- کتاب فہرست 180666
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1867
طب776 تحریکات280 ناول4053 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1394
- دوہا65
- رزمیہ97
- شرح171
- گیت86
- غزل931
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1491
- کہہ مکرنی6
- کلیات638
- ماہیہ18
- مجموعہ4461
- مرثیہ358
- مثنوی767
- مسدس52
- نعت493
- نظم1122
- دیگر64
- پہیلی16
- قصیدہ174
- قوالی19
- قطعہ55
- رباعی273
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی26
- ترجمہ73
- واسوخت24
انتظار حسین کے اقوال
میری دِقّت یہ ہے کہ میں خلقت کے حافظہ کو محققوں کی تحقیق سے بڑی سچائی جانتا ہوں۔ خلقت کا حافظہ جھوٹ نہیں بولتا، اضافہ اور رنگ آمیزی البتہ کر دیتا ہے۔ اس عمل میں شکلیں مسخ نہیں ہوتیں، نکھر آتی ہیں۔
افسانے کا ربط اجتماعی تہذیب اور اس کے سرچشموں سے ٹوٹ جائے تو وہ اپنی نئی تکنیکوں کے ساتھ نٹ کا تماشا ہوتا ہے یا پھر اشتہار ہوتا ہے۔
قوم کی تخلیقی صلاحیتیں سلامت ہوں تو دوسرے کلچر کے مظاہر اگر دخل بھی پائیں تو قومی کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہماری تہذیبی سالمیت کے زمانے میں کرکٹ ہمارے یہاں راہ پاتی تو ہمارے کھیلوں میں ایک کھیل کا اضافہ ہوجاتا۔
اردو ادب کے حق میں دو چیزیں سب سے زیادہ مہلک ثابت ہوئیں۔ انسان دوستی اور کھدر کا کرتا۔
اب ہم اعداد و شمار کی دنیا میں رہتے ہیں۔ چیزوں کی حد بندیاں ہوگئی ہیں۔ ہمارے ارد گرد تہذیب کی سرحد کھنچ گئی ہے۔ ریڈیو اور اخبارات اس سرحد کے نگہبان ہیں، ان کا یہ کام ہے کہ کوئی خبر افسانہ بننے لگے تو تردیدی بیان شائع کر دیں۔
تاج محل اسی باورچی کے زمانے میں تیار ہوسکتا تھا، جو ایک چنے سے ساٹھ کھانے تیار کر سکتا تھا۔
ہر گنہگار معاشرہ اپنے گناہوں کا بوجھ اپنے عضو ضعیف پر ڈالتا ہے۔ گنہگار معاشرہ میں ادیب کی حیثیت عضو ضعیف کی ہوتی ہے۔
جو معاشرہ اپنے آپ کو جاننا نہیں چاہتا وہ ادیب کو کیسے جانے گا۔ جنہیں اپنے ضمیر کی آواز سنائی نہیں دیتی انہیں ادیب کی آواز بھی سنائی نہیں دے سکتی۔
آدمی اور آدمی کے درمیان رشتہ نہ رہے یعنی اجتماعی فکریں ختم ہو جائیں اور ہر فرد کو اپنی فکر ہو تو ادب اپنی اپیل کھو بیٹھتا ہے۔
رسم الخط اپنی جگہ کوئی چیز نہیں ہے، وہ تہذیب کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ تہذیب شکلوں کے ایک سلسلہ کو جنم دیتی ہے یا پہلے سے موجود شکلوں کو ایک نئی معنویت دے دیتی ہے۔
آج کا لکھنے والا غالب اور میر نہیں بن سکتا ۔ وہ شاعرانہ عظمت اور مقبولیت اس کا مقدر نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ ایک بہرے ،گونگے، اندھے معاشرے میں پیدا ہوا ہے۔
ہماری روز مرہ کی زندگی میں تخلیقی عمل کی رو ماند پڑ گئی ہے۔ ایک دسترخوان پر موقوف نہیں، ہمار ا لباس، ہمارے کھیل، ہماری دست کاریاں، ہمارے پیشے یعنی ہماری ہر سرگرمی میں تخلیقی عمل کی رو کچھ سست پڑ گئی ہے۔ جب یہ صورت ہو تو کسی غیر کلچر کے لئے اس پر یلغار کرنا سہل ہو جاتا ہے۔
اشتہارات نے جو کام جبر و تشدد سے کیا ہے، وہ جدید تعلیم نے پر امن طریقہ پر انجام دیا ہے۔ یعنی جدید تعلیم کو اشتہارات کی ترقی یافتہ اور امن پسندانہ صورت جانئے۔
