Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ولی کا فن

شارب ردولوی

ولی کا فن

شارب ردولوی

MORE BYشارب ردولوی

     

    ولی کی شاعری دراصل غزل کی شاعری ہے۔ یوں تو ان کے کلیات میں مثنوی، قصیدے، قطعات، خمسے سب ہی کچھ ہیں لیکن جس چیز نے آزاد کی زبان میں انہیں ’شہرت عام اور بقائے دوام‘ بخشی وہ غزل ہی ہے۔ کلیات ولی میں غزل ہی کا حصہ زیادہ بھی ہے اور وقیع بھی۔

    غزل اردو شاعری کی ایسی لچک دار اور سخت جان صنف ہے کہ ابتدا سے آج تک نہ جانے کتنے ادبی و سیاسی انقلابات اور تبدیلیوں کے باوجود صرف زندہ ہی نہیں بلکہ اپنی پوری ساحری، دل آویزی اور دل کشی کے ساتھ سب کے دلوں پر حکمراں ہے۔ جیسے جیسے اردو شاعری کی عمر بڑھتی گئی اس کی رنگینی، شوخی اور جاذبیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ زبان کی تراش خراش اور تنسیخ واصلاح کے ساتھ اس کے گیسو اور خم کا کل کا حسن بڑھتا گیا۔ اس کے قامت فتنہ انگیز پر کہیں بھی نگاہ پڑے تو کرشمہ دامن دل می کشد کہ جاں اینجاست، کا عالم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قلی قطب شاہ کے شاہی محل میں ہو یا درد کی صوفیانہ فقرواستغنا کی چہار دیواری میں یا میر کے غم خانے میں، محلات شاہی سے خانقاہ تک اور خانقاہ سے بازار تک سب اسی کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہیں۔ اور یہ بھی کسی یونانی دیومالا کے پر ی پیکر کی طرح حسن لازوال کا مجسمہ بنی ہوئی ہر عہد میں مرکز کشش نظر آتی ہے۔

    غز ل کے عام ہونے سے پہلے اردو یا اس کی ابتدائی شکل دکنی میں، دوسری اصناف کا زیادہ عروج تھا۔ مثنویات، قصائد اور مراثی ایک زمانے میں زیادہ مقبول تھے۔ دکن میں اردو کے زیادہ تر ابتدائی نمونے مثنوی کی شکل میں ہیں۔ اپنی اتنی مقبولیت اور بیانیہ شاعری ہونے کی وجہ سے اپنے اندر بیان کی وسعت اور قصے کی دل کشی کے باوجود بہت عرصے تک ادبی فضا پر اس کی حکمرانی نہیں رہی اور وقت کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا حلقہ تنگ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ایک عرصے بعد مثنوی کہنے والے شاعر بھی نہیں رہے۔ اسی طرح قصیدہ بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ نہیں دے سکا۔ حالانکہ قصیدہ ’مغز شاعری‘ کہلاتا تھا پھر اس کی پشت پر ایک بہت بڑا ادارہ ’دربار‘ تھا، جہاں سے بخششوں کا فیض عام جاری رہتا تھا۔

    شخصی حکومتوں کے دور میں امراء اور بادشاہ وقت کی قربت سے بڑی کیا چیز ہو سکتی تھی اور دربار تک رسائی دلانے میں قصیدے کی اہمیت سے کون انکار کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود جس طرح بادشاہوں کی تبدیلی پر پرانے سکے منسوخ ہوئے اور نئے سکوں کا چلن ہوا، اسی طرح رفتہ رفتہ ادب کایہ سکہ رائج الوقت بھی ٹکسال باہر ہو گیا۔ قصائد کی ایک کڑی مذہب اور عقیدت سے بھی ملتی ہے لیکن وہ بھی دھیرے دھیرے ادب کے افق سے وقت کی دھند میں غائب ہو گئی۔

    مرثیہ ہمار ی شاعری میں کسی ادبی صنف کی شکل میں نہیں شروع ہوا۔ س کا تعلق خالصتاً مذہب اورعقیدے سے تھا۔ بعدمیں اس نے جو ترقی کی اس میں بھی وہ ایک حلقے تک محدود رہا اور اپنی ابتدا میں اس کا کوئی حلقہ تھا اور نہ کوئی اثر۔ لوگ مذہبی عقیدت میں مرثیے کہتے تھے اور سننے والے اسی عقیدت یا رواداری میں سن لیتے تھے۔ مرثیے کہنا اور لکھنا ثواب سمجھا جاتا تھا۔ ا س کی ادبی اہمیت یا مقبولیت اس بات سے سمجھی جا سکتی ہے کہ بگڑا شاعر مرثیہ گو کہلاتا تھا۔ اس طرح وہ تمام اصناف جوغزل کے بچپن میں کسی نہ کسی وجہ سے زیادہ مقبول تھیں، غزل کے سن شعور کو پہنچنے سے پہلے ہی گہن میں آ گئیں۔

    ادب میں مختلف اصناف کا وجود بعض خاص تہذیبی، سماجی اور ذہنی اثرات کے تحت ہوتا ہے۔ مثنوی ہو یا مرثیہ، قصیدہ ہو یا ہجو، ہر ایک کے پیچھے وہ سماجی اسباب یا تہذیبی مطالبات ملیں گے جو اس خاص صنف کی پیدائش اور فروغ میں معاون ہوئے ہیں اور یہی اثرات اس صنف کو مقبول یا نامقبول بناتے رہے ہیں۔ اب اگر کسی صنف نے بعض خاص حالات میں اپنے کو تبدیل کر لیا اور وقت کے نئے مطالبات کو سمونے کے لیے اپنے اندر ضروری تبدیلیاں کر لیں تو وہ صنف باقی رہی، ورنہ وقت کے ہاتھوں کوئی نہیں بچتا۔ روزمرہ تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی، معاشی اور تہذیبی حالات بڑے بے رحم ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں اچھی سے اچھی چیز ایک مدت کے بعد صرف میوزیم کی زینت بن کررہ جاتی ہے۔ صرف اصناف سخن ہی کا نہیں زبان کا بھی یہی اصول ہے۔ نہ جانے کتنی خوبصورت تراکیب، الفاظ اور محاورے ایک مدت بعد وقت کے ہاتھوں زبان سے نکل کر لسانیات کے تحقیقی مقالوں کا حصہ بن جاتے ہیں لیکن وہ الفاظ اور محاورے، تشبیہیں اور استعارے اس کے بعدبھی زندہ رہتے ہیں جو وقت کے ساتھ اپنے معنی اور مفہوم تبدیل کر لیتے ہیں۔

    غزل بھی خاص تہذیبی حالات میں پیدا ہوئی اور شاید اس نے سب سے زیادہ سیاسی، سماجی، تہذیبی اور ادبی انقلاب، تغیروتبدل دیکھے۔ لیکن دوسری اصناف اور غزل میں یہی فرق ہے کہ جن تبدیلیوں اور انقلابات کو دوسری اصناف برداشت نہ کر سکیں، غزل انگیز کر لے گئی۔ اس کی وجہ صرف اس کا لوچ دار کردار تھا۔ جب جہاں جیسی ضرورت ہوئی، ویسی ہی شکل اس نے اختیار کر لی۔ گیتوں کی فضا میں گیتوں کی مٹھاس اور مدھرتا غزل نے اپنے اندر سمولی اور اس سے زیادہ نازک اور دلکش نظر آنے لگی۔ جیسے قلی قطب شاہ کے یہاں دیکھئے،

    پیا باج پیالہ پیا جائے نا
    پیا باج یک تل جیا جائے نا
    قلی قطب شاہ

    اسی طرح تصوف کا زور بڑھا تو خرقہ پہن کر اس طرح خانقاہ میں بیٹھی کہ پہچاننا مشکل ہو گیا کہ یہ وہی ’’زحال مسکیں مکن تغافل درآئے نیناں بنائے بتیاں‘ والی الھڑ نار ہے اور یہاں حیات وکائنات اور تصوف کے وہ رموزونکات بیان کیے اور فنا وبقا اور معرفت کے وہ اسرار سربستہ کھولے کہ سب انگشت بہ دنداں رہ گئے۔ الفاظ، تشبیہیں اور استعارے تقریبا ًوہی تھے لیکن اب ہر لفظ اور ہر ترکیب نشہ معرفت میں سرشار تھی۔ اس طرح جب جیسی تبدیلی ہوئی، یہ اسی سانچے میں ڈھل گئی۔ داخلیت کا اظہار ہوا تو دل سے نکلی اور اس طرح دل میں اتر گئی کہ ’نامحرم‘ کی ہوا بھی نہ لگے اور خارجیت کا چلن ہوا تو ایسی کھل کھیلی کہ جسم کے سارے نشیب وفراز سے ناف تک اور کمر سے پنڈلیوں تک کا بیان کبھی رمزوکنایات میں اور کبھی کھل کر کرڈالا۔ اس طرح ہرسماجی وتہذیبی تبدیلی کے ساتھ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے غزل اپنے دامن کو وسیع کرتی گئی۔

    غزل کی اس کشادہ دامانی کی وجہ سے مختلف مضامین اس میں جگہ پاتے گئے۔ فلسفیانہ مضامین کو بھی جگہ ملی، صوفیانہ خیالات بھی آئے، آلام روزگار اور فکر معاش بھی، زندگی کا شکوہ بھی اور شادمانی کا ذکر بھی۔ موضوع کی اس گوناگوں اور طرزادا کے اس نشیب وفراز کے باوجود غزل کا موضوع بنیادی طور پرعشق ومحبت ہی رہا۔ اس میں خارجیت بھی آئی اور آلام روزگار کا ذکر بھی لیکن اس کی روح اور معیار کا پیمانہ تغزل ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ قلی قطب شاہ سے لے کر آج تک غزل کا جادو اسی طرح قائم ہے۔

    ولی کی شاعری کی مقبولیت کا راز بھی ان کا تغزل ہے۔ ولی کے کلام میں شروع سے آخر تک ایک خاص قسم کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ غالب نے کہا ہے ’کہ شیشہ تندئی صہبا سے پگھلا جائے ہے۔‘ ولی کے یہاں وہ پگھلنے والی کیفیت تو نہیں ہے لیکن جمال یار کی اداؤں سے ہمیشہ شیشہ دل میں ارتعاش ضرور رہتا ہے۔

    ولی سے پہلے بھی اردو میں غزل کی روایت تھی۔ قلی قطب شاہ اور دوسرے شعراء کے یہاں ان سے بہت پہلے غزلیں ملتی ہیں۔ لیکن ولی کی غزل کئی اسباب کی بنا پر ان سب میں ممتاز ہے۔ ان میں ایک ظاہرانہ فرق تو ولی کی زبان کا ہے۔ اس سے قبل دکنی اور گجراتی کے غیرمانوس الفاظ اس کی سحرطرازی میں مانع تھے۔ یہ بھی ہے کہ زبان اس وقت تخلیق کے ابتدائی مراحل میں تھی اور ولی تک پہنچتے پہنچتے اس کی ایک شکل بن چکی تھی۔ یہ شکل خواہ دھندلی ہو کیوں نہ رہی ہو لیکن زبان عام سرکاری و غیرسرکاری کاموں میں استعمال ہونے لگی تھی۔ ولی نے اپنی جدت طبع اور ذہانت سے اس کو ایسی شکل دی کہ دکن سے شمالی ہند تک اس کی قلم رو میں آ گئے۔ دوسری سب سے اہم بات ولی کے کلام میں تصورات و تاثرات کا حسین امتزاج ہے۔ اپنے تاثرات کو شاعری میں سب ہی شعراء نے پیش کیا ہے لیکن ولی نے اسے جو انداز دیا، اظہار کا جو طریقہ اور طرز ادا کے لیے جو لب ولہجہ اختیار کیا، وہ ان سے پہلے کسی کو نصیب نہیں ہوا۔ ولی کو خود بھی اس کا احساس تھا۔ انہوں نے اکثر فخریہ طور پر اپنے مقطعوں میں اس کا ذکر کیا ہے،

    میرے سخن میں فکر سوں کر اے ولی نگاہ
    ہر بیت مجھ غزل سنیں ہے انتخاب کی

    ولی تجھ شعر کو سن کر ہوئے ہیں مست اہل دل
    اثر ہے شعر میں تیرے شرا ب پرتگالی کا

    اے ولی مجھ سخن کوں وہ بوجھے 
    جس کوں حق نے دیا ہے فکر رسا

    ہم پاس آکے بات نظیری کی مت کہو
    رکھتے نہیں نظیر اپس کی سخن میں ہم

    دکھن میں تیرے شعر سن شوقی ہوئے تیرے ولی
    جس کے لگیا ہے دل کے تئیں خوش شعر تجھ دیوان کا

    یہ ریختہ ولی کا جاکر اسے سناؤ
    رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند

    بر جاہے گراہل ہوس طالب نئیں مجھ شعر کے 
    جن کو سخن کی بوجھ نئیں ان کوں سخن سوں کیا غرض

    شاعروں میں اپس کا نام کیا
    جب ولی نے کیا یو دیواں جمع

    دکھنی زبان میں شعر سب لوگاں کہے ہیں اے ولی
    لیکن نہیں بولا کوئی یک شعر خوشتر زیں نمط

    بانگ بلند بات یہ کہتا ہوں اے ولی
    اس شعر پر بجا ہے اگر مجکوں ناز ہے

    ولی ایران و توراں میں ہے مشہور
    اگرچہ شاعر ملک دکن ہے

    اس طرح کے بہت سے اشعارولی کے کلام میں ملتے ہیں جس میں انہوں نے اپنے کلام کی اہمیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یوں تو اردو شاعری میں تعلی کی مثالیں سبھی شاعروں کے یہاں مل جائیں گی۔ بعض نفسیاتی ناقدین اسے ولی کی نرگسیت قرار دیں گے کیونکہ اس سے زیادہ خودبینی وخودستائی اور کیا ہوگی۔ اس طرح ولی بعض لوگوں کے نفسیاتی مطالعہ کا ایک اچھا موضوع بن سکتے ہیں۔ لیکن دراصل ولی کے اس طرح کے اشعار نہ تو شاعرانہ تعلی ہیں اور نہ ہی ان کی نرگسیت یا کسی اور نفسیاتی الجھن کی غمازی کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ جس طرح شاعر کے کلام میں اس کے عہد کے بہت سے اثرات، مروج اقدار اور تسلیم شدہ حقیقتوں کا بیان ملتا ہے، اسی طرح یہ بات ان کی شاعری کی اہمیت کے عام طور پر تسلیم کیے جانے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    اگر کوئی نامشہور شاعر جس کی اس کے عہد میں کوئی اہمیت نہ ہو، اس طرح کے شعر کہے تو اسے نرگسیت قرار دیا جا سکتا ہے یا نفسیاتی مطالعہ کا موضوع بنایا جا سکتا ہے کہ قدچھوٹا تھا اس لیے بلند بانگ دعوے کیے۔ لیکن ولی ہوں، میر ہوں، غالب ہوں یا صف اول کے دوسرے شعرا، ان کے یہاں اس طرح کے مطالعے صرف کھینچ تان کرایک لباس چڑھا دینے والی بات ہے۔ ولی کی اس اہمیت کا اظہار صرف ان کی زبان یاان کے کلام ہی میں نہیں ملتا بلکہ اس کا اعتراف بعد کے بہت سے اساتذہ فن نے کیا ہے،

    حاتم یہ فن شعر میں کچھ تو بھی کم نہیں 
    لیکن ولی ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ
    شاہ حاتم

    آبرو شعر ہے ترا اعجاز
    پر ولی کا سخن قیامت ہے 
    ابرو

    خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے 
    معشوق جوتھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
    میر

    ولی کے کلام کاحسن کسی ایک بات میں نہیں ہے۔ ان کے یہاں ذوق حسن، لطافت احساس، نازک خیالی، غنائیت اور موسیقیت کا ایسا سیلاب ہے، کلام میں ایسی روانی اور بیان میں ایسا والہانہ پن، موزونی، برجستگی اور بندش میں ایسی صفائی اور چستی ہے کہ جس کی مثال مشکل سے ملےگی۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے لکھا ہے کہ:’’ولی اردو شاعری میں ایک طرز خاص کے مالک ہیں۔ ان کے کلام میں خاص قسم کی معنویت اور ان کے طرز ادا میں عجیب وغریب دلکشی پائی جاتی ہے۔‘‘ 1

    ولی کے یہاں یہی طرز ادا، جمالیاتی احساس اوران کے کلام کی معنویت انہیں دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کے بارے میں پچھلے صفحات میں کہا گیا ہے کہ وہ صوفی منش شاعر تھے لیکن اپنے صوفیانہ مزاج کے باوجود ان کے کلام میں بلاکی رنگینی اور دلکشی ہے۔ وہ جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں، اس کا براہ راست تعلق ان کے جذبات واحساسات اور تجربات سے ہوتا ہے۔ ان کے بیشتر اشعار میں دل پر گزری ہوئی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ غزل عشق ومحبت کی شاعری ہے اور عشق ومحبت کا بیان ظاہراً جتنا آسان نظر آتا ہے اتنا ہی دشوار ہے۔ غزل کا فن شیشہ گری سے زیادہ نازک ہے۔ بیان کی ذرا سی کوتاہی اچھے سے اچھے موضوع کو مبتذل اور عامیانہ بنا دیتی ہے۔ شدت احساس کی معمولی سی کمی بڑے سے بڑے شاعر کے کلام کو بے کیف کر دیتی ہے۔ ولی نے ان ساری نزاکتوں کو سامنے رکھا ہے۔

    وزیر آغا نے ولی کو بہت بڑا’بت پرست‘ بتایا ہے اور ان کی غزل کی امتیازی خصوصیت ان کی بت پرستی اور سراپا نگاری کو قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ہندوستان کا اصل مزاج گیت کا ہے۔ خسرو سے لے کر تقریباً سبھی دکنی شاعروں کے یہاں بنیادی لہجہ گیت کا ہے۔ الفاظ کا انتخاب، روایات اور عشق کا اظہار وتخاطب سب اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ بت پرستی ہندوستان کے خمیر میں ہے اور ہندوستانی تہذیب میں ’جنگل‘ کے اثرات کے تحت ورثے میں آئی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ،

    ’’ہندوستانی کلچر نے جنگل کے اثرات کو ورثے کے طور پر حاصل کیا اور جنگل کی فضابت پرستی ہی کی محرک ہے۔ ولی کی غزل میں بت پرستی کا یہ انداز اس اعتبار سے بھی گیت کی فضا سے متعلق ہے کہ اس میں بہت سی ایسی علامات اور تلمیحات ابھرآئی ہیں جو براہ راست ہندوستان کی دھرتی سے متعلق ہیں۔‘‘ 2

    ولی شاعرانہ اصطلاح میں ’بت پرست‘ بھی ہیں اور ’کافر‘ بھی لیکن جس نفسیاتی توضیح کی بنا پر وزیر آغا نے انہیں بت پرست کہا ہے، اس میں بحث کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ انہوں نے یونگ کے نظریہ Archetype کو ولی کے کلام پر Impose کرنے کی کوشش کی ہے۔ یونگ کے نفسیاتی نظریے کا یہ بڑا سطحی استعمال ہے۔ اس کے یہاں ’جنگل‘ اوراس کی وراثت کے پیچھے پورا ایک فلسفہ ہے۔ اس صورت میں تو ہر شاعر اور فنکار کیا ہر فردوبشر کے لئے (بلاقید ہندوستانی) یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ جہاں تک گیت کی فضا کی بات ہے وہ گیت کی فضا نہیں ہندوستانی عنصر یا مقامیت ہے۔ شاعری یا فنکاری کو اس زمین سے الگ نہیں کیا جا سکتا جہاں وہ پیدا ہوئی ہے اور جو شاعری اپنی زمین سے الگ ہو جاتی ہے وہ اعلی درجے کی شاعری نہیں رہتی۔

    ولی یا دوسرے دکنی شعراء کے یہاں مقامی ندیوں یا مقامی علامات اور تلمیحات کا ذکر یا ہندوستان کے مقدس مقامات اور تہواروں کا بیان یا عورت کی طرف سے اظہار عشق اورسجن ’پیا‘ سری جن اور پیتم جیسے الفاظ کا استعمال ولی اور اردو غزل کے اپنی سرزمین سے اس بنیادی رشتے اور تعلق کو ظاہر کرتا ہے جو بعض خاص اثرات کے تحت بعد کو ختم ہو گیا۔ جس کے بعد زبان نے خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کی ہو، لیکن اس کی معصومیت کے بدلے میں تصنع اور بناوٹ ملنے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی نے لکھا ہے کہ،

    ’’ولی کے عہد میں اردو شاعری پر ہندی کا اثرغالب تھا۔ ولی نے ہندی کے ضروری اور غیرضروری عنصر میں امتیاز کیا۔ ولی نے ہندی کے مستعملہ عنصر یعنی ہندوستان کی مذہبی، معاشرتی، تاریخی، تلمیحوں، تشبیہوں، استعاروں، دریاؤں، پھلوں، پھولوں، موسیقی، سازوں، راگوں، مذہبی زیارت گاہوں کے ناموں وغیرہ کو قائم ہی نہیں رکھا بلکہ اپنے انداز میں تشبیہاً اور رعایتاً اس طرح کام لیا کہ ا ن کی شاعرانہ اہمیت واضح کر دی۔ دوسری طرف اپنی وسیع المشربی، حب ا لوطنی اور دوربینی کا ثبوت دیا۔‘‘ ۲،

    ہندی سے یہاں پر ظہیرالدین مدنی کی مراد شاید ہندوستانی عنصرہے۔ ہندی کا لفظ بہت عرصے تک ہندوستانی قومیت اور اردو زبان کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ چونکہ اس وقت تک ہندی کوئی زبان نہیں تھی اور ہندی، ہندوی یا دکنی کا استعمال اردو یا اس زبان کی ابتدائی شکل کے لیے ہوتا تھا جو بعد کوا ردو کہلائی۔ اس لیے گمان غالب ہے کہ ظہیرالدین مدنی نے اس لفظ سے ہندوستانی عناصرہی مراد لیے ہوں گے۔ ویسے جو الفاظ، علامات اور تلمیحات ولی نے استعمال کی ہیں، اس میں ان کی کسی شعوری کوشش کا دخل نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے اسے جذبہ حب الوطنی بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس وقت کی معاشرت میں مذہبی فرق کے باوجود الفاظ اور علامات اس طرح رچے بسے ہوئے تھے کہ قلی قطب شاہ ہوں یا ولی یا اس عہد کا کوئی اور شاعر، سب کے لیے ان کا استعمال ناگزیر تھا۔ مثلاً ولی کے یہاں بنسی، کاشی، گوپی، براگی، ترنگ، سیس، بید (وید) جودھا، جگت، بھجنگ، ارجن، بانسلی، کشن، نین، رین اور درجنوں ایسے الفاظ ملتے ہیں یا محبوب کے لیے سری جن، پیو، موہن، سجن، پیتم، پیا، پی اور اسی طرح کے بہت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً،

    جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سے اے صنم
    ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج

    گرچہ لچھمن تراہے رام ولے 
    اے سجن تو کسی کا رام نہیں

    جگت جوگی ہوا ہے دیکھ تجکوں 
    سرج جوگی فلک جوگی کی مڑہے

    کوچہ یار عین کاسی ہے 
    جو گئی ِدل وہاں کا باسی ہے

    سوزن سے تجھ پلک کی اے جان و نوردیدہ
    ہراستخواں میں روزن ہے بانسلی کے مانند

    آوے فلک سوں زہرہ اتر گر وہ مہ جبیں 
    اک تان گاوے رام کلی یا بھبھاس میں

    سرود عشق مجھ دل میں لبالب ہے عجب مت کر
    اگر مجھ آہ کی نے سوں صدائے بانسلی آوے

    بیراگیوں کے پنتھ میں آکر وہ مہ جبیں 
    بیراگ کو اٹھا کے چڑھایا اکاس پر

    اے زہرہ جبیں کشن ترے مکھ کی کلی دیکھ
    گاتا ہے ہر اک صبح کوں اٹھ رام کلی کوں

    اس کے خط وخال سے پوچھو خبر
    بوجھتا ہندو ہے باتاں بید کی

    اس رین اندھیری میں مت بھول پروں تس پر
    ٹک پاؤں کے بچھوؤں کی آواز سناتی جا

    تری زلفاں کے حلقے میں رہے یوں نقش رخ روشن
    کہ جیسے ہند کے بھیتر لگیں دیوے دوالی میں

    ان اشعار کے مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ولی کا تخیل ہندوستانی تھا۔ اس میں ایرانی تاثرات کی جھلک بھی ہے اور فارسی الفاظ ومحاورات اور تراکیب کا استعمال بھی۔ لیکن ایرانی اثرات، فارسی محاورات اور تراکیب اور ہندوستانی تلمیحات، علامات اور تخیل ولی کی شاعری کا ایک مثلث ہیں، جسے ’تروینی‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس ’تروینی‘ نے ولی کی شاعری میں وہ گنگا جمنی حسن پیدا کیا ہے جس کی چمک دمک آج بھی باقی ہے۔ ولی کی شاعری میں عشق اور حسن کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ ان کی شاعری کا محور حسن و عشق ہی ہے۔ ان کی شاعری کے اس پہلو پر بحث کرتے ہوئے بعض ناقدین نے عشق حقیقی اور عشق مجازی کی بحث کی ہے۔ ان کے ایک تصور عشق کا ذکر تصوفانہ شاعری میں آچکا ہے۔ جہاں ولی نے خود ہی کہا ہے کہ،

    تواضع خاکساری ہے ہماری سرفرازی ہے 
    حقیقت کے لغت کا ترجمہ عشق مجازی ہے

    پھر انہوں نے اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے مجاز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ نے لکھا ہے کہ عشق کی سب ہی صورتیں مجازی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ولی کا عشق یقینی طور پر مجازی تھا۔ ان کے بہت سے اشعار میں غالب کے اس شعر کی کیفیت بھی ہے۔

    خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
    کیا پوجتا ہوں اس بیداد گر کو میں

    اس لیے اس میں تو شک نہیں کہ ولی کا عشق کسی ’شخص‘ کارہین منت تھا۔ یہ ’شخص‘ ایک بھی ہو سکتا ہے اور بہت سے بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ ’شخص‘ صرف ہوس رانیوں کا مرکز بھی ہو سکتا ہے اور معرفت کا ایک زینہ بھی۔ ولی کے اشعار میں دونوں طرح کی کیفیتیں ہیں۔ وہ کسی بھی پیتم، سجن یا سری جن کے ذریعہ اس حسن لازوال تک پہنچنا چاہتے ہیں جو اپنے انگنت مظاہر میں ساری کائنات پر بسیط ہے۔ اس کے برخلاف وہ جب اس سری جن کی تعریف بیان کرنے اور اس کا سراپا لکھنے پرآتے ہیں توان کے ایک ایک لفظ میں لذت پرستی کی حرارت محسوس ہوتی ہے۔ جس طرح وہ اس کے قدوگیسو کی قیامت سامانیاں، رخسارولب کی حلاوت اور چشم وابرو کی فتنہ انگیزی کا ذکر کرتے ہیں، وہ وہی کر سکتا ہے جس نے ’مئے مرد افگن عشق‘ کا مزہ چکھا ہو۔ بہرحال ان کی غزل میں دونوں طرح کے اشعار ملتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تصوف کو صرف انہوں نے ’سخن کا پردہ‘ کیا ہو۔ اس لیے کہ غالب کی طرح وہ صرف حسن کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے بلکہ مدعائے زندگی بنانا چاہتے ہیں۔ غالب نے کہا ہے،

    اسد بہار تماشائے گلستان حیات
    وصال لالہ عذاران سروقامت ہے

    جس طرح یہ شعر غالب کے صحت مند تصور عشق کی نشاندہی کرتا ہے، اسی طرح ولی نے اپنے صحت مند تصور عشق کو ان الفاظ میں پیش کیا ہے،

    گلزار زندگی میں بجز وصل سروقد
    عشاق کو نہیں ہے دوجا مدعا بلند

    عجب کچھ لطف کرتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں 
    خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

    اس میں شک نہیں کہ ولی کی جمالیاتی حس بہت شدید ہے۔ ان کے کلیات کے بیشتر اشعار ایسے لطیف اور تیز احساس جمال کی تصویر پیش کرتے ہیں جن کی مثالیں اردو شاعری میں بہت کم ہیں۔ اسی احساس جمال نے انہیں اردو کا سب سے بڑا سراپا نگار بنا دیا ہے۔ وہ اس سراپا نگاری میں بار بار ایک چیز کو دہراتے ہیں۔ قد، زلف، چشم و عارض کا ذکر بار بار غزلوں میں آتا ہے۔ کبھی ایک ہی غزل میں وہ بار بار انہیں باتوں کو دہراتے ہیں لیکن ان کی طرز ادا میں وہ تازگی اور بیان میں وہ ندرت ہے کہ یہ تکرار بار خاطر ہونے کے بجائے نیا لطف دیتی ہے۔ یہاں پر ان کی بعض غزلوں سے چند مسلسل اور چند متفرق اشعار درج ذیل ہیں تاکہ ان کی سراپا نگاری کی خوبی کا پورا اندازہ ہو سکے،

    قد ترا رشک سرو رعنا ہے 
    معنی ناز کی سراپا ہے

    تجھ بھواں کی میں کیا کروں تعریف
    مطلع شوخ و رمز وایما ہے

    چمن حسن میں نگہ کر دیکھ
    زلف معشوق عشق پیچا ہے

    سنبل اس کی نظر میں جا نہ کرے 
    جس کو تجھ گیسواں کا سودا ہے

    ترا قد دیکھ اے سید معالی
    سخن فہماں کی ہوئی ہے فکر عالی

    ترے پانواں کی خوبی پر نظر کر
    ہوئے ہیں گل رخاں جیوں نقش قالی

    تری انکھیاں و سیں مجھ یوں سیہ مست
    پیاگو یا شراب پرتگالی

    ترے لب ہور ترے ابرو کے دیکھے 
    پڑھوں شعر زلالی اورہلالی

    تری انکھیاں میں ڈورے دیکھ کر سرخ
    بنائی خلق نے ریشم کی جالی

    ترا مکھ مشرقی، حسن انوری، جلوہ جمالی ہے 
    نین جامی، جبیں فردوسی و ابرو ہلالی ہے

    ترے قد کی نزاکت سوں دسے مجھ سر وجوں لکڑی
    ترے گل برگ لب آگے خجل ہے پھول کی پکھڑی

    ترا قد دیکھ تجھ پاؤں پہ جھک جھک
    پڑے شمشاد کی ڈالی پہ ڈالی

    ترا قد مصرعے برجستہ دیوان عالی ہے 
    تری یوبیت ابرو شعر دستا ہے ہلالی کا

    یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ ایسے سیکڑوں اشعار ولی کے کلام میں موجود ہیں، جن میں قدوگیسو اور لب ورخسار کی نزاکت و دلکشی کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس تکرار سے ان کے کلام میں کوئی گرانی یا سقم نہیں پیدا ہوتا۔ ولی کا جمالیاتی احساس اور ذوق حسن ان کی شاعری میں لطافت احساس، ندرت بیان اور نازک خیالی پیدا کرتا ہے۔

    ولی کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی شاعری میں مریضانہ کیفیت نہیں ہے۔ ایک زمانے میں اردو شاعری پر یہ بہت بڑا اعتراض تھاکہ اس کی ذہنیت مریضانہ ہے۔ اس میں عاشق مہجور ازل، مجبور، ناکام و نامراد، ضعیف، لاغر و ناتواں جس کی تلا ش کے لیے بسترکی شکنوں کو جھاڑنا پڑے وہ ستم کیش، مظلوم، آلام روزگار کا ستایا ہوا، چرخ ناہنجار کی گردش کا شکار اور بیمار ہے۔ جو ہر وقت محبوب کی ستم رانیوں کا رونا رویا کرتا ہے۔ اس کے برخلاف محبوب کج رفتار، بددماغ، ستمگر، ظالم، ہرجائی، بے وفا، قاتل، جفاکیش، جلاد، بے رحم، تغافل شعار اور سارے آلات حرب سے آراستہ ہے۔ عاشق ومحبوب کا یہ تصور بھی بعض خاص سماجی حالات کی دین ہے لیکن ولی کے زمانے تک غزل میں یہ مریضانہ ذہنیت نہیں آئی تھی۔ ولی کے یہاں اس قسم کے مضامین تو کیا، غم کے مضامین بھی نہیں ملتے۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ،

    ’’ولی کا امتیاز خاص ہے کہ وہ ان معدودے چند شاعروں میں سے ہے، جن کی غزل بلکہ سارے کلام کو پڑھ کر غم کی کیفیت پیدا ہونے کے بجائے طبیعت پر شگفتگی طاری ہو جاتی ہے۔ ان کے عاشقانہ اشعار میں جذب وسرور اور شوق ونشاط کی لہر دوڑ رہی ہے۔‘‘

    اس میں شک نہیں کہ ولی کے یہاں ایک عجیب قسم کا کیف وسرور ہے۔ ایک ایسا نشہ جو نہ بہکنے دے اور نہ ہوش میں آنے دے۔ حسن کی کیفیات اور دلکشی، عشق کی واردات، پھر ایک خاص والہانہ انداز میں اس کا بیان سب مل کر ایک لطیف کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ ولی کے کلام میں شاید جنازہ، گوروکفن، میت اور اسی طرح کی دوسری اصطلاحیں جس کا ایک عہد میں اردو غزل میں بڑا رواج رہا ہے، کبھی استعمال ہی نہیں ہوئیں۔ ولی کے یہاں فارسی کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ وہ فارسی تراکیب کو استعمال کرتے ہیں اور ان سے نئی ترکیبیں بناتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبان اور الفاظ کے تاثر اور ان کی کیفیات، لطافتوں اور نزاکتوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان کے یہ شعر ان کے والہانہ پن، شدت احساس، ذوق جمال، موسیقیت اور غنائیت کی بڑی اچھی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان اشعار میں ولی کا خلوص اور سچائی بھی موجزن ہے،

