔ لیوس ممفورڈ نے اپنی مشہور کتاب انسان کی حالت (THE CONDITION OF MAN) میں اس نظم کو دور قدیم کا نمائندہ کارنامہ کہاہے۔ اس مثال سے یہ مقصد تھا کہ سماجی شعور اور سیاسی بیداری کا مطالبہ آج شاعروں اور ادیبوں سے کیا جارہا ہے وہ کوئی بالکل نیا مسئلہ نہیں ہے۔
دوسری جنگ عظم کے اثرات سے زندگی کا کوئی گوشہ بھی نہیں بچ سکا۔ یہ صحیح ہے کہ جنگ ہندوستان کے میدانوں میں نہیں لڑی گئی لیکن انگریزوں کی استحصال کی پالیسی کسی ’’جنگ‘‘ سے کم نہیں تھی۔ جنگ کے فوراً بعد آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا اور ۱۹۴۷ء میں سیاسی آزادی تقسیم کی شکل میں مل گئی۔ اس دور میں سماجی بحران کی ابتدا ہوئی جو فسادات کی صورت میں شمالی ہند اور مغربی پاکستان میں پھیل گئے۔ اس زمانے میں مسائل ایک دوسرے میں اتنا الجھ گئے تھے کہ ذہنی بحران پنی تمام تباہ کاریوں کے ساتھ آ گیا۔ ترقی پسندتحریک جو پہلی ادبی منظم جماعت ہے، وہ بھی ان اثرات کا شکار ہوئی۔ ترقی پسندی حقیقت نگاری کی تحریک کی ادبی روایت ہی نہیں ہے بلکہ ہندوستانی ترقی پسند تحریک، دنیا میں ترقی پسندتحریک، اشتراکیت کے اصولوں کے پرچار، فاشزم کے خلاف تمدنی اور ادبی محاذ قائم کرنے کی عام تحریک کا ایک حصہ ہے۔
ترقی پسند شاعر نے آزادی کی قومی تحریک میں بڑی بڑی قربانیاں پیش کی تھیں لیکن جب آزادی ملی تو حالات کو سمجھنے کے لیے ان کے ذہن اتنے بیدارنہ تھے۔ خاص کر ایسے موقع پرجب قومی رہنماؤں نے افرنگ کی ’’جمہوریت نوازی‘‘ کے نغمے گانے شروع کر دیے تھے اور سیاسی اور سماجی مسائل اتنے الجھ گئے تھے کہ ان کے سمجھنے کے لیے ذہنی توازن کے ساتھ ساتھ پتھر کو چیرنے والی نظر کی ضرورت تھی اور ترقی پسندشاعر اس وقت تک سیاسی رہنماؤں کی رہبری کے بغیر حالات کو سمجھنے کی صلاحیت کم ہی رکھتے تھے۔ ادبی تحریک میں بحران آنے کی کئی وجوہ ہیں۔ مشہور ادیب آلیک ویسٹ نے اپنی کتاب ’’تنقید اور بحران‘‘ میں ادبی بحران کو خام ذہنوں کی پیداوار کہا ہے اور شاعروں اور ادیبوں کی کم نگاہی بھی مورد الزام قرار پاتی ہے۔
شاعری میں ذاتی جذبات کے ’ناتراشیدہ‘ ردعمل، آرزوؤں کے صنم خانوں کے ساتھ ساتھ سماجی اور سیاسی مسائل بھی جگہ پاتے ہیں۔ ترقی پسند شاعر اپنی نظموں میں افادی پہلو کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں پر اس کے سماجی شعور کا سوال سامنے آتا ہے۔ نئے سماجی حالات نے نیا شعور اور نئے شعور سے نئی زندگی اور نئے ادب کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ فارمولا نہیں ہے لیکن سماجی شعور کیسے بنتا ہے، کا جواب ضرور ہے۔ جب مسائل الجھے ہوئے ہوں اور شاعر اپنی نظموں میں ان مسائل کو کسی خاص فارمولا کے تحت نظم کر دیتا ہے تو ادبی بحران کے جراثیم پرورش پانے لگتے ہیں۔
افراتفری کے دور میں ’’حالات گیر نظر‘‘ بڑے بڑے دانشوروں میں بھی نہیں ملتی۔ لیکن ترقی پسند تحریک نے جہاں ادب اور زندگی کے رشتہ کو مستحکم کیا ہے وہاں سماجی شعور اور اپنی تنقید کی روایات بھی قائم کی ہیں۔ ایسے موقع پر جب حالات ہر لمحہ بدل رہے ہوں، اس وقت بڑے ضبط سے خود شاعر کو اپنی سمجھ بوجھ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ شاعر اور ادیب سے کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ وہ سماجی اور سیاسی مسائل کا حل کیوں نہیں پیش کرتے البتہ زندگی کایہ ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ اپنے کو اس کا نباض اور ترجمان کہتے ہیں تو حالات حاضرہ کے بارے میں اپنے احساسات، جذبات اور خیالات کو ادب میں اجاگر کریں۔
شاعر اور ادیب کے افکار و احساسات کو کبھی بھی کسی سیاسی لائن کا غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ اورجب بھی اس کی کوشش کی گئی ہے، ادبی بحران کا ’’سیلاب بلا‘‘ اپنے تمام تباہ کن نتائج کو لیے ہوئے آیا ہے۔ پروفیسر ڈی پی مکرجی مشہور ترقی پسند دانشور اور بنگالی ادیب کا خیال ہے کہ ’’ادبی بحران اس وقت تحریک میں داخل ہوتا ہے جب ادبی جماعت ایسے افراد پر مشتمل ہو جو حالات کو سمجھنے کے دعویدار ہوں مگر حقیقت میں اپنے ذہنی افلاس کو پوشیدہ رکھنے کے لیے بلند بانگ نعرے لگاتے ہوں۔ ایک ایسے دور میں جب نظام حیات کی صورت گری ہو رہی ہو اور سماجی تنظیم کا شیرازہ بکھرا بکھرا سا ہو اور ایک دور پوری طرح ختم نہ ہوا ہو اور نئے دور نے نقاب نہ الٹی ہو۔‘‘ یہ کشاکش اور بحران کا دور ہوتا ہے۔ ایسے زمانے میں منظم سیاسی جماعتوں میں بھی انتشار پیدا ہو جاتا ہے اور شاعری کی دنیا میں بھی جذباتیت، نعرہ بازی اور سہل انگاری کی فضا چھا جانے کا امکان رہتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات کچھ تو بڑے پریشان کن ہوتے ہیں اور کچھ ذہنی افلاس کا اثر ہوتا ہے کہ شاعروں کے ذہنوں میں ساری چیزیں گڈمڈ ہو جاتی ہیں اور کبھی شاعروں کا ایک گروہ حالات کو ’’فارمولے‘‘ کی مدد سے نظم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دور میں یہ شاعر جو اپنے کو ’’پیش رو‘‘ ثابت کرنا چاہتے ہیں، شعوری یا غیرشعوری طور سے زندگی کے ترجمان ہونے کے بجائے ایک ’’خیالی زندگی‘‘ کو اپنا لیتے ہیں اور یہ رشتہ عجب رنگ سے جوڑا جاتا ہے کہ خود شاعر کا کلام زندگی سے گریزاں ہو جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول کی ترجمانی تو سمجھتے ہوئے کرتا ہے لیکن اس کا نظریہ خالص رومانی اور جذباتی ہو جاتا ہے اور اس وقت اگر اس کے فارمولے کے مطابق دوسری انسانی قدریں نہیں آتیں تو وہ حقیقی اور سائنٹیفک قدروں کو ٹھکرا دیتا ہے۔ اس منزل پر آکر تنگ نظر ی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، جس کا لازمی نتیجہ ادبی بحران اور اس کے بعد جمود کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس بحران کی جڑیں سماجی حالات میں ملتی ہیں اور تجزیہ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ میکانکی انداز فکر کا لازمی اثر ہے۔
میکانکی انداز فکر ترقی پسند تحریک میں اس وقت داخل ہوا جب ’’سیاسی آزادی‘‘ کسی صورت میں مل رہی تھی اور انگریزوں اور فرقہ پرستوں کی ملی بھگت نے فسادات کی آگ پھیلا دی تھی۔ تقسیم ہند کے مہلک اثرات کی گونج شعرونغمات میں آج تک سنائی دیتی ہے۔ لیکن ترقی پسند مصنفین کی تحریک ہی ایسی ہے کہ وہ فرقہ واریت کے سیلاب کو روکنے کے لیے ایک دیوار کی صورت میں کھڑی ہو گئی۔ ترقی پسند شاعروں کا یہ کارنامہ ہے کہ وہ اپنے کوتعصب کی آلائشوں سے بچا سکے۔ یہ کارنامہ کسی شعوری جدوجہد کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ شاعر اور۔۔۔ اپنی آزادانہ فطرت کے لیے مشہور ہے اور انسانیت کا بہی خواہ ہونے کی وجہ سے وہ اس طوفان کی نذر نہ ہو سکا لیکن میکانکی انداز فکر نے شاعرانہ خوبیوں کو بالائے طاق رکھ دیا اور وہ خیالی عوام کے لیے منظوم تقریریں پیش کرنے لگا اور عوام کو اشتراکی انقلاب کے لیے آمادہ کرنے کی فضا بنانے لگا تھا۔
یہ معاشی قوتوں اور تاریخی حالات سے مکمل بے خبری کی واضح مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان ایک اشتراکی انقلاب کے لیے معاشی اور سیاسی طور سے تیار تھا۔ کیا عوام کا شعور اتنا بیدار ہو چکا تھا کہ وہ تلوار اٹھانے پر مجبور تھے؟ اگر آج اس دور کا سیاسی تجزیہ تاریخی پس منظر میں کیا جائے تو ایک وقت میں مختلف دھاروں کے بہنے کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ موج کے تلاطم کو ہمیشہ طوفان کا پیش خیمہ سمجھنا معاشی قوتوں کو نہ سمجھنے کے مترادف ہے اور یہ سیاسی غلطی تمام سیاسی ترقی پسند جماعتوں سے سر زد ہوئی جس کی رہنمائی ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کر رہی تھی۔
ابھی ملک نے سرمایہ داری کی بدترین استحصال کی منزل میں قدم نہیں رکھا ہے اور جاگیرداری اور سرمایہ داری میں بڑی حد تک کشمکش جاری ہے۔ کہیں کہیں قوم پرست رہنماؤں نے جاگیرداروں سے صلح کرکے عوامی تحریکوں کو کچلنے میں مدد دی ہے اور سرمایہ داروں نے قومی رہنماؤں سے کوئی سرکاری معاہدہ نہ ہونے کے باوجود بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن اب بھی بورژوائی جمہوریت کے دھندلے نقوش ملتے ہیں۔ نئے خیالات کی پرواز سنائی دیتی ہے۔ نئی تعلیم کا چرچا بھی ہو رہا ہے۔ دوسری طرف انگریزوں نے تقسیم ہند کے ذریعہ دونوں جگہوں کے بازاروں کو اپنے اقتدار میں کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود ہندوستان کے قومی رہنماؤں نے جمہوریت کو خیرباد کہا ہے۔
۱۹۴۸ء میں یہ خیال زور پکڑ گیا تھا کہ طبقاتی کشمکش تیز ہو گئی ہے اور شاعروں کو اپنے فن کے ذریعہ اس انقلابی جذبہ کو آگے بڑھانے میں مدد دینی چاہئے۔ یہ خیال صحیح نہیں تھا کہ طبقاتی کشمکش اس منزل پر پہنچ گئی ہے کہ ترقی پسند تحریک کے ہر فرد کو اپنے کلام میں تلوار کی جھنکار کا نغمہ مل جائے اور نغمہ پابند نے ہوکر رہ جانے کی کوشش نے سنسنی خیز اور ہیجان انگیز شاعری کا آغاز کیا۔ وجہ یہ تھی کہ جب سماجی ارتقا کے قوانین کا اطلاق بہت بھونڈے اور میکانکی طور سے ادب پر کیا جانے لگتا ہے تو نہ صرف ادب ہی کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ انقلابی قوتیں بھی کمزور پڑ جاتی ہیں۔ ’’مارکسی تنقید اور فلسفہ میں اقتصادی بنیاد کی اولیت اور طبقاتی جنگ ادبی جانچ پڑتال کا آلہ ہے لیکن جب اس آلہ کو ’’باقاعدہ‘‘ تمام حالات اور علوم کا جائزہ لتے ہوئے میکانکی طور سے استعمال کیا جاتا ہے تو یہ آلہ علم دشمنی اور جہالت کا حربہ بھی بن جاتا ہے۔‘‘
ترقی پسند تحریک میں یہ میکانکی طریقہ فکر بڑے زوروشور سے چھا سا گیا تھا۔ ادبی رہنماؤں کے ذہنوں میں خیال اور مادے کی باہمی اثراندازی کا رشتہ صاف نہیں تھا اور صرف طبقاتی جنگ ہی کو انسانی عقل اور فہم کا جادو سمجھنے لگے تھے۔ انسانی شعور سماجی ماحول کا پروردہ ہے اور اصل میں مادی زندگی کی پیداوار ہے۔ جو چیز سماجی اور سیاسی شعور کی شمعوں کی لو کو تیز کرتی ہے وہ مادی زندگی کا عکس ہے یعنی انسان کا علم جو مادی بنیاد پر اثرانداز بھی ہوتا ہے۔ ادبی رہنماؤں نے ان پیچیدہ مسائل کو بالکل نظرانداز کر دیا تھا۔ اس لیے کہ ان کا سماجی شعور سیاسی رہنماؤں کی غلط پالیسی میں گرفتار تھا اور خود انفرادی طور سے حالات کو سمجھنے اور تجزیہ کرنے کے اہل نہیں تھے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بمبئی کانفرنس ۴۹ء کامینی فیسٹو ایک سیاسی دستاویز ہے جس کی بنیاد میکانکی طریقہ فکر پر ہے اور وہ سیاسی رہنماؤں کی دہشت پسند پالیسی کو ترقی پسند مصنفین کی پالیسی بنانے کی کوشش تھی۔
اس نہج پر آکر شاعری اور سیاسیات کی بحث چھڑ جاتی ہے۔ ادب اور زندگی کے رشتے اتنے مستحکم ہو چکے ہیں کہ سیاسی تبدیلیوں کا ادب پر اثر ناگزیر ہے۔ شاعری اور سیاست میں لکیر کھینچنا ممکن ہے، شاعری محض سیاست نہ کبھی ہوئی۔۔۔ اور نہ ممکن ہی ہے۔ سیاسی شاعری کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ روزنامہ اخبار میں شائع ہونے والی نظموں سے لے کر ادبی رسائل تک ایسی بے شمار نظمیں ملیں گی جن کا موضوع ’’خالص سیاسی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ لیکن آ ج موضوع کا انتخاب شاعر زندگی کے کسی نہ کسی گوشے سے کرتا ہے اور جس طرح وہ کسی موضوع کو اپناتا ہے، اسی سے بحث کا آغاز ہوتا ہے۔
آج موضوع سے زیادہ اہمیت نقطہ نظر کی ہو گئی ہے۔ یہ سماجی اور سیاسی انتشار کا دور ہے اور سیاسیات نے اس دور میں انسانی زندگی اور ترقیات کے سلسلے میں نئی صورت اختیار کر لی ہے۔ سیاسیات اب مختلف علوم پر ہی نہیں بلکہ روزانہ کی زندگی پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ اسی لیے یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ سیاسی بیداری کا دور ہے اور صنعتی ترقیات نے دنیا کی دوری کو اخبارات، ریڈیو اور دوسرے رسل ورسائل کے ذریعہ بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔
شاعر بھی ایک شہری ہے اور وہ بھی زندگی کی دوڑ دھوپ میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا، اسی لیے ایک معمولی شہری کی طرح اس کی زندگی میں بھی خلفشار ذرا ذرا سی باتوں سے پیدا ہو سکتا ہے۔ شاعر نسبتاً عام افراد سے زیادہ حساس اور جذباتی ہوتا آیا ہے۔ اس لیے فن کے لوازمات کی روشنی میں اور زندگی کی ترجمانی کے خیال سے وہ ایسے موضوع کو بھی نظم کرتا ہے جس کی صرف لمحاتی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
مارکس نے کہا ہے، ’’آدمی کا شعور اس کی زندگی کے حالات کا فیصلہ نہیں کرتا بلکہ زندگی کے حالات اس کے شعور کی راہ تیار کرتے ہیں۔‘‘ مارکس نے جرمن آئیڈیالوجی کی بحث میں زندگی اور فرد کے اس رشتہ کے متعلق کہا ہے کہ ’’ہمارے سامنے انسانی افراد اپنی حقیقی زندگی کے روپ میں آتے ہیں اور ان کا شعور چلتے پھرتے آدمیوں کا اپنا شعور ہوتا ہے۔‘‘ اس لیے بجائے اس کے کہ کسی شاعر کے کلا م کی کچھ مثالیں دے کر ہم اپنے طور پر اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرلیں یا اس پر کوئی لیبل چپکا دیں، یہ دیکھنا چاہئے کہ شاعر، اس کا شعور اور اس کے شعور کی پیداوار۔۔۔ کلام شاعر زندگی کے کن خیالات کا نتیجہ ہیں اور کس حقیقت کو کس طرح پیش کرتا ہے؟ مواد کی اہمیت اس دور کی ترقی پسند شاعری میں اولیت کا درجہ رکھتی ہے اور مواد کی بحث تمام سیاسی اور سماجی مسائل کا احاطہ کرتی ہے لیکن شاعر اپنی نظم کے لیے مواد منتخب کرتے وقت صرف افادیت کو ہی ضروری نہیں رکھتا بلکہ اپنی علمیت اور انداز فکر اور شخصیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔
آج ترقی پسند شاعر نے زندگی کے بے شمار موضوعات کے بجائے چند مخصوص موضوعات کو اپنا شعار بنا لیاہے۔ زندگی میں اتنا تنوع ہے کہ اس سے منہ موڑ کر صرف چند گوشوں کو’’حاصل شاعری‘‘ سمجھنا تنگ نظری کی دلیل ہے۔ ۴۸ء سے ۵۰ء تک ترقی پسند شاعروں کے ایک بڑے گروہ نے شاعری میں یکسانیت پیدا کر دی تھی جو شاید’’سیاسی ضرورت‘‘ کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔ سیاسی شاعری میں توازن کھو دینے کے علاوہ اور بھی ’’خطرات‘‘ درپیش رہتے ہیں، اس لیے کہ شاعر کسی سیاسی مسئلہ پر کس نقطہ نظر سے روشنی ڈالتا ہے اور وہ نقطہ نظر کس مدرسہ فکر سے تعلق رکھتا ہے؟ یہاں پہنچ کر بحث مختلف سیاسی جماعتوں کی پالیسی کے حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔
اس مقالہ میں اس بحث کو تفصیل کے ساتھ نہیں پیش کیا جا سکتا البتہ اتنا کہنا مقصود ہے کہ شاعر کی کسی جماعت سے وابستگی مفید ثابت ہو سکتی ہے اور ادبی تحریک کی فضا محدود بھی ہو جاتی ہے۔ شاعر بحیثیت ایک شہری ہونے کے کسی بھی۔۔۔ جماعت کا ممبر ہو سکتا ہے۔ لیکن ممبر ہونے کے بعد اس کی آزادانہ روش اور والہانہ انداز بیان ختم بھی ہو جاتا ہے اور وہ اس مخصوص جماعت کا ترجمان بن کر رہ جائےگا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقی کام کرنے والوں کے لیے یہ پابندی بڑی مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ ڈپلومیسی کے تحت سیاسی جماعت کی پالیسی ’’برابر تبدیل‘‘ ہوتی رہتی ہے اور شاعر کو اپنے فن کو پالیسی کے مطابق استعمال کرنا ہوگا۔ اس صورت میں اس کے تخلیقی جذبے کی ہمہ گیری میں کمی آ جائےگی اور وہ پارٹی کی پالیسی کی فضا میں کھو سا جائےگا۔ پروفیسر ڈی پی مکرجی کو میرے اس خیال سے اتفاق ہے۔
اسی لیے مجھے اتنی اہم بات کہنے کی جرأت ہوئی۔ ان کا خیال ہے کہ جب تخلیقی آرٹسٹ اپنے کو کسی سیاسی جماعت کا پابند بنا لیتا ہے تو اس کی تخلیقی قوتیں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں اور وہ شاعر یا ادیب سے ایک ’’مدبر‘‘ بن جاتا ہے۔ شاعر کو کسی ترقی پسند جماعت کے ممبر ہونے سے ادبی تحریک کو فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ جس جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ وقت اور زندگی کی انقلابی قوتوں کی ترجمان ہو۔ اس سے شاعر کے موضوع میں وسعت اور انداز بیان میں بے باکی پیدا ہو جاتی ہے، وہ بین الاقوامی تحریکات کا ترجمان بن سکتا ہے لیکن ایک خطرہ لاحق رہتا ہے جس کا تجربہ ترقی پسند شاعری میں ابھی حال ہی میں ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا بھی امکان ہے کہ ملکی مسائل میں پارٹی کی پالیسی غلط ہو اور وہ بجائے انقلابی قوتوں کو تقویت پہنچانے کے شدیدنقصان پہنچا سکتی ہے۔
مثلاً ۴۹ء میں ترقی پسند مصنفین نے (بمبئی میں) جو منشور پاس کیا، اس کی روشنی میں ترقی پسند شاعروں نے سنسنی خیز اور دہشت انگیز شاعری کا آغاز کیا اور اس شاعری کو انقلابی شاعری کا نام دیا گیا۔ اس کی وجہ آج سب کو معلوم ہے کہ ترقی پسند ادبی رہنماؤں نے کمیونسٹ پارٹی کی پالیسی کو ترقی پسند شاعری کا ’صحیح نقطہ نظر‘ سمجھ لیا تھا، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ شاعری میں موضوع اور انداز بیان کی یکسانیت کے ساتھ ساتھ فنی خوبیاں بھی زائل ہو گئی تھیں۔ شاعری سے حسن، موسیقی، نغمگی، تازگی، متوازن فرزانگی، شیریں دیوانگی اور سرشاری کی خوبیاں ایک نعرہ میں کھو گئی تھیں اور وہ سیاسی نعرہ غلط تھا اور زندگی کا ہم نوا نہیں تھا۔ سیاسی شاعروں کو صرف اس لیے مطعون کرنا کہ یہ کھلی ہوئی سیاست ہے بذات خود زندگی میں سیاسیات اور سماجی مسائل کی اہمیت سے بے خبری کی دلیل ہے۔
اعلیٰ درجہ کی شاعری خالص سیاسی شاعری ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں جتنا آسان معلوم ہوتا ہے۔ اصل میں عظیم شاعری کا تصور بھی بدلتا رہتا ہے۔ میں ان ابدی جمالیاتی قدروں کو نہیں مانتا جو شاعری کو ’’معمہ‘‘ یا’’دیوانے کا خواب‘‘ بنا دیتی ہیں۔ اس کے برعکس تاریخی زاویہ نظر کو بہتر سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ تاریخی نقطہ نظر زیادہ سے زیاددہ ابہام کے دور کرنے میں مدد دیتا ہے اور چونکہ مواد اور صورت کا تعلق ہماری سمجھ میں آ جاتا ہے، اس لیے اس کے کیف میں پائندگی اور دوسری شعری خوبیاں مل جاتی ہیں لیکن سیاسی شاعری آج دنیا کی عظیم شاعری کے مقابلے میں نہیں پیش کی جا سکتی، کچھ تو اس وجہ سے کہ سیاسی مسائل کو فلسفیانہ انداز بیان اور شعری حسن کے ساتھ بہت کامیابی کے ساتھ پیش نہیں کیا گیا ہے، دوسرے نئے شاعر کی وسعت خیال کے باوجود فلسفہ اور دوسرے علوم سے بے خبری بھی ’’مورد الزام‘‘ ہوتی ہے۔
’’انقلاب‘‘ کا تصور آج بھی شاعروں کے ذہن میں واضح نہیں ہے اور وہ ایک تبدیلی کے خواہاں ہیں اور بس۔ تغیر اور حرکت کے تصورات انسانی زندگی کے ارتقا میں مختلف روپ بدل چکے ہیں۔ اس لیے آج کی سیاسی شاعری انقلابی تصور کی حامل ہے لیکن بڑی اور عظیم شاعری اس لیے نہیں بن سکی کہ ابھی ترقی پسند شاعری تجرباتی دور سے آگے نہیں جا سکی ہے۔ سیاسی شاعری میں کسی پارٹی کی پالیسی کو نظم کر دینا ہی شاعر کے لئے ’’باعث فخر‘‘ ہوتا ہے۔ لیکن ادب اور زندگی کی قدروں کے طالب علم کی یہی جستجو رہتی ہے کہ وہ رنگا رنگ زندگی کی تصویر دیکھ سکے، اس لیے سیاسی شاعری اگر اپنے لیے نئے رمزوکنایات نہیں پیدا کرتی اور بھونڈے لفظوں میں مطلب کی ادائیگی ہی کو سب کچھ سمجھتی ہے تو وہ اخباری شاعری بن کر رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ سیاسی شاعری میں بڑی شدید یکسانیت ہوتی ہے اور انداز بیان میں تھوڑا ہی سا فرق ہوتا ہے۔ یہی اعتراض کلاسیکی شاعری کی ’’بے کیفی‘‘ پر لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن کلاسیکی شاعر اپنی پروقار آواز، بلند آہنگ اور پر عظمت لب ولہجہ کے ساتھ فکری عناصر رکھتے تھے اور ترقی پسند شاعروں کی سیاسی شاعری زیادہ تریک رخی ہوتی ہے۔ مثلاً سردار جعفری اور کیفی اعظمی کی تقسیم ہند کے بعدکی نظمیں جنہیں ’’منظوم تقاریر‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ آج ترقی پسند شاعروں کو یہ سوچنا ہے کہ ان کی نظموں میں سیاسی جذباتیت اور سطحیت کیسے دور ہو سکتی ہے؟
اس سلسلہ میں یہ نکتہ بھی نکل آتا ہے کہ ترقی پسند شاعروں کا مخاطب کون سا طبقہ ہے۔ یہ مسئلہ بہت الجھا ہوا اور بحث طلب معلوم ہوتا ہے۔ لیکن شاعر کا سماجی شعور اور اس کے فن کی گہرائی اس کے کلام کو مختلف اور متضاد طبقے کے افراد تک پہنچاتی ہے اور یہ قاری کی سمجھ اور اس کے ماحول کے تقاضے پر منحصر ہے کہ وہ شاعر کے پیغام کو سمجھ سکے۔۔۔ شاعر اپنے سیاسی شعور اور طبقاتی سماج میں یقین رکھنے کے باوجود ایک سیاسی جماعت کے افراد تک اپنا پیغام محدود نہیں رکھتا بلکہ ان تمام انسانوں کے لیے اس کی آواز میں نغمگی اور سوزوگداز کے ساتھ فکری عناصر ہوتے ہیں جو اس طبقاتی سماج کی استحصال کی پالیسی، شہری آزادی پر پابندی کے خلاف ہیں۔ شہری حقوق اور مساوات کے خواہاں ہیں۔ بنیادی طور سے شاعر اپنا کلام ان لوگوں تک آسانی سے پہنچا سکتا ہے جو ادبی تحریکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں اور نئے فلسفے اور مادی ترقیوں کے ساتھ نئے نغمے کو سننا اور سمجھنا چاہتے ہیں۔
ہندوستان میں ۱۴ فیصدی پڑھا لکھا طبقہ ہے اور مشکل سے ایک حلقہ شاعری کو فن کے لحاظ سے پڑھتا اور سنتا ہے۔ ترقی پسند شاعر کا اب تک سابقہ متوسط طبقے کے افراد سے رہا ہے جو ادبی سرگرمیوں میں تھوڑا بہت حصہ لیتا ہے اور اس کی آواز ڈرائنگ روم سے لے کر کلرک کے کوارٹر تک پہنچتی رہتی ہے اور اس طرح سے ترقی پسند شاعروں کا مخاطب طبقہ متوسط طبقہ رہا ہے۔ یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ ترقی پسند شاعروں کا کلام گاؤں اور دیہات تک پہنچ کر مقبول ہو چکا ہے۔ کلاسیکی شاعری بھی شہروں تک محدود رہی تھی لیکن اس کی عظمت سے اس لیے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت ادب کو عوام کے قریب لانے کا تصورہی وجود میں نہیں آیا تھا۔ ایک لحاظ سے اردو کے ترقی پسند شاعروں کا پیغام اور بھی محدود ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک اور وجہ ہے۔ وہ یہ کہ ترقی پسند شاعری کی یہ بڑی خامی رہی ہے کہ اس میں جمالیاتی پہلو اور موسیقی کا حسین امتزاج مشکل ہی سے مل سکتا ہے اور ہمارے شعرا کی آزاد نظمیں موسیقی، روانی اور شگفتگی سے بہت دور ہوتی ہیں۔
سیاسی شاعری سے میری مراد ’’خالص سیاست‘‘ نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ لفظ ’’خالص‘‘ ایلیٹ اور ازرا پاؤنڈ کی لغت کا ہے اور وہ اپنے کو خالص شاعر کہنے کے باوجود سرمایہ دارطبقہ کے مفاد میں شریک ہیں۔ ادب میں نظریے کا استعمال ہی ادبی قدروں کو ایک دوسرے سے منسلک کرتا ہے۔ ادب یا کسی اور شعبے میں نظریے کے معنی شعور ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں مجتبی حسین کا مقالہ ’’ادب میں نظریے کا استعمال‘‘ بہت سی غلط فہمیو ں کا ازالہ کر دیتا ہے۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’ہر زمانے کا ادب شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے نظریات کے ماتحت وجود میں آتا رہا ہے اور ان نظریات کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں کرتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے زمانہ بڑھتا رہا، ادب بھی باشعور ہوتا گیا۔ دوسرے لفظوں میں نظریات کا اظہار نمایاں طور پر ہونے لگا۔‘‘
آگے چل کر وہ اپنے مفہوم کو اور واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ، ’’ادب میں نظریے کا استعال پند نامے یا سیاسی، سماجی اور اخلاقی منشور کی صورت میں نہیں ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ اچھا ادب باشعور ہوتا ہے اور تلقین نہیں کرتا۔ نظریہ (ادیب) ا س کے احساسات، جذبات، جمالیات حس اور سماجی ادراک میں گھل مل جاتا ہے۔۔۔ ایک زندہ اور متحرک صداقت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی صداقت ایک شاعرانہ اور ادبی صداقت میں نمودار ہوتی ہے۔‘‘ (ادب لطیف جون ۵۲ء)
یہ اقتباس نظریے کی وضاحت کر دیتا ہے۔ یوں بھی ہومر، ڈانٹے، شیکسپیئر، گوئٹے سب نے اپنے ماحول اور کرداروں کے ذریعے سے اپنے عقائد، نظریات، محسوسات اور مختلف رجحانات کا اظہار کیا ہے۔ فردوسی اور انیس کے تمام کردار اپنے عقائد اور نظریات کا اظہار پورے ’’شاعرانہ جلال اور جمال‘‘ کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس لیے ترقی پسند شاعری پر یہ ’’الزام‘‘ بے بنیاد معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نظریات کا اعلان کیا اور اس طرح شاعرانہ خوبیوں کو ترک کر دیا۔ البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ترقی پسند شاعری نے اب تک کوئی کارنامہ پیش نہیں کیا اور نہ کوئی بڑا شاعر ہی پیدا ہو سکا۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ ترقی پسند شاعری ابھی ہنگامی دور سے آگے نہیں جا سکی ہے اور ہمارے شاعروں نے شعور، شعری خوبیوں اور فکری عناصر کے امتزاج سے کوئی عظیم نظم نہیں کہی ہے۔
مجھے پچھلے چند برسوں کی ترقی پسند شاعری پر یہ اعتراض ہے کہ شاعرں نے خاص کر سردار جعفری نے شاعری میں سیاسی نظریے کا استعمال بڑے جذباتی طریقہ سے کیا۔ دوسرے شعرا نے بھی فنکارانہ صلاحیتوں سے کام نہیں لیا اور موسیقی، حسن، تازگی اور توانائی کا خوبصورت میل نہیں کر سکے۔ اس لیے شاعرانہ خوبیوں کو مجروح کیا۔ بات کو کہہ دینا اور زوردار انداز میں کہنا آسان مرحلہ ہے۔ اصل دشواری اور فن کی خوبی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب بات پراثر انداز میں بھی ہو اور اس کے لیے شعری صداقت ساتھ ساتھ سلیقگی کی ضرورت پڑتی ہے پچھلے بحرانی دور کی نظموں کے موضوعات اپنی افادیت کے لحاظ سے بہت اہم ہیں لیکن شاعروں نے جو فارم اختیار کیا، وہ اس مواد کے لئے موزوں نہ تھا۔ الفاظ کی تکرار اسی وقت تک زور پیدا کر سکتی ہے جب موقع کے لحاظ سے استعمال ہو، یہ نہیں کہ پوری نظم میں چند ٹکڑوں کی تکرار ہی زور بیان کی ’’ذمہ دار‘‘ بنائی جائے۔
انتہاپسند شاعروں نے نظریے کے غلط استعمال سے ہیجان خیز شاعری کا آغاز کیا تھا، جس کو وہ ’’رزمیہ شاعری‘‘ کا نام دیتے تھے۔ یہ دور زمیہ شاعری کا نہیں ہے۔ اس مقالہ میں یہ طویل بحث تو ناممکن ہے لیکن اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ ترقی پسند شاعروں نے طویل نظمیں لکھی تھیں جن کو میں ’’منظوم تقاریر‘‘ سمجھتا ہوں۔ شاعری کی ایک اور بھی خوبی ہے کہ بات اختصار اور پراثر انداز میں کہی جائے۔ آج شعری ڈرامہ کا نہ تو رواج ہے اورنہ ہی ادبی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ البتہ طویل نظم میں کسی دورکی مکمل ترجمانی کی جاتی رہی ہے اوریہ رسم آج بھی شعری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے میں اپنے کویہ کہنے میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ پچھلے تین چار سال کی ترقی پسند شاعری میں اچھی اور خوبصورت نظمیں مشکل ہی سے مل سکیں گی۔ ممکن ہے کہ کوئی صاحب موضوع کے لحاظ سے اہم نظم تلاش کر لائیں لیکن جب اس نظم کی مجموعی تنقید ہوگی تووہ اچھی نظم صرف موضوع کی وجہ سے نہیں بن سکتی۔
قحط بنگال پر ترقی پسندشاعروں نے مصروع کا انبار لگا دیا ہے لیکن زیادہ تر نظمیں اہم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ترقی پسند شاعر ’’روح عصر‘‘ کونظم کر دینا ہی اصل شاعری سمجھتے رہے ہیں اور فن کی طرف بڑی لاپروائی برتی گئی ہے۔ موسیقی اور شاعری کا قدیم سمبندھ رہا ہے اور شعر محض موضوع کی افادیت کی وجہ سے خوبصورت اور بلند نہیں بن سکتا، اس کے لیے تمام شعری لوازمات، فکری عناصر اور سماجی شعور کی ضرورت پڑتی ہے اور بلند شاعری کے لیے یہ اجزاء لازمی قرار پا چکے ہیں۔
پچھلے دور میں ترقی پسند شاعری میں بحرانی کیفیت اور ہیجان نمایاں تھا۔ بحران کی تفصیلی بحث شروع کے حصے میں کی جا چکی ہے۔ یہاں ایک اہم نکتہ کو پیش کرنا ہے۔ وہ یہ ہے کہ تجرباتی دور میں دو خدشے رہتے ہیں۔ ایک گروہ فارم یا ہیئت کے تجربے کو اصل شاعری سمجھ کر سریت اور ابہام اور دو راز قیاس خیال کو نظم کرنے کے لیے کسی شعری پابندی کو لائق اعتنا نہیں سمجھتا۔ وہ بحر اور زمین اور شعری قواعد کے متعین اصول کو قابل عمل نہیں تصور کرتا اور ان پابندیوں کو اپنے تخلیقی جذبے کی راہ میں حائل سمجھتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آزاد نظم میں موسیقی کی پابندی تک کو گراں خیال کیا گیا تھا۔ میراجی نے جدید شاعری میں اس رسم کی بنیاد ڈالی تھی۔ وہ ایک مصرعہ کئی لائنوں کا موزوں کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ان کے ذہن میں اسی طرح آیا تھا اووہ اس کی تراش خراش کرنا اپنے تخلیقی جذبے کے اوپر پابندی خیال کرتے تھے۔
میراجی کے گروہ میں شاعروں کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی اور اس حلقہ کو ’’ساقی‘‘ (دہلی) ’’کتاب‘‘ (لاہور) مل گئے تھے۔ یوسف ظفر، قیوم نظر، مختار صدیقی وغیرہ اس قبیلے کے اہم شاعر تھے۔ وجہ یہ ہے کہ ان شعرا کا علم اور شعور مختلف راہوں پرگامزن تھا اور وہ خالص شاعری کی دھن میں زندگی کی مثباتی میلانات کے ترجمان ہونے کے بجائے اپنے بیمارذہنوں کی الجھنوں کو آزاد نظم کے فارم میں پیش کرتے تھے۔ یہ روایت مغرب سے چند ’’بیمار دانشوروں‘‘ کے ذریعے اردو شاعری تک پہنچی۔ سریت یا سریلزم اور دادازم مغربی یورپ کی ذہنی خلفشار کی ادبی تحریکیں تھیں۔ یہ جرمنی اور فرانس میں بڑی حد تک ذہن پرست حلقوں میں مقبول ہوئیں۔
