’’مفروش آنچہ نخرند۔‘‘ جس مال کے خریدار نہ ہوں اسے مت بیچو۔
معلوم نہیں شیخ فرید الدینؒ نے کس موقع پر کن لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا تھا لیکن اس کا اشارہ قدروں کی ترجمانی اور منتقلی کی طرف تھا اور اس کے مخاطب وہ تمام لوگ تھے اور اس وقت ہیں جو اپنے علم اور عمل کے ذریعے قدروں کا احساس پیدا کرسکتے اور اسے تقویت پہنچا سکتے ہیں۔ کیا اچھا ہوتا اگر بحث شروع کرنے سے پہلے صاف صاف بتایا جا سکتا کہ ’’قدروں‘‘ سے کیا مراد ہے اور انہیں ایک سے دوسرا کیسے حاصل کر سکتا ہے، یعنی ترجمانی کا منصب کس طرح ادا کیا جاتا ہے۔
مشکل یہ ہے کہ جب کبھی کسی تصور کی واضح تعریف کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یقینی باتوں کا بھی اعتبار نہیں رہتا۔ ہم زندہ ہیں پھر بھی نہیں بتا سکتے کہ زندگی کیا ہے، خوش اور مطمئن ہوں تب بھی یہ نہیں سمجھا سکتے کہ خوشی اور اطمینان کی ماہیت کیا ہے، ہم کا میابی کی آرزو کرتے ہیں مگر جب سوچتے ہیں کہ دراصل اس سے کیا حاصل ہوگا تو وہ ایک دھوکا معلوم ہوتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ایمانداری، حیا، سچائی، سخاوت، شرافت کا کوئی تصور، کوئی معیار موجود نہ ہو یا اس پر عمل نہ کیا جاتا ہو تو انسانی زندگی ناقابل برداشت ہو جائےگی، اس لیے ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کی کوشش کرتے ہیں کہ ایمانداری، سچائی وغیرہ کی ضرورت اور ان کی قدر کو محسوس کرتے اور کراتے رہیں۔ لیکن اس میں بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ کسی ایک قدر، مثلاً ایمانداری کو لے لیجئے اور ادھر ادھر نظر دوڑایئے تو اس کی ایک مثال کے مقابلے میں بے ایمانی کی دس مثالیں ملیں گی اور کامیابی کی عام طور پر مسلمہ علامتوں کے مطابق دیکھئے تو شاید آخر میں یہ نتیجہ نکلے گا کہ ایمانداری سے فائدہ پہنچنے کا لگ بھگ اتنا ہی امکان ہے جتنا کہ بے ایمانی سے نقصان پہنچنے کا۔
پھر ہر سماج میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمانداری کا کوئی فرضی معیار اس مصلحت سے قائم کر لیا جاتا ہے کہ بے ایمانی کے لیے ایک آڑ ہو جائے۔ چند ایماندار لوگ اس معیار کو صحیح اور قطعی مان کر دھوکا کھاتے ہیں اور جو اس معیار کو عملاً نہیں مانتے انہیں سچا فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ گویا معمولی روز مرہ کی ایمانداری کو قائم رکھنے کے لیے بھی ایک طرح کے ایمان بالغیب کی ضرورت ہے اور اسی نسبت سے اعلی اخلاقی قدروں پر یقین رکھنے کے لیے ایمان بالغیب اور پختہ ہونا چاہیے۔
انسان کی محدود صلاحیتیں اسے اس پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ قدروں کو دینی، اخلاقی، سیاسی، سماجی، جمالیاتی قسموں میں تقسیم کرکے انہیں الگ الگ نام دے، لیکن دوسری طرف جو شخص بھی کسی قدر کی پوری خدمت کرنا چاہتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ قدر ایک بنیادی، ہمہ گیر قدر کا ایک پہلو، ایک سورج کی کرن ہے۔ ہمیں قدریں الگ الگ نظر آتی ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم ان کی وحدت کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور ترجمانی کا منصب اس طرح ادا ہوتا ہے کہ انسان محسوس یا غیر محسوس طریقے پر کسی قدر کو اپنی شخصیت اور اپنے عمل میں نمایاں کرتا ہے اور یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ اس خاص شکل میں یہ قید قابل قبول ہے یا نہیں۔
قدروں کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ ان کی ترجمانی کی جاتی ہے تو بحث اس پر ہوتی ہے کہ ترجمانی صحیح ہے یا غلط، لیکن معاملہ دراصل قدروں کی اعلی اور ادنی شکلوں کی کشمکش کا ہوتا ہے۔ کسی جماعت کا عام میلان اس طرف ہو کہ وہ قدروں کی ادنی شکلوں پر مطمئن ہے تو اعلی شکلیں نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں، اسی وجہ سے ان لوگوں کو، جو اعلی شکلوں کی ترجمانی کرنا چاہتے ہیں، یہ سوچنا پڑتا ہے کہ میدان میں آئیں یا نہ آئیں اور آئیں تو کیا لے کر۔
’’مفروش آنچہ نخرند۔‘‘ کیا ترجمانی کا منصب مال بیچنے اور خریدنے سے کوئی سے نسبت رکھتا ہے؟ اصولی بحث کرنے والے کہیں گے کہ ہرگز نہیں رکھتا۔ حکم کی تعمیل فرض ہے اور ایسی بات کہنا ہرگز مناسب نہیں ہے جس سے ایک طرف یہ خیال پیدا ہو کہ حکم سے آگاہ کرنے والا حکم کی تعمیل کرنے والے کا اتنا ہی پابند ہے جتنا کہ تاجر خریدار کی مرضی کا، اور دوسری طرف حکم کی تعمیل کرنے والا یہ سمجھ بیٹھے کہ اسے اختیار ہے کہ جس حکم کی تعمیل کرنا چاہے کرے، جس کی نہ کرنا چاہے نہ کرے۔ انسان کی فطری سرکشی کو دیکھتے ہوئے حکم دینے اور اس کی تعمیل کرانے کے سوا چارہ نہیں ہے۔
اصولی بات کہنے والوں کا یہ اعتراض ایک تو اس وجہ سے کمزور ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدریں بذات خود مقبول نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتی ہیں۔ اس لیے انہیں قانون کی شکل دینے اور جبرسے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے اگر مان لیا جائے کہ انسان فطرتًا سرکش ہوتا ہے تو عام تجربے کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ جبر کرنے کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ سرکشی اور بھی بڑھ جائے، یا وہی قدریں جنہیں ذہن نشین کرنا حکم کا مقصد ہوتا ہے منافقت کے گردوغبار میں گم ہو جائیں۔ اصولی بحث کرنے والے بھی مانتے ہیں کہ دینی اور اخلاقی حکم کی ظاہری اور رسمی تعمیل کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ خلوص نیت بھی لازمی ہے۔ لیکن نیت کا سوال اٹھ جائے تو پھر حکم کے کچھ اور معنی ہو جاتے ہیں۔
دراصل ہر قدر جو تسلیم کی جاتی ہے حکم بن جاتی ہے اور اس کی خدمت ایک حکم کی تعمیل ہوتی ہے جو انسان اپنے کو دیتا ہے۔ قدروں کا وہ ترجمان جو کھرے اور کھوٹے کے درمیان تمیز کرنا قدر کی صحیح ترجمانی کے لیے لازمی سمجھتا ہے، یہ بھی دیکھتا ہے کہ لوگوں کو کسی قدر کا زبردستی حامل نہیں بنایا جا سکتا، اس لیے وہ حکم دینے کے طریقے کو پسند نہیں کرتا۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اصرار اور تکرار کے ساتھ نصیحت اور تنبیہ کرنا حکم دینے کی شکل ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی سے اپنی بے بسی کا اعتراف کر لیا جائے اور جو اختیار دوسروں کو بہرحال حاصل ہے اسے تسلیم کر لیا جائے۔
اسے تسلیم کر لینے کے بعد شیخ فرید الدینؒ کے مقولے پر پھر غور کیجئے۔ تاجر اور قدروں کا ترجمان دونوں صاحب مال ہوتے ہیں، دونوں کا کام ان کے سرمایے کے مطابق ہوتا ہے، دونوں کے لیے سرمایے کے ساتھ ہمت اور حوصلہ بھی ضروری ہے اور اس میں کمی ہو تو ان کا کاروبار خود بخود سمٹ جاتا ہے۔ بعض تاجر سرمایے کی فراوانی کے باوجود کسی ایک بستی یا بازار کو اپنی کل کائنات سمجھ لیتے ہیں اور مقرر مال مقرر گاہکوں کے ہاتھ بیچتے رہتے ہیں۔ بعض تاجر دنیا کی وسعت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نیا مال دور دور سے لاتے ہیں اور خریدار تلاش کرنے میں کسی بازار اور بستی کی قید گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح قدروں کا کوئی ترجمان حق کی طلب کو چند لوگوں اور چند دینی اور اخلاقی امور تک محدود سمجھ سکتا ہے، اپنا منصب یہ سمجھ سکتا ہے کہ جو کچھ کتاب میں لکھا ہے وہ پڑھا دے، اس کا مطلب سمجھا دے اور نتیجے کو دیکھے کہ کیا ہوتا ہے۔
کوئی ترجمان یہ محسوس کر سکتا ہے کہ وہ خود قدروں کا خادم اور حامل ہے، یہ قدریں کسی خاص شکل کی پابند نہیں، ان کا اثر خاص لوگوں کی توفیق کا دست نگر نہیں ہے۔ وہ اپنے فکر اور عمل کو یہ جان کر آزاد کر سکتا ہے کہ اگر ایک طرف قصاص کی حد مقرر کی گئی ہے تو دوسری طرف عفو اور رحم کی بے شمار کیفیتیں ہیں۔ اگر ایک طرف حکم ہے تو دوسری طرف شوق ہے۔ ایک طرف صحو ہے تو دوسری طرف سکر ہے۔ قدروں کی ترجمانی کو کاروبار سے تشبیہ دینے میں سب سے اہم نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی مادی ضرورتوں کی طرح اس کی اخلاقی ضرورتیں بھی قائم رہتی ہیں، مگر دونوں کو پورا کرنے کی صورتیں بدلتی رہتی ہیں۔
آدمی کو تن ڈھانکنے کے لیے کپڑا اور پیٹ بھرنے کے لیے کھانا ہمیشہ چاہیے مگر وہ ایک ہی طرح کا کپڑا اور ایک ہی طرح کا کھانا ہمیشہ پسند نہیں کرتا۔ اخلاقی قدروں کا ترجمان اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ ایک ہی بات ایک ہی طریقے سے بیان ہوتی رہے تو اس میں اثر نہیں رہتا۔ دین اور اخلاق کے معلم جب لوگوں کو گمراہ اور جماعت کی حالت کو خراب کہنے لگیں تو اس کا سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ خود خاصی مدت تک ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ کی مصلحت سے غافل رہ چکے ہیں۔
قدریں ابدی اور حقیقی ہیں۔ یہ بھی مسلم ہے کہ ان کے بغیر شائستہ انسانی زندگی ممکن نہیں۔ اگر کوئی جماعت اس وجہ سے نقصان اٹھائے کہ اس کے اندر خود اس کی اپنی قدریں مقبول نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی قدروں کے ترجمان اپنے منصب کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ناکامی کے احساس اور اس سے بھی زیادہ ناکامی کے خوف نے انہیں اس طرف مائل کیا ہو کہ وہ خریدار کے سامنے وہی دینی اور اخلاقی مال پیش کریں جس کے بارے میں انہیں یقین ہوکہ وہ صدیوں تک برتا جا چکا ہے، اس لیے ہر خریدار سمجھےگا کہ وہ اس کے لیے کارآمد ہے، مگر خریدار اسے اس وجہ سے قبول نہ کرے کہ اس کی ضرورتیں بدل گئی ہیں۔
لیکن مقبولیت کا معیار کیا ہے؟تجارت بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اور چھوٹے پیمانے پر بھی۔ کوئی تاجر گراں مال بیچتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ اس کے خریدار کم ہوں گے اور جو سودا وہ کرتا ہے اس میں وہ اپنا منافع زیادہ رکھتا ہے، کوئی سستا مال کم منافع پر مگر بڑی تعداد میں بیچتا ہے، کوئی چھوٹی سی دوکان لگاتا ہے اور تھوڑے سے منافع کو کافی سمجھتا ہے۔ جہاں ہر قسم کے تاجر، طرح طرح کے مال اور مختلف ضرورتیں اور شوق رکھنے والے گاہک ہوں وہاں مقبولیت کے بارے میں رائے قائم کیسے کی جائے گی۔ مال کی خوبیاں دیکھی جائیں گی یا خریداروں کی تعداد، تاجر کی آمدنی کا حساب لگایا جائے گا یا خریدار کی تسلی کا اندازہ کیا جائےگا؟
تجارت میں نفع نقصان کا حساب لگانا آسان ہوتا ہے، اس لیے کہ آخر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ روپیہ آنہ پائی میں ملک کی دولت کتنی بڑھی۔ قدروں کی ترجمانی کرنے والے اپنی خاص قدروں کی مقبولیت کا اندازہ کیسے کریں؟ ان کی دنیا میں ادنی بہر حال ادنی ہے اور اعلی بہر حال اعلی رہےگا، اور اعلی قدروں کے ترجمان ادنی اور اعلی کو جوڑ کر اوسط نکالنے کے طریقے کو گوارا نہیں کر سکتے۔ شیخ فرید الدینؒ نے تنگ گلیوں میں سستا او رناقص مال بکتے دیکھا ہوگا، قدروں کے ایسے ترجمان دیکھے ہوں گے جن کے نزدیک اعلی قدروں کو رد کر دینے کے لیے کافی تھا کہ وہ اپنے دروازے کے سامنے ایسے طلبگاروں کے ہجوم دکھادیں جو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے ادنی قدروں کو کافی ٹھہراتے تھے۔
اگر صرف قدر کو دیکھا جائے اور اس بات کو نظر انداز کیا جائے کہ اسے قبول کرنے والے کتنے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکثریت کے لیے کیا کیا جائے، اگر اکثریت کی مرضی اور صلاحیتوں کو دیکھا جائے تو پھر سوچنا پڑتا ہے کہ اعلی قدروں کی خدمت اور ترجمانی کیسے کی جائے۔ ایمان اور انکار کی جنگ بے شک سخت ہوتی ہے، مگر وہ یکسوئی سے لڑی جا سکتی ہے۔ اعلی اورادنی قدروں کے درمیان جنگ کی نوبت آجائے تو اعلی کی شکست تقریباً یقینی ہوتی ہے اور اعلی قدروں کے نمائندے میدان میں نہ آئیں تو ادنی قدروں کا سیلاب انہیں ڈبو دیتا ہے۔
ممکن ہے ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ سے شیخ فریدالدین ؒ کی مراد یہ ہو کہ طالب حق کو اپنا مال اپنے پاس رکھنا چاہیے، مقبولیت کے پھیر میں پڑکر اعلی قدروں کو رسوا نہ کرنا چاہیے۔ یہ قدریں ایسا سرمایہ نہیں ہیں جو ضائع ہو جائے، اس کا جمع ہونا اور محفوظ رہنا خود ایک امر عظیم ہے۔ جن لوگوں کو حق کی طلب ہوگی وہ صاحب معرفت کے پاس آپ ہی کھنچ کر آ جائیں گے اور اس آرزو میں تڑپتے ہوں گے کہ انہیں اعلی قدروں کی خدمت کا اہل سمجھا جائے۔
جسے شیخ نظام الدین جیسا مرید مل گیا تھا، وہ انتہائی تنگدستی کی حالت میں بھی کہہ سکتا تھا کہ مجھ سے تمہیں جتنا ملنا تھا وہ مل گیا، اب جاؤ، ہندوستان پر قبضہ کرو۱؎۔ اور اسی مرید سے وہ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ جس مال کے خریدار نہ ہوں اسے مت بیچو۔ لیکن ہندوستانی مسلمان ان بزرگوں، ان کے خیالات اور ان کے طریقوں کو اپنی تاریخ کی اعلی قدریں مانیں اور اس لحاظ سے ان کی خدمت اور ترجمانی کرنا چاہیں تو انہیں کون سا مسلک اختیار کرنا چاہیے۔ ’’مفروش آنچہ نخرند‘‘ کا یا ’’ملک ہند بگیر‘‘ کا؟
ہمارے زمانے میں قدروں کی ترجمانی اور اعلی اور ادنی کے درمیان امتیاز کرنا تعلیم گاہوں کا خاص منصب ہے۔ جدید تعلیم گاہوں کا شروع سے یہ دستور رہا ہے کہ جس مال کے خریدار ہوں اسی کو پیدا کریں، مال کو پرکھنے کی کوشش نہ کریں۔ اب یہ دستور ایک اصول بن کر اتنا مسلم ہو گیا ہے کہ اس کے سوا تعلیمی قدروں کی اور کوئی کسوٹی نہیں رہ گئی ہے۔ لیکن کسوٹی نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پرکھنے کی کوئی ضرورت اور کوئی صورت نہیں ہے۔
ملک کے حالات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ لوگوں کی استعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ استعداد کی کمی کا صرف تعمیری کاموں پر نہیں بلکہ معمول کے کاموں پر بھی بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور اسی کے ساتھ وہ اخلاقی قدریں کمیاب ہوتی جا رہی ہیں جن پر ملکی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ اعلی قدروں کا ذکر سبھی کرتے ہیں، ان کی فکر کوئی نہیں کرتا، اس لیے کہ فکر کرنے والے کو کوئی پوچھتا نہیں۔ سب سے زیادہ مشکل میں وہ تعلیم گاہ ہوگی جو قدروں کا سودا نہ کرنا چاہے۔ جو یہ سمجھے کہ ’’ملک ہند بگیر‘‘ ایک ہمت آزما اور حوصلہ پر ور اخلاقی دعوت ہے اور اسے قبول نہ کرنا اعلی قدروں کی خدمت اور ترجمانی سے انکار ہے۔
افراد کے مقابلے میں تعلیم گاہیں قدروں کی ترجمانی کرنے میں اس لحاظ سے کچھ فائدے میں ہوتی ہیں کہ وہ بھٹک جانے کے دو بڑے خطروں سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتی ہیں۔ افراد قدروں کی ترجمانی کرتے وقت اعلی اور ادنی کے درمیان امتیاز کرتے ہیں، جن قدروں کی وہ ترجمانی کرنا چاہتے ہیں انہیں اعلی قرار دے کر تسلیم کرانا چاہتے ہیں، اس وجہ سے لامحالہ ان کی مخالفت کی جاتی ہے اور مخالفت شدید ہو تو وہ توازن جو صحیح ترجمانی کے لیے لازمی ہے قائم نہیں رہتا۔ مخالفت کی شدت ایسی صورت بھی پیدا کر سکتی ہے کہ اسلام یا کسی اور مذہب کی قدروں کا ترجمان خود اپنے آپ کو ایک قدر تصور کرنے لگے، اور اپنی پیروی کو قدروں کی خدمت کے لیے لازمی قرار دے۔
تعلیم گاہوں کی شخصیت اجتماعی ہوتی ہے۔ قدروں کی ترجمانی کے لیے تصورات کی جس ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ ان میں اختلاف رائے کی اتنی گنجائش بھی ہوتی ہے کہ ترجمانی کا منصب بالکل شخصی نہیں ہو جاتا۔ ہماری آج کل کی تعلیم گاہوں میں، اگرچہ وہ قومی پالیسی اور سیاسی پارٹیوں سے اثر لیتی ہیں، اتنی آزادی ہے کہ خیالات اور عقائد اعلانیہ مقبول اور مردود نہیں ٹھہرائے جاتے اور جو استاد اپنی اور دوسروں کی خودداری کا لحاظ رکھے، وہ آزادی کے ساتھ دینی اخلاقی اور سماجی قدروں کی ترجمانی کر سکتا ہے۔
تعلیم گاہیں چاہیں تو قدروں سے کوئی سروکار نہ رکھیں اور صرف کتابیں پڑھا دینا اور امتحان لے کر سندیں دے دینا اپنا کام سمجھیں۔ بظاہر ہماری بیشتر تعلیم گاہیں یہی کر رہی ہیں۔ لیکن قدروں سے منھ پھیر لیا جائے تو وہ سب مٹ نہیں جاتی ہیں۔ صرف یہ ہوتا ہے کہ ادنی قدریں حاوی ہو جاتی ہیں۔
اب ہم یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کو دینی اور اخلاقی تعلیم سے محروم رکھنا غلط ہے، اور ایسے نصاب کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس میں تمام مذہبوں کا نچوڑ ہو۔ یہ نچوڑ ایک نیا نسخہ ہوگا جس میں سب مفید دوائیں ہوں گی، مگر اس سے نہ کوئی بیماری دور ہوگی نہ تندرستی قائم رکھی جا سکےگی، صرف اس وجہ سے کہ اس میں کسی کے مزاج کا خیال نہ رکھا گیا ہوگا۔ ہمارے یہاں ایسی تعلیم گاہیں بھی ہیں جو اپنے منصب کو کسی خاص ملت یا دینی جماعت کی دینی اور اخلاقی تعلیم تک محدود رکھتی ہیں، ان کا نصاب شروع سے آخر تک اسی پر مشتمل ہوتا ہے، اس نصاب کے ساتھ چند جدید دنیاوی علوم بھی پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو ہندوستانیوں کے مجمع میں دوچار یوروپی لوگوں کی۔ ایسی تعلیم گاہیں دینی اعتبار سے بہت ممتاز ہو سکتی ہیں لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اپنے میدان عمل کو مخصوص اور محدود کرنے کے بعد وہ قدروں کی ترجمانی کا حق پورا پورا ادا کرسکتی ہیں یا نہیں۔
خالص علمی معیار، جو آج کل ہندوستان اور بیرونی ملکوں کی ان تعلیم گاہوں میں صحیح مانا جاتا ہے جہاں علمی اور تعلیمی آزادی ہے، یہ ہے کہ کوئی بات پہلے ہی سے اور قطعی طور پر صحیح یا غلط نہیں قرار دی جا سکتی۔ علم کا مقصد حقیقت کی جستجو ہے اور یہ کبھی ختم نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس دینی تعلیم گاہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صحیح کو برقرار رکھے اور غلط کو رائج نہ ہونے دے۔ صحیح کے لیے سند پر بھروسہ کیا جاتا ہے اور بحث کا رخ سندوں کی تشریح اور تاویل کی طرف پھرتا رہتا ہے۔
کسی دینی تعلیم گاہ میں افلاطون کا مشہور سوال پوچھا جائے کہ عدل کیا ہے، تو اس کا جواب دینے میں اتنی ہی دشواری ہوگی جتنی کہ کسی دنیا دی تعلیم گاہ میں۔ عدل ایک اخلاقی قدر ہے اور کسی ایک دین کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور یہ ہر جماعت کے لیے مفید ہوتا، اگر اس کی دینی تعلیم گاہوں میں عدل کے کسی ایک تصور کو صحیح مان کر اسے برقرار رکھنا تعلیم کا فرض ٹھہرا دیا جاتا۔ لیکن ایسا کبھی ہو نہیں سکا ہے۔ دوسری طرف، کسی مسئلے کے بارے میں بحث چاہے کامیابی کے ساتھ ختم کر دی جائے کہ صحیح صورت کیا ہے، مگر ان باتوں میں جو صحیح مانی جاتی ہیں ادنی کو چھوڑ کر اعلی کو اختیار کرنے پر اس طرح اصرار نہیں کیا جا سکتا جیسے صحیح اور غلط میں تمیز کرنے پر کیا جاتا ہے۔
اس لیے یہ ہو سکتا ہے کہ دینی تعلیم مستند اور صحیح ہوتے ہوئے اعلی قدروں کی ترجمانی کے لیے مفید نہ ہو۔ اس کا میلان لازمی طور پر اس طرف ہوتا ہے کہ مانی ہوئی بات کو ماننا عادت بنا دے، مقبولیت اور عمومیت کو معیار قرار دے، توفیق رکھنے والوں کے لیے زمین تیار کرنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف توجہ کرے جو صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ صحیح عقیدہ کیا ہے اور دینداری کے معیار پر پورا اترنے کے لیے کم سے کم کیا کرنا چاہیے۔ سب سے اعلی قدروں کی بہترین شکلوں میں ترجمانی کرنا صرف اس تعلیم گاہ میں ممکن ہے جو قدروں پر یقین رکھنے کے ساتھ علم اور تعلیم کے ذریعے ان کی تبلیغ کرنا اپنا مسلک اور مقصد قرار دے۔
اس وقت دنیا میں کہیں بھی ایسی تعلیم گاہ نہیں ہے۔ علم اور عقیدے کا تصادم جو کئی سو برس سے ہو رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسی تعلیم گاہ کا قیام کچھ ناممکن سا تھا۔ لیکن کہیں اور نہیں تو ہندوستان میں وہ اب بھی قائم ہو سکتی ہے، اور کوئی نیا ادارہ قائم نہ ہو تو پرانی تعلیم گاہوں میں سے کوئی بھی اس مسلک کو اختیار کر سکتی ہے۔ اگر ترجمانی کا مقصد اورمنصب اس حد تک واضح ہو جائے کہ جو لوگ توفیق رکھتے ہیں وہ اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کر سکیں۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ قدروں کی ترجمانی جیسے شریف مسلک کو واضح کرنے کے لیے ملک گیری جیسے ادنی کام کو مثال کے طور پر لینا پڑتا ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسائل کی وضاحت کے لیے اس سے بہتر کوئی مثال نہیں مل سکتی۔
جنگ میں کامیابی کی پہلی شرط یہ ہے کہ سپاہیوں اور افسروں کو ایک دوسرے پر اور اس فرماں روا پر اعتبار ہو جس کی خاطر وہ لڑنے کے لیے جا رہے ہوں۔ یہ اعتبار اس وجہ سے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ فوج میں کاموں کی تقسیم لازمی ہے اور تقسیم کی ضرورت اور مصلحت کو سمجھنا لازمی ہے۔ فوج میں ہراول ہوتے ہیں، جو دشمن کی نقل و حرکت اور ارادوں کا پتہ لگانے کے لیے آگے بھیجے جاتے ہیں۔ یہ ہراول چھپ سکتے ہیں، اپنا بھیس بدل سکتے ہیں، دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اسے دور سے دیکھ کر اپنا راستہ بدل سکتے ہیں۔ فوج میں ان کا شامل ہونا بےکار ہے اگر انہیں مصلحت سے کام لینے کی پوری آزادی نہ ہو۔
پھر فوج میں مختلف ضرورتوں کے پیش نظر سپاہیوں کو مشق کرائی جاتی ہے اور ہتھیار دیے جاتے ہیں۔ وہ سپاہی اور سپہ سالار ناقص سمجھے جاتے ہیں جو سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوجائیں اور تدبیر سے کام لینے کے بجائے جنگ کو طاقت اور ہمت کا مقابلہ بنا لیں۔ دشمن کو میدان سے بھگا دینا بلکہ خون بہا کر اسے زیر کر لینا بھی کافی نہیں ہے اگر اس کی وجہ سے اس میں دوسرے طریقوں سے مخالفت کرنے کی طاقت پیدا ہو جائے۔ اچھا سپہ سالار وہ مانا جاتا ہے جو موقع اور مصلحت کو سمجھے، جس کی نظر میں جنگ کا مقصد اتنا صاف ہو کہ اگر وہ دشمن کو جان اور مال کا نقصان پہنچائے بغیر اسے حاصل کر سکے تو اس میں اسے ذرا بھی تامل اور تکلف نہ ہو۔ ملک گیری کی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ وہی لوگ جو دشمن سمجھے جاتے تھے کامیاب ہونے کے بعد مستعد حاکم اور سچے خیرخواہ مان لیے گئے۔
اس طرح یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ اعلی قدروں کی تبلیغ کے لیے قدروں کے خادموں پر پورا اعتماد رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان خادموں میں سے بعض ہراول ہوں گے، جن کا منصب یہ ہوگا کہ وہ بغیر جھنڈا لہرائے اور ڈھول بجائے، بغیر یہ بتائے ہوئے کہ وہ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں، پہاڑ اور میدان، ریگستان اور جنگل، جیسا ماحول ہو اسی کے مطابق اپنا بھیس بدلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔
جو چیزیں وہ پہنچائیں گے وہ معتبر مانی جائیں گی، جو مشورے وہ دیں گے ان پر عمل کیا جائےگا۔ کوئی ناگہانی مصیبت یا خطرہ فوج کو ان سے الگ کر دے تو وہ اپنے حال پر چھوڑ دیے جائیں گے، مگر یہ نہ کہا جائے گا کہ وہ قدروں کے خادم نہیں ہیں اور یہ نہ پوچھا جائےگا کہ وہ ہراول کیوں بنے۔ ایسا ہی حق قدروں کے ان مبلغوں کا ہوگا جو فوج کے بازوؤں پر اور مرکز میں ہوں، کہ مقابلے کی نوعیت کو دیکھ کر وہ آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، محاذ کے ایک حصہ پر ساری طاقت جمع کر دیں یا ٹولیاں بناکر منتشر ہو جائیں اور قزاقانہ طریقے پر لڑیں۔
ملک گیری کی جنگ چند مہینے یا چند سال کی ہوتی ہے، قدروں کی کشمکش برابر جاری رہتی ہے۔ اور اعلی قدروں کے جو ترجمان ہوں، ان کا کام کسی کامیابی کی وجہ سے کم یا آسان نہیں ہو جاتا۔ قدروں پر یقین رکھنا ایمان بالغیب کی ایک شکل ہے مگر اس یقین سے کچھ بہت حاصل نہیں ہو سکتا، اگر قدروں کے ترجمان پر پورا بھروسہ نہ کیا جائے اور اسے تبلیغ کے لیے وہ مناسب تدبیریں کرنے کی اجازت نہ دی جائے جو فوج کے ہراول کو ہوتی ہے۔
نوٹ
(۱) ’’بروملک ہند بگیر‘‘ سیر الاولیا، صفحہ ۱۲۳
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.