ہری چند اختر کے قصے
کامیاب مشاعرہ؟
مسوری کے مشاعرے سے واپسی پر جگن ناتھ آزاد، ہری چند اختر، بسمل سعیدی ٹونکی کچھ اور شاعروں کے ساتھ سفر کررہے تھے۔ ہری چند اختر نے بات چیت کے دوران کہا، ’’مسوری کا مشاعرہ بہت بے کار رہا ہے۔‘‘ آزاد صاحب اظہار حیرت کرتے ہوئے بولے، ’’اخترؔ صاحب مشاعرہ تو
پنڈت جی کی غلط اردو
ہری چند اخترایک دن جوش صاحب سے ملنے گئے تو جاتے ہی پوچھا، ’’جناب آپ کے مزاج کیسے ہیں؟‘‘ جوش صاحب نے فرمایا، ‘‘پنڈت جی، آپ تو غلط اردو بولتے ہیں۔ آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں۔ جبکہ میرا تو صرف ایک ہی مزاج ہے، نہ کہ بہت سے مزاج۔‘‘ کچھ
یہ دل ہے، یہ جگر ہے، یہ کلیجہ
محترمہ بیگم حمیدہ سلطان صاحبہ جنرل سکریٹری انجمن ترقی اردو (دہلی) کے ہاں علی منزل میں ایک شعری نشست میں مرحوم حضرت نوح ناروی غزل سنارہے تھے۔ ردیف تھی ’کیا کیا‘ نوح صاحب نے اپنی مخصوص تحت اللفظ طرز ادا میں جب یہ مصرعہ پڑھا، یہ دل ہے، یہ جگر ہے، یہ
ڈرامے پر ڈرامہ
ڈاکٹر محمد دین تاثیرپرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کی فرمائش پر پنڈت ہری چند اخترنے اسلامیہ کالج کے طلبا کے لئے ایک ڈرامہ لکھا تھا۔ پنڈت جی نے وہ ڈرامہ بخاری صاحب کو دکھایا۔ بخاری صاحب نے اسے اول سے آخر تک پڑھ ڈالا اور انہیں ایسا پسند آیا کہ پنڈت جی سے کہنے
باغبانوں کی زبان
جوش ملیح آبادی اور پنڈت ہری چند اختر کے درمیان زبان کے مسئلے پر بحث چھڑ گئی۔ جوش صاحب کا رویہ بحث کے دوران میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا لیکن اخترصاحب بھی بے ڈھب قسم کے ادیب تھے۔ جب بحث نے طوالت پکڑی تو اختر صاحب نے فرمایا۔ ’’میں
بڑے شعر کی تعریف
چند ادب ذوق حضرات اردو کے ایک شاعر کی مدح سرائی کررہے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا:’’صاحب ان کی کیا بات ہے۔ بہت بڑے شاعر ہیں۔ اب توحکومت کے خرچ پر یورپ بھی ہو آئے ہیں۔‘‘ ہری چند اخترنے یہ بات سنی تو نہایت متانت سے کہا۔’’جناب اگر کسی دوسرے ملک میں جانے
اتفاق کے نقصانات
سالانہ امتحان میں مضمون کا موضوع تھا۔ ’’اتفاق‘‘ استاد نے طلباء کو بتا رکھا تھا کہ جب کسی چیز پر مضمون لکھنا ہو تو تین چیزوں کا خیال رکھو۔ (۱) تمہید، یعنی اس چیز کی وضاحت جس پر مضمون لکھنا ہو۔ (۲) فوائد، پھر اس کے فائدے بیان کرو۔ (۳) نقصانات،
مشق کاتب
پنڈت ہری چند اختر صاحب کا ایک دوست انہیں راستہ میں مل گیا اور کہنے لگا، ’’پنڈت جی، آپ کو دعوت نامہ تو مل گیا ہوگا۔ آئندہ ہفتے کے دن میرے بڑے لڑکے کی شادی ہوررہی ہے۔ آج اس کے سہرے کی کتابت کروانے کے لئے یہاں آیا تھا۔ اب اسے چھپوانے کے لئے پریس جارہا
ازار بند، کمر بند، دل بند اور دیوبند
علی گڑھ کے مشاعرے میں جب علامہ انور صابری دیوبندی کا نام پکارا گیا تو ہری چند اخترفرمانے لگے کہ ازاربند، کمربند، دل بند تو سنا تھا، یہ دیوبند کیا بلا ہے۔ پھر خود ہی انور صابری صاحب کے ڈیل ڈول کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ’’ہاں سمجھ گیا دیوبند کا نام اس لیے
خدا کے دووعدے
ایک محفل میں ایک شاعر نامدار کا ذکر آیا جو ان دنوں آل انڈیا ریڈیو پر اپنے آپ کو پوری طر ح مسلط سمجھتا تھا۔ پنڈت ہری چند اختر فرمانے لگے۔ صاحب، کس جاہل مطلق کا نام لے رہے ہو۔ گلزار دہلوی کہنے لگے پنڈت جی انہیں جاہل مطلق کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔؟ اس پر پنڈت جی
خواجہ دل محمد روڈ
خواجہ دل محمد دل اسلامیہ کالج لاہور میں حساب کے پروفیسر تھے۔ لاہور میونسپل کارپوریشن نے کالج کے پیچھے والی سڑک کا نام ان کے نام پر ’’خواجہ دل محمد روڈ‘‘ رکھ دیا تھا۔ ہری چند اختر ایک دن کچھ دوستوں کے ساتھ گزر رہے تھے۔ ان کی نظر سڑک پر لگے بورڈ پر گئی
اونٹ کی مینگنی
انور صابری لائل پور کے مشاعرے میں کلام پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ میری طبیعت علیل ہے، اس لیے میں آج صرف پانچ شعر ہی سناؤں گا۔ ہری چند اختر نے جو مشاعرے کی نظامت کررہے تھے، فرمایا، ’’حضرت، یہ تو ایسے لگے گا جیسے اونٹ مینگنیں دے رہا ہو۔‘‘ (