Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اردو مرثیہ: تلاش ہیئت کا سفر

شارب ردولوی

اردو مرثیہ: تلاش ہیئت کا سفر

شارب ردولوی

MORE BYشارب ردولوی

     

    اردو کی تمام شعری اصناف میں صرف مرثیہ ایک ایسی صنف ہے جس نے ہیئت کے تجربات کا طویل ترین سفر کیا ہے یا یوں کہئے کہ ہیئت کے درجہ بہ درجہ ارتقا کا جو سفر مرثیے نے طے کیا وہ کسی دوسری صنف سخن نے نہیں کیا۔ آج اردو مرثیہ جس شکل میں ہمارے سامنے ہے وہ ہیئت کے لحاظ سے قدیم مرثیے سے بالکل مختلف ہے اور یہ بات مطالعے کا ایک دلچسپ موضوع بن سکتی ہے۔ اس لیے کہ قدامت میں مثنوی اور غزل وغیرہ بھی مرثیے سے کم نہیں ہیں لیکن ان کی ہیئت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔

    یہاں پر دو باتوں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اول یہ کہ مرثیے سے یہاں پر مراد شخصی مرثیے نہیں بلکہ صرف وہ مراثی ہیں جو واقعات کربلا کو بیان کرنے کے لیے لکھے گئے۔ شخصی مراثی کو کسی کے انتقال پر اظہار غم کی وجہ سے مراثی میں شامل کر دیا گیا حالانکہ اصولاً انہیں مرثیہ کہنا ہی غلط ہے اس لئے کہ وہ مرثیے کے لغوی معنی کو بھی پورا نہیں کرتے۔ انہیں ’تعزیتی نظم‘ کہنا چاہئے۔ ان میں کسی رثائی صورت کے بجائے مرنے والے سے صرف تعلق خاطر کا ذکر کیا جاتا ہے۔ غالب کے مرثیہ عارف، اقبال کے مرثیہ داغ یا ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘ حالی کے مرثیہ غالب یا چند اور نظموں کے علاوہ ان میں ذاتی لگاؤ Personal Touch بھی کم ملتا ہے۔

    شخصی مراثی میں عام طور پر جذبے کی شدت نظر نہیں آتی جو سننے یا پڑھنے والے کو اس درد میں شریک کر سکے۔ وہ صرف تعزیت تک محدود رہتے ہیں۔ اسی لیے میں نے انہیں ’’تعزیتی نظمیں‘‘ کہا ہے۔ اس کے علاوہ واقعات کربلا پر مراثی دوسرے مقصد کے لیے لکھے گئے، اس لیے مرثیے کا لفظ واقعات کربلا پر لکھے جانے والے مرثیوں کے لیے مختص ہو گیا۔ یہی سبب ہے کہ اب کہیں بھی مرثیے کا لفظ استعمال ہو تو ذہن انہیں مرثیوں کی طرف جاتا ہے۔

    دوسرے خود ہیئت کے مفہوم کے تعین کا مسئلہ ہے۔ یوں تو یہ بحث خاصی طویل ہے کہ ہیئت کیا ہے جس کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ مختصر الفاظ میں ہیئت کو طریقہ اظہار یا شکل اظہار کہا جا سکتا ہے۔ یعنی کسی بات کو جس شکل میں پیش کیا جائے وہ اس کی ہیئت ہے۔ یہاں پر ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ شعری اصناف کی شناخت صرف ہیئت سے ہے یا مختلف اصناف کی اپنی بھی کوئی شناخت ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ صنف اپنی ہیئت سے پہچانی جاتی ہے۔ مثلاً مغربی اصناف میں سانیٹ، ترائیلے، بلینک ورس یا جاپانی صنف ہائی کو، سب کی شناخت ان کی ہیئت سے ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی تقریباً یہی صورت ہے۔ لیکن اردو میں ا س کی نوعیت قدرے مختلف ہے۔

    اردو میں بعض اصناف اپنی ہیئت سے پہچانی جاتی ہیں مثلاً غزل، رباعی وغیرہ۔ بعض کے لیے کوئی ہیئت مخصوص نہیں ہے۔ ان کی شناخت ان کے موضوع سے کی جاتی ہے مثلاً مرثیہ، واسوخت، شہر آشوب وغیرہ اور بعض صرف ہیئت ہیں۔ ان کے لیے موضوع مختص نہیں ہے، مثلاً مسدس، مخمس، ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، فرد اور مسمط وغیرہ۔ حالی کی نظم ’مدوجزراسلام‘ بھی مسدس ہے۔ چکبست کی نظم ’خاک ہند‘بھی مسدس ہے اور انیس کے مرثیے بھی مسدس ہیں، حالانکہ موضوع کے لحاظ سے ان میں سے ہرمسدس ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں بعض اصناف کے لیے ان کی ہیئت متعین ہے اور بعض کے لیے نہیں۔

    جن اصناف کی ہیئتیں متعین ہیں ان میں ابتدا سے اب تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور اگران کی ہیئت کو توڑنے کی کوشش کی گئی تو اسے اردو شاعری کے مزاج نے قبول نہیں کیا۔ لیکن جن کی ہیئت کا تعین نہیں تھا وہ اپنے موضوع سے پہچانی گئیں یا اپنی ہیئت کی تلاش میں مسلسل سفر میں رہیں۔ ان اصناف میں اردو شاعری کی سب سے تواناصنف مرثیہ بھی اپنے وجود میں آنے کے تین سوسال تک ہیئت کی تلاش میں رہا اور ایک خاص شکل اختیار پا جانے کے باوجود اپنی زندگی کی چوتھی صدی میں بھی اس کا یہ سفر قطعی طور پر ختم نہیں قرار دیا جا سکتا۔

    اردو کی بہت سی شعری اصناف وقت اور حالات کی تبدیلی کے تحت یا تو ختم ہو گئیں یا زمانے کی گرد میں اتنی دھندلی ہو گئیں کہ اب ان پر نگاہ نہیں پڑتی۔ مثلاً واسوخت اور شہر آشوب کا اب ذکر بھی نہیں آتا۔ اس طرح ایک عہد کی بےحد مقبول اصناف مثنوی اور قصیدہ اب منہ کا مزہ بدلنے کے لیے ہی کہیں نظر آئیں گی۔ لیکن مرثیے کا معاملہ مختلف ہے۔ مرثیے کا تعلق ایک ایسے واقعے سے ہے جس کی اہمیت کبھی کم نہیں ہو سکتی۔ واقعہ کربلا کی یاد ہمیشہ منائی گئی اور آج بھی جہاں کہیں مسلمان ہیں وہ اپنے اپنے طریقے سے اس کی یاد مناتے ہیں۔ کوئی اسے فریضہ مذہبی سمجھ کر ادا کرتا ہے اور کوئی اس واقعہ کی اہمیت اور عظمت کے تحت اس کی یاد مناتا ہے اور کسی کے لیے وہ جبرواستبداد کے خلاف آواز احتجاج اور انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے قابل احترام ہے۔

    عزائے حسین کے انہیں انداز نے عزاداری اور چند دن ایک جگہ جمع ہوکر واقعہ کربلا کے ذکر کرنے کو رواج دیا، جو بالکل عوامی سطح سے لے کر شاہی محلات تک یکساں طور پر رائج رہا اور ہر سطح پر اس کے اظہار نے ایک الگ شکل پائی۔ کہیں عزاخانے، عاشورخانے اور امام باڑے بنے اور ان میں واقعہ کربلا کا ذکر کیا گیا اور کہیں دہقانی عورتوں نے جمع ہوکر دَہے، رو رو کر اس واقعے کی یاد تازہ کی۔ عزاداری کے اسی رواج کے تحت آج سے تقریباً چار سو سال پہلے دکن میں مرثیہ گوئی کی بنیاد پڑی اور ملا وجہی اور محمدقلی قطب شاہ نے اس کی خشت اول رکھنے کا کام انجام دیا۔

    ان اولین مرثیہ گویوں کے سامنے کوئی مرثیے تھے یانہیں، اس سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اردو میں مرثیہ نگاری شروع ہونے سے پہلے عزاداری وجود میں آ چکی تھی اور دکن میں ایرانی اثرات بہت گہرے تھے۔ اسی لیے فارسی کے مشہور مرثیہ گوآذری (وفات ہجری 866) اور روضۃ الشہدا کے مصنف ملا حسین واعظ کاشفی (ہجری 908) کے مرثیے ان مجالس میں پڑھے جاتے تھے اور انہیں مرثیوں سے اردو میں مرثیے کہنے کی تحریک ہوئی ہوگی۔ یوں تو اظہار غم کے لیے پہلے سے کسی طریقے یا انداز کا موجود ہونا ضرور ی نہیں ہے لیکن چونکہ اردو اس وقت تک ادبی اظہار کا ذریعہ نہیں بنی تھی اور ہرشعبہ زندگی میں فارسی ہی رائج تھی، اسی لیے یہ خیال غلط نہیں معلوم ہوتا کہ اردو کے ان اولین مرثیہ نگاروں کے سامنے آذری اور ملا حسین واعظ کاشفی کے مرثیے رہے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اسی اثر کے تحت اردو کے ابتدائی مرثیے غزل کے انداز میں لکھے گئے یعنی بنیادی طور پر مرثیے نے اپنے اظہار کے لیے غزل کی ہیئت کو اپنایا۔ مثلاً ابتدائی مرثیہ نگاروں کے مرثیوں کے یہ نمونے ملاحظہ کیجئے،

    سب دُکھاں کو انت ہے اس دکھ کے تائیں انت نئیں 
    فاطمہ کے پوت بن اس جگ منے نئیں نور کہیں 
    محمدقلی قطب شاہ

    حسین کا غم کرو عزیزاں 
    انجھونین سو جھڑو عزیزاں 
    ملا وجہی

    روئے فلک سب عرش لک سورج بسار اپنا جھلک
    مشرق سے تا مغرب تلک اندکار پایا ہائے ہائے 
    غواصی

    بولے غواصی مرثیہ سن روئے دکن کے اولیا
    ہر سال کا یو مرثیہ کیا کام کیتا ہائے ہائے 
    غواصی

    علی ہور فاطمہ کرتے ہیں دونوں آج زاری بھی
    حسن کا ہور حسین دوکھ لے آیا جگ پو خواری بھی
    عبداللہ قطب شاہ

    دکن کے عادل شاہی دور کے جن مرثیہ گویوں کا کلام اب تک مل سکا ہے، وہ تاریخی اعتبار سے قطب شاہی مرثیہ گویوں کے بعد کے شعرا ہیں۔ اسی لیے ان کے یہاں زبان نسبتاً بہتر اور کلام میں تسلسل اور وانی زیادہ ہے۔ لیکن مرثیے کی ہیئت وہی ہے مثلاً،

    کربلا کی سب زمیں رنگیں ہوئی
    لو ہو بھرے دلدل کے نعلاں ہائے ہائے 
    علی عادل شاہ ثانی

    سلطان کربلا کی غریبی کو یاد کر
    ٹکڑے جگر کو اوردلاں کو خنجر کرو
    لطیف

    مرثیے میں تسلسل، روانی اور اظہار کو خوب تر بنانے کی خواہش نے ہیئت کی تنگی کا احساس دلایا اور وسعت بیان کے لیے شعرا نے نئے راستوں کی تلاش شروع کی۔ اس سلسلے میں عادل شاہی دور کے سب سے اہم شاعر مرزا کا نام لیا جا سکتا ہے۔ مرزا نے بہت بڑی تعداد میں مرثیے لکھے ہیں۔ یہ مرثیے بیشترغزل اور قصیدے کی بحروں میں ہیں۔ لیکن ان میں تسلسل اور روانی زیادہ ہے۔ کسی واقعے کو صرف ایک شعر میں نظم کر دینے کے بجائے دو تین اشعار میں بیان کیا گیا ہے اور واقعات کو ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں مرزا نے قصیدہ، مثنوی اور غزل کی خصوصیات کو یکجا کرکے بھی مرثیے لکھے۔ اس کے علاوہ پہلی بار مرثیے کو بند کا تصور دیا۔

    مرزا کا مرثیہ حضرت قاسم کے بیان میں ہے۔ اس میں ۲۱۶ بند ہیں۔ ہر بند کے تین مصرعے ہم قافیہ ہیں اور چوتھے مصرعے کی ہر بند میں تکرار ہے۔ تین مصرعے مربوط ہیں لیکن چوتھا مصرعہ عام طور پر بے جوڑ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں پر اس کی فنی خوبیوں اور خامیوں سے بحث نہیں ہے بلکہ صرف اس کا اظہار ہے کہ نصف صدی ہی میں مرثیہ نگاروں کو اس کی ہیئت کی تنگی کا احساس ہو گیا تھا اور بہترہیئت کی تلاش کے سفر میں یہ مرزا کا پہلا تجربہ تھا۔ ان کے مرثیے کا یہ بند ملاحظہ ہو،

    کؤں قصہ شجاعت کا
    سو قاسم کا شہادت کا
    یزدیاں کی عداوت کا
    کرو زاری مسلماناں

    بقا کا نہیں ہے ٹھارا یو
    گزارے عمر سارا یو
    وداع ہے اب ہمارا یو
    کرو زاری مسلماناں

    مرزا نے مثنوی کی طرح قوافی کی پابندی اور قصیدے کی بحروں میں بھی طبع آزمائی کی۔ ان کی یہ کوشش غزل کی ہیئت کے مقابلے میں مرثیے میں بیان کی زیادہ گنجائش پیدا کرنے کا ایک تجربہ تھا۔ مثلاًیہ دو شعر ملاحظہ کیجئے۔ ان سے اس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس میں غزل کی ہیئت سے زیادہ تسلسل بیان کی گنجائش ہے،

    محترم عجب چاند پرسوز ہے 
    قیامت کے روزاں میں اک روز ہے

    اسی چاند میں سرور دیں حسینؑ
    ہوئے ہیں پریشاں دس دن و رین

    زاری کرو عزیزاں یو ماتم ہے فرض عین
    مظلوم ہوا جہاں منے نور نبی حسین
    مرزا

    مرزا کے بعد ان مرثیہ گویوں میں اہم نام ہاشم علی برہان پوری کا آتا ہے جنہوں نے مرثیے کی ہیئت میں نئے تجربے کیے۔ ہاشم علی کا زمانہ سترہویں صدی کا آخر اور اٹھارہویں صدی کا نصف اول ہے۔ ڈاکٹر زور کے مطابق ہاشم علی کے مطبوعہ مراثی، دیوان حسینی میں ۲۳۸ مرثیے ہیں۔ ان مرثیوں میں مختلف واقعات کو ترتیب سے نظم کیا گیا ہے اور حضرت حر، حضرت قاسم، حضرت علی اصغر، اہل بیت کی گرفتاری اور ان کی شام کو روانگی پر الگ الگ مرثیے کہے ہیں۔ یہ مرثیے مفردہ، مربع اور مربع ترجیع بند کی شکل میں ہیں۔ جس میں ایک مصرعے کی ہر بند میں تکرار ہے۔ ڈاکٹر مسیح الزماں نے لکھا ہے کہ، ’’انداز بیان کی ندرت، تشبیہ و استعارے کی سجاوٹ سے ہاشم علی نے اپنے مرثیوں کو خوبصورت بنایا ہے۔ ان میں ادبی محاسن پیدا کیے ہیں اور رمزواشارے سے شعریت پیدا کی ہے۔‘‘ 1

    ہاشم علی کے مربع اور مربع ترجیع بند مرثیے سے ایک ایک مثال ملاحظہ کیجئے،

    مربع
    جلوے سے اٹھ کے ان کو چلا تب کہی دلہن
    دامن پکڑ کے لاج سوں انجھواں بھرے نین
    مت چھوڑکر سدھارو تم اس حال میں ہمن
    تم بن رہےگا ہائے یہ سونا بھون مرا

    اور مربع ترجیع بند کا یہ بند دیکھئے،

    کس کا اب پالنا جھلاؤں گی
    لوری دے دے کسے سلاؤں گی
    کس کو چھاتی سینے لگاؤں گی
    حیف یو بال پن ترا اصغر

    ان مرثیوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ مرثیے کے عناصر ترکیبی بننے شروع ہو گئے تھے۔ ان مرثیوں میں مکالمے بھی ہیں، رخصت بھی، یہ ضرور ہے کہ ابھی ان کی صرف ابتدائی شکل یا ان کے نشانات ہیں۔ عناصروہیئت میں نئے امکانات کے یہ اشارے اس صنف کی توانائی کی نشاندہی کرتے ہیں۔

    کم وبیش اسی زمانے میں دوسرا بہت اہم نام درگاہ قلی خاں کا نظر آتا ہے جن کا زمانہ ۱۷۶۶۔ ۱۷۱۰ہے۔ جنہوں نے آصف جاہ اول کے زمانے میں شش ہزاری منصب اورآصف جاہ ثانی کے عہد میں ’’خان دوراں‘‘ کا خطاب پایا۔ اپنے عہد کی سیاسی وتہذیبی زندگی سے الگ بحیثیت مرثیہ گو ان کی ایک منفرد حیثیت ہے۔ ان کے عہد تک مرثیے کی ہیئت میں اتنے تجربے کسی نے نہیں کیے جتنے درگاہ قلی خاں نے کیے۔ ان کے جو مرثیے ملے ہیں ان کی تعداد صرف ۱۹ ہے لیکن قیاس ہے کہ انہوں نے کچھ اور بھی مرثیے کہے ہوں گے۔

    ۱۷۳۸ میں درگاہ قلی خاں آصف جاہ اول کے ساتھ دہلی آئے تھے۔ انہوں نے یہاں کے رسوم عزاداری کا تفصیل سے اپنے سفرنامے میں ذکر کیا ہے۔ ان کے اس سفرکا ان کی شاعری پر بھی بہت گہرا اثر پڑا۔ ان کے یہاں ہیئت کے تجربے اور زبان کی صفائی دونوں ہی باتیں اس اثر کی نشاندہی کرتی ہیں۔ انہوں نے دہلی کے مرثیہ گویوں میں مسکین، تزئین اور غمگین کی بہت تعریف کی ہے۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ درگاہ قلی خاں نے دہلوی مرثیہ گویوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاکر مفردہ، مربع، مخمس، دہرہ بند اور ترجیع بند مرثیے لکھے ہوں۔ ان کے ایک مخمس کا یہ بند ملاحظہ ہو،

    ہےگا محمد عربی جن کے جد کا ناؤں 
    مکہ ہے جن کا گاؤں مدینہ ہے جن کی ٹھاؤں 
    ان اہل عصمتوں کو چلایا ہے پاؤں پاؤں 
    لے لے پھرا ہے شہر بہ شہر ہائے گاؤں گاؤں

    نازل ہوئی ہے جن کے اوپر آیت حجاب

    اس بند کی زبان دہلی کے اثر کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ مسکین کی طرح درگاہ قلی خاں نے بھی مربع بند میں دو مصرعے فارسی کے لگا کرانہیں مسدس بنایا ہے۔ جس کی ایک مثال ملاحظہ ہو،

    کہیں سکینہ سر و پا برہنہ جاؤں گی
    سب اہل حشر میں کیا شوروغل مچاؤں گی
    کفن لہو سے بھرا باپ کو دکھاؤں گی
    قصاص خون حسین غریب پاؤں گی

    روم بہ حشر و ز سوز جگر کنم فریاد
    جزائے خون پدر رائیگاں نہ خواہم داد

    کہیں پر مربع بند کے بعد فارسی کے دو شعر بھی دیئے گئے ہیں۔ بیان میں زبان کی صفائی کے علاوہ انہوں نے مرثیے کے عناصر ترکیبی میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے۔

    مرثیے کی ہیئت میں تجربات کا یہ سفر دہلی میں نسبتاً زیادہ تیز نظر آتا ہے۔ اس لیے کہ یہاں شروع ہی میں مرثیے، غزل، قصیدے، مثنوی اور مخمس کی شکل میں لکھے گئے۔ صلاح، شاہ مبارک آبرو اور مصطفے خاں یک رنگ کے یہاں مفردہ کے ساتھ مثنوی، قصیدے اور مخمس کی شکل میں بھی بعض مرثیے مل جاتے ہیں۔ دہلی کے اولین مرثیہ گویوں میں مسکین نے بھی مفردہ، مربع، مخمس، مرثیے لکھے۔ ان کے یہاں مفردہ مرثیوں کی تعداد سب سے کم ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مربع مرثیوں میں فارسی یابرج بھاشا کی بیت کا اضافہ کیا۔ لیکن محب نے مربع مرثیوں میں صرف اردو کی بیت جوڑی اور اس طرح ہیئت کے سفر میں مرثیے نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ مثلاً ان کے ایک مرثیے کا یہ بند ملاحظہ ہو،

    موت نے کی عرض سرور ذوالجناح تیار ہے 
    سر کٹانے اب چلورن میں تمہاری بار ہے 
    تب کہاشہ نے سکینہ سوئی یا ہشیار ہے 
    لاؤ مل لے بیکسو اب ہے جدائی کی گھڑی

    ملنا ہے یہ آخری کرلے مجھ سے بین
    کل روئےگی لاڈلی کرکے ہائے حسینؑ
    محب

    دہلوی شعرا میں مرثیہ گوئی کے سلسلے میں سب سے اہم نام سودا کا ہے۔ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مرثیے کے لیے اردو شاعری کی ہر ممکن ہیئت کو آزمایا اور ان میں مرثیہ گوئی کے امکانات کو وسعت دی۔ انہوں نے بہت سے مرثیے لکھے ہیں جو مفردہ، مربع، مستزاد مفردہ، مربع مستزاد، مثلث، مثلث مستزاد، دہرہ بند، مخمس، ترکیب بند، مسدس، مسدس ترکیب بند وغیرہ شکل میں ملتے ہیں۔ مسدس میں مفردہ، مربع اور دوسری صورتوں کے مقابلے میں اظہار مطالب اورمختلف مضامین کو تسلسل کے ساتھ نظم کرنے کی گنجائش زیادہ ہے۔ سودا نے پہلی بار مرثیے میں نئے پہلو پیدا کرکے اس میں اظہار وبیان کی وسعت کے امکانات کو روشن کیا۔ انہوں نے ہیئت کے ان تجربات سے آنے والے شعرا کے لیے راستہ ہموار کر دیا۔ ان کے مرثیے کا یہ بند ملاحظہ ہو،

    کس سے اے چرخ کہوں جاکے تری بیداری
    ہاتھ سے کون نہیں آج تری فریادی
    جو ہے دنیا میں سو کہتا ہے مجھے ایذا دی
    یاں تئیں پہنچی ہے ملعون تری جلادی

    کوئی فرزند علیؑ پر یہ ستم کرتا ہے 
    کیوں مکافات سے اس کے تو نہیں ڈرتا ہے 2

    سودا ہی کی طرح میر تقی میر نے بھی مسدس، مربع، ترجیع بند، ترکیب بند اور مفردہ مرثیے لکھے لیکن ان تمام شعرا کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک مربع مرثیے لکھنے کا رواج زیادہ تھا۔ مسدس اور مخمس میں کوشش ضرور کی گئی لیکن ان میں مرثیوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ مہربان خاں کے یہاں مسدس مرثیے نسبتاً زائد ہیں لیکن ان کے بارے میں یہ طے کرنا دشوار ہے کہ وہ مرثیے سودا کے ہیں یا مہربان خاں کے۔ لیکن یہ سچ ہے کہ یہ کسی کے بھی ہوں، مرثیے کی ہیئت کے سفرمیں ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر وہ مہربان خاں ہی کے مرثیے ہیں تو اس عہد کا سب سے اہم مرثیہ نگار مہربان خاں کو ہی قرار دیا جانا چاہئے۔

    اودھ کی زمین مرثیے کے نمو کے لیے زیادہ سازگار ثابت ہوئی۔ اس کا ایک سبب یہاں کی فارغ البالی، سکون اور خوش حالی ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ جہاں تک سرکاری سرپرستی کا تعلق ہے، وہ مرثیے کو دکن میں بھی حاصل تھی اور کسی حد تک دہلی میں بھی۔ اس کے علاوہ دہلی سے ہجرت کرکے جو شعرا لکھنؤ چلے گئے وہ اپنے عہد کے مانے ہوئے اساتذہ میں تھے۔ انہوں نے اس صنف کے ارتقا کو مہمیز کیا اور اودھ کے شعرا کو ان کے تجربات سے براہ راست استفادہ کا موقع ملا۔

    اودھ کے قدیم ترین مرثیہ گو شعرا میں حیدری کا نام لیا جاتا ہے جن کی وفات ۱۷۵۴ء میں ہوئی۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ۱۲ مرثیوں میں ایک کے علاوہ سب مسدس میں ہیں۔ اسی طرح اودھ کے دوسرے مرثیہ گویوں میں سکندر اور گدا کے نام بےحد مشہور ہیں۔ یہ دونوں معاصرشعرا تھے۔ سکندر کی وفات ۱۸۰۰ء میں ہوئی۔ ان دونوں مرثیہ گویوں کے تقریباً تمام مرثیے مسدس میں ہیں۔ اسی طرح ان کے دوسرے معاصرشعراء احسان اور افسردہ کے بھی تمام مرثیے مسدس میں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ اودھ میں مرثیے کا ارتقا مسدس ہی کی شکل میں ہوا یا مسدس کو مرثیے کی باقاعدہ ہیئت کی شکل میں اس عہد میں قبول کر لیا گیا اور مربع، مخمس یا دوسری ہیئتوں میں مرثیے لکھنے کا رواج ختم ہو گیا۔

    اودھ کے ان مرثیہ گویوں کے یہاں ایک اور خاص بات نظر آتی ہے، جو مرثیے کی اندرونی ہیئت یعنی اس کے عناصر ترکیبی سے تعلق رکھتی ہے۔ سکندر، احسان اور افسردہ کے مرثیوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرثیوں میں واقعات کو تاریخی تسلسل اور مرثیے کو وقوعی ربط کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ شاعرانہ محاسن کی طرف توجہ دی گئی۔ کہیں مرثیے میں تمہید بھی نظم کی گئی اور واقعہ نگاری پر زور دیا گیا۔ یہ عناصر ان مرثیوں میں بہت واضح نہ ہونے کے باوجود مرثیے کی منزل کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں۔ مثلاً یہ بند ملاحظہ ہو،

    شاہ مصروف عزا بیٹھے تھے پیاسے بے خواب
    یک بیک صبح شہادت نے اٹھائی جو نقاب
    گود کے بیچ سکینہ جو پڑی تھی بے آب
    سامنے بانو پکاری کہ ہے اصغر بیتاب

    پانی اتنا سا کہیں لاؤ سکینہ کے لیے 
    بچ رہے اس سے کوئی بوند تو اصغر بھی پیے 
    سکندر

    سکندر کے مرثیوں میں ایک مرثیہ بےحد مقبول ہوا جس کے مطلع کا مصرع ہے، ہے روایت شتر اسوار کسی کا تھا رسول۔ یہ مرثیہ اس عہد کا واحد مرثیہ ہے جو آج بھی سوزخوانی میں پڑھا جاتا ہے۔ ان مرثیوں میں ایک نمایاں بات یہ ہے کہ ان میں رثائی واقعات زیادہ نظم کیے گئے ہیں۔ مثلاً زیادہ تر مرثیوں میں حضرت قاسم، حضرت علی اصغر اور جناب صغرا کے حالات کو پراثرانداز میں نظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً احسان کے ایک مرثیے کا بند ہے،

    یہ کہہ کے اس نے ہاتھ میں خط دے کے عرض کی
    صغرا ترے فراق میں روتی ہے دل جلی
    نہ دن کو بیٹھتی ہے نہ شب کو ہے لیٹتی
    روتی ہے اور راہ تمہاری ہے دیکھتی

    آنسو کے دانے بنا آہ کا تاگا ڈار
    اس تسبیح میں کھڑی، جپتی نام تہار

    اردو مرثیے کی تشکیل کا اصل دور میر مستحسن خلیق، فصیح، میر ضمیر اور دلگیر کا دور ہے۔ مرثیہ جو اپنی ظاہری ہیئت میں مفردہ یا غزل کی ہیئت میں شروع ہوا تھا وہ مسدس پر مکمل ہو گیا۔ جس میں واقعات کو بیان کرنے اور اثر وتاثیر کے اظہار کی سکت (Potentiality) دوسری تمام ہیئتوں سے زیادہ تھی لیکن اندرونی ہیئت کا سفر اب بھی باقی رہا۔ اس لیے کہ ابھی تک مرثیہ ادبی اظہار کی صنف نہیں بن پایا تھا۔ احسان اور افسردہ وغیرہ کے یہاں اس کی جھلکیاں ضرور نظر آنے لگی تھیں لیکن اس وقت تک مرثیہ صرف رونے رلانے اور نجات حاصل کرنے ہی کا ذریعہ تھا۔ خلیق، فصیح اور ضمیر کے یہاں اس اندرونی ہیئت اور ادبی اظہار کے خدوخال نمایاں ہونے شروع ہوئے۔ میر خلیق کے مرثیوں میں جو باتیں ہیں ان میں چہرہ بھی ہے، سفر کا حال بھی، سراپا، رخصت، شہادت اور شہادت کے بعد اسیری حرم کا حال بھی ملتا ہے۔ لیکن یہ سب اپنی ابتدائی منزل میں ہے۔ زبان کی صفائی، روانی اور تشبیہات کی دلکشی نے مرثیے کے حسن میں اضافہ ضرور کیا ہے۔ مثلاً خلیق کے ایک مرثیے کا چہرہ ملاحظہ ہو،

    عزیز و ہوتی ہے ہراک کو الفت اولاد
    نہیں کسی کو گوارا اذیت اولاد
    پدر کا ماں کا ہے آرام راحت اولاد
    جگر میں ہوتی ہے ناسور فرقت اولاد

    خوشی ہے بیٹوں کی جب تک پدر سلامت ہے 
    پدرکا چھوٹنا بیٹوں سے اک قیامت ہے

    اسی طرح سراپے کا یہ بند دیکھئے،

    تھی قاسم نوشہ کی عجب شان شہانی
    کچھ بچپنا کچھ آمدش ایام جوانی
    سہرا بندھا دستار پہ شادی کی نشانی
    وہ رات کا جاگا ہوا وہ تشنہ دہانی

    تلوار رکھے کاندھے پہ اور فوج کو تکنا
    وہ پہنچے پہ کنگنے کا ستارا سا چمکنا

    فصیح کے یہاں مرثیے کی اندرونی ہیئت میں بعض اور اضافے ہوئے۔ مثلا ان کے یہاں بعض جگہ تصوف کا رنگ نظر آتا ہے۔ مثلاً،

    یقیموا لصلوۃ ان کی صفت میں ہے وہ عابد تھے 
    رہے دنیا کی آلائش سے پاکیزہ وہ زاہد تھے 
    ولاخوف علیھم تھے وہ راکع تھے وہ ساجد تھے 
    وہ سب تھے اولیاءاللہ وہ غازی مجاہد تھے

    انہیں تھی عید عاشورہ میں لذت عیدقرباں کی
    فنا فی اللہ منزل آخری ہے اہل عرفا ں کی

    اس کے علاوہ فصیح نے روایتوں کو نظم کرنے کی بناڈالی اور رجزکا مرثیے میں اضافہ کیا جو اس سے پہلے اس اندازمیں مرثیوں میں نہیں ملتا اور جو بعد میں مرثیے کی ہیئت کا ایک ہم عنصر قرار پایا۔ مثلاً رجز کا یہ بند دیکھئے،

    ڈٹ کر رجز پڑھنے لگا غازی بہ آواز جلی
    میں ہوں دلاور، صف شکن، فرزند مولانا علیؓ
    میں ابن عبدالمطلب داد ا ابوطالب ولی
    تلوار میرے باپ کی ہے عمروعنتر پر چلی

    میں ابن خبیر گیر ہوں میں حیدری شمشیر ہوں 
    میں جعفری تصویر ہوں میں بازوئے شبیر ہوں 
    فصیح

    اس رجز میں کئی بند ہیں۔ اس سے قبل رجز کو تسلسل کے ساتھ نظم نہیں کیا جاتا تھا۔ کہیں ایک دو اشعار میں اس کے اشارے مل جاتے تھے۔ فصیح نے کئی کئی بند میں رجز کو نظم کیا۔

    تشکیل ہیئت کے سلسلے میں مرثیے کی تاریخ کا ایک بہت اہم نام میر ضمیر کا ہے۔ میر ضمیر کو اردو کے پہلے مرثیہ شناس علامہ شبلی نعمانی سے لے کر آج تک بیشتر ناقدین نے موجودہ طرز کے مرثیوں کا موجداور اجزائے ترکیبی کا معین کرنے والا قرار دیا ہے۔ میر ضمیر نے کئی سو مرثیے لکھے ہیں۔ انہوں نے خود اپنے بارے میں ایک بند میں لکھا ہے،

    جس سال لکھے وصف یہ ہم شکل نبی کی
    سن بارہ سو انچاس تھے ہجری نبوی کے 
    آگے تو یہ انداز سنے تھے نہ کسی کے 
    اب سب یہ مقلد ہوئے اس طرز نوی کے

    دس میں کہوں سو میں کہوں یہ ورد ہے میرا
    جو جو کہے اس طرز میں شاگرد ہے میرا

    میر ضمیر نے ہم شکل نبی کے اوصاف یعنی سراپا لکھنے کے ’طرزنوی‘ کی بنیاد ڈالی۔ سراپا یوں توان سے پہلے بھی شعرا نے نظم کیا تھا لیکن ان میں ایک دو بند میں سراپا نظم کر دیا جاتا تھا۔ ضمیر جس ’طرزنوی‘ پر فخر کر رہے ہیں وہ سراپے کی تفصیلات چہرے، چال ڈھال اور مختلف اعضا کا بیان ہے۔ ضمیر نے جس سراپے کی طرف اشارہ کیا ہے اس میں ۳۴ بند ہیں اور بلاشبہ اس میں انہوں نے مضمون آفرینی کے جو جوہر دکھائے ہیں وہ ان سے پہلے کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ ضمیر نے منظرنگاری اور جنگ کو بھی تفصیل سے اپنے مرثیے میں پیش کیا ہے لیکن سراپے کے بیان پر انہیں جو قدرت ہے وہ اس سے پہلے کہیں نظر نہیں آتی۔ اس کے علاوہ مرثیے کے ادبی رنگ وآہنگ میں انہوں نے اضافہ کیا اور واقعات کو زیادہ تاثر اور بہتر ترتیب وتسلسل کے ساتھ پیش کیا۔ جنگ ضمیر کے مرثیوں میں صرف دو فریقین کی جنگ ہی نہیں بلکہ رزمیہ کی شکل میں ابھرکر سامنے آتی ہے، جو بعد میں مرثیے کی ہیئت کا ایک اہم جز قرار پائی۔ مثلاً حضرت عباس کی جنگ کے یہ دو بند دیکھئے،

    تب کھینچ کے شمشیر گرے اس پہ جواں چند
    جوں برق گرا رن پہ ید اللہ کا فرزند
    آیا کوئی نزدیک تو ہو خرم و خرسند
    پھینکا اسے بالائے ہوا تھام کمر بند

    گرتے ہوئے پرتیغ لگائی وہ جبیں پر
    اک وار میں دو ہوکے گرا روئے زمیں پر

    بالائے سپر تیغ چمکتی تھی دم جنگ
    بجلی کی چمک ابرسیہ مست میں جس رنگ
    لے چکتی تھی راکب کا جو خود و زرہ تنگ
    کہتی تھی کہ اب گاؤِ زمیں ہے مرا چورنگ

    عباس اسے روک نہ لیتے جوزمیں پر
    تا روز ابد پھر نہ ٹھہرتی وہ کہیں پر

    ایک بند حضرت عون ومحمد کی جنگ کا بھی دیکھئے،

    ان کی تلوار جو میداں میں چمک جاتی تھی
    آنکھ خورشید کی دہشت سے جھپک جاتی تھی
    واں زمیں پاؤں کے نیچے سے سرک جاتی تھی
    اور اجل ساتھ نہ دے سکتی تھی تھک جاتی تھی

    شکل مردے کی سی اس فوج میں تھی جس تس کی
    مرگ کہتی تھی کہ جاں قبض کروں کس کس کی

    مرثیے کے اس منزل پر پہنچتے پہنچتے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ایک ایسی صنف، جو رونے رلانے کے لیے وجود میں آئی ہو اور جسے ذریعہ نجات اور ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے اپنایا ہو، وہ ایک ایسی صنف کی صورت اختیار کر رہی ہے جو متنوع موضوعات کا مجموعہ ہے۔ میر ضمیر نے سراپا اور جنگ کی تفصیلات کا اضافہ کرکے مرثیے کو واقعہ نگاری کے نئے پہلوؤں سے آشنا کیا اور اس میں نئے امکانات پیدا کیے جس پر آگے چل کر انیس و دبیر نے اس کی دنیا ہی بدل دی اور اس کی ظاہری وباطنی ہیئت ہی مکمل نہیں کی بلکہ اس کی بوطیقا کی تکمیل کرکے اسے ادبی اظہار کی سب سے جامع صنف بنا دیا۔

    میر انیس سے پہلے مرثیے میں بعض عناصر چہرہ، سراپا، جنگ، رجز وغیرہ شامل ہو چکے تھے لیکن ان میں وہ ادبی رنگ وآہنگ نہیں تھا۔ چند بند، الفاظ یا اشاروں میں ان کا ذکر آ جاتا تھا جن کی نوعیت باقاعدگی سے عناصر مرثیہ کی نہیں تھی اور نہ ہی ان میں کسی مخصوص ربط وترتیب کا خیال رکھا جاتا تھا۔ شاید انہیں شعوری کوشش بھی قرار دینا مشکل ہو، اس لیے کہ وہ کبھی موقع یا واقعے کے مطالبات کے تحت آ جاتے تھے اور کبھی شاعر انہیں نظرانداز کر جاتا تھا۔ ضمیر اور خلیق کے زمانے میں سراپا اور جنگ کے مناظر کو تفصیل سے پیش کرنے کی شعوری کوشش کا احساس ضرور ہوتا ہے جس کا تفصیلی ذکر کیا جا چکا ہے۔ لیکن انیس نے مرثیے کی ہیئت کے تعین میں واقعات کو مخصوص ترتیب میں ان عناصر کے ساتھ پیش کرکے مرثیے کو مکمل کیا۔ مثلاً انیس کے یہاں مرثیے کی ہیئت اس ترتیب میں نظر آتی ہے۔

    چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، رجز، جنگ، شہادت، بین اور واقعہ نگاری، منظرنگاری، کردار نگاری، جذبات نگاری اس کی اندرونی ہیئت کی شکل میں، ان عناصر میں ایک موج تہہ نشیں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ گھوڑے کی تعریف اور تلوار کی تعریف وغیرہ ان کے معاون عناصر کا کام کرتی ہے اور یہ سب مل کر مرثیے کی جامعیت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ بڑی بات ہے کہ انیس نے مرثیے کی ہیئت کو اتنا جامع بنا دیا کہ ان کے بعد ایک طویل عرصہ تک اس میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا اور اگر کوئی تجربہ کیا گیا تو اس اضافے کو مرثیے نے قبول نہیں کیا۔

    میر انیس نے اردو مرثیے کے لیے جو بوطیقا ترتیب دی اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ کسی صنف کی ہیئت کی تکمیل کے بعداس کے مطابق شعر کہنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ صرف شعرگوئی پر قدرت ہونی چاہئے۔ لیکن اس کے ساتھ میر انیس نے جو اصول ترتیب دیے، اس پر عمل ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ مثلاً یہ تین بند ملاحظہ کیجئے جس میں انہوں نے مرثیے کی پوری بوطیقا پیش کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں،

    روز مرہ شرفا کا ہو سلاست ہو وہی
    لب ولہجہ وہی سارا ہو فصاحت ہو وہی
    سامعیں جلد سمجھ لیں جسے صنعت ہو وہی
    یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی

    لفظ بھی چست ہو مضمون بھی عالی ہوے 
    مرثیہ درد کی باتوں سے نہ خالی ہوے

    بزم کا رنگ جدا رزم کا میداں ہے جدا
    یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا
    فہم کامل ہو تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا
    مختصر پڑھ کے رلادینے کا ساماں ہے جدا

    دبدبہ بھی ہو مصائب بھی ہوں توصیف بھی ہو
    دل بھی محظوظ ہوں رقت بھی ہو تعریف بھی ہو

    اور رزم وبزم کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں،

    قلزم فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
    شمع تصویر پہ گرنے لگیں آ آ کے پتنگ
    صاف حیرت زدہ مانی ہو تو بہزاد ہو دنگ
    خوں برستا نظر آئے جو دکھاؤں صف جنگ

    رزم ایسی ہوکہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی
    بجلیاں تیغوں کی آنکھوں میں چمک جائیں ابھی

    میرانیس نے مرثیے کے لیے فصاحت کو ضروری قرار دیا ہے اور خود مرثیے کے ایک بند میں فصاحت کے معیار کا تعین اس طرح کیا ہے،

    ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے 
    سرمہ زیبا ہے فقط نرگس جادو کے لیے 
    تیرگی بد ہے مگر نیک ہے گیسو کے لیے 
    زیب ہے خال سیہ چہرہ گل رو کے لیے

    داند آنکس کہ فصاحت بہ کلامے دارد
    ہر سخن موقع و ہر نکتہ مقام دارد

    میر انیس نے ان چار بند میں مرثیے کے اصولوں کا تکملہ کر دیا اور ہمیشہ کے لیے اس کی قدروں کے تعین کا ایک پیمانہ مقرر کر دیا۔ میر انیس کے فنی محاسن کے جائزے کانہ یہ موقع ہے اور نہ موضوع۔ مرثیے کی ہیئت کے سلسلے میں بھی ان کے مرثیوں کی مثالوں کو دینے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ بند عام ہیں اور ان کا دہرانا غیرضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہاں پر مرثیے کے عناصر کے ذکر اور ان کی بوطیقا کے حوالے سے یہ عرض کرنا ہے کہ اردو مرثیے نے اپنی ہیئت کی تلاش کا جو سفر سو سال پہلے قلی قطب شاہ اور ملا وجہی کے یہاں دکن سے شروع کیا تھا وہ مسدس اور مرثیے کے عناصر ترکیبی پرانیس کے یہاں پہنچ کر ختم ہو گیا۔ یہ انیس و دبیر کا کمال ہے کہ مسدس کا نام لے کر مرثیہ ذہن میں آتا ہے اور مرثیے کے ذکرکے ساتھ مسدس کی شکل نگاہوں میں آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انیس ودبیر کے بعد مرثیے کے علاوہ بہت کم نظموں کے لیے مسدس کا استعمال ہوا یا صرف ان نظموں کے لیے شعرا نے اس کا استعمال کیا جن میں وہی زورواثر، وہی دبدبہ اور رزم وبزم پیش کرنی تھی۔

    انیس ودبیر کے بعد بیسویں صدی کی تیسری دہائی سے بعض شعرا نے انفرادی طور پر مرثیے کے عناصر اور ہیئت میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش موضوع کے فطری مطالبے کے تحت نہیں تھی بلکہ انیس ودبیر کے زبردست اثر سے باہر آنے کی جدوجہد تھی۔ اس لیے یہ انفرادی کوششوں تک محدود رہی اور اس نے مجموعی حیثیت سے مرثیے کو متاثر نہیں کیا۔ اسی لیے یہاں پر ان تبدیلیوں سے بحث نہیں کی گئی ہے۔ جوش ملیح آبادی، نجم آفندی، رزم ردولوی اور بعض دوسرے شعرا نے ایسے موضوعات پر مرثیے لکھنے کی کوشش کی جن کا مقصد اصلاح وتبلیغ اور اسلام کے انقلاب آفریں اقدامات کی نشرواشاعت تھا۔ یہ مرثیے روایتی طور پر مرثیے نہیں تھے، اسی لیے ان کا ذکر مرثیوں کے بجائے ان کے عنوانات، ذاکر سے خطاب، سوگواران حسین سے خطاب، غلامی اور اسلام، عورت اور اسلام وغیرہ کے تحت کیا جاتا ہے۔ آج بھی مرثیے کے لفظ کے ساتھ وہی مرثیہ سامنے آتا ہے جو انیس ودبیر سے وراثت میں ملا ہے خواہ وہ نجم آفندی کا مرثیہ ہو، نسیم امروہوی، رزم ردولوی، رئیس امروہوی، آل رضا، مہدی نظمی یا وحید اختر کا مرثیہ۔


    حاشیے
    (۱) اردو مرثیے کا ارتقاء۔ ڈاکٹر مسیح الزماں صفحہ 79
    (۲) یہ مرثیہ مہربان خاں کے مرثیوں میں بھی شامل ہے لیکن اس کی زبان اور اسلوب دونوں شہادت دیتے ہیں کہ یہ سودا کی تصنیف ہے۔ (شارب)

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے