اردو ہندی مسئلہ (۲)
شاید ایسے بہت کم لوگ ہیں جو اردو شاعری پڑھتے ہوئے یا سنتے ہوئے اس طرف دھیان دیتے ہوں کہ سانچے میں ڈھلے ہوئے کتنے مصرعے یا کتنے شعر ٹھیٹھ اور خالص ہندی لفظوں سے اور صرف ہندی لفظوں سے تعمیر ہوئے ہیں۔ پچھلے سو برسوں سے کھڑی بولی ہندی میں کویتا کہی جا رہی ہے۔ ہندی کی ان کویتاؤں میں کم سے کم مجھے ایسے مصرعے نہیں ملے یا نہ ملنے کے برابر تھے جو شروع سے آخر تک صرف خالص اور ٹھیٹھ ہندی لفظوں سے بنے ہوئے ہوں۔ ابھی میں داغ کا دیوان الٹ پلٹ رہا تھا۔ اچانک یہ دھیان آیا کہ کچھ ایسے مصرعوں اور شعروں پر نشان لگا دوں جن میں آدھا لفظ بھی فارسی، عربی، ترکی یا کسی بدیسی زبان کا نہیں لیا گیا ہے۔ اب میں اردو والوں کو ہندی کا پجاری سمجھوں یا ہندی والوں کو؟ ہماری زبان میں نواسی نوے فی صد لفظ خالص ہندی کے لفظ ہیں، ہندی کے اردو روپ میں صرف دس فیصد فارسی لفظ آتے ہیں اور ان میں بھی آدھے ایسے ہیں جنھیں وہ ان پڑھ لوگ جانتے اور بولتے ہیں جنھوں نے اردو نہیں پڑھی۔
داغ کی شاعری مجھے ناپسند زیادہ ہے اور پسند کم ہے۔ مگر کیا کروں، اس وقت ان کا ہی دیوان میرے سامنے ہے۔ نہیں تو کیفیت آمیز موسیقی سے بھرے ہوئے اور درد انگیز ایسے شعر یا ایسے مصرعے مختلف اردو شاعروں کی تخلیقات سے آپ کو سناتا جن میں عربی فارسی لفظ بالکل نہیں آئے ہیں اور یہ مصرعے اس ارادے سے بھی نہیں لکھے گئے ہیں کہ ان میں مروج عربی فارسی لفظ نہ آنے پائیں۔ یہ مصرعے آپ سے آپ ایسے لفظوں سے بن کر بحر کے سانچوں میں ڈھل گئے ہیں جن میں عربی فارسی لفظ نہیں ہیں۔ وہی شاعری امر ہوتی ہے یا بہت دنوں تک زندہ رہتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لفظ ایسے آئیں جنھیں ان پڑھ لوگ بھی جانتے اور بولتے ہیں۔ یہی سبب ہے کبیر، سورداس اور تلسی داس کی ہمیشگی کا اور یہی سبب ہے تقریباً پچھتر فیصدی اردو شاعری کی سادگی اور مقبولیت کا۔ اب داغ کے کچھ اشعار سنیے! میں نے ان مصرعوں پر نشان لگایا ہے یا ان کے نیچے لکیر کھینچ دی ہے جو ٹھیٹھ ہندی لفظوں سے بنے ہیں۔
جس توقع پر تھی اپنی زندگی وہ مٹ گئی
جو بھروسا تھا ہمیں وہ آسرا جاتا رہا
اے نزاکت ترے قربان کہ وقت رخصت
وہ کہیں ہم سے کہ گھر تک نہیں جایا جاتا
مری التجا پر بگڑ کر وہ بولے
نہیں مانتے اس میں کیا ہے کسی کا
سنا کرتے تھے چھیڑ کر گالیاں ہم
و گر نہ کوئی سر پھرا ہے کسی کا
اپنی آنکھوں میں ابھی کوند گئی بجلی سی
ہم نہ سمجھے کہ یہ آنا ہے کہ جانا تیرا
کسی کی شرم آلود نگاہوں میں یہ شوخی ہے
اسے دیکھا اسے دیکھا اِدھر تاکا اُدھر تاکا
وہ قتل کرکے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے یہ کام کس کا تھا
ارے بے باک کیا کہنا ہے تیرے اس اشارے کا
ٹھکانہ بے ٹھکانے کا سہارا بے سہارے کا
تو ہے مشہور دل آزار یہ کیا
تجھ پہ آتا ہے مجھے پیار یہ کیا
عرش و کرسی پہ کیا خدا ملتا
آگے بڑھتے تو کچھ پتہ ملتا
رکاوٹ نہ ہوتی تو دل ایک ہوتا
تمھارا ہمارا ہمارا تمھارا
سنا ہے کسی اور کو چاہتا ہے
وہ دشمن ہمارا وہ پیارا تمھارا
ان کا یہی سننا ہے کہ وہ کچھ نہیں سنتے
میرا یہی کہنا ہے میں کچھ نہیں کہتا
تم کو کیا ہر کسی سے ملنا تھا
دل ملا کر مجھی سے ملنا تھا
داغ نے خوب عاشقی کا مزا
جل کے دیکھا جلا کے دیکھ لیا
ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا
کن انکھیوں سے اس کو مگر دیکھ لینا
قربان جاؤں درد جگر کے وہ رکھ کے ہاتھ
یہ پوچھتے ہیں مجھ سے بتا تو کہاں ہے اب
مہرباں ہو کے جب ملیں گے آپ
جو نہ ملتے تھے سب ملیں گے آپ
نہیں سنتے وہ اب ہماری بات
سچ ہےبن آئے کی ہے ساری بات
دم رخصت یہ چھیڑ تو دیکھو
مجھ سے کہتے ہیں کب ملیں گے آپ
سلام میں نے کیا ہاتھ رکھ کے سینے پر
وہ جانتے ہیں مجھے دیکھ کر چھپائی چوٹ
نہ ہوا ایک نگہ سے جو مرا کام تمام
پھر کے پھر دیکھ لیا اس نے دوبارہ جھٹ پٹ
وعدہ وفا کریں نہ کریں آئیں یا نہ آئیں
گھبرا کے کچھ وہ بول تو جاتے ہیں جھوٹ سچ
تری محبت نے مار ڈالا ہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رلا رلا کر گھلا گھلا کر جلا جلا کر مٹا مٹا کر
یہ جانا تھا نہ آویں گے تو کیوں جانے دیا ان کو
یہی اے داغ پچھتاوا مجھے آتا ہے رہ رہ کر
محفل میں بٹھایا پھر انہیں کھینچ کے دامن
وہ چھپ کے چلے تھے مرے سر پر سے نکل کر
تم رات کو کہاں تھے تمھاری تلاش میں
پھرتا تھا کوئی ڈھونڈنے والا ادھر ادھر
تڑپنے دو ابھی میں بھی تو دیکھوں
وہ دیتے ہیں مجھے تسکین کہاں تک
بت کدے میں جا کے اس بت کا پتہ
پوچھتے پھرتے ہیں ہر پتھر سے ہم
کیا کہیں کس سے کہیں کس کے لیے
پھرتے ہیں چاروں طرف مضطر سے ہم
دل جو اپنا ہم نے مانگا تو کہا
کیا چرا لائے تمہارے گھر سے ہم
وعدہ ابھی کیا تھا ابھی کھائی تھی قسم
کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں
ایک تیرے ہی نہ رہنے سے رہا کیا کیا کچھ
کوئی حسرت نہ رہی جب سے رہا تو دل میں
ساتھ ہر سانس کے آ جاتی ہے پھولوں کی مہک
بس گئی ہے گل عارض کی جو خوشبو دل میں
مے اگر تیز ہے تو اے ساقی
آگ پانی میں ہم لگائیں کیوں
آپ نے گھر سے نکالا ہمیں ہم جاتے ہیں
پھر نہ آئیں گے کبھی کھا کے قسم جاتے ہیں
صبح تک دل کو دلاسے شب غم دیتے ہیں
جس کو تم دے نہیں سکتے اسے ہم دیتے ہیں
یہ نرالا ہے بات کا انداز
بات کرتے ہو ڈھانک کر آنکھیں
کوئی اب تجھ سے آرزو ہی نہیں
اب جو دیکھا تجھے وہ تو ہی نہیں
غیر کو دست حنائی نہ دکھاؤ دیکھو
گر لگانی ہے یونہی آگ لگا دو مجھ کو
ہے تاک میں دزدیدہ نظر دیکھیے کیا ہو
پھر دیکھ لیا اس نے ادھر دیکھیے کیا ہو
کر دیا ہے چور ہم کو نشۂ الفت نے داغ
اب بھلا کوئی سنبھلتے ہیں سنبھالے ہاتھ پاؤں
سچ ہے تیری ہی آرزو مجھ کو
کہیں جینے دے یونہی تو مجھ کو
یہ سن سن کے مرنا پڑا ہر کسی کو
نہیں مرتے دیکھا کسی پر کسی کو
دل لے کے دو اب جان طلب کرتے ہیں مجھ سے
یہ ایسی دھری ہے کہ اٹھائی نہیں جاتی
کسی اگلی بات چیت میں ہم دوسرے اردو شاعروں سے وہ مصرعے لے کر سنائیں گے جو صرف ہندی لفظوں سے بنے ہیں اور جن میں داغ کی شاعری کا چمتکاری (معجزہ کارانہ) اوچھا پن نہیں ہے بلکہ چمتکاری یا متانت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.