Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وہ آئیں گھر میں ہمارے

طارق مرزا

وہ آئیں گھر میں ہمارے

طارق مرزا

MORE BYطارق مرزا

    آسٹریلیا میں کوئی تقریب منعقد کرنی ہو تو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں مدعوئین کا انتخاب اور مہمانوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا سب سے مشکل کام ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر تقریب کا اپنا مزاج ہوتاہے۔ ہر شخص ہر تقریب کے لیے موزوں نہیں ہوتا یا ہر تقریب ہر شخص کے لیے ایک جیسی دلچسپی کی حامل نہیں ہوتی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہر تقریب کی اپنی گنجائش ہوتی ہے۔ اسی حساب سے نشستوں اور اشیائے خوردو نوش کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ تقریب میں اگر گنجائش سے زیادہ لوگ آجائیں تو اضافی نشستوں اور اضافی کھانے کا ہنگامی بندوبست کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر مقررہ تعداد سے کم لوگ آئیں تو بھی میزبان کو بہرحال پوری ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ یہ دونوں صورتیں میزبان کے لئے آئیڈیل نہیں ہوتیں اور ان سے تقریب کا مزہ کرکرا ہو کر ر ہ جاتا ہے۔

    اگر مہمان مقامی آسٹریلین ہوں تو یہ مشکل پیش نہیں آتی۔ کیونکہ وہ آنے یا نہ آنے کے بارے میں بروقت مطلع کر دیتے ہیں۔ اگر آنے کا وعدہ کریں تو وقت پر آبھی جاتے ہیں۔دوسری جانب اگر مہمان پاکستانی یا ہندوستانی ہوں تووہ آخری دن تک دعوت کا جواب دینا گوارا نہیں کریں گے۔ اس کا یہ مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ آئیں گے نہیں۔ ان میں سے بہت سے احباب آخری لمحات میں سرپرائز انٹری دیں گے یا عین دورانِ تقریب فون کرکے معذرت کرلیں گے۔ جب آپ مہمانوں کے استقبال میں مصروف ہوں گے اسی وقت دھڑا دھڑا فون آ نا شرو ع ہو جائیں گے۔ اس وقت یہ احباب فون پرمنجھلے بیٹے کے فٹ بال ٹورنا منٹ کی کہانی سنانا شروع کر دیں گے۔

    اس طرح میزبان کو آخری دن تک مہمانوں کی درست تعداد کا اندازہ نہیں ہوتا اور سارا انتظام اندازے پرمبنی ہوتا ہے۔جن احباب کو بمع فیملی یا بمع شریکِ حیات مدعو کیا گیا ہوتا ہے ان کے بروقت جواب نہ دینے سے مشکل مزید بڑھتی ہے کیونکہ آخری دن وہ اکیلے بھی آسکتے ہیں اور اہلیہ اور چار بچوں کو بھی لا سکتے ہیں۔

    سارے پاکستانی یا سارے بھارتی ایسے نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ نہایت منظم اور وقت کے پابند بھی ہو تے ہیں۔ہماری کیمونٹی کی تقریبات میں ان کی سزایہ ہوتی ہے کہ وہ وقت پر آکر گھنٹوں انتظار اور بوریت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ تاخیر سے آنے والوں کی وجہ سے تقریبات ہمیشہ تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں۔یہ تاخیر منٹوں کے حساب سے نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے اور با جماعت ہوتی ہے۔مثلاََ تقریب کا وقت چھ بجے کا ہے تو احباب آٹھ بجے تشریف لائیں گے اور اپنے جاننے والوں کو بھی فون کر کے یہی کہیں گے آٹھ بجے ہی آئیں۔ اسے با جماعت تاخیر کہتے ہیں۔

    یہ وقت میزبان کے لئے بہت کڑا ہوتا ہے۔وہ وقت پر آ جانے والے مہمانوں کے سامنے شرمندہ شرمندہ ساپھر رہا ہوتا ہے۔بار بار گھڑی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اگر پابندیِ وقت کے حامل مہمان آسٹریلین ہوں تومشکل اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ یہ لوگ تقریب کا آغاز ناؤ نوش سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ جبکہ ہماری پارٹیوں میں انہیں یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ ان کے ہاتھ میں کوک یا جوس کا گلاس ہوتا ہے،میزبان کی طرف سوالیہ نظریں ہوتی ہیں اورپیٹ پر ہاتھ ہاتھ پھیر پھیر کر چمکی ہوئی بھوک کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ایسے میں میزبان کی آنکھوں میں بے بسی تحریر ہوتی ہے۔ ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ ہوتا ہے اور دل میں یہ عہد ہوتا ہے کہ آئندہ یا تو آسٹریلین مہمانوں کو بلاؤں گا یا دیسی مہمانوں کو۔ دونوں کو اکٹھا نہیں کروں گا۔

    آج کل زیادہ تر دعوتیں موبائل فون پر پیغام کی صورت میں دی جاتی ہیں۔ جن کا جواب نہایت آسان ہے۔ صرف یہ ہے کہ موبائل فون خود جواب نہیں دیتا جب تک کہ فون کا مالک یہ تردّد نہ کرے۔اور مالک ماشااللہ خود مختار اور آزاد قوم کا آزاد فرد ہوتا ہے۔ و ہ جو اب دینے کی پابندی کیسے قبول کیسے کر سکتا ہے۔دوسری جانب جن احباب نے جوابی پیغام کے ذریعے دعوت قبول کرنے اور بروقت آنے کی اطلاع دی ہوتی ہے ان کو بھی آخری لمحات میں سرکاری ملازمین والا نہایت ضروری کام” پڑ سکتا ہے۔کنفرم کرنے کے بعد نہ آنے والے یہ حضرات یا تو بتانا ضروری نہیں سمجھتے یا پھر اس وقت بتاتے ہیں جب تقریب شروع ہو چکی ہوتی ہے۔

    جن خواتین و حضرات نے پارٹی میں شرکت نہیں کرنی ہوتی وہ جواب نہ دینا کافی سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ اس وجہ سے جواب نہیں دیتے کہ جا تو رہا ہوں، بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ایسے میں میزبان کو اندازہ لگانا پڑتا ہے کہ کنفرم کر کے نہ آنے والے کتنے ہوں گے اور جو جواب دیے بغیر آسکتے ہیں، وہ اندازاََکتنے ہوں گے۔جن دوستوں کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کی فطرت کو سمجھتے ہیں ان کے بارے میں تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بقیہ کا آخرتک پتا نہیں چلتا۔ان کے بارے میں اللہ جانتا ہے یا وہ خود جانتے ہیں۔

    ایک دوست نے ایک ریستوران میں ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا جس میں مہمانوں کے لیے عشائیے کا بھی بندوبست کیا۔انہوں نے احباب کو شریکِ حیات سمیت دعوت دیتے ہوئے واضح لکھا کہ فلاں تاریخ تک آنے یا نہ آنے کی اطلاع دے دیں اوریہ بھی بتا دیں کہ کتنے افراد شرکت کریں گے۔ مقصد یہ جاننامقصود تھا کہ اکیلے آرہے ہیں یا گھر والی کے ساتھ قدمِ رنجہ فرما رہے ہیں۔تاکہ اسی مناسبت سے خور دو نشست کا بندوبست کیاجائے۔

    انہوں نے اسّی(80) افراد کی بکنگ کرائی اور تقریباََ سو لوگوں کو دعوت دی تاکہ جو لوگ نہیں آسکتے ان کا کورم پورا رہے۔ان کے دعوت نامے کا جواب بروقت صرف تیس لوگوں نے دیا۔ لہذا انہوں نے احتیاطً پچاس ساٹھ مزید افراد مدعو کر لیے کہ تقریب والے دن کرسیاں خالی نہ نظر آئیں۔اس سے پہلے کہ یہ لکھا جائے کہ کل کتنے افراد نے شرکت کی، دعوت نامے کہ کچھ جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

    ایک قابلِ احترام بزرگ نے یوں جواب لکھا ‘‘ اسلام و علیکم و رحمتہ اللہ و براکاتہٗ!آپ کی دعوت کی بے حد شکریہ۔اس تقریب میں شرکت میرے لیے باعث صد افتخار ہو گی اور میں انشااللہ بر وقت حاضر ہو جاؤں گا“

    ایسے مشرف بہ اسلام پیغام پر کون کافر یقین نہیں کرے گا۔ میزبان نے اس بزرگ کے مناسب استقبال کی تیاری کرلی۔لیکن ہوا یہ کہ بہ روزِ تقریب نہ تو وہ بزرگ آئے اور نہ ہی ان کا کوئی پیام آیا۔

    ایک اور مذہبی اور سماجی شخصیت نے لکھا ‘‘ تقریب کی مبارک با د! ویسے تو ادبی تقریبات گمراہ لوگوں کا اجتماع ہوتی ہیں۔ چونکہ ناچیز خود بھی اس گمراہی میں مبتلا ہے اس لیے اس تقریب میں شرکت میرے لیے باعثِ مسرت ہو گی اور میں ضرور حاضر ہوں گا“

    ایسے ادب دوست پیغام پر یقین نہ کرنا مشکل تھا ۔ لیکن اس یقین کو اس وقت دھچکا لگا جب یہ بزرگ بھی عین وقت پرگمراہی سے تائب ہو گئے اور کنفرم کرنے کے بعد نہیں آئے۔ میزبان کی زبان پر اس وقت یہی مصرعہ آیاکہ، غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا۔

    میزبان نے ایک قریبی دوست کو فون کیا اور دریافت کیا ‘‘ میں نے آپ کو دعوت نامہ بھیجا تھا۔ آپ نے ابھی تک اس کا جواب نہیں دیا“

    دوست نے کہا ‘‘جب آ رہا ہوں تو جواب دینے کیا ضرورت تھی“

    اس سادگی پہ کون مر نہ جائے۔ اس جواب سے ظاہر تھا کہ انہوں نے پورا پیغام پڑھا ہی نہیں۔ اور اگر پڑھا ہے تو ان کی خاموشی کو نیم نہیں پوری رضامندی تصور کیا جائے۔ کم عقل میزبان یہ بات سمجھا ہی نہیں۔کیونکہ یہ سارا معاملہ ہی قیافہ شناسی اور اندازے کی درستگی کا تھا۔اس میزبان کا قیافہ بھی جنرل مشرف کی طرح کا تھا جوپاکستان آیا تو نمازیں بخشوانے تھا الٹا روزے گلے پڑ گئے۔مسئلہ یہ بھی تھا کہ دوسرے احباب کی خاموشی کا بھی یہی مقصد ضروری نہیں تھا۔ ان کی خاموشی کا مقصد اس کے برعکس بھی ہو سکتا تھا۔

    ایک اور دوست نے یوں جواب دیا ‘‘ invitation accepted’’ یعنی‘‘ دعوت قبول ہے“

    اس مختصر ترین جواب سے کچھ بھی اخذ کیجئے۔مثلاََ لکھنے والا بہت جلدی میں ہے یا حالتِ غضب میں ہے یا آپ کی دعوت سے خوش نہیں ہے یا پھر الفاظ کے ضیاع کو گناہ سمجھتا ہے۔ان دو الفاظ سے یہ بھی سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ وہ اکیلے آئیں گے یا ان کے ہمراہ کوئی اور بھی ہو گا۔بیٹھیے،سوچیے،اندازہ لگائیے اور استقبال کی تیاری کیجیے۔

    دعوت کے جواب میں ایک نازک مزاج دوست نے لکھا ‘‘ آپ کے پیغام میں وضاحت نہیں ہے۔بہرحال ہمارے خاندان میں، میری بیوی،پانچ بچے، دو بہوئیں، دو داماد اور میرے چار پوتے اور نواسے شامل ہیں۔ اگرچہ ہم اکھٹے نہیں رہتے لیکن جب فیملی کی دعوت ہوتی ہے تو ہر جگہ اکٹھے ہی جاتے ہیں۔کیا آپ ہماری میزبانی کے لیے تیا ر ہیں؟“

    میزبان دوست کی نازک مزاجی سے خائف تھا۔ اس نے جواب دیا ‘‘ آپ پوری فیملی سمیت تشریف لائیں“

    یہ دوست اکیلے نہیں تھے جو چھوٹے بچوں کو ساتھ لائے۔اور بھی بہت سے دوست یہ رونق اپنے ہمراہ لے کر آئے۔احباب کی ذرہ نوازی، دوست نوازی اور اچانک جاگ اٹھنے والی ادب نوازی سے دعوت کے روز جہاں اسّی افراد کی توقع تھی وہاں ڈیڑھ سو مہمان آگئے۔ہال کم پڑ گیا۔ کھینچ تان کر نشستوں کا بندوبست کیا گیا۔ وہ تو بھلا ہو ریستوران والوں کا جنھوں نے کھانا کم پڑنے نہیں دیا۔ورنہ یہ تقریب غزل اور نظم کے بجائے بدنظم ہو جاتی۔جوں جوں مہمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی توں توں میزبان کے ذہن میں آ رہا تھا:

    وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

    ہم کبھی ان کو کبھی اپنے بجٹ کو دیکھتے ہیں

    شاعر اور ادیب جو سنجیدہ اور بالغ حاضرین کی توقع کر رہے تھے، ماؤں اور بچوں کے شور سے ہراساں نظر آ رہے تھے ۔ وہ سوالیہ نظروں سے میزبان کو دیکھتے جس سے ان کا دیکھنا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ اس وقت تو غضب ہی ہو گیا۔جب ایک شاعر کلام سنا رہاتھا۔جونہی اس نے مطلع سنایا بچوں والی میز سے ایک خاتون کی آواز آئی۔ چپ کر بے شرم!شاعر ہراساں ہو کر خاموش ہو گیا۔اس بات کا آج تک علم نہیں ہوا کہ اس خاتون نے یہ الفاظ اپنے بچے کو کہے تھے یا پھر۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے