Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو غزل کی ٹکنیک

فراق گورکھپوری

اردو غزل کی ٹکنیک

فراق گورکھپوری

MORE BYفراق گورکھپوری

    فن کوئی بھی ہو اس میں ٹکنیک یا تعمیری قاعدے یا رموز، سانچہ ڈھانچہ یا بناوٹ کا گر یا بیل بوٹے کے نقشے، اس کی نوک پلک کے بھید، اس کی گڑھن، اس کی صورت گری یا رچاؤ اور نکھار کی تہہ در تہہ منزلیں ضرور ہوتی ہیں، لیکن غزل Trade secret پر باتیں کرنے میں اس کی تفصیل وتشریح میں بحث کے خشک ہو جانے کا یا گتھی کے سلجھانے میں گتھی کے اور الجھ جانے کا ڈر بھی ہے۔

    جہاں تک اردو کا تعلق ہے اس کے جنم دن ہی سے اس میں تبدیلی، کبھی کبھی ترقی اور کبھی کبھی تنزلی محتلف دوروں میں نظر آتے ہیں۔ غزل کی ٹکنیک یا مسلمہ اور بنیادی قاعدوں میں یہ تبدیلی، ترقی و تنزلی نہیں ملے گی، بلکہ غزل کی روح اور معنویت میں اس کے وجدان اور جمالیاتی تصورات میں تبدیلی ترقی و تنزلی کے سلسلے نظر آتے ہیں۔ غزل کا ہر بڑا شاعر اپنی نغمہ سرائیوں سے ایک ایسی کائنات کی تخلیق کرتا ہے جسے انگریزی میں Unique کہتے ہیں یعنی لاثانی یاجسے آپ اپنی مثال کہہ سکتے ہیں۔ مقلد شاعروں کے یہاں کسی بڑے شاعر کی تخلیق کردہ کائنات کی دھندلی اور کمزور پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ ان کی کوئی اپنی کائنات نہیں ہوتی۔

    تو ٹکنیک کے بھی دو حصے ہوئے ایک خارجی اور ایک داخلی، غزل کی ٹھمری (skeleton) تو بس اتنی ہے کہ کسی بھی بحریا چھند (metre) میں پہلا شعر ایک قافیے میں ہو، بعد کے اشعار کا پہلا مصرع قافیے سے آزاد ہو، دوسرا مصرع اسی قافیہ میں ہو جس میں پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہیں اور عموماً آخری شعر میں شاعر کا تخلص بھی آجائے۔

    اب ٹکنیک در ٹکنیک کچھ اور باتیں ہیں۔ یعنی کچھ مسلمہ اشارے یا symbols جیسے صحرا، وادی، کارواں، منزل، شام غریباں، صبح وطن، گلستان، خاروگل، بہار، خزاں، آشیاں، قفس، صیاد، آسماں، قیامت، فصل ساقی، میخانہ، پیمانہ، مے، زلف ورخ، نگاہ، گور غریباں، زنداں، کوچہ، محبوب، درجاناں، بُت خانہ، حرم، بزم، حریم، ہستی، نیستی، دامن، گریباں، ہوش و بے خودی اور عشق مجازی و حقیقی کے واردات و مقامات سے متعلق باتیں۔ غزل کے ہر شعر میں جامعیت universalty ہونا چاہیے اور اس کی اپیل عام ہونا چاہیے۔ زندگی کے تجربے جامع اور مکمل بیان کی شکل میں غزل کے اشعار میں پیش کیے جاتے ہیں۔

    غزل کا ہر شعر گویا مکمل نظم ہے۔ خارجی تسلسل تو بحر، قافیہ اور ردیف سے قائم رہتا ہے۔ پھر اسلوب styleکی یکسانیت اور کیفیت یا mood یا وجدانی رد عمل کی یکسانیت غزل میں ہم آہنگی پیدا کر کے اسے ایک اکائی بنا دیتی ہیں۔ کچھ غزلیں مفہوم کے لحاظ سے مسلسل ہوتی ہیں، کچھ ردیفیں بھی۔ مثلاً آج کل، آج کی رات، ان دنوں، ہنوز، ابھی تک یا ایسے ہی اور بے شمار فقرے اور ٹکڑے غزل میں ایک سُبک رو تسلسل پیدا کر دیتے ہیں۔

    خارجی ٹکنیک ہی شاعر کے انفرادی وجدان کے عمل سے داخلی ٹکنیک بن جاتی ہے۔ مثلاً رندؔکا شعر تھا جس پر انہیں بڑا ناز تھا،

    اگرئی کا ہے گماں شک ہے ملا گیری کا

    رنگ لایا ہے دوپٹہ ترا میلا ہوکر

    لیکن صباؔ کے اس شعر میں جو میں اب سناؤں گا، جذبات کی ٹکنیک ایسی بدلی ہوئی ہے کہ اسی زمین اور اسی قافیہ میں دنیا بدل گئی ہے۔ صباؔ کا شعر یہ ہے،

    باغباں، بلبل کشتہ کو کفن کیا دیتا

    پیراہن گل کا یہ بدلا کبھی میلا ہو کر

    شعر میں کتنی نئی تہیں پڑ گئیں، آواز میں کتنے بھنور اور کتنی لہریں پڑ گئیں۔ وزیرؔ کا شعر ہے،

    ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشق دلگیر کو

    کیسے تیر انداز ہو سیدھاتو کر لو تیر کو

    غالبؔ کا شعر جو میں اب سناؤں گا، اسی بحر میں ہے صرف قافیہ اور ردیف بدلے ہوئے ہیں لیکن وزیرؔ کے شعر میں لکڑی بجنے کی کھٹکھٹاہٹ سے ترنم کا جو خون ہوا ہے غالبؔ میں اس کی ایسی تلافی ہوئی ہے کہ غالبؔ کا شعر سنگیت کی دیوی آواز معلوم ہوتا ہے۔ شعر یہ ہے،

    سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہوگئیں

    خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

    بات یہ ہےکہ خارجی ٹکنیک کو بھی داخلی ٹکنیک ہی پیدا کرتا ہے۔ جیسا ساز ویسا راگ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ غزل کے روپ رنگ یا خارجی ٹکنیک میں نئی جھلک اور نئی جھنکار یعنی تبدیلی و ترقی داخلی ٹکنیک یا Technique of feeling سے پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک ہی خیال ایک ہی مفہوم تک کے دو ٹکنیک ہو جاتے ہیں۔ مثلاً امیر مینائی کا یہ شعر سنئے،

    جب تلک تھے تم کشیدہ، دل تھا شکووں سے بھرا

    تم گلے سے مل گئے سارا گلہ جاتا رہا

    اورفانیؔ کا یہ شعر سنیے جس کا بالکل یہی مفہوم ہے لیکن خیال و مفہوم وہی ہوتے ہوئے جذبات کی دنیا بدل گئی ہے،

    دل ان کے نہ آنے تک لبریز شکایت تھا

    وہ آئے تو اپنی ہی تقصیر نظر آئی

    اور حالیؔ نے تو اسی مضمون و مفہوم کو وہ شرافت نفس بخشی ہے، جسے ہم اطلاق جذبات کی آخری منزل کہہ سکتے ہیں۔ حالیؔ کا شعر ہے،

    ملتے ہی تم سے بھول گئیں کلفتیں تمام

    گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا

    ’سارا گلا جاتا رہا‘، ’اپنی ہی تقصیر نظر آئی‘ اور ’بھول گئیں کلفتیں تمام‘ کے ٹکڑوں پر غور کیجیے۔ فانیؔ اور حالیؔ نے مٹّی کو پارس بنا دیا ہے یا نہیں، پر یہ داخلی ٹکنیک کی کیمیا ہے۔ ایک ہی واقعہ، ایک ہی خیال غم کا خیال ہو جاتا ہے اور خوشی کا بھی خیال ہو جاتا ہے۔ مثلاً،

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو

    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    سوداؔ کے سرہانے جو ہوا شور قیامت

    خدامِ ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے

    ہوگا کسو دیوار کے سائے کے تلے میرؔ

    کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو

    اس کی دیوار کا سر سے مرے ساماں نہ گیا

    میں تو کمبخت یہیں تھا کہیں آیا نہ گیا

    میرؔ کے ان دونوں غم آلود اشعار کے بعد آتشؔ کی حوصلہ انگیز آواز سنیے،

    دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

    خاک پر سنگِ در یار نے سونے نہ دیا

    کتنی نشاط کا رانہ ہے آتشؔ کی آواز اور بات وہی ہے جو میرؔ نے کہی تھی۔

    غزل کی خارجی ٹکنیک میں کوئی اہم تبدیلی یا اہم اضافہ نہ ہوگا، نہ ہونے کی ضرورت ہے۔ جیسے انگریزی سانیٹ میں یا انگریزی بلینک ورس میں Gurbodoe اور Sir Philip Sydney کے بعد مارلو، شیکسپیر، ملٹن، ورڈ سورتھ، شیلی، کیٹس اور ٹینی سن نے اپنے اپنے مزاج و وجدان کی نئی تھرتھراہٹیں پیدا کردیں اسی طرح ولی ؔدکنی، میرؔ، غالبؔ، آتشؔ، امیرؔ اور داغؔ اور بیسویں صدی کے غزل گویوں نے غزل کی داخلی ٹکنیک بدل دی۔ غزل کی داخلی ٹکنیک میں جو تبدیلیاں اقبالؔ کے ہاتھوں رونما ہوئیں وہ انقلاب کی حیثیت رکھتی ہیں۔

    اس سلسلہ میں کچھ حقیقتوں کو سمجھ لینا چاہیے۔ اردو غزل دور جاگیرداری Feudal age کے انحطاطی زمانہ میں پیدا ہوئی۔ اس کی تمام لطافتیں مجہولیت کے محاسن لیے ہوئے تھیں، اگرچہ کبھی کبھی جیسے آتشؔ کے یہاں جوش عمل کی آب و تاب بھی غزل کے چہرے پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ پھر اردو غزل باوجود اپنی ہمہ گیری و آفاقیت کے ایک طبقہ کی شاعری تھی۔

    ایک اور بات اردو غزل میں ایسی تھی جو ہندوستان کے خمیر و ضمیر کو کھٹکتی تھی اور وہ تھی حیات و کائنات سے ناآہنگی۔ اردو غزل کی عموماً یہ بدتوفیقی رہی ہے کہ زندگی کو وہ اس طرح قبول نہیں کرتی تھی جس کی مثالیں ہندوستان کے قدیم ادب کے اعلیٰ ترین کارناموں اور روایتوں میں ملتی ہیں۔ میں نے اس کے خلاف چوتھائی صدی پہلے آواز اٹھائی تھی۔ مجھے آج یہ کہتے ہوئے اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ میری آواز بیکار نہیں گئی اور ادھر کچھ برسوں سے اردو غزل حیات و کائنات کو سینے سے لگاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ دنیائے عنصری کی طہارت کا احساس نئے غزل گویوں کو ہو چلا ہے۔ غزل کے مزاج، اس کے دل کی دھڑکن، اس کے ایمان میں یہ بڑی اہم تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔ غزل کی داخلی ٹکنیک میں یہ تبدیلی ایک کا یا پلٹ یا Reverse Process کا مرتبہ رکھتی ہے۔

    میں نے ابھی بتایا تھا کہ غزل کے میدان میں اقبالؔ کا کام انقلاب کا حکم رکھتا ہے۔ مجہولیت کی روایتوں کو اقبالؔ نے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ لیکن اقبالؔ کی عملیت یا ترقی پسندی ldealistic ہے اور وہ Revivalistic ہے۔ دنیا کی پرولتاری قوتوں کا ابھار موجودہ تاریخ کا سب سے اہم باب ہے۔ یہ اتنا اہم باب ہے کہ محض سیاست و معیشت نہیں بلکہ فن و ادب، فلسفہ و سائنس تمام علوم اور تمام زندگی کے بنیادی تصوروں کو سرے سے بدل دے۔ اقبالؔ اس انقلاب کی آہٹ نہیں پا سکتے تھے۔ یہ واقعہ یعنی دنیا بھر کے پرولتاریوں کی اُٹھان Rise of world of Proleteriat تہذیب و تمدن اور ادب سب کو بدل دے گا۔ اردو نثر کے تمام اصناف پر اس انقلاب کا اثر نمایاں ہو چلا ہے اور اردو نظم کے تمام اصناف پر بھی جن میں غزل بھی ایک صنف ہے۔

    مجہولیت کی جگہ اردو غزل کی داخلی ٹکنیک میں جو اجتماعی اور انفرادی عملیت اب آنے والی ہے وہ اقبالؔ کی عملیت سے بالکل الگ چیز ہوگی۔ اس عملیت میں انسانی فلاح و بہبودی و ترقی اور وحدت انسانی کے جو عناصر ہوں گے ان کے مقابلے میں اقبالؔ کی عملیت بڑی غلط چیز معلوم ہوگی۔ بہت کم لوگوں نے اس کا اندازہ لگایا ہے کہ اشتراکی عملیت غزل میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کردے گی، اس میں کس قدربے شمار امکانات پیدا کردے گی، اس میں کتنا زبردست Challenge پیدا کردے گی۔ نئی نرمیاں، نئی گرمیاں، نئی سختیاں، نیا زور، نئی زندگی سب کچھ یہ انقلابی تصور غزل میں پیدا کردے گا۔ غزل ہو یا نظم سب کا موضوع انسان ہے اور انسانی زندگی۔ جب انسانیت اور انسانی زندگی کا نقشہ اور تصور بدل جائے گا تو غزل کی روپ ریکھا بھی بدل جائے گی۔ پرانے اشارے اور کنائے، پرانے الفاظ نئے معنی دینے لگیں گے۔ نئے اشارے Symbols مثلاً مزدور، ہنسیا، ہتھوڑا، ٹریکٹر، انجن اور طرح طرح کی مشینیں اور ایجادیں اور عملی زندگی کے ہزارہا پہلو نئی جھلک دینے لگیں گے۔ قدرت پر فتح حاصل کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہوئی انسانیت غزل کی داخلی ٹکنیک میں کایا پلٹ کردے گی۔ طبقاتی زندگی سے جیسے تہذیب و تمدن آزاد ہو جائیں گے اسی طرح غزل بھی تمام انسانی زندگی کی جس میں سب سے بڑا حصہ مزدوروں کاہے، ترجمانی کرے گی۔

    ایک اور بات کی طرف اشارہ کر کے میں رخصت چاہوں گا۔ انقلابی غزل میں اک سراپن ہرگز نہیں ہوگا۔ شاعری کی انفرادیت کو اجاگر ہونے کا جیسا موقعہ انقلابی غزل دے گی وہ اب تک کی غزل گوئی اسے نہیں دے سکی ہے۔ غزل چونکہ بقول پروفیسر مجنوںؔ بہت کٹر صنف سخن ہے اس لئے جس انقلابی تبدیلی کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے، وہ غزل میں ابھی بہت رک رک کر آتی ہے لیکن اردو نظم میں یہ تبدیلی صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ آج کی اردو نظم یعنی انقلابی اردو نظم میں شاعری کی انفرادیت جتنی درخشاں ہے کسی اور دور کی اردو نظم میں انفرادیت کا ایسا تنوع نظر نہیں آتا۔ آگے چل کر ٹھیک یہی بات تنوع، یہی رنگارنگی، اردو غزل میں بھی نظر آئے گی، اس اردو غزل میں جو تربیت یافتہ مزدوروں کے لئے لکھی جائے گی نہ کہ مفت خوروں اور منافع خوروں کے لئے۔ واضح رہے کہ بہت بلند ہوگی وہ غزل۔ لیکن نئے دور میں بھی ہم حافظؔ و سعدیؔ و کالی داسؔ، میرؔ و غالبؔ کے نغموں میں جو بڑی قدریں زندگی کی ہیں، ان کو سراہیں گے اور ان سے سبق لیں گے۔

    جو خود مردہ ہیں وہ مردوں کے وارث بن نہیں سکتے

    کہ اس دنیا میں ناموس کہن کے پاسباں ہم ہیں

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے