تذکیر و تانیث
آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ عورتیں جنہیں ہر مہذب اور متمدن سوسائٹی میں صنف نازک جیسے نام دیے جاتے ہیں، اپنی کانفرنسیں کرتی ہیں جن میں حقوق کی مساوات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ یہ محذرات سیاسی اور اجتماعی معاملوں سے ذرا آگے بڑھتیں اور یہ قرار داد بھی پیش کرتیں کہ زبان میں بھی کلموں کی جنس ایک ہی استعمال ہو یعنی اس میں کلی مساوات ملحوظ رکھی جائے۔ اگر یہ ہو جاتا تو مجھے اردو کی تذکیر و تانیث پر آپ کی سمع خراشی کے لیے دو درجن کتابوں سے مشورہ نہ کرنا پڑتا۔
چونکہ اب تک ایسا نہیں ہوا، اس واسطے صورت حال پر نظر ڈالنا واجب آتا ہے۔ اس ضمن میں مذکر اور مؤنث اسموں کی فہرستیں آپ کے سامنے نہیں رکھی جائیں گی۔ نہ ایسے قاعدے پیش کئے جائیں گے جن کے ساتھ مستثنیات کے طور مار نتھی ہوں۔ بلکہ بحث اس سے کی جائے گی کہ اردو کے متقدمین کے سامنے، اسی طرح دوسری زبان والوں کے سامنے تذکیر و تانیث سے متعلق آیا کوئی نظریہ یا نظریے تھے کہ انہوں نے فلاں لفظ کو مذکر اور فلاں لفظ کو مؤنث قرار دے دیا اور فلاں قاعدہ تذکیر و تانیث کا کیوں وضع کیا گیا۔ موضوع خشک ہے مگر اس کو دلچسپ اور مفید بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ قواعد کی کتابوں میں جو کچھ درج ہے، وہ یہاں نہیں دہرایا جائے گا جس کا ذہن نشیں ہونا فرض کر لیا گیا ہے۔
گھبرا اور اکتا کر یہ کہہ دینا کہ ’’میاں اس میں کیا ہے۔ مذکر کو مؤنث اور مؤنث کو مذکر کہہ دیا تو ہرج ہی کیا ہوا۔ مقصود تو مطلب کا اظہار ہے، چاہے حکیم سے کہو میرا ناک ٹھسا ہوا ہے یا یہ کہ میری ناک ٹھسی ہوئی ہے۔ وہ سمجھ جائے گا کہ نزلہ بند ہو گیا اور اس کے جاری ہونے کی دوا دے گا۔‘‘
جب ہر زبان میں تذکیر و تانیث حقیقی و غیر حقیقی کسی نہ کسی درجہ تک موجود ہے بلکہ بعض صرفی زبانوں میں اسما مذکر و مؤنث ہی نہیں بلکہ ایک تیسری جنس مخنث میں بھی شمار کئے جاتے ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ ہم اردو قواعد کے باب جنس سے بیزار ہو جائیں۔ ہندوستان ہی کی دوسری زندہ زبانوں کو دیکھو جن میں جنس کی تینوں صورتیں اب تک موجود ہیں، جیسے گجراتی اور مرہٹی۔ ان میں مذکر اور مؤنث کے علاوہ ایک تیسری جنس مخنث بھی پائی جاتی ہے۔ جنسیت کے بارے میں استعمال کے شکمی اختلافات بھی اور زبانوں میں ملتے ہیں۔ مثال میں آئر لینڈ کی زبان کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس ملک میں زرد پھولوں کی ایک جھاڑی سی ہوتی ہے جیسی ہمارے ہاں ستیا ناسی ہے۔ اسے آئرش زبان میں فرز (Fureze) کہتے ہیں۔ اب سنیئے یہ لفظ جنوبی آئر لینڈ میں مذکر اور شمالی آئر لینڈ میں مؤنث بولا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اختلافات کم و بیش سبھی جگہ ہیں اور کلمات کا مذکر سے مؤنث اور مؤنث سے مذکر کی ذیل میں منتقل ہونا بھی پایا جاتا ہے۔
اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو غیر صرفی اور پنچ میل زبان ہے اور جنس کے بارے میں جو دقت زیادہ تر ہماری طرف مسکراتی ہے وہ اکثر ایسے کلمات ہیں جو غیر ذی روح اشیا کے نام ہیں اور عربی یا سنسکرت جیسی صرفی زبانوں سے آئے ہیں۔ ان سے کم فارسی مرکبات ہیں جو ہمیں مشکل میں ڈالتے ہیں۔ عربی تذکیر و تانیث کا اعتبار ابواب اور وزن پر ہے۔ سنسکرت میں یہ قضیہ نفسیاتی و صوتیاتی اصول پر طے پاتا ہے۔ یہ ہوا فروعی اختلاف، لیکن ان دو زبانوں میں اصولی مطابقت بھی ہے اور اگر آپ سننا پسند کریں تو بتایا جائے کہ ایک قوم کی دیو مالا، روایات اور نفسیاتی خواص اس کی زبان کی تدوین اور تنظیم میں بہت رسوخ رکھتے ہیں۔
ادھر حیوان ناطق کی ذیل میں سب سے پہلے حضرت آدم کا اور ادھر برہما جی کا ظہور لازم گرداننا تھا کہ عربی اور سنسکرت عموماً مذکر سے مؤنث بننے لگے۔ مرد کی سبقت عورت پر مذکر سے مؤنث کی ساخت کی منتج ہوئی۔ یہی حالت اردو میں ٹھیٹھ ہندوستانی اسموں کی ہے۔ ہمارے ہاں صرف دو مذکر ایسے ہیں یا شاید تین جو مؤنث سے بنے۔ وہ یہ ہیں۔ رنڈوا سے رانڈ اور بھینسا بھینس سے۔ ان کی ایک تاریخ ہے اور ان کی کیا ہر لفظ نہیں، تو اکثر لفظوں کی ادبی، تصریفی تاریخ کے سوا اور تاریخ بھی ہوا کرتی ہے۔
رانڈ اور رنڈوے کو پہلے لیجئے، رانڈ اس عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر مر گیا ہو۔ رنڈوا وہ مرد ہے جس کی بیوی مر گئی ہو۔ ان کلموں کی شکل اور حروف ترکیبی کی نشست سے ایک صرفی یہ تو کہہ گیا کہ رانڈ سے رنڈوا بنا اور سب نے مان لیا لیکن اس کی ایک اور تاریخ بھی ہے۔ وہ یہ کہ بیوہ عورتیں رنڈووں کے مقابلے میں ہر قوم میں زیادہ ہوتی ہیں، اور جن میں رانڈوں کے ازدواج ثانی پر کسی قسم کے قیود نہیں لگائے گئے ان میں بھی رنڈووں کی نسبت رانڈوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ شوہر کی وفات کے بعد اس کی رنڈاپے کی حالت ایک مرد کے رنڈوے پن کی حالت کی مدت کے مقابلے میں زیادہ لمبی ہوتی ہے۔
یہ بھی ہے کہ عمر کی ایک خاص نوبت کے بعد رنڈوا تو دوسری شادی کر لیتا ہے لیکن رانڈو ں کی عموماً نہیں ہوتی۔ لہذا ایک سو سائٹی میں رانڈیں بمقابلہ رنڈووں کے زیادہ نمایاں حیثیت رکھتی ہیں اور چونکہ وضع الفاظ بالعموم اور کلموں کی تذکیر و تانیث (میرا مطلب اپنی دیسی زبان کے کلموں سے ہے) صرف ہی نہیں جماعت متعلقہ کی نفسیاتی اور سوشل خصوصیات سے بھی متاثر ہوتی ہے، اس لئے لازم تھا کہ رانڈ کا کلمہ پہلے بنے اور رنڈوا اس کے بعد۔ اب بھینس کو لیجئے۔ گھر میں دودھ کی ضرورت ہوئی۔ ایک جانور لایا گیا جس کو دیکھا کہ اپنے بچے کو دودھ پلا رہا ہے۔ اس کا دودھ نکالا گیا اور مزے سے استعمال ہونے لگا۔ اس دودھیل جانور کی آواز بھیں بھیں کے سوا کچھ نہ تھی، لہذا اسے بھینس کہنے لگے۔ بھینس دودھ دیتی گئی۔ رفتہ رفتہ دودھ کم ہوتا گی اور بچہ بڑا ہوتا گیا۔ وہ بچہ نر تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کے دودھ سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہئے۔ خیر چونکہ مذکر کی عام شناخت الف آخر کلمہ تھا اسے بھینسا کہنے لگے۔ آپ نے اس استدلال پر غور کیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسی سوانح عمری ہر کلمہ کی بیان کی جا سکتی ہے کیونکہ ایسا نہ ہونا اس کی دلیل ہے کہ ہماری تحقیقات صرفی ناقص ہے۔
ماننا پڑے گا کہ بعض غیر ذی روح اسموں کی تذکیر و تانیث میں بہت گڑبڑ ہے۔ ایسے مقام پر لوگ ہیکڑی سے کام لیتے ہیں اور خواہ مخواہ اجتہاد اور تصرف بے جا کی ٹانگ توڑتے ہیں۔ مثال کے لئے قلم اور مالا کو لیجئے۔ قلم کو جلال مرحوم نے مختلف فیہ فرمایا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں بھی ایسا ہی لکھا ہے اور ہے بھی ایسا ہی۔ غالب نے ایک خط میں قلم کو مؤنث لکھا ہے۔ اور ذوق کا مطلع دیوان اس کی تذکیر کا شاہد ہے، جب کہ شاہ ظفر اسے مؤنث باندھتے ہیں۔ شعر ہے۔
ظفر جو خوف سے تیرا نہ کانپتا یہ ہاتھ
قلم تیری دم تحریر ہل گئی تھی کیوں
اب دیکھنا یہ ہے کہ جس چیز کا یہ نام ہے۔ اس کی اصلیت کیا ہے۔ وہ ایک درخت کی شاخ کی ایک پور ہے۔ مروجہ استعمال تو یہ ہے جب ایک درخت کی ٹہنی دوسرے درخت میں پیوند کی جائے تو قلم مؤنث ہوگی۔ جب کنپٹی پر بالوں کا ایک حصہ استرے سے لمبا قلم کا سا تراش کر نیچے کان کی لو تک یا اس کے قریب لاکر چھوڑ دیا تو وہ قلم مؤنث ہوگی۔ رشک کا شعر ہے،
ہیرے کی ہیں ہتھیلیاں تیری
انگلیاں ہی بلور کی قلمیں
خود جلال کا شعر ہے،
ہے جام مے کہ پھول کھلا ہے گلاب کا
نرگس کی شاخ ہے کہ قلم ہے شراب کی
زیادہ تشریح محض طوالت ہے۔ مختصر یہ کہ لفظ قلم ہر معنی اور ہر ترکیب میں مؤنث لیکن جب وہ لکھنے کے فعل پر دلالت کرے۔ آخر یہ کیوں؟ دہلی اور لکھنؤ بالاتفاق اس کو مختلف فیہ بتاتے ہیں پھر اس گڑبڑ کے کیا معنی۔ اگر اس صورت میں استدلال سے کام نہیں لے سکتے تو پھر کب لے سکتے ہیں۔ آئیے دیکھیں، معقولیت کیا حکم دیتی ہے۔ واقعات متعلقہ یہ ہیں کہ لفظ قلم ہر مفرد اور مرکب شکل میں مونث آتا ہے۔ لکھنے کے آلہ کی صورت میں مؤنث بھی آتا ہے اور مذکر بھی۔ یہ سوچئے کہ ہمارے قلمدان میں لکھنے کی کوئی اور چیز بھی ہے کہ نہیں اور وہ پنسل ہے اور پنسل بالاتفاق مؤنث ہے۔ غرض کہ قلم کو کسی طرح الٹ پلٹ کر دیکھئے، غلبہ اور زبر دست غلبہ اس کی تانیث کے حق میں ہے۔ پھر کیا وجہ کہ اس کو بالاتفاق مؤنث نہ اعلان کردیا جائے۔ ایک اور بات بھی ہے۔ قلم کے نام کے ساتھ دوات ذہن کے سامنے آ جاتی ہے۔ اس وجہ سے قلم کو مذکر کہنا ذم اور عریانی کا پہلو پیش کرتا ہے، جسے شائستہ سوسائٹی گوارا نہیں کر سکتی۔ آپ نے دیکھا کہ اسی طرح تمام نہیں تو اکثر بیشتر مختلف فیہ کلموں کی جنسیت کی تعین قطعی طور پر ہو سکتی ہے۔
مالا کی نسبت سنا ہوگا کہ لکھنؤ میں مذکر ہے۔ یہ اطلاع بالکل صحیح نہیں۔ لکھنؤ کے بعض نامی اساتذہ مالا کو دلی والوں کی طرح مؤنث بھی باندھتے ہیں۔ جب مالا کو مردانہ جامہ پہنایا گیا تو کوئی وجہ اور دلیل ادبی یا علمی پیش نہیں کی گئی۔ جلال مرحوم نے فرمایا کہ لفظ مالا کی بھی تذکیر و تانیث میں اختلاف ہے۔ بعضے مؤنث بولتے ہیں اور بعضے مذکر۔ لیکن بہ قید نظم فصحائے لکھنؤ کے کلام میں مذکر ہی پایا جاتا ہے۔ مثال میں ناسخ، بحر اور برق کے شعر لکھ دیے۔ ان اشعار کا یہاں دہرانا طوالت نہیں، بلکہ نتیجہ خیز ہے۔ سنئے! ناسخؔ فرماتے ہیں،
تیری مالا موتیوں کا قتل کرتا ہے مجھے
اے پری مالا سرو ہی کا یہ مالا ہو گیا
(کالا ہو گیا، بالا ہو گیا)
برقؔ کے شعر کا آخری مصرعہ،
بنے ہیں میرے لئے موتیوں کے مالے سانپ، کالے سانپ
یہ دونوں شعر سند میں پیش کئے جانے کے قابل نہیں کیونکہ ناسخ کے شعر میں ردیف ہو گیا ہے۔ قافیہ لا محالہ مذکر ہی ہونا تھا اور برق کے ہاں سانپ ردیف ہے جو قافیہ کی تذکیر چاہتی ہے اور اگر شاعر مالا کو مذکر نہ قرار دیتا تو اس کی جمع مالے نہ بنتی جو لفظ قافیہ ہے۔ ناسخ جیسا مسلم الثبوت استاد ایک ہی لفظ کو حسب ضرورت شعری مذکر بھی باندھ گیا ہے اور مؤنث بھی۔ ملاحظہ ہو،
سیر ہر کنج چمن کرتے ہو تم غیر کے ساتھ
بلبل دل مجھے اے جان خبر دیتا ہے
(دیتا ہے، ردیف)
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے،
بلبلیں چہچہے کرتی ہیں چمن میں ساقی
طوطی شیشہ مے زمزمہ پرواز نہیں
بلبل کی تذکیر و تانیث کا عقدہ اب کھل گیا ہوگا۔
ہاں ذکر تھا مالا کا۔ حضرت جلال کا فرمانا کہ فصحائے لکھنؤ کے استعمال میں مالا مذکر ہی پایا جاتا ہے، قابل التفات نہیں، کیونکہ اسے کلمہ کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ منشی مظفر علی خاں اسیر کا جو درجہ اردو کے شعرا اور خصوصی طور پر لکھنؤ کے اساتذہ میں ہے، اس کی تشریح کی ضرورت نہیں، ان کا شعر ہے،
سلسلہ اشک کو توڑے جو مرا دیدہ تر
موتیوں کہ نہ کرو تم ابھی مالا ٹھنڈی
ثابت یہ ہوا کہ مالا کی جنسیت لکھنؤ میں مختلف فیہ ہے۔
تذکیر و تانیث کی گڑبڑ نظم ہی تک محدود نہیں جس میں ضرورت شعری کا حیلہ چل سکتا ہے بلکہ یہ اختلاف نثرمیں اور بھی بھونڈی شکل پکڑتا ہے۔ کلمہ نشوو نما کو لیجئے اور دیکھے نظم و نثر میں کیا گل کھلاتا ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہوگا کہ استاد اور شاگرد میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ ناسخ کا شعر ہے،
خط کو روئے یار پر نشو و نما ہوتا نہیں
سبزۂ بیگانہ گل سے آشنا ہوتا نہیں
مگر شیخ صاحب کے ارشد تلامذہ خواجہ وزیر کا ارشاد ہے،
آنسو بہا تو رشتہ بہ پا مرغ دل ہوا
دانہ نے کی جو نشو نما دام ہو گیا
اگر وزیر کے شعر میں نشو و نما کو مذکر ٹھیرائیے تو شعر مطلع نہیں رہتا جو کہ اصل میں ہے۔ اب اسی کلمہ کی افتاد کو نثر میں سنئے۔ تذکرہ گل رعنا حال کی تصنیف ہے۔ اس میں یہ کلمہ کئی بار آیا ہے۔ صفحہ 39 سطر 1 میں اس کی جنس مؤنث ہے لیکن اسی ورق یعنی صفحۃ 40 کی چوتھی سطر میں یہی مؤنث سے مذکر بن جاتا ہے۔ پھر صفحہ 94 سطر 4 میں مؤنث کے بھیس میں نظر آتا ہے۔ اور صفحہ 278 سطر 12 میں پھر مذکر ہو کر خم ٹھونکتا دکھائی دیتا ہے۔ عقل حیران ہے یا بوالعجب یہ کیا بوالعجبی ہے!
انسانوں کی نسبت تو سننے میں آتا رہتا ہے کہ فلاں جگہ ایک شخص مرد سے عورت بن گیا۔ مانا کہ یہ نقل جنس مغربی ملکوں تک ہی محدود نہیں، ابھی کل کی بات ہے ضلع بجنور کے قصبہ چاند پور سے خبر آئی کہ ایک سترہ برس کی بیاہی ہوئی لڑکی کے جسم میں نرینہ علامتیں بہت سرعت سے نمایاں ہو رہی تھیں کہ ڈاکٹروں نے عمل جراحی سے اس انتقال جنسیت کو روکا۔ یہ کایا پلٹ انسانوں میں تو لاعلاج ہے، اگر چہ چاند پور کے ڈاکٹروں نے ایک مثال میں فی الحال اسے روک دیا ہے۔ لیکن اور مثالوں میں یوروپ بھر کے ماہر قاصر رہے۔ خیر یہ کچھ ہی ہو، لیکن الفاظ کی یہ کایا پلٹ ہمارے قابو کی بات ہے۔
اگر ہم اہل اردو معقولیت اور سائنٹیفک نظریوں پر چلیں تو جنس کے یہ اختلاف جو اردو کے صاف چہرے پر بد نما داغ ہیں دور ہو سکتے ہیں۔ یہ کسی کا ارشاد یا اجتہاد نہیں ہے کہ تذکیر و تانیث حقیقی یا غیر حقیقی سے متعلق جو الفاظ اور زبانوں خصوصاً صرفی زبانوں سے اردو میں آئے ہیں ان کا حلیہ بگاڑ دو۔ مثال کے طور پر دیکھئے عربی میں ایک لغت جو مفرد میں مؤنث ہو، جمع سالم کی صورت میں مذکر ہو جاتا ہے۔ حالی مرحوم کا شعر ہے۔
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے ان کو
کریں گے ذکر ہر مجلس میں اور دہرائیں گے ان کو
تری رایوں کو جو منسوب کرتے ہیں ضلالت سے
زمانہ کے حوائج جلد تر شرمائیں گے ان کو
اس شعر میں حاجت مؤنث کی جمع حوائج مذکر بنائی گئی جو عربی کے قاعدے کے مطابق درست ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ لغت عورت مؤنث ہے۔ اس کی جمع عورات ہے اس کو بھی مذکر باندھئے۔ آپ ہی دیکھئے اردو میں عورات کی تذکیر کیسی معلوم ہوگی، معقولیت بھی اس کو گوارا نہیں کر سکتی کہ ایک لغت بصورت واحد تو مؤنث ہے لیکن اسی معنی میں بصورت جمع مذکر ہو جائے۔ اور سنئے۔
بعضے کہتے ہیں، ’’کوشش کرنی پڑے گی۔‘‘ بعضے کہتے ہیں، ’’کوشش کرنا پڑے گا۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان میں سے کون سی شکل اختیار کی جائے۔ ’’جو کرنا پڑے گی۔‘‘ کے حق میں ہیں ان کا یہ قول ہے کہ اردو کا ہر مصدر مذکر ہے، اس کی جنسیت اور ہیئت میں تصرف ناجائز ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اسے کلیہ نہیں بتا سکتے۔ کیا آپ نہیں کہتے، ’’وہاں جانے سے کیا فائدہ ہوگا۔‘‘ یہاں حرف عاملہ نے آپ کے مصدر کی ہئیت کذائی بدل دی کہ نہیں۔ اسی طرح کوشش کی جنسیت نے وہاں تبدیلی کر دی۔ میری تحقیق میں لکھنو بھی سارے کا سارا اس بحث میں مدعیوں سے اتفاق نہیں پیش کرتا۔ امانت کا یہ شعر قابل غور ہے۔
سرشک دیدہ ہائے تر سے دھو ڈالوں گا عصیاں کو
انہیں چشموں سے اے دل آبرو محشر میں پانی ہے
اور قافیہ میں بانی فانی وغیرہ۔ جو سلوک ایک جملہ میں فعل ناقص یا کلمہ کے ساتھ کیا جاتا ہے، جب مبتدا اور خبر مختلف الجنس ہوں وہ نہایت ہی قبیح ہے۔ اس بارے میں جسے قاعدے کا نام دیا جاتا ہے یہ ہے کہ اگر فعل ناقص مبتدا کے قریب آ کے پڑا ہے تو اس کی جنس کے موافق ہوگا اور دوسری صورت میں خبر کے موافق۔ اب دیکھئے اساتذہ کے کلام میں اس قاعدے کی کیا گت بنتی ہے۔ ذوق کا شعر ہے،
دریائے غم سے میرے گذرنے کے واسطے
تیغ خمیدہ یار کی لوہے کا پل ہوا
اس شعر میں کہہ سکتے ہیں کہ پل جو مذکر ہے اس کی قربت کی وجہ سے فعل ناقص مذکر استعمال ہوا ہے۔ ا س کے ساتھ ہی غالب کا شعر ملاحظہ کے قابل ہے۔
باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گل تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا
اس شعر میں بھی مبتدا اور خبر دونوں مختلف الجنس ہیں اور دونوں کے ساتھ کلمہ صفت مذکور ہے۔ فعل ناقص خبر سے قربت رکھتا ہے لیکن جنسیت میں اسے مبتدا کے موافق کیا گیا جو مصرع کے شروع میں دور جا کر بیٹھا ہے۔ آپ نے دیکھا وہ قربت و بعد کا قاعدہ تو پاور ہوا ہو گیا۔ آپ سوال کریں گے کہ اس صورت میں آخر کیا کیا جائے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہمیت مبتدا کو ہے۔ اس کی جو بھی حالت یعنی نوعیت اور جنس وغیرہ ہے، وہ مستقل و مستحکم ہے۔ خیر جو ہے وہ محض ایک عارضی کیفیت ہے۔
دیکھئے لٹھا جو ایک قماش ہے، اس کا آپ پائجامہ بھی بنا لیتے ہیں۔ اسی تھان میں سے اس کی واسکٹ بھی بنا لیتے ہیں، ایک ٹوپی بھی اس میں سے بنائی جاتی ہے اور ایک کرتا بھی۔ لیکن لٹھا کی جنسیت ان مختلف الجنس چیزوں سے متاثر نہیں ہوتی۔ یہی حال مبتدا کا ہے۔ اس کی جو شکل خبر کی صورت اختیار کرتی ہے وہ عارضی ہے۔ اصل چیز مبتدا کی جنس ہے۔ اس کا اتباع لازم ہے۔ ایک لڑکی اپنے بھائی سے کہتی ہے۔
’’ اگر میں تیرا بڑا بھائی ہوتی تو بھی تو مجھ سے یہی کلام کرتا۔‘‘
چونکہ قائل یعنی مبتدا کی حیثیت جنسی مستقل طور پر مؤنث ہے اس لئے کہ ربط مؤنث آیا اور خبر کی جنس نظر انداز کی گئی۔ ذوق کا ایک شعر ہے،
گر سیہ بخت ہی ہونا تھا نصیبوں میں مرے
زلف ہوتا ترے رخسار پہ یا تل ہوتا
ظاہر ہے کہ مصرعہ ثانی میں ضمیر واحد متکلم مقدر ہے اور شاعر کی طرف راجع ہے جو مذکر ہے۔ یعنی شیخ ابراہیم ذوق، اس لئے ہوتا زلف کے نہیں، ذوق کے مطابق بنایا گیا۔ نواب غوث محمد خاں غوث دہلوی میرے دوست اور دہلی کے عہد حاضر کے مشاہیر شعرا میں سے ہیں۔ ان کا شعر ہے،
ہمارے خط کو وہ پڑ ھ کر نہ چاک کیوں کرتے
کچھ آسماں سے اتری ہوئی کتاب نہ تھا
دیکھئے یہاں بھی ترجیح مبتدا کو دی گئی۔ آپ نے دیکھا ذرا سے غور سے مبتدا اور خبر کا قضیہ طے پا گیا۔ اسی طرح غور و فکر اور بحث و تمحیص سے اور عقدے بھی جو اس ذیل میں لاینحل دکھائی دیتے ہیں حل ہو سکتے ہیں۔
تذبذب یعنی دبدا قوت عمل کی منافی ہے۔ اگر یہ اندیشہ ہو کہ اس طرح صغریٰ و کبریٰ چھانٹنے لگیں اور ایسے استدلال میں غرق ہو جائیں تو اصلاح زبان کے قضیوں کے تصفیہ کے لیے عمر خضر چاہئے۔ اصل میں ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ قدامت پرستی اور تقلید اور نیز انانیت ہماری ذہنیت پر مسلط ہیں جو ہمیں معقولیت کی طرف جانے سے روکتی ہیں۔ اب ایک عام لفظ ناک کو لیجئے اور فکر کیجئے کہ یہ لفظ مذکر ہو نا چاہئے یا مؤنث۔ ہر جگہ اس کی نانیث مسلم ہے لیکن پنجابی میں یہ لفظ مذکر مستعمل ہے۔ انسان کے جسم یا چہرے میں جو مہتم بالشان حیثیت آنکھ اور ناک کی تسلیم کی جاتی ہے، وہ اور حصہ جسم کی نہیں۔ اگر جنگ میں کسی کا سر کٹ گیا تو وہ شہید ہوا، سیدھا جنت کو گیا، اگر اس کی صرف ناک کاٹ دی جائے تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔
ناک میں آخر کوئی تو بات ہے جو ناک کاٹنے کی وارداتیں آئے دن سننے میں آتی ہیں۔ نہ سمجھئے کہ یہ ناک کاٹنے کا عمل کہئے مرض ہندوستان اور عورتوں ہی سے تعلق رکھتا ہے بلکہ یورپ اور انگلستان بھی اس سے نہ بچ سکے۔ ہے توجملہ معترضہ لیکن بڑے مزے کی بات ہے سنیئے۔ سر جان کونٹری لنڈن کی پارلیمنٹ کے ممبر تھے، وہاں ان کی ایک تقریر سے بعض رئیس ممبر چڑھ گئے۔ کہا جاتا ہے بادشاہ وقت پر چوٹ تھی، وہ بھی برہم ہوا۔ القصہ ایک رات کو کہ سر جان کھانا کھا کر اپنے معمولی رسٹراں سے نکل رہا تھا جو سفک اسٹریٹ میں تھا کہ تین آدمیوں نے اسے گھیر لیا اور اس کی ناک اڑا دی۔ اس پر اینڈرو مارول نے ایک نظم کہی جس کے یہ دو شعر تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ (1) یہ 1670ء کا واقعہ ہے۔
If any bold Commoner Dare to oppose
I’ll order my bravoes to cut off his nose
I’ll wholly abandon all public affairs
And pass all my time with baffons and players
ہاں ہم ناک کی جنس سے بحث کر رہے تھے۔ آنکھ ناک سے درست ہونا جو اردو کا محاورہ ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں۔ آنکھ ناک سے ڈرنا بھی اردو کا ایک محاورہ ہے، اس کے معنی ہیں غیبی مار سے ڈرنا یعنی اس سے ڈرتے رہنا کہ آنکھ ناک پر کوئی آفت نہ آئے۔ نواب مرزا کا شعر ہے۔
ارے ظالم خدائے پاک سے ڈر
جھوٹ مت بول آنکھ ناک سے ڈر
کہاوت ہے نکٹا جیئے برے حال۔ جب ناک کو یہ حیثیت ودیعت ہوئی اور کل اردو دنیا اسے جنس تانیث دیتی ہے، پھر اس کی تانیث کے تسلیم کرنے میں کیا تذبذب ہو سکتا ہے۔
مرکبات جو دو اجزا رکھتے ہوں اور وہ اجزا مختلف الجنس ہوں یا نہ ہوں، اور الف اتصال یا کسی حرف ربط سے مربوط ہوں یا نہ ہوں، وہ بھی اصول کے نیچے لائے گئے ہیں یعنی اگر دونوں جز ماضی ہوں تو مرکب مؤنث ہوگا جیسے گفت و شنید، خرید و فروخت۔ لیکن اگر ایک یا دونوں جز امر یا حاصل مصدر ہوں تو مرکب مذکر ہوگا۔ جیسے بندوبست، سوز و گداز۔ اسموں کی صورت میں آخری جز سے موافقت پر ترجیح ہے۔ خیر اسے جانے دیجئے اور صرف ایک مرکب کو دیکھئے۔ یہ ہے شیر برنج، اس کے دونوں اجز ابجائے خود مذکر ہیں مگر یہ مرکب مؤنث استعمال ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کا مترادف کھیر جسے ہم پہلے سے چکھ چکے ہیں، مؤنث ہے۔
بہت سے لفظ ایسے ہیں جو ہمیں اس وجہ سے دقت اور اختلاف میں ڈال رہے ہیں کہ ان کی موجودہ شکل ماخذ کی شکل سے بہت مختلف ہو گئی ہے۔ اپنے اصلی مقام پر جو جنس ان کو ملی تھی وہ وہاں کے قاعدے اور اصول کے مطابق ٹھیک تھی لیکن تبدیل صورت نے اب ان کی جنسیت کو اختلال میں ڈال دیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ گھی اور موتی کو لیجئے۔ یائے معروف اپ بھرنش میں تانیث کی علامت ہے لیکن اردو اور ہندی میں گھی اور موتی اس کلیہ کے مستثنیات میں شامل ہو کر مذکر مانے جاتے ہیں۔ یہ لفظ سنسکرت سے پراکرت میں گئے وہاں سے اپ بھرنش میں، پھر سورسینی میں پھر ہندی میں اور آخرکار اردو میں آئے۔ سب شکلوں کا ذکر محض طوالت ہے۔ سنیئے کہ سنسکرت میں ان کی شکل کیا تھی۔ یہ الفاظ سنسکرت میں گھرت اور موک تلم تھے اور اس زبان کے قاعدے کے مطابق ٹھیک طور پر مذکر استعمال ہوتے تھے۔ ہمارے ہاں رہے تو مذکر ہی لیکن شکل میں گھی اور موتی بن گئے۔
افسوس ہے کہ اب تک اردو میں صرفی لغات بنانے کی کسی نے زحمت گوارہ نہیں کی۔ اگر ہماری کوئی اٹمولوجیکل ڈکشنری ہوتی اور ہر لفظ کی اصل کا اتا پتا ملتا تو وہ دقتیں ہمارے عارض حال نہ ہوتیں جو اس وقت ہیں۔ شمس کو آپ نے دیکھا کہ عربی میں مؤنث ہونے کے باوجود ہمارے ہاں مذکر استعمال ہوتا ہے۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ سورج جو ہماری زبان کے مطلع پر پہلے سے طلوع ہو چکا تھا، مذکر ہے۔ موسم کے ہم نے اعراب بدلے اور غالبا اس وجہ سے ہوا ہو کہ اس کے ہم قافیہ لغت ہمارے ہاں بہت ہی کم ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اس کی جنس بھی بدل ڈالی۔ آپ کہتے ہیں،
’’تم کہتے ہو سب صندوق بھر گئے، یہ کتابیں کن صندوقوں میں جائیں گی۔‘‘ اس جملے میں آپ نے کیا کیا۔ صندوق کی جمع ایک جگہ تو آپ نے بنائی ہی نہیں، مگر صندوق پھر بھی جمع ہی رہا۔ دوسری جگہ آپ نے اس کی جمع بنائی مگر اپنی زبان کے قاعدے سے عربی کے قاعدے پر چل کر، جس زبان سے کہ یہ لفظ آیا ہے صنادیق نہیں بنایا۔ اس طرح سے یہ لفظ اپنایا گیا۔ اسے تصرف لسانی کہئے جس کے بغیر کوئی زبان جیسی کہ ہماری ہے، نہیں بن سکتی۔ فارسی والوں نے اسی صندوق سے صندوقچہ بنا کر اسے اپنا کر لیا۔ آتما سنسکرت میں مذکر ہے مگر ہم روح کا مرادف ہونے کے اعتبار سے اسے مؤنث بولتے ہیں ہمیں ماخذ اور اصل سے دشمنی نہیں لیکن ہم پرائی بد شگونی کو اپنا گھر نہیں بگاڑ سکتے۔
طوالت کے خوف سے اب توجیہہ و استدلال سے ہاتھ اٹھا کر آپ کے غور کے لئے چند باتیں اصول کے طور پر پیش کرتا ہوں،
(1) ایک لفظ جو کسی زبان سے خواہ سنسکرت یا عربی سے ہماری زبان میں داخل ہو، اس کی جنس اس کے مترادف یا قریب المعنی لفظ کی جنس کے موافق ہوگی جو پہلے سے ہمیں معلوم ہے۔
(2) جن اسموں میں جمالی اوصاف پائے جائیں یا جن کے معنی میں آسودگی کا عنصر ہو، انہیں مؤنث قرار دیا جائے۔
(3) جن اسموں کے معنی رعب، دہشت اور تشدد پر دلالت کریں انہیں مذکر جنس دی جائے۔
(4) نمبر (2) اور (3) ان لفظوں پر عائد ہوں جو مختلف فیہ ہوں یا اردو میں نووارد ہوں۔ جو لفظ اردو میں بالاتفاق مذکر یا مؤنث ہیں انہیں بالکل نہ چھیڑا جائے۔
یہ نہ کہئے کہ یہ طول امل ہے، یہ بھول بھلیاں راہ دینے والی ہرگز نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اردو جنس کو قاعدے اور اصول کے تحت لانے کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت روز بروز بڑھتی جائے گی، کم نہیں ہوگی۔ جس زبان کے قاعدے مستحکم نہیں اور خصوصی طور پر جنس کے اصول متزلزل ہوتے ہیں وہاں پھر وہی صورت آکے پڑتی ہے جو اپیسل آف جیمز کا چہرہ بگاڑ رہی ہے۔ ہے تو انگریزی کی عبارت لیکن ہم اردو والوں کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے، وہ یہ ہے،
If a brother or sister be naked… and one of you say unto them ,depart in peace، be ye warmed and filled.
Epistle of james ,ii,15,16
یہاں واحد اسم بر ادر اور سسٹر کے لئے ضمائر Them اور Ye صیغہ جمع کے استعمال کرنے پڑے، ورنہ حرف ایراد ضمیر واحد چاہتا تھا۔ ایسی بے قاعدگیوں کو اس طرح رفع کیا گیا کہ اب بالاتفاق قرار دے دیا گیا کہ قانون اور مذہب کی زبان میں لفظ شخص یعنی پرسن اور فلسفہ و اخلاقیات میں لفظ انسان یعنی مین جو مذکر افعال وغیرہ کو چاہتے ہیں، تمام نوع انسان یعنی مرد اور عورت دونوں پر دلالت کرتے ہیں۔ اسی طرح اردو کے سمجھ بوجھ والے اگر ایک جگہ مل کر بیٹھیں اور ضرورت اور معقولیت کو مد نظر رکھیں تو میں سمجھتا ہوں کہ تمام اختلافات اور نقائص اردو زبان کے دور ہو سکتے ہیں۔
حاشیہ
(1) مفصل دیکھو، اے نیو ہسٹری آف دی انگلش اسٹیج، مصنفہ پرسی فٹنز چیرلڈ جلد 1 صفحہ 126-128
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.