    اثر بادہ جوانی ہے 
    کر گیا ہوں سوال کچھ کا کچھ

    کرتا ہے ولی سحر سدا شعر کے فن میں 
    تجھ نین سوں سیکھا ہے مگر جادوگری کوں

    جو کیفیت سیہ مستی کی تجھ انکھیاں میں ہے ظالم
    نہیں دو رنگ دومستی شراب پرتگالی میں

    نرگستاں کوں دیکھنے مت جا
    دیکھ اس نرگسی قبا کے نین

    اے نور جان ودیدہ ترے انتظار میں 
    مدت ہوئی پلک سے پلک آشنا نہیں

    ہر تار میں زلف کی ترے سیر جاکروں 
    بادصبا کا ساتھ لیا ہوں چمن میں جا

    اے ولی درد سر کی دارو ہے 
    مجھ کوں اس صندلی قبا کی ادا

    تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
    جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

    سحر جادو میں تجھ نین سا نہیں 
    سب پھرا دیکھ شہر بنگالا

    تیرے دیوان حسن میں جاناں 
    بیت ابرو کا انتخاب ہوا

    گر چمن میں چلے وہ رشک بہار
    گل کریں نقد آب ورنگ نثار

    ولی کے کلام میں تشبیہات واستعارات کا استعمال بھی بہت اہم ہے۔ ولی نے مروجہ تشبیہات کو تازگی اور توانائی بخشی۔ اس کے علاوہ نئی تشبیہات اور استعارے وضع کیے، جنہوں نے غزل کے دامن کو وسعت دی اور اظہار وبیان کے لیے نئے راستے اور انداز پیدا کیے۔

    تشبیہ واستعارات کی شعروادب میں بڑی اہمیت ہے۔ یہ دراصل شاعری یا ادبیات کا زیور ہیں، جو اس کے حسن ظاہری اور معنوی دونوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ لیکن ان کااستعمال آسان نہیں، اس کے لیے بھی بڑے سلیقے کی ضرورت ہے۔ جس طرح زیورات نسوانی حسن کے بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں لیکن انہیں کا بدسلیقہ استعمال کشش اور جاذبیت پیدا کرنے کے بجائے بھونڈاپن ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح تشبیہ واستعارے کا بے سلیقہ استعمال ادبی حسن کو مجروح کرتا ہے۔ ولی کی شاعری کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں تشبیہ و استعارے کے استعمال کا بڑا سلیقہ ہے۔ تشبیہات نے ان کے کلام کا حسن دوبالا کر دیا ہے۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے ان کی تشبیہات کی خوبی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے،

    ’’ولی کے سلسلہ میں شاید یہ دعویٰ غلط نہ ہوگا کہ ا ن کے کلام (غزل) میں حسن اور لطف کا ایک بڑا ذریعہ ان کی تشبیہات ہیں۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ ان کے طریق تشبیہ کے بعض مخصوص رجحانات ہیں، جن سے ان کے کلام کے پوشیدہ اسرار کا پتہ چلتا ہے اور ان کی روح اور ذہن کی بعض مرغوب اور محبوب تمناؤں کا اظہار ہوتا ہے اور جو بہرحال ان کے تجربات اور ان کے اظہارات کے تابع اور ان سے ہم آہنگ بھی ہے۔‘‘ 3

    ولی کی تشبیہات واستعارات کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، اس لیے کہ انہوں نے اردو شاعری کو بہت سی نئی تشبیہیں دی ہیں۔ بعض خاص تشبیہات اور استعارات کی چند مثالیں پیش ہیں،

    روئے زمیں کا خال ہے زینت میں اے صنم
    تیرا جومثل نقش قدم پائمال ہے

    ولی اس گوہر کان حیا کی کیا کہوں خوبی
    مرے گھر اس طرح آتا ہے جوں سینے میں راز آئے

    تو سر سے قدم تلک جھلک میں 
    گویا ہے قصیدہ انوری کا

    تری زلفاں کی طولانی کو دیکھے 
    مجھ لیل ِزمستاں یاد آئے

    ولی لکھتا ہے تیری مست انکھیاں دیکھ اے ساقی
    بیان گردن مینا اوپر دیوان جامی کا

    موج دریا کو دیکھنے مت جا
    دیکھ اس زلف عنبریں کی ادا

    ہے ترے لب سوں اے شکر گفتار
    بات کہنا بنات سوں شیریں

    دیکھا ہوں قد وزلف و دہن پیوکا جب ستی
    کیتا ہوں ورد تب سوں الف لام میم کا

    تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سوں کہوں گا
    جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا

    ولی کے یہاں تراکیب، تشبیہیں اور استعارے اس قدر چست اور دلکش ہیں کہ شعر میں جان ڈال دیتے ہیں۔ ان کی تشبیہیں خود بولتی ہوئی ہیں اور جس چیز کا بیان کرتے ہیں اس کی تصویر نگاہوں میں آ جاتی ہے۔ ولی کے یہاں بعض تشبیہیں اور استعارے ایسے ہیں جو ان کا حصہ بن کررہ گئے ہیں۔ وہ ان کی ذہانت، طباعی اور تخیل کی بلند آفرینی کی بہترین مثال ہیں۔ محبوب کے سراپے کو انوری کا قصیدہ کہنا یا چشم میگوں کا تعلق جامی کی سرخوشی سے قائم کرنا ولی ہی کا حصہ ہے۔ اس قسم کے اشعار میں یہ شعر خصوصیت سے قابل غور ہے،

    ترامکھ مشرقی، حسن انوری، جلوہ جمالی ہے 
    نین جامی، جبیں فردوسی وابرو ہلالی ہے

    یہاں پر صرف ولی کی فارسی دانی کی بات نہیں ہے بلکہ ہر استعارہ غور طلب ہے۔ ’ مکھ مشرقی‘ کہہ کر انہوں نے دو باتیں پیدا کی ہیں۔ ایک حسن مشرق دوسرے چہرہ مشرقی کے کلام کی طرح تاباں۔ اسی طرح ہر شاعر کے حسن کلام کو محبوب کی ایک صفت سے متعلق کیا ہے۔ اردو شاعری میں محبوب کی لانبی زلفوں کا ذکر آتا ہے اور شعراء نے اس کی سیاہی اور لمبائی کا ذکر کرنے میں اپنی ساری ذہانت صرف کر دی ہے لیکن ولی نے جس سادگی سے ’تیری زلفوں کو دیکھ کر جاڑوں کی رات یاد آتی ہے‘ کہا ہے وہ عجیب کیفیت رکھتا ہے۔ ان اشعار میں بھی ان کے تخیل کی داد دینی پڑتی ہے،

    یہ سیہ زلف تجھ زنخداں پر
    ناگنی جیوں کنویں پہ پیاسی ہے

    بس کہ رویاہوں یاد کرکے تجھے 
    چشم میری ہے دامن گلچیں

    تیرے نین کے عصرمیں بے وقر ہے شراب
    مے خانہ تجھ نگاہ سوں دائم خراب ہے

    ولی کے کلام میں غنائیت اور موسیقیت بہت زیادہ ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہوں نے الفاظ کی کیفیت اور ان کے صوتی اثرات کا بہت خیال رکھا ہے۔ منفرد الفاظ کے صوتی آہنگ اوران کے ملنے سے جو غنائیت یا موسیقیت پیدا ہوتی ہے، ان سب کو نگاہ میں رکھ کر ولی نے شعر کہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ہم آواز الفاظ کی تکرار یا ایک ہی حرف سے شروع ہونے والے الفاظ سے جواثر اورغنائیت پیدا ہوتی ہے اس سے بہت فائدہ اٹھایا ہے،

    اے نو بہار حسن تو گلشن میں جب چلا
    گل کر ہوے گلاب گلاں تیرے گال دیکھ

    صنعت کے مصور نے صباحت کے صفے پر
    تصویر بنایا ہے تری نور کوں حل کر

    ولی کے یہاں کوئی خاص فلسفہ حیات نہیں اور اگر کسی چیز کو ان کے یہاں فلسفے کا نام دینا ہی ہو تو وہ ہے ان کا تصور حسن و عشق۔ اسی لیے ولی کے یہاں ایک خاص موضوع کی کمی ہے، جو اردو شاعروں یا صوفی شعراء کا خاص موضوع رہا ہے۔ یعنی دنیا کی بے ثباتی اور آلام روزگار کا ذکر۔ ولی کے یہاں اس موضوع پر بہت کم اشعار ملیں گے اور جو چار ملتے ہیں وہ ان کے کلام میں مجموعی حیثیت سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ دوچار اشعار میں انہوں نے مفلسی کا ذکر کیا ہے۔ مثلا،

    باعث رسوائی عالم ولی
    مفلسی ہے مفلسی ہے مفلسی

    مفلسی سب بہار کھوتی ہے 
    مرد کا اعتبار کھوتی ہے

    یا ایک جگہ سینے کے داغوں کا ذکر اس طرح کیا ہے،

    نہیں ہے شوق مجھ کوں باغ کی گلگشت کا ہرگز
    ہوا ہے جلوہ گرداغاں سوں سینے کا چمن تیرا

    ایک جگہ دنیا سے اہل ہنر کو فیض نہ پہنچنے کا شکوہ کیا ہے،

    جگ میں نئیں اہل ہنر اپنے ہنر سوں بہرہ یاب
    کوہ کن کوں فیض کب پہنچا ہے جوئے شیر سوں

    اس طرح ولی کے یہاں ان مضامین کے اشعار کم ہیں۔ لیکن جہاں انہوں نے ان مضامین کو نظم کیا ہے وہاں ان کی شاعرانہ مہارت میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ ولی کے فن کے یہی خاص پہلو ہیں جوان کی شاعرانہ عظمت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ نے بہت صحیح کہاہے:’’۔۔۔ تجھ مکھ، تجھ حسن، تجھ زلف، تجھ ناز، تجھ خیال، تجھ نین اور اس قسم کے دوسرے جملات بار بار دہرائے جا رہے ہیں، جن سے شاعر کے جنون شوق کا اظہار ہوتا ہے اور ایک ایسی پرلذت نشاطیہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو بیان سے باہر ہے۔ بس ولی کے معانی اور ان کے اسلوب کا خاصہ اسی قدر ہے۔ حق یہ ہے کہ معاملات اور حکیمانہ گہرائی و دردمندی اور سوزوگداز کی کمی کے باوجود ان کا کلام بڑا خوش رنگ وخوشگوا رہے۔ بہار آفریں الفاظ، خوش صورت تراکیب، گل وگلگشت کی تکرار، حسن کے ترانے اور نغمے، مناسب بحروں کا انتخاب اور اسالیب فارسی سے گہری واقفیت اور ان سے استفادہ ان سب باتوں نے ولی کو ایک بڑا رنگین شاعر بنا دیا ہے۔‘‘ 4

    مختصر الفاظ میں یہی سادگی، روانی، رنگینی، سرخوشی، نشاطیہ کیفیت، تشبیہات و استعارات کی جدت و معنی آفریں تاثر، حسیت، تنوع، رمزیت اور ہندوستانی عنصر و فارسی کا خوبصورت امتزاج ولی کا فن ہے جس سے ان کے کلام کا بیشتر حصہ روشن ہے۔


    حاشیے
    (۱) ولی سے اقبال تک ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، صفحہ ۹
    (۲) تنقید اور احتساب ڈاکٹر وزیر آغا صفحہ، ۸۰۔ ۷۹
    (۳) انتخاب ولی، ڈاکٹر ظہیر الدین مدنی، صفحہ ۱۴ 
    (۴) ولی سے اقبال تک۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، صفحہ ۱۰
    (۵) ولی سے اقبال تک۔ ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، صفحہ ۲۳

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے