Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو ہندی مسئلہ (۱)

فراق گورکھپوری

اردو ہندی مسئلہ (۱)

فراق گورکھپوری

MORE BYفراق گورکھپوری

    (۱۹۶۰ء اور ۱۹۶۵ء کے درمیان فراق صاحب نے اردو ہندی مسئلے اور کھڑی بولی ہندی کو موضوع بنا کر انگریزی اور ہندی میں کچھ مضامین اور کالمز لکھے تھے۔ انگریزی میں کئی مضامین اور انٹرویوز The Mistake of Hindi My Anti-Hinduism کے عنوان سے شائع ہوئے، بالعموم السٹرٹیڈ ویکلی انڈیا اور قومی روزنامے ہندوستان ٹائمز میں۔ ہندی کے معروف رسالے کادمبنی میں۔ انہی دنوں فراق صاحب کے سلسلے وار کالمز رنگ وبو کے عنوان سے چھپتے رہے۔ اس وقت رامانند دوشی کا دمبنی کے مدیر تھے۔ ان مضامین اور کالمز پر شدید رد عمل کا اظہار ہوا، اس حد تک کہ رامانند دوشی کو یہ سلسلہ بند کرنا پڑا۔ فراق صاحب کے یہ دو کالمز بھی اسی سلسلے کے ہیں اور یہاں پہلی بار شائع کیے جارہے ہیں۔ شمیم حنفی)

    اپنا نقصان کرنے اور اپنے کو کمزور بنانے کی ایک صورت یہ ہے کہ ہم دوسروں سے جو فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اپنے اندر جس کس بل اور طاقت کا اظہار کر سکتے ہیں، ایسا کرنے سے انکار کرتے رہیں۔ ایک بہت بڑے سرکاری کرمچاری جن کی ماہانہ تنخواہ لگ بھگ دو ہزار روپے تھی اپنے ماتحتوں کو انگریزی میں اس طرح طعنہ دیتے تھے۔۔۔ YOU ARE VERY LAZINESS! اتنا پڑھا لکھا آدمی ایسی ہولناک غلطی کیوں کرتا تھا؟ وجہ یہ ہے کہ اردو میں سست اور کاہل ہونے کی صفت کو سستی اور کاہلی کہتے ہیں، سست اور کاہل یا نکما اور کام چور ساتھ آٹھ برس کے بچے سمجھ لیں گے۔ اسی طرح سستی، کاہلی، نکماپن اور کام چوری بھی اچھی طرح سمجھ لیں گے اور بول لیں گے۔ متذکرہ بالا صفات سے جو اسم بنائے گئے ہیں ان کا فرق بھی اور ان کا استعمال بھی اچھی طرح سمجھ لیں گے لیکن (کرمنٹری) اور (کرمنٹری یتا)، (اکرمنٹری) اور (اکرمنٹری یتا) ان کے گلے سے نہیں اترے گا اور نہ ان کے دماغ میں دھنسے گا۔ لڑکپن میں جو ہندی کتابیں ان افسر صاحب نے پڑھی تھیں، ان میں اوپر بتائے گئے سادہ اور سہل اور فطری اسماء اور صفات کی جگہ پر انھیں زبردستی اکرمنڑی۔۔۔ اور اکرمنڑیتا۔۔۔ رٹوایا گیا ہوا اور دونوں کا فرق ان کے دماغ میں گڈمڈ ہوگیا تھا۔ اسی سے بے چارے YOU ARE LAZINESS (تم بہت سستی ہو) کہتے تھے۔

    کسی قوم کو احمق بنانا ہو تو اس قوم کے بچوں کو آسان اور سہج لفظوں کے بدلے جبڑا توڑ لفظ، چاہے وہ دیوبانی سنسکرت ہی کے شبد ہوں، گھونٹوا دیجیے، سب بچے ا حمق ہو جائیں گے۔ زبان محض زبان نہیں ہوتی، لغت صرف لغت نہیں ہوتا، لفظ صرف لفظ نہیں ہوتے بلکہ دماغ میں لچک اور چیزوں اور خیالوں کے باہمی تعلق اور باہمی فرق کو سمجھانے کے سادھن ہوتے ہیں۔ زبان شعور کا ہاتھ پیر ہے۔

    ایک اور صاحب ہندی کے ایم اے ہیں، وہ اچھائی، برائی، نیکی، بدی، سیاہی، سفیدی وغیرہ لفظوں کو صفت بتاتے ہیں۔ ابھی حال میں شری سمپورنانند جی نے پریاگ میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا کہ راشٹر بھاشا سنسکرت ہونی چاہئے۔ مجھے ان کا بیان پڑھ کر اور ان کی بہت سی باتیں بار بار سن کر شدت سے محسوس ہوا کہ وہ ہندی سے اکتا چکے ہیں اور ہندی نثر کو انھوں نے اتنا اوبڑ کھابڑ پایا کہ اب ہندی کو راشٹر بھاشا بنانے کا خواب ہی بھول گئے۔ انھوں نے یہ نہ سوچا کہ ہندی ہی کے دوسرے روپ اردو میں یہ رونا کیوں نہیں رویا جاتا کہ اردو ٹیڑھی میڑھی یا اوبڑ کھابڑ ہوتی ہے۔ ہماری ہندی زبان اسمائے صفات اکثر ای یا پن جوڑ کر بنایا کرتی ہے۔ یہ کوئی ناگہانی یا اتفاقیہ بات نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا ہم کروڑوں ہندی بھاشیوں کے خون میں رچ بس گیا ہے۔

    کھیت سے کھیتی، اچھا سے اچھائی، سست سے سستی بنانا ہماری قواعد ہی نہیں ہمارا مزاج ہے۔ یہ بھی کسی ہندی پریمی نے شاید ہی سوچا ہو کہ سنسکرت کی طرح ہندی میں صفتیں نہیں بنا کرتیں جیسے اچھا، برا، بڑا، چھوٹا یا اچھی، بری، بڑی، چھوٹی یا اچھے، برے بڑے، چھوٹے، اسی طرح اچھائیاں، برائیاں یا اچھائی، برائی، نہ کہ سندر سے سوندریہ (सौन्दर्य)، کرم سے کرمنٹریہ (कर्मण्टय)، یا کھادیہ، پاٹھیہ، لاونٹریہ(लांटर्य)، قسم کے لفظ۔ یہ لفظ چھوٹے چھوٹے لڑکوں کے گلے کے نیچے اگر ہم اتروائیں گے تو ہندی نثر نظم کا پیدا ہونابھی ناممکن ہو جائے گا۔ شری سمپورنانند اور ڈاکٹر کاٹجو کی طرح اپنی ہی ہندی سے گھبرا کر یا پریشان ہوکر ہم بھی چلانے لگیں گے کہ ہندی کی گاڑی تو چلتی ہی نہیں، رہ رہ کر الار ہو جاتی ہے اور پٹری سےہٹ جاتی ہے اور رہ رہ کر ہندی کی سڑک پر ایکسیڈنٹ (حادثہ) ہو جاتا ہے، اس لیے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق آؤ سنسکرت ہی کو راشٹر بھاشا بنائیں،

    ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

    آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

    آج ہندی الٹی آنت بن کرہمارے گلے پڑ گئی ہے۔ نہ پہنتے بنتا ہے نہ اتارتے بنتا ہے۔

    اس مضمون کے ان گنت پڑھنے والوں نے کچھ دنوں سے ایک اور بات دیکھی ہوگی۔ ڈاکہ، قتل اور ایسے متعدد بھیانک جرائم پر مقدمے چلتے ہیں اور مجرم چھوٹ جاتے ہیں۔ لوگ یہ کہہ کر اپنے آپ کو سمجھا لیتے ہیں کہ شہادت نہیں ملی۔ یہ سب ڈھونگ ہے۔ اصلی بات یہ ہے کہ حاکم صاحب نے ہندی پڑھی ہے اور یوں ہی لنگڑی ہندی نے ان کی انگریزی بھی لنگڑی کردی ہے۔ دماغ گونگا ہو چکا ہے۔ سزا دینے میں فیصلہ بہت احتیاط سے لکھنا پڑتا ہے۔ سلیقے سے جملہ بنانے اور گڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قانونی بحث و مباحثے کے لئے اس ذہنی دراکی کی ضرورت پڑتی ہے جو پیچیدہ اور الجھی ہوئی باتوں اور مسئلوں کو سلجھے ہوئے جملوں میں ڈھال دے۔ ایسا کرتے ہوئے حاکم صاحب کی نانی مرتی ہے۔ چھوڑ دینے میں موٹی موٹی باتیں اور بہت کم باتیں لکھنی پڑھتی ہیں۔ میں ایک اور بڑے حاکم کو جانتا ہوں جو ہندی میں دوتین ناول بھی چھپوا چکے ہیں۔ یہ صاحب بھی سیدھی بات سیدھے ڈھنگ سے نہیں کہہ پاتے۔ شریمان جی ہمیشہ فریقوں پر زور ڈالتے ہیں کہ آپس میں صلح کرلو۔ اس میں وکیلوں کا بھی نقصان ہوتا ہے اور صلح بھی بڑی گڑبڑ سربڑ ہوتی ہے لیکن حاکم مہاشے مناسب فیصلہ لکھنے میں جس قانونی موشگافی کو معنی خیز یا بامعنی جملوں میں ادا کرنے کی مصیبت سے بچ جاتے ہیں، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

    بڑی زیادتی ہو رہی ہے۔ ٹیڑھی میڑھی بھاشا کروڑوں بچوں ک وسکھا کر، اردو نثر و نظم سے جو طاقت ہمیں مل سکتی ہے اس کا وہ نقصان کرتے ہیں اور کیجئے اردو سے نفرت! آپ کا دماغ اور منہ دونوں ٹیڑھے ہو جائیں گے اور پڑھائیے ایسی کویتائیں،

    میں سونگھ چکی یہ پھل پھول

    یہ جھڑنے کو ہے جھٹنت جھول

    (मैं सुंघ चुकी यह फुल्ल फूलः यह झड़ने को है झटिल झूल)

    میں چاہتا تھا کہ اس لیکھ مالا (سلسلۂ مضامین) میں اچھے اچھے اردو کے شعر سنانے کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کا دھیان اس طرف بھی دلاؤں کہ ہماری بھاشا اور ساہتیہ کا کن کن مسئلوں سے پالا پڑ گیا ہے۔ اسی لیے ابتدائیہ کے طور پر میں نے متذکرہ بالا باتیں کہی ہیں۔ لگے ہاتھوں یہ بھی بتادوں کہ ہندی صفات سے اسم بنانے میں فارسی قواعد کی مقلد ہے۔ سنسکرت قواعد کی مقلد ہرگز نہیں۔ چتر (चतुर) سے چترائی نہ کہ چاتریہ (चातुर्य) مدھر سے مدھورائی نہ کہ مادھریہ (माधुर्य) وغیرہ۔

    اب اردو کے کچھ ایسے شعر سنیے جن میں کھڑی بولی نہایت سادگی کے ساتھ کام میں لائی گئی ہے۔

    لگ گئی چپ تجھے اے داغ کہاں کی ایسی

    مجھ کو کچھ حال تو کم بخت بتا تو اپنا

    جہاں میں کیا نہ ڈھونڈا کیا نہ پایا

    مزاج ان کا دماغ ان کا نہ پایا

    کون تھا آپ سے جو باہر تھا

    آپ آئے تو آپ کا گھر تھا

    اس انجمن ناز کی کیا بات ہے غالب

    ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے

    آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجے

    جاتا ہو تو اس کا غم نہ کیجے

    ساون کے بادلوں کی طرح سے بھرے ہوئے

    یہ نین وہ ہیں جن سے کہ جنگل ہرے ہوئے

    اللہ جوانی کی مصیبت سے بچائے

    اس عمر میں انساں کو سجھائی نہیں دیتا

    ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں

    ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

    مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

    موت آتی ہے پر نہیں آتی

    مشتاق درد عشق جگر بھی ہے دل بھی ہے

    کھاؤں کدھر کی چوٹ بچاؤں کدھر کی چوٹ

    تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے

    ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

    قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر

    جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

    ابھی تو سوئے چراغوں نے آنکھ کھولی ہے

    ابھی تو جاگتے ہیں گھر ابھی یہاں سے نہ جاؤ

    کوئی چراغ جلے تمہیں سے جہاں بھی رہو

    پکارتا ہے یہ کہہ کر ابھی یہاں سے نہ جاؤ

    کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری

    صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا

    وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا

    خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

    اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے

    انہی سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات

    خدا جانے یہ دنیا جلوہ گاہ ناز ہے کس کی

    ہزاروں اٹھ گئے رونق وہی باقی ہے محفل کی

    زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

    ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

    جی بہت چاہتا ہے رونے کو

    ہے کوئی بات آج ہونے کو

    ایک اردو شاعر کا یہ شعر سنیئے،

    ترے عشق کی بن گئی ہوں کہانی

    کہی جا رہی ہوں سنی جا رہی ہوں

    دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

    موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

    کبھی در کو تک کے چلے گئے کبھی آہ بھر کے چلے گئے

    ترے کوچے ہم کبھی آئے بھی تو ٹھہر ٹھہر کے چلے گئے

    دل نے دنیا نئی بنا ڈالی

    اور ہمیں آج تک خبر نہ ہوئی

    کیا سے کیا کر دیا محبت نے

    اب جو دیکھا تو وہ اثر ہی نہیں

    یہ شعر اثر دہلوی کا ہے،

    جو الجھی تھی کبھی آدم کے ہاتھوں

    وہ گتھی آج تک سلجھا رہا ہوں

    یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ

    فراق اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں

    پتّہ پتّہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

    جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

    کھڑی بولی میں لفظوں کو ترتیب یوں دیا جاتا ہے اور سلجھے ہوئے جملے یوں کہے جاتے ہیں۔ جملوں کو سانچے میں یوں ڈھالا جاتا ہے۔ اگر ہم نے ’’پھل پھول‘‘ اور ’’جھٹت جھول‘‘ والے اسلوب کی بھر مار کر دی تو ہمارے دماغ ہکلانے لگیں گے۔ ہم اٹک اٹک کر بولیں گے۔ کچھ کہتے کہتے چپ ہو جایا کریں گے۔ ہم حکومت کے کئی کام نہ کر سکیں گے۔ ہم گونگے ہو کر رہ جائیں گے۔ ہماری زندگی کی گاڑی رک جائے گی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے