آج کی کشمکش انسانی زندگی کے سب سے مشکل مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔ یہ ٹوٹی ہوئی ’’قدریں‘‘ اور بکھری ہوئی ’’حقیقت‘‘ کی آویزش متضاد تصورات حیات کو توڑتی ہوئی خون کے ایک ایک قطرے میں سما گئی ہے ۔ یہ خیروشر کی، اشراکیت اور سرمایہ داری کی، مکمل فرد اور پورے سماج کی کشمکش نہیں ہے بلکہ زندگی میں معنی کی تلاش اور مجروح شخصیت کی زخمی فکر کی آواز سے پیدا ہونے والی نئی جان لیوا کشمکش ہے۔ یہ سکون میں بے چینی اور اضطراب میں سکون کی جستجو سے آگے کی بات ہے۔ اب انسانی ذہن چھوٹے سورج کی چمک دمک سے متاثر ہونے والا نہیں ہے۔ آج کا ذہن روشنی میں تاریکی کی آمیزش کو تلاش کر چکا ہے۔
(۱)
اس منزل پر پہنچنے سے پہلے کی داستان قیامت کے روزوشب کی ’’لمحاتی کہانیوں‘‘ سے کم دلچسپ نہیں ہے، اس لیے ا س کا دہرانا نامناسب نہ ہوگا۔
قدر کسے کہتے ہیں؟ ظاہر ہے کسی فلسفیانہ تصور کی ایک تعریف ممکن نہیں ہے چہ جائیکہ قدر کی۔ لیکن ہر زمانے میں مسلسل ناتمامی کے باوجود انسانی ذہن نے تعریف تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ تعریف کی جستجو ہی ’’دائمی قدروں‘‘ کے مفروضے کو رد کرنے کے لیے کافی ہے مگر رد کرنے کے بعد بھی فیصلہ دینے کی منزل دور ہی رہتی ہے، اس لیے کہ ایک طرف انسانی ذہن ’’دائمی قید حانے‘‘ سے بچنا چاہتا ہے تو دوسری طرف اکثر (ہمیشہ نہیں) عارضی کو دائمی کی صورت دینے کا خواہاں بھی رہتا ہے۔ جب تک ہم یہ ’’تضاد‘‘ نہیں سمجھیں گے، تصورات کی آویزش اور آمیزش کی داستان کے مرکزی خیال کو گرفت میں نہیں لا پائیں گے۔
ارتقا کے ماننے والے موجودہ کو پچھلے اور مستقبل کو موجودہ پر فوقیت دینے پر ایمان سا رکھتے ہیں اور اس تقابلی مطالعے کے لیے ایک ہی پیمانہ استعمال کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ آیا انسان پہلے سے بہتر ہے کہ نہیں اور انسان پہلے سے بہتر کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے؟ معاشی حالات، سماجی ترقیوں اور زندگی کی بیشتر سہولتوں کے اعدادوشمار کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ انسانی ترقی کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ذہنی کرب، مہذب درندگی (جیسے ایٹم بم کی ایجاد اور استعمال) روحانی خلا۔۔۔ فاصلہ پر سائنس بڑی حد تک فتح پا چکی ہے مگر آدمی کے اپنے ہمسائے اور قریبی دوستوں تک سے فاصلے بڑھ گئے ہیں۔۔۔ قسم کی باتیں کرتے ہیں تواکثریت انسان کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دینے کے باوجود کچھ سوچتی ضرور ہوگی کیونکہ فلسفی ارسطو (جس نے تصور دیا تھا کہ آدمی عقلی حیوان Rational Animal ہے) سے کارل مارکس تک ’’انسانی عظمت‘‘ کے ترانے گاتے رہے ہیں شاید اسی لئے پروفیسر فنڈلے Findlay نے اپنی کتاب ’’ارادہ اور قدریں‘‘ میں ارادہ پر تفصیلی بحث کی ہے ۔
یعنی ہم اکثر ارادے کو قدرکی صورت دیتے ہیں اور ہمار ا ارادہ ایک طرف شعوری خواہش کوعملی صورت دینا چاہتا ہے تو دوسری طرف اس کو معنی پہنانے کی کوشش اس خواہش کی نفی کرنے کے جذبے کو دبا دیتی ہے۔ اس طرح ہم نتیجے تک پہنچتے پہنچتے زندگی کو سیاہ اور سفید میں دیکھنے کی آرزو میں سیاہ وسفید کو الگ الگ کر دیتے ہیں۔ گلبرٹ رائل Gilbert Ryle (ذہن کے تصور کا مشہور مصنف) ارسطو کے ’’عقلی حیوان‘‘ کو منطقی طریقے سے پاش پاش کر دیتا ہے۔ یوں کہ انسان حیاتیاتی طور سے حیوان ہی کی ایک بہتر شکل ہے اور عقل جو اسے حیوانات سے بہتر بناتی ہے اس کے استعمال کے مختلف طریقے اسے (انسان) حیوان سے بدتر بھی بنا چکے ہیں اور بنا رہے ہیں۔ اس کے فورا ًبعد سوال صحیح اور غلط کاآتا ہے یعنی عقل اگر صحیح طریقے سے استعمال کی جائے تو صحیح نتائج تک پہنچاتی ہے۔
اس مفروضے میں دو چھوٹے چھوٹے پرفریب لفظ ہیں۔ ایک صحیح استعمال اور دوسرا نتائج۔ اگرانسانی ذہن کی بناوٹ Mechanism کا پورا ناقابل تغیرعلم ہو سکتا تو صحیح استعمال اور نتائج کی بحث کا حل بے حد آسان ہوتا مگر دشواری یہ ہے کہ ایک ہی مقصد کے حصول کے کئی راستے ہوتے ہیں اور یہی نہیں وہ ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں، اس طرح ہم اس الجھاوے سے دوچار ہوتے ہیں جسے زندگی کی پیچیدگیاں کہا جاتا ہے مگر’’مرض کی تشخیص‘‘ علاج کی طرف سب سے اہم قدم سمجھا گیا ہے۔ اس لیے اگر راستوں کے تصادم کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کریں تو ایک طرح کی مفاہمت حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مفاہمت حاصل کرنے کے بعدجستجو کی لگن میں کچھ جذباتی کمی آجاتی ہے اور اس میں یہ نکتہ پنہاں ہے کہ ’’انتہاپسندی‘‘ ایک طرف خیالات کو تندی بخشتی ہے تو دوسری طرف اسی ’’انتہاپسندی‘‘ سے عقائد کی جڑیں گہری اور مضبوط (بظاہر) ہوتی ہیں اور عقائد کی تشکیل میں اقدار کی بڑی کارفرمائی ہے۔ انتہا پسندی میں مفاہمت بے معنی معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی کتنی بڑی سچائی ہے کہ مفاہمت کے بغیر زندگی ایک دن بھی نہیں ’’زندہ‘‘ رہ سکتی یعنی دو متضاد قوتیں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہونے کے باوجود اگر اس خطرے سے آگاہ ہو جائیں کہ دونوں ختم ہو جائیں گی تو مفاہمت کو نہ صرف قابل قبول سمجھتی ہیں بلکہ بقا کا ’’واحد‘‘ راستہ گردانتی ہیں اوراس منزل پر پہنچ کر انسانی ذہن توازن کے مختلف معنی تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس طرح زندگی ایک دائرے سے دوسرے دائرے میں فروغ پانے لگتی ہے۔
ہیگل نے اسی لیے جدلیات کا تصور پیش کیا تھا اور مارکس نے تاریخی جدلیات کا تصور یہیں سے لے کر نئے معنی پہنائے مگر مارکس نے بھی وہ زیادتی کی جو فلسفیوں (اکثر) نے بحث کو ختم کرتے ہوئے فیصلہ دینے کی دھن میں کی ہے یعنی ساری یا بیشتر تبدیلیوں کو معاشی اقدار کے اختیار میں دے دیا لیکن اس کے باوجود مارکس کی عظمت اس میں ہے کہ اس نے مزدوروں کو متحد کرتے ہوئے طبقاتی سماج کی نشاندہی کی تھی (یہ الگ بات ہے کہ خود اشتراکی ممالک میں نئے حکمراں طبقے نے جنم لے کر مارکس کے اس خواب کو بھی پاش پاش کر دیا جیسا کہ ملون جیلاس نے اپنی کتاب نئے طبقے THE NEW CLASS میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے)
مارکس نے اپنے فلسفہ کو مکمل اور حرف آخر نہیں سمجھا تھا مگر جیسا کہ مذاہب کے پیروؤں نے کیا تھا کہ اپنے پیغمبر کے ایک ایک حرف کوحرف آخر سمجھا تھا اور اس کے بغیرعقائد کی پختگی ممکن بھی نہ تھی اور نہ ہے، مارکسزم کے ساتھ بھی یہی رویہ کم وبیش ہوااور سماج کو سمجھنے اور سمجھانے (جیسا کہ مارکسزم کا اولین تصور تھا) کے طریقوں کو عقائد کی شکل دے دی گئی تھی اور اس طرح ’’باغیوں‘‘ نے اپنے ’’خدا‘‘ (یعنی تاریخ) ’’پیغمبر‘‘ (سیاسی رہنما جو سب سے صحیح تفسیر کرے اور عوام کی رہنمائی کرے یعنی کارل مارکس، ’’خلیفہ‘‘ (جو اسی فلسفہ کو عملی صورت دے اور اپنے بعد آنے والے رہبروں کا سلسلہ قائم کرے جیسے لینن اور اسٹالن) ’’امت‘‘ (وہ عوام جو اس فلسفہ کو اپنا ایمان سمجھیں یعنی پرولتاری طبقہ) کی ترتیب کرلی اور پھر ملک ملک میں اقتدار کی جنگ نے نئے نئے رہنماؤں کو جنم دیا اور اشراکیت کا عالمی تصور بھی ’’قومیت‘‘ کی نذر ہو گیا۔
یعنی پتہ یہ چلا کہ سیاسی اقتدار نے اخلاقی اور سیاسی قدروں کی تشکیل میں سب سے نمایاں حصہ لیا ہے۔ اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے مذہبی رہنماؤں سے لے کر سیاسی بازیگروں تک نے ہرقسم کے مظالم کو روا رکھا ہے اور انسانی تاریخ ایک معنی میں اقتدار کی جنگ کی تاریخ کہی جا سکتی ہے (صرف ایک ہی معنی میں۔)
قدر کو ایک خوبی، ایک احساس اور معاشی قوت کے مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ فلسفیوں نے بحث کی خاطر بنیادی اور فروعی اقدار کی تقسیم بھی رکھی ہے مگر جب تک یہ تسلیم نہ کیا جائے کہ دائمی اور اضافی قدریں ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں اور ایک دوسرے کی جگہ بھی لے لیتی ہیں جیسے سچائی اگر دائمی قدر ہے تو صرف ایک معنی ہوں گے اور ہر حالت میں اس کی تلاش ہی انسانی زندگی کا مقصد قرار دیا جائےگا مگر ظاہر ہے کہ مذاہب تک نئی ترتیب کے قائل ہیں۔ اس طرح وہ مانیں یا نہ مانیں لیکن حالات کی سخت گیری کے قائل ضرور ہو جاتے ہیں۔
بحث گھوم پھر کے وہی سوالات دہراتی ہے۔ ظاہر ہے کہ مارکسزم اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ تاریخ ایک محور پر گھومتی رہتی ہے اور اس کو عقیدے کے طور سے ماننے والے بھی ثابت نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہم بحث کی اس منزل میں داخل ہوتے ہیں جہاں مکمل سچائی بے معنی اور حقیقت یاحقائق کے ایک معنی کی جستجو بھی بے معنی معلوم ہوتی ہے۔ انسانی ذہن کا یہ تضاد ہی جدیدیت کی نشاندہی کرتا ہے، اس لیے کہ تشکیک ہی انسانی ذہن کی وہ خوبی یا خصوصیت قراردی جا سکتی ہے جو ہر طرح کے عقائد کے پیچھے جانے کی سعی کرتی ہے اور معنی میں بے معنویت اور مقصد میں اقتدا رکی جنگ کی چھپی پرچھائیاں ڈھونڈ لیتی ہے۔ انسانی زندگی کا سب سے بڑا DILEMMA یہ ہے کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ’’گوڈو‘‘ (GODOT) نہیں آئے گا، اس کا انتظار کرتا رہتا ہے اور اس طرح وہ کرب انگیز سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ انتظار یعنی امید یعنی خوابوں کی تلاش اور ان کے حصول کی جدوجہد۔
اقتدار کی کشمکش ادبی دنیا میں ایک محرک بن جاتی ہے ۔ چقماق کے ٹکراؤ سے چنگاری جنم لیتی رہتی ہے اور ایک طرف یہ کشمکش سوہان روح بن جاتی ہے تو دوسری طرف اسی کی وجہ سے ادبی تخلیقات میں جان بھی پیدا ہوتی ہے، اس لیے اقتدار کی کشمکش سے نجات حاصل کرنا تخلیق کے دائر ے نکل کر نروان کی طرف پہلا قدم سمجھا گیا ہے جو شاید ہی کوئی فنکار حاصل کرنا چاہےگا۔ اس نروان کی آرزومندی خود اس کشمکش کو تیزتر کرتی رہتی ہے۔ اسی لیے جدید ذہن رومانیت اور جذباتیت کی شدید مخالفت کرتا رہا ہے کیونکہ رومانویت کشمکش کو ترک کرکے سکون کی متلاشی رہتی ہے اور سکون کو حاصل حیات سمجھتی ہے۔ یعنی زندگی جو ایک معنی میں مسلسل کشمکش (اقداریا آرزوؤں کی) کا ہی نام ہے، اس کا حاصل سکون قرار دیا جانا خود اسی متضاد جذبے کی ترجمانی کرتا ہے جسے انسانی رویے کے سماجی نام سے یاد کیا گیا ہے۔۔۔ مگر یہ دور تو اقدار کے پاش پاش ہونے اور اس خلا کا ہے جو انسانی زندگی میں پہلی بار در آیا ہے۔۔۔ اس کی کہانی آگے سنئےگا۔
(۲)
ترقی پسندی کی بھی ’’قدر‘‘ کی طرح مختلف اور متضاد تعریفیں ملتی ہیں مگران میں قدر مشترک جورشتہ ہے اسے سماجی نظریے کی اولیت کہیے۔ ترقی پسندی اشتمالیوں کی جاگیر نہیں ہے مگر اس کا کیا علاج ہے کہ یہ اصطلاح بڑی حد تک ان ہی کے لیے استعمال کی گئی ہے اور اردو میں اس کا سب سے زیادہ استعمال ان سیاسی ادیبوں اور تہذیبی کارکنوں نے کیا ہے جو ترقی پسند تحریک سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہے ہیں۔
آج اس کے کٹر ماننے والے بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس تحریک کی ابتدا سے لے کر خاتمہ تک اسے ایک سیاسی پارٹی، ایک عظیم اشتراکی ملک اور ایک عظیم فلسفی کی پشت پناہی حاصل تھی اور رہےگی۔۔۔ پارٹی کمیونسٹ۔۔۔ ملک سوویت روس اور فلسفی کارل مارکس۔ لیکن اب مارکس کے فلسفہ سے زیادہ مختلف روسی اور چینی تفسیریں ہی احکام کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ تو ہوئی ترقی پسند تحریک کے بارے میں ایک بڑی موٹی سی بات مگر ترقی پسندی کے اجزائے ترکیبی کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔
ترقی پسندی فرد کوشہری سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتی، یہی نہیں ادب کو سماجی ترقی میں اسی طرح استعمال کرتی ہے جیسے سرمایہ دار مزدور کے استحصال سے اپنے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں یعنی سماجی بھلائی اور بھلائی کیسے ممکن ہے، اس کا مکمل تفصیلی پروگرام پارٹی بناتی ہے اور اسے ادب میں عملی جامہ پہنانا ادیب کا کام ہے۔ (راجندر سنگھ بیدی نے اپنے خاکے ’’خواجہ احمد عباس‘‘ میں لکھا ہے سل (CELL) میں ادبی احکامات پہلے طے ہو جاتے تھے پھر انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں ان کو منوا لیا جاتا تھا۔)
ادب کے سلسلے میں ترقی پسندوں کا کیا رویہ رہا ہے؟ کبھی بھی آزاد خیال ادیبوں کو ہر طرح کے تجربات کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا یعنی کمیونسٹ اور کمیونسٹ دشمن دونوں طرف ادبی اداروں میں ایک ہی طرح کا رویہ کم وبیش اختیار کیا جاتا تھا اور ہے۔ دشواری تو اس وقت آتی ہے جب دونوں انسانیت کی عظمت کے ترانے گاتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ہر مذہب انسان کو ’’جنت گم شدہ‘‘ کی طرف واپس لے جانے کے لیے آیا ہے اور اس کے پیروایک دوسرے کو قتل کرکے ’’جنت‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ترقی پسند ی ادیب کو ہمیشہ ایک شہری سمجھتی ہے ایک فرد نہیں جو سماجی قوانین کی پرواہ کیے بغیر لکھ سکتا ہے اور جس کا فن خود اس کی ذات کے جہنم میں فروغ پاتا ہے۔
ادیب کو کیا کرنا چاہئے، کے سلسلے میں مختلف ترقی پسندوں کے اقوال کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر مجنوں گورکھ پوری کی اس سلسلے میں بڑی اہمیت تھی اور سردار جعفر ی کی تاریخی دستاویز یعنی ترقی پسند ادب کا انتساب انہی کے نام کیا گیا تھا۔ مجنوں صاحب فرماتے ہیں، ’’ادب میں اگر واقعیت نہیں ہے یعنی اگر اس کی بنیاد ٹھوس حقیقتوں پر نہیں ہے تو وہ صالح ادب نہیں ہو سکتا۔‘‘ (چوتھی بار۔۔۔ ادب اور زندگی ص ۱۸۴)
اورآگے چل کر واقعیت کی تفصیل گورکی کے حوالے سے پیش کی ہے ۔ ملاحظہ ہو، ’’اشتراکی واقعیت کا فرض ہے کہ وہ انسان کو عمل کی حالت میں پیش کرے اور اس کا مقصد یہ ہوکہ انسان کے بہترین انفرادی میلانات کو اجاگر کرے اور ان کی ترقی میں مددگار ثابت ہو، تا کہ انسان قدرت کے سارے عناصر پر فتح پاکر اس کرہ زمین کی زندگی کو ایک پائے جو اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے مطابق خاطرخواہ بدل کر تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک عظیم الشان مسکن بن جائے۔‘‘ (چوتھی بار۔۔۔ ادب اور زندگی ص ۱۸۸)
مجنوں صاحب نے ٹھوس حقیقتوں کا استعمال تو کیا ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ یہ کیا ہیں اور ان کی جانکاری فرد خود اپنے تجربوں سے کرتا ہے یا کسی کی رہنمائی میں کی جاتی ہیں۔ دوسرے اقتباس سے یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ’’واقعیت‘‘ کا اظہار انسانی مسرت کی تلاش قرار پاتا ہے اور ادیب کا مقصد ان ہی جذبات اور خیالات کی ترجمانی کرنی ہے جو اس کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔۔۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ادب کو انسان کی مسرت کی تلاش کا ذریعہ سمجھتے ہوئے بھی ادب ک وصرف آلہ کار سمجھا گیا، تو گھوم پھرکر ادیب ایک بنے بنائے ہوئے راستے پر چلتا رہے اور کسی نہ کسی طرح اس دنیا کو جنت بننے میں مدد دیتا رہے ورنہ وہ صالح ادیب نہیں ہے۔ مجنوں صاحب تو کلاسیکی ادب کے بڑے رسیا ہیں اور وہ بھی وکٹورین اخلاقی نظریات کے خاصے حامی نظر آتے ہیں مگر فراخ دل بھی ہیں اور ترقی پسند اور نئے ادب کے سلسلے میں بحثوں کو دو نسلوں (صفحہ ۲۱۱) کا جھگڑا سمجھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک جملے میں ترقی پسند ادب کی تعریف بھی کرتے ہیں، ’’ترقی پسند ادب سب کچھ ہے بے وقت کا راگ نہیں۔‘‘ (ادب اور زندگی ص ۲۱۱)
یعنی وقت کا راگ ہونا ہی ترقی پسندی ہے۔ ترقی پسندی کے اجزائے ترکیبی میں ’’وقت‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور وقت اسی تاریخ جدلیت کا ایک اہم حصہ ہے جسے مارکس نے تقریباً ’’خدا‘‘ یا نشونما کی قوت کی جگہ استعمال کیا ہے۔ تقریباً میں نے اس لیے کہا کہ مارکس تنگ نظر نہ تھا اور آج ایرخ فرام نے اس کی اولین تحریروں سے ’’روحانی آدمی‘‘ بھی اس کے تصورات میں ڈھونڈ نکالا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مارکس کے ’’اصلی‘‘ پیرو یہ کبھی نہیں مان سکتے۔ سردار جعفری جنہوں نے ترقی پسند تحریک میں (LITERATY COMMISSAR) ادبی کمیسارکارول ادا کیا تھا ان کا بیان ملاحظہ ہو، ’’جو چیز مفید نہیں وہ حسین نہیں ہو سکتی۔‘‘ 1 (پہلی اشاعت ترقی پسند ادب ص ۲۳)
’’میری مراد حسین موضوع سے وہ موضوع ہے جس کے ذریعہ انسانوں کی زندگی کو خوبصورت بنایا جا سکے، جس کا کوئی سماجی مقصد ہو، اسے میں موضوع کی معنویت کہوں گا۔ معنویت حسین نہیں ہوگی تو موضوع حسین نہیں ہوگا اور موضوع حسین نہیں ہوگا تو ادب حسین نہیں ہو سکتا۔‘‘ (پہلی اشاعت ترقی پسند ادب ص ۷۵)
سردار جعفری نے یہ اس وقت لکھا تھا جب وہ انتہاپسندی کے عروج پر تھے۔ سردار جعفری کو شکست خواب کا احساس تو ہے مگراس ’’المیہ‘‘ کے بیان کی جرأت نہیں ہے کہ کیسے ’’انقلاب کا شیش محل‘‘ پا ش پا ش ہو گیا ہے؟ کیسے سب سے اچھا اشتراکی اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ایک ظالم عیار بن گیا تھا؟ کیسے بےگناہ ادیبوں اور شاعروں کو نیست ونابود کر دیا گیا تھا اور کیا اشتراکی سماج میں کبھی بھی خیال واظہار وبیان کی آزادی حاصل ہو سکتی ہے؟ جیسا کہ کسی نے کہا ہے ’’انقلاب سے نیازمندی‘‘ تک کا سفر طے کر چکے ہیں لیکن ان میں پبلونرودا (جس کا ان کی شاعری پر گہرا اثر تھا) کی طرح یہ کہنے کی جرأت نہیں ہے۔
اپنے راز کو افشا کردو
پوری سچائی سے
تم اسے ضبط نہ کرو
کہیں یہ گھٹ کر سنگین جھوٹ نہ بن جائے
میں کسی اسٹیبلشمنٹ سے جڑا ہوا نہیں ہوں
میں کچھ بھی نہیں دے سکتا
میں اپنے مبہم نغمے ہی سے لو لگائے رہتا ہوں
میرے لئے یہی کافی ہے
(نظم ’’صداقت‘‘ کے آخری مصرعے۔ ایورگرین ریویو۔ دسمبر ۶۶ء)
ظاہر ہے یہ کہنے کے لیے صرف جرأت ہی نہیں فنکارانہ ایمانداری بھی چاہئے۔ ترقی پسندی انسانی زندگی کو’’حسین سے حسین تر‘‘ بنانے کی کوشش میں تنگ سے تنگ تر کرتی گئی جیسا کہ مذاہب کے ساتھ حشر ہوا کہ وہ خدا کے بندوں کو راہ راست پر لانے کے لیے آئے تھے مگر آہستہ آہستہ انسانوں پر اس کے دروازے بند ہوتے گئے اور یہ چھوٹی دنیا بہت سے چھوٹے چھوٹے فرقوں میں بدل گئی۔ مائیکل پولیانی نے اپنے مضمون ’’جدید ذہن‘‘ میں لکھا ہے، ’’یہ جدید ذہن کی تشکیک ہی کے حملے تھے جنہوں نے مسیحی اخلاقی آدرشوں کو کلیسا کی گرفت سے آزاد کرایا۔ انسان اور سماج کے نئے رشتوں کی جستجو کی۔‘‘ (انکومنٹر۔۔۔ مئی ۱۹۶۵ء)
مطلب صرف اتنا ہے کہ تشکیک ہی نے بیشتر اپنے سوالات کے ذریعے اقتدار کی موٹی موٹی زنجیروں کو توڑنے کی کبھی ناکام اور کبھی کامیاب کوشش کی ہے اور یہ جدید ذہن ہی کی برکت ہے کہ وہ انسانی ذہن کو ہر قید خانے سے (خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی) نجات دلانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ ’’اشتراکی حقیقت نگاری‘‘ پر اب بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس لفظ کے استعمال نے نہ جانے کتنے ادیبوں کو روس، چین اور یورپی مشرقی ممالک میں جیلوں میں ڈال دیا تھا اور ان مظلوموں کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اس کو اچھی طرح سے سمجھ لیں۔ والیری ازورف VALERY OZEROU نے اس کی پیدائش کی صحیح تاریخ بھی لکھی ہے (ازورف روسی رسالے QUESTIONS OF LITERATURE کا ایڈیٹر رہ چکا ہے۔)
’’اس زمانے میں سوویت ادب پر (یہ زمانہ ۳۰ء کے بعد کا ہے) مباحثے ہوتے رہتے تھے ۔ مختلف رایوں کا اظہار ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۲ء کو گورکی کے فلیٹ میں اختتام پر پہنچا۔ اس روز اشتراکی حقیقت نگاری کے الفاظ پہلی بار سنے گئے جو منظور کر لئے گئے۔ یہ الفاظ استالین نے اس شام استعمال کیے تھے آرٹسٹ کے لیے اجتماعی فکر اور تلاش کے مباحثے کا تاج ان ہی الفاظ کو عطا ہوا تھا۔‘‘
ظاہر ہے یہ واقعہ ۱۹۵۸ء میں سوویت ادیبوں کو معلوم ہوا جبکہ استالین کی بت شکنی اپنے عروج پر تھی۔ کچھ ادیبوں خاص کر پا سترناک کو وہ الفاظ بھی یاد تھے جو الیگزینڈرورونسکی ALAKZANDR VORONSKY نے ادیبوں کی پہلی کانفرنس میں کہے تھے۔
’’وہ ایک ڈنڈا لے کر تمہارے سروں پر کھڑے رہنا چاہتے ہیں۔ جو دوسروں سے ذرا بھی بلند قامت ہوگا مارا جائےگا اور اسی ڈنڈے کی مدد سے تمہارے موضوعات، خیالات اور اسلوب تک کو احکام کے ذریعے مہیا کریں گے۔ مجھے اس دن سے خوف آتا ہے کہ چند برسوں میں ادب بھی اکاؤنٹ بک کی طرح بے رحم ہو جائےگا۔ ناول اور نظمیں ایک معین پیمانے کے ذریعے پیدا کی جائیں گی۔۔۔‘‘
مگر کسی صاحب اقتدار ادیب یا شاعر نے حکمراں ادبی لائن کے خلاف چوں کرنے کی جرأت نہیں کی۔۔۔ حتیٰ کہ جارج لوکاچ بھی اس کے خلاف نہ لکھ سکا اور گوشہ نشینی کی زندگی گزارتا رہا۔۔۔ اور استالین کے انتقال اور بک شکنی کے بعد۔۔۔ اشتراکی حقیقت نگاری کے بار ے میں اس نے بھی لکھا، ’’استالینی آرٹ میں آدمی ایک حقیقی شخص جو متضاد اضطراری کیفیتوں کا حامل ہے، کے بجائے ایک صفر بن گیا تھا جس کا ایک ہی حل ہوتا ہے۔ مختصراً استالین کے عہد اقتدار میں ایک غیرقلی کوشش کی گئی تھی کہ انسانی تجربے کے مرکباتی عمل کو روکا جا سکے ۔۔۔‘‘ لیکن اس بت شکنی کے بعد بھی وہاں آج تک خاصی پابندیاں ہیں اور آئے دن ادیبوں اور شاعروں کو اقتدار سے ٹکرانا پڑتا ہے ۔ یوری ڈائنل اور سیناوسکی آج بھی قید میں پڑے ہوئے ہیں اور کتنے ہی نئے ادیب وشاعرجیل میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
اصل میں ترقی پسندی بھی ایک مکمل آدمی اور جنت کی سرخ تلاش ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ دوسرے مذاہب کے ادیبوں نے سب سے اچھے انسان بننے کے نسخے پیش کیے تھے اور اس لیے دونو ں میں ایک قدر مشترک ہے ۔ دونوں انسان کو حیوان (ایک سیاسی اور دوسرا مذہبی معنوں میں) کے تصور میں دیکھتی، پرکھتی اور پسند کرتی ہیں۔ سماج مرد معقول کو ادیب وشاعر پر فوقیت دیتا ہے ۔ میرا ناچیز خیال یہ ہے کہ معقول (MEDIOCRE) کا ترجمہ ہے اور سماج کبھی سرکش، پاگل، منکر، صوفی، رند، بیٹنک، غصیلے اور اس طرح کے لوگوں کو پسند نہیں کر سکتا جوکہ اکثر و بیشتر ادیب، فنکار، شاعر، مصور اور سنگ تراش ہوتے ہیں۔
لیکن ابھی ترقی پسند ی کی بحث کچھ اور سوالات کے روبرو ہے ۔ ’’ادیب‘‘ (شیام لال) نے ۲۹ مارچ ۱۹۵۶ء کے ’’ٹائمس آف انڈیا‘‘ میں ایک نہایت فکر خیز مضمون لکھا تھا۔ اس کے اقتباسات دینے کو دل چاہتا ہے، اس لیے بھی کہ اس وقت تک جارج لوکاچ، ایلیا اہرن برگ وغیرہ نے استالین کے بارے میں کھلم کھلا لکھنا نہیں شروع کیا تھا۔ شیام لال کے مضمون کا عنوان تھا، ’’کچھ اور سوالات۔‘‘ میں صرف چند سوالات کے حوالے دے رہا ہوں۔
(۱) کیاآپ مہربانی کرکے یہ بتائیں گے کہ تاریخی ضرورت کیا ہے، کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ کیا اس فیصلے میں ایک فرد کی بات بھی سنی جاتی ہے؟
(۲) ہر اخلاقی اور نظریاتی (IDELOGICAL) اوپری ڈھانچے کی سماجی بنیاد ہوتی ہے۔ کیا مجھ سے اتفاق کریں گے کہ شخصیت پرستی (PERSONALITY CULT) اور پارٹی کی بے خطائی (INFALLIABILITY) بھی ایک طرح کے اوپری ڈھانچے ہیں یا ان پیڑوں کی جڑیں ہوا میں معلق ہیں؟
(۳) آپ نے کہا تھا کہ مارکسزم ایک طریق کار (METHOD) ہے عقیدہ نہیں لیکن دوسرے ہی لمحے آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ایک ہی مارکسی تفسیر صحیح ہوگی۔۔۔؟ تیس سال کی تنگ نظری بدعت قرار دی گئی ہے۔ کیا آپ یقین رکھتے ہیں ایک وقت میں سچائی کے ایک ہی معنی ہوں گے جسے اکثریت اور پارٹی پیش کرتی ہے؟
(۴) کیا لینن بھی اپنے مخالفین سے ہمیشہ اچھا برتاؤ کرتا تھا جیسے روز الکزمبرگ 2 سے؟ کیا آپ ایمانداری سے یہ یقین رکھتے ہیں کہ بہتان کی یورش کے دوران ایماندارانہ بحث جاری رکھی جا سکتی ہے؟
(۵) آپ نے کہا تھا کہ اشتراکی سماج میں یاسیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جب بھی کوئی شاعر حالات سے تنگ آکر خودکشی کرتا تھا اسے PETTY BOURGEOIS کہہ دیا جاتا تھا۔ فیدایوو (FADA YOU) ایسے جری ادیب نے کیوں خودکشی کی؟ کیا اس کا ضمیر کسی جرم کی وجہ سے ملامت کرتا تھا؟
(۶) کیا ادیب وہ لکھے جو وہ خود دیکھتا، محسوس کرتا اور سمجھتا ہے یا پارٹی اس کی طرف سے سوچے؟ ہنگری کے ادیبوں کے صدر (یہ جماعت غیرقانونی قرار دے دی گئی تھی اور اس کے صدر کا بھی ابھی تک پتہ نہیں ہے مگر اس نے گرفتار ہونے سے پہلے وہ باتیں کہی تھیں جس نے آزاد خیال ادیبوں کی ہمیت ا فزائی کی ہے) پیٹرویرس (PETER VERES) نے کہا تھا، ’’کسی ادیب کو زبردستی اس کی مرضی کے خلاف غلط بیانی پر مجبور کرنا غیرانسانی فعل ہے۔۔۔‘‘، ’’کیا یہ فعل ایک مدت تک جاری نہیں رکھا گیا؟‘‘
میں نے یہ سوالات اس لیے دہرائے ہیں کہ ان کو یاد رکھنا بےحد ضروری ہے اور خاص کر ایک ایسے ملک میں جہاں کسی نہ کسی کی پرستش ہوتی رہتی ہے ۔ دوسرے یہ سوالات انسانی ذہن کے اس (DILEMMA) کو پیش کرتے ہیں جو اقتدار کی کشمکش سے پیدا ہوتا ہے۔
(۳)
جدیدیت انسان کو ایک فرد سمجھتی ہے ۔ لاشعور اور شعور کی آویزش کو زندگی کی دلیل اور شخصیت کے پروان چڑھنے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ جدیدیت ایک طرف اقدارکے قدیم پیمانوں کو رد کرتی ہے تودوسری طرف ذاتی تجربے اور جستجو کو لبیک کہتی ہے۔ وہ انسان کو خارجی حالات سے ٹکرانے پر اس لیے نہیں اکساتی کہ وہ ایک جیل سے نکل کر دوسری جیل میں چلا جائے بلکہ وہ سرکشی کو مفاہمت پر فوقیت دیتی ہے ۔ وہ شہری کے رول اور شاعر کے ’’منصب‘‘ میں فرق کرتی ہے۔ وہ ادب کو سماجی بہبودی کے استعمال کے لیے نازیبا قرار دیتی ہے، اس لیے کہ شاعری اپنی ذات کا اظہار سماج کی ا صلاح کے لیے نہیں کرتا۔ جدیدیت زبان کو سماجی اظہار کا ذریعہ سمجھتی ہے لیکن شاعری کے لیے علامتوں، امیجری اور لفظوں کے نئے معنی ومفہوم پر زور دیتی ہے۔ اس طرح وہ شاعری کو خطابت اور رہبری دونوں سے بچاتی ہے۔
جدیدیت نے دنیا کو جنت ارضی بنانے کا بیڑا اٹھاکر ’’جہنم‘‘ نہیں بنایا ہے جیسا کہ ترقی پسندی نے کیا ہے۔ جدیدیت ’’تعمیر اور تخریب‘‘ کی پرفریب اصطلاحوں کو رد کرتی ہے، وہ ادب کو سب سے پہلے ذات کا آئینہ دار قرار دیتی ہے لیکن ذات کو حرف آخر نہیں سمجھتی اس لئے کہ جدیدیت ’’حرف آخر‘‘ کی سرے سے قائل نہیں۔
اقتدار کی کشمکش میں وہ ا یک پیمانے کو رد کرکے دوسرے کی قائل نہیں ہے۔ اسی لیے جدیدیت ذہن کو’’مکمل‘‘ آزاد رکھنے کی خواہاں رہی ہے اور اسی یے مکمل آزادی کی خواہش نے فرد کو اپنے سماج میں کبھی اجنبی (OUT-SIDER) بنایا ہے، کبھی سرکش REBEL (کامؤکے معنی میں) اور آوارہ (ٹریمپ (TRAMP وہ انسان کی روحانی، معاشی اور ذہنی اقتدارکی کشمکش کو سمجھنے کی کوشش کو لائق اعتنا سمجھتے ہوئے بھی پوری انسانیت کو ایک بار یا کئی راہ عمل کے نسخے دینانہایت احمقانہ حرکت سمجھتی ہے۔ مگر یہ تو اس وقت کی کہانی ہے جبکہ اقتدار کی کشمکش شدیدتھی اور آج جبکہ (IDEOLOGIES) نظریات کی موت ہو چکی ہے اور بقول اندرے مالرو، ’’کل کا مؤرخ آج کے دورکے بارے میں لکھےگا تو حیران ہو جائےگا کیونکہ آج دایاں دائیں جگہ پر نہیں ہے، بایاں بائیں جگہ پر نہیں ہے۔ یہی نہیں مرکزہی بیچ سے غائب ہے۔‘‘ (آبزرور۔ ۵ فروری ۱۹۶۷ء)
یعنی سرخ رنگ سرخ نہیں ہے گہرا گلابی ہے اور اس کے اندرجانے کون سا رنگ چھپا ہوا ہے۔۔۔ یہ زندگی کوسفید وسیاہ رنگوں میں دیکھنے کاسلسلہ ہی ختم ہو گیا اور اس طرح انسانی ذہن ’’قیامت کے بعد‘‘ والے دور میں داخل ہو چکا ہے۔
(۴)
اردو کی جدید شاعری کا آغاز تو میراجی اور ن۔ م۔ راشد سے ہوا تھا مگر جلد ہی یہ ترقی پسند شاعری سے ٹکراؤ کی وجہ سے پنجاب کے حلقہ ارباب ذوق کے شاعروں تک محدود ہو گئی اور میراجی جدید شاعری کی ایک علامت بن کر رہ گئے جو بڑے ارمان لے کر اردو شاعری کے صدہا سال کے نسخے کو بدلنے آئے تھے مگر زبان و بیان میں تھوڑی بہت تبدیلی کرکے ہی سدھار گئے، یہی نہیں جنسیت پرغیر ضروری زور دے کر انہوں نے جدید شاعری کے حلقے کو بھی محدود کرنے کی بھی بھول کی تھی (خیراب تو یوسف ظفر نے انہیں خواب میں دیکھا ہے کہ وہ حج تک کرآ ئے ہیں اور یوسف ظفر نے ان کی نجات کی دعا بھی مانگی ہے، یہ باتیں شاہد احمد دہلوی کے مضمون میں دیکھی جا سکتی ہیں، انہیں بھی اب پاکستانی بناکر ’’ثناء اللہ‘‘ کر لیا گیا ہے اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔)
مگر یہ ایک اہم بات ہے کہ میراجی نے ارادی طور سے تنہا جنگ کی تھی۔ ان کی شکست میں آزاد نظم کی (ایک مختصرعرصے کے لیے سہی) عارضی شکست پنہاں تھی۔ میراجی نے اپنی شاعری کوفرائڈ کے صرف ایک اہم پہلو تک محدود رکھ کر جدید شاعری کو’’جنسی امراض‘‘ کی روداد بنا دیا تھا۔ اس کے باوجود اپنے لب ولہجہ، علامت اور امیجری کی وجہ سے ان کا اثر ترقی پسند شاعری کے زوال کے بعد تیزی سے پھیلا اور جدید شاعری نئے احساس سے دوچار ہوئی اور وہ احساس صنعتی تہذیب کے ردعمل، سیاسی نظریات کے خلاف اور سب سے بڑھ کر شاعر کی شخصیت کے آزادانہ اظہار میں نمایاں ہوا۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ میراجی کے خاص مقلد آج کی جدید شاعری سے خاصے نالاں ہیں۔ یوسف ظفر، قیوم نظراور مختار صدیقی تو شعری اثر کے معنی میں ختم ہو چکے ہیں اور پنجاب کا نیا شعری حلقہ دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک کے ترجمان ڈاکٹر وزیرآغا ہیں اور دوسرا افتخار جالب کے زیراثر ہے۔ افتخار جالب ’’نئی لسانی تشکیل‘‘ کے علم بردار ہیں ۔ وہ اردو کی شعری زبان کو یکسر بدلنے کے خواہاں ہیں مگر ان کی بیشتر کوششیں انتہا پسندی کے دوسرے سرے کی باتیں ہیں۔ اس کے باوجود ان کے تجربات وزیر آغا اسکول سے زیادہ توجہ طلب ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا جدید شاعری کو بے ضرر بنانے کی کوشش میں ’’اوراق‘‘ مرتب کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ سربرآوردہ لوگوں سے خراج تحسین بھی حاصل ہوتا رہے اور جدید شاعری کی گفتگو بھی ڈرائنگ روم میں ہوتی رہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ ’’جدید شاعری‘‘ کو ان راہوں سے گذارنا چاہتے ہیں جن پر ان کے ساتھ قدیم شاعر بھی چل سکتے ہیں، ان موضوعات (جیسے ابلاغ کا مسئلہ، اقدار کی کشمکش) پر نہایت عالمانہ گفتگو کی جاتی ہے کہ جیسے یہ بھی تعلیمی مسئلہ ہے اور تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد ’’جدید شاعری‘‘ کا یہ طوفان ختم ہو جائےگا۔ سب لوگ خوش ہوں گے کہ ’’دیکھو ہم طوفان سے کیسے بچ گئے۔‘‘
آج اردو رسائل میں جدید شاعری کی بحث زوروں سے جاری ہے گوکہ جدید شاعروں کے پاس کوئی اپنا ترجمان نہیں ہے مگر چند رسائل جیسے ’’کتاب‘‘ اور ’’شب خون‘‘ کے صفحات اس بحث کواس کشمکش سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں جدید ذہن مبتلا ہے۔ ہندوستان میں اس بحث کا آغاز محمود ایاز کے دو ماہی رسالے ’’سوغات‘‘ سے ہوا تھا مگر ’’سوغات‘‘ کے بند ہونے کے بعدیہ بحث ’’عام وبا‘‘ کی صورت اختیار کر رہی ہے حتی کہ ترقی پسند مجلہ ’’گفتگو‘‘ کے گلابی صفحات بھی اس میں ’’ملوث‘‘ نظر آتے ہیں۔
اس سلسلے میں آل احمد سرور صاحب کے دو مضامین کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سرور صاحب ہندوستان کے واحد اہم ناقدہیں جو جدید شعری رجحانات کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے خیالات سے اتفاق ہی کیا جائے مگر یہ اعتراف ضروری ہے اس لیے کہ سجاد ظہیر اور سردار جعفری اپنی زنگ آلودہ بندوقیں ان کی طرف پھیر چکے ہیں اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ جدید شاعروں کو یہ ’حوصلہ افزائی‘ بھی نہ مل سکے۔ گوکہ میں ذاتی طورسے سمجھتا ہوں کہ جدیدیت کو کسی ’’سرپرست‘‘ کی ضرورت نہیں پھر بھی سرور صاحب کی یہ ہمدردی قابل قدر ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’نظم کی زبان‘‘ میں لکھا تھا، ’’ہمیں بحروں، قافیے، ردیف، مروجہ اصناف سخن کی شکنجہ بندی وغیرہ سے خاصا آزاد ہونا پڑےگا۔۔۔‘‘ (ہماری زبان ۲۲ جون ۱۹۶۶ء)
اور اس کی اشاعت کے بعد ہی سے ترقی پسندوں نے انہیں اپنا ’’حریف‘‘ گرداننا شروع کر دیا تھا۔ ان کا دوسرا مضمون ’’کتاب‘‘ ۶۷ء کے سالنامہ میں شامل ہے۔ مجھے اس سے خاصا اختلاف ہے۔ اس کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری سمجھتا ہوں ۔ یوں تو یہ مضمون بھی ان کی متوازن شخصیت کی آئینہ داری کرتا ہے مگر آج توازن کی تلاش سے زیادہ اس معرکہ آرائی کو پیش کرنے کی ضرورت ہے جو سوہان روح بنی ہوئی ہے۔
’’اس نئے ادب یا نئی شاعری کے دو موڑ فوراً دکھائی دے جاتے ہیں۔ ایک ترقی پسند شاعری کا ہے جس کا شباب بیسویں کی چوتھی دہائی میں نظر آتا ہے اور پھر یہ شاعری اپنا تاریخی رول انجام دینے کے بعد انحطاط پذیر ہو جاتی ہے۔‘‘
اتنا جان کرترقی پسند ادیب وشاعر۔۔۔ اگربہت خوش نہیں تو کچھ زیادہ خفا بھی نہیں ہوں گے گوکہ یہاں پر’’امید‘‘ کی فراری شاعری پر سخت تنقید کی ضرورت تھی۔ ’’نظم کی زبان‘‘ میں سرورصاحب نے اشارتاً ہی سہی مگر پارٹی والی شاعری پر تنقید کی تھی۔ مگر اس وقت ’’جدیدیت‘‘ پر جارحانہ حملے تیزی سے ہو رہے ہیں اور ’’گفتگو‘‘ اور ’’حیات‘‘ (واہنی کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان) اس میں پیش پیش ہیں۔ اسی مضمون میں آگے چل کر یہ جملے آتے ہیں،
’’پرانے موضوعات کو جس طرح تازگی اور نیاپن عطا کیا جا سکتا ہے یا ان میں انفرادی احساس کی آنچ آ سکتی ہے بالکل اسی طرح نئے احساس میں نئے پن کے حقیقی وجود کی بجائے خودنمائی محض مختلف ہونے کا جذبہ یا ایسے جذبات کی نمائش بھی ہو سکتی ہے جو محض بغاوت کی وجہ سے مغرب کی تقلید میں ہو سکتے ہیں یا ان میں ریاض کی کمی یا چونکانے کا جذبہ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘
مندرجہ بالا سطورمیں ’’حقیقی وجود‘‘، ’’محض مختلف‘‘ ، ’’محض بغاوت‘‘ ، ’’مغرب کی تقلید‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
(۱) کیا بحث حقیقی وجود کے مختلف اور متضاد معنی کو سامنے نہیں لائےگی اور اسی طرح محض بغاوت اور تقلید۔۔۔ تو اس کے لیے گزارش ہے کہ اظہار وبیان کے جو نئے تجربے FUTURISM فیوچرزم 3 نے کیے تھے وہ اپنی انتہاپسندی کے باوجود ادبی جمود کو توڑنے کے لیے ضروری تھے اسی طرح سریلزم نے امیجری کو لاشعور کے رنگوں میں ڈبوکر ایک نئی قوس قزح پیدا کی۔ یہ تحریکیں اپنی ساری خودنمائی، بغاوت اور انتہاپسندی کے باوجود آرٹ (خاص کر مصوری) اور ادب کے مزاج کو بدلنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ ’’اقدار کی جستجو‘‘ کے مصنف رسل کولبرٹ کا خیال ہے، ’’دادازم اور سریلزم اس مخبوط الحواس دنیا سے نکلنے کی ایک اہم کوشش تھی جہاں انسانی ذہانت کا مضحکہ اڑایا جا رہا تھا۔۔۔‘‘ (اقدار کی جستجو ص ۱۱)
یعنی آرٹ کو نئے اظہار وبیان کی حیرتوں اور لذتوں سے دوچار کرنے کی کوشش کی تھی خود اندرے برتیان نے سریلزم کی یوں تعریف کی تھی، ’’سریلزم کا استعمال ہم ایک خاص معنی میں کرتے ہیں، ہم اس پر متفق ہیں کہ یہ ایک طرح کی خودرفتگی ہے جو کم وبیش خواب کی حالت سے مشابہ ہے۔۔۔‘‘
یہ ساری تحریکیں صنعتی سماج میں ’’باطنی آہنگ’‘ کی جستجو کی ناکام کوششیں ہیں۔ ان کی مدد سے جو ادب یورپ میں (خا ص کر شاعری) تخلیق ہوا ہے اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں تک تقلید کا سوال ہے تو یہ سوال علامہ اقبال کے سلسلے میں محترمی سرور صاحب نے کبھی نہیں اٹھایا جبکہ مولاناروم سے لے کر ہر بڑے شاعر، سیاست داں اور اہم شخصیت سے وہ (اقبال) متاثر ہی نہیں تھے بلکہ ان کے بیشتر خیالات ماخوذ بھی ہیں اور ان کی فکر اسلامی اقدار کی احیاء پرستی کے فروغ میں پیش پیش رہی تھی۔ یہی نہیں آج اردو ادب میں بڑی حد تک جس تنقید کا رواج ہے کیا یہ خالصاً ہندوستانی ہے اور آج کی ہندوستانی جمہوریت پر تو (بڑی حد تک) انگریزی ہاؤس آف کامنس (HOUSE OF COMMONS) کی مہر لگی ہوئی ہے۔
ایک امریکی ناقد اسٹینلی برن شا نے ان تحریکوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے، ’’بیسویں صدی فرانس کی صدی ہے ۔ یہاں تک کہ مغرب کے سارے اہم شاعر سمبالسٹ یا سریلسٹیک خیالات سے نہایت متاثر رہے ہیں ۔ کیا ان کے نام گنانے کی ضرورت ہے۔ ایلیٹ، لورکا، انگارپتی بلاک، پاسٹرناک، لیری، سافیرس کاذیودو، مونتالے وغیرہ۔۔۔‘‘
اب نئی شاعری کے سلسلے میں یہ جملے ملاحظہ ہوں، ’’نئی شاعری میں نفسیاتی عناصر تو بڑی حد تک عصری شعور کے مطابق آ گئے ہیں لیکن تہذیبی، علمی اور ذہنی عناصر ابھی خاطرخواہ نہیں آئے۔ تہذیب کے تصور میں انتھراپالوجی اور سوشیالوجی کے جدید تصورات نہیں ملتے۔ علمی پہلو کے لحاظ سے سائنس کے نظریات سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح ذہنی پہلو کے لحاظ سے جدید فلسفے میں صرف وجودیت کا احساس ملتا ہے، آج اردو شاعر کا افق وسیع ضرور ہوا ہے مگر وہ صحیح معنی میں جدید نہیں ہو سکا ہے۔۔۔‘‘ (سالنامہ کتاب ۶۷ء ص ۱۳)
ان جملوں کا مطالعہ نہایت غور سے کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی نظر میں اختلاف کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے مگر غور کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جدید شاعر کو سماجیات، حیاتیات، سائنس اور فلسفہ کے عالم کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں یعنی آج دنیا میں جتنے علوم کی شاخیں ہیں، ان سب کا ’’سیب‘‘ (APPLE) کھائے بغیر صحیح معنی میں جدید نہیں ہو سکتا۔ اپنے ان چار جملوں میں دوبارہ ’’خاطر خواہ‘‘ کے الفاظ استعمال کرکے جدید شاعر کی دل شکنی بھی نہیں کرتے۔ اس طرح وہ خوش ہو جاتا ہے کہ اسے ایک معنی میں ایکیڈیمیشین (ACADEMICIAN) بننے کا مشورہ دیا جا رہا ہے ۔ یہ بڑے نیک مشورے ہیں اس لیے کہ وہ جدید شاعروں میں حالی اور آزاد کو ڈھونڈ چکے ہیں۔ اب اقبال کے منتظر ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جدیدشاعری درسی 4شاعروں کے خلاف تخلیق کی گئی ہے۔ اسے درس گاہوں سے بچانے کی کوشش ہی صنعتی شہروں کی شاہراہوں اور گلیوں میں ’’لائی‘‘ ہے ۔ لاہور (افتخار جالب) سرگودھا (وزیر آغا) اور علی گڑھ (خلیل اعظمی وغیرہ) میں جو جدید شاعری کی جارہی ہے اس کا زیادہ تر حصہ کتابی ہے، اگر ان چھوٹے شہروں کے شاعر بڑے صنعتی شہروں میں مارے مارے پھریں تو ان کی قلعی اڑ جائے۔ جدید شاعری غیرمحفوظ، تشنہ، شکستہ دل، جری، سرکش جوانوں کی شاعری ہے ۔ ظاہر ہے اس میں تقلیدی لوگوں کی بھی بھیڑ ہوگی (شاید سرور صاحب ان ہی لوگوں کی مذمت کرنا چاہتے ہیں مگر کوئی تحریک یا رجحان تقلید کرنے والوں سے نہیں بچ سکاہے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے۔)
۶۰ء کے بعد کی جدید شاعری ایک طرف ترقی پسند شاعر ی کے ردعمل میں ابھری ہے (وحید اخترکا یہ خیال کہ ’’جدیدیت ترقی پسندی کی توسیع ہے۔‘‘ ایک آرزو کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدیدیت کی ترقی پسند جتنی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں وہ اس کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔) تو دوسری طرف عالمی شعری تحریکوں سے متاثر ہوئی ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ نیویارک، لندن، پیرس، ماسکو، بمبئی، ٹوکیو، کلکتہ، مدراس اور دوسرے صنعتی شہر ایک دوسرے سے بہت دور نہیں ہیں، اسی لیے بیٹ شاعر گنسبرگ (جو کہ COMMITTED شاعر ہے) کا خیال ہے کہ ان تمام شہروں میں بڑی یکسانیت ہے۔ کلکتہ کی بھوکی پیڑھی ہو یا اردو کی سرپھری نئی نسل، وہ موجودہ نظام سے اتنا اکتا گئی ہے کہ ادب میں ہر طرح کی تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہے اور تجربے کر رہی ہے۔
(۵)
’’اظہار وابلاغ‘‘ کا مسئلہ جدیدیت کا سب سے پرانا بحث طلب موضوع رہا ہے۔ اس کا سلسلہ بہت دور تک گیا ہے ۔ یہ صرف بودلیراورران بوکاہی محبوب مسئلہ نہیں تھا بلکہ شاعری کے ابتدائی نغموں (لوک گیت) انگریزی میں BELLAD بیلڈ) سے اس کا آغاز سا ہوا تھا کیونکہ اس وقت شاعری رزمیہ کے تعلق سے داستان گوئی کا ’’فرض‘‘ انجا م دے رہی تھی۔ شاعری کھیتوں اور درباروں سے گزرتی ہوئی ’’زندگی کے بازار‘‘ میں آئی اور صنعتی انقلاب کے ساتھ مشینوں سے ٹکراتی اور گم ہوتی رہی ہے۔
آج بھی شیکسپیئر کے ڈراموں کے کتنے ہی حصے ’’مبہم‘‘ سمجھے جاتے ہیں، ڈن کے نغمے اپنی ساری سادگی اور حسن کے باوجود کہیں کہیں مبہم اور ناقابل فہم بھی ہیں، ڈن کا ایک شارح پروفیسر رڈپاتھ (T.REDPATH) ایک مصرعے اور ایک بند کے دو تین معنی پیش کرتا ہے، خود غالب کی مشکلات نیاز فتح پوری اپنے آخری زمانے میں لکھنے بیٹھے تھے۔ غرض کہ یہ مسئلہ اتنا نیا نہیں ہے جتنا کہ ثابت کیا جا رہا ہے ۔ اس سلسلے میں نظیر صدیقی کا مضمون خاص توجہ کا مستحق ہے، اس لیے بھی کہ ترقی پسند مجلہ ’’گفتگو‘‘ نے اس کو وزیرآغا کے ’’اوراق‘‘ (سالنامہ ۶۷ء) سے نقل کرنے کی زحمت گوارا کی ہے۔
نظیر صدیقی کا خاص تھیسس (THESIS) یہ ہے کہ اردو کی جدید شاعری مغربی (خاص کر فرانسیسی) ادب کی نقل میں کی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایلیٹ کی مشہور نظم چار آہنگ (FOUR QUARTETO) کو’’بے معنی‘‘ ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے۔ نہ جانے وہ کون ’’عقل مند لکچرر‘‘ تھا جوان کو کچھ بھی مفہوم بتانے سے قاصر رہا۔ ظاہر ہے میں یہاں اس نظم کی شرح نہیں پیش کر سکتا نہ ہی ان کتابوں کے نام لکھنے کی جرأت کروں گا جن کی مدد سے اس نظم کے بعض حصے سمجھے جا سکتے ہیں۔
مجھے توصرف اتنا کہنا ہے کہ ایلیٹ کی یہ عظیم نظم اس دور کی پیداوار ہے جب کہ وہ (کسی حد تک) جدیدیت سے الگ ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزی شاعری میں جدیدیت کے فروغ میں ایذرا پاؤنڈ کے ساتھ ایلیٹ کا بڑا حصہ ہے جیسا کہ نوجوان ادیب انتھونی کرانن (ANTHONY CRONIN) نے اپنے مضامین 5کے مجموعہ کے پہلے مضمون میں اس کے ’’انقلابی تجربات‘‘ کا ذکر کیا ہے، جس نے کچھ عرصے کے لیے ہی سہی انگریزی شاعری کے کلاسیکی روایتی مزاج کو بدل دیا تھا۔
بحث اصل میں یہ ہے کہ شاعری کیا ہے یعنی شعر یا نظم کسے کہتے ہیں؟ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے؟ یعنی کس ’’بات‘‘ کا اظہار کرنا چاہتا ہے؟ کیا ابلاغ ضروری ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اگر ضروری ہے تو اظہار پر اکتفا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ ظاہر ہے کہ بڑی لمبی بحث ہے۔ اس کے بے شماررخ، سطحیں اور معیار ہیں۔ اس پر مختصراً رائے دینا کافی نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے تاکہ اصل نکتہ کو سمجھا جا سکے۔ بحث سامع یاقاری کی توقع سے شروع ہوتی ہے۔ کیا ایک ایسا ماڈل قاری یا سامع تصور کیا جا سکتا ہے جو مشکل کلام (نظیر صدیقی نے سودا اور ذوق کے قصائد کو سمجھنے والے کا ذکر کیا ہے جو جدید شاعری نہیں سمجھ سکتا) تو سمجھتا ہے مگر جدید شاعری کو سمجھنے سے قاصر ہے، اس لیے نہیں کہ وہ مبہم ہے۔ ’’ابہام ایک اضافی قدر ہے۔‘‘ (میراجی) بلکہ اس لئے کہ وہ (جدیدنظم) بے معنی ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے ایک بات کا ذکرنہیں کیا اور وہ ہے ادبی ذوق۔ اس لیے کہ ادبی ذوق کی تشکیل سخن فہمی کے سلسلے میں خاصا اہم رول ادا کرتی تھی۔ انہوں نے ایڈون میور، مڈلڈن مرے اور کئی ناقدوں کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جدید مغربی شاعری (خاص کر فرانس کی) ’’ابہام کی بے معنویت‘‘ کی تاریخ ہے۔ انہوں نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ ایک قاری کی حیثیت سے کیا توقع لگائے ہوئے ہیں؟ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’’ایلیٹ کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ شعر سے لطف اندوز ہونے لیے اس کو سمجھنا ضروری نہیں ہے لیکن اس بیان کی صحت محدود ہے۔‘‘ (سالنامہ اوراق ص ۸۵)
ظاہر ہے کہ ایلیٹ خود اپنے بیان کو ایک محدود طبقے کے لیے ہی سمجھتا ہے سار ی انسانیت کے لیے نہیں۔ اصل میں نظیر صدیقی نے مختلف ادبا اور شعرا کے اقتباسات جمع کرنے میں بڑی محنت کی مگر بصیرت سے کام نہ لیا۔ مضمون کے آخری حصے میں وہ ترقی پسند شاعر احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے ’’شاعر کے منصب‘‘ کا ذکر کرتے ہیں (صفحہ ۸۹) اور یہیں سے ان کی الجھن کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ شاعر سے ’’رہبری‘‘ کے متوقع ہیں اور وہ بھی اس دور میں جبکہ شاعر کا سماج میں کوئی مرتبہ نہیں رہ گیا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کی خلش، اپنے خوابوں کی تعمیر وتخریب اور اپنے احساسات کے ٹوٹے آئینے لیے ہوئے زیرلب ’’خودکلامی‘‘ میں مبتلا ہے۔
کسی جدید شاعر نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اس دور کی پیچیدگیوں کو یوں بیان کرنا چاہتا ہے کہ قاری (بیچارے نثار اور پروفیسر کیا کریں گے؟) کی زندگی کے مسائل حل ہو جائیں، تو شاعری زندگی کی ’’تفسیر‘‘ نہیں ہے اور نہ مسائل کو حل کرنے کی کنجی۔ جدید نظم ’’ناقابل بیان ذہنی حالت کا اظہار ہے۔‘‘ (ژان پال ہان۔ JEAN PAUL HAN) نظیر صدیقی ابلاغ پر اس لیے زور دیتے ہیں کہ بغیر اس کے شاعری سمجھ میں نہیں آتی اور اگر سمجھ میں آ گئی تو راہ راست نظر آ جائےگی۔ وہ جدید ادب کی بنیادی خصوصیت سے ہی منکر ہیں۔ ظاہر ہے میں اس شخص کو ہندوستانی موسیقی نہیں سمجھا سکتا جس کا ذہن اور کان اس کی لذت سے آشنا نہیں ہیں۔
ابلاغ پر زور دینا اس بات کا کھلا ہوا اعتراف ہے کہ قاری شاعر سے کسی خاص پروگرام یاعقائد کے اظہار کا مشتاق ہے اور انہیں شاعر کی علیحدگی ALLIENATION کا احساس نہیں ہے۔ وہ اب تک ’’طلوع اسلام‘‘ کے منتظر ہیں یا ترقی پسندوں کی نعرہ بازی کے۔ ان کا پورا مضمون افتخار جالب کو مخاطب کرکے لکھا گیا ہے اور انہوں نے یک طرفہ گفتگو کی ہے۔ جدید شاعری کے حامیوں کے بھی بے شمار اقتباسات جمع کیے جا سکتے ہیں مگر میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ آج کا شاعر ابلاغ کو ایک چیلنج سمجھتا ہے اور اپنے اظہار کے نئے تجرباتی اسالیب کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔
مجھے یہ کہتے ہوئے جھجک محسوس نہیں ہوتی ہے کہ اردو کا ہندوستانی جدید شاعر اظہار وابلاغ کے مسئلہ کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھتا ہے اور فرانسیسی، انگریزی شاعروں کی تقلید کو اپنا عقیدہ نہیں سمجھتا۔
جہاں تک اعلیٰ شاعری کی بحث ہے، جارجین شاعروں اور ادیبوں کا مسئلہ تھی یا اقبال، جوش اور ترقی پسند اس کے پیچھے لٹھ لے کے پھرتے تھے۔ آج جدید شاعر کا مسئلہ ’’عظیم وبلیغ‘‘ شاعری کرنا نہیں ہے بلکہ کس طرح سے اس الجھن کربناک 6درد اور انسان کی بے کسی و بے بسی کا امیجری اور علامتوں کے ذریعہ اظہار کرے کہ اردو شاعری کا پرانا مزاج بدل جائے اور ایٹم بم پر بیٹھی ہوئی یہ دنیا اپنی بربریت کا کچھ اندازہ لگا سکے۔ کیا یہ ایک کارنامہ سے کم نہیں؟
ابلاغ کا اصل سوال تو اس وقت آتا ہے جب شاعر خیالات کو محور سمجھے اور پہلے ہی سے طے کرلے کہ وہ عوام الناس کے لیے کچھ لے کے آیا ہے تاکہ وہ اگر جنت گم شدہ حاصل نہیں کر سکتے تو اس کی جھلک ہی دیکھ لیں یا ’’ایسی بات‘‘ کہنا چاہتا ہے جو دیومالائی عناصر کی مدد سے کہی جا سکتی ہے لیکن یہاں بھی شاعری کا وہ بنیادی سوال اٹھتا ہے کہ نظم کے خیال وجذبے کو الگ کرنا ہی نہایت غیرشاعرانہ حرکت ہے۔ ان دونوں کے اتصال سے نظم نے جنم لیا ہے۔ کیا خیال کو جذبے سے الگ کرنے کے بعد نظم کا وجود باقی رہےگا؟
نظیر صدیقی نے سرور صاحب کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ہے، جس میں سرور صاحب نے ایک شعری فضا کو لائق اعتنا سمجھا تھا اور وہ اس بات سے ’’خائف‘‘ ہیں کہ اس طرح جدیدیت کے فروغ میں سرور صاحب بھی نظر آتے ہیں۔ جب آدمی کی بنیادی توقع ہی غلط ہو تو اس کو پورا کرنے کی کوشش ہی لاحاصل ہے۔ میں نے اس مسئلہ پراس لیے اظہار خیال کیا کہ جدید شاعری کے سلسلے میں کوئی ’’خوش فہمی‘‘ نہ رہے۔
(۶)
ن۔ م۔ راشد کا ’’جدید شاعری‘‘ کے سلسلے میں رویہ دیکھ کر شاید کچھ لوگ انگشت بدنداں رہ جائیں گے کہ راشد 7(جنہوں نے آزاد نظم کو مقبول بنانے میں بڑا نام پیدا کیا تھا) بھی اس نئی نسل کی جدید شاعری سے نالاں ہیں۔ اپنے ایک مختصر مضمون میں وہ ہر ایک پاکستانی شاعر کا ذکر کرتے ہیں مگرسرپرستانہ انداز میں۔ یہ چند جملے ملاحظہ ہوں،
’’دوسرے نئے شاعر جو تکنیکی اعتبار سے مختار صدیقی کے ہم پلہ ہیں لیکن جنہوں نے غیرمعمولی قوت تخیل کا اظہار کیا ہے۔ عزیز حامد مدنی جو اپنے رچے ہوئے اسلوب اور غیرمعمولی انسانی ہمدردی کے لیے مشہور ہیں۔ جعفر طاہر جو ساری دنیا کو ایذراپاؤنڈ کی طرح کنٹوز میں سمونے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ عبدالعزیز خالد جو اپنے بنیادی موضوعات یونانی شاعری اور قدیم صحیفوں سے لیتے ہیں لیکن تکنیکی اعتبار سے ثقیل اور لاپروا ہیں۔ منیر نیازی جوبے حد حساس اور بیزار ہیں۔ جیلانی کامران اور افتخار جالب وغیرہ جوکہ اگرچہ بالکل نووارد ہیں لیکن موضوعات اور اسلوب اظہار کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔‘‘ (نیا دور خاص نمبر ۲۷۔ ۲۸ صفحہ ۱۷۰)
اس کے فوراً بعد رقم طراز ہیں، ’’ہمارے نئے شاعر اس قابل ہیں کہ وہ ہر موضوع پر لکھ سکیں، آزادی کے نئے ماحول کی ترجمانی کر سکیں جس نے اسے آزادانہ اور بے تکلفانہ اظہار خیال کے قابل کر دیا ہے۔‘‘ (نیا دور خاص نمبر صفحہ ۱۷۱)
راشد صاحب جب ترقی پسندوں سے شدید بیزار ہیں (فیض سے نہیں کیونکہ آخر وہ ان کے دوست ہیں اور نئے شاعروں کو آزادی کے بعد (یہ مضمون ایوب کی ڈکٹیٹرشپ اور رائٹرس گلڈ کے عروج کے زمانے میں لکھا گیاہے) ’’نئے ماحول‘‘ میں نئی شاعری کی ذمہ داریوں سے واقف کرانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے برسوں کی ملازمت کے دورن انہیں ادبی رجحانات کا جائزہ لینے کی مہلت نہیں ملی۔ اس لیے نہایت ’’مدبرانہ بیان‘‘ پریس کو جاری کر دیا تاکہ نئے شاعروں کو خبر ہو جائے کہ راشد صاحب کا دست شفقت ان سب پر ہے جو انہیں ’’امام‘‘ (اپنے دونوں مجموعہ کی تعریف اسی’’پریس بیان‘‘ میں کر چکے ہیں اور اس سے زیادہ کیا کرتے؟) سمجھتے ہیں۔
راشدصاحب نے سلیم احمد کے مشہور طویل مقالے ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ کو پڑھ کر خط لکھا تھا۔ اس خط کے چند جملے ساقی فاروقی نے مجھے جون ۶۳ء (کراچی) میں سنائے تھے۔ آج وہ خط ’’نیادور‘‘ کے نئے شمارے میں موجود ہے۔ مقالے کی قصیدہ خوانی کے بعد فرماتے ہیں، ’’ہم دونوں (یعنی راشد اور میراجی) نے اردو شاعری میں غالباً پہلی دفعہ اس شعور کا اظہار کیا ہے کہ جسم اور روح گویا ایک ہی شخص کے دورخ ہیں اور ان میں کامل ہم آہنگی کے بغیرانسانی شخصیت اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتی۔‘‘
’’جہاں تک میں اپنی شاعری کے مفہوم یا غرض وغایت تک پہنچ پایا ہوں، میں سمجھتا ہوں کہ میری شاعری اسی کامل ہم آہنگی کی تلاش میں سرگردانی کی ایک کوشش ہے۔‘‘
’’ہم آہنگی کی اس تلاش کا محض ایک پہلو ہے جس کے بغیر انسان اپنی تقدیر تک نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (نیادور نمبر ۴۱۔ ۴۲ صفحہ ۲۳۷۔ ۲۳۸)
میں نے اس خط کے اقتباسات دینا اس لیے ضروری سمجھا کہ راشد کے زوال کی نشاندہی کی جا سکے۔ ایلیٹ (راشد سے ایلیٹ کا مقابلہ مقصود نہیں ہے) بھی تو جدید شاعری ترک کرکے کلاسیکیت، رومن کیتھولک مسلک اور شہنشاہیت 8کا دلدادہ بن گیا تھا۔ آخر راشد کیوں پیچھے رہتے؟ دیکھئے یوسف ظفر نے خواب دیکھ کر میرا جی کو مسلمان کر لیا اور راشد تو ایمان لانے والوں میں آگے آگے ہیں۔ اس طرح جدید نظم کے بانیوں میں کوئی ایسا شاعر نہیں بچا جس کی روایت کو نئی نسل اپنانے کی خواہاں ہو سکے۔
اخترالایمان کو میں نے اپنے ایک مضمون میں (۵۶ء) فیض کے مقابلے میں جدید شاعر کہا تھا۔ وہ ۶۲ء میں نئی نسل کے وجود تک کے منکر تھے۔ انہیں نئی نسل کے الفاظ یا اصطلاح سے چڑ ہے (مجنوں گورکھ پوری نے اپنے ایک مضمون ’’زندگی اور ادب میں بحرانی دور‘‘ میں نئی نسل کی اصطلاح مجاز اور علی سردار (جعفری) کے لیے استعمال کی تھی۔ (’’ادب اور زندگی‘‘ صفحہ ۲۰۷ چوتھا ایڈیشن) سوغات کے جدید نظم نمبر میں اخترالایمان کا یہ خط آج بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب بلراج کومل نے دیا تھا مگر میں اخترالایمان کے اس مضمون کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نیادور خاص نمبر ۲۷۔ ۲۸میں شامل ہے۔ اس کا مطالعہ راشد کے ’’پریس بیان‘‘ سے کم اہم نہیں ہے۔
اخترالایمان کا خیال ہے کہ جدید شاعری کا آغاز لاہور میں ہوا۔ انہوں نے مولانا محمد حسین آزاد کا نام تو نہیں لیا مگر اشارہ ان کی طرف ہے۔۔۔ اس لیے کہ وہ ۱۹۳۶ء کو دوسرا قدم کہتے ہیں۔ اخترالایمان کے اس سوال جواب کا آج مطالعہ کیجئے تو پتہ چلےگا کہ وہ واقعی بہت میاں آدمی ہیں۔ اپنے کو کسی تحریک، کسی فارم سے وابستہ نہیں کرتے حتی کہ کسی کے بارے میں ایک تنقیدی لفظ تک استعمال نہیں کرتے ۔ ان کی اس صلح کن پالیسی نے ترقی پسندوں اور جدید شاعروں کے درمیان ایک پل کی حیثیت دے رکھی تھی۔ وہ اچھی اور بری شاعری کے قائل ہیں ۔ جدیدوقدیم کے نہیں (صفحہ ۱۸۶) شاید انہوں نے قدیم وجدید کی کشمکش کو لائق اعتنا نہ سمجھا۔ چلئے قصہ تمام ہوا۔ جدید شاعر میراجی، راشد اور اخترالایمان کی میراث سے محروم رہ گیا۔۔۔ خوشا نصیب!
(۷)
لیکن یہ ساری ادبی بحثیں ’’قیامت‘‘ سے پہلے کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ آج جدید شاعروں کی اقلیت نے ’’نجات‘‘ کے ہر دروازے پر جاکر دیکھ لیا ہے۔ وہی ’’ادبی اقتدار‘‘ کا پرانا تماشا جاری رہے۔ اگروہ اپنی ذات کو ’’آخری پناہ‘‘ سمجھتے ہیں تو اپنی ذات سے خوش فہمیو ں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اگر وہ باہر کی دنیا میں جاتے ہیں تو گم ہو جانے کا خطرہ انہیں سہمائے رکھتا ہے۔ اسی لیے میں نے اس مضمون کے شروع میں کہا تھا کہ اس سے پہلے کبھی اردو شاعری اتنے سخت مراحل سے دوچار نہیں ہوئی تھی۔ شاید انسان اس سے پہلے کبھی بھی اپنے سائے سے اتنا نہیں ڈرا تھا۔۔۔ حد ہے کہ برٹرینڈرسل ایسا جری شخص اپنی خودنوشت سوانح عمری میں کئی جگہ لکھتا ہے کہ آدمی کبھی اتنا تنہا نہیں تھا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کنگسلے مارٹن نے لکھا تھا کہ رسل ایسے عقلی (RATIONNALIST) شخص میں بھی ایک صوفی (MYSTIC) چھپا ہوا ہے۔ (۱۷ مارچ ۶۷ء کے نیواسٹیٹسمین (NEW STATESMAN) میں یہ تبصرہ شائع ہوا ہے)
سارتر نے عرصہ ہوا لکھا تھا کہ کوئی نکلنے کا راستہ (NO EXIT) نہیں ہے۔ اس ’’جہنم‘‘ ہی میں رہنا ہے۔ یہی نہیں اسے برابر یہ احساس ہواہے کہ الفاظ سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اس نے سیاست میں حصہ لیا اور آخر میں جب ’’نجات‘‘ کا کوئی راستہ نہ ملا تو وجودیت اور مارکسزم کو ملانے کی ناکام کوشش کی (زمانے کی ستم ظریفی دیکھئے کہ طریق کار کا مسئلہ (THE PROBLEM OF METHOD کا داخلہ پولینڈ رومانیہ اور چیکوسلاویہ کے علاوہ سارے اشتراکی ممالک میں ممنوع قرار دیا گیا تھا) سموئیل بیکٹ (TRAMP) ٹرائیمپ کی کہانی بیان کرنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے اور جیسا کہ جارج اسٹائیز نے کہا تھا کہ ہر لمحہ مکمل خاموشی کی طرح بڑھ رہا ہے یعنی کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ کرنے کو اور نہ کہنے کو۔۔۔ یہ دنیا ایک بہت بڑا ’’صنعتی ریگستان‘‘ بنتی جا رہی ہے ۔ لوگ ہر طرح کے تعصبات میں مبتلا ہیں سیاسی، مذہبی، قومی اور ادبی۔۔۔
پروفیسر آر۔ ڈی۔ لینگ اپنی مختصر کتاب ’’تجربے کی سیاست‘‘ کے دیباچے میں لکھتا ہے، ’’ہم سب قاتل ہیں، طوائف، 9ہیں۔ بلا لحاظ کلچر، سماج، کلاس، ملک۔۔۔ خواہ ہم خود کو کتنا ہی نارمل، اخلاقی، بالغ نظر کیوں نہ سمجھتے ہوں ۔ آج انسانیت اپنے ’’روشن امکانات‘‘ سے کٹ چکی ہے۔‘‘ (تجربے کی سیاست صفحہ ۱۱)
اس کے باوجود اظہار کی نامعلوم پیہم خواہشیں ہمیں کچھ نہ کچھ کہنے کی ترغیب دیے جا رہی ہیں۔ قاضی سلیم، ندا فاضلی، عمیق حنفی، عادل منصوری، محمدعلوی، احمد ہمیش اور کئی شاعر’’اس ناگفتنی کے دور‘‘ میں تجربے کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں جیسا کہ فرانسیسی دانشور کلاڈلیوی اسٹراس (CLAUD LEVI STRAUSS) نے کہا ہے کہ ’’ساری بے معنویت کے باوجود تلاش کی انفراد ی مہم ضروری ہے۔‘‘
اس طرح ترقی پسند اور جدیدیت کی کشمکش نیا پہلو اختیار کر لیتی ہے اور یہ کشمکش زندگی اور شاعری کے اس دور میں داخل ہوتی ہے جس میں صرف قفس ہی زندہ رہ سکتا ہے اوراسی کا نغمہ جدید شاعری کا نغمہ کہلانے کا مستحق ہے۔
حاشیے
(۱) سردار جعفری نے یہ خیال کرسٹوفر کاڈویل سے لیا ہے۔
(۲) ROSA LUXEMBURG
(۳) میکافسکی نے جس مینوفیسٹو پر دستخط کئے تھے اس کے چند جملے ملاحظہ ہوں ۔ یہ ۱۲ ء میں شائع ہوا تھا۔ ’’ ہم ہی تنہا اپنے وقت کے چہرے‘‘ ہیں۔ وقت کا نقارہ ہمارے ہی لفظوں کے آرٹ میں گونج رہا ہے۔ پشکن، دستوئیفسکی اور ٹالسٹائی وغریرہ کو جدیدیت کے عرشے سے باہر پھینک دو۔ گورکی، بلوک، سولوگب وغیرہ یہ سب سمندر کے کنارے بنگلے چاہتے ہیں۔۔۔ ہم اسکائی اسکریپر کی بلندی سے ان کی بےبضاعتی کو حقارت سے دیکھتے ہیں ۔ ہم الفاظ کے خزانے کو اپنی مرضی کے لفظوں سے بھرنا چاہتے ہیں۔ ہم آج کے اظہاروبیان کے طریقے اور زبان سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ (دی کریٹوایکسپریمنٹ۔ صفحہ ۹۶۔ ۹۵)
(۴) جارج اسٹیانر (GEORGE STEINER) نے کہا ہے، ’’جدیدیت کو سرد بنانے سے زیادہ کوئی اور درسی فعل نہیں ہے۔‘‘
Nothing is more academic than modernism made frigid
(۱۰ مارچ ۶۷ء نیواسٹیٹسمین)
(۵) جدیدیت کا سوال THE QUESTION OF MODERNITY
(۶) فیض نے بھی کہا تھا،
اک کڑا درد کہ جو گیت سے ڈھلتا ہی نہیں
دل کے تاریک شگافوں سے نکلتا ہی نہیں
(۷) سرور صاحب نے یہ صحیح لکھا ہے کہ ’’ماورا‘‘ اور ’’ایران میں اجنبی‘‘ کے راشد میں بڑا فرق ہے ۔ راشد کی زبان کتابی، مصنوعی تراکیب سے گراں بار ہے۔‘‘ (’نظم کی زبان‘۔ ہماری زبان ۲۲ جون ۶۶ء)
(۸) ایلیٹ نے یہ ۱۹۲۸ میں (FOR LANCELOT ANDREWS) لینسلاٹ انڈرویوس کے دیباچہ میں لکھا تھا۔
(۹) نئی لہر NEW WAVE کے ایک فلم ڈائرکٹر ژاں لوگودارد (JEAN LUE GODARD) کا بھی یہی خیال ہے کہ وہ اپنے نئے مضمون میں کہتا ہے ’’صنعتی سماج میں طوائفیت کا ہر طبقے میں رواج ہے۔‘‘
(سائٹ اور ساؤنڈ ونٹر ۶۷۔ ۶۶ صفحہ ۴ (SIGHT AND SOUND 1966-67 WINTER ISSUE)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.