Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسد اعوان کے اشعار

220
Favorite

باعتبار

ہم بھی غالبؔ کی طرح کوچۂ جاناں سے اسدؔ

نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے

خود بخود چھوڑ گئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا

اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے

عمر بھر ماں کی نصیحت پہ زمانے میں اسدؔ

فاطمہ زہرا کے بچوں سے وفاداری کی

ہم بھی غالبؔ کی طرح کوچۂ جاناں سے اسدؔ

نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے

یوسف کے لیے ہیں سر بازار اکٹھے

قسمت سے ہوئے آج خریدار اکٹھے

اس محبت نے ہمیں جوڑ دیا آپس میں

ورنہ ہم دونوں کا اک جیسا عقیدہ تو نہ تھا

آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں

آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے

جو اپنے زعم میں رہتے ہیں ایسے لوگوں کو

نظر میں رکھتے ہیں دل سے اتار دیتے ہیں

اک نئی طرز کا کردار دیا جائے گا

اس کہانی میں مجھے مار دیا جائے گا

بچ بچ کے تیری راہ سے چلنا تو تھا مجھے

تو جو بدل گیا ہے بدلنا تو تھا مجھے

وسوسے ڈستے رہے عشق میں سانپوں کی طرح

بے عصا راہ خطرناک پہ دن گزرے ہیں

تشنگی ہے مری آنکھوں میں اسے ملنے کی

پیکر یار کا بھی چاہ ذقن کھینچتا ہے

غالبؔ کے مرتبے سے یہ واقف نہیں اسدؔ

یہ بد لحاظ نسل ہے عہد جدید کی

ظلم تو یہ ہے کہ ازبر نہ رہے غربت میں

ایک حافظ سے جوانی کی حفاظت نہ ہوئی

ژالہ باری بھی رہی دھوپ بھی تھی بارش بھی

تیری یادوں کے علاقے میں یہ منظر دیکھے

لب پہ اک حرف تمنا ہے گدائی تو نہیں

یہ مری اپنی کمائی ہے پرائی تو نہیں

ضبط کے شہر سے نکلا ہے جو لشکر لے کر

دشت حیرت کی کڑی دھوپ میں جلتا جائے

چپ چاپ اپنے یار کی دہلیز پر مرے

دنیا کہے گی ہم بھی کسی چیز پر مرے

گزر نہ جائے یہ موسم بسنت کا موسم

بنفشہ پھول کھلے ہر طرف زمیں کے لیے

ٹوٹا ہوا وجود ہے ٹوٹا ہوا ہے جسم

میرا تو مہ جبینوں نے لوٹا ہوا ہے جسم

کوئی تو دیکھے مری بے بسی محبت میں

میں آپ اپنی جہاں میں ہنسی اڑاتا پھروں

ذاکر آل محمدؐ ہے تو منبر پہ اسدؔ

ابن مرجانہ کے جیسا یہ لبادہ کیسا

دونوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہمیں اسدؔ

پردہ نشیں بھی تھے کئی مسند نشیں بھی تھے

سارے مرتے ہیں اسی ایک پری چہرے پر

ہم بھی ان گلیوں میں بے کار سے ہو آتے ہیں

قافلے والوں کو کھا جائے گی یہ سست روی

ساربانوں کو سبک خیز کریں چلتے چلیں

راستہ صاف نظر آتا ہے راہی تو نہیں

کچھ کہو راہ محبت میں تباہی تو نہیں

ثبوت آج بھی میری کتاب میں ہے اسدؔ

وہ ایک رقعہ ترا تیرے دستخط کے ساتھ

زخم سینے پہ ہوئے اتنے کہ سینے سے رہے

ہم ترے ہجر میں جیتے ہیں تو جینے سے رہے

نت نیا تو نے زمانے میں خریدا بدلا

تیرے کہنے پہ کہاں ہم نے عقیدہ بدلا

پنبہ در گوش سمجھتے ہیں کہیں ہم کو اسدؔ

اونچی آواز میں جو شعلہ فشاں بولتے ہیں

صرف اک تیری نگاہوں کا چنیدہ تو نہ تھا

میں سبھی کا تھا مجھے تو نے خریدا تو نہ تھا

طیور حسن بھی کل تک قفس میں ہوں گے اسدؔ

کہ ہم نے دیکھے ہیں دانے قریب جالوں کے

مری نگاہ رہے صرف روئے قاتل پر

گلوں پہ خنجر بے آبدار چلتا رہے

حیرت ہے آج چشم زمانہ شناس میں

دیکھا گیا ہے اس کو غزل کے لباس میں

ڈوب جائے نہ کہیں زور تلاطم میں اسدؔ

اک نظر شاہ امم میرے سفینے کی طرف

Recitation

بولیے