Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ولی کی زبان

شارب ردولوی

ولی کی زبان

شارب ردولوی

MORE BYشارب ردولوی

     

    زبانیں ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ وقت کے ساتھ بہت سے الفاظ متروک ہو جاتے ہیں اور بہت سے نئے الفاظ ک ااضافہ ہو جاتا ہے۔ یہی تبدیلی یا شکست وریخت ہی زبان کی زندگی کی علامت ہے۔ زبان میں یہ تبدیلیاں اس قدر تیزی سے آتی ہیں کہ آج زبان کی جو شکل ہمارے سامنے ہے وہ نہ تو پچاس سال پہلے تھی اور نہ پچاس سال بعد رہےگی۔ ولی سے آج تک کم وبیش ساڑھے تین سو سال کے عرصے میں زبان میں نہ جانے کتنے انقلاب آئے ہیں، اسے نہ جانے کتنی تبدیلیوں سے گزرنا پڑا ہے۔ اس زمانے کے بہت سے الفاظ آج اس قدر نامانوس ہو چکے ہیں کہ ان کے معنی ومفہوم کے اظہار کے لیے فرہنگ کی مدد لینی پڑتی ہے اور ان جگہوں پر بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں فرہنگ بھی مدد دینے سے قاصر ہو۔ بہرحال آج زبان اتنی تبدیل ہو چکی ہے کہ ولی کے کلام کے مطالعے کے ساتھ ان کی زبان کا جائزہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔

    ولی کی زبان کے بارے میں گفتگو کرتے وقت ہمیں کئی باتیں خصوصیت سے نگاہ میں رکھنی پڑتی ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ ولی کے زمانے میں اردو اپنے ابتداو ارتقاء کے مرحلے میں تھی۔ زبان کے قاعدے اور اصول اس وقت تک پوری طرح نہیں بن سکے تھے۔ اس لیے ولی کی زبان پر اعتراض کرنے کے بجائے اسے انہیں حالات اور ماحول کے تحت دیکھنا چاہئے اور اسی صورت میں ولی کے زبان کے سلسلے میں اجتہادات کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ محمد حسین آزاد نے اس زمانے کی اردو زبان کے بارے میں لکھا ہے کہ: ’’ایسے وقت میں ہماری زبان ایک طفل نور فتار تھی، جو انگلی کے سہارے سے بڑھی۔ اردو زبان اس وقت ہندی دہروں اور بھاشا کے مضامین کے اور کسی قابل نہ تھی۔ انہوں نے اس میں فارسی ترکیبیں اور فارسی مضامین کو داخل کیا۔‘‘ 1

    اردو زبان کا اس وقت تک نہ تو کوئی جامع خاکہ تیار ہوا تھا اور نہ ہی اس کا یہ نام پڑا تھا۔ یہ کہیں ہندی اور ہندوی کہلاتی تھی اور کہیں دکنی اور گجری۔ زبان دہلوی اردوئے معلی یا ریختہ بھی اس کے بعدکے نام ہیں۔ مسعود حسین خاں نے لکھا ہے کہ:’’مصحفی کے یہاں اس کا نام اردو قرار پایا۔ بہمنی دور تک اسے ہندی، ہندوی اور گجری ہی ناموں سے پکارا گیا۔ قطب شاہی اور عادل شاہی حکمرانوں کے زمانے میں دکنی اس کا نام رہا۔ وجہی، ابن نشاطی، رستمی، نصرتی اور ہاشمی نے اسے دکنی کہا ہے اور اس پر فخر کیا ہے۔

    ترے شعر دکنی کا ہے جگ میں ناؤں 
    نکو بھونت کر دُسری بولی ملاؤں‘‘ 2

    اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت تک اردو زبان گجری، دکنی اور دوسری مقامی بولیوں اور الفاظ کی ملی جلی ایک زبان تھی جس کو جو جس طرح چاہتا، استعمال کرتا تھا۔ شمالی ہندوستان میں اس وقت تک یہ ادبی اظہار کا ذریعہ نہیں بنی تھی۔ دکن اور شمالی ہند میں زبانوں کا ارتقا اس وقت تک تقریباً الگ الگ ہو رہا تھا جن میں سماجی اور جغرافیائی حالات اور مقامی بولیوں کے اثرات کے تحت خاصا اختلاف تھا۔ شمالی ہند میں برج بھاشا، کھڑی بولی اور پنجابی بولیوں کااثر اور دکن میں دکنی، گجری اور اس علاقے کی دوسری بولیوں کے اثرات نمایاں تھے۔ پھر بھی ٹک، نت، نین، کوں، منیں، سوں، درس، سجن اور اس طرح کے بہت سے الفاظ دونوں جگہ مشترک تھے۔ لیکن عالمگیر کے بیجاپور اور گولکنڈہ کی سلطنتوں کے فتح کر لینے اور مغلیہ حکومت میں شامل کر لینے کے بعد اس صورت حال میں کچھ تبدیلی آئی اور فوجوں، صوفیوں اور دوسرے لوگوں کی آمدورفت کی وجہ سے دونوں جگہ کی زبانیں ایک دوسرے سے قریب آئیں اور الفاظ کے لین دین سے ان کی ایک نئی شکل بنی۔ جس نے بعد میں معیاری اردو کو بنانے میں مدد دی۔

    اس جگہ پر ولی کے سفر دہلی اور شاہ سعداللہ گلشن کی ملاقات کی روایت کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ واقعہ بار بار دہرایا گیا ہے اور دکنی میں فارسی الفاظ وخیال کی آمیزش پر زور دیا گیا ہے۔ اس لیے اس کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ یہ بات سب ہی مانتے ہیں کہ شمالی ہند میں اس وقت تک اردو بول چال کی زبان تھی اور اسے ادبی اظہار کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ نہ ہی یہ شرفا کا محاورہ بن سکی تھی۔ ولی کے سفر دہلی اور شمالی ہند میں ان کے کلام کی مقبولیت کے بعدیہاں پر بھی اردو میں شعروشاعری کا چرچا ہوا۔

    ولی لسانیات سے واقف رہے ہوں یا نہیں لیکن الفاظ کے صوتی وغنائی اثر اور کیفیت سے ضرور واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ہندوستانی بولیوں، دکنی وگجری الفاظ اور فارسی الفا ظ ومحاورات کو اس طرح ملایا ہے کہ ایک خوبصورت اور دلکش ادبی زبان بن گئی ہے۔ ولی نے جس طرح کی زبان اپنے کلام میں استعمال کی ہے وہ ٹھیٹھ دکنی یا گجری نہیں ہے، جس طرح کی زبان عام طور پر نصرتی، غواصی، بحری اور شاہی وغیرہ کے یہاں ملتی ہے۔ ولی کی زبان میں بڑی صفائی، شستگی اور چستی ہے۔ وہ فارسی اور عربی کے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور ان سے ایسی ترکیبیں وضع کرتے ہیں جن سے زبان کاحسن دوبالا ہو جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ہندی، دکنی اور گجری الفاظ اور ترکیبوں کی آمیزش اور ان کی زبان کی وسعت خود ان کی ترقی پسندی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان کے کلام میں فارسی الفاظ اور ترکیبیں ان کی ذہانت اور زبان پر قدرت کا احساس دلاتی ہیں۔ چند الفاظ اور ترکیبیں مثال کے طور پر درج ذیل ہیں۔

    عقیق جگری، چنددرچند، دشمن ہوش، بقال پرفن، شعلہ آواز، گوشہ آرام، فرہاد من، پنجہ خورشید، خانہ بردوش، لب میگوں، ستم پرور، تنک طبع، سراپاناز، آئینہ معنی نما، گوہر کا ن حیا، لیل زمستاں، گل باغ وفا، موج بیتابی دل، لب لعل، مجلس رنداں، نوبہار باغ محبت، غرق بحر حسن، جبین باصباحت، سرنوشت عاشق، حجت وصل، سرورگل جبیں، چشم سرمگیں، زلف عنبریں، صاحب حیا، بلال آسا وغیرہ۔ یہ ترکیبیں ان کی چند غزلوں سے لی گئی ہیں۔ اگر ان کے کلیات سے تمام ایسے الفاظ اور فقرے جمع کیے جائیں تو ان کی فہرست کئی صفحوں پر محیط ہوگی۔

    اسی طرح وہ الفاظ بھی زبان میں بہت اہم ہیں جو انہوں نے ہندی یا دوسری زبانوں سے لیے ہیں یا جہاں ہندی، فارسی، عربی، دکنی اور گجری الفاظ سے ملی جلی ترکیبیں بنائی ہیں۔ ان میں بعض جگہ بعد کے قاعدوں کے مطابق عطف واضافت کا استعمال صحیح نہیں ہے لیکن ان کے ان اجتہادات نے زبان کو بڑی وسعت دی ہے اور ہر طرح کے الفاظ قبول کرنے کا راستہ کھولا ہے۔ اس طرح کے الفاظ اور ترکیبوں کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ خنجر مژگاں کی باڑ، شمع نمن، اشارات انکھیاں، غمزہ آہوپچھاڑ، اندھکار پھیٹا، لٹ پٹی دستار، طعام باسی، سناسی، نرگس نمن، زلف کی موجاں، یک بچن، مان بھری چنچل، رات اندھاری، بچن ہاری، شیریں بچن، خو ش بچن، نت اچھو، ساغرنین، خوش تر زیں نمط، رام رامی، انیندی نین ساقی، یک پگ، سمرن، درپن، انجھو، نس دن، تمنا، بیگی، جوڑا گجگری، آدھار دھرم دھاری، وعدہ کل، جامہ کی بھڑک وغیرہ۔

    ولی کے یہاں بعض جدید محاورے مثلا ًایک بات کی سوبات، یا جان سے اٹھ جانا وغیرہ بھی ملتے ہیں۔ اختر جوناگڈھی کے حوالے سے علی گڑھ تاریخ ادب اردو میں گجراتی الفاظ اور محاوروں کی ایک فہرست دی ہے جو ولی کے کلام میں استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً اَدھر، اَڑکا، چترنا وغیرہ۔ ولی کے یہاں ایسے بہت سے الفاظ ہیں جو شمالی ہند کے بعض شعرا خصوصا ًحاتم، آبرو، شاکر ناجی اور بعض بعد کے شعراء مثلا میر، سودا اور درد کے یہاں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ خصوصیت سے پون، پی، سجن، موہن، تجھ، بوجھنا، ٹک، نین، ستی، نپٹ وغیرہ ان میں ایسے الفاظ بھی ہیں جن میں حرف علت گھٹ کر ایک حرکت رہ جاتا ہے۔ یا حرکت کھنچ کرحرف علت بن جاتاہے۔ جیسے لوہو (لہو) اُپر (اوپر) جیدھر (جدھر) وغیرہ۔

    ولی کے یہاں جمع بنانے کا عام قاعدہ الف اور نون کے الحاق کا ہے جو ان کی زبان پر دکنی کے اثر کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلا ً زلفاں، لباں، انکھاں، سروقداں، ابروواں، عاجزاں، گلاں، باتاں، بلبلاں، عارفاں، لوگاں، کتاباں، دھاراں، ہاراں، انجھوا وغیرہ لیکن یہ طریقہ پنجاب میں بھی رائج ہے جہاں باتاں، ہاتاں، پاواں وغیرہ الف اور نون کے الحاق سے جمع بناتے ہیں۔

    ولی نے بعض الفاظ کو کہیں مذکر اور کہیں مؤنث باندھا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو زمان ومکان کا فرق ہے۔ اس لیے کہ بعض جگہ لفظ کو مذکر اور دوسری جگہ اسی کو مؤنث بولا جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب کسی دوسری زبان کے الفاظ لیے جاتے ہیں توعرصے تک ان کی تذکیر و تانیث کے بارے میں طے نہیں ہو پاتا کہ انہیں کس طرح سے استعمال کیا جائےگا۔

    زمانہ قدیم میں نون غنہ کا استعمال بھی بہت تھا۔ ا کثر فارسی الفاظ کے ساتھ بھی نون غنہ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ مثلا کونچہ (کوچہ) پینچ (پیچ) پائنچہ (پائچہ) وغیرہ اور تو کوتوں، کو کی جگہ کوں، سے کی گئی سیں اور سدا کو سداں عام طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ولی کی زبان کے سلسلے میں ڈاکٹر ظہیرالدین مدنی نے لکھا ہے کہ:’’ولی کی زبان متقدمین جیسے نصرتی، شاہی، غواصی، وجہی، محمود، بحری وغیرہ کے مقابلے میں بہت صاف ہے۔ اگر اس کی زبان سے ایسے الفاظ جو دکن اور شمالی ہند میں مشترک تھے، قطع نظر کر لیا جائے، مثلاً سوں، سیں، منیں، منے، توں، کوں، ہمن، تمن، سجن، سریجن، دوانہ، بچارہ اور جمع کے طریقے الف نون کے الحاق سے مثلا انکھیاں، خوباں، انجواں اور بعض خاص دکنی الفاظ کی طرف توجہ نہ کی جائے جیسے انیڑنا، گھٹ کرنا، نکو، کتے، بہانا، انگے، آگے، کینک، توڑنا، جوڑیا، اچھو، یو، لگ (تک) جن کی مثالیں ولی کے کلام میں بہت کم ہیں تواس کی اردو کو ٹکسالی اور کھڑی اردو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔‘‘ 3

    اسی طرح ولی کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں دہلی اور دکن دونوں جگہوں کی زبان کی خصوصیات موجود ہیں اور انہیں فارسی اور عربی الفاظ اور ترکیبوں کو مقامی بولیوں کے الفاظ کے ساتھ اس طرح ملاکر استعمال کیا ہے کہ نہ صرف زبان کا حسن دوبالا ہو گیا ہے بلکہ وہ اس طرح شیروشکر ہو گئے ہیں کہ یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ دونوں میں کسی قسم کی اجنبیت بھی ہے۔ ولی کے کلام سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ عربی و فارسی زبان پر ان کی بڑی اچھی نظر تھی اور وہ زبان کے نشیب وفراز اور الفاظ کے دروبست کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھے۔ الفاظ کی ذرا سی ترتیب بدل جانے کا معنوی، صوتی اور غنائی اعتبار سے کیا اثر اور ردعمل ہوتا ہے، اس سے وہ بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان اپنی عمر کے لحاظ سے خا م اور ناپختہ ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر بلا کی پختگی اور وسعت بیان رکھتی ہے۔


    حاشیہ
    (۱) آب حیات محمد حسین آزاد، صفحہ ۱۰۸
    (۲) مجلہ عثمانیہ دکنی ادب نمبر ڈاکٹر مسعود حسین خاں صفحہ ۱۳
    (۳) علی گڑھ تاریخ ادب اردو، صفحہ ۴۵۱

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے