زیب النساء
بمبئی کے سفرمیں ایک عزیز دوست نے جو انگریزی تصنیفات پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں انڈین میگزین اینڈ ریویو کا ایک آرٹیکل دکھلایا جو زیب النساء کی سوانح عمری کے متعلق تھا، مجھ کو افسوس ہوا کہ ایک ایسے معزز پرچہ کا سرمایہ معلومات تمام تر بازاری قصے تھے جس میں سے ایک شرمناک قصہ عاقل خان رازی کا بھی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بازاری اہل قلم نے زیب النساء کے جو حالات تجارتی غرض سے قلمبند کئے وہ بالکل بے سروپا ہیں۔ اس بنا پر خیال ہوا کہ زیب النساء کے متعلق صحیح معلومات یکجا کردیے جائیں، جس سے یہ فائدہ ہوگا کہ غلط معلومات کی اصلاح ہو جائے گی۔
زیب النساء کی ولادت
زیب النساء اورنگ زیب کی سب سے پہلی اولاد تھی، اس کی ماں جس کا نام دلرسن بانو بیگم تھا، شاہ نواز خاں صفوی کی بیٹی تھی، شاہ نواز خاں کا اصلی نام بدیع الزماں ہے۔ جہانگیر کے زمانے میں معزز عہدوں پر ممتاز ہو کر شاہ نواز خاں کے خطاب سے ملقب ہوا، شاہجہاں کے زمانے میں بھی کارہائے نمایاں کئے، چونکہ لیاقت ذاتی کے ساتھ عالی خاندان بھی تھا، شاہ جہاں نے ۱۰۴۷ھ میں کہ اس کی سلطنت کا دسواں سال تھا، اورنگ زیب کی شادی اس کی بیٹی سے کردی، چار لاکھ مہر باندھا گیا، طالب کلیم نے مادہ تاریخ کہا، دو گوہر بہ یک عقد دوراں کشید۔ 1
زیب النساء شادی کے دوسرے سال شوال ۱۰۴۸ ہجری میں پیدا ہوئی۔ عالمگیری امرا میں عنایت اللہ خاں نہایت معززعہدہ دار تھا۔ اس کی ماں حافظہ مریم قابل اور تعلیم یافتہ تھی، زیب النساء جب پڑھنے کے قابل ہوئی تو اورنگ زیب نے اس کی تعلیم کے لئے حافظہ مریم کو مقرر کیا جس نےحسب دستور سب سے پہلے قرآن مجید کی تعلیم دی، 2 زیب النساء نے قرآن مجید حفظ یاد کیا۔ جس کے صلہ میں اورنگ زیب نے تیس ہزار اشرفی انعام میں دی۔ 3 تمام تاریخیں اور تذکرے متفق اللفظ ہیں کہ زیب النساء نے عربی اور فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل تھی۔ اوربڑے بڑے علما و فضلا اس کی خدمت میں رہتے تھے، لیکن اس کے اساتذہ میں سب سے زیادہ مقرب اور باریاب ملا سعید اشرف ماژندرانی تھے جو ملا سعید تقی مجلسی کے نواسے تھے۔ عالمگیر کے آغاز جلوس میں ایران سے آئے اور عالمگیر نے ان کو زیب النساء کی تعلیم کے لئے مقرر کیا۔ 4 اس وقت زیب النساء کی عمر تقریبا اکیس برس کی تھی۔ اس سے قیاس ہوسکتا ہے کہ تیموریوں میں مستورات کی تعلیم کا سلسلہ کس قدر ممتد ہوتا تھا۔ زیب النسا نظم و نثر میں ملا سعید ہی سے اصلاح لیتی تھی۔
ملا اشرف شاعر بھی تھے اور شاعری ہی کے وصف سے مشہور ہیں۔ قریبا ۱۳۔۱۴ برس وہ تعلیم کے تعلق سے زیب النساء کی خدمت میں رہے۔ ۱۰۸۳ ہجری میں وطن جانا چاہا۔ زیب النساء کی خدمت میں ایک قصیدہ لکھ کرپیش کیا جس میں رخصت کی درخواست کو اس طرح ادا کیا تھا۔
یک بار از وطن نتواں برگرفت دل
درغربتم اگرچہ فزوں ست اعتبار
ایں پیش و قرب و بعد تفاوت نمی کند
گو خدمت حضور بنا شد مر اشعار
نسبت چو باطنی ست چہ دہلی چہ اصفہان
دل پیش تست من چہ بہ کابل چہ قندہار 5
زیب النساء نے جس قسم کی تعلیم پائی تھی اور خود اس کا مذاق طبیعت جس قسم کا واقع ہوا تھا، اس کے لحاظ سے وہ پالیٹکس سے بالکل نا آشنا تھی تاہم عالمگیر کے پرپیچ عہد حکومت میں وہ بھی اس بدنامی سے نہ بچ سکی۔ ۱۰۹۱ ھ میں راجپوتوں نے جب عام بغاوت کی اور عالمگیر نے ان کے دبانے کے لئے شہزادہ اکبر کو فوج گراں دے کر جودھ پور کی طرف روانہ کیا تو راجپوتوں کے بہکانے سے شہزادہ خود باغی ہوگیا۔ اور عالمگیر کے مقابلے کو بڑھا۔ زیب النساء اور شہزادہ اکبر حقیقی بھائی بہن تھے۔ دونوں میں خط و کتابت بھی تھی۔ یہ خطوط پکڑے گئے اور عالمگیر نے اس کے انتقام میں زیب النساء کی تنخواہ جو چار لاکھ سالانہ تھی بند کردی۔ اس کے ساتھ تمام مال و متاع ضبط کر لیا گیا اور قلعہ سلیم گڑھ میں رہنے کا حکم ہوا 6لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد اس کی بے گناہی ثابت ہوئی اور عفو قصور کر دیا گیا کیونکہ ۱۰۹۴ ھ میں جب حمیدہ بانو بیگم (والدہ روح اللہ خاں) نے انتقال کیا، تو رسم تعزیت ادا کرنے کے لئے عالمگیر نے زیب النساء کو روح اللہ کے گھر بھیجا۔ اسی سن میں جب شہزادہ کام بخش (عالمگیر کا سب سے چھوٹا بیٹا) 7 کی شادی ہوئی تو تقریب کی رسمیں زیب النساء ہی کے محل میں ہوئیں اور عالمگیر کے حکم سے تمام ارکان دربار زیب النساء کی ڈیوڑھی تک پا پیادہ گئے۔
زیب النساء نے شادی نہیں کی۔ عام طور پر مشہور ہے کہ سلاطین تیموریہ لڑکیوں کی شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اس غلط روایت کو یورپین مصنفوں نے بہت شہرت دی ہے اور اس سے ان کو شاہی بیگمات کی بدنامی پھیلانے میں بہت مدد ملی ہے، لیکن یہ قصہ ہی سرے سے بے بنیاد ہے۔ خود عالمگیر کی دوبیٹیاں زبدۃ النساء بیگم اور مہرالنساء بیگم سپہر شکوہ اور ایزد بخش (پسرشہزادہ مراد) سے بیاہی تھیں۔ چنانچہ ماثرعالمگیری میں دونوں شادیوں کی تاریخیں اورمختصر حالات لکھے ہیں اور خاتمہ کتاب میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ عالمگیر زیب النساء کی نہایت عزت کرتا تھا۔ جب وہ کہیں باہر سے آتی تھی تو اس کے استقبال کے لئے شہزادوں کو بھیجتا تھا۔ سفر و حضر میں اس کو ساتھ رکھتا تھا۔ کشمیر کے دشوار سفر میں بھی وہ ساتھ تھی۔ لیکن جب عالمگیر دکن گیا تو اس نے غالبا ًعلمی زندگی کی وجہ سے پائے تخت کو چھوڑنا مناسب نہ سمجھا، اس کی چھوٹی بہن زینت النساء عالمگیر کے ساتھ آگئی چنانچہ اس کا نام بار بار واقعات میں آتا ہے۔ زیب النساء نے دلی میں قیام کیا اور وہیں پیوند زمین ہوئی۔ زیب النساء نے ۱۱۱۰ ہجری میں جو عالمگیر کی حکومت کا اڑتالیسواں ساتھ تھا، دلی میں انتقال کیا۔ ادخلی جنتی مادہ تاریخ ہے۔
عالمگیر اس زمانے میں دکن کی فتوحات میں مصروف تھا۔ یہ خبر سن کر سخت غمزدہ ہوا۔ بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکلے اور باوجود انتہا درجہ کے استقلال مزاج کے صبر کی تا ب نہ لاسکا۔ سید امجد خاں، شیخ عطاء اللہ اور حافظ خان کے کے نام حکم صادر ہوا کہ اس کے ایصال ثواب کے لئے زکوۃ و خیرات دیں۔ اور مرحومہ کا مقبرہ تیار کرائیں۔ 8 خانی خان نسخہ مطبوعہ کلکتہ میں زیب النساء کا نام اور اس کے واقعات ۱۱۲۲ ہجری تک آتے ہیں۔ لیکن یہ صریح غلطی ہے۔ کاتبوں نے غلطی سے زینت النساء کو زیب النساء سے بدل دیا ہے۔
کمالات علمی اور عام اخلاق و عادات
تمام مؤرخین نے بہ تصریح لکھا ہے کہ زیب النساء علوم عربیہ اور فارسی زبان دانی میں کمال رکھتی تھی۔ نستعلیق، نسخ اورشکستہ خط نہایت عمدہ لکھتی تھی۔ لیکن اس کی تصنیفات سے آج کوئی چیز موجود نہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی۔ اور دیوان مخفی جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے اسی کا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرہ میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔ مولوی غلام علی آزاد ید بیضا میں لکھتے ہیں۔ ایں دو بیت از نام او مسموع شدہ۔ پھر دو شعر نقل کئے ہیں۔ اس کا دیوان ہوتا تو صرف دو شعر کا ذکر کیوں کرتے۔ مخزن الغرائب ایک تذکرہ ہے جو احمد علی سندیلوی کی تصنیف ہے۔ مصنف نے نہایت کثرت سے فارسی تذکرے بہم پہنچائے ہیں۔ اور ان سے حالات اور اشعار انتخاب کئے ہیں۔ زیب النساء کے حال میں لکھتے ہیں، ’’اما دیوان اشعارش جائے بہ نظر نیامدہ۔ مگر در تذکرہ انتخابش بہ نظر آمدہ لیکن اعتبار را تشاید۔ سبب آنکہ شعر اساتذہ صاحب آں تذکرہ بنام بیگم نوشتہ بود۔‘‘
اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ وہ شاعر تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کلام ضائع ہوگیا۔ اسی تذکرہ میں ملا سعید اشرف کے حال میں لکھا ہے کہ زیب النساء کی بیاض خاص ایک خواص کے ہاتھ سے جس کا نام ارادت فہم تھا، حوض میں گر پڑی۔ چنانچہ سعید اشرف نے اس پر ایک قصہ لکھا جو آگے آئے گا۔ غالبا ًیہ اشعار کی بیاض ہوگی۔ تذکروں میں یہ دو شعر زیب النساء کے نام سے منقول ہیں۔
بشکند دستے کہ خم در گردن یارے نشد
کور بہ چشمے کہ لذت گیر دیدارے نشد
صد بہار آخر شد و ہر گل بہ فرقے جا گرفت
غنچہ باغ دل مازیب ِ دستارے نشد
زیب النساء کی تصنیفات و تالیفات سے زیب المنشات کا ذکر البتہ تذکروں میں آیا ہے۔ تذکرہ الغرائب کے مصنف نے لکھا ہے کہ میں نے اس کو دیکھا ہے، زیب النساء کے خطوط اور رقعات کا مجموعہ ہے۔
علم پروری
زیب النساء نے خود کوئی تصنیف کی ہو یا نہ کی ہو لیکن اس نے اپنی نگرانی میں اہل فن سے بہت سی عمدہ کتابیں تصنیف کرائیں۔ مولوی غلام علی آزاد ید بیضا میں لکھتے ہیں، ’’ہمت بہ ترقیہ حال ارباب فضل و کمال مصروف مے داشتہ۔ و جماعت کثیر از علما و شعرا و منشیان و خوشنویساں بہ سایہ قدردانی او آسودہ بودند و کتب و رسائل بنام او ہمت تالیف پذیرفتہ۔‘‘ زیب النساء کا دربار حقیقت میں ایک اکاڈمی (بیت العلوم) تھی۔ ہر فن کے علما اور فضلا نوکر تھے جو ہمیشہ تصنیف اور تالیف میں مصروف رہتے تھے۔ یہ کتابیں عموماً اس کے نام موسوم ہوتی تھیں یعنی ان کتابوں کے نام کا پہلا جز زیب کا لفظ ہوتا تھا۔ اس سے اکثر تذکرہ نویسوں کو دھوکہ ہوا ہے اور انہوں نے وہ کتابیں زیب النساء کی تصنیفات میں شمار کیں۔
زیب النسا نے جو کتابیں تصنیف کرائیں ان میں زیادہ قابل ذکر تفسیر کبیر کا ترجمہ ہے۔ یہ مسلم ہے کہ تفسیروں میں امام رازی کی تفسیر سے زیادہ جامع کوئی تفسیر نہیں۔ اس لئے زیب النسا نے ملا صفی الدین آردبیلی کو، جو کشمیر میں مقیم تھے، حکم دیا کہ اس کا فارسی میں ترجمہ کریں۔ چنانچہ اس کا نام زیب التفاسیر رکھا گیا۔ بعض تذکرہ نویسوں نے غلط لکھ دیا ہے کہ وہ زیب النساء کی مستقل تصنیف ہے۔
زیب النسا نے تصنیف و تالیف کا جو محکمہ قائم کیا تھا اس کے ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا ہونا بھی ضروری تھا۔ جس سے مصنفین فائدہ اٹھا سکیں۔ چنانچہ بیگم موصوف نے ایک نہایت عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا۔ مصنف ماثر عالمگیری کا بیان ہے 9 کہ اس کتب خانہ کی نظیر کسی کی نظر سے نہ گزری ہوگی۔ مصنف مذکور کے اصلی الفاظ یہ ہیں، ’’در سرکار علیہ کتاب خانہ گرد آمدہ بود کہ بہ نظر ہیچ یکے در نیامدہ باشد۔‘‘ زیب النسا کے حسن مذاق سے بڑا نفع یہ ہوا کہ عالمگیر کی خشک مزاجی نے جو نقصان پہنچایا تھا اس کی تلافی ہوگئی۔ یاد ہوگا کہ دربار میں ملک الشعراء کا عہدہ ابتدائے سلطنت سے چلا آتا تھا۔ جس پر فیضی، طالب، آملی، قدسی، کلیم مامور رہ چکے تھے۔ عالمگیر نے اس عہدہ کو موقوف کر دیا اور دفعتاً شعرا گویا بے خانماں ہوگئے۔ لیکن زیب النسا کی قدردانی نے پھر وہ دربار قائم کر دیا۔ مختلف تقریبوں پر شعرا قصیدے اور نظمیں لکھ کر پیش کرتے تھے اور گراں بہا انعام پاتے تھے۔ زیب النساء کی شعر دوستی کا یہ اثر ہوا کہ اہل سخن معمولی عرض معروض بھی شعر ہی میں کرتے تھے۔ اس قسم کے چند واقعات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اوپر ہم لکھ آئے ہیں کہ ارادت فہم نام ایک خواص کے ہاتھ سے زیب النساء کی بیاض خاص حوض میں گر پڑی تھی۔ اس جرم کی معافی کے لئے ملا سعید اشرف ماژندرانی نے یہ قطعہ لکھ کر پیش کیا۔
اے ادا فہمے کہ پیشت فاضلان عصر را
شستن مجموعہ اندیشہ باب افتادہ است
در خم افلاطون زیاد دانشت سرخوش بود
ہمچو مخمورے کہ در فکر شراب افتادہ است
گاہ گاہے گرز بے آدابی باد صبا
ازل گل روے عرقناتک نقاب افتادہ است
آب حسرت در دہان اختران گرویدہ است
آتش غیرت بہ جان آفتاب افتادہ است
ذہن صافت تا علم گردید در دانشوری
طبع افلاطون زبس دراضطراب افتادہ است
دفتر فرہنگ در چنگش مجزا گشتہ است
از کفش مجموعہ دانش در آب افتادہ است
عرض حالے ہست در خاطر کہ در اظہار آں
بند بندم موج سان در اضطراب افتادہ است
آں بیاض خاصہ شاہی کہ در اطراف آں
جائے افشاں نقطہائے انتخاب افتادہ است
آں مرصع خواں گہر ریزی کہ باشد جلوہ گر
دُر الفاظش بسے با آب و تاب افتادہ است
دوش از دست ارادت فہم خاکم در دہن
چوں بیاض سینہ ماہی در آب افتادہ است
نہ ہمیں از یاد معدن رفت لعل آبدار
گوہرغلطاں ہم از چشم سحاب افتادہ است
بحر شعر آبدارش تازہ طوفان کردہ است
کشتیش در چار موج اضطراب افتادہ است
گوئیا از سر بدر رفت ست آب جدولش
کایں چنیں گلزار اشعارش خراب افتادہ است
آہ ازیں غم در دل پیر و جواں پیچیدہ است
لرزہ زیں ہیبت بہ جانِ شیخ و شاب افتادہ است
بسکہ می بندند ہر یک بر گلوے دیگرے
گر بیاض گردنش خوانند تاب افتادہ است
من چہ گوئم کان چو مژگان خودش برگشت بخت
درتپ ایں غم چناں از خورد و خواب افتادہ است
زاں زماں بازار پریشان حالی و آشفتگی
ہمچو زلف خویشتن درپیچ و تاب افتادہ است
رفت رنگ آتشیں چوں شمع صبح از عارضش
ہمچو نبض موج اندر اضطراب افتادہ است
فیض بخشا زودتر پروانہ بخشائے
کاتشے دروئے چو شمع ازالتہاب افتادہ است
ورنہ 10 خواہی دید، یک دم دفتر افلاک را
از ہجوم گریہ اش یک سرخراب افتادہ است
نعمت خاں عالی اس زمانے کا مشہور شاعر تھا۔ ایک دفعہ اس نے ایک مرصع کلغی جو دستار پر لگاتے تھے، زیب النسا کی خدمت میں فروخت کے لئے پیش کی۔ زیب النسا نے رکھ لی۔ لیکن جیسا کہ درباروں کا معمول ہے، قیمت کے ملنے میں دیر ہوئی۔ نعمت خاں نے یہ رباعی لکھ کر بھیجی۔
اے بند گیت سعادت اختر من
درخدمت تو عیاں شدہ جوہر من
گر جیغہ خریدنی ست پس کوز رمن
در نیست خریدنی بزن بر سر من
(اگر خریدنا ہے تو دام دلوایئے اور نہ خریدنا ہو تو میرے سر ماریئے) بیگم نے پانچ ہزار روپے دلوائے اور کلغی واپس کردی۔ 11
ملا سعید اشرف جو زیب النساء کا استاد تھا، اور زیب النسا اسی سے نظم و نثر میں اصلاح لیتی تھی، بڑے پایہ کا شاعر تھا۔ تمام تذکروں میں اس کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ بیگم اس کو بہت عزیز رکھتی تھی۔ ایک دفعہ اس نے ایک لونڈی ملا صاحب کے پاس بھیجی کہ اس کو خدمت میں رکھئے۔ کنیز ملا صاحب کے مذاق کے موافق نہ تھی۔ ایک طول طویل قطعہ اس کی ہجو میں لکھ کر بیگم کو بھیجا۔ آغاز کا شعر یہ تھا۔
قدر دانشور شناسا نور چشم عالما
ایکہ ہرگز قدرت ہم چشمیت حور انداشت
مولوی غلام علی آزاد نے صرف یہی ایک شعر نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس میں قاب قوسین او ادنی کا قافیہ فحش موقع پراستعمال کیا تھا۔ لیکن یہ نہایت تعجب کی بات ہے۔ زیب النسا تو زاہدانہ مذاق رکھتی تھی۔ شاہی بیگمات کے دربار میں عموماً کسی کو اس قسم کی بے اعتدالی کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔ جہاں آرا بیگم (زیب النسا کی پھوپھی) ایک دفعہ باغ کی سیر کو نکلی۔ ہر طرف پردہ کرا دیا گیا۔ میر صیدی طہرانی ایک مشہور شاعر تھا۔ وہ کسی حجرہ میں چھپ کر سواری کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ بیگم کا ہاتھی پاس سے گزرا تو بے ساختہ صیدی نے یہ مطلع پڑھا۔
برقع بہ رخ افگندہ برد ناز بہ باغش
تا نگہت گل بیختہ آید بہ دماغش
(باغ میں برق پہن کر اس لئے جاتی ہیں کہ پھول کی خوشبو چھن کر دماغ میں آئے۔) بیگم نے حکم دیا کہ شاعر کو کشاں کشاں سامنے لائیں۔ بیگم نے بار بار مطلع پڑھوا کر سنا اور پانچ ہزار روپے دلوا دیئے۔ لیکن ساتھ ہی حکم دیا کہ شہر سے نکال دیا جائے۔ 12 (یعنی یہ گستاخی کیوں کی) اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ بیگمات کے لئے کس قسم کے آداب مقرر تھے۔
اخلاق و عادات
زیب النسا اگرچہ درویشانہ اور منصفانہ مذاق رکھتی تھی، تاہم شاہجہاں کی پوتی تھی۔ اس لئے نفاست پسندی اور امارت کے سامان بھی لازمی تھے۔ عنایت اللہ خاں جو امرائے عالمگیری میں مقرب خاص تھا، زیب النسا کا میر خانساماں تھا۔ 13 کشمیر میں جا بجا خوشگوار اورخوش منظر چشمے ہیں۔ ان میں سے ایک چشمہ جس کا نام احول تھا، زیب النسا کی جاگیر میں تھا۔ زیب النسا نے اس کے متصل ایک نہایت پر تکلف باغ اور شاہانہ عمارتیں تیار کرائی تھیں۔ چنانچہ عالمگیر جب ۱۰۷۳ میں کشمیر کے سفر کو گیا ہے تو اس مقام پر ایک دن قیام کیا اور زیب النسا نے قاعدے کے موافق نذر پیش کی اور روپے نچھاور کئے۔ 14 ۱۰۹۰ ہجری میں ابرک کا ایک بڑا خیمہ تیار کرایا تھا۔ جو تمام تر شیشہ معلوم ہوتا تھا۔ نعمت خاں عالی نے اس کی تعریف میں ایک چھوٹی سی مثنوی لکھی۔ جس کے چند اشعار حسب ذیل ہیں۔
ازاں خرگاہ طلقش چشم بد دور
کہ شد از جلوہ اش نور علی نور
تعالی اللہ چہ روشن بارگاہے
کدورت را در ینج انیست راہے
زنورش گشتہ خیرہ چشم کوکب
کمینہ خانہ زادش ماہ نخشب
فروغش گرچنیں دارد جہاں تاب
کسے شب را نخواہد دید در خواب
چو عاجز گشت نطقم از ثنایش
شدم جویائے تاریخ بنایش
پے تاریخ آں گفتار زمانہ
برد زنگ دلم آئینہ خانہ
بھائیوں سے نہایت محبت رکھتی تھی۔ ۱۱۰۵ ہجری میں جب اعظم شاہ مرض استسقا میں سخت بیمار ہوا تو زیب النسا نے اس کی تیمارداری اس محبت سے کی کہ تمام ایام مرض تک اس پرہیزی غذا کے سوا جو خود شہزادہ کھاتا تھا، کوئی اورغذا نہیں کھائی۔ محمد اکبر جس زمانے میں عالمگیر سے باغی ہو کر راجپوتوں سے مل گیا ہے، اس زمانے میں بھی زیب النسا نے اس سے برادرانہ راہ و رسم اور خط و کتابت ترک نہ کی۔ جس کے صلے میں اس کی تنخواہ اور جاگیر ضبط ہوگئی۔ 15
زیب النسا کے متعلق جھوٹے قصے
زیب النسا کے متعلق متعدد جھوٹے قصے مشہور ہوگئے ہیں جن کو یورپین مصنفوں نے اور زیادہ آب و رنگ دیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ زیب النسا اور عاقل خاں سے عاشقی اور معشوقی کا تعلق تھا اور زیب النسا اس کو چوری چھپے سے محل میں بلایا کرتی تھی۔ ایک دن عالمگیر محل میں موجود تھا کہ اس کو پتہ لگا کہ عاقل خاں محل میں ہے اور حمام کی دیگ میں چھپا دیا گیا ہے۔ عالمگیر نے انجان بن کر اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کا حکم دیا۔ عاقل خاں نے اخفائے راز کے لحاظ سے دم نہ مارا اور جل کر رہ گیا۔ مرنے کے وقت یہ مطلع کہا تھا۔
بعد مردن زجفائے تو اگر یاد کنم
از کفن دست برون آرم و فریاد کنم
عاقل خاں کا مفصل تذکرہ مآثر الامرا میں موجود ہے اور چونکہ شاعر تھا، تمام تذکروں میں بھی اس کے حالات مذکور ہیں۔ لیکن اس واقعہ کا کہیں نام و نشان نہیں۔ جن کتابوں میں اس کا حال مل سکتا تھا اور جو مستند اور معتبر خیال کی جاتی ہیں حسب ذیل ہیں۔ عالمگیرنامہ، مآثر عالمگیری، مآثر الامرا، تذکرہ سرخوش، خزانہ عامرہ، سرو آزاد، ید بیضا۔ ان کتابوں میں ایک حرف بھی اس واقعہ کے متعلق موجود نہیں حالانکہ اس کی وفات کا تذکرہ سب نے لکھا ہے جو ۱۱۰۷ ہجری واقع ہوئی۔ دوسرا واقعہ یہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ زیب النسا نے یہ مصرع کہا، از ہم نمی شود ز حلاوت جدا لبم۔ چاہتی تھی کہ مطلع ہو جائے لیکن دوسرا مصرع اس کی جوڑ کا موزوں نہیں ہوتا تھا۔ ناصرعلی کے پاس مصرع لکھ کر بھیجا۔ اس نے برجستہ کہا،
از ہم نمی شود زحلاوت جدا لبم
شاید رسید بر لبِ زیب النسا لبم
لیکن جو شخص تیموریوں کے جاہ و جلال اور آداب و آئین سے واقف ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ بیچارے ناصرعلی کو خواب میں بھی اس گستاخی کی جرأت نہیں ہو سکتی تھی۔
حاشیے
(۱) مآثر الامرا، جلد دوم صفحہ ۶۷۱،۶۷۰
(۲) مآثر الامرا، جلد دوم، صفحہ ۸۲۸
(۳) مآثر عالمگیری، صفحہ ۵۳۸
(۴) سرو آزاد، تذکرہ ملااشرف
(۵) سرو آزاد، تذکرہ ملا اشرف ماژندرانی
(۶) مآثر عالمگیری، صفحہ ۳۰۴
(۷) مآثر عالمگیری، صفحہ ۲۲۵
(۸) صفحہ عالمگیری، صفحہ ۲۶۲
(۹) مآثر عالمگیری، صفحہ ۵۳۹
(۱۰) یہ تمام اشعار تذکرہ مجمع الغرائب اشرف سعید کے حالات میں نقل کئے ہیں۔
(۱۱) خزانہ عامرہ، تذکرہ نعمت خاں علی۔
(۱۲) خزانہ عامرہ، ذکر صیدی طہرانی
(۱۳) مآثر الامرا، جلد دوم، تذکرہ عنایت اللہ خاں، صفحہ ۸۲۸
(۱۴) عالمگیرنامہ، مطبوعہ کلکتہ۔ صفحہ ۸۳۶
(۱۵) مآثر الامرا، جلد اول، صفحہ ۵۹۹، مآثرعالمگیری میں زیب النسا کی بجائے زینت النسا کا نام لکھا ہے، لیکن یہ وہی لفظی اشتباہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.