اردو کا ایک بدنام شاعر یا گنہگار شریف زادی
لکھنؤ ہے اور واجد علی شاہ ’’جان عالم‘‘ کا لکھنؤ۔ زمانہ یہی انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا۔ آج سے کوئی ستر پچھتر سال قبل۔ ہر لب پر گل کا افسانہ، ہر زبان پر بلبل کا ترانہ، ہر سر میں عشق کا سودا، ہر سینہ میں جوش تمنا، ہر شام میلوں ٹھیلوں کا ہجوم، ہر رات گانے بجانے کی دھوم یہاں رہس کا جلسہ، وہاں اندر سبھا کی پریوں کا پرا، ادھر زبان پر ضلع جگت اور پھبتیاں، ادھر گلے سے تانیں اور ہاتھوں سے تالیاں، گلی گلی ’’جنت نگاہ فردوس گوش‘‘، چپہ چپہ ’’دامان باغبان و کف گل فروش۔‘‘ بڑے بڑے متین اور ثقہ، گویوں اور سازندوں کی سنگت میں، اچھے اچھے مہذب اور مقطع بھانڈوں اور ڈھاریوں کی صحبت میں سفید پوشوں کے دامن عبیر اور گلال کی پچکاریوں سے لالوں لال، جبے اور عمامے والے، پیشوازوں کی گردش پر نثار۔ غرض یہ بیسویں صدی کی اصطلاح میں ’’آرٹ‘‘ اور ’’فائن آرٹ‘‘ کا دور دورہ، عشق کا چرچا، حسن کا شہرہ۔
اس فضا میں ایک صاحب حکیم تصدق حسین نامی آنکھیں کھولتے ہیں، کوئی عالم دین نہیں، صوفی اور درویش نہیں، واعظ و مصلح نہیں، چونچلوں کے آدمی، یار باش، رند مشرب، اہل بزم کے خوش کرنے کو شعر و شاعری کا ساز لے کے بیٹھے تو انگلیاں انہیں پردوں پر پڑیں جن کے نغمے کانوں میں رچے ہوئے تھے اور منہ سے بول نکلے تو وہی، جن کے نقش دلوں میں جمے ہوئے تھے۔ غزلیں شاید زیادہ نہیں کہیں، کہیں ہوں گی بھی تو اس وقت کسی کی زبان پر نہیں، تھوڑا بہت جو کچھ کہا۔ اس کا نمونہ ملاحظہ ہو،
کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے
پھرتے ہیں انہیں غیر ابھارے کئی دن سے
اک شب مرے گھر آن کے مہمان رہے تھے
ملتے نہیں اس شرم کے مارے کئی دن سے
آخر مری آہوں نے اثر اپنا دکھایا
گھبرائے ہوئے پھرتے ہو پیار سے کئی دن سے
پھر شوقؔ سے کیا اس بت عیار سے بگڑی
ہوتے نہیں باہم جو اشارے کئی دن سے
حکیم صاحب کی حکمت و طبابت سے یہاں غرض نہیں، شاعری کی دنیا میں حکیم صاحب کا نام نواب مرزا ہے اور تخلص شوقؔ اور ان کے نام کو قائم رکھنے والی ان کی غزلیں نہیں، مثنویاں ہیں۔ تذکروں میں ہے کہ خواجہ آتش کے شاگرد تھے، ہوں گے لیکن یہ مثنویاں یقیناً یا تو استاد کے بعد کی ہیں یا ان کی زندگی میں ان سے چرا چھپا کر کہی ہیں۔ ورنہ آتش کی نظر پڑنے کے بعد عجب نہیں کہ نذر آتش ہو جاتیں۔ خواجہ آتشؔ کی متانت و ثقاہت کب اس کی روادار ہوتی کہ سعادت مند شاگرد آوارگی اور تماش بینی کی بولی ٹھولی میں وہ نام پیدا کر جائیں کہ تہذیب کی آنکھیں ان کا نام آتے ہیں نیچی ہو جائیں، اور عریاں نگاری کے وہ شرارے چھوڑ جائیں کہ ان کی یاد کی چمک دمک قائم رہے بھی تو اسی روشنی میں۔
ان مثنویوں کا نام پڑھے لکھوں کے مجمع میں لیا جائے؟ تہذیب جدید کی اجازت ہے کہ ایک مشرقی شاعر کی عریاں نگاری کی لفظی یادگاروں کا نام لیا جائے؟ نواب مرزا غریب لکھنؤ کا تھا۔ انگلستان کا نہ تھا، فرانس کا نہ تھا، امریکہ کا نہ تھا کہ اس کی ہر بے حیائی ’’آرٹ‘‘ کا کمال سمجھ لی جاتی، اس کی ہر عریاں نگاری پر کمال فن کی داد ملتی، اور اس کا ہر عیب ہنر بن جاتا۔ بیسویں صدی کا نہیں، انیسویں صدی عیسوی کے وسط کا تھا۔ ’’نئے ادب‘‘ کے دور سے بہت قبل کا تھا۔ آج کے ’’ترقی پسند‘‘ ہندوستان کا نہ تھا کہ ا س کی ہر فحش نگاری ’’ترقی پسندی‘‘ کی سند اور دستاویز بن جاتی۔ بہر حال مثنویاں منسوب تو ان کی جانب کئی ایک ہیں لیکن لذت عشق کی زبان قطعاً شوق کی زبان نہیں 1 اور فریب عشق بھی مشکل ہی سے ان کی تسلیم کی جا سکتی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے، نو مشقی کے زمانہ کی کوئی ابتدائی کوشش ہو۔ یقین کے ساتھ جن دو مثنویوں کو ان کی تصنیف تسلیم کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک کا نام بہار عشق ہے اور دوسری کا زہر عشق۔
شہرت عام زہر عشق ہی کے نصیب میں ہوئی۔ دونوں میں نہ کوئی پلاٹ ہے اور نہ کوئی طلسم کشائی، نہ شاعر منبر پر بیٹھ کر اخلاق کا وعظ کہہ رہا ہے، نہ کالج کے لکچر روم میں تحلیل نفسیاتی کر رہا ہے۔ اسے محض اپنی ہوس ناکی کی کہانی سنانی ہے، اوریہی وہ خوب مزہ لے لے کر سنا رہا ہے۔ پھر چونکہ محض ’’آپ بیتی‘‘ ہی سنانی ہے اس لئے جگ بیتی سنانے والوں کی طرح کسی دوسرے کو عاشق فرض کرنے کی بھی ضرورت نہیں پیش آتی ہے۔
بہار عشق میں افسانہ کا انجام، شادی پر ہوتا ہے۔ پیش نظر نسخہ کانپور کے مطبع علوی علی بخش خاں کا چھپا ہوا ہے۔ 1277ھ بمطابق1861ء کا یہ نسخہ نسبتاً صحیح ہے۔ حال کے مطبوعہ نسخے، علاوہ بہت زائد اغلاط مطبعی کے آخر سے ناقص بھی ہیں۔ شادی کا ذکر ان میں غائب ہے۔ کل نظم میں آٹھ سو سے اوپر شعر ہوں گے، اشعار کی خاصی بڑی تعداد ایسی ہے جو بزرگوں کے سامنے کیا، بے تکلف دوستوں کی صحبت میں بھی پڑھنے کے قابل نہیں۔ خدا معلوم ان ذات شریف سے لکھے کیونکر گئے۔ کتاب کے شروع میں حسب دستور زمانہ بادشاہ کے مدح ہے اور سننے کے قابل ہے، ارشاد ہوتا ہے،
نوبت مدح شاہ آئی ہے
اے قلم وقت جبہ سائی ہے
کر رقم اب دعائے شاہ زماں
کہ ہے وہ ملک ہند کا سلطان
آفتاب سپہر جاہ و حشم
شاہ واجد علی شہ عالم
یہ ’’شاہ زماں‘‘ اور ’’سلطان ہند‘‘ اور ’’شہ عالم‘‘ اور آفتاب سپہر جاہ وحشم‘‘ کے خطابات اس وقت عطا ہو رہے ہیں جب حکومت اور بادشاہت کے سارے اختیارات چند ایکڑ اگر نہیں تو چندمیل کے رقبہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ اس محدود و چار دیواری کے اندر بھی مجال نہ تھی کہ ’’صاحب عالیشان ریزیڈنٹ بہادر‘‘ کے حکم کے خلاف کوئی انگلی تک ہلا سکے۔ آگے اور سنیئے!
خلق پر سایہ الٰہی ہے
مالک تاج و تخت شاہی ہے
ہے بشر، پر خدا کی قدرت ہے
نیک سیرت ہے، خوبصورت ہے
سرور خسروان عالم ہے
سچ تو یہ ہے کہ جان عالم ہے
دل تمنا ئی وصل او دارد!
چہ بلا شکل آرزو دارد
ان آخری شعروں میں بادشاہ کی تعریف رعایا کی زبان سے ہو رہی ہے، یا جہاں پناہ اپنے کسی محل کو یاد فرما رہے ہیں؟ قصہ کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک روز لب بام ایک ماہ لقا دکھائی دیتی ہے۔ اس کے حسن کا عکس اس آئینہ میں ملاحظہ ہو،
بام روشن ہے طور کی صورت
سر سے پا تک تھی فور کی صورت
حسن یوسف بھی اس کے آگے ماند
چہرہ زلفوں میں جیسے ابر میں چاند
گل سے رخسار، گول گول بدن
گات جس طرح قمقمے روشن
ناک میں نیم کا فقط تنکا
شوخی چالاکی مقتضا سن کا
آستینوں کی وہ پھنسی کرتی
جسم میں وہ شباب کی پھرتی
قد میں آثار سب قیامت کے
گوری گردن میں طوق منت کے
عکس رخ موتیوں کے دانوں میں
بجلیاں چھوٹی چھوٹی کانوں میں
رگ گل سی کمر لچکتی ہوئی
چوٹی ایڑی تلک لٹکتی ہوئی
یہ منظر دیکھتے ہی حکیم صاحب اپنی ساری حکمت بھول بھال سو جان سے عاشق ہو جاتے ہیں، گھر تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے اور جب کسی طرح گرتے پڑتے پہنچتے ہیں تو اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ جاتے ہیں، غش پر غش آنے لگتے ہیں، زندگی سے یاس ہو جاتی ہے۔ ماں باپ، بھائی، بہن، دوست و احباب سب گھبرا جاتے ہیں اور طرح طرح کا دوا علاج کر کے جب اسے بے اثر پاتے ہیں تو رونے دھونے میں لگ جاتے ہیں۔ ان مرحلوں کے بعد ایک روز ایک راز دار دوست آ کر حکیم صاحب کے دل کی نبض ٹٹول ان کے مرض کی تشخیص کرتے ہیں اور اس مقدس مشن پر روانہ ہو جاتے ہیں کہ ان کے گھائل کرنے والی ستم گر پری پیکر کے گھر کا پتہ لگائیں گے اور کسی دم دلاسے سے اسے گھیر گھار ان سے لا ملائیں گے۔ دریا پر پہنچ کر پہلے گھر کی مہری کو گانٹھتے ہیں۔ یہ مہری بنی ٹھنی ہوئی خود اس انتظار میں کھڑی ہیں۔ آپ ان کی چھب تو دیکھتے ہی چلیں، زبان سے لاحول پڑھتے ہوئے لیکن نظر کو نظر سے دو چار کرتے ہوئے۔
سانولا رنگ چلبلی صورت
لال نیفہ ازاربند بڑا
گچھا ایک کنجیوں کا اس میں پڑا
کھیلتی ہنستی کھلکھلاتی ہوئی
آنکھ ایک ایک سے ملاتی ہوئی
آنکھ اک ایک پر لگاوٹ کی
بات اک ایک سے گھلاوٹ کی
حسن کے دن جوانی زوروں پر
رات کی باسی مہندی پوروں پر
یہاں ٹہری کبھی وہاں ٹہری
دو منہ ہنس بول لی جہاں ٹہری
آگے اور پیچھے مار، فوج کی فوج
دھینگا مشتی کسی سے گالی گلوج
یہ نہ دیکھئے کہ کیا کہا، نظر اس پر رکھئے کہ کیسا کہا۔ جیسی روح ویسے ہی فرشتہ، اگر عاشق صاحب تماش بینی میں طاق تھے تو ان کے دوست صاحب بھی کٹناپے میں شہرہ آفاق، زنانی ڈیوڑھی تک رسائی پیدا کر کرا، ان نام کی بیگم صاحبہ پر کچھ ایسا افسوں پڑھا اور ’’عاشق صادق‘‘ پر حالت نزع کے طاری ہونے کا کچھ اس طرح سماں باندھا کہ آخر وہ ان کے بھرے میں آ گئیں۔ یہ بیگم صاحبہ بھی خیر سے کچھ معصوم نادان نہ تھیں، خوب کھیلی کھائی ہوئی تھیں، لیکن پھر آخر ناقص العقل، ایک شریف بد معاش کی قسما قسمی اور خدا رسول کے واسطوں پر یقین کر بیٹھیں، اور درگاہ حضرت عباس 2 کی حاضری کا بہانہ کر، گھر سے سوار ہو گئیں۔ کہاروں کو پہلے ہی سے پٹی پڑھا دی گئی تھی۔ سواری آ کر لب مرگ ’’عاشق بیار‘‘ کے دروازہ پر رکی۔ خدمت گار خبر دینے آتا ہے ڈیوڑھی پر ایک سواری آئی ہے لیکن خدمت گار صاحب بھی آخر کس دل پھینک مخدوم کے خادم تھے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرماتے جاتے ہیں ’’ایک ماما بھی آئی ہے ہم راہ۔ کتنی چالاک ہے خدا کی پناہ۔‘‘ ماما پردہ نشین نہیں بے پردہ ہے اور ’’حسن رہ گذرے‘‘ آپ کے اخلاق کے دار الافتاء میں ’’سرود خانہ ہمسایہ‘‘ ہی کی طرح وقف عام ہے۔ موقع ہے کہ آپ اپنی متانت اور ثقاہت کو خطرہ میں ڈالے بغیر چپکے سے ایک نظر، اچٹتی سہی، ادھر بھی ڈال لیں،
پوچھتی آئی ہے یہاں تک گھر
ہاتھ رکھے کھڑی ہے کولہے پر
اپنے سایہ سے بھی بھڑکتی ہے
بوٹی بوٹی پڑی پھڑکتی ہے
شرم ہے آنکھ میں نہ دل میں خطر
پھبتیاں کہہ رہی ہے اک اک پر
ہنسی ٹھٹھا ضلع جگت میں طاق
چل رہی ہے زبان تڑاق پڑاق
کھڑی اک اک کا منہ چڑھاتی ہے
ہنسے دیتی ہے لوٹی جاتی ہے
چوٹی نپٹی ہے باسی ہاروں سے
لڑ رہی ہی جگت کہاروں سے
راستے والے جو گذرتے ہیں
سن کے کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں
بہر حال سواری اترتی ہے۔ تخلیہ میں یکجائی ہوتی ہے۔ شہد پن کو کھیل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ شرم و حیا کے حجابات اٹھ جاتے ہیں اور بے حیائی و نفس پرستی کے پردے ہر طرف چھوڑ دیے جاتے ہیں، ایک طرف ہوس ناکی کی تمنائیں ہیں، وسری طرف انکار کی ادائیں ہیں، منت و سماجت کی دھیمی آوازیں تو خلوت گاہ کی دیواروں کے اندر گونج کر رہ جاتی ہیں، البتہ ڈانٹ پھٹکار، گرما گرم صدائیں پردہ کے باہر بھی صاف سنائی دے رہی ہیں۔
بل بے فقرہ ترا معاذ اللہ
میرے تو ہوش اڑ گئے واللہ
لوگ کہتے تھے ہے لبوں پر جان
مکر کے صدقے جھوٹ کے قربان
کون کہتا ہے زہر کھایا ہے
یہ بھی اک شعبدہ بنایا ہے
توبہ کس درجہ بے حیائی ہے
واہ کیا دیدہ کی صفائی ہے
کیا کہوں اور بے حیا تجھ کو
پھٹے منہ لعنت خدا تجھ کو
میں بڑا چکمہ کھا گئی افسوس
جو ترے جل میں آ گئی افسوس
جھوٹا بد ذات فلیسیا مکار
ان گنوں پر ترے خدا کی سنوار
مکر کا بانی جھوٹوں کا سر تاج
سنتے تھے فیلسوف دیکھا آج
ایسے فقروں کو کوئی کیا سمجھے
اور تو کیا کہوں خدا سمجھے
لیجئے اب تو آواز اور بلند ہو گئی، اور لہجہ میں غصہ کی تھرتھراہٹ نمایاں ہو گئی،
چربی آنکھوں پر تیرے چھائی ہے
کچھ نگوڑے کی شامت آئی ہے
کبھی آفت نہ یہ اٹھائی تھی
چھائیں پھوئیں میں نوج آئی تھی
کیا دھما چوکڑی مچائی ہے
تیری بختاوری کچھ آئی ہے
موذی، بد ذات، بے حیا شرم
جانتا ہے کہ ہم ہیں گرما گرم
کس قدر صاف تیرا دیدہ ہے
ایک نٹ کھٹ حرامزادہ ہے
کون سمجھے تھے تو ادھورا ہے
ارے تو سب گنوں میں پورا ہے
میں اگر بولنے پہ آؤں گی
لاکھوں دُھرّے ترے اڑاؤں گی
ابھی سب کہہ کے سن کے رکھ دوں گی
سات پیڑھی کوپن کے رکھ دوں گی
اور وہ ہو تیاں، ہیں البیلی
میں نہیں کچی گولیاں کھیلی
گالیاں کیسی، کوسنے دوں گی
میں بھی اک اپنے نام کی ہوں گی
رحم کرنا ہے تجھ پہ نادانی
وہاں ماروں جہاں نہ ہو پانی
تیری پیسہ پہ بوٹیاں کاٹوں
چیل کوؤں کو بیٹھ کر باٹوں
یہ جو شعر آپ نے سنے پھر بہت صاف اور سنجیدہ ہیں۔ باقی اشعار کی ایک بڑی تعداد نقل کے قابل کسی طرح بھی نہیں۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص نے شرم و حیا کا لباس اتار کر پھینک دیاہے، تہذیب و شائستگی کی جانب سے آنکھیں بند کر لی ہیں اور آواز گو نکل رہی ہے انسان کے حلق سے، لیکن ہے تمام تر جذبات سفلی و حیوانی۔ ظالم نے مصوری کی یہ خدا داد قابلیت کاش کسی شریفانہ نظم میں صرف کی ہوتی۔ شاعر جس ماحول میں تھا اس میں اخلاق کی پستی، جذبات کی فرومائیگی رکاکت، بے حیائی و عریاں نگاری کی کمی کچھ نہ تھی، حمام میں سب ہی ننگے تھے۔ آخر دربار اودھ کے شعرائے با کمال اور سخن گویان شیریں مقال میں کون اس میدان کا مرد نہ تھا؟ بایں ہمہ ان کاملوں کی سرداری کا تاج شوقؔ ہی کے سر پر رکھا گیا، اس بزم کی صدر نشینی نواب مرزا ی کے حصہ میں آئی، لیکن اس صدارت و سرداری کا نتیجہ جو کچھ ہوا، وہ بھی سب پر عیاں ہے۔
آج اردو شاعری کی تاریخ میں کہیں اس غریب کے لئے کوئی جگہ ہے؟ اردو مشاہیر شعراء کی فہرست میں کسی نمبر پر ان کا نام آتا ہے؟ اکثر تذکرہ نویسوں نے ان کا یا ان کی مثنویوں کا ذکرتک بھی کیا ہے؟ شاعروں کا کوئی طبقہ آج تلمذ یا کسی دوسری حیثیت سے اپنا انتساب ان کی جانب پسند کرتا ہے، یا اس کے بر عکس ان کا نام آتے ہی کچھ جھیپ سا جاتا ہے اور بے اختیار اپنی تبری کرنے لگتا ہے؟ نقادان شعر کے حلقوں میں، سخن سنجوں کی صحبتوں میں، پڑھے لکھے اور شریف گھرانوں میں نواب مرزا شوقؔ اور ان کی مثنویوں کی کچھ بھی وقعت اور پرسش ہے؟
کلام کا کچھ نمونہ اوپر گذر چکا اور بہت کچھ ابھی آنے کو ہے۔ محاورات پر یہ عبور، بیگمات کے روز مرہ پر یہ قدرت، زبان کی یہ صحت، بیان کی یہ سلاست، جذبات نگاری کی یہ قوت، کیا ہر شاعر کے نصیب میں آتی ہے؟ ان تمام حیثیات سے شوقؔ کا کلام اردو کے کسی شاعر سے فرو تر ہے؟ پھر آخر اس بے التفاتی کی وجہ؟ شوقؔ کی کس مپرسی کا کوئی سبب؟ وجہ ظاہر اور سبب واضح ہے۔ مشرق، کم از کم اسلامی مشرق، اپنی جبلت کے لحاظ سے مجبور ہےکہ قدر شرم و حیا کے جذبات کی کرے، عزت کی مسند پر جگہ شرافت کے لئے خالی کرے اور اپنا سر عصمت و عفت کی تصویروں کےا ٓگے خم کر دے۔ بے حیائی، عریاں نگاری، اور تحریری شہد پن کی عزت و وقعت اس کی سرشت کے مخالف ہے۔
جس طرح فرد ایک مخصوص طبیعت اور خاص مزاج رکھتا ہے، ہر قوم کا بھی ایک مخصوص مزاج ہوتا ہے، ہر تمدن کی بھی ایک مخصوص سرشت ہوتی ہے۔ قومی زندگی کی جو کارروائیاں اس عام مزاج و سرشت کے مخالف ہوتی ہیں، وہ کبھی قوم کے قوام میں نہیں داخل ہونے پاتیں، قومی تمدن کا مستقل نظام انہیں اپنے میں جذب کرنے، قبول کرنے اور اپنا جزو بنانے سے انکار کر دیتا ہے۔ نظام تمدن کا یک بڑا مظہر ہر قوم کا شعر و ادب ہوتا ہے۔ شوقؔ کی کھلی ہوئی عریاں نگاری، مشرق کے ذوق سلیم کے مخالف تھی، بگڑی اور اجڑی ہوئی تہذیب اسلامی کے بھی منافی تھی، اس لئے اسلامی مشرق نے شوقؔ کی تمام دوسری شاعرانہ خوبیوں کے باوجود ان کے لئے اپنی فہرست مشاہیر میں کوئی جگہ نہ رکھی۔ اور نام کو بالکل ’’گم نام‘‘ ہونے سے بچا کر کھا بھی تو ’’بد نام‘‘ کر کے زندہ رکھا۔
مشرق کا صوفی بگڑےگا، بہکےگا، تو بندگی میں خدائی کے دعوے کرنے لگے گا۔ یہ نہ ہوگا کہ مغرب کے ترقی یافتہ حکیم کی طرح اپنی انسانیت کو بھلا کر فخر اپنے بندر ہونے پر کرنے لگے، بے ہوش ہو جائےگا، بد حواس نہ ہوگا۔ ’’بگڑنے پر بھی بات اس کی بنا کی۔‘‘ جان عالم کا ہندوستان، بھانڈوں اور سازندوں کا ہندوستان، لاکھ بگڑنے پر بھی اپنے سے اتنا بیگانہ نہیں ہوا، اپنے کو اتنا نہیں بھولا کہ کوئلہ کا نام ہیرا رکھ دے، اور پیتل کو سونا سمجھنے لگ جائے۔
غرض نواب مرزا کی اپنی پست مذاقی اور مبتذل نگاری کی سزا، مشرق کی معدلت گاہ سے ملی اور بجا طور پر ملی، لیکن وہ خود بھی آخر مشرقی ہی تھا، باوجود انتہائی بے حیائی کے یہ ناممکن ہوا کہ چوری کے جرم پر سینہ زوری کا بھی اضافہ کرے۔ لارڈ بائن اور آسکر وائلڈ کی سی یہ جرأت و جسارت کہاں سے لا سکتا تھا کہ گندہ نظم اور گندہ تر نثر کو شعر و ادب کا بہترین نمونہ کہہ کر پیش کرتا۔ یہ بے باکی اور ڈھٹائی نیویارک کے ایوننگ گریفک، لندن کے نیوز آف دی ورلڈ اور لندن لائف، ممبئی کے ٹائمز آف انڈیا، السٹر یٹڈ ویکلی اور اسی مرتبہ کے اور اونچے اونچے فرنگی اخباروں رسالوں ہی کے حصہ میں آئی ہے، لفظ و عبارت ہی نہیں، فوٹو اور تصویریں تک زیادہ سے زیادہ عریاں چھاپتے رہیں، اور نام ’’آرٹ‘‘ کی ترقی کا یا صحت کے رکھ رکھاؤ کا لے دیا کریں!
غریب مشرقی کا تخیل بھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ عمل میں کیسی ہی شرمناک کمزوریاں اور کوتاہیاں ہوں لیکن ایمان میں فحش وبے حیائی کا جواز داخل نہ تھا۔ اپنے شہدپن کی کہانی سنانے کو تو سنا ڈالی لیکن معا ًیہ خیال بھی سامنے آ گیا کہ خود تو جی بھر کے تباہ ہو چکے، نہ ہو کہ داستان فسق دوسروں کے لئے سامان تباہ کاری بن جائے۔ آخر مشرقی تھے، مسلمان تھے، بات کوانجام تک پہنچاتے پہنچاتے خود اپنے انجام کا بھی خیال آ گیا۔ اٹھے تھے، شیطان پورہ کی دلالی کرنے، رخ خود بخود خانقاہ کی جانب پھر گیا۔ اور ابتدامیں جس کی حمد میں زبان کھلی تھی،
کس زباں سے کروں صفات خدا
کیا بشر سمجھے کنہ ذات خدا
جب نبی یوں کہے کہ اے مالک
ما عرفناک حق معرفتک
انتہا میں بھی اسی کا خوف غالب آ گیا اور اسی کی خشیت نے قلب کو لرز ا دیا۔ زبان اب چل رہی ہے اور مضمون عشق ہی پر چل رہی ہے لیکن اب وہ سراپا فسق نہیں، ذرا کان لگا کر تو سنیئے یہ ایوان عشق میں داستان فسق بیان ہو رہی ہے، یا ذکر و شغل کے حلقہ میں تسبیح و تہلیل ہو رہی ہے؟
اب سنیں صاحبان عقل و شعور
ہے یہ دنیا تمام مکر اور زور
شہد ظاہر میں زہر اندر ہے
جس قدر اس سے بھاگے بہتر ہے
صاحب عقل کو نہیں ہے زیب
کہ اٹھائے جہاں میں رہ کے فریب
سب یہ دنیا سرائے فانی ہے
عشق معبود جاودانی ہے
ہائیں! یہ کیا سے کیا ہو گیا! ابھی تو شرافت اور متانت کانوں میں انگلیاں دیےہوئے تھی اور اب ہے کہ آنکھیں بچھا دینے کو تیار! کہاں ابھی گلفام و سبز پری کا سوانگ جما ہوا تھا اور کہاں رومی و غزالی کے مواعظ کا دفتر کھل گیا۔
کہتے ہیں صوفیان صافی دل
کہ ہے عشق خدا بہت مشکل
عشق اللہ کا جو مائل ہو
ترک دنیا کرے تو حاصل ہو
اب یہ لازم ہے جو کہ ہے انساں
ترک دنیا کرے بہر عنواں
کوئی الفت نہ بے وفا سےکرے
عشق کرناہے تو خدا سے کرے
چار دن کی یہ زندگانی ہے
جو ہے اس کے سوا وہ فانی ہے
ہے وہ مستجمع جمیع صفات
لائق سجدہ ہے اسی کی ذات
وہی اول میں ہے وہی آخر
وہی باطن میں ہے وہی ظاہر
کون سی جا ہے جس جگہ وہ نہیں
چاہئے ہے نگاہ وحدت بیں
تلقین زہد و موعظہ معرفت سے طبیعت اکتا چلی ہو، تو بس تھوڑے صبر کی اور ضرورت ہے۔ چند ہی شعر باقی رہ گئے ہیں،
لکھتے ہیں صوفیان با توقیر
عشق اللہ ہے عجب اکسیر
جس کو اس در تلک رسائی ہے
دین و دنیا کی بادشاہی ہے
مثل سیماب دل کی ہے تاثیر
خاک ہو جائے تب بنے اکسیر
دنیا کہتے ہیں جس کوپردہ ہے
باقی اللہ کے سوا کیا ہے
منکشف اس کی کیا حقیقت ہو
وہی جانے جسے بصیرت ہو
پردے اٹھ جائیں جب جدائی کے
حال اس دم کھلیں خدائی کے
یہ کس کا کلام ہے؟ کسی صوفی خرقہ پوش کا؟ کسی زاہد خلوت گزیں کا؟ کسی فقیر تارک دنیا کا؟ یاا سی حیا دشمن کا جو ابھی ابھی اپنی سیہ کاری کی داستان مزے لے لے کے سنا رہا تھا؟ اس بد نام مشرقی کے مقابلہ میں مغرب کے نیک ناموں کے پاس کیا ہے؟ یہ ننگ مشرق تھا۔ جو فخر مغرب ہیں، سوال ان کی بابت ہے۔ یہ مشرقی تخیل کا اسفل سافلین تھا، لیکن جو مغربی تخیل کا اعلیٰ علیین ہے اس کے صحن چمن میں گلگشت کے بعد، پند و موعظت، سلوک و معرفت، عبرت و اخلاق کے کتنے گلدستے تیار ہو سکتے ہیں؟
(۲)
نواب مرزا کا شاہکار بہار عشق نہیں زہر عشق ہے، اس کے نام کو بری یا بھلی جو کچھ بھی شہرت حاصل ہے، اسی زہر عشق کے طفیل میں ہے۔ یہ مثنوی بہار عشق سے چھوٹی ہے۔ کوئی پانچ سو شعر ہوں گے، بحر وہی، زبان وہی، طرز بیان وہی، لیکن درد و اثر کے اعتبار سے اس سے بڑھ چڑھ کر۔ بہار عشق کا خاتمہ وصل کی شادمانی پر ہوا تھا، زہر عشق کا انجام ہیروئن کی خودکشی اور عاشق کے اقدام خودکشی پر ہوتا ہے۔ بہ حیثیت مجموعی یہ نظم بہار عشق کے مقابلہ میں بہت مہذب اور سنجیدہ ہے۔ عریانی اس میں اگر ہے بھی تو بس اتنی جتنی ہر عاشقانہ افسانہ میں ہوتی ہی ہے۔ ہیروئن اس کی بھی کوئی عصمت مآب نہیں لیکن دوسری طرف کوئی ’’لکھا بیسوا‘‘ بھی نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی شریف گھرانے کی ایک الھڑ لڑکی، نو عمری کی نادانیوں میں مبتلا ہو گئی ہے، تا ہم غیرت وعزت سے بالکل ہاتھ نہیں دھو بیٹھی ہے۔
لکھنؤ میں شروع شروع تھیٹر کا رواج ہوا تو کسی کمپنی نے اس تماشہ کو اسٹیج پر بھی دکھایا تھا۔ پرانے لوگوں سے یہ روایت سننے میں آئی ہے کہ گنہگار کنواری کے جنازہ کا اٹھنا اور اس کے پیچھے غم زدہ والدین کا ماتم کرتے ہوئے چلنا اور پچھاڑیں کھا کر گرنا، جب دکھایا گیا تو تماشہ گاہ ایک بزم عزا بن گئی، لکھنؤ کی نزاکت، قیامت خیز واقعیت کی نقل کا بھی تحمل نہ کر سکی۔ ہچکیوں اور سسکیوں کا تار بندھ گیا۔ بعض کو غش آ گئے اور ایک آدھ نے شاید خودکشی کی بھی ٹھان لی۔ اس پر تماشہ کا دکھانا قانوناً ممنوع ہو گیا اور کتاب کی اشاعت بھی عرصہ تک بند رہی۔ اب چند سال ہوئے لکھنؤ کے مطبع مجتبای نے پھر شائع کیا ہے۔ میرے پیش نظر اس مطبوعہ نسخہ کے علاوہ ایک بد خط قلمی نسخہ بھی ہے، اندازے سے کوئی پچاس ساٹھ سال ادھر کا لکھا ہوا۔ کتاب کے سرنامہ پر حمد باری و نعت رسول کی مہریں ثبت ہیں،
لکھ قلم پہلے حمد رب ودود
کہ ہر ایک جا پہ ہے وہی وجود
ذات معبود جاودانی ہے
باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے
ہمسر اس کا نہیں، ندیم نہیں
سب ہیں حادث، کوئی قدیم نہیں
مدح احمد زبان پر کیونکر آئے
بحر کوزہ میں کس طرح سے سمائے
ذات احمدؐ کو کوئی کیا جانے
یا علی جانے یا خدا جانے
آگے چل کر بجائے جہاں پناہ کی مدح کے 10-12 اشعار عشق کی تعریف و تعارف میں ہیں، ان میں سے بعض شعر اپنی صفائی اور روانی کی بنا پر عام زبانوں پر چڑھ گئے ہیں۔
عشق سے کون ہے بشر خالی
کر دیے اس نے گھر کے گھر خالی
پڑتے ہیں اس میں جان کے لالے
ڈالتا ہے جگر میں یہ چھالے
اس سے امید رکھنا ہے بے جا
بھائی مجنوں سے کیا سلوک کیا
آتش ہجر سے جلاتا ہے
آگ پانی میں یہ لگاتا ہے
مار ڈالا تماش بینوں کو
زہر کھلوا دیا حسینوں کو
قصہ کا آغاز یوں ہوتا ہے،
جس محلہ میں تھا ہمارا گھر
وہیں رہتا تھا ایک سوداگر
اس کے ایک نو عمر حسین لڑکی تھی، ماں باپ کی آنکھ کا تارا، لکھی پڑھی، نستعلیق، ایک روز اپنے کوٹھے پر آئی، نواب مرزا سے آنکھیں چار ہو گئیں۔ یہ حضرت تو اپنا دل نذر کرنے کے لئے ہر وقت ہتھیلی پر لئے پھرتے ہی تھے، کھٹ سے عاشق ہو گئے اور اپنے ماں باپ کےسامنے خوب خوب فیل لائے۔ اب کی عشق یک طرفہ نہ تھا، ادھر بھی اثر ہو چکا تھا، ایک روز ایک ماما نامہ شوق چپکے سے لا کو شوقؔ کے ہاتھ میں دے گئی۔ خوشی سے کانپتے ہوئے ہاتھوں اور خوشی سے پر نم آنکھوں کے ساتھ کھول کر پڑھا،
ہو یہ معلوم تم کو بعد سلام
غم فرقت سے دل ہے بے آرام
شکل دکھلا دے کبریا کے لئے
بام پر آذرا خدا کے لئے
دل کی چوٹ بری ہوتی ہے۔ لڑکی محبت کی ماری، عقل و ہوش سے اندھی ہو چکی ہے۔ پھر بھی شریف زادی ہے، اس لئے قلم اس سے زیادہ بے حیائی پر نہیں اٹھ سکتا، فوراً اپنی خود داری کو یوں سنبھالتی ہے،
سارے الفت نے کھو دیے اوسان
ورنہ یہ لکھتی میں خدا کی شان
اب کوئی اس میں کیا دلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
اس محبت پہ ہو خدا کی مار
جس نے یوں کر دیا مجھے نا چار
عاشق صاحب یہ پڑھ کر بھلا جامہ میں کہاں سما سکتے تھے۔ ایک جواب بحر طویل میں دھر گھسیٹا۔ جاو بیجا، نا مناسب سب ہی کچھ زبان قلم نے اگل ڈالا، ادھر سوداگر زادی بھی بڑی برق دم نکلیں، انہیں کے جوڑ کی۔ کھوٹے کھرے مال کی خوب پرکھ رکھتی تھیں۔ پیام شوق پڑھ کر خوب لطف لیا۔ اور ہنس کے بولی کہ ’’ واہ واہ کیا خوب۔‘‘ جواب لکھنے بیٹھی تو بسم اللہ یوں کی ’’کچھ قضا تو نہی ہے دامن گیر۔‘‘ اور پھر خوب خبر لی،
ذکر ان باتوں کا یہاں کیا تھا
چھیڑنے کو یہ تیرے کہا تھا
یہ تو لکھے تھے سب ہنسی کے کلام
ورنہ ان باتوں سے ہے کیا کام
مجھ کو ایسی تھی تیری کیا پروا
بام پر تو بلا سے آ، کہ نہ آ
تم پہ مرتی، میں کیا قیامت تھی
کیا مرے دشمنوں کی شامت تھی
میری جانب سے یہ گماں کیا خوب
جھوٹ جم جم سے ہے بہت مرغوب
کالا دانہ ذرا تروا لو!
رائی لون اس سمجھ پہ کر ڈالو
دیکھ تحریر فیل لائے آپ
خوب جلدی مزے میں آئے آپ
چند روز اسی طرح مزہ مزہ کی نوک جھونک جاری رہی۔ اس کے بعد ایک جمعرات کو وہی درگاہ کی زیارت کا چلتا ہوا فقرہ کام آیا۔ شامت کی ماری کی سواری، والدین کے گھر سے چلی ا ور نواب مرزا کی ڈیوڑھی پر آ کر رکی۔ آگے جو کچھ ہونا تھا ہوا۔ شرافت لٹی، عزت ڈوبی، آمد و رفت کا سلسلہ اس کے بعد قائم ہو گیا۔ لیکن یہ چوری چھپے کی ملاقات کب تک راز رہ سکتی تھی۔ گھر والوں کو ٹوہ لگ گئی، اور والدین نے اپنی رسوائی دفع کرنے کو یہ تجویز کیا کہ لڑکی کو لکھنؤ سے دور شہر بنارس میں کسی عزیز کے پاس پہنچا دیا جائے۔ ادھر لڑکی کو بھی سن گن مل گئی۔ دل نے کہا کہ ہاتھ کٹ جانے کی بات ہے۔ باپ کو بھی آخر اس رو سیاہی کی خبر ہو گئی۔ اب ان کا سامنا کیا کیسے جائےگا؟ اس زندگی سے تو موت بھلی! نو عمری کا زمانہ، دل دنیا کی تلخیوں سے نا آشنا، حوصلے زندہ، اور ولولے تازہ، سامنے دنیا اور اس کی بہاریں۔
ابھی لڑکی ہی ہے، کوئی پیر زال نہیں۔ کچھ بیمار دکھی بھی نہیں۔ بس بات کیا ہے، صرف اتنی کہ رگوں میں مشرقی شرافت کا خون گردش کر رہا ہے۔ دماغ میں خاندانی روایات کی یاد محفوظ ہے، دل میں غیرت و حمیت کی آن باقی ہے۔ جان جیسی عزیز چیز سے ہاتھ دھونا گوارا لیکن اس کی برداشت نہیں کہ سب عزیزوں، قریبیوں کی نظروں میں ذلیل و رسوا ہو کر زندگی بسر کی جائے۔ بس یہ دل میں ٹھان آخری ملاقات کے لئے عاشق کے پاس آتی ہے۔ جان دینا تو عاشقوں کا کام سمجھا جاتاہے یہاں جان دینے پر وہ آمادہ ہے جو خود اس قابل ہے کہ دوسرے اس کے اوپر اپنی جانیں فدا کرتے!
تھی نہ فرصت جو اشک باری سے
اتری روتی ہوئی سواری سے
شیکسپیر نے اپنے ڈراموں میں عاشق و معشوق کی جدائیوں اور وداعی ملاقاتوں کے منظر بارہا دکھائے ہیں۔ خودکشی، اقدام خود کشی، اور مصنوعی خودکشی کے منظروں سے بھی اس کے صفحات خالی نہیں۔ اور رومیو جولیٹ کے بعض سماں تو بہت ہی مؤثر اور درد انگیز سمجھے جاتے ہیں لیکن ہے اس فرنگستان کے مشہور و ممتاز ڈرامہ نگار کے ہاں کوئی منظر جو اثر و عبرت انگیزی میں مشرق کے اس بد نام شاعر کے کھینچے ہوئے نقشہ کا مقابلہ کر سکے؟ خیر وہ حسرت نصیب آتی ہے اور کہتی ہے،
اقربا ہو گئے مرے آگاہ
تم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہ
وہ چھٹے ہم سے جس کو پیار کریں
جبر کیونکر یہ اختیار کریں
گو ٹھکانے نہیں ہیں ہوش و حواس
پر یہ کہنے کو آئی ہوں ترے پاس
لیجئے کہاں ابھی غفلت کے قہقہے بلند ہو رہے تھے اور کہاں عبرت کا درس شروع ہو گیا۔ دنیا اور اس کی ساری دلفریبیاں ایک ایک کرکے رخصت ہو رہی ہیں، اب سابقہ پڑنے کو ہے بندی کا اپنے مالک سے، کمزور کا زور والے سے، بے بس کا قدرت والے سے، غفلتیں دور ہو گئیں، مدہوشیاں کافور ہو چلیں، شمع جھلملانے لگی، چہرہ پر زردی چھا گئی، اب نہ جوانی میں وہ لذت و سرور، نہ حسن و رعنائی میں وہ پندار و غرور۔ اب ندامتیں ہیں اور اشکبار یاں، عبرتیں ہیں اور آہ و زاریاں۔ موت کی آمد بے شک ہر غافل کو اسی طرح جھنجھوڑ کر ہوشیار کر دیتی ہے،
جائے عبرت سرائے فانی ہے
مورد مرگ ناگہانی ہے
اونچے اونچے مکان تھے جن کے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
کل جہاں پر شگوفہ و گل تھے
آج دیکھا تو خار بالکل تھے
بات کل کی ہے نوجوان تھے جو
صاحب نوبت و نشان تھے جو
آج خود ہیں نہ ہے مکاں باقی
نام کو بھی نہیں نشاں باقی
غیرت حور مہ جبیں نہ رہے
ہے مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے
کوئی لیتا نہیں اب اس کا نام
کون سی گور میں گیا بہرام
کل جو رکھتے تھے اپنے فرق پہ تاج
آج وہ فاتحہ کو ہیں محتاج
تھے جو خود سر جہان میں مشہور
خاک میں مل گیا سب ان کا غرور
عطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے
نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے
گردش چرخ سے ہلاک ہوئے
استخواں تک بھی ان کے خاک ہوئے
تاج میں جس کے ٹکتے تھے جوہر
ٹھوکریں کھاتے ہیں وہ کاسہ سر
رشک یوسف جو تھے جہاں میں حسیں
کھا گئے ان کو آسمان و زمیں
ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے
یہی دنیا کا کار خانہ ہے
ہے نہ شیریں نہ کوہ کن کا پتہ
نہ کسی جانل و دمن کا پتہ
بوئے الفت تمام پھیلی ہے
باقی اب قیس ہے نہ لیلیٰ ہے
صبح کو طائران خوش الحان
پڑھتے ہیں کل من علیہا فان
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
موت کے تصور سے اچھے اچھے دلیر اور سورما لرز اٹھتے ہیں، یہ تو بے چاری ایک پردہ نشیں لڑکی ہی تھی، کمسن و نادان، یہ وصیتیں کرتے وقت اس کے جسم نازک کے اندر کے قلب نازک کیا حالت ہوگی؟ آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی ہے، دل کا ہول بڑھتا جا تا ہے، چہرہ پر ایک رنگ آتا ہے ایک جاتا ہے۔ کلیجہ میں پنکھے لگے ہوئے ہیں، زبان لڑ کھڑا رہی ہے، آواز تھرا تھرا رہی ہے۔ الفاظ پورے پورے ادا نہیں ہو پاتے۔ پھر بھی تقدیر کے نوشتہ پر صبر کرکے، طبیعت کو سنبھالتی جاتی ہے، آنسو پونچھتی جاتی ہے اور کہتی ہے۔
ہم اگر جان دے دیں کھا کے سم
تم نہ رونا ہمارے سر کی قسم
دل کو ہم جولیوں میں بہلانا
یا مری قبر پر چلے جانا
جا کے رہنا نہ اس مکان سے دور
ہم جو مر جائیں تیری جان سے دور
روح بھٹکے گی گر نہ پائےگی
ڈھونڈنے کس طرف کوجائےگی
رو کے رہنا بہت طبیعت کو
یاد رکھنا مری وصیت کو
میرے مرنے کی جب خبر پانا
یوں نہ دوڑے ہوئے چلے آنا
جمع ہولیں سب اقربا جس دم
رکھنا اس وقت تم وہاں پہ قدم
کہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تم
ساتھ تابوت کے نہ رونا تم
ہو گئے تم اگر چہ سودائی
دور پہنچے گی میری رسوائی
لاکھ تم کچھ کہو نہ مانیں گے
لوگ عاشق ہمارا جانیں گے
طعنہ زن ہوں گے سب غریب و امیر
قبر پر بیٹھنا نہ ہو کے فقیر
گنہ گار سوداگر زادی اپنے گناہ کا احساس رکھتی تھی، خلق میں اپنی رسوائی سے شرماتی تھی، کوئی امریکی آرٹسٹ، کوئی فرنگی ’’فلم اسٹار‘‘ نہ تھی، کہ فخر اپنی بے حیائی پر اور ناز اپنی سیاہ کاری پر کرتی۔ گناہ گار بننا قسمت میں لکھا کر آئی تھی، سو بن چکی، لیکن گناہ کی اشاعت کی روادار کسی حال میں نہ تھی۔ دامن عصمت داغدار ہونا تھا، ہو چکا، پھر بھی عزت کے معنی سے واقف تھی، شرافت کی قدر و قیمت پہچانتی تھی۔ پردہ پوشی کے لئے کیسی کیسی منت و سماجت کرتی ہے،
سامنا ہو ہزار آفت کا
پاس رکھنا ہماری عزت کا
جب جنازہ مرا عزیز اٹھائیں
آپ بیٹھے وہاں نہ اشک بہائیں
میری منت پہ دھیان رکھئےگا
بند اپنی زبان رکھئےگا
تذکرہ کچھ نہ کیجئےگا
نام منہ سے نہ لیجئےگا مرا
اشک آنکھوں سے مت بہائیےگا
ساتھ غیروں کی طرح جائیےگا
آپ کاندھا نہ دیجئے گا مجھے
سب میں رسوا نہ کیجئےگا مجھے
ساتھ چلنا نہ سر کے بال کھلے
تا کسی شخص پر نہ حال کھلے
ذکر سن کر نہ میرا رو دینا
میری عزت نہ یوں ڈبو دینا
کہتے ہیں مرد کی خاطر عورت اپنے کو مٹا دیتی ہے، فنا کر ڈالتی ہے۔ کم از کم ہندوستان کی عورت کا تو بے شک یہی حال ہے۔ خود تو جان دے رہی ہے مگر یہ اب بھی گوارا نہیں کہ مرد کا رویاں میلا ہو، تشفی و تسلی کا دھیان آخری سانس تک قائم ہے،
رنج کرنا نہ میرا میں قرباں
سن لو گر اپنی جان ہے تو جہاں
دے نہ اس کو خدا کبھی کوئی درد
ہوتا نازک کمال ہے دل مرد
دل میں کڑھنا نہ مجھ سے چھوٹ کے تو
جان دینا نہ گھونٹ گھونٹ کے تو
روکے کرنا نہ اپنا حال زبوں
تا نہ ہو جائے دشمنوں کا خوں
کبھی آ جائے گر ہمارا دھیان
جاننا ہم پہ ہو گئی قربان
دل میں کچھ آنے دیجئو نہ ملال
خواب دیکھا تھا کیجئو یہ خیال
پھر ملاقات دیکھیں ہو کہ نہ ہو
آج دل کھول کر گلے مل لو
خوب سا آج دیکھ بھال لو تم
دل کی سب حسرتیں نکال لو تم
دل میں باقی رہے نہ کچھ ارمان
خوب مل کر گلے سے میں قربان
حشر تک ہوگی پھر یہ بات کہاں
ہم کہاں، تم کہاں یہ رات کہاں
دل کو اپنے کر و ملول نہیں
رونے دھونے سے کچھ حصول نہیں
اپنی آنکھوں سے ندی نالے جاری کر رکھے ہیں، لیکن مرد کے چہرہ کی اداسی دیکھنا بھی گوارا نہیں،
رو نہ اس طرح سے تو زار و قطار
دشمنوں کو کہیں چڑھے نہ بخار
کر نہ رو رو کے اپنا حال زبوں
ارے ظالم ابھی تو جیتی ہوں
اشک ہوتے ہیں نا گوار ترے
تو نہ رو ہو گئی نثار ترے
ایسے قصے ہزار ہوتے ہیں
یوں کہیں مردوئے بھی روتے ہیں
تو سلامت جہاں میں رہ میری جان
نکلیں ماں باپ کے ترے ارمان
واسطے میرے اپنا دل نہ کڑھا
چاند سی بنو گھر میں بیاہ کے لا
ہے یہی لطف زندگانی کا
دیکھ سکھ اپنی نوجوانی کا
حسن بے ثبات کی نیرنگیاں ختم ہو رہی ہیں، عشق فانی کی ساری لذتیں ایک ایک کر کے یاد آ رہی ہیں، اور چل چلاؤ کے وقت نفس پر ہجوم کر رہی ہیں،
کل گلے سے کسے لگاؤگے
یوں کسے گود میں بٹھاؤگے
ہم تو اٹھتے ہیں اس مکان سے کل
اب تو جاتے ہیں اس جہان سے کل
یاد اتنی تمہیں دلاتے جائیں
پان کل کے لئے لگاتے جائیں
دیکھ لو آج ہم کو جی بھر کے
کوئی آتا نہیں ہے پھر مر کے
ختم ہوتی ہے زندگانی آج
خاک میں ملتی ہے جوانی آج
سمجھ اس کو شب برات کی رات
ہم ہیں مہمان تمہارے رات کی رات
پھل اٹھایا نہ زندگانی کا
نہ ملا کچھ مزہ جوانی کا
باغ عالم سے نا مراد چلے
دل میں لے کر تمہاری یاد چلے
پھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت یار
کر لو پھر ہم کو بھینچ بھینچ کے پیار
لہر پھر چڑھ رہی ہے کالوں کی
بوسنگھا دو تم اپنے بالوں کی
پھر ہم اٹھنے لگیں بٹھا لو تم
پھر بگڑ جائیں ہم منا لو تم
پھر لبوں کو چبا کے بات کرو
پھر ذرا مسکرا کے بات کرو
یہ آخری راز و نیاز کتنی دیر؟ یہ زندگی کا آخری اختلاط کے گھڑی؟ جھلملاتی ہوئی چراغ کے آخری بھڑک کب تک؟ مادی لذتیں ختم ا ور جسم کے مزے ایک ایک کر کے تمام ہو رہے ہیں۔ ناسوتی صحبتوں کا تار تار بکھرنے کو ہے۔ نفس کی ماری ہوئی لیکن غیرت دار گنہگار مگر گناہ کی معترف، عزت لٹائے ہوئے لیکن بہر حال پاس عزت رکھنے والی پردہ نشیں کی آنکھوں سے پردے ہٹ رہے ہیں۔ آج ختم ہو رہا ہے، کل شرو ع ہو رہا ہے، حسن و جوانی، نزاکت و رعنائی، چہرہ کا رنگ و روغن، سب کی نمود مٹی ہی سے تھی او ر سب مٹی میں ملے جا رہے ہیں۔ رفاقت پر کوئی آمادہ نہیں۔ حاضری اس دربار میں در پیش ہے، جہاں بد کاری الگ رہی، ایک ایک بد نظری کا پورا پورا حساب درج ہے، سامان اس مالک کا کرنا ہے جس نے خلاف قانون آنکھ اٹھانے تک پر باز پرس رکھی ہے۔ روبکاری اس حاکم کی عدالت میں ہے جس کی ہیبت سے بڑے بڑے متقی اور صالحین لرزتے رہتے ہیں۔
یہ نازک جسم اور نازک تر قلب رکھنے والی، گناہوں کے بوجھ سے لدی ہوئی، حرام موت مرنے والی لڑکی، اس نازک گھڑی میں آخر کس کا سہرا پکڑے، اور کس کی نگاہ کرم کی آس لگائے؟ اے ہر مشکل کوآسان کرنے والے! اس دکھیاری کی مشکل کو تو ہی آسان کر، تیری ہی ستاری کا دامن اس بے چادر کی پردہ پوشی کر سکتا ہے۔ تیرے ہی بحر مغرفت کا ایک قطرہ اس بد نصیب کے نامہ عمل کی سیاہیاں دھو ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ تیری یاد سے غفلت بے شبہ تھی، پر تیری حکومت سے سر کشی نہ تھی۔ نفس کی لغزشیں یقیناً تھیں پر تیرے احکام سے جان کر بغاوت نہ تھی۔ ایمان کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی ڈھارس بندھاتی ہے۔ فاتحہ، قرآن خوانی اور دعائے خیر کی قدر ’’آج‘‘ کنگھی چوٹی کے مشغلہ نے نہ کرنے دی، ’’کل‘‘ کے لئے سب سے زیادہ قیمتی چیزیں یہی نظر آ رہی ہیں،
اب تم اتنی دعا کرو میری جان
کل کی مشکل خدا کرے آسان
اگر آ جائے کچھ طبیعت پر
پڑھنا قرآن میری تربت پر
غنچہ دل مرا کھلا جانا
پھول تربت پہ دو چڑھا جانا
دیکھئے کس طرح پڑے گی کل
سخت ہوتی ہے منزل اول
میرے مرقد پر روز آنا تم
فاتحہ سے نہ ہاتھ اٹھانا تم
گو میں دنیا سے رو سیاہ چلی
لیکن اپنی سی میں نباہ چلی
جی کو تم پر فدا کیا میں نے
حق وفا کا ادا کیا میں نے
کانپتے ہوئے جسم، زار و قطار آنکھوں، لرزتی ہوئی زبان کےساتھ، دل کی بیتی بیان ہو رہی تھی کہ رات تمام ہو جاتی ہے۔ اور اس کمسن نازنین کے ڈوبتے ہوئے دل کی طرح آسمان کے تارے بھی ایک ایک کر کے ڈوبنے لگتے ہیں۔ صبح کا گھڑیال بجتا ہے اور اس کے ساتھ ناسوتی کرشموں کے جنجال میں پھنسے ہوئے جوڑے کی آخری ملاقات بھی اس عالم آب وگل میں ختم ہو جاتی ہے۔ کلمہ کی آواز کبھی کی سنی سنائی کان میں پڑی ہوئی تھی، وہی اس آڑے وقت پر کام آتی ہے،
ہو گیا فرط غم سے چہرہ زرد
دست و پا تھر تھرا کے ہو گئے سرد
بید کی طرح جسم تھرایا
سر سے لے پاؤں تک عرق آیا
باتیں جو کرتی تھی سو بھول گئی
دم لگا چڑھنے سانس پھول گئی
بولی گھبرا کے رہیو اس کے گواہ
کہا لا الہ الا اللہ
اب فقط ہے یہ خون بہا
بخش دیجو کہا سنا میرا
سر سے لے کربلائیں تا بقدم
بولی تم پر نثار ہوتے ہیں ہم
آگ لگ جائے وہ گھڑی کم بخت
بام پر آئی تھی میں کون سے وقت
یہ کہا اورسوار ہو گئی، چند گھنٹوں کے بعد محلہ میں شوروشین برپا ہوا، جا کر دیکھا تو سوداگر کے گھر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ گنہگار شریف زادی نے جو کہا تھا کر دکھایا، جوانی کی نیند مشہور ہے لیکن یہ زہر کھا کر وہ نیند سوئی تھی جس میں قیامت تک بیداری نہیں۔ یہ ہے ’’آغاز‘‘ کی بد مستیوں کا ’’انجام۔‘‘ پھولوں کی سیج پر رات بسر کرنے والی کو آخری چادر وہی کفن کی نصیب ہوئی، اتنی جلد، کم سنی میں ایسی ایسی آناً فاناًجوان جہان اولاد، نازوں کی پالی اکلوتی اولاد، کون انسانی سینہ ہے جو اس داغ کو آسانی سے برداشت کر سکے؟
لڑکی ماں کی آنکھ کا تارا، باپ کے کلیجہ کا ٹکڑا، اندھیرے گھر کا چراغ، سات بیٹوں سے بڑھ کرپیاری تھی، گھر بھر میں کیا معنی، محلہ بھر میں ہنگامہ محشر برپا ہو گیا۔ بوڑھے والدین کی یہ حالت کہ کھڑے پچھاڑیں کھا کھا کر گرتے تھے، اور بین کچھ اس درد کے ساتھ کر رہے تھے کہ اپنے تو خیر اپنے تھے، راہ چلتے بیگانوں کی ہچکیاں بندھ بندھ جاتی تھیں۔ گھر کی بڑی بوڑھیاں جنہوں نے گودوں میں کھلا کھلا کر پالا تھا، نہالچوں پر تھپک تھپک کر سلایا تھا، ساتھ کی کھیلی ہوئی سہیلیاں اور ہمجولیاں، کوئی پردہ کے اندر، کوئی پردہ کے باہر، دوپٹہ کا ہوش نہ چادر کی خبر، منہ پیٹنے، بال نوچنے میں مصروف، غسل و کفن کے بعد جب جنازہ مرتب ہو کر چلا ہے تو اس سج دھج کےساتھ کہ بن بیاہی نامراد کے تابوت پر دھوکا بیاہی ہوئی دلہن کے ڈولے کا۔ بے شک دلہن ہی تھی۔ آج رخصتی اس دیس کو ہو رہی تھی جہاں سے پھر کوئی میکہ واپس نہیں آتا،
شامیانہ نیازری کا ہے
نیچے تابوت اس پری کا ہے
سہرا اس پر بندھا ہے اک زر تار
جیسے گلشن کی آخری ہو بہار
عود و سوز آگے آگے روشن تھے
مر گئے پھر بھی لاکھ جوبن تھے
بھیڑ تابوت کے تھی ایسی سات
جیسے آئے کسی دلہن کی برات
خیر اور تو جس پر جو بیت رہی تھی، تھی ہی، اس مامتا کی ماری کا کیا حال تھا جس کی ہری بھری گودابھی کالی کرائی گئی تھی۔ عمر بھر کی کمائی دم کے دم میں واپس لے لی گئی تھی۔ کلیجہ ابھی ابھی تیروں سے چھد چکا تھا۔ کس انسانی قلم میں قدرت ہے کہ اس کےد اغ دل کا نقشہ صفحہ کاغذ پر کھینچ سکے! آہ کہ جس کے دل میں بیٹی کی مانگ بھرنے کا ارمان ڈالا گیا تھا، اسی کے ہاتھوں اس لاڈلی کو کفن پہنوایا جا رہا ہے! آہ کہ جوآنکھیں بیٹی کا سہاگ دیکھنے کے انتظار میں نور حاصل کر رہی تھیں، انہیں کو اسے سیکڑوں من مٹی کے نیچے دفن ہوتے دکھا کر بےنور کیا جا رہا تھا۔
نواب مرزا! تجھ پر رحمت، تیری روح پر رحمت کہ تونے کوکھ اجڑ جانے والی ماں کے جذبات کی تصویر بھی کاغذ پر اتار کر رکھ دی ہے۔ ماں کے منہ سے یہ بول نکل رہے ہیں یا دل و جگر کے ٹکڑے کٹ کٹ کر آنکھ اور زبان کی راہ سے خارج ہو رہے ہیں،
تیری میت پہ ہو گئی میں نثار
کم سخن ہائے میری غیرت دار
دل پہ جو گذری کچھ بیان نہ کی
کچھ وصیت بھی میری جان نہ کی
کچھ نہیں ماں کی اب خبر تم کو
کس کی یہ کھا گئی نظر تم کو
دل ضعیفی میں میرا توڑ گئیں
بیٹا ماں کو کس پہ چھوڑ گئیں
تازہ پیدا جگر پہ داغ ہوا
گھر مرا آج بے چراغ ہوا
دل کو ہاتھوں سے کوئی ملتا ہے
جی سنبھالے نہیں سنبھلتا ہے
زہر دے دے کوئی تو کھا جاؤں
یا زمیں شق ہو میں سما جاؤں
داغ تیرا جگر جلاتا ہے
چاند سا مکھڑا یاد آتا ہے
بیا ہ تیرا رچانے پائی نہ میں
کوئی منت بڑھانے پائی نہ میں
تیری صورت کے ہو گئی قربان
چلیں دنیا سے کیسی پر ارمان
ہوئی کس بات پر خفا بولو
اماں واری ذرا جواب تو دو
بولتی تم نہیں پکارے سے
اب جیوں گی میں کس سہارے سے
کیا قضا نے جگر پہ داغ دیا
آج گھر میرا بے چراغ کیا
نکلا ماں باپ کا نہ کچھ ارمان
ہائے بیٹی نہ تم چڑھیں پروان
ایسی اماں سے ہو گئیں بے زار
لی نہ خدمت بھی پڑ کے کچھ بیمار
عمر کٹنی تھی ایسے صدمہ میں
ٹھوکریں تھیں بدی بڑھاپے میں
مشرق کے بد نام سخن گو، اردو کے بدنام شاعر، رخصت! تو درد بھرا دل رکھتا تھا، تیری یاد بھی درد والوں کےدلوں میں زندہ رہے گی۔ تونے موت کو یاد رکھا، تیرے نام پر بھی موت نہ آنے پائے گی۔ تونے غفلتوں اور سرمستیوں کی داستان کو خوب پھیلایا، شاید کسی کی رحمت بے حساب پر تکیہ کر کے لیکن انہیں غافلوں اور سر مستوں کو موت و انجام کی یاد دلا دلا کر بھی خوب رلایا، کسی کی عظمت بے پایاں کا خوف کر کے۔ عجب کیا کہ خدائے آمروزگار، اس عالم کا ستار اور اس عالم کا غفار، تیری خطاؤں اور لغزشوں کو اپنے دامن عفو و مغفرت کے سایہ میں لے لے، اور تیرے کلام کے درد و عبرت، تیرے بیان کے سوز و گداز کا اثر بھی تجھے عطا کرے، اپنی ہی رحمت کی مناسبت سے، اپنے ہی کرم کے حساب سے!
حاشیے
(1) 1927ء میں یہ محض قیاس سے لکھا گیا تھا۔ 1942ء میں لذت عشق کا ایک بہت قدیم مطبوعہ نسخہ لکھنؤ یونیورسٹی کے پروفیسر مسعود حسن صاحب رضوی کے کتب خانہ میں نظر سے گذرا۔ اس کے سر ورق پر تصریح ہے کہ یہ مثنوی شوق کی نہیں، شوق کے ہمشیرہ زادہ ایک اور حکیم صاحب کی ہے۔
(2) لکھنؤ کے غربی حصے میں ایک مشہور شیعی زیارت گاہ۔
(3) یہ صورت حال 1927ء کی بیان ہوئی۔ دور ’’ترقی پسندی‘‘ کے طلوع ہونے سے بہت قبل۔ اس وقت خود اس مقالہ کا لکھنا اور اسے بھری مجلس میں سنانا، ذرا جرأت ہی کا کام تھا۔
(4) اور اب تو وہ دونوں غریب بھی ڈی۔ ایچ، لارنس اور جوائس اور ان جیسے بیسیوں اہل قلم مردوں اور خاتونوں کے آگے گرد ہو کر رہ گئے ہیں۔
(5) ملاحظہ ہو انگلستان کے رسالہ Healfer Effeincy کے چند نمبر۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.