Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو کا جنم

فراق گورکھپوری

اردو کا جنم

فراق گورکھپوری

MORE BYفراق گورکھپوری

    ہندوستان کے مختلف حصوں میں عالموں کی زبان سنسکرت تھی۔ عوام کی زبان پراکرت تھی جسے اس زمانے کی ہندستانی یا اردو یا ہندی کہہ سکتے ہیں۔ جب مہاتما گوتم بدھؔ نے اپنا وعظ شروع کیا تو پراکرت بدل کر پالیؔ زبان کی شکل اختیار کرچکی تھی اور اپنے وقت کے عوام کی زبان یعنی پالیؔ میں مہاتما بدھ نے دھرم پرچار شروع کیا۔ پہلے پہل مہاتما بدھ کے ہاتھوں عوام کی زبان نے علمی و ادبی زبان کامرتبہ حاصل کیا اور بدھ علم و ادب کابہت بڑا حصہ پالی زبان میں ملتا ہے۔ زمانہ گزرتا گیا اور اندازاً ایک ہزار برس تک پالی زبان اور پالی ادب کا بول بالا رہا۔ پھرہندوستان کے مختلف حصوں میں پراکرت اور پالی بدل کر کچھ سنسکرت الفاظ کو بھی زبان میں شامل کرتے ہوئے کئی زبانیں بن گئیں جیسے بنگالی، مراٹھی، گجراتی، سندھی، ہندی، پنجابی وغیرہ۔ دکن کی زبانیں جیسےتامل، تلگو، کندی وغیرہ کو بھی دکھنی ہند کی پراکرت اور پالی کی بدلی ہوئی شکل سمجھنا چاہیے۔ یہ بات ہے اب سے لگ بھگ ایک ہزار برس کی۔ابھی تک عوام کی یہ مختلف زبانیں بولیوں کی شکل میں تو بنتی جارہی تھیں لیکن مسلمانوں کے آنے سے پہلے اتنی ترقی نہیں کرسکی تھیں کہ علمی و ادبی زبان کا مرتبہ حاصل کریں۔ بلکہ پالیؔ کے زوال کے بعد ہندستان کے مختلف حصوں میں علم و ادب کی روایتیں ازسرنو سنسکرت میں زندہ ہوگئی تھیں۔

    اب محمد بن قاسم کی فوج کے پاؤں جم جاتے ہیں تو مسلمان اتری ہند کی طرف بڑھتے ہیں اور راستے میں مہاراشٹر اورگجرات ہوتے ہوئےاور اپنے قبضے میں کرتے ہوئے پنجاب پہنچ جاتےہیں۔ پھر دلی پہنچ کر دوآبہ گنگ و جمن کی طرف مڑتےہیں، پھر صوبۂ بہار اور اس کے بعد صوبہ بنگال تک پھیل جاتے ہیں۔ اُتری ہند پر چھاکریہ گھٹا پھر دکن کی طرف مڑ جاتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ ہندستان کی مختلف زبانوں پر اس کا کیا اثر پڑا۔ اس بات کا جان لینا ضروری ہے کہ جو مسلم آبادی اس وقت ہندستان میں نظر آتی تھی اس میں اب صرف ایک یا دو فی صدی ایسے لوگ تھے جو عرب یا ایران سے آئے تھے، باقی ہندستان کے ہی وہ ہندو تھے جو اب مسلمان ہوگئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے جیسے اسلام یا اسلامی آبادی پھیلتی گئی۔ بجائے عربی، افغانی، ترکی و فارسی کے ۹۹فی صدی مسلمانوں کی زبانیں سندھی، گجراتی، مراٹھی، پنجابی، ہندی اور بنگالی ہوتی گئیں۔ مذہب مٹایا جاسکتا ہے،زبان مٹائی نہیں جاسکتی۔ کم سے کم مذہب یاحکومت کے ہاتھوں۔ ہاں مذہب و حکومت کا یہ اثر ہندستان کی زبانوں پر ضرور ہوا کہ ہر زبان کی لغت میں بہت سے فارسی عربی اور کچھ ترکی یا دیگر الفاظ کا اضافہ ہوگیا۔ سندھی کا رسم الخط بھی عربی یا عربی نما ہوگیا اور سندھی زبان میں بہت کثرت سے عربی فارسی الفاظ شامل ہوکر جزو زبان بن گئے۔ گجراتی او رمراٹھی میں اس کثرت سے تو نہیں لیکن پھر بھی بہت بڑی تعداد میں عربی فارسی الفاظ اس طرح شامل ہوگئے کہ وہاں کے ہندومسلمانوں کو عام طور سے اب اس کی پہچان تک نہیں رہی کہ ان الفاظ کی جنم بھومی ایران ہے یا عرب۔ لیکن گجراتی اور مراٹھی کا رسم الخط فارسی یا عربی رسم الخط نہیں بن سکا بلکہ وہی قدیم دیوناگری رسم الخط بخفیف ردوبدل جیسا پہلے سے تھا بجنسہ قائم رہ گیا اور نہ زبان کا نام بدلا۔ پنجابی کا رسم الخط گرمکھی بھی جو دیوناگری کی بدلی ہوئی شکل ہے قائم رہ گیا، زبان کا نام بھی پنجابی قائم رہا۔ مگر فارسی عربی الفاظ کثرت سے پنجابی زبان کے جزو بن گئے۔ اب رہی ہندی زبان جو آدھے ہندستان بلکہ اس سے بھی زیادہ حصے میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس کادیوناگری رسم الخط قائم رہا۔ لیکن اس کی لغت میں ہزاروں فارسی عربی الفاظ شامل ہوگئے۔ بنگالی رسم الخط قائم رہا۔ لیکن بنگلا زبان میں بہت بڑی تعداد میں عربی فارسی الفاظ شامل ہوگئے۔ دکھنی ہند سے تو قبل از اسلام بھی عربوں کا تعلق رہا اور دکنی زبانوں کا رسم الخط نہ بدلا لیکن عربی الفاظ کھلے یا چھپے طریقے سے وہاں کی بولیوں میں ملتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو ایک باتیں بڑی دلچسپ ہیں۔ سندھی، گجراتی، مراٹھی، پنجابی، ہندی، بنگالی اور دکنی زبانوں میں بلکہ ان زبانوں کی مختلف مقامی بولیوں (Dialects) میں بھی مختلف عربی فارسی الفاظ جذب ہوئے یعنی اگر سندھی نے کچھ عربی فارسی الفاظ لیے تو یہی ہندی میں ہوا۔ مراٹھی میں بھی ہوا اور بنگالی میں بھی۔ فرنویسؔ مراٹھی زبان کا لفظ مانا جاتا ہے۔ کچھ مراٹھی ناموں کا جزویہ لفظ ہے۔ جیسے نانا فرنویسؔ۔ حقیقت میں یہ لفظ فردنویس تھا۔ بنگالی تکیہ کو بے تکلف بالشِ کہتے ہیں۔ جو دلیؔ یا لکھنؤ کا بڑے سے بڑا اردو ادیب یا فارسی عربی کاعالم کبھی نہیں بولتا اور بغیر اضافت کبھی نہیں لکھتا۔ بنگالی قبر کو گور کہتے ہیں یعنی جہاں قبر دیکھی بے تکلف کہیں گے کہ وہ دیکھو گور۔ اس طرح یہ لفظ اردو والے کبھی نہیں بولیں گے۔ پورب میں ایک گاؤں کانام کراول ہے جو قرۂ اول کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ اسی طرح مجوری اس صوبے کی گنواری بولی کا لفظ ہے۔ اصل میں مزدوری تھا۔ لیکن مزدوری یا مجوری ہندستان کی کسی اور زبان میں نہ ملیں گے۔ پورب کے دیہاتوں میں دو لفظ اور بولے جاتے ہیں مثلاً کہتے ہیں کہ فلاں کھیت بہت دار ہے (دار بمعنی رکھنے والا) یعنی بڑا اپجاؤ یا زرخیز ہے۔ اردو میں یا فارسی تک میں خالی دار نہ بولاجائے گا نہ لکھا جائے گا۔ دوسرا لفظ ہے سیار۔ کہتے ہیں کہ فلاں چیز یا کام سیار پڑے گا۔ یعنی اس میں برکت ہوگی۔ یہ لفظ اصل میں بسیار تھا۔ غرض کہ دکنی زبانوں میں سندھی، گجراتی، مراٹھی، بنگلا میں ہندستان کے لاکھوں گاؤں کی بولیوں میں مختلف طبقوں اور پیشہ والوں کی بولیوں میں عربی اور فارسی کے ایسےالفاظ روزمرہ اور محاورہ میں شامل ہوگئے ہیں جو معرب سے معرب اردو میں نہیں لائے جاتے۔ پورب کے ایک دیہاتی نے ایک سانڑ کو دیکھ کر کہا کہ بڑا جید سانڑ ہے۔ جید استاد تو سب نے سنا ہے لیکن جید سانڑ؟۔ غرض کہ ہر جگہ لوگوں نےان فارسی و عربی الفاظ کو اپنا لیاجنہیں اپنی پسند اپنے مزاج یا اپنی بولی کے موافق پایا۔ اگر ہندستان کی سینکڑوں بولیوں کی مکمل لغت بنے تو ایسےایسے عربی و فارسی الفاظ ملیں گے جن کی خبر ندوہ اور دیوبند کے علما کو بھی نہیں ہے۔

    اگرچہ براعظم ہند میں ایک ہزار سے زیادہ بولیاں ہیں اور لگ بھگ دودرجن ایسی مستند زبانیں ہیں جن کا ادب موجود ہے۔ لیکن آدھے سے زیادہ ہندستان کی زبان ہندی ہے۔ یہ ہندی زبان مسلمانوں کے آنے سے پہلے بھی ہندستان بھر میں کم و بیش سمجھی اور ٹوٹی پھوٹی شکل میں بول بھی لی جاتی تھی۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہندوؤں کی تمام مذہبی اور تہذیبی و تمدنی روایتوں کا گہوارہ گنگا کا دوآبہ رہا ہے۔ ہندوؤں کی تمام تیرتھ گاہیں (تیرتھ گاہ کی ترکیب بھی قابل توجہ ہے) شمالی ہند میں ہیں اور جنوبی ہند میں ہیں۔ وہ بھی رام اور کرشن سے متعلق ہیں۔ ہندوؤں میں نہان اور اشنان کے تیوہار وہی اہمیت رکھتےہیں جو مسلمانوں میں حج کعبہ کو حاصل ہے۔ ہزارہا برس سے ہر سال پریاگ کے سنگم پر، ہردوار میں اور بنارس میں، گیا میں اور جگناتھ پری میں نہان کےمیلے ہوتے ہیں۔ اجودھیا میں بھی اشنان کامیلا ہوتاہے اور متھرا برندابن کی زیارت بھی ملک بھر کے ہندو کرتےہیں۔ پرانے زمانے میں شمالی ہند کے ان مقامات کا سفر کروڑوں ہندو ہرسال کرتے تھے اور اس جاترا میں سال دو سال لگ جاتے تھے۔ یعنی مدراسی، گجراتی، مراٹھی، بنگالی کروڑوں ہندوؤں کو شمالی ہند کی لمبی سیاحت کا موقعہ ملتا تھا۔ اس طرح ہندی زبان یا شمالی ہند کی زبان مسلمانوں کے آنے سے پہلے ہی قومی یا ملکی زبان یا مشترکہ زبان کی حیثیت حاصل کرچکی تھی۔ مذہب اس کا محرک اور سبب تھا۔

    اردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔ ڈیڑھ سو برس پہلے تک ہندستان کی کسی زبان کا نام اردو نہیں تھا۔ مغل لشکر کا نام البتہ اردوے معلیٰ تھا۔ لشکر اور لشکر کے بازار کےلیے اردو لفظ استعمال ہوتا تھا۔ بعد کو لشکر اور لشکر کے بازار کی مخلوط بولی یا زبان کا نام اردو پڑ گیا۔ یہ بولی تھی تو دلی کے اطراف کی ہندی جسے پچھاہیں ہندی یا کھڑی بولی کہتے ہیں اور اس بولی میں غیرہندی یعنی فارسی عربی الفاظ جو شامل ہوئے ان سے مل کر اردو زبان بنی۔ لیکن یہ فارسی عربی آمیز ہندی بولی محض بازاری اور کاروباری بول چال تک محدود تھی۔ یہ بولی لکھی نہیں جاتی تھی اور اگر لکھی جاتی تھی تو مسلمان اسے فارسی حروف میں لکھتے تھے اور ہندوؤں کی اکثریت ناگری حروف میں لکھتی تھی۔ ادب یا شاعری اس زبان میں بہت دنوں تک نہیں کی گئی۔ امیرؔ خسرو نے تفنن طبع یا تجربہ کے لیے کچھ سطحی چیزیں ضرور عوام کی دلچسپی کے لیے کہیں جن کی تاریخی اہمیت مسلم لیکن جن کی کوئی خاص ادبی اہمیت نہیں ہے۔ ہاں مہاتما کبیر کا سب کلام تو نہیں لیکن ان کے کلام کا ایک حصہ ایسا ضرور ہے جس میں کھڑی بولی یا مغربی ہندی میں ادب کی تخلیق ہوئی۔ لیکن جہاں تک لغت کاتعلق ہے کبیر کی ان تصنیفوں میں فارسی عربی الفاظ نہیں ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن برج بھاشا یا اودھی یا ہندی زبان کی دیگر شکلوں سے ان تصنیفوں کی شکل مختلف ہے۔ یہ اختلاف افعال (Verbs) کے استعمال میں نظرآتا ہے یعنی برج بھاشا یاہندی کی اور شکلوں کے افعال کے بدلے اطراف دلی میں جو افعال کی شکلیں رائج تھیں وہی کبیر نے بھی اپنی کچھ تصنیفوں میں استعمال کیں۔

    مثلاً،

    کرے سنگار نار البیلی ساجن کے گھر جانا ہوگا۔

    یا

    مٹی اوڑھنا مٹی بچھونا مٹی کا سرہانا ہوگا۔

    جانا ہوگا، سرہانا ہوگا۔ یہ وہ ٹکڑے ہیں جسے ملک محمد جائسی، تلسی داس، سورداس وغیرہ ہرگز نہ لکھتے۔ غرض کہ کبیرؔ کی یہ تصنیفیں اس ’’اردو‘‘ میں ہیں جس میں انشا نے رانی کیتکی کی کہانی لکھی یا جیسے حضرت آرزو خالص اردو کہتے ہیں۔ کبیرؔ کے بعد جو ہندی ادب آیا اس میں کھڑی بولی یا دلی کی بولی بالکل ترک کردی گئی اور جہاں تک اتری ہند کا تعلق ہے ادب و شاعری کی زبان یا تو فارسی تھی یا پھر برج بھاشا یا وہ زبان جسے ملک محمد جائسی اور تلسی داس نے استعمال کیا۔ یعنی اودھی۔ رحیم خانخاناں جتنے کامیاب فارسی کے شاعر ہیں۔ ہندی کے بھی اتنے ہی کامیاب شاعر ہیں۔ ان کا ہندی اور فارسی کلام اونچے سے اونچے طبقوں میں قبول عام کامرتبہ حاصل کرچکا ہے۔ غرض شمالی ہند خصوصاً دلی میں اگرچہ مستقل ادبی تصنیفیں اردو زبان میں تیار نہیں کی گئیں لیکن اطراف دلی کی ہندی میں فارسی عربی کے جوٹکڑے شامل ہوگئے تھے ان سے مل کر جو زبان ہی تھی (جسے ہم فارسی آمیز دہلوی کہہ سکتے ہیں)۔ اس پر جلا ہوتی گئی، وہ مہذب طبقوں میں بلکہ عوام دہلی کے طبقوں میں بھی بحیثیت بولی کے منظم ہوتی گئی ،چمکتی گئی بنتی اور سنورتی گئی۔ اس زمانے میں اگرچہ سندھی، مراٹھی، گجراتی اور بنگالی زبانوں میں فارسی عربی الفاظ سمیت نثرونظم کی تصنیفیں ہوتی رہیں لیکن ان میں اور دہلی کی زبان کی اس نئی شکل میں ا یک فرق تھا۔ دہلی کا شہر مغل سلطنت کا مرکز تھا۔ اس لیے اگرچہ ابھی دہلی کی بولی میں ادب کی تخلیق نہیں ہو رہی تھی۔ پھر بھی دہلی کی بولی میں جو رچاؤ پیدا ہوتا جارہا تھا۔ اس سے سندھی، مراٹھی، گجراتی اور بنگالی زبانیں محروم تھیں۔ فارسی عربی ان زبانوں میں بھی آگئی تھیں۔ لیکن اس خوش سلیقگی اور اس انداز سے نہیں جس طرح دہلی کی ہندی میں آئی تھیں۔ پھر ان زبانوں کے جو اپنے الفاظ اور فقرے تھے انہیں بھی کھراد پر چڑھنے کا، سان اور لچک، لوچ ار نزاکت، تابندگی، رنگینی اور لطافت، فصاحت اور بلاغت حاصل کرنے کے وہ موقعے اور سہولتیں حاصل نہیں تھیں جو دلیؔ کی بولی کو حاصل تھیں۔ ان زبانوں کی فصاحت و بلاغت اور زور کلام کی بنیاد نوے فیصدی سنسکرت الفاظ اور سنسکرت کے ٹکڑوں پر تھی۔ ٹھیٹھ حصہ ان زبانوں کا کافی حدتک کھردرا رہ گیا تھا اور اب تک ہے۔ خود ہندی کے ادب میں خصوصاً ٹھیٹھ زبان کی اور ٹھیٹھ رچے ہوئے فقروں کی وہ وسعتیں وہ فصاحتیں اور بلاغتیں نہیں ہیں جو دلیؔ کی بولی میں پیدا ہوتی جارہی تھیں۔ اب دلیؔ کی بولی کو ادب کی زبان اور بلند ترین شاعری کی زبان بن جانے کا انتظار تھا۔ لیکن فارسی ادب اور عربی کی علمی کتابوں کا رعب اور اثر اتنا زبردست تھا کہ دلیؔ کے ادبا یا تو چپ تھے یا فارسی ہی میں نثرونظم کہہ کر ادبی تشنگی کی تشفی کرلیتے تھے۔ وہ اس حقیقت کو پہچان نہیں سکتے تھے کہ ملکۂ فارسی کے رعب و تمکنت کے باوجود دلیؔ کی خانہ زاد بولی کا اٹھان کچھ اس انداز سے ہو رہا تھا کہ ایک نہ ایک دن آنکھیں پڑ ہی جائیں گی۔

    لیکن جو اسلامی سلطنت دکن میں قائم ہوئی تھی اور جو اتری ہند سے چھپا ہی ہندی یا اردو زبان اپنے ساتھ دکن میں لے گئی تھی اور جس کے نوآباد معاونوں اور لشکروں کی بولی پر دکنی زبانوں کے الفاظ اور لب و لہجہ کی پرچھائیاں بھی پڑ رہی تھیں پہلے پہل اردو نثر و نظم کی تصنیفوں کی طرف مائل ہوئی۔ اردو زبان دکن میں پیدا نہیں ہوئی نہ پیدا ہوسکتی تھی۔ لیکن کچھ یا بہت کچھ دکنی مائل اردو میں ادبی تصنیفوں کا آغاز اس زمانے میں یعنی اب سے کم و بیش تین سو برس پہلے دکن میں ہوا۔ اُتری ہند سے جاکر دکن میں بسی ہوئی آبادی دکنی زبانوں اور اہل دکن سے گھری ہوئی تھی۔ درمیانِ قعر دریا تختہ بندم کردۂ، والا اور دامن ترمکن ہشیارباش، والا معاملہ تھا۔ وطن سے چھٹ کر دکن میں جابسنے والی نوآبادی کو وطن کی بولی کی محبت ستانے لگی، اس بولی کی قدریں ان پر کھلنے لگیں اور قفس میں پھنس کر اردو کا بلبل ایسے تیز سروں میں چہکنے لگا، وطن سے بیوگ کی ایسی آگ اس کی آواز میں تھی کہ بازار کی بولی نغموں میں بدل گئی۔ فارسی شاعری کی آواز بھی اس ہندی آواز میں مل گئی اور یوں اردو شاعری کا آغاز ہوا۔ بادشاہوں نے اپنی بیگمات اور محبوبہ عورتوں کی شان میں غزلیں اور نظمیں کہیں۔ یہ عورتیں چونکہ ہندی نژاد تھیں اور جب محرم میں فارسی کے مرثئے سنتی تھیں تو سمجھ نہیں پاتی تھیں اور رقت کے بندوں پر ماتم نہیں کرسکتی تھیں اس لیے دکنی اردو میں مرثیے بھی کہے جانے لگے۔ پھر یہ عورتیں چونکہ ہندو بھی رہ چکی تھیں اور ہندو روایتوں کا اثر تبدیل مذہب کے بعد بھی دلوں میں لیے ہوئے تھیں اس لیے رامائن اور مہابھارت کی کتھاؤں کو بھی دکنی اردو کے نغموں کے سانچوں میں ڈھالا گیا۔ قلی شاہ اور دیگر مسلم عمائد اور اُدبا نے جن میں سعدی دکنی، بحری وغیرہ بہت مشہور ہیں سو برس کے اندر نغموں کاانبار لگا دیا۔ پھر کثیر ہندو آبادی سے گھر کو مذہب و تصوف کی تلقین کے لیے شاہ گیسو دراز وغیرہ فقراء نے نثر میں علمی و مذہبی کتابیں لکھیں اور اس طرح بول چال کی زبان لکھنے پڑھنے کی زبان بن گئی۔ نثر و نظم دونوں میں یہ زبان دلیؔ کی خاص اردو نہیں رہ گئی تھی۔ بلکہ دکنی اردو تھی، مگر تھی اردو ہی۔ آج بھی جب دکن میں بسے ہوئے اردو بولنے والوں کی زبان بہت کچھ سدھر گئی ہے حیدرآباد کے شاہی خاندان اور حیدرآباد کے ان ہندومسلمان جاگیرداروں، رئیسوں اور متوسط و عام طبقے کے لوگوں کی زبان جو اتری ہندستان سے وہاں جابسے ہیں دکنی مائل ہے۔

    غرض دلیؔ میں ابھی اردو ہونٹوں ہی پر نکھر رہی تھی کہ دکن میں وہ صفحۂ قرطاس پر اپنا نکھار دکھانے لگی۔ وقت گزرتا گیا اردو بولی دلی میں حسین سے حسین تر ہوتی گئی اور اردو ادب دکن میں بنتا گیا۔ یہاں تک کہ شاہ حاتم اور مظہر جانجاناں کے زمانے میں ولیؔ دکنی نے ردیف دار اپنا ضخیم دیوان مرتب کرکے دکن سے دلی کا رخ کیا۔ یہ سمجھ کر کہ اہل دکن اہل ادب سہی لیکن اہل زبان دلی والے ہی ہیں۔ دلیؔ کے فارسی پڑھے لکھے اور فارسی میں کہنے والے اُدباء یہ دیکھ کر پھڑک گئے کہ ان کی گھریلو اور بازاری بولی ولیؔ کے دیوان میں منظم ہوگئی ہے اور فارسی غزلوں کے نقش قدم پر چلتی نظر آرہی ہے۔ البتہ کہیں کہیں محاوروں سے، دلیؔ کے روزمرہ سے، دلیؔ کی ٹکسالی زبان سے کچھ دور جاپڑی ہے انہوں نے ولیؔ کا خیرمقدم کیا۔ اور کہیں کہیں جو ولیؔ کو اصلاحیں دیں تو اسی بہانے فارسی گوئی ترک کرکے اردو غزل گوئی کی طرف مائل ہوئے۔ اس طرح وہ ولیؔ کے استاد بنے اور ولیؔ ان کا استاد بن گیا اور یوں ولیؔ کی مستند ٹکسالی اور رچی ہوئی اردو میں شاہ حاتم، مظہر جانجاناں اور ان کے جلیسوں اور ہمنواؤں نے شاعری شروع کی۔ پھر ان کے بعد تو اردو ادب کے چار رکن ایوان اردو کو اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں، یعنی میرؔ، سوداؔ، سوزؔ اور دردؔ۔

    اس کے بعد سے اردو زبان میں کچھ اور عناصر شامل ہوتے گئے، مثلاً ’نے‘ کا لفظ جو پنجاب سے آیا لیکن اردو میں اسے صیغۂ ماضی کے لیے چند حالتوں میں استعمال کیا گیا اور زبانوں کے کچھ الفاظ بھی شامل ہوتے رہے اور ہوتے جارہے ہیں۔ لیکن فرہنگ آصفیہ کے مطابق اردو لغت سات ہزار عربی الفاظ، چھ ہزار کے قریب فارسی الفاظ اور چالیس ہزار دیگر الفاظ جن میں انتالیس ہزار کے قریب ٹھیٹھ ہندی یا اطراف دلیؔ کی ٹھیٹھ زبان کے الفاظ ہیں، یعنی باون ترپن ہزار الفاظ پر مشتمل ہے۔ نظیرؔاکبر آبادی نے اپنی تصنیفوں میں کئی ایسے الفاظ بھی رکھے جو یا تو آگرے کی طرف کے ہیں یا پھر نظیرؔ کے خودساختہ الفاظ ہیں۔ اہل لکھنؤ نے کچھ الفاظ اور کثیر تعداد میں محاوروں اور اصطلاحوں کا اضافہ کیا۔ صوبہ بہار کے کچھ ادبا ءجیسے نواب ناصر خیال اور شادؔ عظیم آبادی نے اور پنجاب کے اُدباء نے کچھ یا کئی اپنے یہاں کے مقامی خصوصیات کا اضافہ بھی اردو میں کیا۔ میں نے اپنی کچھ تصنیفوں میں سنسکرت کے نئے الفاظ اردو فقروں میں اسی طرح جڑنے کی کوشش کی ہے کہ زبان کو چار چاند لگ جائیں۔’’ جھلکیاں ‘‘کے نام سے میری یہ تصنیف جن میں حسن و عشق پر پونے چارسو رباعیاں ہیں زیر طبع ہے۔

    یوں ملتی اور بنتی جارہی ہے اردو زبان۔ اسے دربار کی زبان سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ یہ عوام کی زبان ہے۔ اردو ادب خصوصاً اردو شاعری کے سب سے زیادہ جگمگاتے ہوئے اور مترنم و بااثر حصے دیسی الفاظ اور دیسی بولی کے ٹکڑے ہیں۔ ان کو بلند خیال ادا کرنے والے بیان میں کھپانا استادوں ہی کا کام ہے۔ مقامی بولی کو اردو نے وہ ترقی دی اس میں اتنی رساکاری اور لچک پیدا کردی کہ ادیب کی شخصیت اور فن کاری اردو نثر و نظم کے گوناگوں اور رنگارنگ اسالیب بیان میں جھلکنے لگی۔ اردو نثر و نظم کی مسلسل اور رنگارنگ تاریخ بن گئی۔ رجب علی بیگ سرور اور فورٹ ولیم کالج والوں کی نثر دیکھیے، خطوط غالبؔ کی نثر دیکھیے، محمد حسین آزادؔ اور ابوالکلام آزاد کی نثریں دیکھیے، شبلی کی نثر، سرشار کی نثر، پریم چند کی نثر، رشید صدیقی کی نثر، نیازؔ فتحپوری کی نثر، غرض یہ کہ متعدد صاحب طرز نثر نگاروں کے اسالیب اسی بولی سے پیدا ہوئے اور یہی شاعری میں بھی ہوا۔ غالبؔ، داغؔ، انیسؔ، حالیؔ، اکبرؔ، جوشؔ، اقبالؔ اور بہت سے ایسے صاحب طرز شعرا ءپیدا ہوئے جن میں ہر ایک نے قوم کی زبان کو اپنی آواز کے سانچے میں ڈھال دیا۔ یعنی مختلف اسالیب اردو میں ممکن ہوگئے جو محض ایک مقامی بولی میں نہیں ملتے جب تک وہ پنپ کر اور پروان چڑھ کر مقامی سے ملکی بولی نہ بن جائے اور اس میں تخلیق ادب کی صلاحیت نہ آ جائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے