Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسلوبیات انیس

گوپی چند نارنگ

اسلوبیات انیس

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

    انیس کے شعری کمال اور ان کی فصاحت کی داد کس نے نہیں دی لیکن انیس کے ساتھ انصاف سب سے پہلے شبلی نے کیا اور آنے والوں کے لیے انیس کی شاعرانہ fعظمت کے اعتراف کی شاہراہ کھول دی۔ بعد میں انیس کے بارے میں ہماری تنقید زیادہ ترشبلی کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتی ہے۔ انیس کے محاسن شعری کے بیان میں شبلی نے جو کچھ لکھا تھا، پون صدی گزرنے کے باوجود اس پر کوئی بنیادی اضافہ آج تک نہیں کیا جا سکا۔

    شبلی نے انیس کی فصاحت کے ضمن میں جو کچھ لکھا تھا وہ در اصل مشرقی نظریۂ شعر کی آخری شمع کے بھڑک اٹھنے کا منظر تھا۔ شبلی نے شعرالعجم اور موازنۂ انیس و دبیر لکھ کر مشرقی شعریات اور جمالیات کی جو خدمت کی تھی، ویسی اور اس پایے کی پھر کسی سے نہ ہو سکی۔ حالیؔ کا معاملہ دوسرا ہے۔ وہ شاعری میں نشاۃ الثانیہ کے نقیب تھے، جس کا منطقی نتیجہ آگے چل کر عقلیت پرستی اور افادیت پسندی پر اصرار کی شکل میں ظاہر ہوا۔ شبلی شعر میں حظ ولطف اور فصاحت و ادا بندی کے دلدادہ تھے۔ یوں دونوں کی شخصیتیں متاخرین شعرائے اردو کے غالب رجحان یعنی ناسخیت سے انحراف کے طور پر ابھری تھیں۔ لیکن دونوں کا رد عمل ان کی اپنی اپنی انفرادی افتادِ طبع کا انداز لیے ہوئے تھے۔

    انیس کے زمانہ میں شعرگوئی کے دوانداز عام تھے۔ ایک تو وہی قدیمی تھا جس کی رو سے میر تقی میرؔ کو خدائے سخن تسلیم کیا گیا تھا اور جو اپنے وسیع معنوں میں دہلوی شعرا سے منسوب کیا جاتا تھا، یعنی تغزل، درد مندی، سوزوگداز، جذبات نگاری، لطفِ بیان، جدتِ ادا، سلاست، روانی اور ادائے معنی میں حسن و سلیقہ جسے عرفِ عام میں فصاحت کہتے تھے۔ اور دوسرا وہ جسے ناسخ اور ان کے شاگردوں، پیرووں اور ہم عصروں نے شہرت کے بام عروج تک پہنچایا تھا اور جسے اپنی اپنی شعر گوئی کے ذریعے استحکام بخشا تھا۔ یعنی جس میں بالذات قدرتِ بیان، مشاقی، لفظی شعبدہ گری، صنائعِ لفظی و معنوی (محدود معنوں میں)، مضمون آفرینی، نازک خیالی اور علمیت کا اظہار شاعری کا مقصد اور منتہا سمجھا جاتا تھا۔

    انیس کے فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ انیس کی شعری شخصیت اس پر تصنع رجحان کے خلاف رد عمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس زمانے کے لکھنؤ میں ناسخیت کا ڈنکا بجتا تھا، ناسخیت ہی سکہ رائج الوقت تھی۔ اردو کی شعری روایت میں قادرالکلامی اور مشاقی کا بہترین اظہار قصیدے کی فضا میں ممکن تھا۔ ناسخ اور ان کے پیرووں نے اپنی صناعی اور بے روح قافیہ پیمائی کے لیے تقویت اسی روایت سے حاصل کی ہوگی کیوں کہ غزل کی سابقہ روایت میں سوائے شاہ نصیر کے ایسی کوئی نظیر نہیں تھی اور خود شاہ نصیر کی سائیکی نے جس سرپرستانہ ماحول کے زیر اثر ان عناصر کو قصیدے کی روایت سے جذب کیا تھا، وہ کئی گنا مکبر صورت میں لکھنؤ کے نوابانہ ماحول میں موجود تھے اور ناسخ اور ان کے متبعین نے غزل میں اس روایت کو نہ صرف ایک غالب رجحان کی شکل دی بلکہ اسے اس حد تک پر شکوہ اور باوقار بنایا کہ دوسرے تمام رنگ اس کے سامنے پھیکے پڑ گئے۔

    انیس نے مرثیے میں شعوری طور پر اپنے عہد کے اس غالب رجحان سے انحراف کیا، لیکن ناسخیت سے بازی لے جانا بغیر اس کے حربے استعمال کیے ممکن نہ تھا۔ یوں تو فصاحت کا تصور ہر دور میں خاصا مبہم اور وجدانی رہا ہے، نیز ہر جمالیاتی تصور کی طرح جتنا اسے ذوق کی سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے، اتنا اسے معروضی طور پر مشرح نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم انیس کے ضمن میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا انیس کی فصاحت ویسی فصاحت تھی جس کا تصور قدما یا متوسطین کے یہاں ملتا ہے یا انہوں نے مرثیے کی فضا میں قصیدے کی روایت سے (غیرشعوری طور ہی پر سہی) استفادہ کرکے فصاحت کے مروجہ مفہوم میں نئی جہات کا اضافہ کیا؟ اس طرح گویا ناسخیت کے بعض اجزا کی تقلیب کرکے انہوں نے ناسخیت سے ٹکر لی، مرثیے کو نیا جمالیاتی ذائقہ دیا اور بالواسطہ طور پر ناسخیت کی شکست میں ایک تاریخی کردار ادا کیا۔

    یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کیا اردو کو ان کی سب سے بڑی دین یہی تو نہیں۔ شبلی انیس کے سخن فہم ہیں لیکن یاد رہے کہ وہ ان کے طرف دار بھی ہیں اور اس طرفداری میں انہوں نے انیس کی فصاحت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ غیرمشروط ہے اور شاید اس لحاظ سے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے، جیسا کہ آگے چل کر وضاحت کی جائےگی۔ شبلی کو اس فصاحت کا سراغ خود انیس کے بار بارکے دہرائے ہوئے بیانات میں ملا۔ شبلی کا قصور صرف اتنا ہے کہ تعریف کے جوش میں انہوں نے انیس کے بیانات کو جوں کا توں تسلیم کر لیا، اگرچہ انیس کے مشہور مرثیے، نمک خوانِ تکلم ہے۔ فصاحت میری، کے دوسرے مصرعے میں بلاغت کا ذکر بے وجہ نہیں، ناطقے بند ہیں سن سن کے بلاغت میری۔ یہاں بلاغت محض برائے بیت نہیں اگرچہ خود انیس کو گہرا احساس اپنی فصاحت ہی کا تھا،

    ایک قطرے کو جو دوں بسط تو قلزم کر دوں

    بحر مواج، فصاحت کا تلاطم کردوں

    اسی مشہور مرثیے میں پورے شاعرانہ شکوہ سے فرمایا ہے،

    یہ فصاحت یہ بلاغت یہ سلاست یہ کمال

    معجزہ گر نہ اسے کہیے تو ہے سحرِ حلال

    ایک اور بند میں کہتے ہیں،

    ہے کجی عیب مگر حسن ہے ابرو کے لیے

    تیرگی بدہے مگر نیک ہے گیسوکے لیے

    سرمہ زیب ہے فقط نرگس جادو کے لیے

    زیب ہے خال سیہ چہرۂ گل روکے لیے

    داند آں کس کہ فصاحت بہ کلامے دارد

    ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقامے دارد

    انیس کے مرثیے کے بارے میں اس پہلو کو پوری طرح پرکھنے کی ضرورت ہے کہ انیس جس فصاحت کا دعویٰ کرتے ہیں اور شبلی اور ان کے بعد آنے والے نقاد انیس کی جس فصاحت کی داد دیتے ہیں، کہیں اس کا گہرا تعلق مسدس کے فارم کو انتہائی فنکاری کے ساتھ برتنے میں تو نہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو انیس نے مسدس کو اس مقام تک پہنچانے میں اردو کی شعری روایت کے کن اجز ا کی تقلیب کی اور کن وسائل کو برتا؟ مسدس انیس کی ایجاد نہیں۔ مرثیے کے لیے مسدس کا فارم انیس سے مدتوں پہلے رائج ہو چکا تھا۔ انیس نے اسے جلادی اور ایسی فنی بلندی تک پہنچا دیا کہ یہ ہیئت اردو میں لازوال ہو گئی اور اس کے اثرات بعد میں آنے والے نظم گو شاعر بھی قبول کرتے رہے۔

    یہ معلوم ہے کہ ہیئت کے اعتبار سے مرثیے کی ساخت اس کے تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی۔ اظہرعلی فاروقی نے لکھا ہے کہ شروع شروع میں مرثیہ، غزل اور مثنوی کی ہیئت میں نظم ہوتا تھا۔ اس لیے کہ سوزخوانی اور لحن کے طرز میں پڑھنے کے لیے یہ فارم نہایت موزوں تھے (اردو مرثیہ، طبع الہ آباد ۱۹۵۸ء ص ۸) اسی طرح مربع اور دو بیتی مرثیے بھی لکھے گئے۔ میر اور سودا کے زمانے تک نظم کی ہر شکل میں مرثیہ کہا گیا (سفارش حسین رضوی، اردو مرثیہ، تاریخ مرثیہ طبع دہلی ۱۹۶۵ء ص ۱۹۳)، اس زمانے میں مرثیے نے دراصل ادبی منصب حاصل نہیں کیا تھا۔ مرثیہ صرف رونے رلانے اور ثواب کمانے کی چیز تھا۔ بگڑا شاعر مرثیہ گو کی کہاوت اسی زمانے سے چلی ہوگی۔ لیکن میر و سودا کے زمانے تک پہنچے پہنچتے مرثیہ سے ادبی تقاضے شروع ہو گئے۔ مسیح الزماں کا یہ بیان صحیح ہے کہ سودا کی طبیعت ہمہ گیر تھی (اردو مرثیے کا ارتقا، طبع لکھنؤ ۱۹۶۸ء ص ۱۱۵) انہوں نے اپنی ذہانت اور جدتِ فکر سے نئے نئے پہلو نکالے اور مرثیے کو ادبی حیثیت دینے کے لیے مختلف راستوں سے چل کر مسدس تک پہنچے۔ اگرچہ سودا نے مخمس، مستزاد، دہرا بند کئی صورتوں میں مرثیے لکھے، لیکن پہلا مسدس مرثیہ کہنے کا سہرا عام طور پر سودا ہی کے سر ہے۔

    سودا نے اپنے رسالے ’’سبیل ہدایت‘‘ میں محمد تقی تقیؔ کی جو خبر لی ہے اور اس کی تک بندی کا جو مذاق اڑایا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں مرثیے کی ادبی حیثیت تسلیم کی جانے لگی تھی اور شعرا مرثیے کا مقصد محض رثائیت نہیں سمجھتے تھے بلکہ شعریت کو ضروری تصور کرتے تھے۔ اس وقت تک مرثیے کے لیے قصیدہ، مربع، ترجیع بند، ترکیب بند، مخمس، مستزاد سب آزمائے جا چکے تھے، لیکن جس فنی وسیلے سے مسدس کی مخصوص صوتی کیفیت اور ہیئتی ڈرامائیت کی طرف پہلا قدم اٹھایا گیا، وہ ان مرثیوں کا رواج تھا جن میں فارسی یا برج بھاشا کی بیت یا آخری مصرع بطور ٹیپ استعمال ہوتا تھا اور کبھی ہر بند کو مختلف مصرعوں سے پابند کیا جاتا تھا۔

    بعض مرثیوں میں یہ صورت بھی نظر آتی ہے کہ چار مصرعے ایک بحر میں ہیں اور بیت دوسری بحر میں۔ مسدس میں چار مصرعوں کے ہم قافیہ ہونے اور پھر بیت میں قافیہ کے بدل جانے یعنی اصوات اور آہنگ کی اس برابر جاری رہنے والی تبدیلی کے زیر وبم میں جو زبردست جمالیاتی اور ڈرامائی امکانات تھے، ان کی کشش شاید سب سے پہلے انہیں تجربوں میں محسوس کر لی گئی تھی۔ بہر حال اتنا معلوم ہے کہ مسدس میر اور سودا کے زمانے میں رائج ہو چکا تھا۔ اگرچہ میر کے زیادہ تر مرثیے مربع ہیں اور سودا کے بہتر مرثیوں میں نصف سے زیادہ مربع ہیں اور مسدس کی ہیئت میں صرف چھ مرثیے ہیں۔ تاہم سودا کی طباعی اور ان کے متنوع ہیئتی تجربوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مرثیے کو مسدس تک پہنچانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا ہوگا۔

    یہ بات لائق توجہ ہے کہ اردو شاعری نے اپنی تمام اصناف یعنی غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی وغیرہ سب کی سب فارسی سے لیں۔ لیکن مرثیے کی ہیئت مسدس کی شکل میں ہندوستان ہی میں صورت پذیر ہوئی۔ فارسی میں مرثیے کی ابتدا محتشم کاشانی (وفات ۹۹۶ھ) سے ہوئی لیکن ان کے تمام مرثیے اور ان کا مشہور مرثیہ دوازدہ بند قصیدے کی ہیئت میں ہے۔ (تاریخ نظم ونثر در ایران و در زبان فارسی، سعید نفیسی، طبع ایران ۱۳۴۴ھ شمسی ص ۴۴۳) ڈاکٹر رضا زادہ شفق نے تاریخ ادبیات ایران میں لکھا ہے کہ شہیدان کربلا کے مرثیے میں محتشم کاشانی کا ترجیع بند بھی مشہور ہے (طبع ۱۹۵۵ء ص ۴۶۴)، غرض اردو مرثیے کا عروضی ڈھانچا وہی سہی، لیکن اس کی معنوی اور شعری اکائی جیسی وہ مسدس کی ہیئت میں اردو میں ظہور پذیر ہوئی، اس کا کوئی نقش نہ عرب میں ملتا ہے نہ ایران میں۔ یہ اردو کی اپنی چیز ہے اور یہ اردو شاعری کی ایسی جہت ہے جس پر ابھی تک پوری طرح غور نہیں کیا گیا۔

    اب ایک اور پہلو کو لیجئے یعنی یہ کہ تحت خوانی کا کیا ہاتھ مسدس کی تشکیل میں ہو سکتا ہے۔ دہلوی دور تک مرثیہ خوانی میں لحن اور آہنگ کا رواج تھا۔ اس لیے شعری تقاضوں سے زیادہ آواز، دُھن، لے اور موسیقی پر توجہ تھی۔ اس وقت دہلی میں بہت سے عاشورخانے تھے جن میں مجلسیں ہوتی تھیں۔ درگاہ قلی خاں نے جو ۱۷۳۸ء سے ۱۷۴۱ء تک دہلی میں تھے، مرقع دہلی میں محتشم کاشانی اور حسن کاشی کے فارسی مرثیوں اور روضۃ الشہدا کے مجلسوس میں پڑھے جانے کا ذکر کیا ہے۔ (مرقع دہلی مرتبہ سید مظفر حسین، ص ۵۰ تا ۵۴) قیاس چاہتا ہے کہ جیسے جیسے مرثیہ روایتِ شعر کا حصہ بننے لگا، لحن و آہنگ کی جگہ تحت خوانی کا رواج ہونے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ مرثیے کے ادبی جوہر بھی نکھرنے لگے۔ تحت خوانی کے لیے غزل یا مربع سے کہیں زیادہ مخمس یامسدس کی ضرورت تھی۔

    سودا کے دور میں دوہرے لگانے کا یا ترجیع میں ٹیپ لانے کا رواج تھا ہی۔ دوہرے برج بھاشا کے اور ٹیپ کی بیت فارسی کی رائج تھی۔ یہ رواج اردو میں برج اور فارسی کی ’’ریختہ‘‘ پیوند کاری کے اس رواج سے مختلف نہیں تھا جس کی جڑیں تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت سے سماع کی محفلوں میں پیوست ہو چکی تھیں اور جس کے باقیات الصالحات آج تک قوالیوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

    مرثیے میں مسدس کے رواج پاجانے کے سلسلے میں یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ ہماری کلاسیکی شاعری عبارت ہے غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی سے۔ جب یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ مرثیہ اردو شاعری کی خالص اپنی ہیئت کا مظہر ہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ مرثیے کے مسدس کی تشکیل میں ان چاروں اصناف کا جوہر تحلیل ہو گیا ہو؟ انیس کے بارے میں مشہور ہے کہ زمانے کے رواج کے تحت وہ سب سے پہلے غزل کی طرف متوجہ ہوئے، بعد میں میر خلیق کے مشورے سے آخرت کے ثواب کے لیے انہوں نے اسی غزل کو سلام کر دیا۔ یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ سلام وہ غزل ہے جس میں ائمہ سے عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ اب کربلا کے واقعات پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ اس ضمن کے سارے واقعات کا تعلق اولوالعزمی، شجاعت اور استحکام خودی کی اس تاریخی روایت سے ہے جو اسلام اور سامی ذہن کی خصوصیت خاصہ رہی ہے۔

    واقعات کے مسلسل بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس مثنوی تھی، اولوالعزمی اور شجاعت کے بیانات کے لیے ہمارے پاس قصیدہ تھا اور لطیف جذبات کے اظہار کے لیے غزل تھی۔ چنانچہ لحن وآہنگ کے دور تک ان سب فارموں نے مرثیے کا کچھ نہ کچھ ساتھ دیا لیکن مجالس کے تمام تقاضے ان میں سے کسی بھی صنف سے پورے نہیں ہو سکتے تھے۔ مراثی شاہ نامہ یا سکندر نامہ نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ مرثیے میں تمام واقعاتِ کربلا کا اظہار مربوط ومسلسل نہیں ہوتا۔ ان میں تو واقعافت کو فرداً فرداً لینا پڑتا تھا تاکہ مرثیہ ایک نشست میں ختم ہو جائے اور رونے رلانے کے مقصد کو بھی پورا کرے۔ قصیدے میں مدح ہی مدح تھی، جبکہ مرثیے کے ممدوح کی شہادت کو صدیاں گزر چکی تھیں اور مقصد اس کے اوصاف کو تازہ کرنا اور اس کے غم میں آنسو بہانا تھا۔

    مجلس پڑھتے ہوئے یہ ضروری تھا کہ شہدائے کربلا میں سے کسی ایک کا ذکر کرتے ہوئے بیان کو بندوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ ہر بندمیں کسی صورت، کسی نقش، کسی پہلو، کسی واقعے، کسی مکالمے یا کسی حادثے کا تاثر ابھارا جائے اور پھر اس سب کو ہر بند کے ساتھ اس طرح سمیٹ لیا جائے کہ سننے والے کے جذبہ و تخیل پر چوٹ پڑے اور وہ مرثیے کے ارتقا کے ساتھ ساتھ درجہ بدرجہ اس تاریخی فضا میں کھو جائے۔ بند کے خاتمے کا مقصد رباعی کے فن کی یاد دلاتا ہے۔ یعنی چوتھے مصرعے میں بات کا نچوڑ پیش کر دیا جائے۔ یہاں فرق یہ تھا کہ بند میں چار مصرعے ہم قافیہ تھے۔ رباعی کے چوتھے مصرعے کا کام دوہرے یا ٹیپ کے بجائے اب بیت سے لیا جانے لگا جس سے بند کی معنوی فضا کی تکمیل ہو جاتی تھی۔ غرض اس طرح اردو مرثیے کا وہ STANZA وجود میں آیا جسے مسدس کہتے ہیں، لیکن یہاں مجھے اتنا اصرار مثنوی اور رباعی کے اجزا پر نہیں۔ ان کا معنیاتی تعلق ہو سکتا ہے لیکن مسدس سے گہرا اسلوبیاتی اور ہیئتی تعلق قصیدے اور غزل کا ہے جس کا تجزیہ آگے چل کر کیا جائےگا۔

    انیس تک پہنچتے پہنچتے مسدس خاصا منجھ چکا تھا۔ دلچسپ بات صرف یہ نہیں کہ انیس کی شعری شخصیت نے اس فارم کو کتنا متاثر کیا بلکہ یہ بھی کہ خود ان کی ’’فصاحت‘‘ نے اس فارم کے سانچے میں ڈھل کر کیا شکل اختیار کی۔ اس طرح گویا ان کی شاعری میں وہ اسلوب سامنے آیا جس کے بے مثل ہونے کی سب قسم کھاتے ہیں، لیکن جس کے اسلوبیاتی اور صوتی عناصر ترکیبی پر آج تک پوری توجہ صرف نہیں کی گئی۔ اس اجمال کے تجزبے کے لیے سب سے پہلے انیس کے اس شاہکار مرثیے کو لیجئے جس کا ذکر اس مضمون کے شروع میں کیا گیا تھا، یعنی ’’نمک خوانِ تکلم ہے فصاحت میری۔‘‘ چہرے کے حصے سے یہ دو بند ملاحظہ ہوں،

    صبح صادق کا ہوا چرخ پہ جس وقت ظہور

    زمزمے کرنے لگے یادِ الٰہی میں طیور

    مثل خورشید برآمد ہوئے خیمے سے حضور

    یک بیک پھیل گیا چار طرف دشت میں نور

    شش جہت میں رُخِ مولا سے ظہور حق تھا

    صبح کا ذکر ہے کیا چاند کا چہرہ فق تھا

    ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوا ئیں، وہ بیاباں، وہ سحر

    دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر

    اوس نے فرش زمرد پہ بچھائے تھے گہر

    لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر

    دشت سے جھوم کے جب بادِ صبا آتی تھی

    صاف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آتی تھی

    پہلی ہی نظر میں احساس ہوتا ہے کہ دونوں بندوں میں پہلے چار چار مصرعے ’’ر‘‘ کی آواز پر ختم ہوتے ہیں یعنی ظہور، طیور، حضور، نور اور دوسرے میں سحر، شجر، گہر، نظر۔ صوتیات کی اصطلاح میں ایسے صوتی رکن کو جو کسی حرف صحیح مصمۃ CONSONANT پر ختم ہو CLOSE SYLLABLE پابند رکن کہتے ہیں اور جو ’’الف‘‘، ’’واو‘‘، ’’ی‘‘ یعنی حرف علت، مصوتہ VOWEL پر ختم ہو، آزاد یا کھلا ہوا رکن OPEN SYLLABLE کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان دونوں بندوں میں پہلے چار چار مصرعوں کے قوافی پابند ہیں اور ان میں ردیف سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان کے مقابلے میں اگر دونوں بندوں کی بیت کو دیکھیے تو نہ صرف یہ کہ دونوں بیتوں میں ردیف ہے بلکہ ردیف بھی ایسی جس کے آخری رکن آزاد یعنی کھلے ہوئے ہیں۔ مثلاً ’’حق تھا‘‘، ’’فق تھا‘‘، اور دوسرے بیت میں ’’صبا آتی تھی‘‘، ’’صدا آتی تھی۔‘‘ اب ذرا آگے بڑھیے اور ان بندوں کو ملاحظہ فرمائیے،

    اے خوشا حسن رُخ یوسف کنعان حسن

    راحت روح حسین ابن علی، جانِ حسن

    جسم میں زور علی طبع میں احسان حسن

    ہمہ تن خلق حسن، حسن حسن، شان حسن

    تن پہ کرتی تھی نزاکت سے گرانی پوشاک

    کیابھلی لگتی تھی بچپن میں شہانی پوشاک

    جب فریضے کو ادا کر چکے وہ خوش کردار

    کس کے کمروں کو بصد شوق لگائے ہتھیار

    جلوہ فرما ہوئے گھوڑے پہ شہ عرش وقار

    علم فوج کو عباس نے کھولا اک بار

    دشت میں نکہتِ فردوس بریں آنے لگی

    عرش تک اس کے پھر ہرے کی ہوا جانے لگی

    لہر وہ سبز پھر ہرے کی وہ پنجے کی چمک

    شرم سے ابر میں چھپ جاتا تھا خورشید فلک

    کہتے تھے صلِ علیٰ چرخ پہ اٹھ اٹھ کے ملک

    دنگ تھے سب وہ سما سے تھا سماں تابہ سمک

    کہیے پستی اسے جو اوج ہمانے دیکھا

    وہ سماں پھر یہ کبھی ارض و سما نے دیکھا

    چمک، فلک، ملک، سمک، یا کنعان حسن، جان حسن، احسان حسن، شان حسن وغیرہ الفاظ جو سب کے سب مصمتوں پر ختم ہوتے ہیں اور پابند ہیں کیا قصیدے کی یاد نہیں دلاتے؟ اب ذرا بیت کو بھی دیکھیے۔ پہلے بند کی بیت سے قطع نظر آخری دونوں بندوں کی بیتیں کھلی ہوئی ردیف میں ہیں یعنی مصمتوں پر نہیں بلکہ مصوتوں پر ختم ہوتی ہیں۔ ذرا اس بیت کو پھر پڑھیے،

    دشت میں اس کے پھر ہرے کی ہوا جانے لگی

    عرش تک اس کے پھر ہرے کی ہوا جانے لگی

    تو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ بیت کے شعروں میں تغزل کی روح بول رہی ہے۔ مرثیے میں چہرہ ہو یا سراپا، آمد ہو یا رجز، رزم ہو یا شہادت، یہ سب اجزا معناً قصیدے سے مناسبت رکھتے ہیں۔ قصیدہ ایک خاص شکوہ، بلند آہنگی، دبدبے اور شوکت کا اظہار چاہتا ہے اور مرثیے میں تعریف مقصود تھی ایسے جیالوں اور جانبازوں کی جنہوں نے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا تھا۔ گویا مضمون کی علویت جس زور بیان کا تقاضا کرتی تھی وہ قصیدے کی معنوی اور ہیئتی فضا کے قریب تر تھا۔ کسی بھی کامیاب قصیدے کو صوتی اعتبار سے دیکھیے تو پابند قوافی یعنی مصمتوں پر ختم ہونے والے ارکان کی بجتی ہوئی زنجیر نظر آئےگا۔ شعوری یا غیرشعوری طور پر انیس کی فصاحت کی انتخابی نظر قصیدے کے اس بنیادی تقاضے سے صرف نظر نہیں کر سکتی تھی۔

    اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس بات کا جاننا آسان ہے کہ انیس کا اصل کمال یہ ہے کہ قصیدے کی روح کو اپناتے ہوئے بھی اور پابند قوافی CLOSE RHYMES میں بند کہتے ہوئے بھی انہوں نے زبان کو کہیں بوجھل نہیں ہونے دیا، بلکہ شوکت و بلند آہنگی کے ساتھ سلاست و روانی کو بھی بنائے رکھا اور ہیئت کی غزلیہ لے کی نرم روی سے مرثیے میں قصیدے اور غزل کی آمیزش سے ایک نئی جمالیاتی اور اسلوبیاتی سطح کا اضافہ کیا۔ انیس کی فصاحت اسی نئی اسلوبیاتی سطح سے عبارت ہے۔

    یہاں فوری طور پر یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ انیس کے بندوں کے جن پابند قوافی کی طرف اشارہ کیا گیا، یہ کیفیت ان کے تمام مراثی میں قدر مشترک کا درجہ رکھتی ہے یا صرف چند بندوں تک محدود ہے۔ مثلاً مشہور مراثی کے جو مصرعے ذہن میں آتے ہیں، وہ پابند قوافی والے نظریے کی تردید کرتے ہیں،

    جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے

    کیا غازیانِ فوجِ خدا نام کر گئے

    جب رن میں سربلند علی کا علم ہوا

    پھاڑا جو گریباں شبِ آفت کی سحر نے

    دشتِ دغا میں نورِ خدا کا ظہور ہے

    کیا فوج حسینی کے جوانانِ حسیں تھے

    جب خاتمہ بخیر ہوا فوج شاہ کا

    ان مصرعوں سے یہ خیال ہوتا ہے کہ پابند قوافی کے جس مقدمے کو اوپر پیش کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں، کیونکہ مندرجہ بالا مشہور مراثی کے مطلعوں سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ چنانچہ مراثی انیس کی چاروں نول کشوری جلدوں سے مدد لی گئی تاکہ مندرجہ بالا مقدمے کی صحت یا عدم صحت کے بارے میں قطعی رائے قائم کی جا سکے۔ ان چاروں جلدوں میں مراثی کی کل تعداد اور پابند و آزاد اصوات پر ختم ہونے والے قوافی کی تقسیم درج ذیل ہے،

    جلد اول میں کل مراثی ۲۹ ہیں، جن میں ۲۲ آزاد اور ۷ پابند قوافی سے شروع ہوتے ہیں۔

    جلد دوم میں کل مراثی ۲۶ ہیں، جن میں ۱۹ آزاد اور۷ پابند قوافی سے شروع ہوتے ہیں۔

    جلد سوم میں کل مراثی ۱۸ ہیں، جن میں ۱۵ آزاد اور۳ پابند قوافی سے شروع ہوتے ہیں۔

    جلد چہارم میں کل مراثی ۳۳ ہیں، جن میں ۲۶ آزاد اور ۷ پابند قوافی سے شروع ہوتے ہیں۔

    کل میزان: ۱۰۶مراثی ہیں جن میں ۸۲ آزاد اور ۲۴ پابند قوافی سے شروع ہوتے ہیں۔

    اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ پابند قوافی والے بندوں کی تعداد ایک چوتھائی سے بھی کم ہے اور مسدس کے بند کی جس پابند ساخت پر ہم زور دے رہے تھے وہ گمراہ کن ہے، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں۔ یہاں ہمیں اس بات سے دھوکا ہوا ہے کہ یہ اوسط صرف ان بندوں کا ہے جن سے مراثی کا آغاز ہوا ہے۔ بعد میں آنے والے بندوں کا نہیں۔ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بعد میں آنے والے سیکڑوں بندوں کی کیفیت بالکل دوسری ہے۔ اس گوشوارے سے اتنی بات تو بہر حال ثابت ہو ہی گئی کہ انیس اپنے اکثر مراثی کی اٹھان کھلے قوافی والے بندوں یعنی مصوتوں سے کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے طبیعت زور مارنے لگتی ہے اور تخیل جولانیوں پر آتا ہے تو وہ شعوری یا تحت الشعوری طور پر قصیدے کی روح سے ہم کنار ہو جاتے ہیں اور پابند قوافی یعنی مصمتوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کھلے ہوئے قوافی والے بند آتے ہی نہیں۔ آتے ہیں اور ضرور آتے ہیں، لیکن انیس کا غالب رجحان پابند قوافی یعنی مصمتوں کی طرف ہے۔

    مراثی انیس میں بندوں کی ان دو شکلوں کے علاوہ جن کا ذکر اوپر کیا گیا یعنی پابند اور آزاد، ایک شکل اور بھی ملتی ہے یعنی کہنے کو تو یہ بند مردف ہیں لیکن قافیہ ان میں بھی پابند ہے یعنی مصمتے پر ختم ہوتا ہے، جیسا کہ ذیل کے بندوں میں، قامت، صورت، صولت، ہمت، پیکر، برابر، پر، باہر غیرہ سے ظاہر ہے،

    سروشرمائے قد اس طرح کا قامت ایسی

    اسد اللہ کی تصویر تھے صورت ایسی

    شیر نعروں سے دہل جاتے تھے صولت ایسی

    جاکے پانی نہ پیا نہر پہ ہمت ایسی

    جان جب تک تھی اطاعت میں رہے بھائی کی

    تھے علم دار مگر بچوں کی سقائی کی

    ابر ڈھالوں کا اٹھا تیغ دو پیکر چمکی

    برق چھپتی ہے یہ چمکی تو ابرابر چمکی

    سوے پستی کبھی کوندی کبھی سر پر چمکی

    کبھی انبوہ کے اندر کبھی باہر چمکی

    جس طرف آئی وہ ناگن اسے ڈستے دیکھا

    مینھ سروں کا صف دشمن میں برستے دیکھا

    اس طرح کے بند بھی در اصل پابند قوافی ہی کی ذیل میں آتے ہیں۔ اس نظر سے دیکھیے تو زیر نظر مرثیہ ’’نمک خوان تکلم ہے فصاحت میری‘‘ میں پابند و آزاد بندوں میں ذیل کا تناسب ہے،

    کل بند۱۰۲

    پابند قوافی والے بند ۵۵

    کھلے، آزاد قوافی والے بند۷۴

    یعنی غالب رجحان پابند قوافی والے بندوں کا ہے، لیکن یہ صرف ایک مرثیے کی کیفیت ہے۔

    یہ مقدمہ اس وقت تک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک دوسرے مراثی سے بھی اس کی توثیق نہ ہو جائے۔ مزید تجزیے کے لیے ہم نے انیس کے ایک اور شاہکار مرثیے ’’جب قطع کی مسافتِ شب آفتاب نے‘‘ کا انتخاب کیا۔ اس کے تجزیے کے نتائج حسب ذیل ہیں،

    کل بند۱۹۴

    پابندی قوافی۱۴۰

    کھلے قوافی۵۴

    اب ان دونوں مرثیوں سے ذیل کا اوسط حاصل ہوا،

    کل بند ۱۰۲+۱۹۴=۲۹۶

    پابند قوافی ۵۵+۱۴۰ =۱۹۵

    کھلے قوافی ۴۷+۵۴ =۱۰۱

    گویا پابند قوافی والے بند کل بندوں کا ۶۶ فیصد یعنی دو تہائی ہوئے۔ یہ دو مشہور مرثیوں کی کیفیت ہے۔ اس مقدمے کو حتمی طور پر ثابت کرنے کے لیے ہم نے نول کشوری مراثی انیس کی چاروں جلدوں کی مدد لی اور ہر جلد سے پانچ پانچ مرثیوں کو کہیں کہیں سے بغیر کسی تخصیص کے کھول کے دیکھا۔ اس طرح کے اتفاقی RANDOM اور غیر ارادی تجزیے سے جو نتائج سامنے آئے وہ حسب ذیل ہیں،

    جلد اول: ص۶۲- ۶۳=۱۵+۳

    ص۱۹۴- ۱۹۵=۱۰

    ص۲۶۰- ۲۶۱=۱۳+۵

    ص۳۱۰ -۳۱۱=۹

    ص۳۳۸ -۳۳۹=۱۳+۵

    کل بند۹۰ ۶۰پابند، ۳۰ آزاد

    جلد دوم: ص۴۶-۶۵=۱۲+۶

    ص ۱۳۰-۱۳۱=۱۱+۷

    ص ۲۰۰ -۲۰۱=۷ +۱۱

    ص ۲۶۲ -۲۶۳=۱۲+۶

    ص ۲۹۸ ۲۹۹=۷ +۱۱

    کل بند ۹۰، ۴۹ پابند، ۴۱ آزاد

    جلدسوم: ص۲۰-۲۱=۱۴+۴

    ص۳۲-۳۳=۱۲+۶

    ص۶۲-۶۳=۶+۱۲

    ص۱۴۶-۱۴۷=۱۳

    ص۲۱۰-۲۱۱=۱۳+۵

    کل بند۴۰ ، ۵۸ پابند، ۳۲ آزاد

    جلدچہارم: ص۴۸-۴۹=۶+۱۲

    ص ۱۱۰ -۱۱۱=۹+۹

    ص ۱۴۸-۱۴۹=۹+۹

    ص ۲۰۸-۲۰۹=۱۰

    ص ۲۷۸-۲۷۹=۱۴

    کل بند۹۰، ۴۸ پابند، ۴۲ آزاد

    ۴۸ پابند ۴۲آزاد

    ۵۸ پابند ۳۲آزاد

    ۴۹ پابند ۴۱آزاد

    ۶۰ پابند ۳۰آزاد

    میزان: کل بند ۳۶۰، ۲۱۵ پابند ۱۴۵ آزاد

    اوسط=۶۰ فیصد

    نول کشوری جلدوں میں ہر صفحے پر نوبند ہیں۔ گویا آمنے سامنے کے دو صفحوں پر اٹھارہ بند ہوئے۔ ہر جلد کو پانچ جگہ سے کھولا گیا۔ گویا ۱۸x۵=۹۰ بند ہر جلد سے لیے گئے۔ اس طرح چار جلدں سے بندوں کی کل تعداد ۳۶۰ ہوئی، جن میں ۲۱۵ میں پابند قوافی اور ۱۴۵ میں کھلے قوافی ہیں، ان کا اوسط ۶۰ فیصد کا ہوا۔ گویا ’’نمک خوانِ تکلم ہے فصاحت میری‘‘ اور ’’جب قطع کی مسافت ِشب آفتاب نے‘‘ کے دو مشہور مرثیوں کے تجزیے کی مدد سے ہم نے جو مقدمہ پیش کیا تھا، اب گویا تمام جلدوں سے نمونے کے طور پر لیے گئے اتفاقی تجزیے سے بھی اس مقدمے کی توثیق ہو گئی۔ یعنی مراثی انیس کے بندوں کا غالب رجحان پابند اصوات یعنی مصمتوں کی طرف ہے یعنی اگر یہ کہا جائے کہ قصیدے کی روح نے انیس کے مراثی میں ایک نیا قالب اختیار کیا تو بےجا نہ ہوگا۔

    اب مسدس کی بیتوں یعنی آخر میں آنے والے دو مصرعوں کو بھی لیجئے جن کی کھلی ردیفوں اور منہ بولتے مصوتوں یا غنیت کا سیدھا سچا رشتہ غزل کے ہیئتی فیصان سے جڑ جاتا ہے۔ غزل کا کوئی دیوان اٹھا کر دیکھیے اگر شاعر کا مقصد محض سنگلاخ زمینوں کو پانی کرنا نہیں تو اشعار کی زیادہ تعداد کھلی اصوات یعنی مصوتوں والے قوافی وردیف میں ملےگی یعنی الف، واو، اور ی/ے کی ذیل میں یا نون (غنہ) میں جو الف، واو اور ی/ ے کے ساتھ آتا ہے۔ بعینہ یہی صوتی کیفیت انیس کی بیتوں کی ہے۔ انیس کے جن دو مشہور مرثیوں کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، ان کی ۱۹۴+۱۰۲=۲۹۶ بیتوں میں سے ایک بھی بیت ایسی نہیں ہے جس میں کھلی یعنی مصوتوں پر ختم ہونے والی ردیف نہ ہو۔ ان بیتوں کے سلسلے میں چند باتیں خصوصیت سے توجہ چاہتی ہیں،

    ۱۔ بیت میں ردیف کا التزام ہر جگہ ہے۔

    ۲۔ ردیفوں میں کھلی اصوات کا استعمال کیا گیا ہے۔

    ۳۔ بیت میں افعال لازماً آتے ہیں۔

    ۴۔ ردیف اکثر و بیشتر اگر فعل پر نہیں تو حرف جار پر ختم ہوتی ہے۔

    ان نکات کی وضاحت کے لیے ذیل کے بند ملاحظہ ہوں،

    کٹ گئی تیغ تلے جب صفِ دشمن آئی

    یک بیک فصلِ فراق سرو گردن آئی

    بگڑی اس طرح لڑائی کہ نہ کچھ بن آئی

    تیغ کیا آئی کہ اڑتی ہوئی ناگن آئی

    غل تھا بھاگو کہ یہ ہنگام ٹھہرنے کا نہیں

    زہر اس کا جو چڑھے گا تو اترنے کا نہیں

    کہہ کے یہ باگ پھرائی طرف لشکر شام

    پڑ گیا خیمۂ ناموس نبی میں میں کہرام

    رن میں گھوڑے کو اڑاتے ہوئے آئے جو امام

    رعب سے فوج کے دل ہل گئے کانپے اندام

    سرجھکے ان کے جو کامل تھے زباں دانی میں

    اڑ گئے ہوش فصیحوں کے رجز خوانی میں

    یک بیک طبل بجا فوج میں گرجے بادل

    کوہ تھرائے زمیں ہل گئی گونجا جنگل

    پھول ڈھالوں کے چمکنے لگے تلواروں کے پھل

    مرنے والوں کو نظر آنے لگی شکل اجل

    واں کے چاؤش بڑھانے لگے دل لشکر کا

    فوج اسلام میں نعرہ ہوا یا حیدر کا

    اوپر کے تینوں بندوں میں ردیف ہر بیت میں ہے اور ہر جگہ کھلی ہوئی ہے۔ ’’نہیں‘‘ اور ’’میں‘‘ میں غنیت ہے۔ اب فعل کو دیکھیے، اوپر کے چار مصرعوں کے افعال کی بندش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلے بند میں ’’آئی‘‘ فعل ہے جس کی چاروں مصرعوں میں تکرار ہوئی ہے۔ آخری دو مصرعوں کا انداز بالکل دوسرا ہے۔ یہ دونوں مصرعے امدادی فعل ’’تھا‘‘ پر ٹکے ہوئے ہیں اور دونوں مصرعوں میں فعل مکمل ہے۔ انیس کی اکثر بیتوں میں یہ ہوتا ہے کہ اوپر کے چار مصرعوں میں فعل کی جو بھی صورت رہی ہو، بیت میں آکر وہ اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے یا اپنا قالب بدل کے مکمل صورت میں سامنے آتی ہے۔ اوپر کی دوسری بیت میں ’’سر جھکے‘‘، ’’اڑ گئے‘‘ اور تیسری بیت میں ’’بڑھانے لگے‘‘، ’’نعرہ ہوا‘‘ نہ صرف اوپر کے چار چار مصرعوں کی فعلیہ فضا سے اسلوبیاتی طور پر مختلف ہیں بلکہ فعلیہ سطح پر ہر لحاظ سے مکمل بھی ہیں اور اس انداز سے نہ صرف بند کی معنیاتی فضا کی بلکہ اسلوبیاتی اکائی کی بھی تکمیل ہوتی ہے۔ اس کا کچھ اندازہ ذیل کی بیتوں میں بندوں کے ساتھ پڑھنے سے ہوگا،

    پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زارِ صبح

    گلزار شب خزاں ہوا آئی بہارِ صبح

    کرنے لگا فلک زرِ انجم نثارِ صبح

    سرگرم ذکرِ حق ہوئے طاعت گزارِ صبح

    تھا چراغ اخضری پہ یہ رنگ آفتاب کا

    کھلتا ہے جیسے پھول چمن میں گلاب کا

    چلنا وہ بادِ صبح کے جھونکھوں کا دمبدم

    مرغان باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم

    وہ آب وتاب نہر وہ موجوں کا پیچ و خم

    سردی ہوا میں پر نہ زیادہ بہت نہ کم

    کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا

    تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

    با چشم نم وہاں سے بڑھے آپ چند گام

    گویا زمیں کی سیر کو اترا مہ تمام

    مثل نجوم گرد تھے حیدر کے لالہ فام

    شکلیں وہ نور کی وہ تجمل وہ احتشام

    زلفیں ہوا سے ہلتی تھیں ہاتھوں میں ہاتھ تھے

    لڑکے بھی بند کھولے ہوئے ساتھ ساتھ تھے

    ٹھنڈی ہوا میں سبزۂ صحرا کی وہ لہک

    شرمائے جس سے اطلسِ زنگا ری فلک

    وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک

    ہر برگ گل پہ قطرۂ شبنم کی وہ جھلک

    ہیرے خجل تھے گوہر یکتا نثار تھے

    پتے بھی ہر شجر کے جواہر نگار تھے

    خیمے میں جاکے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال

    چہرے توفق ہیں اور کھلے ہیں سروں کے بال

    زینب کی یہ دعا ہے کہ اے رب ذوالجلال

    بچ جائے اس فساد سے خیرالنسا کا لال

    بانوے نیک نام کی کھیتی ہری رہے

    صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے

    ان بیتوں کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ان کا خاتمہ یا تو امداد ی فعل پر ہوتا ہے یا فعل پر یا پھر حروف جار پر، یہ سب الفاظ (افعال ہوں یا حروفِ جار) کھلی اصوات پر ختم ہوتے ہیں۔ انیس کے ہاں غیرمردف بیتیں سرے سے ہیں ہی نہیں۔ البتہ اکا دکا پابند ردیفیں آئی ہیں۔ ان کا تناسب یہ ہے، پہلے مرثیے کی کل ۱۰۲ بیتوں میں سے پابند ردیفیں صرف ۵ ہیں۔ اسی طرح دوسرے مرثیے کی کل ۱۹۴بیتوں میں سے پابند ردیفیں صرف ۱۳ ہیں۔ گویا دونوں مرثیوں کی ۱۰۲+۱۹۴=۲۹۶بیتوں میں سے صرف ۵+۱۳=۱۸ پابند ردیفیں ہیں۔ یہ کل بیتوں کا ۶ فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس اوسط کی مزید تصدیق ہم نے بیس مختلف مراثی کے ان ۳۶۰بندوں کی بیتوں سے بھی کی، جن کا تذکرہ پہلے کیا جا چکا ہے۔ ان کے نتائج سے بھی اسی بات کو توثیق ہوئی۔

    پہلی جلد ۹۰:۶

    دوسری جلد ۹۰:۵

    تیسری جلد ۹۰:۷

    چوتھی جلد ۹۰:۵

    میزان۳۶۰:۲۳: اوسط ۶ فیصد

    یعنی ۳۶۰ بیتوں میں صرف ۲۳ پابند ردیفوں میں ہیں اور اوسط کے پیش نظر اب اس وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی کہ بیتوں کا صوتی رجحان بندوں کے صوتی رجحان کے بالکل برعکس ہے، یعنی وہاں پابند قوافی اور مصمتوں پر زور تھا تو یہاں آزاد قوافی یعنی مصوتوں کی کثرت ہے۔ گویا بالکل دن اور رات کی کیفیت ہے۔ ہر چار مصرعوں کے بعد جب قافیہ بدلتا ہے تو ایک زبردست اندرونی موسیقیت اور ڈرامائیت پیدا ہوتی ہے۔ بندوں میں شوکت، دبدبہ، بلند آہنگی اور جلال ہے تو بیتوں میں جمال، رس اور لطافت ہے۔ بندوں میں اٹھان اور بیان ہے تو بیتوں میں تکملہ اور خاتمے کی کیفیت ہے۔ بندوں کے مصمتے جب بیتوں کی کھلی آوازوں اور مصوتوں میں ڈھلتے ہیں تو عجب خوش آہنگی اور جمالیاتی کیف کا احساس ہوتا ہے۔ یہ ہے قصیدے اور غزل کی روح کا وہ ملاپ جس کی طرف شروع میں اشارہ کیا گیا تھا کہ اس نے انیس کے یہاں ایک اچھوتا اسلوبیاتی پیکر اختیار کیا اور فصاحت کے قدیم تصور کو ایک نئی شعری جہت سے آشنا کیا۔

    اس ساری بحث میں اب تک ہم نے دبیر کو نظرانداز کیا ہے۔ ہمارے مقدمے پر ابھی یہ سوال قائم کیا جا سکتا ہے کہ مراثی انیس کی جس امتیازی خصوصیت پر ہم اصرار کر رہے ہیں اور جسے انیس کی فصاحت کے ملفوظی اجزائے ترکیبی کا جزو لازمی قرار دے رہے ہیں، وہ کہیں مسدس ہی کی خصوصیت نہ ہو۔ یعنی قصیدے اور غزل کے ہیئتی عناصر کی آمیزش اور مصمتوں اور مصوتوں کا صوتی ٹکراؤ اور جھنکار کہیں مسدس ہی کے فارم کی بدولت نہ ہو، اور تمام مسدس کہنے والوں میں یہ خصوصیت جزو مشترک COMMON DENOMINATION ہی کی حیثیت نہ رکھتی ہو۔ اس صورت میں اس کا حق تحسین CREDIT مسدس کی ہیئت کو ملنا چاہیے نہ کہ انیس کے فن کو۔

    چنانچہ ضروری ہے کہ اس ضمن میں انیس کے مسدس کا موازنہ دبیر کے مسدس سے کیا جائے، کیونکہ اگر یہ خصائص مسدس کے ہیں یعنی ان کا وقوع مسدس میں بالقوۃ موجود LATENT ہے تو دونوں میں مشترک ہوں گے اور اس بارے میں انیس کا کچھ امتیاز نہ ہوگا اور اگر ان کا تعلق شاعر کے جوہر ذاتی اور ذہن تخلیقی سے ہوگا تو دونوں کے یہاں اس ضمن میں جو کچھ مابہ الامتیاز ہوگا، وہ ظاہر ہوکر سامنے آ جائےگا۔ اودھ اخبار کی جلدوں یا نول کشوری جلدوں کی غیرموجودگی میں ’’شعار دبیر‘‘ مرتبہ مہذب لکھنوی (جس میں دبیر کے چھ بہترین مراثی شامل ہیں) اور ’’شاعر اعظم مرزا سلامت علی دبیر‘‘ مؤلفہ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری سے مدد لی گئی، جس میں دبیر کا مرثیہ ’’ذرہ ہے آفتاب درِ بو تراب کا‘‘ شامل ہے، ان کی مدد سے مراثی دبیر کے تجزیے کی جو کیفیت سامنے آئی درج ذیل ہے،

    کل بند پابند قوافی والے بند

    ذرہ ہے آفتاب در بو تراب کا: ۸۱ ۳۱

    جب ماہ نے نوافل شب کو ادا کیا: ۱۵۳ ۶۹

    کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے: ۱۳۲ ۳۸

    ۳۶۶ ۱۳۸= ۳۸ فیصد

    اتفاقی تجزیہ ’’شعار دبیر‘‘

    (ہر دسواں صفحہ، کل پندرہ بار: ۱۵۰۳۱=۲۱ فیصد، فی صفحہ پانچ بند)

    اب اس تجزیے سے یہ نہایت دلچسپ اور ناقابل تردید حقیقت سامنے آتی ہے کہ پابند قوافی والے بندوں کے استعمال پر دبیر کو وہ قدرت نہیں یا ان کی طبیعت کو پابند قوافی والے بندوں سے وہ نسبت نہیں جو انیس کو ہے۔ انیس کے یہاں پابند قوافی والے بندوں کا استعمال ۶۰ سے ۶۶ فیصد یعنی تقریباً دو تہائی ہے جبکہ دبیر کا RANGE۲۱ فیصد سے ۳۸ فیصد ہے یعنی تقریباً ایک تہائی۔ اسی نسبت سے دونو ں کے فن میں علاوہ دوسرے شعری عوامل کے، جو بنیادی ہیئتی اور صوتی فرق ہے، یعنی پابند و آزاد قوافی کے ٹکراؤ، نیز تبدیلی اصوات کے مخصوص زیرو بم اور صوتی جھنکار سے جو جمالیاتی کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہ اسی اعتبار سے دبیر کے یہاں کم ہے۔ دبیر کے یہاں یہ خصوصیت اگرچہ موجود ہے، لیکن اس ہمہ گیر اور اعلیٰ پیمانے پر نہیں جیسی انیس کے یہاں ہے۔ نیز اس سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ پابند قوافی والے بندوں کا استعمال مسدس کے فارم کی ناگزیر کیفیت نہیں، ورنہ دونوں کے یہاں ان کا اوسط کم و بیش ایک جیسا ہوتا۔

    اس تجزیے سے انیس و دبیر کے فن کا فرق (صوتی حد تک) تو واضح طور پر سامنے آ گیا لیکن جہاں تک مسدس کے فارم کا تعلق ہے، ابھی اس کو مزید جانچنے کی ضرورت ہے، بالخصوص مرثیے سے ہٹ کر جن شعرا نے مسدس کو برتا ہے، ان کے یہاں بھی یہ دیکھ لینا چاہیے کہ مسدس کی کیا کیفیت ملتی ہے اور پابند و آزاد قوافی والے بندوں کی کیا نوعیت ہے۔ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ہم نے بوجوہ حالیؔ اور چکبستؔ کا انتخاب کیا کیونکہ انیس کے بعد ان دونوں نے مسدس کے فارم کو جس کامیابی سے برتا ہے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ مسدس حالی چونکہ مسلسل نظم ہے اور خاصی طویل، اس لیے بہتر طریقہ یہی تھا کہ اس کا اتفاقی تجزیہ کیا جائے۔ اس سے جو دلچسپ نتائج سامنے آئے درج ذیل ہیں،

    (مسدس حالی صدی ایڈیشن مرتبہ، صفحہ پابند قوافی والے بند

    ڈاکٹر سید عابد حسین طبع لاہور ۱۹۵۷ء)

    ۸۰ ۲

    ۹۰ ۱

    ۱۰۰ ۲

    ۱۱۰ ۰

    ۱۲۰ ۲

    ۱۳۰ ۱

    ۱۴۰ ۰

    ۱۵۰ ۲

    ۱۶۰ ۰

    ۱۷۰ ۱

    ۱۸۰ ۱

    ۱۸۵ ۳

    ۱۷۵ ۱

    ۱۶۵ ۲

    ۱۵۵ ۱

    کل بند۶۰ پابند۱۹: اوسط ۳۲ فیصد

    ہر صفحے پر چار بند ہیں۔ اس طرح پندرہ صفحوں پر کل ساٹھ بند ہیں۔ ان میں پابند قوافی والے بند صرف انیس نکلے، یعنی ایک تہائی سے بھی کم۔ یہ انیس کے اوسط سے آدھا ہوا۔ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔ (البتہ اس کمی کو حالی ایک اور طرح سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یعنی ان کے یہاں ۶۰ بیتوں میں سے ۱۵ پابند ہیں اور جو بالکل الگ بات ہے۔ انیس کے یہاں بیتیں بالعموم آزاد اور کھلی ہوئی ہیں۔) اب ذرا چکبستؔ کو ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے یہاں ’’رامائن کا ایک سین‘‘ سے بہتر مسدس نہیں، چنانچہ اسی کو لیا گیا۔ کل بند ۳۳، پابند قوافی ۲۴ اور ۳۳ بیتوں میں سے سوائے ایک کے سب آزاد اور کھلی ہوئی۔ کیا اس کے بعد یہ بتانے کی ضرورت باقی ہے کہ چکبستؔ کا مسدس انیس سے کتنا قریب ہے اور چکبست کے بارے میں وہ بات جو تاثراتی یا جمالیاتی طور پر کہی جاتی ہے کہ چکسبت کا فن انیس سے شدید طور پر متاثر ہے، اس کی کیسی واضح معروضی بنیاد اس تجزبے سے سامنے آ جاتی ہے۔

    نیز اب اس بارے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ پابند قوافی والے بندوں کا کوئی مقررہ فیصد مسدس کے فارم کے لیے ناگزیر نہیں۔ مسدس کو برتنے والے مختلف شعرا کے یہاں اس کا اوسط مختلف ہے۔ یعنی کسی خاص تعداد میں پابند قوافی والے پہلے چار مصرعوں کا وقوع مسدس کے فارم کا COMMON DENOMINATOR نہیں۔ دبیرؔ اور حالی کے یہاں ان کا وقوع بالعموم ایک تہائی ہے جبکہ انیس کے یہاں دو تہائی۔ یہ فرق معمولی فرق نہیں اور یہ امتیاز مسدس کو برتنے والے تمام شعرا میں صرف انیس کو حاصل ہے۔ انیس نے ایک جگہ کیا اچھا اشارہ کیا ہے،

    بزم کا رنگ جدا رزم کا میداں ہے جدا

    یہ چمن اور ہے زخموں کا گلستاں ہے جدا

    فہم کامل ہو تو ہر نامے کا عنواں ہے جدا

    مختصر پڑھ کے رلا دینے کا ساماں ہے جدا

    دبدبہ بھی ہو مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو

    دل بھی محظوظ ہوں، رقت بھی ہو، تعریف بھی ہو

    انیسؔ ’’بزم‘‘ اور ’’رزم‘‘ کے رمز آشنا تھے۔ بین و بکا کو انہوں نے ’’مختصر پڑھ کے رلادینے‘‘ تک محدود رکھا ہے۔ ’’مصائب‘‘ اور ’’رقت‘‘ کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا بطورِ خاص خیال تھا کہ ’’دل بھی محظوظ ہوں‘‘ جو غزل کا وصف ہے اور ’’دبدبہ‘‘ بھی ہو ’’توصیف‘‘ بھی ہو اور ’’تعریف‘‘ بھی، جو قصیدے کا منصب ہے۔ انیس نے یہ سب کام مسدس سے لیا۔ اوپر کی بحث سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ انیسؔ جس فصاحت کا دعویٰ کرتے ہیں، یا شبلی اور ان کے بعد آنے والے نقاد انیسؔ کی جس فصاحت کی داد دیتے ہیں، اس کا گہرا تعلق مسدس کے فارم کو انتہائی فنکاری کے ساتھ برتنے سے بھی ہے اور غزل اور قصیدے کی شعری روح کو جذب کرکے اس کی تقلیب کرنے سے بھی۔ انیسؔ کی فصاحت فریبِ نظر کا سامان ضرور فراہم کرتی ہے لیکن در اصل یہ ویسی فصاحت نہیں جس کاتصور قدما یا متوسطین کے یہاں ملتا ہے۔

    انیسؔ نے مرثیے کی فضا میں قصیدے کی روایت سے استفادہ کرکے فصاحت کے مروجہ مفہوم میں نئی وسعت پیدا کی۔ ممکن ہے ایسا غیر شعوری طور پر ہوا ہو، تاہم اس سے یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ انیسؔ نے ناسخیت ہی کے بعض اجزا کی تقلیب کرکے ناسخیت سے ٹکر لی اور مرثیے کو ایک نئی خوش آہنگی اور جمالیاتی حسن عطا کرکے بالواسطہ طور پر ناسخیت کی شکست میں قصیدے کے زور بیان اور دبدبے اور بیتو ں میں غزل کی لطافت اور نرمی کو باہم مربوط کرکے مرثیے کو جو نیا اسلوبیاتی پیکر دیا، وہ ان کے فن سے مخصوص ہے اور یہ جزولاینفک ہے اس فصاحت کا جس کے قدیم مفہوم کو انہوں نے وسعت دی اور جس کا اثر بعد کی اردو شاعری پر برابر محسوس ہوتا رہا ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے