حیات لکھنوی
غزل 11
نظم 2
اشعار 8
یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اب دلوں میں کوئی گنجائش نہیں ملتی حیاتؔ
بس کتابوں میں لکھا حرف وفا رہ جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
چہرے کو تیرے دیکھ کے خاموش ہو گیا
ایسا نہیں سوال ترا لا جواب تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سلسلہ خوابوں کا سب یونہی دھرا رہ جائے گا
ایک دن بستر پہ کوئی جاگتا رہ جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 1
وہم_و_گماں میں بھی کہاں یہ انقلاب تھا جو کچھ بھی آج تک نظر آیا وہ خواب تھا پائے_مراد پا کے وہ بے_حال ہو گیا منزل بہت حسین تھی رستہ خراب تھا چہرے کو تیرے دیکھ کے خاموش ہو گیا ایسا نہیں سوال ترا لا_جواب تھا اس کے پروں میں قوت پرواز تھی مگر ان موسموں کا اپنا بھی کوئی حساب تھا آنکھوں میں زندگی کی طرح آ بسا ہے وہ میری نظر میں پہلے جو منظر خراب تھا جیسے ہوا کا جھونکا تھا آ کر گزر گیا وہ شخص اس کے بعد کہاں دستیاب تھا سارا کلام اس سے معنون ہوا حیاتؔ جس کا وجود خود بھی مکمل کتاب تھا