عرصہ ہوا ایک نئی انگریزی شاعری کے نقاد اسکارف نے اپنی کتاب آڈن اور اس کے بعد میں ’’سریلزم کی بابت‘‘ کے عنوان سے ایک اچھا مضمون لکھا تھا۔ اس کا خیال ہے کہ یہ تحریک جنگ عظیم کے تباہ کن ذہنی اثرات کی پیداوار ہے اور فلسفیانہ شعور کی منفی ہی نہیں ہے بلکہ انفرادی ناآسودہ جذبات کی نکاس کا شعری ذریعہ بن گئی تھی جسے ادبیات اور زندگی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ کریول ایلورڈ اور برتان فرانسیسی شعرا نے زندگی کے مادی تصور کے خلاف اس تحریک کی بنیاد ڈالی تھی جو آگے چل کر جنسی غلاظت میں ڈوب گئی۔ جدید اردو شاعری میں یہ تصور میراجی کے گروہ اور حسن عسکری کے طفیل آج بھی ایک ادبی حلقہ کی رہنمائی کر رہی ہے۔
اس وقت عام غلط فہمی یہ تھی کہ یہی ترقی پسند شاعری ہے جس کی وضاحت کے لیے سجاد ظہیر، احتشام حسین نے کئی مضامین لکھے اور ۴۳ء کے دوران میں گرماگرم مباحثے ہوتے تھے۔ فارم کے تجربے کی فکر میں ان شعرا نے اشعار کا انبار لگا دیا تھا۔ میراجی کی نظمیں، قیوم کی ’’قندیل‘‘ یوسف ظفر کی بیشتر نظمیں، مخمور جالندھری کی جنسی شاعری اور فکر تونسوی کے ’’ہیولے‘‘ تک میں اس تحریک کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ اس لحاظ سے جدید شاعری میں بحرانی کیفیت تھی۔ اس لیے ترقی پسندنقادوں نے جدید شاعری اور ترقی پسند شاعری کے فرق کو واضح کیا اور ایک نمایاں لکیر کھینچ دی۔
دوسرا گرہ ترقی پسند شاعروں کا تھا جس نے صورت گری سے بالکل مخالف سمت مواد پر ہی اپنی شاعری کی بنیادیں استوار کیں۔ ممکن ہے یہ ردعمل کی وجہ سے صورت اختیار کی گئی ہو لیکن بحران کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔ تغیر اور حرکت کے تصورات کو ہضم کیے بغیر نظم کرنے سے شعری حسن اور خلوص کو چھو لینے کی کیفیت ار دوسرے محاسن شاعری میں پید ا نہ ہو سکے۔ سائنسی مجرد تصورات کو شعری قالب میں ڈھالنے کی کوشش کے لیے بڑی ریاضت اور فلسفیانہ شعور کے ساتھ شعری صداقت کی ضرورت ہے۔ آزاد نظم کے فارم میں صو رت گری اور پھر موضوع یا مواد محض کی شکلیں ملتی ہیں۔ عرصہ ہوا’’نئی دنیا پر سلام‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے عزیز احمد نے ’’نیادور‘‘ (بنگلور) میں لکھا تھا کہ سردار جعفری نے آزاد نظم کو عوام کے قریب کر دیا ہے۔ راشد کی بورژوائی آزاد نظم کے مقابل سردار جعفری نے جو فارم اختیار کیا ہے وہ زیادہ عام فہم ہے۔
یہ کہنا ایک حد تک ٹھیک ہے کہ سردار نے ترقی پسند شاعروں میں آزاد نظم کے فارم کو مقبول بنایا لیکن کہاں تک وہ خود اپنی شاعری میں موسیقی اور فکری عناصر اور انقلابی لب ولہجہ کو بلند شاعری کا مرتبہ دے سکے ہیں؟ انہوں نے تفصیل سے ہر پہلو کو نظم کر دینے اور تکرار اور چند بندشوں کی گونج کو سب کچھ سمجھا۔ دوسرے شعری محاسن کو ترک کر دیا جیسے موسیقی، شعری سوزوگداز، متنوع اور رنگارنگ تصویریں ان کی طول طویل نظموں میں نہیں ملتی ہیں۔ ’’خون کی لکیر‘‘ کی کئی طویل نظموں میں خطابت کا زور بیان ہے لیکن جذباتیت اور سہل نگاری کی مثالیں بے شمار ہیں۔ اس کے باوجود سردار جعفری نے جتنی جرأت سے یہ شعری تجربہ کیا ہے وہ یقینا ًقابل تحسین ہے۔ ایک گروہ آرٹ کو حقیقت سے الگ کرکے تخلیقی بازی گری کا شکار ہو گیا اور دوسرا ترقی پسند شاعروں کا گروہ حقیقت اور آرٹ میں صحیح رشتہ نہ قائم کرنے کی وجہ سے توازن کھو بیٹھا تھا۔ افادیت ہی کو’’روح شعر‘‘ سمجھ بیٹھے تھے۔
ہورڈفاسٹ نے اپنی کتاب ’’ادب اور حقیقت‘‘ میں اس رشتہ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ آرٹ اور حقیقت کو سمجھنے کے لیے رشتے کو متعین کرتے وقت بھی سماجی رشتوں کوہی ذہن میں رکھنا نہ چاہئے بلکہ اس رشتے کو بھی جوانسان اور فطرت کے درمیان ہوتا ہے جس کا اظہار ایک طرف سماج کی بنیادی طریق پیداوار کی ٹکنیکل سطح ہوتا ہے تو دوسری طرف شعور کے میدان میں اور جس کا اظہار حقیقت کو سمجھنے اور زندگی کے مسائل حل کرنے میں ہوتا ہے۔ ممتاز حسین نے اپنے مضمون ’’شاعرانہ تخیل کی دنیا اور حقیقت‘‘ میں اس رشتہ کی مکمل وضاحت کی ہے۔ اس فارم اور مواد کے مسئلہ کی اہمیت ترقی پسند شاعری کے لیے آج بھی نہیں سمجھی جا رہی ہے۔ سردار جعفری نے اتنہا پسندی کے باوجود کئی کامیاب نظمیں لکھیں لیکن اور آزاد نظم لکھنے والے شاعر اتنا بھی نہ کر سکے۔ آج بھی آزاد نظم لکھنے والے شاعروں کے ذہن میں شاعرانہ تخیل اور حقیقت کا رشتہ الجھا ہوا تھا اور میں دوسرے اسباب کے ساتھ ادبی بحران کی ایک وجہ اس کو بھی سمجھتا ہوں۔
اس سلسلے میں آج کی انگریزی شاعری کا سرسری تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ پروفیسر اے۔ سی پنٹو نے حال ہی میں ’’انگریزی شاعری میں بحران‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل کتاب لکھ ڈالی ہے جس سے انگریزی شاعری کی معیاری پستی اور خلفشار کا اندازہ ہوتا ہے۔ انگریزی شاعری کی جڑیں بڑی مضبوط اور گہری ہیں۔ اس کے باوجود وہاں کے نئے شاعر فن اور شعور اور حقیقت کو منسلک نہ کر سکے جو نئی انگریزی شاعری کی ذہنی افلاس کی دلیل ہے۔ نئی انگریزی شاعری کے نقاد اے سی وارڈ نے پوئٹری ریویو میں شعری بحران کا ذکر کرتے ہوئے نوجوان شعرا کی فن سے لاپروائی پربڑی کڑی تنقید کی ہے۔ نئے شعرا نے جنسیت، رہبانیت اور ابہام کی دلدل میں خود کو پھنسا رکھا ہے جس کی وجہ سے نئے شاعروں کی شاعری کی مقبولیت اتنی کم ہو گئی ہے کہ ان کا مجموعہ کلام تک شائع نہیں ہوتا۔
پہلی جنگ عظیم کے شاعر آڈن اور اسپنڈر’’انفرادی آزادی‘‘ کے تصور کی آڑ لے کر یاسیت، ناکامی اور ابہام کی وادی میں چلے گئے ہیں۔ دوسرے اس گروہ کے شاعروں کو اپنی ذات اور اپنے طبقاتی مفاد سے اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ ’’شاعرانہ جمود‘‘ کو توڑ سکیں اور اپنے ہی میں گم ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکی شاعری کی اور بھی زبوں حالت ہے۔ ایلیٹ اور پاؤنڈ کی ’’خالص شعری‘‘ تحریک کی سرگرمیاں سرد ہوتی جارہی ہیں اور ان کی شعری صلاحیت تاریکی میں گم سی ہو گئی ہے۔ سٹرڈے ویویو آف لٹریچر کے ۱۱ جولائی ۴۹ ء کے شمارے میں روبرٹ ہیلیر نے ایلیٹ اور اس کے گروہ کے بارے میں صاف صاف کڑی تنقید کی ہے۔ وہ لکھتا ہے، ’’ایلیٹ اور اس کی پارٹی لاٹن اور نئے جمالیاتی قدروں کے علم بردار، اصل میں ’’ادب برائے ادب‘‘ کو نئی شکل میں پیش کر رہے ہیں۔ شاعر اپنی ذاتی ناکامی، بزدلی اور بیمار ذہنیت کا مظاہرہ ’’خالص شاعری‘‘ کے روپ میں کر رہے ہیں۔‘‘
ایک تیسرا گروہ ترقی پسند شاعروں کا ہے جو بہت کم گوہے۔ فیض، مجاز، جذبی اور جاں نثار اختر اس گروہ کے خاص شاعر ہیں۔ گروہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان شعرا نے کوئی گروپ بنا لیا ہے بلکہ بحث کی آسانی کے لیے میں نے ترقی پسند شاعروں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ایک وہ شاعر جو آزاد نظم بھی لکھتے ہیں دوسرا گروہ جس نے اب تک آزاد نظم نہیں لکھی۔۔۔ فیض ترقی پسند شاعری میں ایک مرتبہ کے مالک ہیں۔ ان کی چند نظموں نے ایک نئے شعری اسکول کی بنیاد ڈالی ہے۔ رقیب، موضوع سخن، تنہائی، ہم لوگ اور ’سحر‘ اپنے موضوع اور شعری فضا کی حیثیت سے اعلیٰ درجہ کی نظمیں ہیں۔ انہوں نے ترقی پسند شاعری کو نیا لب ولہجہ اور سوزوگداز عطا کیا ہے۔ لیکن میں انہیں بھی بڑا شاعر نہیں مانتا، اس لیے کہ فلسفیانہ شعور اور فکری عناصر ان کے یہاں بھی بہت کم ملتے ہیں۔
دوسرے ان شعرا کو نیم رومانی بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان شاعروں کے پاس اتنا محدود خزانہ تھا کہ وہ چند نظموں کے بعد خالی ہو گیا۔ مجاز اور جذبی بڑی حد تک خاموش ہیں۔ فیض نے البتہ جیل میں نئی نظمیں اور غزلیں کہی ہیں جن کی وجہ سے ان سے پھر ترقی پسند شاعری کو امیدیں وابستہ ہو گئی ہیں۔ فیض بہت مصروف قسم کے شاعر ہیں۔ وہ ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر بھی تھے۔ اس لیے انہوں نے شاعری کو ’’کبھی کبھی‘‘ کے خیال سے جاری رکھا تھا۔ مجاز اور جذبی کا خزانہ بہت جلد خالی ہو گیا۔ اس لیے نئے ترقی پسند شاعروں کے سامنے ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ آخر ہمارے شاعر اتنی جلدی تھک کیوں جاتے ہیں اور وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا اپنے کو دہرانے لگتے ہیں جو اور بھی مہلک ہے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ علمی سطحیت ہے۔ ترقی پسند شاعر علمی ریاضت اور اکتساب فن سے اپنا دامن بچائے رہتے ہیں اور ذہانت کے بل بوتے پر دو ایک اچھی نظمیں کہہ کر شاعری کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔
ایک اور اہم مسئلہ ترقی پسند شاعری کے سامنے درپیش ہے، یہ ہے عوامی شاعری کا مسئلہ، جو ترقی پسند شاعروں کے لیے درد سر بھی ہے اور مرہم بھی۔ ترقی پسندشاعر جس زبان میں اپنے نغمات اور افکار نظم کرتے ہیں اس کو سمجھنے اور پڑھنے کا بڑا محدود طبقہ ہے اور بعض حلقوں میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ عوام تک پہنچے کے لیے گیت کی زبان یا دیہاتی بولی استعمال کی جائے۔ اس صورت سے عوام کے سیاسی شعور اور سیاسی بیداری کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ مجھے اس تحریک کی افادیت سے انکار نہیں ہے البتہ یہ ادبیت اور فن کے نظریے سے ادبی تحریک سے زیادہ سماجی اور سیاسی تحریک بن جاتی ہے۔ مختلف بولیاں شمالی ہند کے گاؤں اور دیہات میں رائج ہیں۔ پوربیہ دوہے اور برہے کی شکل میں نئے خیالات اور نئے سماجی اور سیاسی مسائل کو نظم کرنا اور سہل جذبات نگاری کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دور تک پہنچنا بڑا کارنامہ ہے۔
مجھے مشہور نقاد آل احمد سرور سے اس موضوع پر مفصل بحث کا موقع ملا تھا اور مجھے ان کی رائے سے بڑی حد تک اتفاق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’’مقدس تجربہ‘‘ ہے لیکن یہ ایک طرح سے نیچے لانا ہوگا۔ اس کے ترقی کے امکانات بہت ہیں اور اس نئے شعری تجربے سے اردو شاعری کو بہت کچھ مل سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی ادبی اہمیت بہت کم ہے۔ اس لیے کہ بلند فکری خیالات کے لیے بولی میں الفاظ نہیں ملیں گے۔ دوسرے بولی کی شاعری کا دارومدار موسیقی پر ہوتا ہے اور موسیقی ہی سے گیت اور دوہے جنم لیتے ہیں، اس لیے گانے کا طرز اور انداز کی اہمیت معنویت پر فوقیت رکھتی ہے۔ فکری عناصر کا بوجھ مزاج نہیں سنبھال سکتا اور بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہو جائےگی۔
وامق جونپوری نے ایک طویل نظم ڈرامائی انداز میں لکھی ہے۔ اس نظم کے کئی حصوں میں شعری خوبیاں بھی ملتی ہیں لیکن مجموعی طور سے نظم بڑی ہلکی ہے۔ انہوں نے یہ نظم صرف دیہات اور گاؤں کی فضا کے لیے لکھی ہے اور بغیر موسیقار کے اس کی شعری خوبیاں اجاگر نہیں ہو سکتیں۔ یہ سوال بھی کہ شعری ڈرامے اپنے مقصد کو کہا ں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ اس لیے کہ آج ڈراموں کا رواج سنیما کی کامیابی کی وجہ سے بہت کم ہو گیا ہے اور آج کل ڈرامے اسٹیج کرنے کے لیے بہت ہی کم لکھے جاتے ہیں بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ زیادہ تر ڈرامے پڑھنے کے لیے لکھے جا رہے ہیں۔ انگلستان میں بھی شعری ڈراموں کا رواج کم ہو گیا ہے اور شعری ڈرامے تو ادبی دنیا سے غائب ہو گئے ہیں۔ آج وہ ڈرامے کامیاب ہو سکتے ہیں جن میں گانے اور گیت تو ہوں لیکن مکالمے نثر میں ہوں۔
ترقی پسند شاعری میں یہ تجربہ حال ہی میں شروع ہوا ہے اور اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کوئی پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اقبال اور جوش کی زبان پڑھے لکھے طبقے کی زبان ہے۔ حالی کا مسدس ’’ہندوستانی زبان‘‘ کے بہت قریب ہے۔ یوں تو میروغالب کی چھوٹی بحر کی غزلیں عام فہم ہوتی ہیں لیکن ان سے پورا لطف اٹھانے کے لیے علمی اور ادبی پس منظر کی ضرورت ہے اورہمار ے ’سخن فہم‘‘ طبقہ سے آگے ان نازک خیالات کے گوشے نہیں کھلے ہیں اور شعری مذاق ابھی عام نہیں ہو سکا ہے۔ بظاہر موسیقی کو کون ایسا ہے جو پسند نہیں کرتا لیکن جہاں فن کا ذکر آیا وہاں دلچسپی کا خاتمہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں نظیر اکبرآبادی کی مثال ہمارے لیے اس مسئلہ پر کافی روشنی ڈالتی ہے۔
احتشام حسین کی کتاب تنقیدی جائزے میں نظیر اکبرآبادی کا ذکر ملتا ہے ورنہ مولانا محمد حسین آزاد نے انہیں شعرا کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی زبان کے مسئلہ پر کچھ نہیں لکھا ہے اور یہ ایک اہم سوال ہے کہ برج بھاشا یا پوربی ایک زبان کی حیثیت رکھتی ہے یا نہیں؟ البتہ انہوں نے ایک اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں عوام کا تصور کیا ہے؟ بغیر اس تصور کی وضاحت کے اس مسئلہ پر کوئی قطعی رائے نہیں دی جا سکتی، اس لیے اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں،
’’بیسویں صدی میں عوام کے لفظ نے مفہوم کے اعتبار سے جو وسعت اختیار کر لی ہے اور سیاسی اصطلاح میں جن بیدار اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی طرف اس لفظ سے اشارہ ہوتا ہے، وہ نظیر یا اس وقت کے کسی شاعر کے ذہن میں نہیں تھا۔ نظیر کے یہاں عوام سے مراد تمام عام لوگ ہیں چاہے وہ پیشہ ور ہویا کوئی اور۔۔۔‘‘
آج عوام کا تصور بھی ایک بحث طلب مسئلہ ہے۔ جمالیاتی قدروں کے علم بردار عوام کے لیے ادب کو بنیادی طور سے غلط سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عوام کبھی اتنی نازک اور گہری باتوں اور شعری لطافتوں کو سمجھنے کے اہل ہو ہی نہیں سکتے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ ان کے ذہن میں عوام کا تصور جاہل اور نابلد طبقہ کا آتا ہے اور وہ غیرشعوری طور سے طبقاتی سماج کی تعلیم اور اس کی برکتوں کو اپنے ہی تک محدود سمجھتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں عوام کا تصور کسی ایک طبقے کا خاص تصور نہیں ہے۔ لینن نے کہا تھا کہ کوئی فرد کسی ماحول میں پیدا ہونے سے اس طبقے کا نہیں ہو جاتا جب تک اس کا شعور اور عمل بھی اس کی نمائندگی نہ کریں۔ آج عوام کے خیال سے ذہن میں انسانوں کا ایک ہجوم گھوم جاتا ہے۔ متوسط طبقے کے افراد اور نچلے طبقے کے افراد کے علاوہ دانشوروں کا حلقہ بھی عوام کے تصور میں آتا ہے اور وہ تمام افرا د جو بنیادی شہری حقوق اور جمہوری اصول اور ایک غیرطبقاتی سماج کا دھندلا سابھی تصور رکھتے ہیں اور اپنے کوکسی نہ کسی طرح اس تحریک سے وابستہ رکھتے ہیں اور عوامی جمہوریتیں قائم کرنا چاہتے ہیں، عوام کے تصور میں آتے ہیں۔
بورژوا سوشیالوجسٹ ٹوائن بی نے سماج کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، جن کی بنیاد ذریعہ پیداواری کی ملکیت نہیں بلکہ ایک ’’تخلیقی اقلیت‘‘ اور وہ تمام افراد جو تخلیقی کاموں سے بہت دور ہیں اور رہنمائی کے ہر وقت ’’محتاج‘‘ رہتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ اکثریت ’’نقش قدم‘‘ پر چلنا جانتی ہے اور رہ گذر کو بدلنا اور اس کی منزل متعین کرنا تخلیقی اقلیت کا کام ہے۔ اس کے ذہن میں تخلیق اور زندگی کے رشتے الجھے ہوئے اور وہ سماجی تبدیلیوں اور تغیر کا غیر منطقی تصور رکھتا ہے۔ یہ بڑے بڑے عالم معاشی قدروں کی انسانی ارتقا میں اہمیت کو نظرانداز کر جاتے ہیں۔ طبقاتی آمیزش اور جدوجہد کے تیز دھاروں سے یہ مکمل بے خبری ان کے طبقاتی مفاد کو بےنقاب کرتی ہے۔
عوامی شاعری کا مسئلہ ابھی ابتدائے منزل میں ہے۔ شاعروں نے تجربے شروع کیے ہیں۔ گیت کو بھی صنف سخن قرار دیا جا چکا ہے اور عوامی شاعری کے بارے میں کوئی اصول واضح کرنے سے پہلے ترقی پسند نقادوں کویہ دیکھنا چاہئے کہ وقت کے تقاضوں کو یہ نئے دوہے اور آلہا اوول اور روپک کہاں تک پورا کرتے ہیں۔ ابھی ان کی فنی نقطہ نظر سے جانچتے ہوئے ہمت افزائی اور نرم روی کی ضرورت ہے۔ ویسے اب تک تین گیت آج بھی ذہنوں میں گونجتے رہتے ہیں۔ وامق کا ’’بھوکا ہے بنگال‘‘ مخدوم کا ’’آزادی کے پرچم تلے‘‘ امر شیخ کا ’’نیا ترانہ۔‘‘ انہیں جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اس شاعری کے ناقداصل میں دیہات اور گاؤں کے وہ افراد ہیں جن کے لیے یہ نغمہ بنایا جا رہا ہے۔ اس مسئلہ پر کوئی قطعی بات نہیں کہی جا سکتی، جب تک کہ بولی اور دیہاتی گیت کے مسائل کو اچھی طرح نہ سمجھا جائے۔
ان مسائل پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج اعلیٰ درجہ کی شاعری کے لیے فلسفہ وتاریخ کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ سائنٹیفک نظریہ حیات کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ فلسفیانہ گہرائی شاعری میں عظمت پیدا کرتی ہے۔ فلسفہ شاعر کے شعور کا جزو اور عملی زندگی کی صداقتوں کو نمایاں کرتا ہے۔ چونکہ فلسفہ بھی ادب کی طرح معاشی بنیادوں ہی کے اوپر وجود میں آتاہے اور فلسفہ اور تاریخ کے مطالعہ کو سائنٹیفک نظریہ سے سمجھنا ضروری ہے۔ سائنٹیفک نظریہ آج سائنس کے میکانکی تصور کا نام نہیں ہے بلکہ حالات کو تاریخی جدلیت اور مادی جدلیت کے اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش ہے۔ نئی سائنسی ایجادات نئی قدروں کو جنم لینے میں کہاں تک مدد دیتی ہیں۔ پروفیسر ویڈنگٹن (PROFESSOR WADDINGTON) نے اپنی کتاب SCIENTIFIC ATTITUDE (سائنٹیفک رویہ) میں اس مسئلہ پربہت اہم باتیں کہی ہیں۔ ایک شاعر کو آج بڑی شاعری لکھنے کے لیے بڑی ریاضت اور اکتساب فن کے ساتھ زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔
گر آج انسان اپنی محنت کے کارناموں، سائنس کی برکات سے فریب اور بشارت دونوں سے آزاد ہوکر مستقبل کا ایک بہتر یقین پیدا کر سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ شاعری نئے یقین سے ہم آہنگ نہ ہو۔ لیکن اس صورت میں اسے جذباتی تحریک کے ساتھ ساتھ ادراک کے طریق سے گزرنا ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.