اردو کا واعظ شاعر
آج سے کوئی ۲۵ سال ادھر کی بات ہے۔ الہلال افق کلکتہ سے نیا نیا طلوع ہوا تھا اور ملک کی ساری فضا ابو الکلامی ادب و انشاء کے غلغلہ سے گونج رہی تھی، کہ ایک روز اس کے کسی مقالہ کے ذیل میں یہ شعر نظر سے گزرا،
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب
بڑھتا ہے اور ذوقِ گنہ یاں سزا کے بعد
پڑھتے ہی طبیعت بے چین ہو گئی، لطف لے لے کر خدا جانے کتنی بار پڑھا، درج صرف شعر تھا شاعر کا نام نہ تھا، دل نے کہا اور اس کہنے میں تامل وتذبذب کی کوئی ضرورت نہ سمجھی کہ شعر غالب کا ہے، دیوان غالبؔ میں پڑھنا یاد اگر نہیں پڑتا، نہ سہی، دیوان مطبوعہ میں اگر موجود نہیں نہ ہو، رہ گیا ہوگا۔ لیکن ہے یقیناً غالب کا۔ اس مسلم استاد کے سوا اور کون ایسا کہہ سکتا ہے؟ غالبؔ کا اتنا پختہ رنگ بجز خود غالبؔ کے اور کہیں مل ہی کہاں سکتا ہے؟
حاضری اسی درمیان میں ایک روز مولانا شبلی کے ہاں ہوئی (اکثر ہوتی ہی رہتی تھی۔) ذکر اس شعر کا آیا، ارشاد ہوا کہ غالبؔ کا نہیں حالیؔ کا ہے۔ ہائیں یہ کیا ارشاد ہوا؟ کہاں مولوی حالیؔ اور کہاں یہ شعر؟ بے چارے ایک سیدھے سادے واعظ قسم کے آدمی، روکھے پھیکے اشعار کے ناظم، انہیں غزل اور پھر غزل کے کسی پھڑکتے ہوئے شعر سے مناسبت کیا؟ شعر کے سارے تیور استاد غالب کے، تخیل وہی، بند ش وہی، زبان وہی، حالیؔ کے کلام میں نہ حسن بیان، نہ لطف زبان، نہ یہ روح، نہ یہ جان!، نہ تخیل میں رعنائی، نہ طرز ادا میں زیبائی! غرض دل نے کچھ جھنجھلاکر اور کچھ خفیف ہوکر یہ ساری جرحیں کر ڈالیں لیکن حقیقت بہرحال حقیقت ہی رہتی ہے۔ دیوان حالی اٹھاکر دیکھا تو غزلیات کی ردیف دال میں شعر اپنی جگہ پر موجود!
کون حالی؟ وہی جن کے تغزل وتشبیب کی کوئی وقعت دل میں تھی ہی نہیں، بس شروع سے یہ خیال ہوا تھا کہ غزل کی رنگینیوں اور رنگین بیانیوں سے انہیں واسطہ کیا، ایک خشک نظم نویس، کلام میں عاشقانہ مضامین کا قحط، بندشیں سست، خدا غریق رحمت کرے دور اول کے اودھ پنچ کو اور بھلا کرے اس کے نقادان فن اور شہسوار سخن کا۔ یہ اسی کا فیض تھا کہ کہ ایک عامی اور مبتدی طالب علم ہی کے نہیں خدا جانے کتنے پڑھے لکھوں، پختہ کاروں، لائق فائق زباں دانوں کے دل میں بس یہی رچا ہوا تھا۔ ادھر حالی کا نام آیا اور ادھر کلام کی بے نمکی، بے اثری، روکھے پن کی تصویر آنکھوں ک سامنے پھر گئی!
بات دل سے نکلتے ہی نکلتی ہے، اس ایک شعر سے کیا ہوتا ہے۔ شعر کیسا ہی بامزہ سہی، بہرحال ہے تو ایک ہی۔ اور دو ایک بامزہ شعر کس کے ہاں نہیں ملتے؟ مشق کرتے کرتے معمولی شاعر بھی دوچار شعر تو اچھے سے اچھے نکال ہی لاتا ہے۔ اچھا تو آج کی صحبت میں یہی نہ ہوکہ ہم آپ مل کر دیوان حالی کے اوراق الٹ پلٹ، ادھر ادھر سے دیکھ ڈالیں۔ عجب نہیں کہ کچھ اور چیزیں بھی ہاتھ آجائیں اور یہ گھنٹہ پون گھنٹہ کی محنت محض رائیگاں نہ جائے۔ دیوان کھولیے ردیف الف میں ایک مطلع یہ ملےگا،
فطرت میں تری صوفی، گر نور صفا ہوتا
تو سب میں ملا رہتا اور سب سے جدا ہوتا
اس غزل میں فرماتے ہیں،
ہم وقتِ وداع ان سے ہنس ہنس کے ہوئے رخصت
رونا تھا بہت ہم کو روتے بھی تو کیا ہوتا
وداع و رخصت کے بڑے برے رقت انگیز مضمون آپ کی نظر سے گزر چکے ہوں گے لیکن حسرت ویاس کی جو تصویر اس رونے میں نہیں، ہنسی میں دکھا دی گئی ہے، اس کا بھی کوئی جواب ہے؟ اور پھر فرماتے ہیں،
جو جان سے درگزرے، وہ چاہے سوکر گزرے
گر آج نہ تم آتے کیا جانیے کیا ہوتا
عاشق کی جانبازی کے افسانے بھی بھی سب دہراتے چلے آئے ہیں لیکن اس ’’کیا جانیے کیا ہوتا‘‘ کے کنایہ کے اندر جو بات ہے، وہ کی تصریح کے بعد پیدا ہونی ممکن ہے؟ ناصح اور عاشق کی مڈبھیڑ دنیائے شاعری کی بڑی پرانی حکایت ہے حالی بھی ایک بار ملتے ہیں۔
جو دل پہ گزرتی ہے، کیا تجھ کو خبر ناصح
کچھ ہم سے سنا ہوتا، پھر تونے کہا ہوتا
حالی نہ لڑتے ہیں نہ جھگڑتے، ایک آہ سرد بھر کر صرف اتنا کہتے ہیں اور کہہ کر چپکے ہوجاتے ہیں کہ، کچھ ہم سے سنا ہوتا، پھر تونے کہا ہوتا۔ ناصح کو بے درد، بے حس، سب نے مانا ہے، یہاں عاشق کو اپنی داستان درد کی درد انگیزی پر اس درجہ اعتماد ہے کہ اس کے خیال میں وہ ناصح کے دل پر اثر کیے بغیر رہ نہیں سکتی، پتھر آخر کیسے موم ہوکر نہ رہےگا، کوئی فولاد اتنا گرم ہوبھی تو۔ نشان نہ تھا، گمان نہ تھا، اس زمین میں خوب خوب گل بوٹے کھلائے ہیں،
آتے ہی ان کے بھول گئیں کلفتیں تمام
گویا ہمارے سرپہ کبھی آسماں نہ تھا
رونا یہ ہے کہ آپ بھی ہنستے تھے ورنہ یاں
طعن رقیب دل پہ کچھ ایسا گراں نہ تھا
تھا کچھ نہ کچھ کہ پھانس سی اک دل میں چبھ گئی
مانا کہ اس کے ہاتھ میں تیر و سناں نہ تھا
کہیے خشک نظم نگاروں کا کلام ایسا ہی ہوتا ہے؟ اور آگے چلیے،
بزم دشمن میں نہ جی سے اترا
پوچھنا کیا تیری زیبائی کا
بدگمانی کے لیے غیر کا سایہ پڑ جانا بھی کافی ہو جاتا، یہاں عین بزم رقیب میں رونقِ محفل بنا ہوا دیکھتے ہیں اور یہ کمال دل ربائی ہے کہ جی پھر بھی نہ ہٹا۔ کمال اپنا نہیں، اپنے وفورعشق کا نہیں، تمام تر انہیں کا، انہیں کے حسن بے پایاں کا ’’ پوچھنا کیا تیری زیبائی کا۔‘‘ گویا جمال بھی انہیں کا اور کمال بھی انہیں کا۔ غالب کا مشہور مطلع ہے،،
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
یہی زمزمہ ذرا حالی کی زبان سے سنیے اور واہ واہ کرتے رہ جائیے،
تھی ہر نظر نہ محرم دیدار ونہ نہ یاں
نہ خار نخل ایمن و ہرسنگ طور تھا
تجلیات حق کہاں نہیں؟ دکھائی نہ دیں تو قصور اپنی نظر کا ہوا یا حسنِ نا محدود کا؟ شعر یہ کہا ہے اور اپنی ساری متانت و ثقاہت کے باوجود، حضرت زاہد کے دامن پر چھینٹے ڈالتے چلے گئے ہیں،
جانی نہ قدر رحمت حق پارسانے کچھ
ٹھہرا قصوروار اگر بے قصور تھا
زاہدوں کی قسمت میں تو مزدہی مزد ہے۔ محض رحمتِ حق کا نزول ظاہر ہے کہ انہیں پر ہوگا جو اپنی سیہ کاریوں کے باعث حقدار ذرا سے بھی اس رحمت کے نہ ہوں گے؟
شوخی اور طراری، دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور ظرافت کے لیے یہ ہرگز ضروری نہیں، کہ اس کے ڈانڈے عریانی وفحاشی سے مل مل جائیں۔ حالی شریف ہیں اور متین۔ اول میں بھی متین آخر میں بھی متین، ذہانت، شوخی، ظرافت، طنز، موجود ان کے ہاں سب کچھ لیکن متانت کی شان سب پر غالب، گویا حضرت اکبرالہ آبادی کا پورا جواب۔ یہاں ہر منظر پر ذہانت کا پردہ پڑا ہوا وہاں ہر چہرہ پر ظرافت کا غازہ لگا ہوا۔ ان کا یہ رنگ کہ روتے ہوئے کو بھی گدگداتے جائیں۔ ان کا یہ بھی ڈھنگ کہ ہنسی آئے بھی تو پہلے منہ پر رومال رکھا دیں۔ ایک کے ہاں تمام تر شوخی و رنگینی، دوسرے کے ہاں ایک ذرا اداسی اور غمگینی! ایک کے ہاں قہقہوں اور تالیوں کا شور، دوسرے کے ہاں ادب، لحاظ اور قاعدہ کا زور۔ ایک کی مجلس طرب افروز، دوسرے کی صحبت سبق آموز۔ ان کے میز پر شراب وکباب، ان کے دوا خانہ میں بید مشک اور عرق گلاب۔
باتیں سب عاشقوں والی کہے جاتے ہیں لیکن وہی
نالہ رکتا ہوا، تھمتی ہوئی فریاد رہے!
زبان سے جو بول ادا ہوتاہے نیچی نظروں، شرمیلی نگاہوں کے ساتھ۔ لغزش مستانہ کے بجائے ہر قدم سلامت روی کی تصویر، لیکن کلام میں حلاوت اس درجہ کہ پڑھتے جائیے اور دل ہی دل میں مزے لیتے جائیے،
دل سے خیال دوست بھلایا نہ جائےگا
سینے میں داغ ہے کہ مٹایا نہ جائےگا
مطلع تو معمولی ہے لیکن آگے گلکاریاں ملاحظہ ہوں،
تم کو ہزار شرم سہی، مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائےگا
راضی ہیں ہم کہ دوست سے ہو دشمنی مگر
دشمن کو ہم سے دوست بنایا نہ جائےگا
بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچتے ہیں،
کیوں چھیڑتے ہو ذکر نہ ملنے کا رات کے
پوچھیں گے ہم سبب تو بتایا نہ جائےگا
ذرا ان بزرگ کی کم سخنی ملاحظہ ہو۔ کچھ نہ کہنے پر سب کہہ جاتے ہیں، رات کے نہ ملنے کی وجہ ظاہرہے، وعدہ تھا کس سے اور پورا جاکر کہاں ہوا وہی ’’کجا می نماید کجا می زند‘‘ کی پرانی داستان، کوئی دوسرا شاعر ہوتا تو کھل کھیلتا اور ’’معاملہ‘‘ کے پہچان جانے کی علامتیں خدا جانے کیا کیا بیان کر جاتا۔ ایک حالی کی متانت ہے کہ صراحت الگ ر ہی، کسی اشارہ کے بھی روادار نہیں، وہی نیچی نگاہیں اور زبان پر صرف اس قدر کہ عپوچھیں گے ہم سبب تو بتایانہ جائےگا۔ پھر آگے کہتے ہیں،
ملنا ہے آپ سے تو نہیں حصر غیر پر
کس کس سے اختلاط بڑھایا نہ جائےگا
یہاں استاد مومن کا بھی ایک مطلع یاد کر لیجئے،
کیونکر یہ کہیں منتِ اعدا نہ کریںگے
کیا کیا نہ کیا عشق میں کیا کیا نہ کریںگے
خاکساری کے مضامین آپ نے بارہا سنے ہوں گے، کیسی کیسی نازک خیالیاں اس میں صرف ہو چکی ہیں اور تعلی تو ہمارے شاعر حضرات کی گویا جاگیر ہی ہے، اب ذرا دیکھیے کہ اردو کا واعظ شاعر ان دونوں اضداد کو کس بلاغت سے جمع کرتا ہے اور ایک مختصر سے شعر کے اندر کس نادر اور اچھوتے انداز سے تعلی سے خاکساری پیدا کر رہا ہے اور خاکساری سے تعلی نکال رہا ہے۔
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کر دیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
بیت الغزل سن چکے تو اب مطلع اور ایک آدھ شعر اور بھی ملاحظہ میں آ جائیں،
گو جوانی میں تھی کج رائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
وصل کے ہوہو کے ساماں رہ گئے
مینہ نہ برسا اور گھٹا چھائی بہت
آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت
کہیے اب بھی حالیؔ دہلی کے نرے کھرے ’’واعظ‘‘ رہے؟ وہی خشک اور بے مزہ پھیکی اور بے اثر نظم کہنے والے رہے؟ اور پھر اس غزل کے بعد یہ غزل،
ان کے جاتے ہی یہ کیا ہو گئی گھر کی صورت
نہ وہ دیوار کی صورت نہ وہ درکی صورت
کس سے پیمان وفا باندھ رہی ہے بلبل
کل نہ پہچان سکے گی گل تر کی صورت
واعظو آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے
یہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت
ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت
مقطع سے متعلق ایک لطیفہ، مولانا شبلی کی زبان سے سنا ہوا عرض کرنے کی اور اجازت دیجئے۔ علی گڑھ کے طالب علموں کی شوخیاں سارے زمانہ میں مشہور ہیں۔ حالیؔ کی یہ غزل جب اول بار شائع ہوئی تو کالج کے ایک نوجوان، داؤد احمد امروہوی مرحوم کو اس پر تضمین کی سوجھی۔ سننے کے قابل مقطع کا بند ہے،
چاہیے جبکہ ارادہ کرے کوئی انساں
دیکھ لے خوب کہ ہے شوق وہ اس کے شایاں
سن کے لوگوں سے کہ آئے تھے وہ داؤد کے ہاں
ان کو حالیؔ بھی بلاتے ہیں گھر اپنے مہماں
دیکھنا آپ کی اور آپ کے گھر کی صورت
تعزیر جرم عشق والا شعر شروع مضمون میں عرض ہو چکا۔ اب دوشعر اور اسی غزل کے پیش ہیں،
گر درد دل سے پائی بھی اے چارہ گرشفا
آتی ہے دل کی موت نظر اس شفا کے بعد
مدت سے تھی دعا کہ ہوں بدنام شہر شہر
بارے ہوئی قبول بہت التجا کے بعد
عاشقی میں بجز رسوائی اور بدنامی کے اور رکھا کیا ہے۔ عاشق کا کمال یہ ہے کہ اس زمانہ بھر کی رسوائی سے مغموم نہیں ہوتا۔ بچنا نہیں چاہتا ہے، الٹا خوش ہوتا ہے اور اس کی طلب و تلاش میں نکلتا ہے۔ معرفت کے رنگ میں یہ مطلع چھوڑتے نہیں بنتا،
ہے یہ تکیہ تیری عطاؤں پر
وہی اصرار ہے خطاؤں پر
اکبر نے بھی ایک مصرع میں یہی مضمون ادا کیا ہے۔ اسی کی عظمت سے کوئی خائف، اسی کی رحمت پہ کوئی غافل!
شاعر اردو کے تھے لیکن کہیں کہیں عربی مصر عے اس بے تکلفی، سلاست اور برجستگی کے ساتھ لگائے ہیں کہ جیسے شعر اپنی ہی زبان میں کہہ رہے ہیں۔
یاد میں تیری سب کو بھول گئے
کھودیے ایک دکھ نے سب امراض
دیکھیے تو بھی خوش ہے یا ناخوش
اور تو ہم سب سے ہیں کچھ ناراض
کہتے کہتے، کہتے ہیں،
لاابالی بان یعاتبنی
کل ناس وانت عنی راض
یہ وہی مضمون ہے جسے محمد علیؒ جوہرؔ اپنے رنگ میں یوں باندھ گئے ہیں،
کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے
ایک اور عربی مصرعہ اسی غزل میں،
ہے فقیہوں میں اور ہم میں نزاع
ہل لنا فی نزاعنا من قاض
لیجئے، دیوان کی جلدی جلدی ورق گردانی کرتے کرتے ہم آپ، ردیف میم تک پہنچ گئے۔ ایک غزل پر نظم جم کر رہ گئی۔ معاملہ بندی کی ساری نزاکتوں کے ساتھ ساتھ، یہ متانت، یہ احتیاط، یہ ضبط، حالی کا حصہ ہے،
آگے بڑھے نہ قصۂ عشق بتاں سے ہم
سب کچھ کہا مگر نہ کھلے رازداں سے ہم
اب بھاگتے ہیں سایۂ عشق بتاں سے ہم
کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم
جنت میں نہیں اگر اے زخم تیغ عشق
بدلیں گے تجھ کو زندگی جاوداں سے ہم
اب شوق سے بگاڑ کی باتیں کیا کرو
کچھ پا گئے ہیں آپ کی طرز بیاں سے ہم
یہ شعر اگر حالی کے دیوان سے نکال کر، مومن یا شیفتہ کے دیوان میں لگا دیے جائیں تو کسی کو کچھ پتہ بھی چلنے پائےگا؟ ’’گرانیاں، ’’کہانیاں ہیں‘‘ والی غزل اس زمانہ کی ہے جب حالیؔ شاعر، حالی واعظ کے قالب میں آچکے تھے، اس پر بھی ذیل کے دونوں شعر دیکھئے، شعر کی زمین ہے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے،
کہتے ہیں جس کو جنت وہ ایک جھلک ہے تیری
سب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیں
روتے ہیں چار ہم پر ہنستے ہیں چار ہم پر
یاں تک ہماری پہنچی اب ناتوانیاں ہیں
غزلوں کے متفرق اشعار کثرت سے گزر چکے، اب پوری غزل نمونہ کے طور پر ملاحظہ میں آجائے کہ انتخاب اشعار میں رورعایت کا شبہ نہ رہے، فرماتے ہیں اور ہر ہر شعر پر پڑھنے والے سے داد وصول کیے جاتے ہیں،
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
ہیں دور جام اول شب میں خودی سے دور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں
یارب اس اختلاط کا انجام ہو بہ خیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
اک عمر چاہئے کہ گوارا ہونیش عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاں
بس ہو چکا بیان کسل ورنج راہ کا!
خط کا میرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں
کون و مکاں سے ہے دل وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈھا ہے گھر کہاں
حالیؔ نشاط نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقت صبح رہے رات بھر کہاں
غزل نو شعر کی ہے، مراتب کا فرق یقیناً ان کے درمیان ہے لیکن فرمائیے اس میں پست ولغو شعر، نکال ڈالنے کے قابل کون سا ہے؟ کلام کی خشکی، اگر اسی کا نام ہے تو آخر’ تری‘ کے نمونے کہاں ملیں گے؟ ردیف یے، میں دو مختصر غزلیں ’گمان رہے، نشان رہے‘ کی زمین میں ہیں۔ اس زمین کے دو ایک شعر ایسے صاف، سجل اور گویا سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں کہ بے تکلف زبان پر چڑھ گئے ہیں۔
کل مدعی کو آپ پہ کیا کیا کیا گماں رہے
بات اس کی کاٹتے رہے اور ہم زباں رہے
دیروحرم کو تیرے فسانوں سے بھر دیا
اپنے رقیب آپ رہے ہم جہاں رہے
یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محو نالۂ جرسِ کارواں رہے
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یادرمیاں رہے
حسن قبول اگر ایسے کلام کو حاصل ہو جائے، تو اس پر حیرت ہی کیوں کی جائے۔ مغز و معنی سے قطع نظر سلاست، شستگی، روانی، بے ساختگی کسی حیثیت سے بھی یہ کلام کسی بلند سے بلند نمونہ سے پست ہے؟ کہنے والوں نے کہا ہے کہ حالی جب تک قدیم رنگ میں قائم رہے، اچھی اچھی غزلیں کچھ نہ کچھ بہرحال نکالتے رہی رہے مگر جب سے جدید رنگ میں پڑے، اپنی شاعری کو غارت کرکے رکھ دیا۔ یہ قول کسی حدتک تو شاید صحیح ہو لیکن تمام تر صحیح تو یقیناً نہیں۔ ابھی ابھی جو نمونے کلام کے گزر چکے، ان میں دس شعر اگر دور قدیم کے تھے تو چار دور جدید کے بھی۔ دونوں میں کوئی فرق و امتیاز محسوس ہوا؟ کلام جدید کے بہت سے نمونے اوپر گزر چکے، اب دوچار شعر اسی دور کی ایک اور غزل کے ملاحظہ ہوں،
جنوں کار فرما ہوا چاہتا ہے
قدم دشتِ پیما ہوا چاہتا ہے
بہت کام لینے تھے جس دل سے ہم کو
وہ صرف تمنا ہوا چاہتا ہے
ندرت قافیہ ملاحظہ ہو۔
وفا شرطِ الفت ہے لیکن کہاں تک
دل اپنا بھی تجھ سا ہوا چاہتا ہے
غمِ اشک کو تلخ سمجھے تھے ہمدم
سو وہ بھی گوارا ہوا چاہتا ہے
فزوں تر ہے کچھ ان دنوں ذوق عصیاں
درِ رحمت اب وا ہوا چاہتا ہے
خشکی اگر متانت بیان ہی کا دوسرا نام ہے تو یقیناً یہ اشعار بھی خشک ہیں، لیکن اگر متانت بیان عیب نہیں ہنر ہے، تو خدارا کوئی بتائے کہ خشکی کا اطلاق ایسے کلام پر کس طرح کیا جائے؟ غزلیات کا حصہ اب اچھا خاصا ہو چکا، عجب نہیں کہ اہل بزم، مقالہ نگار کی آشفتہ بیانی وژو لیدہ نگاری سے افسردہ وملول ہو چلے ہوں۔ اس لیے اب صرف ایک غزل اور اسی دور جدید کی سن کر یہ ورق الٹ دیجئے،
ملنے کی جو نہ کرنی تھی تدبیر کرچکے
آخر کو ہم حوالۂ تقدیر کرچکے
اے دل اب آزمائش کا ہے وقت
وہ امتحان برش و شمشیر کرچکے
کہتے ہیں طبع دوست شکایت پسند ہے
ہم شکوہ ہائے غیر بھی تحریر کرچکے
بھولے رہے تصور مژگاں میں چند روز
دیکھا تو دل کو ہم ہدف تیر کر چکے
دل لے کے ایک میرا یہ فارغ ہوئے ہیں وہ
گویا کہ اک جہان کو تسخیر کر چکے
حالی اب آؤ پیروئیِ مغربی کریں
بس اقتدائے مصحفی ومیر کر چکے
اور توجو کچھ ہے، خیر ہئی ہے، خود شوخی کے نمونوں سے یہ کلام کب خالی ہے؟ تیسرے شعر کے اندر لطیف شوخی کی جو کیفیت ہے، اسے لفظوں میں کوئی کیونکر بیان کر دے؟ بس بات کیا ہے وہی کہ نرم مخملیں پنجہ، آہنی دستانہ کے اندر چھپا ہوا، شوخی حدود متانت سے قدم باہر نہیں نکال سکتی اور اپنی لطیف ترین صورتوں ہی میں محدود رہ جاتی ہے۔
قلم کا مسافر، اب ذرادم لے۔ شعر اب ایک آدھ نہیں رہا۔ دس بیس بھی نہیں سو پچاس شعر ہو چکے۔ کوئی تیر کوئی نشتر۔ اب بھی اس کلام سے وہی بدگمانی چلی جائےگی کہ خشک اور نرا واعظانہ ہے؟ خیال اب بھی یہی قائم رہےگا کہ حالی غزل گوئی میں ہیٹے ہیں؟ غالبؔ اور مومنؔ اور شیفتہؔ آسمان شعر کے آفتاب و ماہتاب ہوئے ہیں۔ انہیں کے معیار پر کیسے، جانچ لیجئے پرکھ لیجئے۔
یہ سب کچھ ہے لیکن اس پر بھی حالیؔ کا اصلی میدان غزل کا میدان نہیں۔ ان کی شاعری ’واہ‘ کی نہیں ’آہ‘کی نہیں، جوش ولولہ کی نہیں، حزن وحسرت کی ہے۔ نوعمری میں جو کچھ بھی رہے ہوں لیکن عمر کی پختگی کے بعد تو گل و بلبل کے افسانے چھوڑ اور زلف و ابرو کے جنجال سے نکل، بس قوم کے ہو رہے تھے اور اب وہ تھے اور قوم کے اقبال کا ماتم۔ ساز کوئی سا بھی ہوتا، نغمہ یہی ایک نکلتا، کسی بڑے سے بڑے زندہ دل ظریف کا جوان، چہیتابیٹا، آنکھوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہا ہو، اس وقت باپ کے دل پر کیا گزر کر رہےگی؟ منہ قہقہوں کے لیے کھلے گا یا آہ وبکا کے لیے؟ زبان پر حسرت ویاس کے کلمے ہوں گے یا کوئی نئی پھبتی سوجھےگی؟ بس جو حال ہمارا آپ کا، ساری دنیا کا، بیٹوں کے لیے، بھائیوں کے لیے رہتاہے، حالیؔ کا وہی حال ساری امت اسلامیہ کے لیے، ساری ملت کے لیے۔ ساری قوم کے واسطے تھا۔
یہ حال ان آنکھوں نے بعد کو مشہور قومی لیڈر محمد علی جوہر کا دیکھا، فرق یہ تھا کہ محمد علی کے ہاں طبیعت میں غضب کی تیزی تھی۔ حالیؔ کے ہاں آہ سرد بھی آئین وضابطہ کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی۔ ایک کے ہاں تمام تر جوش اور شوریدگی، دوسرے کے ہاں ضبط و تحمل سے ملی ہوئی سنجیدگی۔ محمد علیؒ جدھر سے گزرتے، ایک عالم تہہ و بالا کر دیتے، حالی دلوں میں اندر ہی اندر حزن وغم کی پھانس چبھوکر رہتے۔ محمد علیؒ چیخیں مار مار کر خود روتے ہیں، اور دوسروں کو رلا مارتے ہیں۔ حالی سر جھکائے اداس صورت بنائے چپکے چپکے بیٹھے کلمہ شریف کا ورد کر رہے ہیں، ٹھنڈی سانسیں بھرتے جاتے ہیں اور جب آنکھیں بے اختیار نم ہونے لگتی ہیں تو چٹ رومال نکال آنسو پونچھ ڈالتے ہیں۔ طبیعت پر حسرت، اداسی اور غمگینی مستقل طور پر غالب ہو گئی تھی۔ جو بات بھی منہ سے نکلتی در د کی کسک سے خالی نہ ہوتی۔
دہلی کے طبیب اعظم، حکیم محمود خاں کا مرثیہ لکھنے بیٹھے، تو لگے بجائے فرد کے قوم کا ماتم کرنے۔ غم نصیب سانحہ زدہ بوڑھیوں کو آپ نے دیکھا کہ دل پر جب تازہ داغ کھاتی ہیں تو ساتھ ہی پچھلے داغ بھی تازہ ہو جاتے ہیں اور بین اپنے آج ہی پر نہیں گزرے ہوئے کل، اور بھولے بسرے ہوئے پرسوں پر بھی کرنے لگتی ہیں۔ حالیؔ کا سینہ بھی داغوں سے لالہ زار بنا ہوا تھا۔ محمود خاں کے مرثیہ کے آخری بند ملاحظ ہوں۔ اپنے اصل مذاق طبیعت کی مصوری خود ہی کردی ہے۔ پڑھتے جائیے، اور دل اگر درد مند ہے تو سرد آہیں بھرتے جائیے،
شاید اب پہنچی ے ہم میں نوبت قحط الرجال
ایک اٹھ جاتا ہے دنیا سے اگر صاحبِ کمال
دوسری ملتی نہیں دنیا میں پھر اس کی مثال
ذات باری کی طرح گویا کہ تھا وہ بے ہمال
ظاہراً اب وقت آخر ہے ہماری قوم کا
مرثیہ ہے ایک کا اب نوحہ ساری قوم کا
سنتے ہی حالیؔ سخن میں تھی بہت وسعت کبھی
تھیں سخنور کے لیے چاروں طرف راہیں کھلی
داستان کوئی بیان کرتا تھا حسن وعشق کی
اور تصوف کا سخن میں رنگ بھرتا تھا کوئی
گاہ غزلیں لکھ کے دل یاروں کے گرماتے تھے لوگ
گہہ قصیدہ پڑھ کے خلعت اور صلے پاتے تھے لوگ
پر ملی ہم کو مجال نغمہ اس محفل میں کم
راگنی نے وقت کی لینے دیا ہم کو نہ دم
نالہ و فریاد کا ٹوٹا کہیں جاکر نہ سم
کوئی یاں رنگین ترانہ چھیڑنے پائے نہ ہم
سیہ کوبی میں رہے جب تک کہ دم میں دم رہا
ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا
’’ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا‘‘ اس ایک مصرعہ میں واعظ شاعری کی پوری آپ بیتی آگئی۔
یہ نہ تھا کہ ظرافت نہیں آتی تھی، طنز تو ایسا کرجاتے اور اس کثرت سے کرگئے ہیں کہ کوئی اگر طنزیات حالی کو یکجا کرنے پر آ جائے تو طنزیات ومضحکات کا اچھا خاصہ مشتمل رسالہ تیار کرلے جائے لیکن وہی متانت کا طبعی رنگ ظرافت پر بھی چھایا ہوا۔ کھلکھلا کر ہنسنا تو جانتے ہی نہیں۔ جب دوسروں کو ہنسانا چاہتے بھی ہیں تو خود محض زیرلب مسکراکر رہ جاتے ہیں۔ گورے اور کالے کی قسمت کے فرق کا تماشا اپنے وطن کی سرزمین پر آپ بار ہا دیکھ چکے ہوں گے، اب ذرا ایک یہ منظر مرقع حالی میں بھی دیکھتے چلیے،
دو ملازم ایک کالا اور گورا دوسرا
دوسرا پیدل مگر پہلا سوار راہوار
تھے سول سرجن کی کوٹھی کی طرف دونوں رواں
کیونکہ بیماری کی رخصت کے تھے دونوں خواستگار
راہ میں دونوں کے باہم ہم ہو گئی کچھ ہشت مشت
کوکھ میں کالے کی ایک مکا دیا گورے نے مار
صدمہ پہنچا جس سے تلی کو بہت مسکین کی
آگے گھوڑے سے لیا سائیس نے اس کو اتار
ٹھوک کر کالے کو گورے نے تواپنی راہ لی
چوٹ کے صدمہ سے غش کالے کو آیا چند بار
آخرش کوٹھی پہ پہنچے جاکے دونوں پیش وپس
ضارب اپنے پانوں اور مضروب ڈولی میں سوار
ڈاکٹر نے آکے دونوں کی سنی جب سرگزشت
تہہ کو جاپہنچا سخن کی سن کے قصہ ایک بار
دی سند گورے کو لکھی تھی جس میں تصدیق مرض
اور یہ لکھا تھا کہ سائل ہے بہت زار و نزار
یعنی اک کالا نہ جس گورے کے مکے سے ے مرے
کر نہیں سکتا حکومت ہند پر وہ زینہار
اور کہا کالے سے تم کو مل نہیں سکتی سند
کیونکہ تم معلوم ہوتے ہو بظاہر جاندار
ایک کالا پٹ کے گورے سے جوفوراً مرنہ جائے
آئے بابا اس کی بیماری کا کیونکر اعتبار
اب کون ایسا بے انصاف ہوگا۔ جو اس کے بعد بھی حالی کی خشک نگاری کا شکوہ سنج رہے چلا جائےگا؟
مشاعرے کی محفل گرم ہے۔ کاملین فن جمع ہیں۔ دہلی کے دور آخر کے استادوں کا مجمع ہے۔ لوگ منتظر ہیں کہ غالبؔ و شیفتہؔ کے شاگرد رشید کی زبان سے کوئی پھڑکتی ہوئی مزیدار سی عاشقانہ غزل سننے میں آئےگی۔ رندی و ہوسناکی کی روح تازہ ہو جائےگی۔ شاعر کا منہ کھلا تو یک بیک یہ معلوم ہوا کہ مشاعرہ نہیں مجلس عزا ہے اور غزل نہیں نوحہ پڑھا جا رہا ہے۔ اگلے عزیز و رفیق سب ایک ایک کرکے یاد آ رہے ہیں اور نام لے لے کر دل کی بھڑاس نکالی جا رہی ہے۔ نوحہ آج بھی اور کاغذ پر چھپا ہوا دل والوں کے لیے موثر ہے۔ ساٹھ سال پیشتر کیسا کچھ رقت انگیز رہا ہوگا! خصوصاً جس وقت قدردانوں کے بھرے مجمع میں شاعر کی زبان سے ان کے پراثر لہجہ کے ساتھ ادا ہوا ہوگا،
تذکرہ دہلی مرحوم اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائےگا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
صحبتیں اگلی مصور، ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز
لے کے داغ آئےگا سینہ پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہہ خاک
دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
ہم کو گر تو نے رلایا اے چرخ
ہم پہ غیرکو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز
یار خود روئیں گے کیا ان پہ جہاں روتا ہے
ان کی ہنستی ہوئی شکلوں پہ نہ جانا ہرگز
بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دورزماں
نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز
غالبؔ و شیفتہؔ و نیر ؔو آزردہ ؔوذوقؔ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانہ ہرگز
مومن و علوی و صہبائی و ممنون کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز
کردیا مرکے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہر گز
داغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنےگا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز
رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر وزبر
اب نہ دیکھوگے کبھی لطفِ شبا نہ ہرگز
بزمِ ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رورو کے رلانا ہرگز
آج اگر ہمارے آپ کے آنسو نہیں ٹپک پڑتے تو ہمیں ’’ دہلی مرحوم‘‘ کے مرحوم ہونے کا احساس ہی کب ہے؟ آنکھوں میں تو اب ’’نئی دہلی‘‘ بسی ہوئی ہے، شاہ جہان آباد جانتا کون ہے؟ اسمبلی ہال کے سامنے، لال قلعہ کو جھانکنے بھی کون جاتا ہے؟ افسانۂ ماضی کو تو ہم ماضی کے حوالے کر ہی چکے، اب رونا آئے بھی تو کس بات پر؟ بھائی اور بیٹے کی تازہ میت پر سب روتے ہیں، بھولے بھالے ہوئے دادا پر دادا کی موت کے ذکر پر آنسو نکلتے کس کے دیکھے ہیں؟
مسدس مد و جزر اسلام فرط شہرت سے محتاج نہ کسی تعریف کا، نہ کسی تعارف کا، نہ کسی نئی مدح و توصیف کا، نہ کسی جدید تبصرہ کا۔ ایک مسلسل داستانِ درد شروع سے آخر تک ہے، آخر میں بہ طور سے ضمیمہ ایک قصیدہ لگا ہوا ہے۔ شاعر مسلمان ہے اور مسلمان کی حیثیت سے، اسلام اور مسلمانوں کا حال زار، دربار رسالت میں عرض کر رہا ہے۔ اس عرض و معروض میں اللہ اکبر کس قدر اخلاص ہے اور کس قدر نیاز، کس درجہ تعلق خاطر ہے اور اصلاح حال کے لیے کس درجہ بے قراری!
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
۱۵، ۲۰ شعروں میں اپنے حال کا عبرت انگیز مقابلہ اپنے ’ماضی‘ سے کرتے چلے گئے ہیں، اس کے بعد کہتے ہیں،
گو قوم میں تیرے نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تیری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورزماں میٹ رہا ہے
آگے پھر وہی مدوجزر اقبال وزوال کی داستان سرائی ہے، لیکن پھر سنبھلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں شکوہ کس کا اور شکایت کس کی؟
اے چشمۂ رحمت بابی انت وامی
دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے
جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چھڑایا
جب تو نے کیا نیک سلوک ان سے کیا ہے
اس متن کی تھوڑی سی شرح کے بعد پھر متوجہ ہوتے ہیں،
برتاؤ ترے جبکہ یہ اعدا سے ہیں اپنے
اعدا سے غلاموں کو کچھ امید سوا ہے
امت میں تیری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن
دلدادہ ترا ایک سے ایک ان میں سوا ہے
امت کا جو تعلق رسولؐ کے ساتھ ہے، اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی تعلق کر سکتا ہے؟،
جو خاک تیرے درپہ ہے جاروب سے اڑتی
وہ خاک ہمارے لیے داروئے شفا ہے
جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرف
اب تک وہی قبلہ تیری امت کا رہا ہے
جس شہر نے پائی تیری ہجرت سے سعادت
کعبہ سے کشش اس کی ہر اک دل میں سوا ہے
آخر میں گویا دل چیر کر سامنے رکھ دیتے ہیں،
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواہاں
پر فکر تیرے دین کی عزت کا سدا ہے
گردین کی جوکھوں نہیں ذلت سے ہماری
امت تری ہر حال میں راضی برضا ہے
عزت کی بہت دیکھ لیں دنیا میں بہاریں
اب دیکھ لیں یہ بھی کہ جو ذلت میں مزا ہے
اس منزل پر پہنچ کر معاً یاد پڑجاتا ہے کہ موقع ناز یوسفی کا نہیں، نیاز یعقوبی کا ہے۔
ہاں حالیؔ گستاخ نہ بڑھ حدادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گِلا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یا جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے
یہ دل کی شاعری اس کی تھی، جس کے محض ایک خشک وعظ گو ناظم ہونے کا ڈھنڈورا کس بے دردی اور ناانصافی کے ساتھ ایک عالم میں پٹ گیا تھا۔
واعظ شاعر کی عام وعظ گوئی اور عام شاعری کے نمونے آپ نے دیکھ لیے۔ غزلیات کے حصہ کو چھوڑ کر باقی شاعری ایک مسلمان شاعر کے دل کی آواز تھی۔ ماتم تمام تر زوال امت اسلامیہ کا، مصوری تما م تر جذبات ملی کی۔ اب ختم صحبت پر ایک اچٹتی سی نظر حالیؔ کی آفاقی شاعری پر بھی ہو سکے تو بہتر ہے، آفاقی شاعری اسلامی شاعری سے الگ اور متغائر کوئی چیز نہیں، اس کے بلند ترین مقام کا نام ہے۔ بندہ اور پروردگار کے تعلق سے بڑھ کر وسیع وعالمگیر تعلق اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ شاعر نے جب براہ راست رب العالمین سے آہ و فریاد شروع کر دی، اور شاعری میں قید و تعینات کی جگہ وحدت نے لے لی، بس وہیں سے آفاقی شاعری ہو گئی۔ اور یہ ہیچمدان تو یہ عرض کرےگا کہ حالی نے عمر بھر بجز ایک ’’ بیوہ کی مناجات‘‘ کے اگر کچھ نہ کہا ہوتا، تو ان کے لیے یہی ایک نظم دنیا عقبیٰ دونوں میں بس تھی، باتیں اتنی سچی اور ایسی روح کی گہرائیوں سے نکلی ہوئیں کہ آسمان کے فرشتے بھی سن کر سر دھنیں۔ بول اتنے میٹھے کہ خود معصیت بڑھ کر بلائیں لینے لگے۔ ذرا سنیے اور دل تھا م کر سنیے۔
اے سب سے اول اور آخر
جہاں تہاں حاضر اور ناظر
اے بالا ہر بالاتر سے
چاند سے سورج سے امبر سے
سب سے انوکھے سب سے نرالے
آنکھ سے اوجھل دل کے اجالے
ناؤ جہاں کی کھینے والے
دکھ میں تسلی دینے والے
جب اب تب تجھ سا نہیں کوئی
تجھ سے سب ہیں تجھ سا نہیں کوئی
بید، نرا سے بیماروں کا
گاہک مندے بازاروں کا
سوچ میں دل بہلا نے والا
بپتا میں یاد آنے والا
حمد باری صدہا بار آپ سن چکے ہوں گے۔ اتنی سادہ، اتنی معصومانہ، ساتھ ہی اتنی مؤثر حمد کا کوئی جواب اردو کے خزانے میں کہیں ہے؟
اے اٹکل اور دھیان سے باہر
جان سے اور پہچان سے باہر
عقل کوئی پا نہیں سکتا
بھید ترے حکموں میں ہیں کیا کیا
ایک کو تونے شاد کیا ہے
ایک کے دل کو داغ دیا ہے
کھیتی ایک کی ہے لہراتی
ایک کا ہر دم خون سکھاتی
حال غرض دنیا کا یہی ہے
غم پہلے اور بعد خوشی ہے
رنج کا ہے دنیا کے گلا کیا
تحفہ یہی لے دے کے ہے یاں کا
مناجاتیں آپ نے بہتوں کی سنی ہوں گی۔ بڑے بڑے عابدوں زاہدوں کی سنی ہوں گی، اب فریاد اس بیکس وبے بس، بے آس اور نامراد دکھیاری کی بھی سنتے چلیے،
یہاں نہیں بنتی رنج سہے بن
رنج نہیں سب ایک سے لیکن
توہی کر انصاف اے مرے مولا
کون ہے جو بے آس ہے جیتا
خواہ دکھی ہے خواہ سکھی ہے
جو ہے اک امید اس کو بندھی ہے
کھیتیاں جن کی کھڑی ہیں سوکھی
آس وہ باندھے بیٹھے ہیں مینھ کی
ایک ہے اس امید پہ جیتا
اب ہوئی بیٹی اب ہوا بیٹا
پر نہیں اٹھ سکتی وہ ہے مصیبت
آئےگی جس کے بعد نہ راحت
شاد ہو اس رہگیر کا کیا دل
مرکے کٹےگی جس کی منزل
ان اجڑوں کو کل پڑے کیونکر
گھر نہ بسےگا جن کا جنم بھر
آگے بڑھنے سے قبل، اگر خدا نخواستہ آپ کے حلقہ میں کوئی بپتاکی ماری نوجوان بیوہ ہوتو اس کا تصور ذہن میں جما لیجیے۔ نوعمری کا زمانہ، شوخی وشرارت کا ہونا، کھیلنا کھانا، دوڑنا، بات بات پر ہنسنا ہنسانا، ماں باپ نے بیاہ کس شوق کس خوشی سے رچایا۔ ہاتھوں پیروں میں مہندی لگی، نئے نئے بھاری جوڑے، نئے نئے زیور گہنے، طرح طرح کی رنگینیاں، نت نئی شوخیاں، دل میں کیسے کیسے ارمان بھرے ہوئے، نظروں میں کیا کیا نقشے جمے ہوئے! اتنے میں یک بیک یہ سب غائب۔ سارا منظر محض خواب و خیال۔ یہ ہاتھ اب عمر بھر چوڑیوں کو ترسیں گے۔ یہ کپڑے اب کبھی خوشبو سے آشنا نہ ہوں گے، خوشبو کیسی رنگین کپڑے تک اب نصیب نہ ہوں گے۔ دنیا اپنے عیش کے کاروبار میں مصروف، محلہ اور برادری میں شادیوں کو دھومیں، خاص اپنے گھر میں برسات کی ملاریں، جھولے پڑرہے ہیں، کھیل پرکھیل ہو رہے ہیں۔ ساتھ کی کھیلنے والیاں ساتھ کی مانگی بیاہی ہوئیں، نئی نئی ساڑیاں باندھے شوخ رنگ کے بلاؤز پہنے، کیسے کیسے طرحدار دوپٹے اوڑھے، آنکھوں کے سامنے کوئی ہنس رہی ہے کوئی دوڑ رہی ہے اور ایک یہ مصبیت کی ماری ہے کہ اپنی قسمت کو رورہی ہے،
آئیں بہت دنیا میں بہاریں
عیش کی گھر گھر پڑیں پکاریں
پڑے بہت باغوں میں جھولے
ڈھاک بہت جنگل میں پھولے
گئیں اور آئیں چاندنی راتیں
برسیں کھلیں بہت برساتیں
پر نہ کھلی ہر گز نہ کھلے گی
وہ جو کلی مرجھائی تھی دل کی
آس ہی کایاں نام ہے دنیا
جب نہ رہی یہ ہی تو رہا کیا
حکم سے تیرے پر نہیں چارا
کڑوی میٹھی سب ہے گوارا
تجھ سے کہیں گر بھاگنا چاہیں
بند ہیں چاروں کھونٹ کی راہیں
تو مارے ے اور نوازے
پڑی ہوں میں تیرے دروازے
تجھی کو اپنا جانتی ہوں میں
تجھ سے نہیں تو کس سے کہوں میں
سہیلیاں زیوروں سے لدی ہوئی ہیں، کس شوق سے کس چاؤ سے ایک دوسرے کو اپنے اپنے زیور دکھائے جارہے ہیں۔ ہاتھوں میں مہندیاں رچی ہوئی ہیں، پھولوں کے گہنے سر اور گلے کو زینت دیے ہوئے ہیں۔ نازک نازک پنڈے عطر کی خوشبوؤں سے مہک رہے ہیں، کہیں ذکر میاں کی چاہ پیار کا ہو رہا ہے، کہیں تذکرے سسرال کی نازبرداریوں کے ہو رہے ہیں، کہیں کسی پر فقرے کسے جا رہے ہیں، قہقہوں کا غل ہے، رنگ رلیاں منائی جارہی ہیں۔ ادھر ایک بیچاری اللہ کی بندی ایسی ہے جس کے ہاتھ بھی ننگے اور کان بھی۔ جسم رنڈاپے کی سفید چادر سے چھپا ہوا اس کا بھی آخر وہی ہے، کیا اس کے دل میں کوئی ارمان نہیں رہا ہے؟ اس کا قلب امنگوں سے، حوصلوں سے، ولولوں سے خالی بنایا گیا ہے؟ کیا اس دکھیاری کا جی نہیں چاہتا کہ کوئی اس کا بھی نازبردار ہوتا؟ یہ بگڑتی اور کوئی مناتا، یہ فرمائشیں کرتی اور کوئی دل وجان سے انہیں پوری کرکے دیتا؟ روتی جاتی ہے اور کہتی جاتی ہے،
اے میرے زور اور قدرت والے
حکمت اور حکومت والے
میں لونڈی تیری دکھیاری
دروازے کی تیرے بھکاری
موت کی خواہاں جان کی دشمن
جان پہ اپنی آپ اجیرن
اپنے پرائے کی دھتکاری
میکے اور سسرال پہ بھاری
ایک خوشی نے غم یہ دکھائے
ایک ہنسی نے گل یہ کھلائے
رو نہیں سکتی تنگ ہوں یاں تک
اور روؤں تو روؤں کہاں تک
دن بھیانک اور رات ڈرانی
یوں گزری ساری یہ جوانی
بہنیں اور سہیلیاں میری
ساتھ کی تھیں جو کھیلیاں میری
مل نہ سکیں جی کھول کے مجھ سے
خوش نہ ہوئیں ہنس بول کے مجھ سے
جب آئیں رو دھوکے گئیں وہ
جب گئیں بے کل ہوکے گئیں وہ
آگ کھلی دل کی نہ کسی پر
گھل گئی جان اندر ہی اندر
تہواروں کا آئے دن آنا
اور سب کا تہوار منانا
وہ چیت اور پھاگن کی ہوائیں
وہ ساون بھادوں کی گھٹائیں
وہ گرمی کی چاندنی راتیں
وہ ارمان بھر ی برساتیں
کس سے کہوں کس طرح سے کاٹیں
خیر کٹیں جس طور سے کاٹیں
رہ گیا دے کر چاند دکھائی
چاند ہوا پر عید نہ آئی
رت بدلی پر ہوئی نہ برکھا
بادل گرجا اور مینہ نہ برسا
ریت میں ذرے دیکھ چمکتے
دوڑ پڑی میں جھیل سمجھ کے
حسرت نصیب اپنے دن کو دیکھتی ہے اور آسمان کی طرف دیکھ کر رہ جاتی ہے، پھر بلک بلک کر اپنے اسی مالک و مولیٰ سے کچھ عرض کرنے لگتی ہے۔ جو کسک اس کی آواز میں ہے، وہ عابدوں اور زاہدوں کو بھی کہاں نصیب؟ عمر بھر کے مجاہدے ایک طرف، اور ایک گھڑی کی یہ شکستگی، یہ بےچارگی، یہ اپنی بندگی کا مشاہدہ دوسری طرف۔ کہتی جاتی ہے اورسننے والوں کے دل ہلائے لرزائے دیتی ہے،
اے دین اور دنیا کے مالک
اے راجا اور پرجا کے مالک
سب پہ کھلا ہے در رحمت کا
برس رہا ہے مینہ نعمت کا
سب کو تیرے انعام تھے شامل
میں ہی نہ تھی انعام کے قابل
اگر کچھ آتا بانٹ میں میری
سب کچھ تھا سرکار میں تیری
تھی نہ کمی کچھ تیرے گھر میں
نون کو ترسی میں سانبھر میں
پہر دن یہ سوچتی ہوں جی میں
آئی تھی میں کیوں اس نگری میں
رہی اکیلی بھری سبھا میں
پیاسی رہی بھری گنگا میں
قسمت نے جب سے منہ موڑا
آدمیوں کا ہو گیا توڑا
تیرے سوا اے رحم کے بانی
کون سنے یہ رام کہانی
کوئی نہیں لاگو اب میرا
باپ نہ بھائی ساس نہ سسرا
شاعر کی تخیل آرائی نہیں ہے، واقعات لکھ رہا ہے اپنے زمانے کے۔ واقعات و مشاہدات کہتے ہیں کہ شاعر وہ ہے جو جھوٹ کو سچ بناکر دکھائے۔ حالانکہ شاعری کا سب سے بڑا کمال واقعہ نگاری ہے، مشاہدات سے واقعات سے بڑھ کر مؤثر اور کون شئے ہو سکتی ہے،
روئیے تو سب روتے ہیں گھر کے
رونے نہیں دیتے جی بھر کے
ہنسئے، تو ہنسنا عیب ہے ہم کو
کیونکر الہی کاٹئے، غم کو
مہندی میں نے لگانی چھوڑی
پٹی میں نے جمانی چھوڑی
کپڑے مہینوں میں ہوں بدلتی
عطر نہیں میں بھول کے ملتی
سرمہ نہیں آنکھوں میں لگاتی
بال نہیں برسوں گندھواتی
دو دو چاند نہیں سردھوتی
اٹھواروں کنگھی نہیں ہوتی
کان میں پتے ہاتھ میں کنگن
پہن چکی سب جب تھی سہاگن
آپ کو یاں تک میں نے مٹایا
پر دنیا کو صبر نہ آیا
وہم نے ہے اک ایک کو گھیرا
جب دیکھو تب ذکر ہے میرا
ان دکھیاریوں پر جو جو ظلم ابھی ایک نسل ادھر تک عام تھے بلکہ کہیں کہیں اب بھی جاری ہیں، کس ادھیڑ سن والے کے علم میں نہیں؟ کن پرانی آنکھوں نے وہ جگر خراش منظر نہیں دیکھے ہیں؟ ا س وقت کے کس کان نے وہ فریادیں نہیں سنی ہیں؟ یہ دوروہ تھا، جب کسی بیوہ کے عقد کا نام لینا ہی ہمسایہ قوم کی دیکھا دیکھی، خود مسلمانوں میں خاندان کی ناک کٹ جانے کے مرادف قرار پا چکا تھا۔ آن پرمٹ جانے والی، شرافت پر جان دینے والی، کمسن، بیوہ، اپنی عزت پر گواہ آسمان کے چھٹکے ہوئے تاروں اور گھر کے دروں، دیواروں سب کو لاتی ہے،
اے امبر کے چمکتے ہوئے تارو
اے گھر کے در و دیوارو!
اے جانی پہچانی راتو!
تنہائی کی ڈرانی راتو!
ایک دن اس گندی دنیا سے
جانا ہے مالک کے آگے
جب وہاں پوچھ ہو میری تیری
تم سب دیجو گواہی میری
میں نیکی کا دم نہیں بھرتی
پاکی کا دعویٰ نہیں کرتی
پر یہ خدا سے ڈر کے ہوں کہتی
منہ پہ یہ آئے بن نہیں رہتی
خواہ بری تھی خواہ بھلی میں
بات سے اپنی نہیں ٹلی میں
ساتھ نہ قوم اور دیس کا چھوڑا
اور نہ خدا کے عہد کو توڑا
اے ایمان کے رکھنے والے
اے نیت کے پرکھنے والے
میں نہیں رکھتی کام کسی سے
چاہتی ہوں انصاف تجھی سے
حکم پہ چلتی تیرے اگر میں
چین سے کرتی عمر بسر میں
لیکن ہٹ پیاروں کی یہی تھی
مرضی غم خواروں کی یہی تھی
اپنے بڑوں کی رت نہ چھوٹے
قوم کی باندھی رسم نہ ٹوٹے
جان کسی کی جائے تو جائے
آن میں اپنی فرق نہ آئے
تجھ پہ ہے روشن اے میرے مولیٰ
وقت یہ کیسا مجھ پہ پڑا تھا
آن سنبھالے جان تھی جاتی
جان بچائے آن تھی جاتی
طے کرنے تھے سات سمندر
حکم یہ تھا ہاں پانوں نہوتر
جان نہ سمجھا جان کو اپنی
دیا نہ جانے آن کو اپنی
اے اچھے اور برے کے بھیدی
کھوٹے اور کھرے کے بھیدی
بھیدوں کے جاننے والے
پاپ اور پن کے چھاننے والے
عیب اور گن سب تجھ پہ ہیں روشن
پاپ اور پن سب تجھ پہ ہیں روشن
کان اور آنکھیں ہاتھ اور بازو
جن جن پر تھایاں مجھے قابو
سب کو بدی سے میں نے بچایا
سب کو خودی سے میں نے ہٹایا
روک کے اور یوں تھام کے آپا
میں نے یہ کاٹا اپنا رنڈا پا
تو ہے مگر اس بات کا دانا
میں نے کہا دل کا نہیں مانا
تھامنا دل کا کام تھا میرا
اور تھمانا کام تھا تیرا
پکڑے اگر تو دل کی خطا پر
میں راضی ہوں تیری رضا پر
اپنی تو خیر جیسی بھی گزری گزر گئی، اب دھیان ہے تو اس کا کہ اور بہت سی بہنوں پر بھی یہی وقت پڑا ہوا ہے، ان بیچاریوں کی تو مشکل کسی طرح آسان ہو، بندی اپنے چاہنے والے مالک اور مولیٰ سے کہتی ہے،
اے غم خوارہر ایک بیکس کے
حامی ہر عاجز بے بس کے
ہے اپنے عاجز بندوں پر
پیار تیرا ماں باپ سے بڑھ کر
جس نے گلی میں تجھ کو پکارا
سامنے تیرے ہاتھ پسارا
پھرانہ خالی اس چوکھٹ سے
گیا نہ پیاسا اس پنگھٹ سے
گھر بسنے کی آس نہ رہنی
ساری عمر جدائی سہنی
ہے وہ بلا جو سہی نہ جائے
بپتا ہے جو کہی نہ جائے
قدر اس کی یاتو پہچانے
یا جس پر گزری ہو وہ جانے
اے خاوند خداوندوں کے
مالک خاوند اور بندوں کے
واسطہ اپنی خداوندی کا
صدقہ اپنی خداوندی کا
تو یہ کسی کو داغ نہ دیجو
کسی کو بے وارث مت کیجو
جس دکھیا پر پڑے یہ بپتا
کراسے تو پیوند زمیں کا
یا عورت کو پہلے بلا لے
یا دونوں کو ساتھ اٹھا لے
اس سوز دل سے نکلی ہوئی دعائیں کہیں رائیگاں جا سکتی تھیں؟ جہاں تک مسلمان کا تعلق ہے اس ۶۰، ۵۰، سال کے عرصہ میں ہندوستان میں رانڈوں کی بپتا تقریباً دور ہو گئی ہے اور کچھ اصلاح بڑی حدتک ہمسایہ قوم میں بھی ہوکر رہی ہے۔
خاتمہ پر واعظ شاعر نے وہی کہا ہے جو آج تک سارے واعظ اور سارے حقیقی شاعر برابر کہتے چلے آئے ہیں۔ کیسی بیوگی اور کہاں کا سہاگ، نہ اس کو قیام نہ اس کو ثبات، ساری لذتیں فانی اور سارے عیش آنی۔ کسی کی پھولوں کی سیج پر لیٹ لیٹ کر گزری تو کیا اور کسی نے کانٹوں پر لوٹ لوٹ کے کاٹی تو کیا۔ بشریت کا تقاضا تھا جو زبان پر اتنی بھی حکایت و شکایت آ گئی، پیار ہوتو اسی من موہن کا جسے کبھی فنا نہیں، دل میں لگن ہوتو اسی ایک کی جس کا عہد کبھی ٹوٹنے والا نہیں، جس کی خداوندی کبھی ختم ہونے والی نہیں، بیوہ کی یہ مناجات واعظ شاعر کی وعظ گوئی اور شاعری دونوں کا نچوڑ ہے،
دکھ سے یہاں کے گھبرانا کیا
سکھ پہ ہے یاں کے اترانا کیا
عیش کی یاں مہلت ہے نہ غم کی
سب یہ نمائش ہے کوئی دم کی
آنی جانی چیزہیں خوشیاں
چلتی پھرتی چھاؤں ہیں ارماں
منگنی بیاہ برات اور رخصت
میل ملاپ سہاگ اور سنگت
ہیں دو دن کے سب بہلاوے
آگے چل کرہیں پچتاوے
ریت کی سی دیوارہے دنیا
اوچھے کا سا پیار ہے دنیا
ہار کبھی اور جیت کبھی ہے
اس نگری کی ریت یہی ہے
خواہ ہو رانڈ اور خواہ سہاگن
موت ہے سب کی جان کی دشمن
ایک ہے گو آج ایک سے بہتر
مرگئیں جب دونوں ہیں برابر
اور کوئی گر انصاف سے دیکھے
مرکے اسے نسبت نہیں اس سے
عیش گئی وہ چھوڑ کے یاں کے
قید گئی یہ کاٹ کے یاں سے
اس کو پڑی کل اس کی گئی کل
یہ گئی ہلکی وہ گئی بوجھل
شاعر کا آخری پیام وہی ہے جو عارفوں کا ہمیشہ رہا ہے، یہ سوز بھی اگر کسی دل میں آگ نہ لگا سکے تو یقیناً وہ دل نہیں ہے پتھر کا ٹکڑا ہے۔
تیرے سوا یاں اے مرے مولیٰ
کوئی رہا ہے اور نہ رہےگا
پڑی تھی سونی جب یہ نگر یا
تیری ہی تھی یاں کھڑی اٹریا
چاہتی ہوں اک تیری محبت
اور نہیں رکھتی کوئی حاجت
گھونٹ اک ایسا مجھ کو پلادے
تیرے سوا جو سب کو بھلادے
آئے کسی کا دھیان نہ جی میں
کوئی رہے ارمان نہ جی میں
دل میں لگن بس اپنی لگادے
سارے غم اپنے غم میں کھپادے
وہاں سے اکیلی آئی ہوں جیسی
ویسی ہی یاں سے جاؤں اکیلی
دل نہ پھرے دنیا میں بھٹکتا
کوئی رہے کانٹا نہ کھٹکتا
جی سے نشاں پیاروں کا مٹادوں
پیار کے منہ کو آگ لگادوں
تو ہی ہو دل میں توہی زباں پر
مار کے جاؤں لات جہاں پر
پاؤں تجھے اک اک کو گنواکر
خاک میں جاؤں سب کو ملاکر
یہ مناجات تو وہ ہے کہ اگر مناسب ماحول میں پڑھی جائے تو عجب نہیں جو در و دیوار بھی جھوم جھوم کر اپنی بولی میں اس پر ’’آمین‘‘ کہہ اٹھیں پھر انسان کا دل تو آخر انسان ہی کا دل ہے!
حاشیہ
(۱) انیسویں صدی عیسوی کے آخری میں لکھنؤ کا بہت مشہور و ممتاز ادابی اور ظریفانہ ہفتہ وار ظرافت اس دور میں شخصی تعریفیں وتمسخر اور کسی کو ’’بنانے‘‘ کی مترادف تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.