کشور ناہید کے دوہے
سوت کے کچے دھاگے جیسے رشتے پر اتراؤں
ساجن ہاتھ بھی چھو لیں تو میں پھول گلاب بن جاؤں
میں بہری تھی کاگا بولا سن نہ سکی سندیش
دل کہتا ہے کل آئیں گے پیا بدل کے بھیس
تکیہ بھیگا سانس بھی ڈوبی مرجھائی ہر آس
دل کو راہ پہ لانے کی ہر آس بنی سنیاس
ٹھنڈی رات اور ٹھنڈا بستر سکھی ری کانٹے آئے
لوگ کہیں جو دکھ سانجھے ہوں دل ہلکا ہو جائے
تپتے لمحے دہکتے چہرے سب کچھ دھیان میں لاؤں
پتی پتی چاہے توڑوں دل کا بوجھ ہٹاؤں
پریم کیا اور ساتھ نہ چھوٹا کیسے تھے وہ لوگ
ہم نے پیاروں کا اب تک دیکھا نہ سنجوگ
آنکھ کی پتلی سب کچھ دیکھے دیکھے نہ اپنی ذات
اجلا دھاگا میلا ہووے لگیں جو میلے ہات