واپس کلاسیکیت کی طرف
غالب کو عام طور پر اردو کا سب سے مشکل شاعر سمجھا جاتا ہے۔ ان کے زیادہ تر اشعار ناقابل فہم اور مبہم تصور کیے جاتے ہیں جو ادیبوں اور نقادوں کو گہرے تجزیاتی مطالعے پر مجبور کرتے ہیں۔ غالب کی زیادہ تر شرحیں ایسی ہیں گویا معما حل کیا جا رہا ہو۔ یہی سبب ہے کہ ان کی اب تک متعدد شروح سامنے آچکی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
اس کے برعکس میر اس قسم کے شاعر سمجھے گئے ہیں جو اپنا اظہار ایسے انداز میں کرتے ہیں جو آسان اور قابل فہم نظر آتا ہے۔ اسلوب کی سادگی، اظہار کی روانی اور معنی کی وضاحت ان کی امتیازی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن ممتاز نقاد شمس الرحمٰن فاروقی اس سلسلے میں مختلف انداز نظر رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں میر اس طرح کا سادہ شاعر نہیں ہے جیسا عموماً نقاد اور قاری اسے سمجھتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ میر کی سادگی اکثر ہمیں مغالطے میں ڈال دیتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اول اول انہوں نے میر کی غزلوں کا انتخاب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس میں ان کے مختلف اشعار کا تجزیہ بھی شامل کرنے کا خیال تھا لیکن جلد ہی انہیں محسوس ہوا کہ میر کی غزلوں میں معنی کی پرتیں اور فنکاری کی با ریکیاں ہیں اور یہی نہیں بلکہ جو اشعار زیادہ سادہ اور سلیس ہونے کا احساس دلاتے ہیں وہ بھی اپنے اندر بڑی پیچیدگیاں رکھتے ہیں اور ہمیں قدم قدم پر ٹھہر کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ آخرکار وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ میر ہم سے غزلوں کے انتخاب سے زیادہ کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اس کا ہر شعر تفصیلی تجزیے کا متقاصی ہے۔ اس طرح فاروقی نے میر کے اشعار کا تفصیلی تجزیہ کرنے اور انہیں جامع اور مبسوط تبصرہ کے ساتھ پیش کرنے کا اہم اور مہتمم بالشان منصوبہ بنایا۔ پہلے ان کا خیال تھا کہ یہ کام تین جلدوں میں ہوجائے گا لیکن رات دن کی مسلسل محنت کے باوجود دس سال کا عرصہ گزرگیا۔ اب تک شعر شورانگیز کی تین جلدیں منظرعام پر آچکی ہیں لیکن فاروقی کا کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ وہ چوتھی جلد پر کام کر رہے ہیں۔ 1
میر بلاشبہ اردو کے عظیم ترین شاعروں میں ہیں۔ یہاں تک تو فاروقی سے کوئی بھی اختلاف نہیں کرے گا لیکن فاروقی کا اصرار اس بات پر ہے کہ میر کی عظمت لازمی طور پر غالب، انیس اور اقبال کی عظمت سے مختلف ہے۔ ان کے خیال میں غالب، انیس اور اقبال کی عظمت کو بآسانی سمجھا اور بیان کیا جاسکتا ہے جب کہ میر کا معاملہ مختلف ہے اور اس کی عظمت کو جلد ہم سمجھ نہیں پاتے۔ فاروقی کے تجزیے کی رو سے میر ایسا شاعر ہے جو اپنے معنی آہستہ آہستہ کھولتا ہے لیکن اس کے بعد بھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ میر کے یہاں ایسی کوئی لطیف اور پراسرار شے ضرور ہے جو آسانی سے ہماری گرفت میں نہیں آتی۔
فاروقی میر کے محض تجزیاتی مطالعے پر قانع نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک طرح سے نیا ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ ہمارے سامنے پیش کیا ہے جو مولانا حالی کے مقدمہ کا جواب قرار دیا جاسکتا ہے۔ فاروقی سوال کرتے ہیں کہ کیا ایسے آفاقی اصول ممکن ہیں جن سے ادب کو جانچا جاسکے؟ اس کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہر تہذیب اور اس کی ادبی روایات اپنے تنقیدی اصول خود وضع کرتی ہیں۔ ہم غیر تہذیب اور دیگر ادبی روایت سے اسی حدتک تنقیدی اصول و نظریات مستعار لے سکتے ہیں جس حدتک وہ ہمارے تصور ادب سے ہم آہنگ ہوسکیں۔ حالی، آزاد، امداد امام اثر اور ان کے بعد آنے والے ان اردو نقادوں کی پوری صف جس نے ان کے نظریات کو ترقی دی فاروقی کی نگاہ میں معطون ٹھہرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان لوگوں نے ان مخصوص ادبی تصورات و نظریات کو آفاقی تصورات و نظریات کی حیثیت سے قبول کیا جو مغربی روایت سے مستعار لیے گئے تھے اور جب ان کی روشنی میں مشرقی ادب بالخصوص اردو ادب کو جانچا اور پرکھا گیا تو یہ کم قیمت اور بے قدر ٹھہرا اور اس طرح اردو شاعری کی پوری کلاسیکی روایت کو مسترد کردیا گیا اور ایک نئی شعریات وضع کرنے کی کوششیں کی گئیں جو دراصل مغربی شعریات ہی کو روشناس کرانے اور اسے مشرقی روایت پر نافذ کرنے کی طرف ایک قدم تھا۔
فاروقی کہتے ہیں کہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے سیاسی زوال کو اپنی تہذیبی شکست سمجھ لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم اپنے تہذیبی ورثے کے سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے لگے اور اپنی تمام ادبی روایات کو خود مذموم سمجھنے لگے۔ فاروقی اس امر پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ آج بھی بہت سے نقاد غزل اور شاعری و فکشن کی دیگر کلاسیکی اصناف پر وہی اعتراضات کر رہے ہیں جو عرصہ پہلے ’’آب حیات‘‘ اور ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ کے مصنفین نے کیے تھے۔ ان اعتراضات میں چند یہ تھے کہ ہمارا کلاسیکی ادب واقعیت کے احساس سے عاری ہے، اس میں صرف ان خیالات کی تصویر کشی ملتی ہے جو غیر حقیقی اور خیالی ہیں غزل میں ربط نہیں ہوتا اور خیال و فکر کا ارتقا نہیں ملتا یا غزل میں وحدت خیال نہیں پائی جاتی۔ کلاسیکی ادب میں تازگی اور نیاپن نہیں ہوتا۔ اکثر غزل گو پرانی باتوں کو ہی بار بار بیان کرتے آئے ہیں۔ فاروقی کی نظر میں یہ عام الزامات و اعتراضات مغرب کے ادبی تصورات و نظریات کے زیر اثر اردو شاعری بالخصوص غزل پر وارد کیے گئے اور اب بھی کیے جارہے ہیں۔
فاروقی کی رائے یہ ہے کہ ادب میں حقیقت پسندی کے تقاضے کو طفلانہ سمجھ کر سرسری طور پر رد کردینا چاہیے کیونکہ بے چارے نقادوں کا یہ تقاضا کرنا اس حقیقت سے ان کی لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے کہ سچائی کا تصور اضافی ہے۔ فاروقی کا کہنا ہے کہ غیر واقعیت کے اس اعتراض کو سن کر ایک کلاسیکی تعجب کرتا اور کہتا کہ جو چیز اس کے لیے بحیثیت شاعر سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ سچائی ہی تو ہے جسے وہ اپنی شاعری میں بیان کرتا رہا ہے۔
اصلیت کی وہ شکل جو شاعر کی ’’انفرادیت‘‘ پر زور دیتی ہے فاروقی کے خیال میں وہ رومانی تصور ہے جو مغرب میں انیسویں صدی میں پروان چڑھا۔ یہ مشرقی ادبی روایت کے لیے غیر ملکی تصور ہے۔ وہ برٹرنڈرسل کا حوالہ دیتے ہیں جو کہتا ہے کہ ’’چینی تہذیب میں طبع زاد ہونے کا جو تصور ہے وہ مغرب کے تصور طبع زادی سے قطعی مختلف ہے۔ وہاں کسی پرانی شے کو نئے انداز سے دوبارہ پیش کرنا بھی طبع زادی سمجھا جاتا ہے۔ ربط اور خیال کی وحدت کا تصور بھی فاروقی کی نظر میں مغربی تصور شاعری سے مستعار لیا گیا ہے اور غزل پر اس کا غلط طریقے سے اطلاق کیا گیا ہے کیونکہ غزل کے اصول اور قاعدے خود اس کی اپنی روایت کے زیر اثر وضع ہوئے ہیں۔
فاروقی یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ ہماری کلاسیکی شاعری کی شعریات آج ہم سے کھو گئی ہے اور اسی لیے ہمیں اپنی کلاسیکی شاعری کی پوری قدروقیمت کا احساس نہیں ہے لیکن فاروقی اس بات کے بھی حق میں نہیں ہیں کہ مغربی تھیوری کو پوری طرح نظر انداز کردیا جائے بلکہ ان کی رائے میں ہمیں اس سے اس حدتک ضرور استفادہ کرنا چاہیے جس حدتک وہ ہمارے ادبی ورثہ کو سمجھنے میں مدد کرسکے۔ لیکن محض مغرب کے تصورات پر تکیہ کرنا ہمیں غلط نتائج سے دوچار کرے گا۔ فاروقی کو اعتراف ہے کہ ہم مغرب کی ادبی تنقید کے احسان مند ہیں۔ انہیں مغربی افکار و تصورات سے اثرپذیری میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’’میں اپنے اکثر پیش روؤں کے برعکس مغرب سے مرعوب نہیں ہوں اور اس مرعوبیت کے یقیناً خلاف ہوں۔‘‘
دراصل فاروقی چاہتے ہیں کہ ہماری کلاسیکی شعریات کا احیاء ہو اور ساتھ ہی ساتھ مغرب کے ادبی تنقید کے اصول و نظریات سے ہمیں واقفیت بھی ہو۔ وہ ان دونوں صورتوں میں اعتدال کے قائل ہیں اور دراصل توازن کی یہی کوشش ہے جس نے ان کے مطالعے کو معنویت اور گہرائی عطا کی ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ۔ احمد محفوظ)
نوٹ:
(۱) ’’شعر شور انگیز‘‘ کی چوتھی جلد اب شائع ہوگئی ہے۔ مرتب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.