تصوف اور شاعری
چونکہ دنیائے اسلام کی تاریخ میں تصوف نے ایک منظم تحریک اور منضبط عقیدے کی صورت بھی اختیار کر رکھی تھی، ہرچندکہ اس میں اختلافات عقائد بھی بے شمار رہے، اس لئے تصوف کو انگریزی لفظ مسٹی سی ازم (MYSTICISM) کے ہم معنی قرار دینے میں کسی قدر جھجک محسوس ہوتی ہے۔ لیکن جب ہم اس کے بنیادی عقائد اور طرز زیست اور طرز فکر و احساس پر غور کرتے ہیں تو اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ،
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت را می شناسم
اس وقت ہمیں تصوف اور مسٹی سی ازم کے مجازی معنوں میں کوئی ایسا فرق نظر نہیں آتا جو انہیں ہم معنی قرار دینے میں دشواری پیدا کر سکے۔
اس میں شبہ نہیں کہ ہر لفظ کی ایک اپنی مخصوص تاریخ ہوتی ہے اور اس کے معنی کو اس کی تاریخ یا اس کے سماجی اور جذباتی تلازمات سے علیحدہ کرکے بیان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے اس نسبت سے میں یہ بھی نہیں چاہوں گا کہ اس کی تاریخ یا اس کی شکست وفتح کی حکایت کو بالکل ہی نظرانداز کردوں، لیکن چونکہ موضوع تصوف کی تحریک کا کوئی تاریخی خاکہ نہیں بلکہ تصوف اور شاعری کا باہمی رشتہ ہے، اس لئے میں مجبور ہوں کہ اپنی توجہ تصوف کے اس عمومی طرز فکر و احساس اور طریق زیست پر رکھوں جو بلاتخصیص ادیان مغرب اور مشرق میں مشترک رہا ہے اور ہے۔
صوفیانہ طرز فکر، سائنسی طرز فکر کے برخلاف، جو استدراکی، استدلالی اور تجزیاتی ہے، وجدانی اور الہامی ہوتا ہے۔ تصوف کی دنیا میں حقیقت کا ادراک حواس ظاہری اور ذہن کی استدلالی قوت سے نہیں بلکہ ایک قسم کی باطنی نگاہ سے کیا جاتا ہے۔ ع گاہ مری نگاہ تیز چیر گئی دل وجود۔ صوفی کایہ علم، ویژن، مشاہدے یا تجلیات کا ہوتا ہے جو نارسائی عقل یا شک و گمان کی شب تار میں کوندے کی طرح لپک کر اس پر اصل حقیقت منکشف کر دیتا ہے،
دوش وقت سحر از غصہ نجاتم دادند
و اندر اں ظلمت شب آب حیاتم دادند
بے خود از شعشہ پر تو ذاتم کردند
بادہ از جام تجلی بصفاتم دادند
یہ علم شاہد و مشہود کی غیریت کا نہیں بلکہ اتحاد ذات کا ہوتا ہے۔ یہاں حق کی دید (اور حق سے مراد حقیقت کبری یا حقیقت غائی ہے نہ کہ اشیا کی حقیقت) اپنی دید ہے اور اپنی معرفت حق کی معرفت ہے، چنانچہ جب میر تقی میر کہتے ہیں،
کب سے لڑی تھیں آنکھیں دروازہ حرم سے
پردہ اٹھا تو لڑیاں آنکھیں ہماری ہم سے
تو اسی اتحاد ذات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور حس کے بالذات ہر جگہ موجود ہونے کی طرف اشارہ اس شعر میں کرتے ہیں،
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
ہے دید چشم دل کے کھلے، عین ذات کا
لیکن یہ دید حق، چشم دل کے کھلے ہے نہ کہ چشم ظاہر کے۔ صوفیا اور متصوف شعرا کا یہ علم تمام تر داخلی، عالم خواب، عالم بے خودی، مراقبے اور مکاشفے کا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس علم کو فوق الحس اور فوق العقل بتایا ہے لیکن چونکہ پست و بالا کا فرق اعتباری ہے کہ سطح ماہتاب سے یہ زمین آسمان پر ہے، اس لئے میں اسے ذہن کے پاتال، لاشعور، یا نفسیاتی گہرائیوں سے حاصل کیا ہوا ایک داخلی علم تصور کرتا ہوں۔ یہ ایک علم باطن ہے ساز فطرت کی اس نواکا، جو ماہ و انجم، جوش دریا، شعور باد، دوران خون، موجہ رنگ وبو، نمودقامت یار، خندہ زیست اور سیل گریہ کے مختلف پردوں سے تالیف پاتا ہے، لیکن چونکہ صوفیا کے نزدیک ہستی حجاب ہے اپنے وجو دکا ع ہے مشتمل نمود صور پر وجود بحر، اس لئے یہ کوئی معروضی علم نہیں بلکہ ایک احساس، ایک تجربہ ہے فرد کا۔ مظاہر کے درمیان اس کی باطنی وحدت کا۔ اس احساس کا ماخذ کیا ہے؟ جو اس ظاہری یا حواس باطنی یا لاشعور یا غیب۔ اس کی طرف اشارہ کر چکا ہوں۔ کیا یہی طرز فکر اور طرز احساس شاعر کا نہیں ہوتا ہے؟
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے
اور اس غیب اور نوائے سروش کی تشریح غالب فارسی کے ان اشعار میں یوں کرتے ہیں۔
اے ذوق نوا سنجی بازم بہ خروش آور
غوغائے شبے خونی بربنگہ ہوش آور
گرخود نہ جہد از سر از دیدہ فرد بارم
دل خون کن و آں خون را درسینہ بجوش آور
اور کیا شاعر کا عرفان ایک سفر شوق نہیں جسے وہ ایک عالم وجدمیں طے کرتا ہے؟ یہ پاکوبی آہنگ، یہ رقص صوت، ایک نغمہ زیرلب حرف، جو نوائے شاعری ہے اور یہ رموز و علائم اور استعاروں کی پراسرار گفتگو جو نطق شاعری ہے، کیا صوفیوں کے حال و قال سے مشابہت نہیں رکھتی؟ ایک ہی طرز فکر اور طرز احساس ہے، حقیقت کو عالم ذوق وشوق میں مجسم صورت میں دیکھنے اور وجدمیں آنے کا۔ یہ ان دونوں میں مشترک ہے۔ صوفی حقیقت کو چشم باطن سے، شاعر چشم تخیل سے دیکھتا ہے اورجب صوفی شاعر، یا شاعر صوفی ہو جاتا ہے تو یہ دونوں نگاہیں ایک ہی نقطے میں سمٹ آتی ہیں۔
شاعری کے بار ے میں یہ مشہور ہے کہ یہ کوئی اکتسابی شے نہیں، بلکہ یہ ایک عطیہ فطرت ہے۔ اسی طرح صوفی اپنے جذبہ عشق کو بھی اکتسابی نہیں بلکہ فطری بتاتا ہے۔ اور سچ تویہ ہے کہ جب تک کہ صوفی کو شاعر کا آہنگ اور تخیل اور شاعر کو صوفی کا عشق نہ ملے، نہ تو صوفی مکمل نہ شاعر۔
اب آپ کہیں کہ لو یہ بھی کسی کی حقیقت چشم کا شکار ہوا۔ کہاں اس کی یہ بات کہ انسان کی عظمت کا راز اس کی اس آزادی میں ہے جو نوامیس فطرت کی حکمرانی اور تکمیل مقاصد کی آزادی سے عبارت ہے اورکہاں یہ اس کی حال وقال، کشف وجذب اور وجدان کی باتیں؟ آپ گھبرائیں نہیں۔
مستی میں چھوڑ دیر کو کعبے چلاتھا میں
لغزش بڑی ہوئی تھی ولیکن سنبھل گیا
حقائق اشیا کا علم، جس سے انسان نوامیس فطرت پر حکمرانی کرتا ہے، ایک خیر عظیم ہے اور اس کی آدمیت کا نشان امتیاز ہے۔ کیونکہ انسانی شعور کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کے تخیل کی پرواز، اس کے خیال کی آزادی، اس کی نگاہ کی وسعت اور دراکی اور اس کے جذبہ ایثار و محبت کی فراوانی، اس کے تیشہ عمل، علم اشیا، تسخیر فطرت، ایجادات نوع بہ نوع کی مرہون منت ہے۔ اس سے بے گانگی یا اس کی طرف چشم حقارت تذلیل آدمیت ہے کہ،
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
اور وہ فلسفہ حیات جو عالم کو، خواب ہستی کو بے ثبات تصور کرکے ترک خواہش اور نفی ذات کو ہوا دیتا ہے، وہ اصول حیات اور انسان کی کبریائی، دونوں ہی کا مخالف ہے۔ لیکن ایک لمحہ تامل کہ، ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے۔
یہ صحیح ہے کہ خواہش بذات خود کوئی شر نہیں کہ اس کے ترک کی تعلیم دی جائے۔ لیکن جب کسی ایک فرد بشر کی تکمیل خواہش کسی دوسرے فرد بشر کی خواہش کا خون کرتی ہے یا اس کی خواہشوں کے جنازے پر تکمیل پاتی ہے تو اس وقت یہ آرزو اور اس کی تحصیل کسی انسان کی نہیں بلکہ ایک درندے کی خواہش کی تحصیل بن جاتی ہے۔ ایک ایسے زمانے میں جب کہ انسان کے پاس ایسے مادی وسائل موجود نہ تھے جو اس کی درندگی کو قبائے انسانیت پہنا سکتے اور اسے اس مروت کبری سے شناسا کر سکتے کہ جو ایک دل کی خواہش ہے، وہ ہر دل کی خواہش ہے۔ ترک خواہش کے منفی نظریے کا پیدا ہونا اخلاق انسانیت کی دلیل تھی نہ کہ اس کی تردید اور یہ اصول فطرت ہے کہ جب مداوائے غم کی کوئی تدبیر نہیں ہوتی تو پھر اپنا ہاتھ اپنے ہی گریبان پرپڑتا ہے اور قہر درویش برجان درویش آتا ہے۔
یہ مجاہدہ نفس، یہ مکاشفہ ذات، یہ فراغ تجرید، یہ آزادی خیال و ارادہ کہ ع مر گئے مر گئے پہ نہیں تو نہیں، انسان کی آدمیت یا مروت ہی کا نہیں بلکہ اس کی داخلی قوت کا بھی ایک عظیم مظاہرہ تھا کہ انسان اپنی ایک قوت ارادی اور خیال کی آزادی کے باعث ناقابل شکست ہے۔ جبر، فطرت ہی کی طرف سے نہیں بلکہ آدمی کی طرف سے بھی ہوتا ہے۔ صوفی اپنے نفس کو مار بیٹھا، لیکن اپنے خیال کی آزادی کسی ظالم و جابر کے قدموں پر قربان نہیں کی۔ اس کی یہ فتح اپنے نفس پر، اس کے خیال کی آزادی کا نشان تھی اور اگر آج صوفیوں کے اس فلسفہ اخلاق کا نیٹشے کے فلسفہ قوت، نشٹے کے فلسفہ خودی اور برگساں کی اندھی قوت حیات سے ٹکراؤ ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کا اپنا جاہ و جلال نہیں۔
لیکن قبل اس کے کہ میں ان کی اولوالعزمی، اخلاقی جرأت اور پامردی کا کوئی افسانہ سناؤں اور کوئی ایک حرف دانش ان کے اس افسانہ الم سے پیش کروں، کچھ پیش منظرکی حیثیت سے دور حاضر کے اس خیال کو پیش کرنا چاہوں گا جس نے ان کے افسانہ الم کوآج بے معنی کر رکھا ہے۔
یہ بات کہ انسان ایک ارتقا یافتہ حیوان ہے، کوئی ڈارون ہی کا انکشاف نہیں ہے۔ ا س کا ایک غیر سائنسی نظریہ یونانی فلسفیوں کے زمانے سے پایا جاتا ہے اور رومی کے یہاں بھی اس کا ذکر ہے لیکن اس کے باوجود ایک آہنی خط انسان اور حیوان کے درمیان کھنچا ہوا تھا جو ناقابل عبور تھا۔ وہ خط آہنی، شعور اور ارادے کی آزادی کا تھا، جس کو صوفی جو ہر ربوبیت اور عقلئین عقل سے تعبیر کرتے، یعنی وہ ایک کیفیاتی فرق بھی حیوان اور انسان کے درمیان بتاتے نہ کہ صرف کمیاتی۔ لیکن ڈارون کے فلسفہ جہدالبقا کی روشنی میں انیسویں صدی کے بہت سے مفکروں نے غالباً خوں آشامی سرمایہ کی تصدیق وتوجیہ میں انسان اور حیوان کے درمیان اس کیفیاتی فرق کو اٹھایا اور صرف کمیاتی فرق کو قائم رکھا۔
اس خیال کو مزید قوت اٹھارہویں صدی کے ان مفکرین کی میکانکی مادیت سے بھی پہنچی جو شعور کا تجزیہ کیمیائی سطح پر کرکے اسے ماد ے میں تحلیل کرنے کی کوشش کرتے۔ بہر حال جب اس تصور آدم پر ترقی PROGRESS کا فلسفہ اسپنسر کے ہاتھوں پروان چڑھا تو حال کو ماضی کے مقابلے میں ہر پہلو سے لازماً بہتر قرار دے کر حال کو اس کی اپنی چال پر چھوڑ دیا گیا اور اس کو ہر قسم کی تنقیح اور تہذیب سے آزاد رکھا گیا۔ کیونکہ اس فلسفہ ترقی کے نزدیک شعور اور ارادہ وقت کے مقابلے میں بے دست و پا تھا۔
مغرب کے اس فلسفے کا گہرا اثر ہماری زندگی پر اس وقت پڑا جب کہ دور غلامی میں ہم نے میکالے کے فلسفہ ترقی کی تقلید میں جس کے نزدیک قوموں کا دولت مند ہونا ہی ترقی سے عبارت ہے، قطع نظر اس امر کے کہ افراد کے رشتوں کی کیا نوعیت ہے، نظام سرمایہ داری کے اصول ربا کو حلال قرار دے کر ابن الوقتی کا چلن اختیار کیا اور اس کی تنقید اور تردید کو خلاف آداب غلامی فرنگ، خلاف مصلحت وقت تصور کیا، لیکن جب کچھ دنوں کے بعد مغرب کی غلامی کے خلاف آزادی کا ایک ہمہ گیر جذبہ ابھرا جس کا ایک بہت بڑا فکری مظاہرہ اقبال کی شاعری میں بھی ملتا ہے، تو جہاں پیروی مغرب اور لارڈ میکالے کی امامت کا زور گھٹا، وہاں مغرب کے علوم کی طرف ایک تنقیدی نظر، اور ایک اخلاقی جذبہ اصلاح سرمایہ داری کا بھی پیدا ہوا۔
علامہ اقبال کی شاعری میں اخلاقیات ملی یار موز بے خودی نے اسی جذبے کی راہ سے اپنی جگہ بنائی اور ان کی پیروی رومی، اسی جذبہ خیر کا ایک ادعا ہے کہ حب ذات کو حب غیر سے اور ارتقا کو اخلاق انسانی سے ایک حسین ربط دینا چاہئے، لیکن اس سلسلے میں اقبال نے داخلیت کی آزادی پر اس قدر زور دیا کہ کبھی کبھی تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی صوفیوں کی طرح عالم مستعار اور وقت غیر حقیقی ہے اور جو کچھ ہے وہ خود ہی خودی ہے،
اک تو ہے کہ حق ہے اس جہاں میں
باقی ہے نمود سیمیائی
لیکن زندگی کے تلخ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ عالم سخت کردار ہے اور مرکب زمانہ بڑا منہ زور ہے۔ ہم اپنی ہر خواہش کو اس پر لاد نہیں سکتے۔ وہ اپنے راکب کی آزادی انتخاب کو محدود بھی کرتا ہے، اس سے انسان مجبور نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ سیکھتا ہے کہ تسخیر فطرت، قوانین فطرت کی اطاعت میں ہے نہ کہ اس سے روگردانی یا چھوچھکے کی سحر آفرینی میں۔ زمانہ تغیر و تبدل ہی نہیں بلکہ ایک ارتقا (DEVELOPMENT) بھی ہے اور اس عمل سے کائنات کی کوئی بھی شے آزاد نہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ غیر شعوری دنیا کا ارتقا غیر شعوری ہے اور شعوری دنیا کا ارتقا شعوری ہے۔ انسان اپنی داخلیت کی آزادی کو بروئے کار لاکر اپنے سماجی ارتقا پر اثر انداز ہو سکتا ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ سماجی ارتقا کی خارجیت کا کوئی نوٹس نہ لے، اس کے اصول ارتقا سے روگردانی کرے۔
تنہا انسان مجبور محض ہے۔ وہ آزاد مشارکت غیر سے ہے۔ چنانچہ زندگی کے آلام و مصائب کا مداوا اجتماعی صورت حیات ہی میں ممکن ہے اور حیات اجتماعی کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ ضروریات زندگی کے پورا کرنے، اس کے آرام و آسائش اور فراغت کی گھڑیوں میں اضافہ کرنے کا ہے تاکہ وہ ذہنی مشاغل میں زیادہ سے زیادہ وقت دے سکے۔ اس کام کے لئے سائنس اور ٹکنالوجی کے امداد کی جو ضرورت ہے وہ اظہرمن الشمس ہے۔ اس کی زندگی کا دوسرا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ فرد اور جماعت ہی کا نہیں کہ جماعت ہر فرد کو جامع ہے بلکہ فرد اور فرد کے درمیان مختلف النوع رشتوں میں حسن پیدا کرنے کا بھی ہے اور وہی سب سے ٹیڑھا مسئلہ ہے۔ کیوں کہ بزم انسانیت کا ہرفرد بشر شعور اور قوت ارادی کی آزادی سے متصف ہونے کے باعث، خواہ اس کی وہ آزادی مشارکت غیر ہی کا عطیہ کیوں نہ ہو، مقصود بالذات بھی ہے۔
اس کے یہ معنی ہوئے کہ ہر فرد بشر کی تکمیل ذات یا ارتقائے ذات مشروط ہے، تمام افراد کی تکمیل یا ارتقائے ذات پر، اور سوسائٹی اس مقصد کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے، نہ کہ کوئی مقصود بالذات شے۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے نہ تو ریاستی مطلقیت صحیح ہے اور نہ قومی مطلقیت جو ہیگل کا نظریہ ہے کہ اس سے ایک نیا جبر اسٹیٹ کا پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس معاشرے کی بنیاد آزاد مشارکت پر ہونی چاہئے اور اگر انسان نے ابھی تک یہ نہیں سیکھا ہے، یا یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی آزاد مسابقت نے اس کی فطرت کو اپنے اصولوں میں کچھ ایسا ڈھال لیا ہے کہ وہ آج انفرادیت اور انفرادیت پرستی کا فرق معلوم کرنے سے قاصر ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کی فطرت کی اصلاح خارجی اور داخلی ذرائع سے نہیں ہو سکتی ہے۔ لیکن انسان کی اس آزاد مشارکت کو مفادعامہ یا دولت عامہ ہی کے امور تک محدود رکھنا چاہئے اور اس کی کوشش کرنی چاہئے کہ اس کا پرچھاواں اس کی حریم ذات پر نہ پڑنے پائے، جہاں وہ مجرد اور منفرد بھی ہوتا ہے۔
تکمیل ذات حصول آسائش زیست ہی میں نہیں ہے کہ انسان اسی کے لئے ہمہ وقت مصروف عمل اور سرگرداں رہے۔ انسان کی ایک زبردست خواہش اپنی یکتائیت اور انفرادیت کو پانے اور اس کے اظہار کی بھی ہے، اور یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرا اس کا شریک نہیں، وہاں وہ خلوت چاہتا ہے۔ یہ خلوت صرف فارغ البالی اور فراغت وقت ہی سے نصیب نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے لئے فراغ تجرید اور ایک دل بے مدعا بھی چاہئے۔ جب انسان اس منزل پر پہنچتا ہے تو وہ ازخود بہت سی خواہشوں کو ہاتھ کامیل سمجھ کر ترک کر دیتا ہے۔ احترام شخصیت اسی حریم ذات کے تقدس سے پیدا ہوتا ہے، جہاں وہ منفرد، مجرد اور آزاد رہتا ہے اور یہ ہمارے صوفیوں کا ایک عظیم اخلاقی ورثہ ہے کہ ظلم و استحصال تو درکنار، وہ داغ محجوبی کی بھی تاب نہ رکھتے۔ یہ احساس کہ جب کسی فرد بشر کی آنکھیں بار محجوبی سے جھکتی ہیں تو عرش کبریا کے پائے جھک جاتے ہیں، اخلاقی احساسات کی ایک اعلیٰ ترین صورت ہے،
الہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش
ہمیں توشرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے
چنانچہ یہی سبب ہے کہ صوفیا کرام نے، خالق و مخلوق اور عبد و معبود کے رشتوں کے بجائے محبوب اور حبیب کے رشتے کی بنیاد ڈالی اور اسی رشتے کو انسانوں کے درمیان رائج کرنے کی کوشش کی، کہ عشق تکمیل ذات اور تفرید ذات، دونوں ہی کا ذریعہ ہے۔ عشق میں انسان اپنے کو کھوتا ہی نہیں بلکہ اپنے کو پاتا بھی ہے۔ عشق وصال ہی نہیں بلکہ فراق بھی ہے، دم بدم بامن و ہر لخطہ گریزاں ازمن۔
صوفی ہوں یا صوفیا منش شعرا، میں ان کے اس آئیڈیل، ان کی اس پاکیزگی خیال کو بارہا نذرانہ عقیدت پیش کر چکا ہوں اور اگر کسی کو یہ خیال ہے کہ جو انسانی فطرت کہ اس وقت موجود ہے، اس سے یہ آئیڈیل دور اور ناقابل حصول ہے، توان کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ وہ اپنے مطالعہ فطرت انسانی کو ذرا وسعت دیں۔ اسے اول تو اصول تغیر اور ارتقا سے محروم نہ رکھیں اور ثانیاً اسے فراموش نہ کریں کہ شعور اپنی فطرت مجبور پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، جس نے ہواؤں کے رخ موڑے ہیں، زمین کی کشش سے زور آزمائی کی ہے، ذرات کے جگر توڑے ہیں، وہ اپنی فطرت پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ خارجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اپنی خود آگہی بھی حاصل کرے۔
خود آگہی کے مختلف درجات ہیں، جہاں کچھ لوگوں کو ایک تسکین خاطر اس بات سے ہے کہ فطرت ہمیں خود موت کے لئے تیار کرتی ہے اور آخرکار ہمیں اپنے جسم و جان کو فطرت کے سپرد کرنا پڑتا ہے، وہاں کچھ دیوانوں کو اس آشوب آگہی ہی میں لذت ملتی ہے کہ تسلسل حیات کو ہے نہ کہ فنا کو! اور وہ تسلسل عالم انسانی میں، عالم حیوانات سے مختلف ہے۔ عالم حیوانات میں وہ تسلسل تمام تر حیاتیاتی ہے اور انسانوں کے عالم میں وہ تمام ترحیاتیاتی ہی نہیں بلکہ تمدنی اور تہذیبی بھی ہے اور جس کو کہ ہم بقائے حیات کہتے ہیں، وہ ممنون چشمہ حیوان نہیں، حیات خضر نہیں بلکہ ایک رقص شعلہ، ایک نشان کہکشاں سے عبارت ہے، خواہ وہ مستعمل ہی کیوں نہ ہو۔
زندگی ایک اندھیرے سے دوسرے اندھیرے میں چھلانگ لگانے کا نام نہیں بلکہ نشان انسانیت کو بلند رکھنے اور اس کی مہمات گوناگوں میں اپنے نقش قدم کو دوام دینے اور اپنے پیچھے روشنی کا ایک خط چھوڑ جانے میں ہے۔ جب کہ کوئی اس حوصلے سے زیست کرتا ہے تو پھر اس کو ایک شہید راہ عشق، ایک شہید جستجو کا جنون سمجھ میں آتا ہے، خواہ اس کا حاصل کچھ بھی نہ ہو،
حاصل نہ پوچھ مشہد الفت کا بوالہوس
یاں پھل ہر اک درخت کا حلق بریدہ تھا
یہ حکایت الم الشجاع باصفا کی، ایکو کو دار کھینچا ایکو کی کھال کھینچی۔
دور حاضر کی نفس پروری اور گوسالہ زرکی کی داوری میں بے معنی ہو تو ہو، لیکن جب بھی اور جہاں کبھی بھی شعور کی آزادی، خیال کی آزادی اور اعلان کلمۃ الحق کے باب میں بے باکی کی گفتگو ہوگی، تو وہ درویشان باصفا، اپنے اپنے سربریدہ علم کئے ہوئے بطن ماضی سے ابھریں گے اور اپنی اخلاقی جرأت، اپنی اوالعزمی، اپنی دشت پیمائی جنون، اپنے خلوص اور اپنی دردمندی سے ہماری راہ حیات کو منور کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔
مصحفی لکھتے ہیں کہ ’’شاعری اور درویشی دوش بدوش راہ می رود۔‘‘ ایسا صرف اس لئے نہیں ہے کہ دونوں کا طریق فکر اور طریق احساس مماثل ہے، بلکہ اس لئے بھی ہے کہ حق جوئی اور حق گوئی اور مسلک عشق اور درمندی دونوں ہی کے درمیان مشترک ہیں اور دونوں ہی اپنی دنیاوی خواہشات کے خون سے اپنے شعور اور خیال کا چراغ جلاتے رہتے ہیں۔
لیکن یہ حکایت الم الشجاع باصفا کی اس وقت کی ہے کہ جب کہ درویش اعلان کلمۃ الحق میں واقعتا ًبے باک تھا، جبکہ وہ فرمان شاہی لوٹا دیا کرتا اور روشناسی خلق پر فخر کرتا نہ کہ اس وقت کی جب سے کہ اس نے خیروشر کو اعتباری تصور کرکے سیاسی خموشی اختیار کی اور عالم کو حلقہ دام خیال تصور کرکے اپنے دام و درم کا بیوپاریا مایا جال پھیلایا۔ اس وقت سے نہ صرف تصوف کی اخلاقی قوت درویشوں سے جاتی رہی بلکہ تصوف کی تحریک کا زوال بھی شروع ہو گیا۔ پھر کیا عجب جو شیخ علی حزیں نے یہ بات آزروئے حق ہی کہی ہوکہ، تصوف برائے شعر گفتن خوب است، کیوں کہ اس وقت سے تصوف تو صرف شعر ہی کے ذریعے زندہ رہا ہے۔
اب میں اپنے مضمون کے اس ابتدائی حصے کی طرف لوٹنا چاہتا ہوں، جہاں میں نے یہ کہا تھا کہ شاعر کا طرز فکر اور طرز احساس صوفیوں کے طرز فکر اور طرز احساس سے مماثل ہے کیونکہ میں نے یہ محسوس کیا کہ اس حصے کی وضاحت جیسی کہ کرنی چاہئے تھی، ویسی نہیں کی ہے۔ میں نے صوفیانہ طرز فکر اور طرز احساس میں وجدان، لمعات، مشاہدے، مراقبے، ذوق وشوق اور کیف ومستی کو اہم قرار دیا ہے اور تخلیق شعر کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے ان چیزوں کو شاعر کے یہاں بھی تلاش کیا ہے۔ اس سلسلے میں وجدان کے ایک ڈانڈے کو جہاں تخیل سے ملایا ہے وہاں اس کے دوسرے ڈانڈے کو لاشعور سے ملایا ہے، جو فکر میں گہرائی، علامتی تصورات، مستی اور جوش پیدا کرتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ شعر گوئی ایک شعوری عمل ہے۔ امیج IMAGE کو خیال اور زبان کی منطق میں ڈھالنا، جوش کو نظم و ضبط آہنگ کا پابند کرنا، یہ دونوں عمل شعوری ہیں۔ قطع نظر اس امرسے کہ بہت سی شاعری تمام ترعقل ومنطق ہی کی روشنی میں کی جاتی ہے، لیکن ایسی چیزوں کا شمار منظومات میں کیا جاتا ہے، نہ کہ شاعری میں۔ ہر منظوم کلام شعر نہیں ہے۔ شعر کہلانے کے لئے کسی کلام میں اس کی تخئیلی تخلیقیت کا پایا جانا ضروری ہے، چنانچہ اسی بنیاد پر اس کے عمل تخلیق کو عمل صناعی یا مرصع سازی سے ممتاز کیا گیا ہے۔ شعر روئیدہ ہوتا ہے ظلمت کدہ لاشعور سے اور جس قدر زیادہ احساس یا جذبہ قوی ہوتا ہے، اتنی ہی زیادہ گہرائی سے وہ روئیدہ ہوتا ہے اور وہیں سے وہ اپنی ممکنہ قوت اور صورت ومعنی کی ممکنہ نامیاتی وحدت بھی ساتھ لاتا ہے۔ وہ پروان بے شک آفتاب شعور ہی کی روشنی میں چڑھتا ہے کہ شعور ہی امیج اور خیال، خصوص اور عموم، محسوس اور معقول کے تضاد کو دور کرتا ہے اور شعو رہی تکرار آہنگ کے درمیان وقفہ سکوت اور دوران آہنگ کو متعین کرتا ہے اور وہی اس کو طرح طرح کے سے اوزان مرصع کرتا ہے۔
شعور کا عمل اس سے آگے بھی ہے۔ وہ تنقید مذاق اور تنقید اظہار بھی کرتا ہے۔ وہ نہ صرف الفاظ ہی کو کاٹتا چھانٹتا ہے بلکہ جز اور کل کے تناسب اور توازن کو بھی درست کرتا ہے۔ لیکن ان چیزوں کا اعتراف اس حقیقت کی تردید نہیں کرتا کہ شعر میں جو کیف و مستی، توجد، جذبہ اور جو حسن ایمائیت کہ استعارے اور رموز و علائم کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں وہ دنیائے لاشعور ہی کی دین ہوتے ہیں۔ ہر شعر پابہ گل ظلمات لاشعور میں ہوتا ہے۔ غیب اسی کا نام ہے اور نوائے سروش و ہ جذبہ ہے جو اسے لاشعور کی دنیا سے ابھارتا ہے اور جب شاعری سے ان تمام عناصر کو حاجب معنی تصور کرکے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو وہ صاف اور شفاف تو ضرور ہو جاتی ہے لیکن اس کا شمار کلام موزوں میں کیا جاتا ہے نہ کہ شعر میں۔ کیوں کہ اس سے اس کی وہ تخلیقیت، تہہ داری، گہرائی اور گیرائی ضائع ہو جاتی ہے، جو تخیل اور لا شعور اور جذبہ مل کر پیدا کرتے ہیں۔
شاعری کی دنیا میں یہ دونوں اصول تخلیق اور مرصع سازی، آمد اور آورد، مختلف ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔ کسی نے ایک کو رومانوی اور دوسرے کو کلاسیکی کہا ہے، تونشٹے نے تخلیقی یا رومانوی اصول کو DIONYSIAN اصول کا نام دیا ہے اور کلاسیکی یا صناعی یا صفائی کے اصول کو APPOLONIAN بتایا ہے اور یونان کے منظوم المیہ ڈراموں کی عظمت ان دونوں اصولوں کو متحد کرنے میں دیکھتا ہے۔
لیکن ہمارے یہاں جو ایک کافر صنف سخن غزل کی پائی جاتی ہے اور جس کی نظیر مغرب کے اد ب میں کم ملتی ہے، اگر اس کی نفسیات تخلیق کو مدنظر رکھا جائے تو یہ ماننا پڑےگا کہ کیا بہ اعتبار نغمہ اور کیا بہ اعتبار رمز و کنایہ اور کیابہ اعتبار وحدت تاثر وہ اپولونین اصول کے مقابلے میں نسبتاً ’’ڈایانیوشیئن‘‘ یا ہمارے متصوف شعرا کے الفاظ میں غیب یا پھر جدید لغات کے مطابق لاشعور کے گنج ہائے گراں مایہ اور اس آشوب جذبہ کی زیادہ پروردہ ہے جو تموج خون آدم میں پنہاں ہے۔ عربی زبان میں شاعر غیب سے خبر لانے والے کا ہن یا SOOTHSAYER کوکہتے تھے نہ کہ مہندس اور عالم طبیعات کو اور وہ شاعر ہر خبر سے پہلے اپنے کو اسی کیفیت میں ڈالتا تھا جو شاعر کے غوطے یا صوفی کے مراقبے اور حال سے مشابہ ہے،
شاعر کا شعور صرف عالم بے داری کا نہیں بلکہ عالم خواب، عالم بے خودی کا بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے شاعری کو خواب کاری کا عمل بھی کہا گیا ہے، لیکن چونکہ یہ ایک عمل خواب کاری ہے نہ کہ خواب ہے، اس لئے شاعر اپنے اس خواب میں بیدار اور اپنی بیداری میں خواب آلود ہوتا ہے۔ وہ آفتاب کا عکس ماہتاب میں اور عقل کا جلوہ فانوس محسوسات میں دیکھتا ہے۔ اس کا مسئلہ اجزائے پریشان کی الگ الگ حقیقتوں کے بیان کرنے کا نہیں ہے بلکہ ان کو ایک وحدت میں پرونے کاہے اور چونکہ عقل آدم کبھی کبھی مفادات کے بھی تابع ہو جاتی ہے، اس لئے وہ اس مہم کو بیشتر احساسات کی مدد سے سر کرتا ہے جو مفادات کے تابع ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ بزم انسانیت میں وحدت بنیادی حیثیت سے احساسات کی ہے نہ کہ عقل کی۔ احساسات کی صداقت ناقابل تردید اور عقل کے فیصلے متنازع فیہ بھی ہوتے ہیں اور احساسات کی زبان مبہم تصورات، خیالی پیکروں، رمز و کنایہ کی ہوتی ہے۔
تخیل بے شک خالق ہے لیکن وہ کوئی بھی صورت عدم سے تخلیق نہیں کرتا ہے۔ اس کا خزانہ معلومات لاشعور کی دنیا یا دفینہ حافظہ ہوتا ہے۔ شاعر اس دنیا سے عجیب عجیب تلازمات، تشبیہات اور تمثیلات ہی پیدا نہیں کرتا، بلکہ جہاں ایک داخلی وحدت اپنے تجربات میں پیدا کرتا ہے، وہاں ایک داخلی وحدت اپنی ذات کی، عالم کے تمام مظاہر سے بھی پیدا کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کا یہ علم داخلی اور احساساتی ہوتا ہے جس کا شمار ایسے علوم میں نہیں کیا جا سکتا ہے جو خارجی معیار کے ہوتے ہیں، تاہم ایک جلائے تخئیل، ایک مکرمت نفس اور ایک گداز قلب اس میں ایسا پایا جاتا ہے کہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی ہاتھ گولیوں کی باڑھ میں پھول کی طرف بڑھتا ہے، جب کوئی خنجر کسی رگ گردن پر رک جاتا ہے، جب کوئی بجلی کسی آشیاں سے لوٹ جاتی ہے اور جب کوئی تیشہ کسی زندہ شاخ سے اچھل پڑتا ہے تو احساسات کا دائرہ خود بخود پھیل کر کائناتی وحدت اختیار کر لیتا ہے اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وجود کوئی مجرد شے نہیں بلکہ محسوس شے ہے اور اس کی وحدت کا ادراک محسوسات کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔
اور اگر دور حاضر کا بے قلب دماغ جس نے تسخیر فطرت کا راز تذلیل آدمیت کی قیمت پر خریدا ہے، احساسات کی دنیا کو حریف دام زر، خلاف شرع زر اور تخیل کو حریف عقل تصور کرتا ہے، تو اس سے کچھ شاعری ہی کو نہیں بلکہ انسان کو بھی ضرر ہے کہ اس کی زندگی مکرمت جذبہ، بالیدگی احساسات اور ندائے تخیل کے بغیر نامکمل ہے۔
ہماری زندگی نور قاہر، آفتاب ہی کی نہیں بلکہ اس ماہتاب کی بھی پروردہ ہے، جس سے ایک آشوب مدوجزرنہ صرف دریاہی کو ہے بلکہ خون آدم کو بھی۔ یہ وحشت دل، یہ جنون عشق، کہ ’’اڑی ہے جس سے خاک رہگزر بہت‘‘ اسی زرد رو ماہتاب سے ہے۔ یاد رہے کہ LUNATIC اور LUNA کا ماخذ ایک ہے اور جس طرح کہ چاند کی روشنی کریم ہے نہ کہ قاہر، منعکس ہے نہ کہ راست، اسی طرح شعری وجدان کی روشنی بھی منعکس ہوتی ہے نہ کہ راست، نشاط آگیں ہوتی ہے نہ کہ نظارہ سوز۔
ہے فروغ مہ تاباں سے فراغ کلی
دل جلے پر تورخ سے ترے مہتاب میں ہیں
میر
اور کیا عجب جو شاعر، عاشق اور صوفی کو کچھ لوگ ماہ زدہ اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے تف نالہ کا سراغ اسی ماہ سے پاتے ہیں اور اسی کی طرف گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔
اب آخر میں شاعری اور تصوف کے ایک اور رشتے کا ذکر کروں گا جو غالباً ان سب پر بھاری ہے۔ صوفیوں کے حلقے میں سماع کو وسیلہ قرب الہی تصور کیا گیا ہے اور سماع کا جزواعظم موسیقی ہے، جیسا کہ غالب کہتے ہیں،
جان کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع
کیا وہ صدا سمائی ہے چنگ درباب میں
اور یہی موسیقی روح شاعری بھی ہے نہ صرف اس لئے کہ یہ زبان جذبہ، فردوس گوش ہے، بلکہ اس لئے بھی کہ موسیقی کائناتی رشتوں کے ادراک کا لطیف ترین محسوساتی علم ہے۔ یہ ایک محسوس علم ریاضی ہے اور علم ریاضی ہی کلید معرفت حقیقت ہے کہ اس کے ذریعے اجزائے پریشان کے باہمی رشتوں کو سمجھا جا سکتا ہے، چنانچہ مغرب کے مسٹک فلسفی فیثاغورث نے اپنی مسٹی ازم یا تصوف کی بنیاد پر علم ریاضیات ہی پر رکھی تھی۔ اب یہ بات دوسری ہے کہ کیا فیثاغورث اور کیا کانٹ، کیا صوفی اور کیا عقلئین، اس شاہد مطلق کی جستجو اورخواہش دید میں دوچار قدم ہی چل کر تھک بیٹھے تن مار۔
ہاں اہل طلب کون سنے طعنہ نایافت
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں، اپنے ہی کو کھوآئے
اور پھر اس واماندگی شوق میں انسان نے کیسی کیسی پناہ گاہیں نہیں تراشیں۔
دیر و حرم آئینہ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
لیکن جہاں تک کہ اس ناظورہ نظارہ سوز، جو ہر عرض و خیال، معنی وقت دوام، سلسلہ ہست وبود، حاجب راز وجود کی جستجو، خواہش دید یا خواہش ادراک کے جذبے کا تعلق ہے، وہ امر ہے، کہ ذہنی زندگی کو طول اسی جذبے کے سفر سے ہے جو کبھی ANTHROMORHPIC مشخص طریق فکر کے تحت راہ عشق میں ہے، تو کبھی اس سے آزاد راہ عقل میں گامزن ہے۔ اس کا یہ شوق سفر کبھی واماندگی سے کم ہونے کا نہیں، کیا عجب جو سائنس کی برکتوں اور جدید نفسیات کی تحقیقات سے اور نئی راہیں اس سفر کے لئے کھلیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.