یونانیوں کے جمالیاتی افکار
(افلاطون تک)
(میں جناب محمد اسلم قریشی۔ پروفیسر گورنمنٹ کالج کوئٹہ کا انتہائی ممنون اور شکرگزار ہوں کہ انہوں نے افلاطون کے صحیح جمالیاتی اور تنقیدی نظریات تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ افلاطون کے نظریۂ فن کے متعلق جو عام غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے میں بھی اس میں گرفتار تھا۔ لیکن اسلم صاحب کی محبت اور محنت کی بدولت میں افلاطون کے ان خیالات تک پہنچ سکا جو اس مضمون میں پیش کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں میں نے اس مضمون کی تیاری کے سلسلے میں اسلم صاحب کے ایک غیرمطبوعہ مقالہ ’’افلاطون کا نظریۂ شاعری‘‘ سے بھی استفادہ کیا ہے اور افلاطون کے جو اقتباسات اس مضمون میں پیش کیے گئے ہیں۔ انہیں اردو کا جامہ بھی کم و بیش اسلم صاحب نے ہی پہنایا ہے۔ اس مضمون میں افلاطون کے نظریے کے بارے میں اگر کوئی چیز قابل ستائش ہے تو وہ اسلم صاحب کے لطف و کرم اور محنت کا نتیجہ ہے۔ خامیوں اور کوتاہیوں کاذمہ دار میں ہوں اور صرف میں ہوں۔)
یونانیوں میں افلاطون وہ پہلا مفکر ہے جس نے فن اور حسن پر باقاعدہ علمی طور پر بحث کی۔ اگرچہ اس نے اس موضوع پر کوئی الگ تصنیف پیش نہیں کی۔ لیکن اس کے مختلف مکالمات میں جمالیات کے ان دونوں موضوعات اور اصولی تنقید پر مفصل بحث موجود ہے اور اس طرح ہم اسے جمالیات اور تنقید کا موسس قرا ر دے سکتے ہیں۔ افلاطون سے پہلے ان موضوعات پر اشارۃً تو کافی مواد مل جاتا ہے لیکن مفصل طور پر نظریاتی بحث کہیں نہیں ملتی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سقراط سے پہلے مفکرین کی زیادہ تر توجہ طبیعاتی اور کچھ حدتک مابعد الطبیعاتی مسائل کی طرف تھی۔ سقراط وہ پہلا عظیم مفکر ہے جس نے فلسفہ کا رخ عمرانی اور نفسیاتی مسائل کی طرف کیا۔ بہرحال اس سے پہلے ان موضوعات پر زینوفینس، انکساگورس اور جورجیس کے یہاں کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں۔ افلاطون، جمہوریت میں جب فلسفہ اردو شاعری کی قدیم عداوت کا ذکر کرتا ہے تو غالباً اس کے ذہن میں زینوفینس اور انکساگورس کے شاعری کے متعلق وہ متصاد نطریات ہوں گے جو انہوں نے پیش کیے ہیں۔ زینوفینس اخلاقی نقطہ نگاہ سے شاعری پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ہومر اور ہیسوڈ‘‘ نے دیوتاؤں سے وہ تمام باتیں منسوب کردی ہیں جو انسانوں میں موجبِ شرم اور باعث عار ہیں۔ افلاطون نے بھی زینوفینس کی طرح ہومر اور دوسرے یونانی شعراء پر یہی الزام عائد کیا ہے۔ انکساگورس اور تھی گی نیز کے خیال میں اس کے برعکس شاعری، اخلاقی اور علمی صداقتوں کو مجازاً اور تمثیلاً پیش کرتی ہے۔ جورجیس کے خیال میں المیہ وہ شاعری ہے جس کا مقصد ان سامعین اور ناظرین کو جو فنی تٌخلیق کے جادو سے متاثر ہونے کے لیے تیار ہوں۔ خط پہنچانا اور ترغیب دینا ہے اور ان کے دل میں شاعر کے پیش کردہ کرداروں کی قسمت پر جذبہ ترحم و تحیر پیدا کرنا ہے۔ کیا تعجب ہے کہ جورجیس کے یہ خیالات بعد میں ارسطو کے نظریہ المیہ پر اثراانداز ہوئے ہوں اور ارسطو نے جورجیس سے استفادہ کیا ہو۔
مفکرین کے علاوہ شاعروں اور تمثیل نگاروں کے یہاں بھی ہمیں نظریۂ فن اور حسن پر کچھ اشارے مل جاتے ہیں۔ مثلاً ہومر اور ہیوڈ کے یہاں ہمیں اپنی ابتدائی شکل میں یہ نظریہ ملتا ہے کہ شاعری اور فنونِ لطیفہ کا انحصار الہام اور وجدان پر ہے جو وہبی اور قدرتی عطیہ ہے نہ کہ اکتسابی۔ ہومر اپنی دونوں مشہور نظموں ’’ایلیڈ‘‘ اور ’اوڈیسی‘ کے شروع میں شاعری کی دیوی سے ملتجی ہے کہ اسے روحانی فیضان اور وجدان عطا فرماتا کہ وہ اشیاء کی حقیقتوں کو بیان کرسکے۔ اسی طرح ہیسوٹر بھی دیوتاؤں کے ’نسب نامہ‘ کے دیباچہ میں اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ کس طرح شاعری کی دیوی نے آسمانی نغمہ کی روح اس میں پھونکی۔ افلاطون نے اس نظریہ کو ترقی دی۔ زمانہ مابعد اور خاص طور پر رومانیت پسندوں میں تو یہ نظریہ بہت زیادہ مقبول ہوا۔ اور ابھی تک کبھی کبھی اور کہیں کہیں سے اس نظریے کی موافقت پر آواز بلند ہو ہی جاتی ہے۔ ہومر فن میں التباسِ حقیقت کا قائل ہے۔ ’ایلیڈ‘ میں وہ ایک ڈھال پر فیس لٹس کے بنائے ہوئے سنہری نقش کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے ’’ہل کے پیچھے زمین کا رنگ کچھ ایسا سیاہی مائل تھا جیسا کہ ہل چلی ہوئی زمین کا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ سب سونے کا کام تھا۔ یہ فن کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا‘‘ کام سونے کا تھا۔ لیکن فنکار نے حقیقت کواس طرح پیش کیا تھا کہ اس پر کسی اور شے کا التباس ہوتا تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہومر اس التباس کو فن میں نہ صرف جائز سمجھتا ہے بلکہ ایک لازمی جز قرار دیتا ہے۔ شاعری اور موسیقی کے متعلق ہومر کے خیالات اس کی دوسری نظم ’اودیسی‘ میں ملتے ہیں۔ ہومر کہتا ہے ’’اس مقدس مطرب ڈیموڈرکس کو بلاؤ۔ خدا نے اسے جیسی گانے کی صلاحیت دی ہے کسی اور کو نہیں دی۔ کیونکہ جس انداز سے وہ چاہے اسی انداز سے گاکر سامعین کو خوش کرسکتا ہے۔
عزیز احمد بوطیقا کے ترجمے ’فنِ شاعری‘ کی تمہید میں رقمطراز ہیں کہ ہومر کے اس جملے میں میں ہمیں یہ تنقیدی اشارے ملتے ہیں۔ شاعر نے مطرب کو مقدس قرار دیا ہے اور گانے کو ایک خداداد نعمت قرار دیا ہے۔ اور (گیت) گانے کا مقصد یہ قرار دیا ہے کہ اس سے انسانوں کو خوشی (لطف) حاصل ہو۔ ہومر شاعری کے لیے صداقت کوبھی ضروری سمجھتا ہے۔ ’’اگر تو مجھے یہ (کہانی) سچ سچ سنائے گا تو میں تمام لوگوں میں شہادت دوں گا کہ خدا نے تجھے گیت گانے کا بے مثل ہنر عطا کیا ہے۔‘‘ پن ڈر بھی صلاحیت خداداد کا قائل ہے اور ان لوگوں کو جنہیں قدرت کی طرف سے علم عطا ہوا ہے ان سے بہتر سمجھتا ہے جو اپنی کوشش سے علم حاصل کرتے ہیں۔ تکنیک کے متعلق وہ اپنے خیالات کوان الفاظ میں پیش کرتا ہے۔ ’’وہ راہیں تراشناجن کے ذریعے جلد از جلد حل ہوجائے‘‘ ’’زیادہ سے زیادہ مطالب کو کم سے کم الفاظ میں ادا کرنا۔‘‘ شاعری کے مقصد کے متعلق بھی ان شعراء نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے۔ ہومر اس کا مقصد حظ آفرینی سمجھتا ہے لیکن اس کے برخلاف ہیسوڈ دیوتاؤں کے پیغام کی تبلیغ اور ترسیل۔
یونانی ڈرامہ نگاروں کے یہاں بھی ہمیں کچھ تنقیدی اشارے ملتے ہیں۔ اور سٹوفینس نے اپنے ڈرامے ’’مینڈک‘‘ میں مکالمے کی صورت میں پوری پے ڈیز اور اسکائی لس کے متضاد نظریات پیش کیے ہیں۔ پوری پے ڈیز حقیقت۔ عام انسانوں کی زبان اور غور وفکر کو ڈرامہ کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ اس کا نقطہ نظر بالکل افادی ہے۔ اس ڈرامے میں ارسٹو فینسن نے اس سے یہ مکالمات ادا کرائے ہیں، میں اسٹیج پر وہ چیزیں پیش کرتا ہوں جو میں نے روزمرہ کی زندگی سے چنی ہیں۔ ’’میں نے فن کے ساتھ بحث مباحثے اور سوجھ بوجھ کو شامل کیا ہے اور میں نے لوگوں کو اکسایا ہے کہ وہ سوچیں اور اچھی طرح غور کریں اور پھر اپنے گھروں کا کاروبار اچھی طرح چلائیں۔‘‘ زبان کے متعلق وہ کہتا ہے ’’ہمیں کم سے کم (عام) انسانوں کی زبان تو بولنے دو‘‘ یہ وہ نظریہ ہے جسے بعد میں ورڈسورتھ اور ٹالسٹائے نے پوری طرح پیش کیا۔ انہوں نے فن میں آسان زبان اور عوام کے جذبات اور خیالات کی ترجمانی پر زور دیا۔ ارسطو کم از کم روزمرہ کی آسان زبان کے متعلق پوری پے ڈیز سے متفق نہیں۔ بلکہ اس ضمن میں وہ کچھ حد تک اسکائی لس کا ہمنوا ہے جس کے لحاظ سے شاعری اور ڈرامے کی زبان عام بول چال سے مختلف ہونی چاہیے۔ یہ دونوں تمثیل نگار اس مسئلہ پر بھی مختلف نظریات پیش کرتے ہیں کہ ’’ایک شاعر کس خاص بناپر مدح و ثنا کا مستحق ہے۔ یوری پے ڈیز کے خیال میں ’’اکراس کا فن حقیقت پر بنی ہو اور اس کی رائے مصائب ہو۔ لیکن اسکائی لس اسے اپنی ذاتی پسند کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے ’’جسے میرا دل پسند کرے میں تو اس کی تعریف کروں گا۔‘‘ ارسطوفینس کے ڈراموں میں اس کے اپنے خیالات بھی ہمیں ملتے ہیں۔ وہ فن اور شاعری کا مقصد تعلیم و تربیت قرار دیتا ہے۔ ’’اساتذہ کو بچوں سے جو نسبت ہے وہی نسبت شعرا ءکو نوجوانوں سے ہے‘‘ بعض مرتبہ وہ اخلاقی نقطۂ نظر بھی پیش کرتا ہے۔ وہ اپنے ڈرامے ’’بادل‘‘ میں سقراط پر تنقید کرتے ہوئے اسے ایک ایسا نیم حکیم قرار دیتا ہے جس کی تعلیم نظم و نسق کو تہ و بالا کرنے کی موجب ہے۔
جہاں تک جمالیات کے دوسرے موضوع کا تعلق ہے۔ سقراط سے پہلے یونانی مفکرین نے اس مسئلہ کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ یونانیوں کے لیے من حیث بالکل ’حسن‘ ایک اعلیٰ قدر بلکہ قدر یا لذت تھا۔ قدرتی مناظر اور فنونِ لطیفہ کی ترقی نے انہیں حسن کا پرستار بنادیا تھا۔ آزادی کے بعد جس قدر کے وہ سب سے زیادہ مداح تھے وہ حسن تھا۔ لیکن حسن کیا ہے، اس کے متعلق ان کے یہاں نظریاتی بحث زیادہ نہیں ملتی۔ وہ عام طور پر صداقت، حسن اور خیر کو بہت حد تک ہم معنی الفاظ قرار دیتے تھے۔ ایک طرف حسن کو وہ خیر سے متعلق سمجھتے تھے اور دوسری طرف افادہ سے۔ سقراط، افلاطون اور ارسطوئے حسن کے متعلق جو نظریات پیش کیے ہیں وہ انہیں خیالات کی ارتقائی شکلیں ہیں جو اس وقت یونان میں مقبول تھے۔
یونانیوں کے نزدیک فن’ حقیقت کا پر تو‘ ہے فن کی کامیابی کا انحصار حقیقت کی صحیح عکاسی پر ہے۔ جمالیاتی قدر، حسن کا وجود اس صحیح عکاسی پر منحصر ہے لیکن اگر ایک خاص حقیقت خیر کے منافی ہو تو کیا اس کی عکاسی بھی خیر کی ضامن ہے۔ اور کیا حقیقت کو اعلیٰ بنانے کے لیے تخیل کے ذریعے اس میں ردوبدل جائز ہے۔ یہ وہ سوالات تھے جن کے متعلق ابھی تک ان کے ذہن میں واضح جوابات موجود نہ تھے۔ بلکہ انہوں نے ان مسائل پر غور و خوض بھی زیادہ نہ کیا تھا۔ ان میں سے بعض مفکرین مثلاً انکساگورس وغیرہ تخیل اور رمز و کنایہ کے قابل بھی تھے لیکن ابھی تک دوسرے مفکرین اور فنکار ان کی اہمیت کے زیادہ قائل نہ ہوئے تھے۔ اگر حسن، فطرت اور حقیقت کا عکس پیش کرنے میں پوشیدہ ہے تو لازمی طور پر اس کا تعلق صورت اور ہیئت سے ہے نہ کہ مواد سے۔ ہیئت کے لحاظ سے وہ حسن کو ’وحدت فی الکثرت‘ میں پوشیدہ سمجھتے تھے۔ اور تناسب و ہم آہنگی کو حسن کے اجزائے ترکیبی مانتے تھے اور یہ تمام صفات ہیئت سے متعلق ہوتی ہیں نہ کہ مواد سے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے وہ حسن کو کافی وسیع معنوں میں استعمال کرتے تھے۔ اور اسے خیر وصداقت سے متعلق بلکہ ہم معنی قرار دیتے تھے۔
سقراط
سقراط کی کوئی تصنیف ہم تک نہیں پہنچی۔ شاید اس نے باقاعدہ طور پر کوئی کتاب لکھی ہی نہ ہو یا اگر لکھی ہو تو وہ زمانے کے ہاتھوں تلف ہوگئی ہو۔ بہرحال تاحال ہم اس کی کسی بھی تصنیف سے محروم ہیں، عام طور پر ہم افلاطون کے ابتدائی مکالمات کو سقراط کے نظریات کا حامل سمجھتے ہیں۔ اور بعد کے مکالمات کو خود افلاطون کے نظریات کا۔ افلاطون اس قدر بڑا انسان نہ سہی جتنا سقراط تھا (سقراط کے برابر اور کوئی انسان آہی کب سکتا ہے) لیکن اس کے عظیم مفکر ہونے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ افلاطون کے مکالمات میں سقراط کے نظریات تلاش کرنا دونوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ علاوہ ازیں افلاطون کے مکالمات میں حسن اور فن کے متعلق جو نظریات پیش کیے گئے ہیں ان میں خیالات کا ایک ایسا ارتقاء موجود ہے کہ انہیں دو حصوں میں تقسیم کرناناممکن ہے۔ اس لیے ان تمام خامیوں کے باوجود سقراط کے دوسرے سوانح نگار زینوفون کی کتاب ’’میمورابیلا‘ میں موجود ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ہم سقراط کے نظریہ فن اور حسن کے متعلق اپنے آپ کو صرف اس کتاب تک محدود رکھیں۔ سقراط کے ساتھ یہ بھی زیادتی سہی۔ کہ اس کے نظریات زینوفون جیسے درزش، سیر و شکار اور جانوروں کے شائق کے ذریعے ہم تک پہنچیں اور ہم افلاطون کو چھوڑ کر اپنے آپ کو صرف اس کے بیانات تک محدود کرلیں۔ لیکن غالباً یہ اس سے بہتر ہے کہ سقراط اور افلاطون کے نظریات کوملادیا جائے یا افلاطون کے خیالات کو سقراط کے نظریات بناکر پیش کیاجائے۔
سقراط حقیقتاً ایک معلم الاخلاق تھا۔ اس کے خیال میں اعلیٰ ترین قدر خیر ہے ذاتِ خداوندی تک کو وہ ’الخیر‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اخلاقیات میں اس کا نقطۂ نظر افادیت کا پہلو لیے ہوئے ہے اور وہ خیر کو افادہ کے پیمانے سے ماپتا ہے۔ لیکن اس کے یہاں اس کے معنی محدود نہیں ہیں۔ وہ اسے بہت وسیع معنوں میں استعمال کرتا ہے اور اس سے روح کی ابدی رفعت اور عظمت مراد لیتا ہے جس کا حصول صرف خیر کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لحاظ سے حقیقی حسن صرف اعلیٰ کردار میں ہے۔ صرف اعلیٰ کردار خیر اور حسن کا پیکر ہوتا ہے۔ وہ انسانی زندگی کو صرف خیر کی بنیادوں پر استوار کرنا چاہتا ہے۔ اور اس لیے وہ حسن کو وہ اعلیٰ درجہ اور رتبہ عطا نہیں کرسکاجس کا حسن حقیقتاً مقتضی ہے۔
وہ خیر کی طرح حسن کو بھی افادہ کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے ’میمورابیلا‘ میں ارسٹی پس سقراط سے استفسار کرتا ہے کہ کیا وہ بھی کسی شے کو حسین اور جمیل تصور کرتا ہے۔ سقراط اس سوال کا جواب مثبت میں دیتا ہے اور کہتا ہے کہ حسین اشیا ایک دوسری سے مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک خوبصورت ڈھال جس کا مقصد وار کو روکنا ہے۔ وار کرنے والے اوزار خوبصورت نیزے سے یقینی طور پر مختلف ہوگی۔ ارسٹی پس جواباً سوال کرتا ہے کہ اس طرح تو حسن بھی خیر ہی سے مشابہ کہے (حسن بھی خیر کی طرح افادہ سے متعین ہوتا ہے) سقراط اس طنز کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے جائے کہتا ہے کہ جو چیز حسین ہوگی وہ افادہ کے لحاظ سے خیر بھی ہوگی۔ کوڑا اٹھانے کی ایک ٹوکری جو اپنے مقصد کو بدرجہ اتم پورا کرتی ہے خوبصورت ہوسکتی ہے۔ لیکن سونے کی ایک ڈھال جس سے اس کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا، بدصورت کہلائے گی۔ وہ تمام چیزیں جو اپنے مقصد کو پورا کرتی ہیں خوبصورت اور اچھی ہیں اور اگر وہ اپنا مقصد پورا نہ کریں تو بدصورت اور بری ہیں۔ ایک مکان کی خوبصورتی کا دارومدار اس کے آرام دہ ہونے پر ہے۔ وہ جس قدر آرام دہ ہے اسی قدر خوبصورت ہے۔ اس کے لحاظ سے کسی ایسی شے میں میں دلچسپی لینا جس کاکوئی مقصد نہ ہو غلط ہے۔ کیونکہ حسن کا وجود بغیر مقصد کے ممکن ہی نہیں بلکہ حسن تو حسن ہی افادہ کی بناپر ہے اور جب افادہ حسن اور خیر موجود نہیں تو دل چسپی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سقراط غیرافادی ذوق و شوق کا قائل نہیں۔ ہمارے لحاظ سے یہ نظریہ قابل قبول نہیں۔
حسن میں افادیت ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے۔ لیکن حسن کے لیے اس شرط کا لازمی قرار دینے اور حسن کو افادہ اور خیر تک محدود کردینے سے اتفاق ممکن نہیں۔ حسن کی تخلیق کرنا اور اس سے حظ اٹھانا یہ خود وہ اعلیٰ اقدار ہیں کہ حسن کو ان کے سوا دوسری خارجی اقدار کی ضرورت نہیں۔ حسین تخلیق میں ہماری دل چسپی صرف حسن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ تخلیقی اور جذباتی طو رپر ہم اس وقت اس مقام پر ہوتے ہیں جہاں افادیت کے خیال کی پہنچ ممکن نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حسن افادہ سے متضاد، مختلف یا غیرمتعلق قدر ہے۔ ان دونوں کا یکجا وجود ممکن نہیں۔ حسن اور افادہ کی اس بحث کا تو یہ موقع نہیں۔ بہرحال اتنا ضرور عرض کرنا ہے کہ یہ دونوں اقدار نہ ایک دوسرے سے غیرمتعلق ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے پر منحصر۔ افادہ، حسن، خیر اور صداقت یہ تمام اقدار ایک دوسری کے پہلو بہ پہلوموجود ہوتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک میں دوسری تمام اقدار موجود ہوتی ہیں۔
متقدمین کی طرح سقراط بھی بہت حدتک فن کو حقیقت کی نقل اور پرتوہی سمجھتا ہے اور چونکہ فنکار کے لیے حقیقت کی صحیح نقالی ممکن نہیں اس لیے اس کا فن کبھی بھی اس عزت و توقیر کا مدعی نہیں ہوسکتا جو ہمارے دل میں حقیقت اور فطرت کی طرف سے ہے۔ لیکن نقل کا سوال تو صرف مرئی اشیاء تک محدود ہے، کیا فنکار صرف مرئی اشیا کی نقل پیش کرتا ہے؟ کیا غیرمرئی اشیاء مثلاً انسانی احساسات و جذبات کو پیش نہیں کیا جاسکتا؟ سقراط اس آخری سوال کا جواب منفی میں نہیں مثبت میں دیتاہے۔ اس کے خیال میں احساسات و جذبات کااظہار انسانی چہرہ اور خصوصاً آنکھوں کے ذریعے کیاجاسکتا ہے۔ سقراط کا یہ جواب کئی لحاظ سے قابل غور ہے۔ یہاں فن کو صرف نقل نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ فنکار کے تخیل کے ذریعے اس چیز کو پیش کرنے کا جوازموجود ہے جو وہ آنکھ سے نہیں دیکھتا۔ یہ نقل نہیں ہے۔ بلکہ صحیح معنوں میں تخلیق ہے۔ دوم۔ سقراط پہلا مفکر ہے جو ہماری توجہ اظہار کی اہمیت کی طرف مبذول کراتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اظہاریت کے نظریے کو جو اہمیت حاصل ہے اس سے کون واقف نہیں۔ اطالیہ کا مشہور مفکر کروچے اس نظریہ کا سب سے بڑا ترجمان ہے۔ اور اس نظریے کو اتنا مقبول بنانے میں سب سے زیادہ غالباً اسی کی تصانیف کا حصہ ہے۔ کروچے افلاطون سے پہلے بحیثیت علم کے جمالیات کے وجود کا قائل نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کروچے ہی کے نقطۂ نظر سے دیکھاجائے اور حسن و فن کو اظہار مان لیا جائے تو افلاطون سے پہلے سقراط کو جمالیات کے بنیادی اصول کو پیش کرنے والا ماننا پڑتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ افلاطون نے سقراط سے بہتراور مفصل طریقے سے جمالیاتی مسائل پر بحث کی ہے۔ لیکن جس مفکر نے ان مسائل کو پیش کیا ہے چاہے ابتدائی شکل ہی میں سہی وہ سقراط ہے۔ افلاطون نے ان مباحث کو آگے بڑھایا۔ اور ارسطو نے انہیں ایک علم کی شکل دے دی۔ سقراط کے لحاظ سے حسن اپنی مکمل صورت میں ایک شے میں نہیں ملتا۔ وہ جزوی طور پر ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن اسے دیکھنے اور پانے کے لیے محض ادراک کافی نہیں۔ فنکار صرف ادراک کے ذریعے نہ تو حسن کو پاسکتا ہے اور نہ پیش کرسکتا ہے۔ اس کے لیے گہری نظر کی ضرورت ہے۔ اس گہری نظر میں کیا کیا چیزیں ضروری ہیں۔ اس کے متعلق ہمیں سقراط کے ہاں کچھ زیادہ مواد نہیں ملتا۔ بہرحال سقراط کا یہ نظریہ اس وقت کے عام نظریہ نقل سے بہت آگے ہے۔ جس کی رو سے حسن صرف نقل اور عکاسی میں پوشیدہ تھا۔ سقراط کے نظریہ فن اور حسن کو نہ مکمل کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی صحیح لیکن اسے غلط کہنا بھی ٹھیک نہیں۔ وہ ادھورا اور نامکمل ضرور ہے۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے جمالیات کے متعلق کچھ ایسے نکات پیش کیے جن میں کافی صداقت پوشیدہ ہے اور جنہیں بعد کے مفکرین نے واضح طور پر پیش کیا ہے۔
افلاطون
یونانی مفکرین بلکہ مفکرینِ عالم میں افلاطون کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس نے ارسطو کی طرح مختلف علوم کی باقاعدہ منطقی تقسیم تو نہیں کی۔ لیکن محتلف علوم کے اکثر مسائل پر ہمیں اس کے مکالمات میں اظہار ملتا ہے۔ اس کے نظریات میں اکثر مفکرین کی طرح ایک باقاعدہ ارتقاء ہے۔ جہاں تک اس کے جمالیاتی نظریات کا تعلق ہے وہ ہمیں اس کے محتلف مکالمات میں منتشر طور پر ملتے ہیں۔ لیکن عام طور پر اس کے وہ نظریات مشہور ہیں۔ اور وہ بھی غلط علوم پر جو اس نے اپنی تصنیف ’’جمہوریت‘‘ کے ابواب دوم، سوم اورخصوصاً باب دہم میں پیش کیے ہیں۔ بہرحال یہاں فن اور حسن کے متعلق مختصر طور پر اس کے نظریات پیش کرتے ہیں۔
جہاں تک فن کاتعلق ہے۔ افلاطون نے سب سے زیادہ شاعری پر بحث کی ہے۔ اور اس کے بعد موسیقی، مصوری، خطابت اور قصہ گوئی وغیرہ پر۔ شروع کے مکالمات ’فیدردس‘ اور ’آئی اون‘ میں وہ شاعری کو القا ءاور وجدان کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ شاعرکے کلام کو شاعری کی دیویوں کا پیغام سمجھتا ہے اور شاعر کو پیغامبر کامرتبہ عطا کرتا ہے۔ وہ اپنے مکالمہ ’فیدردس‘ میں جذب کی چار قسمیں قرار دیتا ہے (۱) پیغمبری (۲) انقا (۳) شاعری اور (۴) عشق۔ تیسری قسم کے جذب یعنی شاعری کے متعلق وہ کہتا ہے۔ ’’جذب کی تیسری قسم ان لوگوں سے متعلق ہے جن پر شاعری کی دیویوں کاسایہ ہے۔ یہ دیویاں ان کی لطیف اور دوشیزہ روحوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتی ہیں اور فیضانِ سماوی کی وساطت سے ان میں جذبہ شاعری کو بیدار کردیتی ہیں۔ لیکن وہ شخص جس کی روح پر ان دیویوں کے جنوں کا سایہ نہیں پڑا اس خیال میں مگن شاعری کی مقدس بارگاہ تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے فن کی وساطت سے اس معبد میں داخل ہوسکے گا۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اسے اور اس کی شاعری کو کبھی شرفِ باریابی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اپنے دوسرے مکالمے ’آئی اون‘ میں افلاطون انہیں خیالات کااظہار کرتا ہے۔
’’سب سے پہلے خود شاعری کی دیوی لوگوں کومتاثر کرتی ہے اور ان اشخاص سے جو روحانی طور پر فیضیاب ہوچکے ہیں دوسرے اشخاص سلسلہ بہ سلسلہ متاثر ہوتے ہیں۔ شعرا ءاپنی نظمیں اپنے فن کی بدولت نہیں کہتے بلکہ اس لیے کہ ان پر دیویوں کا سایہ ہوتا ہے اور وہ ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ صرف ان چیزوں کے بیان پر قادر ہوتے ہیں جن پر شاعری کی دیویاں ان کو ابھارتی ہیں۔ جب ان کو یہ وجدان حاصل ہوتا ہے تو مختلف شعراء مختلف اصناف میں شعر کہتے ہیں اور ان میں سے جس شخص کو ایک خاص صفت کا ملکہ ہوتا ہے وہ دوسری صفت میں شعر کہنے پر قادر نہیں ہوتا۔ کیونکہ شاعر فنی صلاحیت پر شعر نہیں کہتا۔ خدا شعرا ءکے اذہان کو چھین لیتا ہے۔ اور ان کو اپنے کار پرواز کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ وہ اولیاء اور پیغمبروں کے ذہن کو استعمال کرتا ہے تاکہ سامعین اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ وہ اپنے طور پر باتیں نہیں کر رہے بلکہ وہ یہ اعلیٰ اشعار غیرشعوری طور پر کہتے ہیں، کیونکہ خدا بذاتِ خود متکلم ہوتاہے اور ان شعراء کے ذریعے وہ ہم سے ہم کلام ہوتا ہے۔‘‘
’’فیدردس‘‘ میں افلاطون شاعری اور دوسرے فنون میں صداقت پر بھی زور دیتا ہے۔ اور اگر شعراء کا کلام صداقت پر مبنی ہو تو وہ انہیں فلسفی کا لقب دینے کے لیے تیار ہے۔ ’’اگر ان کی تصنیفات حقیقت و صداقت پر مبنی ہوں اور جب ان کی آزمائش کی جائے تو وہ اس کا ثبوت اورجواز پیش کرسکیں تو انہیں نہ صرف شاعر، خطیب اور قانون دان کہا جائے گا بلکہ وہ ایک اعلیٰ تر لقب کے مستحق ہیں۔ ایسا خطاب جو ان کی زندگی کے سنجیدہ مشاغل کے شایانِ شان ہو۔۔ عاقل تو میں انہیں نہیں کہوں گا۔ کیونکہ یہ ایک مقدس لفظ ہے جو صرف خدا کی صفت ہے۔ لیکن محبانِ علم و دانش یا فلسفی ان کے لیے معقول اور موزوں لقب ہوگا۔‘‘
اپنے مکالمے ’’سمپوزیم‘‘ میں افلاطون شاعروں کو اس سے بھی بڑا مرتبہ دیتا ہے۔ یہاں وہ شاعر کو خالق اور شاعری کو تخلیق قرار دیتا ہے۔ جس میں ’نقل‘ یا ’نقل کی نقل‘ کا شائبہ تک موجود نہیں۔ افلاطون اگاتعون کی زبانی سے عشق کے دیوتا کہ حسین، منصف، محتاط، بہادر اور عاقل قرار دیتاہے اور اس کے بعد وہ کہتا ہے ’سب سے پہلے وہ ایک شاعر ہے۔ نہ صرف شاعر بلکہ شاعری کا سرچشمہ ہے۔ اگر وہ شاعر نہ ہوتا تو بھلا شاعری کا سرچشمہ کیسے بن سکتا۔ اسی کے فیض سے شاعر حقیقی طور پر شاعر بنتا ہے۔ چاہے اس سے پہلے وہ اس نعمت سے بالکل ہی محروم کیوں نہ ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عشق کا دیوتا شاعر ہے اور تمام فنون لطیفہ اسی کے طفیل پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ تمام جاندار اسی کے آفریدہ ہیں۔ کیا یہ تمام چیزیں اسی کی عقل و دانش کا کرشمہ نہیں اور جہاں تک فنکار کا تعلق ہے ان میں سے صرف وہی شہرت کے مالک بنتے ہیں جنہیں اس کا فیضان حاصل ہوتا ہے۔ اور جو اس دیوتا سے فیضیاب نہیں ہوتے وہ تاریکیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ حسن کی محبت سے ارض و سما بھی ہر خیر و خوبی کی نمو ہوئی ہے۔ اسی مکالمے میں افلاطون سقراط کی زبانی ڈیوٹی ما کے یہ الفاظ ادا کرتا ہے ’’تمام۔۔۔۔۔ وجود میں آنا شاعری یا تخلیق ہے۔ اور تمام فنون کے طریقہ ہائے کار تخلیقی ہوتے ہیں۔ اور تمام فنون کی تخلیق کرنے والے خالق شاعر ہیں۔
ریاست کے علاوہ جس مکالمے میں افلاطون نے شاعری کے خلاف کچھ کہا ہے وہ ’جورئس‘ہے اس مکالمے میں افلاطون کے لحاظ سے حقیقی فنون کا مقصد انسان کی اعلیٰ اقدار کو پیش کرنا ہے۔ اور دوسرے فنون صرف حظ آفرین کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔ حظ مستحسن بھی ہوسکتا ہے اور غیرمستحسن بھی۔ لیکن یہ دوسری قسم کے فنون حظ کی نوعیت کاخیال کیے بغیر صرف حظ اور مسرت کو اپنا مقصد بنالیتے ہیں اور اعلیٰ اقدار کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس قسم کے حظ آفرین فنون میں وہ شاعری کی مختلف اصناف کو شامل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ یونانیوں کے نزدیک سب سے اعلیٰ صنف المیہ کے متعلق سوال کرتا ہے ’’جہاں تک المیہ کی دیوی، اس مقدس اور جلیل القدر ہستی، کا تعلق ہے۔ اس کی آرزوئیں اور امنگیں کیا ہیں؟ کیا اس کی تمام تر غرض و غایت اور تمنا تماشائیوں کی محض حظ آفرینی نہیں؟ یہ اور غیر مستحسن حظ سے برسرپیکار ہوئی ہے۔ اور اس کے لطیف معائب کو پیش کرنے سے انکار کردیتی ہے؟ کیا یہ؟ رغبت، الفاظ؟ خوش آینداور ناگوار صداقتوں کا اظہار نہیں کرتی؟ اس کی سیرت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ یہاں ہم دیکھتے ہیں اگرچہ افلاطون شاعری کو احترام کی نظروں سے دیکھتا ہے اور اس کا ایک مقصد آفرینی سمجھتا ہے۔ لیکن اعلیٰ قسم کا حظ نہیں بلکہ ادنی قسم کا اور اس بناپر وہ المیہ تک کو ناپسند کرتا ہے۔
اب آئیے اس کی مشہور تصنیف ریاست کی طرف۔ عرض کیا جاچکا ہے کہ افلاطون نے ’ریاست‘ کے ابواب دوم، سوم اور دہم میں فن کے متعلق اپنے نطریات پیش کیے ہیں۔ یہاں اس کا انداز کچھ مختلف معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شروع میں افلاطون مختلف فنون کی وقعت اور اہمیت کا زبردست قائل تھا۔ کیونکہ وہ ان پر فنی اور جمالیاتی اصولوں کے پیش نظر بحث کرتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے نظریات میں کچھ تبدیلی ہوجاتی ہے۔ اور ریاست کے دسویں باب میں یہ تبدیلی نسبتاً زیادہ واضح ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ فنون کو اخلاقی، تعلیمی اور تصوراتی معیار سے جانچتا ہے۔ اس کے نظریات میں یہ تبدیلی آہستہ آہستہ آتی ہے۔ اور اسی بناپر ہم کہہ سکتے ہیں کہ افلاطون کے نظریات میں ہمیں ایک آرٹ ملتا ہے۔ یہاں ہمیں اس بات کو فراموش نہ کرنا چاہیے کہ ’فیدروس‘ اور ’سمپوزیم‘ وغیرہ میں وہ شاعری پر معیاری نقطہ نظر سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے کہ اعلیٰ شاعری کس قدر اہمیت اور وقعت کی مالک ہے۔ لیکن ’ریاست‘ میں اس کا نقطہ نگاہ محبت ہوجاتا ہے۔ ریاست میں وہ اپنی اپنی ریاست کے لیے ایک دستور پیش کر رہا ہے۔ یہاں اسے شاعری، قصہ گوئی اور مصوری وغیرہ سے بحیثیتِ فنون لطیفہ کے بحث نہیں بلکہ وہ انہیں تعلیم دینے اور اخلاق کو بہتر بنانے کاایک ذریعہ سمجھتا ہے اور پھر اس مقصد کے پیش نظر وہ دیکھتا ہے کہ کس طرح کی شاعری قابل قبول ہے اور کس قسم کے شاعروں کو اپنی ریاست میں رہنے یا نہ رہنے کی اجازت دے سکتاہے۔ یہاں افلاطون فنونِ لطیفہ کے لیے پھر صداقت اور حقیقت کو ایک بنیادی صنعت قرار دیتا ہے اور کسی شاعر اور قصہ گو کواس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی ایسی چیز پیش کریں جس کی بنیادیں صداقت پر استوار نہ ہوں۔ وہ ہومر پر اسی نقطہ نظر سے تنقید کرتا ہے کہ؟ کو شر کی علت قرار دیتا ہے اور کبھی دیوتاؤں کو بھیس بدل کر سیر کرتے ہوئے دکھاتا ہے حالانکہ یہ حقیقت کے بالکل خلاف ہے۔ کیونکہ نہ خدا شر کی علت ہے اور نہ دیوتا بھیس بدل کر دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کے سامنے اس قسم کی باتیں پیش کی جائیں تو ان کے دل میں دیوتاؤں کی عزت باقی نہیں رہ سکتی حالانکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سرپرست حتی الامکان دیوتاؤں کے سچے پجاری اور بالکل ان جیسے بنیں۔ وہ اخلاقی معیار سے فنونِ لطیفہ کو پرکھتا ہے اور اس بناپر شاعروں سے متوقع ہے کہ وہ شاعری میں صرف اعلیٰ اقدار کو پیش کریں۔ وہ شجاعت کی تعلیم دیں نہ کہ بزدلی کی۔ صبر و تحمل کو پیش کریں نہ کہ آہ و بکا کو۔ جذبات پر قابو پانا سکھائیں نہ کہ المیہ اور طربیہ کے ذریعے جذبات کو برانگیختہ کریں، ضبطِ نفس کے طریقے بتائیں نہ کہ خواہشات کی تسکین کے۔
وہ باب دوم و سوم میں شاعری کے خلاف نہیں بلکہ صرف اس شاعری کے خلاف ہے جومعیارِ اخلاق پر پوری اترتی ہو۔ اس شاعری کے خلاف ہے جو نوجوانوں کو غلط قسم کے نظریات زندگی دے۔ وہ شاعری کا مداح ہے لیکن اسے اخلاق اور تعلیم کے اصولوں سے جانچتا ہے۔ یہاں ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یونانیوں میں شاعری تعلیم کا ایک جزو لاینفک تھی۔ نوجوانوں کومشہور شاعروں کا کلام اس وجہ سے سنایا، پڑھایا اور یاد کرایا جاتا تھا۔ وہ اسے اپنی زندگی میں اپنا رہبر بنائیں اور ان میں پیش کردہ اصولوں کو اپنائیں۔ یہاں افلاطون اس شاعری کا حامی ہے جو نوجوانوں میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پیش کریں۔ نامور افراد کے صبر و تحمل کے افعال و اقوال انہیں ضرور دیکھنے اور سننے چاہئیں لیکن ہم کو نذر اور نذران قبول کرنے والے اور زردمال کا شیدائی نہیں بننے دیں گے۔
باب سوم میں افلاطون نے شاعری کے موضوع کے علاوہ اسلوب اور ہیئت پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ اسلوب کے لحاظ سے وہ شاعری کی؟ قرار دیتا ہے۔ غنائیہ جس کا انداز بیانیہ ہوتا ہے اور اس میں شاعر قوم سے بلاواسطہ خطاب کرتا ہے۔ تمشیہ جس میں المیہ اور طربیہ شامل ہیں۔ اس کی؟ استوار ہوتی ہیں۔ اس میں شاعر خود کلام نہیں کرتا بلکہ کرداروں کے ذریعے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ اور سوم رزمیہ جس میں مندرجہ بالا دونوں؟ کا امتزاج ہوتا ہے۔ باب سوم کے باقی حصے اور باب دہم میں افلاطون شاعری پر جو کچھ بحث کرتا ہے وہ صرف المیہ اور طربیہ کے متعلق ہے نہ کہ تمام شاعری کے متعلق۔ وہ نقل اور تمثیل کے خلاف ہے۔ لیکن اگر ان دونوں ابواب کا سیاق و سباق کے پیش نظر باقاعدہ طور پر مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں شاعری کی صرف اس صنف پر بحث کر رہا ہے جس کا تعلق نقل سے ہے۔ اب اس کے پیش نظر غنائیہ شاعری نہیں۔ اور رزمیہ بھی صرف اس حد تک ہے جہاں تک اس کا تعلق نقل سے ہے۔
نقل اور تمثیل کی مخالفت کی دو وجوہ ہیں۔ اول اخلاقی اور دوم اس کی حقیقت سے تین درجے دور ہونا۔ افلاطون اپنی ریاست کی بنیاد ہی اس اصول پر رکھتا ہے کہ ایک شخص صرف ایک کام کرسکتا ہے اور ایک شخص کو ایک سے زیادہ کام کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم اپنی ریاست میں ایک موچی کو صرف موچی بنائیں گے جہازراں نہیں۔ ایک کاشتکار صرف کاشتکار ہوگا ٹھیے ساز نہیں۔ اور ایک فوجی صرف فوجدار رہے گا تاجر نہیں۔ اور اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں (یہی اصول کارفرما ہوگا) ۔ تمثیل میں اس اصول پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ بلکہ ایک ہی شخص کو مختلف پارٹ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے افلاطون اس کے خلاف ہے۔ ’’اگر ایسا کوئی چالاک شخص ہمارے سامنے آئے جو ہر قسم کے کرداروں کا روپ بھر سکے اور ہر نوع کی چیزوں کی پیش کش میں مہارت رکھتا ہو۔ اور وہ اپنی شاعری میں اس کا اظہار یا ذاتی طور پر اس کی نمائش کرنے کی تجویز پیش کرے تو ہم اس کے سامنے سرتسلیم خم کریں گے۔ کیونکہ وہ ایک شیریں کلام شاعر، مقدم ومحترم شخص اور مجموعۂ عجائب ہستی ہے۔ ہم اس کی پرستش بھی کریں گے۔ لیکن اسے یہ بھی بتادیں گے کہ قانونی پابندیوں کے باعث اس جیسے شخص کی ہماری ریاست میں کوئی جگہ نہیں۔ ہم اسے مقدس خوشبوؤں سے معطر کرکے اور اس کے سرپر اون کے گجرے سجاکر اسے کسی اور شہر کو روانہ کردیں گے۔‘‘
اس مکالمہ کے پیش نظر یہ سمجھا جاتا ہے کہ افلاطون شاعر کو اپنی ریاست سے شہربدر کر رہا ہے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حقیقتاً ایسا نہیں۔ وہ شاعر کو نہیں بلکہ ایک خاص قسم کے شاعر کو شہر بدر کر رہا ہے۔ وہ شاعر جس کا شاعری غنائیہ اور رزمیہ نہیں بلکہ تمثیلی ہے۔ وہ قونصل اور تمثیل کو بھی لائق ستائش سمجھتا ہے۔ بشرطیکہ وہ اعلیٰ اخلاق کی نقل ہو۔ ’’ہم اپنی روح کی صحت کی خاطر صرف ایسے سنجیدہ اور متین شاعر یا داستان گو کو مقرر کریں گے جو نیک سیرت لوگوں کی روش کا تتبع کریں اور ان اصولوں کی پیروی کریں جو ہم اپنے سپاہیوں کی تعلیم کے لیے وضع کرتے ہیں۔‘‘
باب دہم میں بھی افلاطون تمام شاعری سے نہیں بلکہ صرف تمثیلی شاعری سے بحث کرتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ یہاں وہ صرف شروع میں نقل اور تمثیلی شاعری کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور بعد میں صرف شاعری کا لفظ۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا جاچکا ہے اگر سیاق و سباق کو پیش نطر رکھ کر دیکھاجائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں اس کا مطلب صرف تمثیلی شاعری سے ہے نہ کہ تمام شاعری سے۔ ارسطو تمام شاعری کونقل قرار دیتا ہے لیکن افلاطون نہیں۔ نظریہ ’اعیان‘ کو صرف تمثیلی شاعری پر منطبق کیا جاسکتا ہے نہ کہ تمام شاعری پر۔ اور اسی طرح مصوری کا بھی صرف اسی قسم کی شاعری سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ بیانیہ اور غنائیہ سے نہیں۔ افلاطون کے لحاظ سے شاعری، ماضی۔ حال اور مستقبل کے واقعات کا بیان ہے۔ ماضی اور حال کی نقل تو ممکن ہے۔ لیکن جس مفہوم میں افلاطون یہ لفظ استعمال کرتا ہے۔ اس مفہوم میں مستقبل کے واقعات کی نقل ہی ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں بیانیہ اور غنائیہ شاعری میں بھی نقل کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ نقل صرف تمثیل سے متعلق ہے یا پھر کچھ حد تک رزمیہ شاعری سے جو بیان اور تمثیل دونوں سے مرکب ہے۔
وہ تمثیلی شاعری کو ’نقل کی نقل‘ اور ’پرتو کا پرتو‘ قرار دیتا ہے۔ افلاطون صرف تصور کو حقیقت مانتا ہے۔ یہ عالم وجود اور اس کی ہر شے اس تصور کی نقل ہے۔ اس کا عکس۔ پرتو اور پرچھائیں ہیں۔ حقیقی شے عالم بالا میں بحیثیت ایک تصور کے موجود ہے۔ اس دنیا کی ہر شے ایک خاص تصور کی ناقص نقل ہے۔ اصل کرسی یہ نہیں ہے جو ہم آپ دیکھتے ہیں بلکہ وہ تصور ہے جو ہماری آپ کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے اور جس کی نقل یہ کرسی ہے۔ ایک مصور اس نقلی کرسی کی نقل پیش کرتا ہے۔ مصور کی طرح تمثیلی شاعر بھی نقل کی نقل پیش کرتا ہے اوراسی نظریے کے تحت افلاطون مصوری اور تمثیلی شاعری کو حقیقت سے تین درجے دور قرار دیتا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ افلاطون اس قسم کی شاعری پر ایک اور پہلو سے بھی تنقید کرتا ہے۔ اور یہ پہلو اخلاقی ہے۔ فنکار کے متعلق وہ لکھتا ہے ’’ہم اس کو اپنی منضبط اور منظم ریاست میں شامل کرنے میں حق بجانب ہیں۔ کیونکہ وہ احساسات و جذبات کو بیدار اور مشتعل کرتا ہے۔ ان کی پرورش کرتا اور انہیں تقویت بخشتا ہے جس سے عقل کو ضعف اور ضرر پہنچتا ہے۔‘‘ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ افلاطون اس شاعری اور فن کے خلاف ہے جو جذبات کو برانگیختہ کرے اور عقلیت کی بجائے جذباتیت کی طرف ہمیں لے جائے۔ اس کے برخلاف وہ اس شاعری کا مداح ہے جس میں یہ عیوب نہ ہوں۔ ’’دیوتاؤں کی حمد و ثنا اور بزرگوں کی نعت و منقبت ہی ایسی شاعری ہے جسے اس ریاست میں جگہ دی جاسکتی ہے۔‘‘ ان الفاظ سے نہایت واضح طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ شاعر اور شاعری کو شہر بدر نہیں کر رہا بلکہ صرف ایک خاص قسم کی شاعری کو، اور وہ بھی اس بنا پر کہ وہ ان چیزوں کو اپنا موضوع بناتی ہے جنہیں پیش کرنا افلاطون اخلاقی طور پر مضر سمجھتا ہے۔ اگر یہ تمثیلی شاعری بھی اپنے موضوعات کو بدل کر ان چیزوں کو پیش کرے جو اخلاقی طور پر قابل قبول ہوں تو افلاطون کو اس تمثیلی شاعری پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔
اگرچہ افلاطون نے تمثیلی شاعری پر اخلاقی وجوہ کی بناپر بہت سی پابندیاں عائد کردی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس بات کا پورا احساس ہے کہ وہ المیہ کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا ہے۔ وہ جب بھی ہومر کاذکر کرتا ہے تو نہایت ہی عزت اور احترام کے ساتھ ’’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہومر شعراء میں سب سے عظیم اور اولین المیہ نگار ہے۔‘‘ نہ صرف یہ بلکہ اسے یہ بھی احساس ہے کہ وہ المیہ کی دیوی کو اپنی ریاست سے نکال کر کوئی بہت اچھا کام نہیں کر رہا۔ وہ اخلاقی اصولوں کی بناپر اسے نکال رہا ہے لیکن جب وہ اس کی فنی خوبیوں پر نظر ڈالتا ہے تو اس کے اندر سویا ہوا شاعر جاگ اٹھتا ہے۔ وہی شاعر جس نے خود جوانی میں ایک تمثیل رقم کی تھی۔ وہ شاعری کی دیوی کے حسن سے مسحور ہوجاتا ہے۔ وہی شاعری کی دیوی جس کا سایہ تمام عمر اس پر رہا۔ اور جو اس کے تمام مکالمات میں ہمیشہ جلوہ گر رہی، یہی وہ کش مکش ہے جس کی بناپر آخر افلاطون یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’ہم اپنے عزیز دوست (تمثیلی شاعری) اور اس قسم کے دوسرے فنون کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ ایک منظم ریاست میں اپنے وجود کا استحقاق ثابت کردے تو ہمیں اس کو واپس بلانے میں خوشی حاصل ہوگی۔ ہم اس کے حسن سے مسحور ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم صداقت کو قربان نہیں کرسکتے۔ کیوں کلوکن تم بھی تو اس پر اتنے ہی فریفتہ ہو جتنامیں۔ خاص طور پر جب وہ ہومر کے کلام میں جلوہ نما ہوتی ہے۔ ’ہاں مجھے تو بس دیوانہ سمجھو‘ پھر تو میرا خیال ہے کہ ہمیں اسے واپسی کی اجازت دینی ہی پڑے گی۔ لیکن صرف ایک شرط پرکہ وہ غنائیہ یا کسی بھی صنف کے ذریعے اپنا حق ثابت کردے کہ ’یقیناً۔ ‘ ہم تواس پر بھی تیار ہیں کہ اس کے وہ پرستار جو شاعری کے عاشق ہیں لیکن خود شاعر نہیں، نثر میں اس کی حمایت کریں۔ وہ صرف یہ ثابت کردیں کہ وہ صرف حظ آفرین ہی نہیں بلکہ ریاست اور انسانی زندگی کے لیے مفید اور سودمند بھی ہے تو ہم ان کی باتوں کو نہایت ہمدردی سے سنیں گے۔ کیونکہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ وہ افادہ اور انبساط دونوں کی حامل ہے تو (اس کی واپسی میں) ہمارا فائدہ ہی فائدہ ہے۔‘‘
فنون لطیفہ اور شاعری کے پرستاروں نے ارسطو سے لے کر اب تک شاعری کی حمایت کی ہے۔ اور اسے نہ صرف افادہ اور انبساط کا حامل ثابت کیا ہے بلکہ خیر اور صداقت کا بھی۔ مملکت حسن پر تو وہ حکمران ہے ہی، نہ صرف یہ بلکہ اس کے حقیقی پرستاروں نے اس حدتک دعویٰ کیا ہے اور یہ دعویٰ کچھ غلط بھی نہیں کہ فن اور شاعری اعلیٰ ترین قدر ہے۔ تمام اقدار سے ارفع تمام اقدار سے افضل۔
سقراط حسن اور افادہ کوایک مانتا تھا اور افلاطون حسن او رغیر کو ’لائی لس‘ میں افلاطون سقراط سے یہ الفاظ ادا کراتا ہے۔ میرے خیال میں خیر حسین ہے۔ کمپوزیم میں سقراط، اگا نفون سے سوال کرتا ہے ’’کیا خیرحسین نہیں ہوتا‘‘ اور وہ اس سوال کا جواب مثبت میں دیتا ہے۔ اسی مکالمے میں زیوئی ماحسن اور خیرکو ہم معنی الفاظ قرار دیتی ہے۔ اور دونوں کو مسرت کا ضامن بناتی ہے۔ ’ریاست‘ میں افلاطون ایسے شخص کو بیوقوف سمجھتا ہے جو حسن کو خیر کے سوا کسی اور پیمانے سے ناپتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ قبح کو شر قرار دیتاہے۔ اور شر کو قبح۔ وہ حسن اور صداقت کو بھی ایک دوسرے سے قرار دینے میں کچھ حد تک تو جائز اور ٹھیک ہیں کیونکہ یہ دونوں اصول معیاری ہیں اور دونوں کا تعلق کافی حدتک عمل سے ہے۔ لیکن ان دونوں کو بالکل ایک ہی معیار سمجھ لینا بھی زیادہ صحیح نہیں کیونکہ حسن کا تعلق پسندیدگی اور تحسین سے زیادہ ہے اور خیر کا ارادہ سے۔ حسن حسیاتی اشیا مثلاً انسانی چہرہ۔ فطرت اور فن میں بھی موجود ہے لیکن اعلیٰ حسن انسانی کردار کی صفت ہے جو ’الخیر‘ تک ہماری رہنمائی کرتا ہے ’سمپوزیم‘میں اسے ’اعلیٰ اور ازلی حسن‘ کہتا ہے اور ’ریاست‘ میں ’الخیر‘ اور ’تصورخیر‘۔ ان الفاظ سے افلاطون کی مراد خدا کی ذات ہے۔ اس ذات میں خیر، حسن اور صداقت بدرجہ اتم موجود ہیں۔ نہ صرف موجود ہیں بلکہ وہ ان اقدار کا سرچشمہ ہے۔ صیاتی اشیاء کا حسن اس کے حسن کا پرتو ہے۔ تمثیلی فنون چونکہ ان اشیاء کی نقل ہوتے ہیں۔ اس لیے افلاطون ان فنون میں حقیقی حسن کے وجود کا قائل نہیں۔ بلکہ اس کے لحاظ سے ان میں حسن کے صرف پر تو کا پرتو ہوتا ہے۔ اور اس طرح وہ حسنِ مطلق سے تین درجے دور ہوتے ہیں۔ حسنِ مطلق کا یہی دونظریہ ہے جسے بعد میں افلاطونیس نے ترقی دی اور وہاں سے یہ نظریہ عجمی تصوف میں درآیا۔
حسن کا شیدائی حسیاتی اشیا ءکے حسن سے جو جزوی اور ناقص طور پر ان اشیاء میں جلوہ فرماہوتا ہے۔ حسن مطلق کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتا ہے۔ انسانی چہرہ کا حسن اسے اس سے اعلیٰ حسن کی طرف لے جاتا ہے جس کی بناپر زندگی کے اعلیٰ اصول وجود میں آتے ہیں۔ اس سے آگے کردار کے حسن کی منزل ہے جو عقل و فراست کی وساطت سے حاصل ہوتی ہے۔ حسن کا شیدائی جب اس منزل سے بھی آگے نکلتا ہے تو اسے حسنِ مطلق کا جلوہ نظر آتا ہے۔ یہی وہ حسن مطلق ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ جو ہر حسین شے میں منعکس ہے۔ جو کامل، واحد، سادہ اور قائم ہے، جو نہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے جو ماورائے ادراک ہے۔ جو ان آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے نظر آسکتا ہے تو اسے حسن مطلق کا جلوہ نظر آتا ہے۔ یہی وہ حسنِ مطلق ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ جو ہر حسین شے میں منعکس ہے۔ جو کامل، واحد، سادہ اور قائم ہے جو نہ بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے۔ جو ماورائے ادراک ہے۔ جو ان آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے نظر آسکتا ہے۔ ’افلاطون خدا کو خیر اور حسن کا ہم معنی قرا ردیتا ہے۔ ‘ سمپوزیم اور فیدرس میں اس نے حسن کو خیر پر ترجیح دی ہے۔
خداوندِ عالم کے حسن قدیم کے نظارے کی خواہش کا بیدار ہونا ہی اس تحریک کا باعث بن جاتا ہے جسے کام دیو یا عشق کہتے ہیں۔ کام دیو ہی دل انسانی میں تمناؤں کو بیدار کرتا ہے۔ جوش و خروش کو جنم دیتا ہے۔ شباب کو جرأتِ رندانہ سے ہمکنار کرتا ہے اور شاعر رنگین نوا کے نغموں میں بستا ہے۔ حسن کے بے شمار درجے ہیں مگر ان سب کا اصل وہی حسن مطلق ہے۔ حسن منفرد، قابل تغیر و فناپذیر ہوتا ہے۔ لیکن الوہی حسن ابدی ہے۔ اس لحاظ سے ہر حسین شے ابدی ہے کیونکہ وہ الوہی حسن میں شریک ہوتی ہے۔ یایہ کہ الوہی حسن اس شے میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ فطرت حسین ہے اس لئے وہ اس حسن قدیم و واحد میں شریک ہے۔
ہرشے حسین کا نظارہ ہمیں حسنِ ازل کی یاد دلاتا ہے اور یہی بنا ہے اس پر پراسرار حظ، جذبے اور خوشی کی جو کسی حسین شے کو دیکھ کر ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ حسنِ ازل ان لوگوں پر ایک حیرت افزا جلوہ کی مانند ظاہر ہوتا ہے جو اسے محبوب رکھتے ہیں اور جن میں تابِ نظارہ ہوتی ہے جو اس کی معرفت سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اور آخر دم تک اس کا کلمہ پڑھتے ہیں۔
مندرجہ بالا نظریہ کو ہم افلاطون کا مابعد الطبعیاتی نظریۂ حسن کہہ سکتے ہیں۔ وہ حسن کے معروضی نظریہ کا بھی قائل ہے۔ اس کے لحاظ سے حسین موضوع کی صفت نہیں بلکہ معروض یعنی شے مدرکہ کی صفت ہے۔ حسن دیکھنے والی آنکھ میں نہیں بلکہ اس شے میں ہے جسے آنکھ دیکھتی ہے۔ معروضی طور پر حسن وحدت اور تناسب میں پوشیدہ ہے۔ وحدت کا مطلب وحدت فی الکثرت ہے۔ حسین شے مختلف اجزاءسے مربوط ہوتی ہے اور یہ اجزاء ایک دوسرے میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ ان کا انفرادی وجود ختم سا ہوجاتا ہے۔ ان کی کثرت وحدت کا روپ دھار لیتی ہے اور یہی وحدت فی الکثرت ہے۔
تناسب کے اجزائے ترکیبی ترتیب، توازن، ہم آہنگی اور اتحاد میں اپنے مکالمہ ’قیلی بس‘ میں افلاطون حسن، نیکی اور تناسب کو ہم معنی الفاظ بتاتا ہے اور صداقت کو ان سب میں جاری و ساری سمجھتا ہے۔ افلاطون کے خیال میں علم ریاضی اور ہندسی تمام علوم میں بنیادی حیثیت کے مالک ہیں۔ وہ اپنے نظریہ حسن میں بھی ریاضی کی حسین نسبتوں کو پیش کرتا ہے اور حسن کا دارومدار اسی تناسب پر رکھتا ہے۔ تناسب کا یہ نظریہ بعد میں نہ صرف مقبول ہوا بلکہ اس کے پیش نظر حسن کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی اور مختلف تناسب پیش کیے گئے اور دعویٰ کیا گیا کہ حسن اس تناسب میں پوشیدہ ہے نہ کہ کسی دوسرے تناسب میں۔ یہ تو بالکل دوسری بحث ہے کہ حسن موضوع ہے یا معروضی۔ یا معروض اور موضوع میں ایک خاص تعلق اور رشتہ کا نام حسن ہے۔ لیکن اگر حسن کو معروض اور موضوع میں ایک خاص تعلق سمجھ لیا جائے (اور راقم الحروف کے خیال میں حسن کا یہی نظریہ ٹھیک ہے) تو یہ تعلق اس وقت تک پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ معروض میں وہ صفات موجود نہ ہوں جو افلاطون نے پیش کی ہیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ معروض میں کچھ اور صفات کی موجودگی بھی ضروری ہے۔ بہرحال افلاطون کی پیش کردہ صفات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
غرض ہم دیکھتے ہیں کہ افلاطون نے جمالیات کے دونوں پہلوؤں فن اور حسن پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس نظریات کلی طور پر قابل قبول نہ سہی لیکن اس نے ان مسائل کو مفصل طور پر پیش کیا اور آنے والے مفکرین کے لیے سوچ بچار کی نئی نئی راہیں تراشیں جن پر چل کر بعد میں جمالیات اور تنقید نے کافی ترقی کی اور عمرانی علوم کی صف آرائی میں جگہ حاصل کی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.