اردو شاعری میں جور و جفا کی روایت
اب یہ بات ماہرین عمرانیات کا موضوع بننے لگی ہے کہ انسان کے جسمانی ارتقا کا مطالعہ اس وقت تک یک طرفہ اور نامکمل ہے جب تک اس کے روحانی ارتقا کا مطالعہ نہ کیا جائے۔ ہر حیوان کے لیے ماحول اور اس کی ضروریات ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں جس سے مطابقت اس کی زندگی اور بقا کی اولین شرط ہے۔ حیوانوں میں یہ مطابقت فطری انتخاب کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ماحول کے چیلنج کا جواب اپنے جسمانی اور جبلی جوابی عمل سے دیتے ہیں۔ لیکن انسانوں کا جوابی عمل حیوانوں کے مقابلے پر بہت زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔
انسانی ترقی کی اب تک کی داستان صرف ایک عمل پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ عام حیوانوں کے برعکس ا نسان نے جسمانی اور جبلی جوابی عمل ترک کرکے عقلی اور شعوری جوابی عمل کا راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ اپنے ماحول اور اس کی ضروریات کا جواب میکانکی طور پر نہیں بلکہ ارادی طور پر دیتا ہے۔ مثلاً حیوان کا جبلی اور جسمانی عمل یہ ہے کہ وہ آگ کو دیکھ کر بھاگ جائے مگر انسان نے جبلت کے اس عمل کو روکا اور آگ دیکھ کر بھاگنے کے بجائے اس پر قابو پانا اور اس سے کام لینا سیکھا۔ ہمارے وہ سارے اعمال جو نوع انسانی کو دوسرے حیوانوں سے الگ کرتے ہیں اور اس کے معاشرتی ارتقا کے ذمہ دار ہیں، اسی قسم کے غیرجبلی یا شعوری اعمال ہیں۔ چنانچہ انسانی ترقی اگر کوئی چیز ہے تو اس کا مطالعہ ہم صرف جبلی اور جسمانی حدود کے اندر رہ کر نہیں کر سکتے۔ ہمیں اس کے روحانی اعمال کوبھی دیکھنا پڑےگا۔ آرٹ اور کلچر کا مطالعہ ایسے ہی روحانی اعمال کا مطالعہ ہے کیونکہ آرٹ اور کلچر انہیں کا نتیجہ ہے۔
روحانی عمل کی کوئی جامع ومانع تعریف اس وقت میرا مقصود نہیں ہے۔ لیکن زیر نظر مطالعے کے لیے اس کی دو خصوصیات پیش نظر رہنی چاہئیں۔ (۱) یہ عمل میکانکی نہیں، ارادی ہوتا ہے اور (۲) جبلی یا جسمانی نہیں، شعوری یا عقلی ہوتا ہے۔ اب چونکہ یہ دونوں خصوصیات اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتیں جب تک انسان اپنی جبلت سے اوپر اٹھ کر اسے قابو میں نہ لے آئے، اس لیے انسان کی تعریف یہ ہے کہ یہ وہ حیوان ہے جو خوداپنی طاقت سے وجود میں آتا ہے، یہ خودمخالفتی فطرت انسانی کا پہلا عمل ہے۔ اسی کے ذریعے حیوان کے فطری وجود میں سماجی وجود پیدا ہوتا ہے۔ یہی اس کا اخلاقی وجود بھی ہے۔ قدیم نفسیات میں ا س سارے عمل کو نفس کی مخالفت سے تعبیر کرتے تھے یعنی نفس حیوانی کی مخالفت اور قدیم تصوف اور اخلاقیات کے سارے نظریے انسان کی اس تعریف پر مبنی ہیں۔
چنانچہ اس مختصرسی بحث کے بعد ہم دیکھیں کہ انسان کی اس تعریف کا شاعری سے کیا تعلق ہے۔ شعر اگر روحانی عمل ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ شعر کے ذریعے ہم اپنے حیوانی وجود سے اوپر اٹھتے ہیں۔ یعنی شعر ہمارے حیوانی وجود اور اخلاقی وجود کی پیکار سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس کی وجہ تخلیق بھی ہے اور اس کا موضوع بھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شاعر کے مطالعے کے وقت ہم یہ دیکھتے ہیں کہ شاعر اپنے حیوانی وجود سے خود کتنا اوپر اٹھتاہے اور ہمیں کتنا اوپر اٹھاتا ہے۔ اب اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں ہربرٹ ریڈ کے ایک خیال کو اپنی وضاحت کے لیے استعمال کروں۔
ہربرٹ ریڈ کا خیال ہے کہ ہر انسان میں دو آدمی ہوتے ہیں۔ غار کا آدمی اور سماجی آدمی (Cave man and Social man) شاعری ان دونوں کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ یہاں تک تو وہی بات ہوئی جو میں نے اب تک کہی ہے۔ مگر ہربرٹ بریڈ اسے آگے بڑھاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان کی بھرپور زندگی کے لیے ضروری ہے کہ اس میں یہ دونوں آدمی پورے طور پر زندہ رہیں یعنی دونو ں کی جنگ کا نتیجہ یہ نہ نکلے کہ ایک دوسرے کو مستقل طور پر دبا کر بیٹھ جائے یا ختم کر دے بلکہ دونوں کی جنگ کا نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ دونوں میں ایک خوش گوار توازن پیدا ہو جائے۔ اس خیال کی روشنی میں پوری انسانی تہذیب کی ترقی کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ کتنا بھرپور توازن پیدا ہوا۔ لیکن توازن کی یہ تخلیق دشوار ترین عمل ہے۔ انسانی تہذیب کی تاریخ ہمیشہ ہمارے وجود کے ان دو حصوں کے درمیان جھولتی رہتی ہے۔ کبھی غار کا آدمی غالب آٓ جاتا ہے، کبھی سماجی۔ یہ دونوں باتیں تہذیب اور خود انسان کے لیے خطرہ ہیں۔
ہربرٹ ریڈ کا کہنا ہے کہ آرٹ کا مقصد تہذیب اور انسان کو اسی خطرے سے بچانا ہے۔ یعنی جب غار کا آدمی مکمل طور پر غالب آنے لگتا ہے تو آرٹ سماجی آدمی کو آگے بڑھانے لگتا ہے اور جب سماجی آدمی کامل طور پر فتح یاب ہونے لگتا ہے تو آرٹ غار کے آدمی کی مدد کو پہنچ جاتا۔ اس طرح آرٹ باری باری دونوں کو شہ دے کر ایک دوسرے سے لامختتم جنگ میں مصروف رکھتا ہے اور اس جنگ کے ذریعے نیا سے نیا اور بھرپور سے بھرپور توازن حاصل کرنے میں مدد دیتا رہتا ہے۔ ہمارے فراق صاحب یہ کہتے ہیں کہ میری شاعری کا مقصد یہ ہے کہ روحانیت میں تھوڑی سی مادیت پیدا ہو اور مادیت میں تھوڑی سی روحانیت، تووہ دراصل اسی توازن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
خیر، ہربرٹ ریڈکی بات کو زیادہ آگے بڑھایا جائے تو بالکل پتنگ بازی بن جاتی ہے کہ غار کا آدمی کھینچ مارے تو سماجی آدمی ڈھیل دے دے اور سماجی آدمی کھینچ مارے تو غار کا آدمی ڈھیل دے دے اور تخلیق ادب کے لیے دونوں کی ہار جیت کا چارٹ رکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ میں بات کو اس حد تک تو نہیں لے جانا چاہتا مگر آدمی چاہے تو پتنگ بازی اور چارٹ نویسی سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ میرا مطالعہ کم ہے، اس لیے زیادہ حوالے میں تو میں دے سکتا نہیں۔ ضرورت پڑی تو نظیر صدیقی سے پوچھ کر بتاؤں گا مگر لارنس کے بارے میں کچھ مغربی نقادوں نے اور ان کے ساتھ ہمارے یہاں کے بعض مکھی پرمکھی مارنے والوں نے یہ بہتان لگایا ہے کہ وہ صرف حیوانی یا جبلی وجود کا قائل تھا۔ لیکن ایسے لوگوں نے جن کے خیال میں پورے آدمی کا تصور میں نے لارنس سے اڑایا ہے یہ کمپا مجھ پربھی ماردیا اور کچھ نے نصیحت فضیحت بھی شروع کر دی۔
خیر، میں تو کس گنتی میں ہوں مگر ایسے لوگوں کو میں لارنس کا ایک مضمون’’دی کراؤن‘‘ (The Crown) پڑھنے کا ضرور مشورہ دوں گا۔ لارنس نے اس میں علامتی طور پر ایک بکری اورشیر کی جنگ دکھائی ہے، جو دونوں ایک تاج کے لیے لڑ رہے ہیں، جوآدھا آدھا ان کے سروں پر رکھا ہے۔ دونوں کی خواہش ہے کہ پورا تاج وہ پہن لیں۔ لیکن اس میں ان کو کامیابی نہیں ہوتی۔ لارنس کا کہنا ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کو کامیاب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح توازن بگڑ جائےگا۔ یہ اسی توازن اور ہم آہنگی کے لیے جنگ ہے جس کی طرف میں ابھی اشارہ کر چکا ہوں۔ یہ بات ابھی تک ہمارے ادیبوں کی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ کسی ایک بات پر زو ردینے کامطلب یہ نہیں ہوتا کہ دوسری بات کا انکار کیا جا رہا ہے بلکہ زور صرف اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ دوسری بات کے زور کو کم کرکے مناسب حد تک توازن پیدا کیا جا سکے۔
لیکن شاعری اگر اخلاقی وجود اورحیوانی وجود کے درمیان کشمکش میں توازن کی تلاش کا نام ہے تو ہمارے یہاں جو شاعری آج کل کی جا رہی ہے اسے شاعری کہنا مشکل ہے، کیونکہ اس میں توازن کا کیا ذکر، کشمکش ہی موجود نہیں ہے۔ یہ شاعری خوشی کو بیان کرتی ہے، غم کو بیان کرتی ہے، ہجرووصال سب کے قصے دہراتی ہے مگر ہرجذبے کے ساتھ یوں لگتا ہے جیسے شاعر ٹانگیں پسار کر لیٹ گیا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے جذبے کے درمیان ردوبدل کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ بالکل غائب ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ عشق بھی، جو اس کشمکش کا نقطہ عروج ہے، سیدھا سادا رونے دھونے یا ڈینگیں مارنے کا بہانہ بن گیا ہے۔ یہ عشق یا تو حیوان کا ہے یا سماجی انسان کا۔ انسان کا بہرحال نہیں ہے۔
پرانی اردو شاعری میں عشق ایسا نہیں تھا۔ انیس بیس سال پہلے یگانہ کی شاعری پر مضمون لکھتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ اردو شاعری میں عشق کا غم ایک یا دس عورتوں کے ساتھ سو نہ سکنے کا غم نہیں ہے۔ یہ بات جزوی طور پر مجھے اب بھی صحیح معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اس وقت مجھے پوری بات کی اتنی بھی تفہیم نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہے۔ پرانی اردو شاعری میں عشق دراصل خودمخالفتی کا ا ستعارہ ہے۔ ایک بہت بڑی حیوانی قوت کو بھڑکا کر اسے کسی اور کام میں لانے کا ذریعہ ہے تاکہ انسان اپنے حیوانی وجود سے اوپر ہی اٹھتا چلاجائے۔ یہ جنس کا انکار نہیں ہے نہ نامردوں کی پاک محبت ہے، جیساکہ فراق صاحب نے سمجھا۔ یہ جنس کے اقرار کے ساتھ اس کی قلب ماہیت کا کام ہے۔ چنانچہ اردو شاعری میں محبوب کی پہلی صفت یہ ہے کہ اس کا وصل ناممکن ہے۔
اس بات کے کئی اورمعنی بھی ہیں مگر اس وقت ان سے بحث نہیں ہے۔ اردو شاعری کا عاشق جانتا ہے کہ محبوب ایک سراب کی طرح ہے جو کبھی ہاتھ نہیں آئےگا لیکن اس حقیقت کو جاننے کے باوجود آتش طلب کم نہیں ہوتی اوربڑھتی جاتی ہے اور کم ہو جائے یا پیدا نہ ہو تو محبوب کا قصور نہیں۔ قصور عاشق کے نقش تشنہ لبی کا ہے۔ پھر اس ناممکن الوصال معشوق کی کچھ اور صفات ہیں جو حد درجہ حوصلہ شکن واقع ہوئی ہیں۔ وہ بانی ستم ہے، ماہر جفا ہے، تغافل کیش ہے، وعدہ خلاف ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مائل بہ غیر ہے۔ یعنی حسرت وصل قائم رہنے میں بھی مدد نہیں دیتا۔ ایسے معشوق سے عشق کرنے میں معشوق تو ہاتھ میں نہیں آتا مگر عاشق خود کیمیا ہو جاتا ہے۔ جوش صاحب نے کہا ہے،
عشق میں کہتے ہو حیران ہوئے جاتے ہیں
یہ نہیں کہتے کہ انسان ہوئے جاتے ہیں
مجھے معلوم نہیں کہ جوش کے اس شعر میں ’’انسان‘‘ کے جو معنی ہیں وہ خود جوش کو بھی معلوم ہیں یانہیں۔ کیوں کہ انسان ہو جانے کے بعد ایک معنی وہ بھی ہیں جو فیض کے یہاں ہیں، یعنی درمندوں کی غریبوں کی حمایت وغیرہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عشق کے ذریعے انسان ’’سماجی انسان‘‘ بن جاتا ہے۔ لیکن پرانی اردو شاعری میں انسان بننے کے یہ معنی نہیں ہیں۔ وہاں حیوان اور سماجی انسان کی کوئی قدرنہیں۔ قدر ہے تو دائمی کشمکش میں مسلسل طور پر توازن حاصل کرنے کی۔ انسان اسی جدوجہد کا نام ہے اور پرانی اردو شاعری میں عشق سے انسان بنتا ہے تو انہی معنوں میں۔ اس روشنی میں دیکھئے تو معشوق کی ساری منفی صفات ہی اس کی مثبت صفات ہیں۔ اگر یہ صفات اس میں نہ ہوں تو اس کا نتیجہ یہ نکلےگا کہ عاشق کا حیوان، حیوا ن ہی رہےگا۔ کوئی تعجب نہیں ہے اگر جوش نے اپنی محبوباؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے میرے حیوان کو تھپکایا۔ وہ بے چاریاں شاید اس سے زیادہ کر ہی نہیں سکتی تھیں۔
مگر جوش کے اٹھارہ عشق ہائے کامران کا المیہ یہ ہے کہ وہ حیوان کی سطح سے بس اتنے ہی بلند ہوئے ہیں کہ اردو بول سکتے ہیں۔ لیکن نظیر صدیقی مجھے یاد دلائیں گے کہ اردو شاعری کے محبوب کی کچھ مثبت صفات بھی ہیں، مثلا ًکرم، التفات، توجہ وغیرہ۔ وہ پوچھیں گے کہ اگر منفی صفا ت ہی مثبت ہیں تو مثبت صفا ت کے کیا معنی ہیں؟ دراصل یہ مثبت صفات اس لیے نہیں کہ ان کا مقصد بالآخر منفی صفات پر راضی کر دیتاہے۔ معشوق عاشق کی کمزوری، پست ہمتی او ر بے حوصلگی کا لحاظ کرتے ہوئے اسے چوگا کھلاتا رہتا ہے تاکہ کہیں راستے ہی میں جی نہ چھوڑ بیٹھے۔ اس مقصد کے لیے وعدے بھی کیے جاتے ہیں جو کبھی وفا نہیں کیے جاتے اور وہ سارے ڈھنگ اختیار کیے جاتے ہیں جن کا مقصد مار رکھنا ہے۔ عاشق ان کے ذریعے ناقابل حصول منازل کی طرف بڑھتا جاتا ہے۔ عشق میں حیوان سے انسان بننے کا یہ عمل اتنا جان لیوا ہے کہ غالب جیسا آدمی بھول جاتا ہے۔ آفتاب احمد صاحب نے جب یہ لکھا کہ غالب کی انا اس کے عشق میں حارج ہے تو اس نقطے کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے کہ اناوہ حیوانی صفت ہے جو غار کے آدمی کے انسان بننے میں حارج رہتی ہے۔
اناجب مطلق ہو تو اس سے مذموم کوئی چیز نہیں۔ لیکن اضافی طور پر اس کا ایک مقام اور اہمیت ہے۔ یہ کشمکش کو شدید کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جس عاشق میں انا بالکل نہ ہو وہ مریل گدھے کی طرح ترقی کے راستے پر زیادہ دور نہیں جا سکتا۔ گھوڑا وہی آگے جاتاہے جو منہ زور بھی ہو۔ غالب میں ایسا گھوڑا بننے کا امکان تھا مگر اس کی منہ زوری لگام ہی توڑ دیتی ہے۔ غالب کا عشق غالب کو کہیں نہیں لے جاتا۔ بس منہ سکوڑ کر ہنسنا ضرور سکھا دیتا ہے۔ اردو میں حیوان اور سماجی انسان کے انسان بننے کی تو صرف ایک ہی کامل مثال ہے۔۔۔ میر۔ کشمکش اور توازن کے دائمی سفر میں میر کی ترقی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ وہ تو ایک ایک لمحے پر ایک ایک منزل سر کرتا نظر آتا ہے۔ میر کو دیکھ کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اردو شاعری کے عشق میں ناممکن الحصول معشوق کتنی بڑی نعمت ہے اور محبوب کے جو روجفا کے کیا معنی ہیں؟
جدید اردو شاعری سے جفا بالکل غائب ہو گئی ہے۔ اب تو محبوب کا یہ عالم ہے کہ عاشق نہ بھی چاہے تو گلے سے نہ سہی، بازو سے ضرور چمٹا رہتا ہے۔ اس سے نئے شاعروں کے حیوان کو جو آسودگی ہوتی ہوگی، وہ تو ظاہر ہی ہے کہ شاعری بھی اپنا منصب بھول گئی ہے۔ اب شاعری حیوان کو انسان بنانے میں مدد نہیں دے رہی ہے بلکہ حیوان رکھنے پر مضر ہے۔ یا اگر کچھ زیادہ سے زیادہ بناتی ہے تو سماجی انسان۔ بقول اطہر نفیس: عشق کرنا جو سیکھا تو دنیا برتنے کا فن آ گیا۔ مطلب یہ ہے کہ حیوان اور سماجی انسان کی کشمکش ختم ہوئی اور سیدھے سادے میونسپل ایریا کے باشندے بن گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.