Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ولی کی صوفیانہ شاعری

شارب ردولوی

ولی کی صوفیانہ شاعری

شارب ردولوی

MORE BYشارب ردولوی

     

    اردو شاعری اور تصوف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ابتدا سے ا ب تک شعراء کسی نہ کسی شکل میں مسائل تصوف پر غور کرتے رہے ہیں اور قدیم شعراء کے کلام پر صوفیانہ فکر کا پر تو غالب رہا ہے۔ زندگی کیا ہے، دنیا کیا ہے، خدا کیا ہے، بندے اور خدا کا کیا رشتہ ہے، فنا وبقا، بے ثباتی حیات، توکل و قناعت، جبرواختیار، خردوبےخودی اور معرفت کے مسائل جیسے بہت سے سوال ان کے سامنے رہے ہیں اور اپنے نظریہ کے مطابق وہ اسے پیش کرتے رہے ہیں۔ قدیم شعراء میں تو شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس کے کلام میں یہ مسائل نہ ملتے ہوں۔

    تصوف کا اتنا گہرا اثر ہونے کے تین اسباب ہو سکتے ہیں۔ اول یہ کہ اردو زبان وادب کی تخلیق وارتقا میں صوفیائے کرام کا بہت بڑا حصہ رہا ہے۔ وہ ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے رہے ہیں اور انسانیت کی فلاح اور دنیاوی دکھوں اور آلام کے علاج کے سلسلے میں اپنے نظریات عام لوگوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ چونکہ ان کی آواز محبت کی آواز اوران کا بیان ولی کا بیان تھا، اس لیے ہر جگہ ان کے گرد علماء و شعراء کا مجمع ہو جاتا۔ اس عہد کے جو بہترین ذہن ہوتے وہ ان سے کسب فیض کرتے تھے، اس لیے عام طورپر اس زمانے کے سبھی شاعروں نے اسی مسلک کو اپنا یا اور انہیں مسائل کو اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔ صوفیائے کرام خود شاعر اورعلوم ظاہری و باطنی سے واقف ہوتے تھے۔ ان کی شاعری اسی محبت اور حقیقت کی تلاش کا آئینہ ہوتی اور نظم ونثرمیں وہ انہیں مسائل پر روشنی ڈالتے۔

    دوسری وجہ اردو شاعری میں تصوف کے اثر کی یہ بھی ہے کہ اردو شاعر فارسی سے براہ راست متاثر رہی اور تصوف فارسی شاعری کا ایک ایسا جزبن چکا تھا جواس کے رگ وپے میں جاری و ساری تھا۔ اس لیے جب خیالات، الفاظ اور محاوروں کی نقل کی گئی اور اسی طرح شعر کہنے کی کوشش ہوئی تو صوفیانہ خیالات، انداز بیان اور ایرانی عشق کا انداز بھی نقل کی صورت میں اردو میں منتقل ہو گیا۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اردو میں خیال و اظہار کے لیے اس کا اپنا کچھ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری زبان میں بہت سی چیزیں باہر سے آئیں، جنہیں ہم نے اس طرح اپنا لیا کہ ان کی شکل پر اب ’باہری‘ ہونے کا شبہ بھی نہیں ہوتا۔

    تیسری وجہ اس کا اپنا ملکی خمیر ہو سکتا ہے۔ ہندوستان میں تصوف کی بہت اہمیت تھی۔ قدیم علماء تصوف کے مختلف رموز اور مسائل وحدت الوجود، ہمہ اوست، اہم برہما، یعنی اناالحق پراظہار خیال کرتے رہے ہیں۔ ان مسائل کی اس وقت کی اخلاقی اور علمی زندگی میں بڑی اہمیت تھی اور ہر صاحب علم کسی نہ کسی طرح ان پر اظہار رائے ضرور کرتا تھا۔ ہندوستان کو تصوف کا قدیم ترین دبستان کہا جا سکتا ہے۔ اخلاق اور علم وادب یہاں اس کے بغیر مکمل نہیں تھے۔ ’ستیم شیوم سندرم‘ کا نظریہ ان کے متصوفانہ ذہن کی نشاندہی کرتا ہے۔ اردو شاعری میں تصوف کا اس قدر رواج پانا ان اسباب کی روشنی میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

    تصوف کا راستہ بڑا پرپیچ وپرخم ہے۔ پھر اس میں بھی بہت سے نظام فکر ہیں۔ کوئی شریعت کے ذریعہ حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے اور اپنے کو اس بحر نور میں ملا دینا چاہتا ہے، جس کا وہ خود ایک حصہ ہے۔ کوئی شریعت کو بندھن خیال کرتا ہے اور طریقت کوعرفان کا راستہ قرار دیتا ہے۔ اس شریعت وطریقت میں آگے چل کر معمولی معمولی اختلافات پر راہیں الگ ہو گئی ہیں۔ ویسے بنیادی طور پر تصوف کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی تصوف، ایرانی تصوف اور ہندوستانی تصوف۔ ہندوستانی وایرانی نظریات، ہندوستان میں تقریباً مل گئے ہیں۔ اردو شاعری میں پائے جانے والے صوفیانہ خیالات ان تینوں اندازفکر کا مجموعہ ہیں۔

    تصوف عام طور پر سماجی کشمکش، معاشی بدحالی، معاشرتی الجھنوں، سیاسی تصادم اور مستقبل کی غیریقینی حالت میں پیدا ہوتا ہے۔ اسی لیے تصوف کو زندگی کے ٹھو س حقائق اور مسائل سے فرار کا ایک راستہ کہا گیا ہے۔ جب انسان میں جدوجہد کی طاقت نہیں رہتی، اقدار کی شکست و ریخت پرنہ اس کا قابو رہتا ہے اور نہ اپنے کو تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنے کی سکت، نہ اپنا راستہ بنانے کی قوت، نہ حالات سے مقابلہ کرنے کی توانائی، تب وہ تصوف کی پناہ گاہ تلاش کرتا ہے۔ تصوف کی ابتدا کے بارے میں حسن واصف عثمانی نے لکھا ہے کہ،

    ’’تصوف نے عرب ماحول میں جنم لیا تھا، جب عباسی حکمرانوں کے تحت ایک طرف تو اسلامی تہذیب کا ہر شعبہ اپنے عروج پر تھا اور دوسری طرف اسلامی تہذیب کے اولین سانچے کو عباسی حکمراں توڑکر تمدن افکار اور طرزحیات میں غیر عرب عناصر خصوصاً ایرانی تصورات اور یونانی افکار کے پیوند لگانے لگے تھے۔ اس کی وجہ سے طرز حیات میں وہ تبدیلیاں آرہی تھیں جنہوں نے عام مسلمانوں کی زندگی کو یکسر کھوکھلا کر دیا تھا۔ شریعت کی پابندیوں سے دور بھاگنے کا جذبہ عام تھا۔ باطن کی گہرائی، عقیدہ کی پختگی کو رسم پرستی سے بدلا جا رہا تھا۔۔۔‘‘ 1

    علامہ اقبال نے بھی تصوف کی ابتدا کے بارے میں اسی طرح کی رائے دی ہے کہ وہ ایسے موقع پر پیدا ہوتا ہے جب قوم میں طاقت و توانائی مفقود ہو جاتی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک خط میں لکھا ہے، ’’تصوف کی تمام شاعری مسلمانوں کے پولیٹکل انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوئی اور ہونا بھی چاہئے تھا کہ جس قوم میں طاقت وتوانائی مفقود ہو جائے جیسا کہ تاتاری یورش کے بعد مسلمانوں میں مفقود ہوگئی توپھر اس قوم کا نقطہ نظر بدل جایا کرتا ہے۔ ان کے نزدیک توانائی ایک حسین وجمیل شے ہو جاتی ہے اور ترک دنیا موجب تسکین۔ اس ترک دنیا کے پردے میں ضعیف قومیں اپنی سستی اور کا اہلی اور اس شکست کو جوان کو تنازع للبقا میں نصیب ہوتی ہے، چھپایا کرتی ہیں۔‘‘ 2

    اس سے ظاہر ہے کہ تصوف درحقیقت کن حالات میں پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں پر تصوف کی تاریخ اور تفصیل سے بحث نہیں ہے۔ چونکہ اردو شاعری پر اس کے بہت گہرے اثرات ہیں، اس لیے تھوڑا سا اس تحریک کا تعارف ضروری تھا۔ تصوف نے آگے چل کر عالم گیروسعت اختیار کر لی اور فلسفہ اور الہٰہیات کے مسائل نے صوفیانہ ادب کو بڑا وزن اور وقار دیا۔ ابن عربی کی صوفی تحریک نے ایک نیا نظریہ دیا اور یہ نظریہ عشق تھا۔ انہوں نے بتایا کہ مقام فنا تک پہنچنے کے لیے کسی ریاضت کی نہیں بلکہ طلب کی شدت اور گرمی کی ضرورت ہوتی ہے، جوعشق سے ملتی ہے۔ جو اپنے کوعشق میں ختم کر دیتا ہے اور اپنے وجود کو مٹا دیتا ہے یعنی جو قطرہ دریا میں مل کر اپنے وجود کو فنا کر دیتا ہے وہ مقام بقا پا لیتا ہے۔ تصوف کی زبان میں اسی کو فنا کہا گیا ہے۔ مولانا حسرت موہانی نے کہا ہے،

    نہ پا سکتے کبھی پابند رہ کر قید ہستی میں 
    سو ہم نے بے نشاں ہوکر تجھے اے بے نشاں پایا

    وحدت الوجود کا فلسفہ صوفی تحریک کا ایک عقیدہ لازم بن گیا ہے۔ مولانا آزاد نے غبارخاطر میں لکھا ہے کہ، ’’دنیا میں وحدت الوجود کے عقیدے کا سب سے قدیم سرچشمہ ہندوستان ہے۔ غالباً یونان اور اسکندریہ میں بھی یہیں سے یہ عقیدہ اور مذہب گیا۔‘‘ 3

    خواجہ احمد فاروقی نے فلسفہ وحدت الوجود پراظہارخیال کرتے ہوئے میرتقی میر حیات اور شاعری میں لکھا ہے کہ، ’’وحدت الوجود کامسئلہ صوفیانہ شاعری کی جان ہے۔ خواجہ فریدالدین عطار کا خیال ہے کہ تمام اشیاء میں معشوق حقیقی کا حسن کارفرما ہے۔ وہ قدمیں جلوہ، زلف میں شکن، ابر میں وسمہ، یاقوت میں آب، مشک میں خوشبو ہے۔‘‘ 4یہ تمام مسائل اور صوفیانہ رموز اردو شاعری کا ایک حصہ ہیں جس پر ابتدا سے لوگ طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔

    ولی کی شاعری میں بھی تصوف کی بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے جگہ جگہ پر ان فلسفیانہ خیالات، تصوف کی باریکیوں اورحیات وکائنات کے رموز کی طرف اشارے کیے ہیں۔ ولی خودایک صوفی تھے اور جس ماحول میں وہ خوداور ان کی شاعری پروان چڑھی تھی وہ خالص صوفیانہ ماحول تھا۔ اس عہد میں تصوف اخلاق وتہذیب کا ایک جزتھا اور کسی شخص کے صاحب علم وصاحب نظر ہونے کا معیار فلسفیانہ وصوفیانہ مسائل پر اس کی دسترس تھا۔ اس میں شاید اس سماجی پس منظر کا زیادہ خل ہے، جس کا جائزہ پچھلے صفحات میں آ چکا ہے۔ ویسے تو تصوف قلی قطب شاہ کے زمانے ہی سے معیار شرافت تھا۔ خود کلیات قلی قطب شاہ میں صوفیانہ مسائل پر بہت سے اشعار مل جاتے ہیں،

    کس ٹھار میں وستا نہیں سب ٹھار ہے بھرپور
    دیکھن کو سکت کاں اہے ہرئیک نین میں 
    قلی قطب شاہ

    اسی طرح ملا وجہی کے خیالات اور بحری کی مثنوی ’من لگن‘ تصوف کے رموز میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بحری کا ایک شعر ہے،

    اے روپ ترا رتی رتی میں
    پربت پربت پتی پتی میں

    ان مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ دکن میں تصوف کی روایت ولی سے بہت پہلے شروع ہو چکی تھی۔ یہ ضرور ہے کہ قدما کے یہاں تصوف کا رنگ اتنا گہرا نہیں ہے جتنا ولی کے یہاں ہے۔

    ولی نے اپنی زندگی میں کچھ زیادہ انتشار، بےچینی، تباہی اور تبدیلیاں دیکھیں۔ انہوں نے شاندار ماضی اور روایات کی امین دکنی سلطنتوں کو تاراج وتباہ ہوتے دیکھا۔ وہ بادشاہ جن کے یہاں علوم وفنون، تہذیب وتمدن، شعراء اور فن کاروں کی سرپرستی اور ترقی کے لیے ہروقت دروازے کھلے رہتے تھے، انہیں بے بس، لاچار، مجبو ر اور قیدی بنا دیکھا۔ جن کی مہربانیاں، نوازشات اورعنایات ضرب المثل تھیں، انہیں قید میں موت کی ایک نگاہ کرم کے لیے تڑپتے دیکھا۔ انہوں نے ایک طر ف مرہٹوں کے ہاتھوں لوٹ مار، قتل عام اور خزانوں کو لٹتے دیکھا، دوسری طرف مغلوں کے حملے اور جنگیں دیکھیں، جس نے ان کو زیادہ حساس، نرم دل اور انسان دوست بنا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف کے مسائل سے ان کا کلیات بھرا ہوا ہے۔

    ولی کے بارے میں کہا جاچکا ہے کہ وہ خود صوفی تھے۔ انہوں نے احمدآباد میں شاہ نورالدینؒ سے درس سلوک لیا تھا جوکہ سہروردیہ فرقے کے ایک بزرگ تھے۔ شاعری میں ولی کے استاد شاہ گلشن تھے۔ ولی نے ’نورالمعرفت‘‘ کے اختتام پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 5 شاہ گلشن جو ایک صوفی بزرگ تھے اورشاہ گل سرہندی متخلص بہ وحدت بن سید محمدسعید بن شیخ احمد مجدد سرہندی کے مرید تھے، اسی نسبت سے انہوں نے تخلص شاہ گلشن اختیار کیا تھا۔ اس کے علاوہ ولی کے کلام میں ایک جگہ علی رضا کا نام آیا ہے۔

    بادشاہ نجف ولی اللہ
    پیر کامل علی رضا پایا

    شاہ علی رضاسرہندی گجرات میں اقامت پذیر تھے۔ آپ کو خرقہ خلافت شیخ یحییٰ چشتی سے ملا تھا۔ دکن کے بہت سے امراء آپ کے مرید تھے۔ ولی کو بھی آپ سے بڑی عقیدت تھی۔ یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ ولی آپ کے مریدبھی تھے یانہیں۔ لیکن شعر اس طرف ضرور اشارہ کرتا ہے۔ شیخ نورالدین سہروردی سے ولی نے باقاعدہ علوم عقلی ونقلی کا درس لیا تھا۔ اس لیے سہروردی سلسلے کا اثر ان پر زیادہ تھا۔ سلسلہ سہروردیہ کے بانی شیح شہاب الدین سہروردی تھے، جن کا نظریہ یہ ہے کہ خالق مطلق یا حقیقت ایک حسن یانور ہے، جوابدی غیرفانی اور قائم بالذات ہے۔ وہ کائنات کاخالق اور کائنات اس کا مظہر ہے۔ ہر انسان اس حقیقت کی طرف کھنچتا ہے اور بظاہر عشق سے حقیقت تک پہنچتاہے۔ اس نظریہ کی بنیاد عشق ہے اور ’کمال‘ تک پہنچنے کا وہی ایک راستہ ہے۔

    اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ درس عشق ولی کو اپنے پیر طریقت اور مرشد سے ملا۔ میر تقی میر کو ان کے والد نے سمجھایا تھا کہ، ’’بیٹا عشق اختیا کرو کہ عشق ہی اس کارخانے پر مسلط ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو یہ تمام نظام درہم برہم ہو جاتا، بے عشق زندگانی وبال ہے اور عشق میں دل کھونا اصل کمال ہے۔ عشق ہی بناتا اور عشق ہی بگاڑتا ہے۔

    بے عشق نہ باید بودبے عشق نہ باید زیست
    پیغمبر کنعانی عشق پسرے دارد‘‘ 6

    عشق کی یہ تعلیم ولی کو اپنے تصوف کے سلسلے میں ملی کہ عشق ہی انسان کو ’کمال‘ تک پہنچاتا ہے۔ اب اس کمال تک پہنچنے کے لیے کئی مدارج طے کرنے ہوتے ہیں۔ ولی نے کہا ہے کہ مجاز کے بغیر حقیقت کو نہیں پایا جاتا۔ عام طور پر صوفیوں کا یہی خیال ہے۔ اکثر صوفی شعراء نے اپنے اشعار میں ان مدارج کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اصغر گونڈوی نے لکھا ہے کہ،

    کچھ آگ دی ہوس میں توتعمیرعشق کی
    جب خاک کردیا اسے عرفاں بنا دیا

    اصغر نے کمال یا عرفان کی منزل فنا میں تلاش کی ہے۔ لیکن اس ’’عرفان‘‘ کی منزل تک پہنچنے سے پہلے ’ہوس‘ اور عشق کے دو مدارج سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہوس جل کرعشق میں تبدیل ہوتی ہے۔ ولی نے بھی عشق حقیقی سے پہلے مجاز کا درجہ بتایا ہے۔

    در وادی حقیقت جن نے قدم رکھا ہے 
    اول قدم ہے اس کا عشق مجاز کرنا

    شغل بہتر ہے عشق بازی کا
    کیا حقیقی و کیا مجازی کا

    اے ولی عشق ظاہر ی کا سبب
    جلوہ شاید مجازی ہے

    تواضع خاکساری ہے ہماری سرفرازی ہے 
    حقیقت کے لغت کا ترجمہ عشق مجازی ہے

    یہی عشق ظاہری حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن اس عشق کو پہچاننے کے لیے بھی صاحب نظر اور صاحب دل ہونا چاہئے۔ ورنہ لوگ نہ جانے کیا سے کیا معنی پہنادیں گے۔ یہاں تو ہر شعبے میں وہی نظر آتا ہے۔ اسی کا ایک حسن ہے جو ہر شے میں ہے اور اسی حسن کی تجلی ہر شکل میں جلوہ فن ہے۔ شیخ علی حزیں نے کہا ہے،

    از بنارس نہ روم معبد عام است اینجا
    ہر برہمن پسر لچھمن و رام است اینجا

    اسی طرح ولی کے یہاں ابوالمعالی ہوں یاکھیم داس، امرت لال، گوبند لال، شمس الدین یا سجن اور پیا کی کوئی صورت، سب پسر لچھمن و رام کی شکل ہیں۔ جو ان کے لیے مضمون پاک بازی کا ایک عنوان ہیں۔ وہ ان کے حسن کی تعریف کرتے ہیں۔ بعض ناموں کو تو انہوں نے ردیف کے طور پراستعمال کیا ہے لیکن یہ سب جلوے ان کی نگاہ میں اس ’’سجن‘‘ تک لے جانے والے ہیں جس کی معرفت کے لیے وہ قطرہ سیماب کی طرح بے چین ہیں۔ ان کے اس طرح کے چند شعر پیش ہیں۔

    ہر طرف ہے جگ میں روشن نام شمس الدین کا
    چین میں ہے شور جس کے ابروئے پر چین کا

    ہے بس کہ آب ورنگ حیا کھیم داس میں 
    آتا نہیں کسی کے خیال وقیاس میں

    خوباں حیاسوں غرق عرق ہوں توکیا عجب
    جس وقت جلوہ گر ہو جمال گوبند لال

    شمع بزم وفا ہے امرت لال
    سروباغ ادا ہے امرت لال

    ترا قد دیکھ اے سید معالی
    سخن فہماں کی ہوئی ہے فکر عالی

    ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی نے ان اشعار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ، ’’تصوف کے مسلک میں چونکہ نظراندر کی طرف رہتی ہے، اس لیے ہمیشہ جز میں کل، ’قطرے میں دریا‘ دل کے آئینے میں دنیا کا تماشا دیکھا جاتا ہے اور اسی لیے ایسی شاعری ہمیشہ داخلی ہوا کرتی ہے۔ ولی کو اپنے دلی کیفیات کے مطالعہ واظہار کے علاوہ فرصت نہیں کہ باہر کی دنیا کو دیکھیں۔ اگر کبھی ان کی نظر خارجی دنیا کو دیکھتی بھی ہے تو وہاں بھی انہیں حسن ہی حسن نظر آتا ہے خواہ وہ گوبند لال ہوں یا امرت لال یا ابوالمعالی یا گجرات وسورت کے نازنین۔‘‘ 7

    ولی کی نگاہ میں عشق ایک فن عجیب ہے جس کا سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ عشق کیا ہے یہ صرف عارف جانتے ہیں۔ ولی نے ان الفاظ میں اس عشق کی طرف اشارہ کیا ہے،

    عارفاں پر ہمیشہ روشن ہے 
    کہ فن عاشقی عجب فن ہے

    ولی نے عشق کو فن قرار دیا ہے۔ پھر اس فن کا جاننے والا ہی صرف عارف ہے۔ ان کی نگاہ میں عشق پاکباز ہے اور وہ شخص مسلمان نہیں جو عاشق نہیں ہے،

    پاکبازوں سے یہ ہوا معلوم
    عشق مضمون پاکبازی ہے

    طریقہ عشق بازاں کا عجب نادر طریقہ ہے 
    جو کئی عاشق نہیں اس کوں مسلمان کر نہیں گنتے

    عشق ولی کی نگاہ میں محبوب حقیقی تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے اور یہ ایسی آگ ہے جس سے ہر شخص کا دل گرم ہے۔ کوئی نہیں جس کے دل پر اس کا چرکانہ لگا۔ وہ خواہ فقیر ہو یا بادشاہ۔ عاشق کے گھر میں چراغ کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ شمع عشق سے منور ہے۔ ان کی نگاہ میں یہ کارخانہ دنیا عشق کا معمولی سا کرشمہ ہے۔

    عشق سے فارغ جو کئی رہ نحس اکبر ہے مدام
    ساتویں کھنڈ پر اگر ایوان کیوانی کرے

    عشق کی آتش میں جائے تن کوں جو کئی رات دن
    وہ قیامت لگ سوں جیوں سورج درخشانی کرے

    گر طلب ہے تجھ کوں راز خانہ دل ہوعیاں 
    آہ کی آتش سوں روشن کر چراغ عاشقی

    عشق کے ہاتھ سوں ہوئے دل ریش
    جگ میں کیا بادشاہ کیا درویش

    عاشقوں کو نہیں ہے موت سوں کام
    مرقد پاک اولیا کی قسم

    حاجت نہیں چراغ کی تجھ گھرمیں اے ولی
    روشن ہے بزم عشق تری شمع آہ سوں

    وہ صنم جب سوں بسا دیدہ حیران میں آ
    آتش عشق پڑی عقل کے سامان میں آ

    ولی بھی درجہ ’کمال‘ تک پہنچنے کے لیے اپنی ذات کے فنا کر دینے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یعنی معرفت کی منزل بغیر اپنے کو خاک کیے نہیں ملتی،

    عشق میں لازم ہے اول ذات کوں فانی کرے 
    ہو فنا فی اللہ دائم ذات یزدانی کرے

    ولی کے یہاں عشق حقیقی وعشق مجازی کی طرح حسن کے بھی دو تصور ملتے ہیں۔ ایک تو تجسیمی تصور ہے جس میں حسین ایک عام محبوب ہے جہاں وہ صرف اس کے قدوزلف ورخسار کی تعریف کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایک دوسرا تصور تنزیہی ہے جس میں حسن ایک حقیقت کی شکل میں ہے جس کا جلوہ عالم کی ہر چیزمیں ہے۔ جس حسن کا پرتو خود ولی میں ہے اور جس میں مل جانے کو وہ عرفان سمجھتے ہیں۔ اس حسن کو انہوں نے طرح طرح سے پیش کیا ہے۔ یہاں پر چند مثالیں پیش ہیں۔

    عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
    بغیراز دیدہ حیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا

    وحدت کے گلستان کا چمن حسن ہے تیرا
    پھولا ہے چمن بیچ بہار گل و نرگس

    تجھ حسن عالم تاب کا جو عاشق شیدا ہوا
    ہر خوب رو کے حسن کے جلوے سوں بے پروا ہوا

    صنعت کے مصور نے صباحت کے صفے پر
    تصویر بنایا ہے تری نور کوں حل کر

    ولی اسی حسین اور اسی محبوب حقیقی کے نام کا ورد کرتے ہیں اور اسی کی مدح وثنا بیان کرتے ہیں۔ یہ محبوب کہیں ان کا پتیم ہے کہیں سجن اور کہیں سری جن۔ اس کا کوئی نام ہو اور کچھ بھی خطاب ہو، وہ انہیں کے اندر ہے حالانکہ ا نسان کے لیے اس کا پہچاننا مشکل ہے اور اس کی تعریف میں قلم شل اور زبان معذور ہے۔

    کیتا ہوں ترے ناؤں کوں میں ورد زباں کا
    کیتا ہوں ترے شکر کو عنوان بیاں کا

    تنہا نہ ولی جگ منیں لکھتا ہے ترے وصف
    دفتر لکھے عالم نے تری مدح وثنا کے

    اگر چمن میں نہیں باس میرے پیتم کی
    تو میرے دل کوں زگل گشت لالہ زار چہ حظ

    دل کوں گرہر مرتبہ ہو درپن کا
    مفت ہے دیکھنا سری جن کا

    ولی اس کی حقیقت کیوں کہ بوجھوں 
    کہ جس کا بوجھنا حدبشر نہیں

    معشوق ہے بغل میں ولی یہ سنا ہوں 
    مت دل کے باج اس کوں کہیں جستجو کرو

    اے صنم تیرے مکھ کی دیکھ جھلک
    منفعل ہے مدام شمس فلک

    دیکھ تجھ میں جمال حق کا ظہور
    ہیں دعا گو فلک پہ سارے ملک

    نہ کر سکوں ترے یک تار زلف کی تعریف
    کروں ہزار کتب تجھ ثنا میں گر تصنیف

    ولی نے اور بھی بہت سے مسائل تصوف بیان کیے ہیں۔ کہیں انہوں نے طمع کی برائی ہے، کہیں نامہ اعمال آنسوؤں سے دھوکر پاک کرنے اور کہیں محبوب کے لیے گلدستہ اعمال زندگانی تحفہ کے طور پر لے جانے کی خواہش کی ہے۔

    سیہ روی نہ لے جاے حشر میں دنیائے فانی سوں 
    سیہ نامے کو دھو اے بے خبر انجھواں کے پانی سوں

    نزک جاناں کے گر تحفہ لے جانا ہے تو اے ناداں 
    لے جا گلدستہ اعمال باغ زندگانی سوں

    طمع مال کی سربسر عیب ہے 
    خیالات گنج جہاں سرسوں ٹال

    تصوف مذہب آزادگی ہے، جس میں ہر پابندی سے انسان اپنے کو آزاد کر لیتا ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی عقائد اور اختلاف کی بھی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رہتی۔ کفر اور ایمان ایک ہو جاتے ہیں۔ سبحہ و زنار درجہ معرفت تک پہنچنے میں مانع ہوتے ہیں اور ایک بارصوفی ان قیود سے اپنے کو آزاد کرکے اس بحربیکراں میں مل جانا چاہتا ہے۔ ولی نے کہا ہے،

    گر ہوا ہے طالب آزادگی
    بند مت ہو سبحہ و زنار کا

    رموز ونکات تصوف کا سمجھنا آسان نہیں لیکن جو دل کو وسوسوں اور خیام خیال سے پاک رکھے اس کے لیے یہ رموز مشکل بھی نہیں،

    خیال خام کوں جو کوئی کہ دھو وے صفحہ دل سوں 
    تصوف کے مطالب کوں وہ مشکل کر نہیں گنتے

    بغیر معرفت سب بات میں گر کوئی اچھے کامل
    ولی سب اہل عرفاں اس کوں کامل کر نہیں گنتے

    ولی مئے وحدانیت میں سرشار ہیں۔ یہ شراب شوق ایسی ہے جو بےخود بھی رکھتی ہے اور ہشیار بھی۔

    عشق کر اے دل سدا تجرید کی
    عاشقی ہے ابتدا توحید کی

    ولی ہے مست قدح زار زار وحد ت کا
    نہ حاجت اس کوں صراحی نہ التفائے قدح

    شراب شوق میں سرشار ہیں ہم
    کبھو بے خود کبھو ہشیار ہیں ہم

    وحدت الوجود جو کہ صوفیا کا اہم ترین موضوع ہے، ولی نے اسے اس طرح لکھا ہے،

    ہر ذرہ عالم میں ہے خورشید حقیقی
    یوں بوجھ کہ بلبل ہوں ہر اک غنچہ وہاں کا

    سجن کے باج عالم میں دگر نہیں 
    ہمیں میں ہے ولے ہم کوں خبر نہیں

    اس کے علاوہ بہت سی مثالیں فناوبقا، معرفت اور وحدانیت وغیرہ پران کے کلام میں مل جاتی ہیں لیکن متذکرہ مثالیں ان کے صوفی مسلک اور عقائد کی تصویر پیش کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ان اشعار کے مطالعے سے ان کے نظریات کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ ولی کے یہاں بہت فلسفیانہ گہرائی نہیں ہے۔ وہ صاف اور سارے الفاظ میں اپنی فکر کو منتقل کر دیتے ہیں۔ فارسی کے اثر سے کبھی کبھی بیان میں تھوڑا سا گھماؤ آ جاتا ہے، ورنہ صوفیانہ شاعری ہو یا عاشقانہ، ان کا حسن، ان کے بیان کی سادگی اور ان کے احساس کی سچائی ہے۔ بحیثیت ایک صوفی شاعر کے ولی خاص اہمیت کے مالک ہیں۔ اس زمانے کے مزاج میں تصوف رچا بسا ہوا تھا۔ اخلاق اور فکرپر وہی چھایا ہوا تھا۔ تصوف ہی علمیت اور بلند مذاقی کا معیار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ولی نے بڑی خوبی اور کامیابی سے تصوف کے مسائل کو اشعار کا جامہ پہنایا ہے۔ ان کے یہ صوفیانہ خیالات صرف غزل کے اشعار تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ مثنویوں میں بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔

    حاشیے
    (۱) مطالعہ اسلامیات حسن واصف عثمانی، صفحہ ۱۲۴
    (۲) اقبال اور ان کا عہد بحوالہ جگر فن اور شخصیت۔ شارب ردولوی، صفحہ ۱۳۳
    (۳) غبار خاطر مولانا ابوالکلام آزاد، صفحہ ۱۴۲
    (۴) میر تقی میر حیات اور شاعری۔ خواجہ احمد فاروقی، صفحہ ۴۰۳
    (۵) بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ بیان درست نہیں ہے لیکن ابھی اس سلسلے میں قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ 
    (۶) میر حیات اور شاعری۔ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی، صفحہ ۵۴
    (۷) کلیات ولی مرتبہ نورالحسن ہاشمی، ۱۷

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے