- کتاب فہرست 180323
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب773 تحریکات280 ناول4033 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1389
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل926
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1486
- کہہ مکرنی6
- کلیات636
- ماہیہ18
- مجموعہ4446
- مرثیہ358
- مثنوی766
- مسدس51
- نعت490
- نظم1121
- دیگر63
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
دیوندر ستیارتھی کے افسانے
نئے دیوتا
ترقی پسند ادیب نفاست حسن نے اپنے گھر کچھ ہم خیال ادیبوں کی محفل جمع کی ہے۔ نفاست حسن جس محکمے میں نوکری کرتے ہیں وہ محکمہ ان کے اصولوں کے برعکس ہے۔ کھانے کے دوران ادب پر بات شروع ہوتی ہے۔ مہمانوں میں شامل ایک ادیب انگریزی مصنف سمرسیٹ مام کو اپنا پسندیدہ ادیب بتاتے ہیں۔ میزبان بھی سمر سیٹ مام سے اپنی دیوانگی کا اظہار کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان اس بات کو لے کر کچھ نوک جھونک شروع ہوتی ہے اور اس بحث میں سمرسیٹ مام ان کا نیا دیوتا بن کر سامنے آتا ہے۔
برہمچاری
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو امرناتھ یاترا پر نکلے ایک جتھے میں شامل ہے۔ اس جتھے میں جے چند، اس کا کلرک جیا لال، دو گھوڑے والے اور ایک لرکی سورج کماری بھی شامل ہے۔ چلتے ہوئے گھوڑے والے گیت گاتے ہیں اور انکے گیت سن کر لڑکی مسکراتی رہتی ہے۔ جتھے میں شامل یاتری سوچتا ہے کہ لڑکی اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہے کہ اچانک اسے یاد آتا ہے کہ وہ تو برہمچاری ہے۔ اسی تانے بانے سے یہ دلچسپ کہانی بنی گئی ہے۔
رفوگر
یہ شعری اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے۔ اس میں ہندوستان کی تہذیب، رہن سہن، رسم و رواج اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس رفوگر کی بھی کہانی ہے جو بتاتا رہتا ہے کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے، کس لیے کر رہا ہے۔ یہ کہانی اپنے موضوع اور اسلوب کو لے کر ایک الگ، نیے اور خوبصورت تجربے کا احساس کراتی ہے۔
مندر والی گلی
ایک ایسے شخص کی کہانی جو بنارس گھومنے جاتا ہے۔ وہاں وہ ایک بیوپاری کے گھر رکتا ہے۔ شہر گھومتے ہوئے اسے مندر والی گلی بہت زیادہ پسند آتی ہے۔ اس گلی سے اس کا لگاو دیکھ کر بیوپاری اس کے رہنے کا انتظام مندر والی گلی میں ہی کرتا ہے مگر وہ انکار کر دیتا ہے۔ پچیس سال بعد وہ پھر بنارس لوٹتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس بیوپاری کی نئی نسل اسی مندر والی گلی میں رہ رہی ہوتی ہے۔
جلوس
یہ کہانی سرسوتی دیوی کے ایک جلوس کے گرد گھومتی ہے جو ہر سال شہر میں نکلتا ہے۔ جلوس میں سجے ہوئے ہاتھی، گھوڑسوار اور پیادے سبھی شامل ہیں۔ جلوس شہر میں جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے کہانی قدیم تاریخ، تہذیب، بودھ مذہب، سلاطین کا دور، نواب شاہی اور اس میں طوائفوں کے کردار کو بیان کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔
سلام لاہور
یہ خود نوشت اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں مصنف نے اپنے لاہور سفر کی تفصیل بیان کی ہے۔ چار ماہ کے اس سفر میں مصنف نے کراچی اور لاہور کی سبھی گلیوں کو دیکھا، وہاں کے ادیبوں شاعروں سے ملاقات کی تفصیل ہے۔ واپسی میں جب گاڑی نے واگھا سرحد پار کیا تو اسے ایسا لگا جیسے وہ ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہو رہا ہے۔ اسے ایک لمحے کے لیے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہندوستان پاکستان دو الگ ملک ہیں۔
پیرس کا آدمی
یہ ایک ایسی نفسیاتی کہانی ہے کہ اسے جتنی بار پڑھا جائے ہر بار اس میں ایک نئی بات نکل کر سامنے آتی ہے۔ ایک شخص جو پیرس سے بھارت آیا ہوا ہے، وہ کچھ عرصہ بنارس میں رہتا ہے اور پھر دلی آ جاتا ہے۔ وہ اپنی ساتھی کے ساتھ بیٹھا فرانس وہاں کی سیاست، انقلاب اور نظریات کو لے کر باتیں کرتا ہے۔ اس بات چیت میں وہ بہت سی ایسی باتیں بتاتا ہے کہ شاید ہی اس سے پہلے کسی نے سنی ہو۔ اس کہانی کو سمجھنے کے لیے آپ کو کہانی کے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہوگا۔
جنم بھومی
تقسیم ملک پر لکھی ایک کہانی۔ ہربنس پور ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کافی دیر سے رکی ہوئی ہے۔ ٹرین میں ہندوستان جانے والی سواریاں بھری ہوئی ہیں، انھیں میں ایک اسکول ماسٹر بھی ہے۔ ماسٹر کے ساتھ اس کی بیمار بیوی کے علاوہ ایک بیٹا، ایک بیٹی اور ایک دودھ پیتا بچہ ہے۔ بچے پیاسے ہیں، ماسٹر چاہ کر بھی انہیں پانی نہیں پلا سکتا کیونکہ پانی کا ایک گلاس چار روپے کا ہے۔ گاڑی چلنے کا نام نہیں لیتی، مسافر ہلکان و پریشان ہیں۔ ماسٹر کی بیوی کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے تو وہ اسکے ساتھ اسٹیشن پر اتر جاتا ہے، جہاں اس کی بیوی کی موت ہو جاتی ہے۔ ماسٹر اپنی بیوی کی لاش کو اسٹیشن پر چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے چلتی ٹرین میں سوار ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی ہے۔
تانگے والا
ایک تانگے والے کی کہانی جو، اپنی بیوی کو گوٹے کا دوپٹہ تو نہیں دلا سکا لیکن عید کے دن اپنی پسند کا ایک گھوڑا خرید لیا۔ اس کی بیوی مر گئی اور وہ اپنے گھوڑے کے ساتھ تنہا رہنے لگا۔ وہ اپنے گھوڑے سے بہت محبت کرتا تھا اور اس کا پورا خیال رکھتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس کی حالت خستہ ہوتی گئی اور وہ مفلوک الحال ہو گیا۔ اپنے دل کا حال وہ گھوڑے کو سناتا اور گھوڑا بھی یہ ظاہر کرتا کہ اسے اپنے مالک کا حال معلوم ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسے قرض کی قسط دینے کے لیے گھوڑے کے ساتھ ساتھ خود بھی فاقہ کرنا پڑا۔
نیل یکشنی
ایک اس بارپھر ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ چلو یونان، چلو یونان! فادر ٹائم نے یایاور کو سر سے پان59و تک دیکھا ’’کہانی تو کہیں سے بھی شروع ہوسکتی ہے۔‘‘ آچاریہ مہاشویتم بولے۔ یایاور کے اغل بغل میں مون سون اور مِس فوک لور۔ کتھا دوار پر کُھدے ان کے پیدائشی
خوشبو کی کوئی منزل نہیں
سکھ ونت کی زبان سے وہ بات ہزار بار سننے پر بھی ہمیشہ نئی معلوم ہوتی کہ تخلیق کے لمحے آوارہ تتلیوں کی طرح ہوتے ہیں، جو کبھی ایک پھول پر جا بیٹھتی ہیں، کبھی دوسرے پر یا یہ کہ گھوڑی اس وقت تک بوڑھی نہیں ہوتی جب تک گھوڑا بوڑھا نہیں ہوتا اور گھوڑا کبھی بوڑھا
قبروں کے بیچوں بیچ
قحط بنگال پر لکھی گئی ایک درد ناک کہانی۔ کمیونسٹ پارٹی کے نوجوانوں کا ایک گروہ پورے صوبے میں گھوم کر قحط سے مرنے والوں کے آنکڑے جمع کر رہا ہے۔ راستے میں بھوک سے مرنے والوں کی لاشیں اور دوسرے خوفناک منظر دیکھ کر ایک دوسرے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسے گاؤں میں پہنچتے ہیں جہاں صرف دس لوگ زندہ ہیں۔ نوجوانوں کا یہ گروہ ایک قبرستان میں پہنچتا ہے جہاں انھیں ایک بوڑھیا ملتی ہے۔ بوڑھیا کے سارے بیٹے مر چکے ہیں اور وہ قبر کھود کھود کر تھک گئی ہے۔ گروہ میں شامل گیتا بوڑھیا سے بات کرتی ہے اور واپس لوٹتے ہوئے اسے لگتا ہے کہ بوڑھیا کے بیٹے قبروں کے درمیان اس کے آگے چل رہے ہیں۔
ان دیوتا
قحط زدہ ایک گاؤں کی کہانی ہے۔ گاؤں کا رہنے والا چنتو اناج کے بارے میں ایک پورانک کہانی سناتا ہے کہ کیسے برہما نے اناج کو دھرتی کی طرٖف بھیجا تھا۔ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے ادھار لےکر کسی طرح اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔ گاؤں کے مکھیا اور منشی بھی غریبوں کو اناج بانٹتے ہیں۔ ان سب سے دکھی چنتو کہتا ہے کہ اناج اب امیروں کا ہو گیا ہے، وہ غریبوں کے پاس نہیں آئے گا۔ وہیں اس کی بیوی کو یقین ہے کہ بھلے ہی اناج امیروں کے پاس چلا گیا ہے لیکن ایک دن اسے اپنے گھر کی یاد ضرور آئےگی اور وہ واپس اپنے گھر (غریبوں کے پاس) ضرور آئے گا۔
ہرے رنگ کی گڑیا
میں نے اسے پہلے پہل ایک سرکاری دفتر میں دیکھا۔ وہ سبز رنگ کے لباس میں ملبوس تھی۔ میں اپنے پرانے دوست مٹو سے ملنے کے لیے ٹھیک گیارہ بجے پہنچا۔ وہ وہاں پہلے سے موجود تھی۔ مٹو نے اس سے میرا تعارف کرایا جب یہ پتہ چلا کہ وہ مصوری میں دلچسپی رکھتی ہے اور اِس
کتھا سرکس
ایک ہیلو لاہور، تیرے رنگ ہزار۔ میں کون؟ ماں کا دیو۔۔۔دیوگندھار۔ جھک گیا آسمان۔ ہم قربان! کتھا سرکس عرف صدیوں پہ پھیلا فاصلہ۔ سنت نگر، وشنو گلی، گھوڑا اسپتال کہاں کا؟ لاہور کا اور کہاں کا؟ سپنے میں دیکھا نیلا گنبد۔ دیوگندھار کا ایک نام امرت یان۔ سوکھے
ستلج پھر بپھرا
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کے ارد گرد گھومتی ہے جو ایسے وقت میں ستلج ندی دیکھنے آتی ہے جب ندی میں پانی کا بہاؤ پورے جوش میں ہوتا ہے۔ ندی کے اس جوش کو دیکھ کر گاؤں والے ندی کنارے جمع ہو جاتے ہیں اور اس پیر کا انتظار کرنے لگتے ہیں جس کے آتے ہی ستلج پرسکون ہو جاتی تھی۔ پیر کے آنے تک ستلج پوری طرح بپھر جاتی ہے۔ پیر ندی کنارے کھڑے ہو کر اسے پرسکون ہونے کی دعائیں کرتا ہے اور ستلج پرسکون واپس ہونے لگتی ہے لیکن ساتھ ہی پیر کو بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔
لال دھرتی
ہندو سماج میں عورتوں کے حیض کے ایام کو کسی بیماری کی طرح سمجھا جاتا ہے اور ان ایام میں انھیں گھر کے دیگر افراد سے الگ رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسے ہندوستانی سماج کی کہانی ہے جو حیض کو بیماری نہیں بلکہ نیک شگن مانتا ہے۔ ایک ایسے ہی جنوبی ہند کے ہندو خاندان کی کہانی ہے جس کی دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی کو پہلی بار ماہواری آنے پر پورا گھر کس طرح جشن مناتا ہے، یہ جاننے کے لیے کہانی کا مطالعہ ضروری ہے۔
لاوارث
کوچ بہار کے پلیٹ فارم پر گاڑی ایک چیخ کے ساتھ رُک گئی اور پری توش کھڑکی کے راستے جھٹ ایک ڈبے میں گھس گیا۔ نیچے سے سانیال اور بوس سب سامان اسے تھماتے چلے گئے اور بار بار تاکید کرتے رہے کہ وہ ایک پوری سیٹ پر قبضہ جما لے۔ سانیال ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا،
پریوں کی باتیں
میں اپنے دوست کے پاس بیٹھا تھا۔ اس وقت میرے دماغ میں سقراط کا ایک خیال چکر لگا رہا تھا۔۔۔قدرت نے ہمیں دو کان دیے ہیں اور دو آنکھیں مگر زبان صرف ایک تاکہ ہم بہت زیادہ سنیں اور دیکھیں اور بولیں کم، بہت کم! میں نے کہا، ’’آج کوئی افسانہ سناؤ، دوست!‘‘ وہ
کفن میں ایک سو ایک سال
(ایک) ناگ دیو مر گیا۔۔۔اب وہ لوٹ کر نہیں آئےگا۔ کل رات میں نے اس کی ارتھی دیکھی۔ سفید کفن میں رسیوں سے کس کر بندھا ہوا اس کا جسم ارتھی اٹھانے والوں کے کندھوں پر تیرتا ہوا نکل رہا تھا۔ میں ارتھی کے ساتھ نہ جا سکا۔ دماغ نے میرے جسم سے الگ ہوکر
راجدھانی کو پرنام
یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو شہر کے کنارے اپنے بابا کے ساتھ رہتا ہے اور ہر دوسرے تیسرے روز اپنے کھوئے ہوئے باپ کو تلاش کرنے شہر جاتا ہے۔ اسے بتایا گیا ہے کہ اس کا باپ بہت بڑا شاعر ہے اور شہر میں ہی کہیں رہتا ہے۔ ان دنوں آزادی کی چرچہ تھی وہ بھی آزادی کے سواگت میں بابا کے ساتھ اپنے گاؤں کا رخ کرتا ہے۔ گاؤں کے کنارے اسے لوگوں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ شہر سے کچھ بر سر اقتدر لوگ آئے ہیں جو راجدھانی کی توسیع کے لیے گاؤں کی زمین چاہتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ ان لوگوں میں اس کا گیت کار باپ بھی شامل ہے۔
کنگ پوش
اور سب پھول بہار میں کھلتے ہیں۔ مگر کیسر خزاں میں کھلتا ہے۔ وہ مٹیالی ابابیل، جو ابھی ابھی اس ٹیلے سے پنکھ پھیلاکر اڑگئی، شاید کیسر کے پھولوں کو جی بھر کر دیکھنے کے لیے ادھر آ بیٹھی تھی۔ کیا یہ دھرتی کبھی اتنی بانجھ ہو جائےگی کہ کیسر اگنا بند ہو جائے؟ کتنی
بٹائی کے دنوں میں
ظالم تبھی تک حملہ آور رہتا ہے جب تک آپ خاموش ظلم سہتے رہتے ہیں۔ سنتو دیوان صاحب کو فصل میں سے اس کا حصہ دینے سے منع کر دیتا ہے۔ سنتو جب حصہ نہ دینے کی بات کرتا ہے تو کچھ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہتا ہے۔ دھیرے دھیرے اور لوگ بھی اس مہم میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پورا گاؤں بنٹائی نہ دینے کے لیے متحد ہو جاتا ہے۔ گاؤں میں پولیس آتی ہے اور سنتو کو گرفتار کر کے لے جاتی ہے۔ پولس کی بے تحاشہ مار کے بعد بھی وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور کہتا رہتا ہے کہ بنٹائی کے دن گیے۔
نئے دھان سے پہلے
یہ کہانی ایک قحط زدہ خاتون کی ہے جو ایک وقت کے کھانے کے لیے لنگر کی لمبی قطار میں لگی ہے۔ اس کی گود میں سوکھے پاتھ پاؤں ا ور بڑے پیٹ والا اس کا بیٹا بھی ہے۔ بھوک سے تڑپتے وہ اپنے اس معصوم بچے کو جلد کھانا ملنے کی تسلی دیتی ہے اور اپنی اس کیفیت کے بارے میں سوچ بھی رہی ہے۔ جب قحط پڑا وہ حاملہ تھی۔ ان دنوں دیوتا، منشی افسران اور دوسرے لوگوں نے مل کر گاؤں کے لوگوں کو اس قدر لوٹا کہ ان کے پاس کھانے کے لیے دھان تو کیا بونے کے لیے بیج بھی نہیں بچا تھا۔
بھینٹ
چاند کی نکھری ہوئی چاندنی میں صاف و شفاف ندی کے کنارے اپنی تمام روایتوں اور عظمتوں کا حامل پیگوڈا کھڑا تھا۔ اس کی مخروطی چھت کسی ہادئ برحق کی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی انگلی کی طرح یہ دکھاتی ہوئی معلوم ہوتی تھی کہ یہ ہے صداقت کی راہ اور یہی ہے گیان کی منزل۔
تلافی
وہ ایک لمحہ کے لیے رکا اور ایک مٹھی چاول ہوا میں اچھالتے ہوئے لاپرواہی سے آگے بڑھ گیا۔ غار سے چلتے وقت اس نے اکیس مٹھی چاول ہوا میں اچھالنے کی رسم پوری کر دی تھی اور اکیس بار چاول کی شراب کی بوندیں دھرتی پر گرا دی تھیں۔ اب ان مردود سپاہیوں کی روحیں اس
شبنما
بتیاں جل چکی ہیں۔ چکلے میں رات ذرا پہلے ہی اتر آتی ہے۔ شبنما ایک چالیس بیالیس برس کی عورت اپنے گال رنگ کر، ہونٹ رنگ کر کرسی پر آ بیٹھی ہے۔ دھیرے دھیرے اس کے ہونٹ ہلتے ہیں، کچھ نہ کچھ گنگنا رہی ہوگی۔ بیاہ میں کیا دھرا تھا؟ یہاں تو روز بیاہ ہوتا ہے نئے
فاختہ کی چونچ میں دانہ
یوں مجھے کالی ناتھ سے پوری ہمدردی ہے۔ اس کی سوجھ بوجھ کا میں قائل ہوں۔ اس کی ذہانت کا سکہ ماننے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ باہر والوں میں جو افسانہ نگار کالی ناتھ کو پسند ہیں وہ مجھے بھی کچھ کم پسند نہیں۔ اسی لیے تو مجھے کبھی اس کی بات کاٹنے کی ضرورت
اور بنسری بجتی رہی
یہ قدرت کے حسن اور دنیا میں بسنے والے جانداروں کے مزاج کو بیان کرنے والی کہانی ہے۔ جنگل میں ایک بوڑھے برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھا اہیر بانسری بجا رہا ہے۔ اس کی بانسری کی تان سن کر سبھی چرند و پرند جھومنے لگتے ہیں۔ سانپ بھی اپنے بل سے نکل آتا ہے اور بانسری کی دھن پر ناچنے لگتا ہے۔ دور کھیت میں ایک عورت کوئی گیت گاتی ہے اور بتاتی ہے کہ سانپ نے اس کی بہن کو ڈس لیا ہے۔ سانپ اس کی یہ بات سن کر اپنی مادہ کے مارے جانے کے خوف سے اہیر کو ڈس لیتا ہے۔ سانپ اپنے ساتھیوں کو اپنے وجود کو بچائے رکھنے کے لیے ایک مشورہ دیتا ہے، اس مشورے کو آگے چل کر انسان اپنا لیتا ہے۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-