یاد جگر
جگرؔ کے اٹھ جانے سے اردو شاعری کی دنیا اور ہزار ہا دلوں کی دنیا سونی ہوگئی۔ گزشتہ نصف صدی سے جگرؔ کی غزلوں کی لے ہندوستان وپاکستان کی فضا میں گونجتی رہی ہے اوراس طرح گونجتی رہی ہے کہ گویا اس لے میں ہزارہا لوگ اپنے دلوں کی دکھڑکنیں سن رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو زندگی بھر میں اتنا تنہا نہیں محسوس کیا جتنا جگر کے بعد سے محسوس کر رہا ہوں۔ تنہا ہی نہیں بلکہ اب اپنے آپ کو میں ایک بے سہارا آدمی محسوس کرتا ہوں۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ جگرؔ کی عظمت کا بہ حیثیت شاعر کے اعتراف کروں یا ایک شریف ترین انسان کی حیثیت سے ان کی عظمت کا اعتراف کروں۔ جگرؔ کی پیشانی، ان کی بھویں، ان کی آنکھیں، ان کے خدوخال، ان کا لب و لہجہ سب یاد آتے ہیں اور میں اپنے آنسو پی کر رہ جاتا ہوں۔ ان کی رحلت کے بعد یہ شعر یا د آتا ہے،
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
شاعری تو ہوتی رہے گی لیکن اردو شاعری کو اب جگرؔ مرادآبادی اور کہاں مل سکے گا۔ جگر نے اواخر عمر میں شراب ترک کردی تھی لیکن جگر کی ہستی کتنی معصوم تھی اور اس کا اندازہ وہی حسّاس افراد کر سکیں گے جنہوں نے انہیں شراب میں دھت دیکھا ہے۔ شراب پی کر جگر نے کبھی کوئی گری ہوئی بات نہیں کہی، نشہ میں بھی وہ صرف اپنی شرافت کا ثبوت دیتے تھے۔ وہ اپنی زندگی میں ایک روایت بن چکے تھے۔ جگر کے چہرے میں ہر شخص اپنے دل کی تصویر دیکھتا تھا۔ اردو شاعری کو یہ بے اختیارانہ اور والہانہ آواز صدیوں بعد نصیب ہوئی تھی اور اب صدیوں بعد تک کون جانے نصیب ہوگی یا نہیں۔
وہ مجسم خلوص و محبت تھے۔ ایک بار جگرؔ نے مجھ سے پوچھا تھا، ’’فراق! تم حیات بعد ممات کے قائل ہو یا نہیں ہو؟‘‘ میں نے کہا، ’’جگرؔ صاحب! میں کس چیز کا قائل ہوں یا کس چیز کا قائل نہیں، اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔ میں صرف شرافت کا قائل ہوں۔’‘ میرے اس جواب سے جگرؔ کا دل بھر آیا تھا۔ اور یہ جواب بھی میں نے جگرؔ ہی کی شخصیت سے قائل ہوکر دیا تھا۔
جگرؔ اپنے لئے کبھی پریشان نہیں نظر آئے۔ کبھی کبھی وہ پریشان نظر آتے تو دوسروں کے لئے۔ جگرؔ عالم نہیں تھے مگر حقیقت شناس تھے۔ اس حقیقت شناسی پر تمام کتابی اور دماغی علم سو بار قربان۔ اس جہل کو پیغمبری کا درجہ حاصل ہے اوراسی جہل کے متعلق جگرؔ کے معنوی استاد حضرت اصغرؔ نے کہا تھا،
مقام جہل کو پایا نہ علم و عرفاں نے
میں بے خبر ہوں بہ اندازۂ فریب شہود
ہندوستان کی چھ سات ہزاربرس پرانی تہذیب جگرؔ کے پیکر میں مجسم ہوگئی تھی۔ ہندی اور اردو کا جھگڑا ہماری قومی زندگی کا ایک المیہ ہے لیکن جگرؔ کا سوگ ہندی کے کٹرسے کٹر پرستاروں نے بھی منایا۔ جب تک جگر زندہ تھے ہم سب زندہ تھے۔ کم از کم میں اپنے لئے جگرؔ کے بعد زندہ رہنے میں ایسا محسوس کر رہا ہوں،
گویا کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں
بھائی! اور کچھ کہا یا لکھا نہیں جاتا۔ میری زندگی کا سب سے بڑا غم جگرؔ کی موت ہے اور سب سے بڑا سکون جگرؔ کی یاد ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.