تشبیہ
ادبیات کا ماخذ ہے ادب۔ ادب عربی کا ایک لغت ہے جس کے معنی ہیں ہر چیز کی حد اور اندازہ کا لحاظ رکھنا۔ علمائے علوم لسان و انشا ادب یا آداب کی ذیل میں ان علموں کو شمار کرتے ہیں۔
(1) علم لغت، (2) علم صرف، (3) علم اشتقاق، (4) علم نحو، (5) علم معانی، (6) علم عروض، (7) علم قافیہ، (8) علم رسم الخط، (9) علم فرض الشعر، (10) علم انشا، (11) علم تواریخ یا علم محاضرات اور علم بیان۔
آپ نے دیکھا کہ ادب کتنا بسیط و عمیق سمندر ہے۔ ادبیات یا لٹریچر کو عموماً بمقابلہ سائنس و فلسفہ کے، نظر استحقار سے دیکھا جاتا ہے لیکن فی الواقع یہ بجائے خود ایک سائنس ہے اور ادیب فلسفی کا پایہ رکھتا ہے۔ آج کل یہ دیکھنے میں آیا کہ جو شخص معمولی نظم یا نثر لکھنے لگے اسے لٹریری آدمی کہہ دیتے ہیں اور جو اوروں کے لکھے ہوئے پر جا و بے جا ایراد و تعریض کرے، اسے نقاد اور ادیب کہنے لگتے ہیں، خواہ خود اس کی تحریر و انشا میں کلام زیر تنقید سے زیادہ پالغز اور سقائم موجود ہوں۔ میں اس صحبت میں نہ ادب پر گفتگو کروں گا نہ ان بارہ علوم میں سے کسی پر، بلکہ صرف آداب کی ایک قسم یعنی علم بیان کے ایک رکن یعنی تشبیہ اور اس کے لوازمات کے متعلق چند معمولی نکات پر کچھ کہوں گا۔ جن کا جاننا ہر لکھنے پڑھنے والے خصوصاً شاعروں کے لئے نہایت ضروری و لابد ی ہے۔
اول جاننا چاہئے کہ علم بیان کسے کہتے ہیں۔ علم بیان وہ علم ہے جس کے ذریعہ سے ایک مطلب کومختلف عبارتوں میں ادا کر سکیں، مگر سب عبارتیں دلالت میں یکساں نہ ہوں بلکہ ان میں کوئی واضح اور مبرہن ہو اورکسی میں اس کی نسبت کسی قدر خفا ہو، کسی میں بہت خفا ہو۔
کہا گیا ہے کہ انسان بالطبع محاکات کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے اور اس کا دل محاکات سے بہت انبساط پذیر ہوتا ہے۔ ایک جانفزا قدرتی منظر یا ایک عالیشان خوبصورت عمارت یا ایک نہایت حسین شخص کودیکھ کر اس کی جانفزائی یا خوبصورتی یا حسن کو اپنے ذہن میں بدرجہ کمال اخذ نہیں کر سکتے اور حدود تناسب و نقاط حسن و خوبصورتی کے ادراک اورذہنی اعتراف میں ہمارا دماغ پورے طور پر حاوی نہیں ہو سکتا، مگر اسی منظر یا عمارت یا شخص کی تصویر جب سامنے آ جاتی ہے تو اس کے تمام محاسن ہمیں ہر جہت سے محسوس ہوتے ہیں اور دماغ کواس کا پورا علم ہو کر دل کو تفریح و انبساط ہوتی ہے۔ غالباً اسی نسق پر بیان میں تشبیہ اور استعارہ کی ابتدا ہوئی لیکن جس طرح وہ شخص جو صرف نقشے اور پلین ہی بنا اور سمجھ سکتا ہو مگر ایک عمارت کے حسن و قبح اس کی نظر میں نہ سما سکتے ہوں، انجینئر نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح وہ ناثر یا شاعر جو صرف تشبیہ اور استعارہ کے تصدق سے ہی اپنے کلام کو سرسبز کر سکتا ہو اور حقائق نگاری و تحقیق میں قاصر ہو، انشا ئے نظم و نثر پر حاوی نہیں کہا جا سکتا۔
تشبیہ و استعارہ کے جا و بے جا استعمال پر مولانا آزاد مرحوم نے آب حیات میں جو کچھ لکھا ہے اس سے مجھے کلی اتفاق ہے۔ ہندی اور فارسی ان دونوں زبانوں کا مبالغہ، استعارہ اور تشبیہ دو آتشہ کیا چند آتشہ ہو کرہماری اردو کی کچی گھڑیا میں آ بسے۔ کہئے بس ہی گئے اور ہمارے حواسوں پر ایسے مسلط ہو گئے کہ اب ان کے سوا اور کچھ نظروں میں جچتا ہی نہیں۔ مولانا کے یہ الفاظ ہمارے انشا پردازوں اور شاعروں کو غور سے سننے اور یاد رکھنے چاہئیں۔
’’یہ افسوس دل سے نہیں بھولتا کہ انہوں نے ایک قدرتی پھول کو جو اپنی خوشبو سے مہکتا اور رنگ سے لہکتا تھا، مفت ہاتھ سے پھینک دیا۔ وہ کیا ہے؟ کلام کا اثر اور اظہار اصلیت۔ ہمارے نازک خیال اور باریک بیں لوگ استعاروں اور تشبہیوں کی رنگینی اور مناسبت لفظی کے ذوق شوق میں خیال سے خیال پیدا کرنے لگے اور اصلی مطلب کے ادا کرنے میں بے پرواہ ہو گئے۔ انجام اس کا یہ ہوا کہ زبان کا ڈھنگ بدل گیا اور نوبت یہ ہوئی کہ اگر کوشش کریں تو فارسی کی طرح پنچ رقعہ اور مینا بازار اور فسانہ عجائب لکھ سکتے ہیں۔ لیکن ایک ملکی معاملہ یا تاریخی انقلاب کواس طرح نہیں بیان کر سکتے جس سے معلوم ہوتا جائے کہ۔۔۔‘‘ الخ
لکھنے والوں کو احتیاط چاہئے کہ تشبیہات اور استعارے کلام میں صرف اسی قدر آئیں جس قدر کھانے میں نمک اور مسالا، نہ کہ مسالا اور نمک میں طعام۔ یہ اعتراض بلکہ تنبیہ کسی ایک ذات سے وابستہ نہیں۔ آپ اور میں سب اس بھول بلیاں میں سر گرداں ہیں۔
بایں ہمہ جب لطف سخن کی بنیاد محاکات پر ٹھہری تو اس کے ارکان اعظم کی ماہیت معلوم کرنا ہمارا فرض ہے۔ جاننا چاہئے کہ محاکات یا تو ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دینا ہے یا کسی چیز کو تبدیل کر کے دوسری چیز کی صورت میں ظاہر کرنا اور یہ مجاز مرسل اور کنایہ و استعارہ پر منقسم ہے۔ اس مضمون میں ہمارا موضوع محض تشبیہ ہوگا۔
تشبیہ کے معنی ہیں یہ جتانا کہ ایک چیز ایک معنی میں بلا تجرید و بلا استعارہ دوسری چیز کے شریک ہے۔ مثلا ً اس کا قدر سرو جیسا ہے یعنی راستی میں دونوں مساوی ہیں، ان دو چیزوں میں اول چیز کو مشبہ کہتے ہیں یعنی مانند کیا گیا اور دوسری کو مشبہ بہ یعنی اس کے ساتھ مانند کیا گیا اور جو معنی دونوں میں مشترک ہیں اس کو وجہ شبہ یعنی مانند ہونے کی وجہ کہتے ہیں۔ اور جو کلمہ اس مانند ہونے کو ظاہر کرتا ہے اسے حرف تشبیہ کہتے ہیں۔ مثال مذکور میں یعنی ’’اس کا قدر سر وجیسا ہے۔‘‘ قد مشبہ ہے، سرو مشبہ بہ، راستی جو سرو اور قد دنوں میں پائی جاتی ہے وجہ شبہ یا وجہ تشبیہ، اور جیسا حرف تشبیہ ہے۔ حرف تشبیہ کو ادات بھی کہتے ہیں اور وہ یہ ہیں، مانند مثل، جیسا، کا، سا، گویا، وغیرہ۔ یاد رہے کہ بہت سے حروف تشبیہ اب وجوباً متروک ہیں، مثلا جوں، کہے، تو وغیرہ۔ بعض مقامی خصوصیت رکھتے ہیں جیسے، کا، ایسا لکھنو سے مخصوص ہے۔ یہ چار چیزیں یعنی مشبہ، مشبہ بہ، وجہ شبہ اور حرف تشبیہ، تشبیہ کے ارکان چہار گانہ کہلاتے ہیں۔ ان میں سے اول دو کو اطراف تشبیہ بھی کہتے ہیں۔
اطراف تشبیہ
اطراف تشبیہ یا حسی ہوں گے یا عقلی۔ حسی سے مراد ہے محسوس ہونے والا اور عقلی سے مراد ہے وہ چیز جس کا ادراک عقل کے ذریعہ سے ہو سکے یعنی جو محسوس نہ ہو۔ میر حسن مرحوم کا یہ شعر دونوں قسم کی تمثیلیں رکھتا ہے،
بدن آئینہ سا دمکتا ہوا
نگہ آفت وچشم عین بلا
اول مصرعہ میں بدن اور آئینہ دونوں محسوس ہیں۔ وجہ شبہ ان میں چمک دمک ہے۔ دوسرے مصرعہ میں نگہ اور آفت محسوس نہیں بلکہ عقلی ہیں یعنی عقل کے ذریعے سے ان کا ادراک ہو سکتا ہے۔
اطراف تشبیہ یعنی مشبہ اور مشبہ بہ کبھی دونوں حسی ہوتے ہیں اور کبھی دونوں عقلی، کبھی دونوں مختلف یعنی ایک حسی اور ایک عقلی۔ چونکہ اطراف کے بیان میں اور اس سے زیادہ وجہ شبہ کے ذیل میں حواس اور قوائے ذہنی کا ذکر اکثر آئے گا اس لئے ضروری ہے کہ فلسفہ کے اس مسئلہ پر بطور تشریح کچھ کہا جائے۔ حسوں اور قوائے ذہنی کا معاملہ علم الحس والقوی کے متعلق ہے۔ یہاں ہمارا روئے سخن صرف حواس خمسہ ظاہری و حواس خمسہ باطنی کی طرف ہے۔ پانچ حواس جو ظاہر کے ہیں، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے،
(1) باصرہ دیکھنے کی طاقت (2) سامعہ، سننے کی طاقت
(3) شامہ۔ سونگھنے کی طاقت (4) ذائقہ، چکھنے کی طاقت
(5) حس المس یالامسہ۔ یہ ہمارے تمام اعضا میں پائی جاتی ہے۔ اسی سے گرمی، سردی، سختی، نرمی کا حساس ہوتا ہے۔
پانچ حواس باطنی کی مجمل تفصیل یہ ہے،
(1) حس مشترک اس کا کام یہ ہے کہ جو شے حواس ظاہر سے محسوس ہوتی ہے یہ حس اس کو لے لیتی ہے۔
(2) خیال یہ حس مشترک کا خزانہ ہے۔ جو صور حس مشترک لیتی ہے، یہ اسے خیال میں محفوظ رکھتی ہے۔
(3) متخیلہ یا متفکرہ اس کا فعل منصبی یہ ہے کہ جو صورتیں خیال میں جمع ہیں کبھی ان کو ایک دوسرے سے مرکب کرتی ہے اور کبھی ایک دوسرے سے علاحدہ۔ اور ایسے ہی ان صورتوں میں معنی ہیں ان کو بھی کبھی مرکب اور کبھی علیحدہ کرتی ہے۔ یعنی مثلاً بھیڑیے کی دشمنی بھیڑ سے یا باپ کی محبت بیٹے سے۔ ان معنوں کو مرکب کرے یا علیحدہ کرے اور کبھی ان صورتوں اور معنوں میں تصرف بھی کرتی ہے۔
(4) واہمہ یا وہم اس کا کام ہے خاص صورتوں میں جو خاص معنی ہیں، انہیں دریافت کرنا۔
(5) حافظہ و متصرفہ یہ خزانہ وہم کا ہے، جیسے حس مشترک کا خزانہ خیال ہے۔
یہ تعریفیں بے شک جامع و مانع ہیں لیکن عام فہم بنانے کے لئے ان میں ایک قوت یعنی متخیلہ اور متفکرہ کے متعلق اس قدر اور کہنا ہے کہ اس کی خاصیت ہے کہ وہ صور و معانی کی ترکیب و تفصیل اور ان میں اپنے تصرف کے علاوہ کئی ایسی چیزیں اختراع کرتی ہے جو فی الواقع کچھ بھی نہیں ہوتیں اور وہ اختراع یا تو قوت وہمیہ کے وسیلہ سے ہوتا ہے جسے متخیلہ کہتے ہیں، یا قوت عقلیہ کے زریعہ سے جسے متفکرہ کہتے ہیں۔ پس جس معدوم قوت متخیلہ ایسے امور سے مرکب کرے، جو حواس ظاہری سے پہچانی جا سکیں وہ داخل حسیات ہے۔ مثلاً غالب کے اس شعر میں۔
بنٹتے ہیں سونے روپے کے چھلے حضور میں
ہے جن کے آگے سیم و زر مہر و ماہ ماند
یوں سمجھئے کہ بیچ سے خالی کئے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند
اول شعر محض بغرض سہولت سامع نقل کیا گیا۔ اصل مطلب دوسرے شعر سے ہے۔ یہ ایک قطعہ میں سے لیا گیا ہے جو مرزا غالب نے بتقریب آخری چہار شنبہ ماہ صفر بادشاہ کے حضور میں گزارنا تھا۔ یہاں چاندی اور سونے کے چھلوں کو رنگت، چمک اور ضو اور دور لمعان کے اعتبار سے چاند اور سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی اور قوت متخیلہ نے ان کو یعنی چاند اور سورج کو، بیچ میں سے خالی کیا ہوا خیال کر لیا اور اپنے اس تصرف سے تشبیہ کو درست کر لیا لیکن اس صورت کے پیٹ خالی سورج چاند حقیقت میں دیکھے نہیں جاتے۔ لہذا یہ تشبیہ حسی ٹھہری کیونکہ چھلے اور چاند سورج محسوس ہیں۔
جس شے کو قوت متفکرہ اپنے پاس سے اختراع کرے وہ عقلیات میں داخل ہے۔ ذوق کا یہ شعر اس کی عمدہ مثال ہے،
نحوست بھی سعادت ہو گئی سودا میں زلفوں کے
گلیم تیرہ بختی سر پہ ہم ظل ہما سمجھے
اب دیکھئے حقیقت میں ہما کوئی شے نہیں۔ صرف ایک فرضی نام ہے جسے اصطلاح میں مفروض ذہنی کہتے ہیں۔ پھر اس فرضی نام کے ساتھ چند صفات خاص وابستہ کیں۔ یہاں اس کی ایک صفت سے مطلب ہے، یعنی اس کا نہایت مبارک تصور کیا جانا لیکن چونکہ انسان نے سن رکھا ہے کہ وہ ایک مبارک شے ہے۔ اس لئے تیرہ بختی کو اس سے تشبیہ دی۔ یعنی کہہ دیا کہ گلیم تیرہ بختی کو جس سے نحوست مراد ہے، ہم ہما کا سایہ خیال کرتے ہیں۔ یعنی یہ تیرہ بختی ہما کے سایہ سے مشابہ ہے۔ پس تیرہ بختی مشبہ ہے اور ظل ہما مشبہ بہ، یعنی سایہ ہما معدوم الجسم اور معلوم الاسم ہے۔ جیسے کہ غول بیابانی۔ قوت متفکرہ نے اس کو موجود و تصور کر لیا، اور پھر اس کے لئے سایہ ثابت کیا۔ یہ دونوں یعنی مشبہ اور مشبہ بہ عقلی ہیں۔
صاف ظاہر ہے کہ تیرہ بختی معقول ہے، محسوس نہیں، اور دوسرے یعنی ظل ہما کے حال سے ابھی بحث کی گئی کہ امر موہوم ہے۔ ایک اور بات یہ بتانی ہے کہ گلیم تیرہ بختی میں اضافت تشبیہی ہے یعنی تیرہ بختی جو گلیم کی مانند ہے، اس ضمنی تشبیہ میں طرفین یعنی مشبہ بہ مختلف ہیں یعنی گلیم حسی اور تیرہ بختی عقلی۔ اسی طرح سعادت اور نحوست میں بھی تشبیہ ہے یعنی ہماری نحوست مثل سعادت کے ہے کیونکہ اسی نحوست کو پہلے گلیم کے ساتھ مشابہ کیا پھر اس گلیم کو جو سیاہ تصور کیا گیا ہے ظل ہما سے مشابہ کیا اور یہ معلوم ہے کہ ظل یعنی سایہ ہر چیز کا سیاہ ہی ہوتا ہے، لیکن چونکہ یہ ظل ہما ہے اور وہ مبارک شے تصور کی جاتی ہے، لہذا وہ نحوست مبدل بہ سعادت ہو گئی۔ اور یہ سعادت اور نحوست دونوں عقلی ہیں۔
آپ نے دیکھا کہ ایک شعر کی تشبیہ کے ارکان بیان کرنے میں کتنا وقت لگا اور کتنے مسائل فلسفے کے وارد ہوئے۔ ادیبوں نے جس شان سے فلسفیانہ نظر ان ادبی معاملات پر ڈالی ہے اور سائنٹفک طریق پر تنقیح سے بحث کی ہے، عوام کے نزدیک تعجب خیز ثابت ہوگی۔ چنانچہ انہی اطراف تشبیہ کی حسی یا عقلی حیثیت کے باب میں فرماتے ہیں کہ بہر کیف خیالی کو علم بلاغت والوں نے حسی میں داخل کیا۔ اس وجہ سے کہ حسی سے مراد ہے وہ چیز جو خود حواس سے مدرک ہو یا اس کا مادہ۔ پس خیالی کا مادہ حواس سے مدرک ہوتا ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا، اور وہمی کو عقلی میں داخل کیا ہے اس لئے نہیں کہ وہ بھی مثل معقولات کے حواس سے ادراک نہیں کی جاتی ہے لیکن وہ ایسی ہے کہ اگر پائی جائے تو ضرور حواس سے مدرک ہو اور اسی امر کی جہت سے عقلی اور وہمی میں امتیاز ہوتا ہے و گرنہ دونوں ایک ہو جائیں۔
ایک دلچسپ نکتہ صاحب حدائق البلاغت نے دس سر کے آدمی کا تصور غول کے تصور کے ساتھ مذکور کیا ہے۔ اس کے بعد خود یہ اعتراض گڑھا کہ بادی النظر میں ان دونوں قسموں یعنی وہمی اور خیالی میں فرق نہیں معلوم ہوتا، اس واسطے کہ دس سر کے آدمی کا تصور مثل علم یا قوت کے ہے کہ اجزا ان دونوں قسموں کے محسوسات سے ہیں۔ اس لیے علمائے متاخرین نے اختلاف کیا ہے۔ چونکہ بحث نہایت دقیق اور عالمانہ ہے اس لئے اس سے احتراز کیا جاتا ہے۔ اطراف تشبیہ کے دیگر تشبیہی تفصیلات اور باریک نکات کو نظر انداز کر کے اب میں وجہ شبہ کا ذکر کرتا ہوں۔
وجہ شبہ یا وجہ مشبہ
وجہ مشبہ کی جامع و مانع تعریف یوں بیان کی جا سکتی ہے کہ وجہ شبہ وہ معنی ہے کہ مشبہ اور مشبہ بہ سے بہت خصوصیت رکھتا ہو اور ان دونوں کا اس میں شریک ہونا قصد کیا جائے۔ صفت جس میں ان دونوں یعنی مشبہ اور مشبہ بہ کو اشتراک ہو یا فراق تین طرح پر ہے۔ اول صفت حقیقی یعنی ایسی ہئیت کہ ذات میں متمکن ہو۔ دوم صفت اضافی کہ ذات میں مثل اول کے نہ ہو، بلکہ دو چیزوں سے متعلق ہو، سوم صفت اعتباری کہ اس کا مفہوم واقع میں متحقق نہ ہو بلکہ محض عقل نے اس کو اعتبار کر لیا ہو۔
صفت حقیقی کہ دو قسمیں ہیں۔ ایک حسی اور دوسری عقلی۔ حقیقت کے معنی علم منطق میں خواہ کچھ ہوں لیکن یہاں مراد ایک کیفیت ہے کہ جسم اس کے سبب اپنے محیط کی جانب مائل ہوتا ہے جیسے آگ اور حرارت یعنی گرمی۔ صفت عقلی کیفیات نفسیانیہ پر حاوی ہے یعنی وہ کیفیتیں جو ذی نفس کی ذات سے مختص ہوں، مثلاً ذکا یعنی فہم کی تیزی اور علم معرفت کرم، حلم، غضب و شجاعت وغیرہ کہ عقل سے ادراک کی جائیں۔ صفت اضافی وہ صفت ہے کہ ذات میں متمکن نہ ہو بلکہ دوچیزوں سے متعلق ہو مثلا ً کوئی شخص دلیل یار رائے کو آفتاب سے تشبیہ دے اس نظر سے کہ دونوں میں ازالہ حجاب کی صفت موجود ہے اور یہ صفت حجت اور آفتاب کی ذات میں موجود نہیں بلکہ ان سے متعلق ہے۔
صفت اعتباری وہ ہے جس کا مفہوم واقع میں متحقق نہ ہو اور محض عقل نے اسے اعتبار کر لیا ہو جیسے غول کے واسطے درندہ کی شکل اور دانت اور پنجوں کا اختراع کر لینا، یہ مختص صورت وہمی کی ہے حالانکہ واقع میں تحقیق نہیں۔ صفت کا مرجع کبھی ایک چیز ہوتی ہے کبھی ایک سے زیادہ۔ اسی طرح بعض حقیقت مفرد ہوتی ہے اور بعض اجزائے مختلفہ سے مرکب۔ پس وجہ شبہ ان انواع کے اعتبار سے کئی نوع کی ہو جاتی ہے۔ ان نکات تفصیلی کو چھوڑ کر جو منتہی کے لئے مقصود ہیں اور جنہیں آپ کتب علمیہ میں شرح و بسط کے ساتھ پا سکتے ہیں، اب میں مبتدیوں کے لئے چند موٹی موٹی باتیں وجہ شبہ کے متعلق بیان کرتا ہوں۔
(1) وجہ شبہ کبھی مفرد ہوتی ہے جیسے نسیم۔
دکھلاتا تھا وہ مکاں جادو
محراب سے در سے چشم و ابرو
محراب کو ابرو سے تشبیہ دی ہے اور در کو چشم سے۔ پہلے میں وجہ شبہ وہ گولائی ہے جو محراب اور ابرو میں پائی جاتی ہے دوسرے میں واشدگی جو دونوں میں محسوس ہے۔ اور یہ وجہ تشبیہ واحد ہے۔ اس پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ مشبہ بہ کو مشبہ پر عرف حاصل ہوتا ہے (کس کا رتبہ قوی تر ہوتا ہے اس کا ذکر آگے آئے گا) اور محراب ہمیشہ مشبہ بہ ہوتی ہے اور ابر و مشبہ جب کہ یہاں معاملہ بر عکس ہے۔ پس مشبہ بہ یہاں ادنیٰ ہے اور مشبہ اعلیٰ۔ اس کا جواب ہے کہ اگر تسلیم بھی کر لیں کہ یہ ممنوع ہے تو اس میں ادعا ہے کہ محراب و در ایسے تھے کہ ان کو چشم ابرو سے تشبیہ دے سکتے تھے۔ اس ادعا کا نام اصطلاح میں ادعائے ناقص بدرجہ کامل ہے، یعنی ناقص کو کامل کہنا۔ غالب کے اس شعر میں اسی قبیل سے ادعائے ناقص بدرجہ کامل کہا گیا ہے۔
کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے اس قدر آباد نہیں
کوچہ ہمیشہ مشبہ ہوتا ہے اور بہشت مشبہ بہ۔ مگر یہاں متکلم کو ادعا ہے کہ وہ مشبہ بہ ہے اوریہ مشبہ اسی واسطے اس کو ناقص ٹھہرا کہ کہہ دیا کہ اس میں یہ نقص ہے کہ اس قدر آباد نہیں جس قدر تیرا کوچہ ہے۔ اصول تشبیہ اور اس کی علل پر نظر غائر ڈالنے سے ثابت ہوگا کہ یقیناً مشبہ بہ اصل ہے اور مشبہ فرع۔ فرع کو اصل بنانا اور اصل کو فرع ماننا درست نہیں۔ مگر کسی ادعا کے واسطے جو خصوصیت مقام کے سبب سے ہو یا دیگر اسباب سے، اس قسم کی تشبیہ لانے سے متبدی کو بچنا چاہئے کیونکہ اس کو نباہنا اور ادعا ثابت کرنا سہل کام نہیں۔ مرزا غالب کو اس امر میں کمال حاصل تھا جو ہر ایک کا حصہ نہیں چنانچہ ایک اور شعر میں ایسی ہی تشبیہ لاتے ہیں۔
نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شب فراق سے روز جزا زیاد نہیں
عموماً تعین وقت کی درازی کو قیامت کے دن سے تشبیہ دیا کرتے ہیں مگر مرزا قیامت کو شب کا سا لمبا کہہ گئے اور کس خوبصورتی سے کہہ گئے۔
جب یہ قرار پا چکا ہے کہ مشبہ بہ اعلیٰ ہو تو اصحاب فن کا قول ہے کہ محسوس کو معقول کے ساتھ تشبیہ دینا بروئے معقول جائز نہیں کیونکہ معقولات محسو سات سے مستفاد ہیں۔
کبھی وجہ تشبیہ مرکب ہوتی ہے اس کی مثال وہی چاندی سونے کے چھلوں اور چاند سورج والا شعر غالب کا ہے۔ وجہ تشبیہ اس میں مرکب یعنی متعدد ہے۔ با اعتبار رنگ علو مرتبت، لمعان اور ہیئت حاصلہ کے اور ہیئت مشابہ کرنے کے، واسطے پہلے ادعا کرلیا ہے کہ چاند اور سورج بیچ میں سے خالی کئے ہوئے مطلوب ہیں، نہ مجرد۔ اگر یہ ادعا ہوتا تو تشبیہ درست نہ ہو سکتی۔ اس کو شاید آپ انتہائی نارک خیالی کہیں۔ میں انتہائی معقولیت کہتا ہوں۔ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے یعنی جہاں وجہ تشبیہ حسی ہو وہاں اطراف تشبیہ بھی وجوباً حسی ہوں گے جیسے،
تھرائیں خواصیں صورت بید
ایک ایک پوچھنے لگی بھید
خواصیں اور بھید حسی ہیں یعنی قوت باصرہ کے فعل کی حد کے اندر ہیں۔ تھرانا جو دونوں میں پایا جاتا ہے وہ بھی محسوس ہے لیکن جہاں تشبیہ عقلی ہوگی وہاں یہ قید نہیں۔ چنانچہ مرزا کے اس مقطع میں،
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
کچھ نہیں کے معنی ہیں معدوم۔ موجود یعنی غالب کو معدوم کے ساتھ تشبیہ دی گئی اور یہ اس جہت سے کہ کوئی فعل معدوم سے سر زد نہی ہو سکتا۔ ایساہی غالب ہے جس سے کوئی فعل سرزد نہی ہوسکتا۔ یا یہ شعر میر تقی کا ہے،
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
مرکبات کی قسم سے یہ تشبیہ مرکب حسی ہے۔ میر حسن کے ہاں ایسی تشبیہ سحر البیان کے کئی مسلسل اشعار میں آئی ہے جس کی تشریح خالی از لطف نہ ہوگی۔
پر اس نے بھی اتنا تکلف کیا
کہ اک دن میں جوڑے کو دھانی رنگا
کہے تو کہ شب چاند نے آن کے
نکالا ہے منہ کھیت سے دھان کے
معشوق کو (کئی شعروں کے بعد کہا ہے) جو دھانی لباس پہنے ہوئے ہے، چاند سے تشبیہ دی۔ مگر مطلق چاند سے نہیں بلکہ اس حالت میں کہ ہرے ہرے دھانوں کا کھیت لہلہا رہا ہو اور چاند بھی کمال روشنی کے ساتھ نکلے اور زمین سے تھوڑا ہی بلند ہوا ہو اور دھانوں کی سبزی بھلی نظر آتی ہو اور دیکھنے والا اس کھیت کے کنارے پر ہو اور چاند کی طرف منہ کر کے دیکھے تو یہ منظر اس کے مشاہدہ میں آئے گا کہ دھان کا ہرا بھرا کھیت لہلہا رہا ہے اور چاند اس سے اتنا قریب ہے کہ گویا اسی کھیت میں سے نکلا ہے۔ یہ ایسا مرکب حسی ہے کہ اس کے اطراف بھی مرکب ہیں۔ عجب نہیں کہ چاند کا کھیت کرنا جو ایک محاورہ اردو کاہے، اسی شعر کے مفہوم سے اخذ کیا گیا۔ یہ ہے نیچرل شاعری اگر کسی کودیکھنے کی آنکھ اور سمجھنے کا مذاق ہوا۔
مرکبات حسی میں وہ بدیع اور نادرہ مرکب سمجھی جاتی ہے جس میں تشبیہ ایسی صورت سے واقع ہو کہ اس میں اور اوصاف و حرکات بھی پائے جائیں، مثلا ًمثنوی سحر البیان کے اس شعر میں،
تمامی کی سنجاف جلوہ کناں
کہ جوں عکس مہ زیر آب رواں
تمامی کی سنجاف کو عکس مہ کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ چاند کا عکس اگر ٹھہرے ہوئے پانی پر پڑے تو بہت اچھا محسوس ہوتاہے اور اس کا لمعان دگنا ہو جاتا ہے مگر جب آب رواں کی قید لگا دی تو اس میں ہزارگونہ لطافت پیدا ہو گئی کیونکہ اول تو خود چمکدار چیز ہے پھر جب اس میں لہریں پڑتی ہوں تو لمعان کبھی دو بالا ہو جاتا ہے اور کبھی ایک لمحہ کے لئے گم ہو جاتا ہے اور یہ آفتاب یا چاند کی روشنی سے بخوبی نمودار ہے۔ اور سنجاف کی بھی لطافت ہے کہ جہاں عکس روشنی کا پڑتا ہے وہاں چمک زیادہ دکھائی دیتی ہے اور جہاں اس کی لپیٹوں کا سایہ پڑ جاتا ہے جیسے بہتے پانی میں لہروں کا وہاں کم۔ یہاں تشبیہ موج اور لمعان میں ہے اور اس کیفیت میں بھی کہ وہ لمعان یا چمک کبھی کم دکھائی دیتی ہے کبھی زیادہ۔ جب تک یہ تمام صفات ذہن میں حاضر نہ ہوں تشبیہ درست نہیں ہو سکتی۔
وجہ تشبیہ کبھی محض حرکت میں ہوتی ہے۔ مگر ضرور ہے کہ اس میں اختلاط حرکتوں کا ہو، یعنی جیسی حرکت مشبہ میں ہو ویسی ہی مشبہ بہ میں ہو۔ اس کو اختلاط حرکات کہتے ہیں۔ ذوق،
نفس کی آمد و شد ہے نماز اہل حیات
جو یہ قضا ہو تو اے غافلو قضا سمجھو
نفس کی آمد و شد کو نماز کے ساتھ تشبیہ ہے یعنی جس طرح نماز میں قیام و سجود ہوتا ہے، ایسا ہی ایک زندہ انسان کا نفس کبھی اوپر کو آتا ہے اور کبھی نیچے کو جاتا ہے۔ پس جب تک دونوں کی حرکتوں کا باہم اختلاط نہ ہوگا، وجہ تشبیہ پیدا نہیں ہو سکتی۔
غرض تشبیہ
اب بحث اس سے کی جائے گی کہ تشبیہ سے کیا غرض ذہن کو ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ تشبیہ کی غرض اکثر و بالعموم مشبہ کی طرف راجع ہوتی ہے یعنی تشبیہ سے اکثر یہ غرض ہوتی ہے کہ مشبہ کا حسن یا قبح یا کوئی اور امر بیان کیاجائے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غرض مشبہ بہ کی طرف راجع ہوتی ہے۔
میرے خیال میں اغراض تشبیہ کو سمجھنا اور ان پر حاوی ہونا شاعروں کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے اس پر ذرا وضاحت سے کہا جائے گا۔ غرض اول یعنی مشبہ کا حسن یا قبح وغیرہ واضح کیا جائے کئی قسم پر ہے۔ اول یہ کہ غرض تشبیہ سے اس امر کا بیان ہو کہ مشبہ کا وجود ممکن ہے اور یہ امر وہاں ہوتا ہے جہاں اس کے ممتنع ہونے کا ادعا بھی ہو سکتا ہو۔ ذوق کے یہ دو شعر اس کی مثال ہیں،
تجھ سے دیکھا سب کو اور تجھ کو نہ دیکھا جوں نگاہ
تو رہا آنکھوں میں اور آنکھوں میں پنہاں ہی رہا
علم ہے کچھ اور شے اور آدمیت اور شے
لاکھ طوطے کو پڑھایا پھر بھی حیواں ہی رہا
بغرض اختصار صرف اول شعر کی شرح کی جائے گی۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ معشوق باوجود آنکھوں میں ہونے کے آنکھوں سے پوشیدہ ہے اور کہہ سکتے ہیں کہ یہ امر ممتنع ہے کیونکہ جو شے آنکھوں سے اتنی قریب ہو کہ خود آنکھوں میں رہے اور پھر دکھائی نہ دے، یہ بعید ہے۔ لیکن جب اسے یعنی معشوق کو نگاہ سے تشبیہ دی تو وہ دعویٰ ثابت اور اس کا امکان معلوم ہو گیا۔
دوسرے یہ کہ مشبہ کا حال بیان کرنا مقصود ہو جیسے ایک کپڑے کو دوسرے کپڑے سے سیاہی یا سفیدی میں تشبیہ دی جائے۔ اس قسم میں مشبہ بہ میں وجہ شبہ بالکل ظاہر اور معروف ہونی چاہئے تاکہ مشبہ کا حال کمال وضاحت کے ساتھ ظاہر ہو جائے۔ نظیر سودا کا یہ شعر ہے جو آسمان کی منزلت میں ہے،
رکھتا ہے پر غرور کو جوں نیزہ سر بلند
جوں جادہ خاکسار کو دے ہے زمیں پہ ڈال
پر غرور کو سر بلند رکھنے اور خاکسار کو زمیں پر ڈالنے کا حال نیزہ اور جادہ کی تشبیہ سے نہایت واضح ہو گیا۔ تیسرے یہ کہ مشبہ کے حال کی مقدار بیان کرنا مقصود ہو، زیادتی اور قوت و ضعف میں، جیسے کالے کپڑے کو سیاہی کی شدت میں کوے کے پر سے تشبیہ دیں یا سفید کپڑے کو برف سے یا زلف معشوق کو عمر خضر سے درازی کی زیادتی میں۔ چوتھے یہ کہ تشبیہ دینے سے غرض یہ ہو کہ مشبہ کاحال سامع کے دل نشیں کیا جائے، مثلاً سعی لا حاصل کوپانی پر کھنچی ہوئی لکیر سے تشبیہ دیں۔ چونکہ لکیر کابے فائدہ ہونا اور مٹ جانا ظاہر ہے اس لئے جب اس سے سعی کو تشبیہ دیں گے تو اس کا بے سود ہونا خوب ذہن نشیں ہو جائے گا۔ اس میں ایک فائدہ بھی ہے اور استدلالیوں کے بموجب ضرور یہی تشبیہ کا موجد ہوا ہوگا۔ جاننا چاہئے کہ انسان کا نفس عقلی کی نسبت حسی کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔ اسی قبیل سے ہوگا اگر کسی شخص کے ا قرار واثق کو پتھر کی لکیر سے تشبیہ دیں، راقم کا شعر ہے،
منہ سے جو کہہ دیا سمجھو اسے پتھر کی لکیر
فرق اس میں نہ کبھی بال برابر ہوگا
پانچویں یہ غرض تشبیہ کی ہوتی ہے کہ سننے والے کی نظر میں مشبہ کی برائی یا بھلائی آئینہ ہو جائے جیسے دانتوں کی تشبیہ موتیوں سے، ہونٹوں کی یاقوت سے یا بد صورت کی دیو یا بھوت سے۔ چھٹے یہ کہ مشبہ کا نادر اور طرفہ ہونا ثابت ہو جائے یا مشبہ کی ایسی صورت بیان کی جائے جو موافق عادت کے محال ہو۔ مثلاً یہ شعر،
چہرہ مہروش ہے ایک کاکل مشک فام دو
حسن بتاں کے دور میں ہے سحر ایک شام دو
دو شام میں ایک سحر کا ہونا طرفہ اور نادر ہے اور یہ بیشتر تشبیہ وہمی و خیالی میں پایا جاتا ہے۔
یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب مشبہ کے حال کو سامع کے خاطر نشیں کرنا منظور ہو تو لازم ہے کہ وجہ شبہ اکمل اور اشہر ہو۔ کس واسطے کہ طبیعت کامل اور مشہور کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔ تشبیہ کی بنیاد اگر چہ غوامض پسندی، دقت آفرینی، جدت پسندی اور تحسین کلام پر ہے لیکن اس کی علت غائی قصور اظہار حقیقت ہے۔ ذیل کی تاریخی مثال سے اس کی وضاحت ہوگی جو مولانا شبلی مرحوم کے شعر العجم سے لی گئی۔
لکھا ہے حسان ابن ثابت کے چھوٹے بچے کوایک دفعہ بھڑ نے کاٹ کھایا۔ چہرہ پر ورم ہو گیا۔ حسان کو خبر ہوئی۔ لڑکے سے پوچھا کس جانور نے کاٹا؟ یہ لڑکا کچھ جواب نہ دے سکا کیونکہ یہ حقیقت اس پر ظاہر نہ تھی کہ جس جانور نے اسے کاٹا اس کو زنبور کہتے ہیں۔ پھر حسان نے پوچھا کہ وہ کس قطع کا جانور تھا۔ بچہ بول اٹھا، ’’کانہ ملتفا ببرد۔‘‘ یعنی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ’’وہ دھار ی دار چادروں میں لپٹا ہوا ہے۔‘‘ بھڑوں کے پروں پر رنگین خطوط ہوتے ہیں اس لئے اس کو دھاری دار چادر سے تشبیہ دی۔ حسان سمجھ گیا کہ بھڑ نے کاٹا۔ اس سے دو امر پایہ ثبوت کو پہنچے۔ ایک یہ کہ جب ہم حقیقت حال کے اظہار میں قاصر ہوتے ہیں تو تشبیہ سے کام لیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ تشبیہ اصل حقیقت کو ظاہر کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھا اغراض تشبیہ کی بحث کو ختم کیا جاتا ہے۔
اقسام تشبیہ
اب مجمل طور پر چند اقسام تشبیہ کا ذکرمع مثالوں کے کریں گے۔
تشبیہ متعدد
اس کابیان آ چکا ہے۔ یہ دو قسم ہے، ایک متعدد حسی جیسے کہیں ’’یہ بیر سیب کی مانند ہے۔‘‘ یعنی رنگ مزے اور بو میں اور یہ تینوں وجوہ تشبیہ ہیں اور حسی ہیں۔ دوسرے متعدد عقلی، جیسے کہیں کہ فلاں طبیب بقراط ہے، یعنی تیزی فہم، تشخیص مرض، معالجہ وغیرہ میں۔
تشبیہ مرکب میں تمام اجزا مشبہ بہ کے لئے لازمی ہیں، ورنہ تشبیہ درست نہ ہوگی، مگر تشبیہ متعدد میں اس کی قید نہیں۔ اسے کبھی تشبیہ ناقص بھی کہہ دیتے ہیں۔ تشبیہ متعدد میں کبھی ایک طرف مرکب اورایک مفرد ہوتی ہے، ذوق،
تشبیہ ناقص
نہیں یہ شیشہ مے ہے کسی میخوار کا دل
محتسب دیکھ نہ کر دل شکنی، خوب نہیں
شیشہ کو صورت اور علوے مرتبت میں دل کے ساتھ تشبیہ ہے۔ چنانچہ دوسرے مصرعے میں بلاحظ علوے مرتبت اس کے توڑنے سے امتناع واقع ہوا۔ پس صورت تو حسی ہے مگر بلندی رتبہ عقلی۔
سب کا اس پر اتفاق ہے کہ امور عامہ کو جو تمام موجودات میں بدیہی الاشتراک ہیں با ہم تشبیہ دینا لطف نہیں پیدا کرتا۔ مثلاً کوئی کہے، فلاں شخص بندہ خدا ہے۔ ہر چند دونوں وجود میں شریک ہیں لیکن یہ تشبیہ ٹھک نہیں کیونکہ تشبیہ میں ضرور ہے کہ اوصاف مخصوص بیان کئے جائیں کیونکہ اس موقع پر خصوصیت اوصاف ملحوظ ہے۔ اس لئے تلمیح یا تمسخر کے طور پر کسی بخیل کو یہ کہنا کہ ’وہ حاتم ہے‘ درست ہوتا ہے بلکہ ایسی تشبیہ کو تشبیہ بلیغ کہنا چاہئے، کیونکہ تشبیہ میں خصوصیت اوصاف ملحوظ ہے۔ اس وجہ سے طبیب کو مسیحا اور رہبر کو خضر سے تشبیہ دینا ابلغ تشبیہات ہے۔ علاوہ ازیں مقامات شعری میں اس قسم کے کلام قابل اعتراض نہیں۔ جیسے بخیل کو مزاحاً حاتم کہہ دینا یا دشمن کو مہربان کہنا بھی تعریف میں داخل ہے۔ ذوق ؔ فرماتے ہیں،
کہاں ہم اور کہاں غم ہم کو غم سے کچھ غرض مطلب
مگر اے حضرت عشق آپ نے یہ مہربانی کی
یہاں حضرت اور مہربانی صریح بطریق تعریض ہیں۔
تشبیہ وقوعی و تشبیہ غیر وقوعی
یہ دونوں مشبہ کی طرف سے ہوتی ہیں کیونکہ وہ اصل ہے۔ اگر اس کا وقوع یا لا وقوع متحقق ہوگا تو اس کا بھی ہوگا۔ یہ اس طرح ہوگا کہ اگر مشبہ بہ کا وقوع میں آنا غیر ممکن ہے تو اس کے ساتھ کوئی ایسا لفظ ذکر کر دیں جس سے اس کا موقع میں آنا ممکن ہو جائے تو یہ ایک عجیب بات ہو جاتی ہے اور ایک قسم کی ندرت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاً مرزا غالب کا مطلع ہے۔
قطرۂ مے بسکہ حیرت سے نفس پرور ہوا
خط جام مے سراسر رشتہ گوہر ہوا
ذیل کی تفسیر سے مرزا کا استاد فن ہونا کس وثوق کے ساتھ ثابت ہوتا ہے۔ قاعدہ ہے کہ پیالہ یا گلاس وغیرہ ظروف نوشیدنی میں اصل ساخت یا نقاشی کے خطوط مدورا ندر کے دور میں ہوتے ہیں۔ آپ نے چینی کے برتنوں میں اکثر ایسا دیکھا ہوگا۔ اگر فرض کیجئے کہ بلور کے پیالوں یا گلاسوں میں ایسے مدور خطوط نہیں پائے جاتے، یوں ہی سہی مگر مشاہدہ شاہد ہے کہ جب کوئی سیال چیز چینی یا بلور کے ایک بالکل سادے پیالے میں ڈالی جائے توخود وہ چیز اس پیالہ میں اپنی حد سطح سے ایک قسم کا خط نشان پید اکردیتی ہے۔ لیجئے خط جام مے کا ثبوت بہم پہنچ گیا۔ اب ایک اور بات دیکھئے جب پیالے میں شراب ڈالی جاتی ہے تو فوراً دورانی خط پیدا ہو جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسی وقت اس کے دورانی خط میں بلبلے مسلسل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کی سائنٹفک وجہ یہ ہے کہ یہ صداقت بدیہی ہے کہ ہر خلا میں ہوا ہوتی ہے اور ایک خلا میں سے بھاری چیز ہلکی چیز کو نکال دیتی ہے۔ پیالہ میں دورانی خط کے ملحق یہ بلبلے ہوا کے اس بقیہ کو اپنے میں لئے ہوئے ہیں جو متن بطن سے خارج کر دی گئی۔
حواشی کی ہوا کو پیالہ کی دیوار سے ایک قسم کی پشت پناہ ملی، اس لئے وہ مادہ مائی یعنی شراب سے ایک مدت خفیف کے لئے آمادہ مقابلہ ہو گئی اور شاعر کے ذہن رسا کے لئے سلک مروادید سی بن گئی۔ مگر سائنس نے کہا نہیں ابھی بلبلوں کا وہ حلقہ رشتہ گوہر نہیں ہوا کیونکہ موتی جسم جامد ہے اور بلبلہ جامد نہیں۔ شاعر پہلے ہی سائنس کی چوٹ بچانا چاہتا تھا۔ اول مصرعہ میں حیرت اور نفس پرور کو رکھ دیا۔ اس پر سائنس نے تو واہ واہ کہہ دی مگر فن نے اب بھی صاد نہیں کھینچا اور تیوری چڑھا کر فرمایا کہ لڑی کے سا تھ تشبیہ جب پوری ہو کہ وہ دانہ دانہ ہو، ااور یہ غیر ممکن الوقوع ہے۔ مگر استاد نے لفظ قطرہ کی طرف اشارہ کیا جس سے امکان وقوع ذہن نشیں ہوگیا۔ ایسی تشبیہات کا نباہنا سخت دشوار ہے۔ مبتدی کو ان ہفت خوانوں میں قدم نہ رکھنا چاہئے۔
اظہار المطلوب
وہ قسم تشبیہ کی ہے کہ متکلم کے نزدیک مشبہ بہ اہم ہوتا ہے جیسے بھوکا بدر کامل کو یا مہر نصف النہار کو روٹی سے تشبیہ دیتا ہے۔ ظفر فرماتے ہیں،
تنور چرخ سے لیتے گرسنے کب کے اتار
ذرا بھی لگتی اگر قرص آفتاب میں سیخ
قرص مشبہ بہ ہے اور آفتاب مشبہ۔ متکلم کے نزدیک روٹی اہم تھی اس لئے اسی کو مشبہ بہ بنایا۔
تشبیہ تسویہ
وہ ہے جس میں مشبہ بہ تنہا اور مشبہ متعدد ہوتا ہے جیسے یہ کہیں کہ میرا روز فراق اور تیری زلف برسات کی رات کی سی ہے۔
تشبیہ جمع
وہ ہے جس میں اس کا الٹ ہو یعنی مشبہ تنہا اور مشبہ بہ متعدد ہو، جیسے ذوق کے اس شعر میں،
مژہ پیکاں کا ہے ٹکڑا کہ سری کا ٹکڑا
مکھڑا ہے چاند کا ٹکڑا کہ پری کا ٹکڑا
تشبیہ با اعتبار وجہ کے کبھی تمثیل ہے، ذوق،
بد خصلتوں کو کرتا ہے بالا نشیں فلک
اونچی ہے آشیانہ زاق و زغن کی شاخ
یا ناسخ کا یہ شعر،
جو کہ ظالم ہے، وہ ہرگز پھولتا پھلتا نہیں
سبز ہوتے کھیت دیکھا ہے کبھی شمشیر کا
یہ طریقہ اردو میں کم رائج ہے، فارسی کے شعر میں مرزا محمد علی صائب اور ہندوستان میں ملا طاہر غنی نے اس کو بہت برتا ہے۔ اردو میں سب سے زیادہ ناسخ نے پھر ذوق نے اسے استعمال کیا۔ بعض اس طرز کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ان کی طبیعت غوامض پسند ہوتی ہے اور تمثیل میں آسانی سے بات بن جاتی ہے۔ مرزا غالب ان میں سے ایک ہیں۔
تشبیہ مجمل
میں وجہ تشبیہ بیان نہیں کی جاتی جیسے،
ترے سونے کے لئے مہ پارہ
میری آنکھوں کا بنے گہوارہ
تشبیہ جو گہوارہ کو آنکھ سے ہے ظاہر ہے مگر بیان نہیں کی۔ کبھی یہ تشبیہ خفی ہوتی ہے
تشبیہ مفصل
وہ ہے جس میں وجہ تشبیہ مذکور ہو
میر حسنؔ،
وہ پیٹھ اس کی شفاف آئینہ دار
پیٹھ کو شفافی اور صفائی میں آئینہ سے تشبیہ ہے جو ظاہر ہے۔
تشبیہ قریب مبتذل
یہ با اعتبار وجہ کے ہے۔ اس کی دوسری قسم کو غریب بعید کہتے ہیں۔ اس میں بہ سبب ظہور وجہ کے ذہن سامع کا مشبہ سے مشبہ بہ کی طرف بدون دقت فکر انتقال کر جاتا ہے، جیسے باپ کو بیٹے کے ساتھ صورت شکل میں تشبیہ دیں۔ بہ سبب قربت مناسبت کے ذہن بیٹے سے بہت جلد باپ کی طرف چلا جاتا ہے اور باپ بلا دقت فکر ذہن میں آ جاتا ہے۔ کبھی مطلق حضور مشبہ بہ کا ہوتا ہے بوجہ اس کے کہ حس میں تکرار پائی جاتی ہے اور تکرار حس کے یہ معنی ہیں کہ مشبہ بہ بار بار محسوس ہوتا ہے، مثلا آفتاب کو آئینہ مصقل کے ساتھ تشبیہ دیں۔ اس وجہ سے کہ وہ بھی گول اور روشن ہوتا ہے اور یہ بھی۔ اور دونوں اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ لہذا قرب مناسبت اور تکرار حس سے تفصیل اورتفصیل سے فقدان غرابت پیدا ہو جاتا ہے حس سے ابتذال پیدا ہوتا ہے۔
غریب بعید
ما سبق کی ضد ہے۔ یہاں تو مشبہ بہ میں بہت سی تفصیل ہوتی ہے جیسی غالب کے سونے روپے کے چھلوں اورمیر حسن کے دھان کے کھیت والے شعر میں، یعنی مشبہ بہ امور چند در چند سے مرکب ہو یا کہ حصول اور حضور مشبہ بہ کامشبہ کے حضور کے وقت بہ سبب بعد مناسبت کے بطریق ندرت ہوتا ہے، یعنی مشبہ ذہن میں حاضرہو جاتا ہے تو مشبہ بہ کو بڑے خوض و فکر کے ساتھ ذہن نشین کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ذوق،
مرغ دل نرگس میگوں کی ہے مژگاں میں اسیر
تازہ مضمون ہے جو باندھوں قفس جام شراب
جام شراب کو قفس سے تشبیہ نہایت بعید ہے۔ جب تک کہ لحاظ نرگس میگوں (مطلق نرگس نہیں) کا اس حیثیت سے نہ کیا جائے کہ اس کی مژگاں میں مرغ دل اسیر ہو، اس کا سمجھنا دشوار ہے۔ اس شعر میں کئی تشبیہیں ہیں۔ دل کو مرغ سے چشم کو بطور استعارہ نرگس سے اور نرگس کے ساتھ میگونی کی قید ہے۔ ان امور کے لحاظ سے نرگس میگوں کو جام شراب سے تشبیہ ہے اوریہ تشبیہ بدیع ہے۔ یعنی بعید بھی ہے اور غریب بھی۔ یہاں یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اساتذہ متاخرین کی اصطلاح میں مبتذل اس مضمون کوکہتے ہیں کہ تشبیہ مجمل یا مفصل کو بہت سے لوگ باندھیں چنانچہ معشوق کے قد کو سرو سے، عارض کو گل اور دانتوں کو موتی سے سب تشبیہ دیتے آئے ہیں۔
تشبیہ مشروط
وہ ہے کہ مشبہ یا مشبہ بہ دونوں کو کسی شرط وجودی یا عدم کے ساتھ مقید کریں،
لب کو ترے ہم عقیق کہتے
گر آب حیات اس میں ہوتا
سرخی اور جانفزائی یہ صفات لب معشوق میں مان لئے۔ عقیق میں سرخی تو ہے لیکن دوسری صفت معدوم۔ اس لئے اس میں آب حیات کے وجود کی شرط لگا دی۔
تشبیہ اضمار
کبھی ایک چیز کو دوسری سے تشبیہ تو دیتے ہیں مگر ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تشبیہ دینا مقصود نہیں مگر تشبیہ فی الواقع ہوتی ہے،
گل اگر تم ہو تو ہوں کس لئے میں ہمرہ خار
شعلہ اگرتم ہو تو کیا جلنے سے مجھ کو سروکار
اس قسم کی تشبیہ میں اتحاد طرفین کا دعویٰ ہوتا ہے۔ مشبہ بہ اور مشبہ گویا آپس میں ایک ہی ہیں اور جب خواص مشبہ بہ کے مشبہ میں پائے جاتے ہیں تو وہ اتحاد تشبیہی زائل ہو جاتا ہے اور فی الواقع تشبیہ دینی منظور ہوتی ہے ورنہ لطافت معنوی ظاہر نہیں ہوتی تاکہ ایہام عدم قصد تشبیہ کا اعلان بخوبی ہو جائے۔
آپ نے دیکھا کہ تشبیہ مشروط اور تشبیہ اضمار کتنی قریب قریب جاتی ہیں مگر ان میں ایک باریک فرق ہے وہ یہ کہ مشروط میں شرط کی قید مشبہ اور مشبہ بہ دونوں میں ملحوظ ہوتی ہے اور اضمار میں شرط کا لحاظ نہیں ہوتا بلکہ تمام جملے کے ساتھ شرط کا علاقہ ہوتا ہے، علاوہ بر ایں اضمار میں شرط کا جواب وجوباً کلمہ استفہام کے ساتھ آتا ہے۔
تشبیہ تفضیل
وہ یہ کہ پہلے ایک چیز کو دوسری چیز سے تشبیہ دیں اور پھر مشبہ کو مشبہ بہ پر تفضیل دیں۔ تفضیل وجہ شبہ بیان نہیں کرتی تاکہ ایہام ہو جائے کہ مشبہ میں مشبہ بہ کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں۔ شعر،
تو مسیحا ہے بلکہ اس کو بھی
تیرے لب سے ہے مایہ اعجاز
تو مشبہ ہے اور مسیحا مشبہ بہ، وجہ شبہ دونوں میں احیائے موتی ہے جو مذکور نہیں اور ترقی کی وجہ لبوں کا فیض دینا ہے یہ اور وجہ شبہ دونوں ایک نہیں۔
نوٹ یہ بھی اسی قبیل سے ہے کہ اول دعویٰ کریں کہ مشبہ مشبہ بہ کی جنس سے ہے پھر مشبہ کو مشبہ بہ پر ترجیح دیں۔ یہ تشبیہ الطف اس صورت میں ہوتی ہے کہ اضمار بھی اس میں کیا جائے یعنی ظاہراً معلوم ہو کہ تشبیہ دینا مقصود نہیں۔
تمام رات ہوئی کر گیا کنارا چاند
لو اترو بام سے تم جیتے اور ہارا چاند
پہلے دعویٰ کیا کہ تم اور چاند یکساں ہو۔ پھر رات بھر بمقابل ہم دگران کا امتحان کیا۔ آخر شب چاند کو ناقص اور معشوق کو کامل ٹھہرایا۔ ظاہراً معلوم نہیں ہوتا کہ متکلم نے اس میں تشبیہ کا قصد کیا بھی ہے۔
تشبیہ کے اور بھی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً تشبیہ مؤکد و غیر مؤکد وغیرہ وغیرہ، مگر بہ خوف طوالت ان کے ذکر کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک اور ضروری بات بتانی ہے قبل اس سے کہ اس بحث کو ختم کروں۔ یاد رہے کہ تشبیہ اس جگہ متحقق ہوتی ہے جہاں مشبہ بہ باعتبار وجہ شبہ، مشبہ سے کامل تر ہو، خواہ از روئے ادعا خواہ حقیقتاً اور جہاں وجہ شبہ میں مشبہ اورمشبہ بہ دونوں کی مساوات مراد ہو اور یہ مقصود نہ ہو کہ ایک کامل ہے اور دوسرا ناقص عام ہے تو وہاں تشبیہ نہیں ہو سکتی، اور اس کا ترک کرنا ہی انسب ہے، کیونکہ تشبیہ میں ایک کی زیادتی اور ایک کے نقصان کا قصد ہوتا ہے جہاں مساوات کا قصد ہو اسے تشابہ کہتے ہیں یعنی ایک چیز کا دوسری چیز کے مشابہ ہونا۔ تشبیہ اور تشابہ کے امتیاز باہمی کا خیال رکھنا چاہئے۔ مرزا سودا کے ان اشعار میں تشابہ ہے تشبیہ نہیں،
جس کے تو پاس نہ ہو وے تو اسے عالم میں
مجلس و شادی و تنہائی و غم چاروں ایک
کر دیا پل میں کرشمہ نے تری آنکھوں کے
مسجد و میکدہ و دیر و حرم چاروں ایک
یہاں تشبیہ مجلس کی تنہائی سے اور شادی کی غم سے منظور نہیں بلکہ ان کی مساوات مقصود ہے۔ غالباً ذیل کے اشعار تشابہ کی واضح تر مثال ہیں،
تیرے روئے عرق آلودہ اور کانوں کے موتی کا
بیاں کیا کیجئے ہے لطف دونوں میں برابر کا
گہر ہے تیرے کانوں میں دیا قطرہ عرق کا ہے
یہ ہے قطرہ عرق کا یا کہ ہے دانہ یہ گوہر کا
کبھی ایک لطیف مبالغہ کو غلطی سے تشبیہ سمجھ لیا جاتا ہے،
آتش غم ایسی کچھ بھڑکی کہ پل میں ہو گیا
داغ دل سے آفتاب روز محشر آشکار
یہاں داغ دل کی سوزش میں مبالغہ منظور ہے۔ یعنی دل کا داغ جلن میں اس مرتبہ کو پہنچا کہ قیامت کے دن کا آفتاب بن گیا جو روئے زمین سے صرف سوا نیزے اوپر ہوگا۔ پس ظاہر ہے کہ کس مرتبہ تپش اور سوزش اس میں ہوگی۔ بادی النظر میں یہ شبہ ہوتا ہے کہ داغ دل کو آفتاب سے تشبیہ دی ہے لیکن چونکہ بطریق تجرید کے ہے اس لئے تشبیہ نہیں۔ تجرید علم بدیع کی ایک اصطلاح ہے جس کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں۔
تشبیہ اور دیگر صنائع کی کماحقہ واقفیت کے علم بیان کے ابتدائی رسالوں کے مطالعہ کے بعد ایسی منتہی الفن کتب کا دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے جیسے مصطلحات الشعرا از خان آرزوؔ، مصطلحات وارستہ، نہر الفصاحت قتیلؔ، حدائق البلاغت، اسرارالبلاغت مصنفہ شیخ عبد القادر جرجانی، کتب مصنفہ حکیم سکا کی، کتب ظہوری عروضی وغیرہ وغیرہ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.