جس گزرے زمانہ کا میں ذکر کرتا ہوں، اس زمانے میں سماجی زندگی کے سارے مظاہر ہم رشتہ تھے۔ سماجی زندگی کے مظاہر اور فطرت کے مظاہر۔ آدمی کی درختوں سے دوستی تھی اور جانوروں سے رفاقت تھی۔
جب ہم کسی اجنبی تہذیب کی ایک تلمیح کو قبول کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس باطنی واردات پر ایمان لے آئے ہیں جس سے وہ تلمیح عبارت ہے۔
ہمارے معاشرہ کو ادب کی تو آج بھی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ کرکٹ کے میچ سال بھر متواتر نہیں ہوتے۔ آخر ایک میچ اور دوسرے میچ کے درمیانی عرصے میں کیا کیا جائے۔ غزل اور افسانہ ہی پڑھا جائے گا۔
جب ایک قوم پر یہ نوبت آجائے کہ وہ اپنی روحانی علامتوں کی توثیق کے لئے کارلائل اور برنارڈ شا سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے لگے تو اس کے معنی تو یہی ہوئے کہ وہ اپنے اعتبار کا اثاثہ تو لٹا بیٹھی۔ اب وہ اپنی ذات کو بلیاں لگا کر کھڑی کرنے اور دوسروں کے سہارے اپنا اعتبار بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ادیب بھی آدمی ہوتے ہیں۔ اردگرد کے حالات اس کے طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ہر شخص کو اپنی فکر ہو تو ادیب کو بھی اپنی فکر پڑتی ہے۔
افسانے کا المیہ تو یہ ہے کہ اس میں منشی پریم چند پیدا ہوگئے۔ شاعری کے ساتھ یہ گزری کہ وہ مختلف تحریکوں کے ہاتھوں خراب و خستہ ہو کر پریم چند کے افسانے کے انجام کو پہنچ گئی۔
ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کر سکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرے گی۔ ویسے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثرنگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک مؤثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔
چیزوں کو پرکھنے، اچھے اور برے میں تمیز کرنے اور خوبصورتی اور بدصورتی میں فرق کرنے کے ہمارے اپنے معیار نہیں رہے ہیں، یا یہ کہ اپنے معیاروں پر اعتبار نہیں رہا ہے۔
ہم نے اگر رومن رسم الخط کو اختیار کیا تو وہ سرکاری دفتروں میں رہے گا، یونیورسٹیوں کی زینت بنے گا اور کوٹھیوں میں گملوں اور گلدانوں میں لگا کر رکھا جائے گا۔ مگر مسجدوں، درگاہوں اور امام باڑوں میں طغرے بھی اور دودھ فروشوں اور پانوں کی دکانوں پر غالب و اقبال کے شعر اسی پرانے دھرانے رسم الخط میں آویزاں رہیں گے۔
جب روزہ مرہ کے کاموں میں تخلیقی عمل رک جائے یا مندا پڑ جائے تو اسے کلچر کے زوال کی علامت سمجھنا چاہیے۔
رشتوں کی تلاش ایک درد بھرا عمل ہے۔ مگر ہمارے زمانے میں شاید وہ زیادہ ہی پیچیدہ اور درد بھرا ہوگیا ہے۔
سر انگشت حنائی کا تصور بھی اچھا ہے کہ یوں دل میں لہو کی بوند بھی نظر آتی ہے اور دماغ میں حسن کا تصور بھی قائم رہتا ہے۔
ہم نے تجربات اور واردات کو یاد رکھا تھا اور انہیں علامتوں اور استعاروں میں محفوظ کر لیا تھا۔ پھر یہ کیا افتاد پڑی کہ غزل سے قیس و فرہاد ہجرت کر گئے اور کوہ طور پر ایسی بجلی گری کہ غزل میں اب اس کا نشان نہیں ملتا۔ قیس و فرہاد کے استعاروں کے مرجانے کے معنی یہ ہیں کہ ایک بنیادی انسانی جذبہ ہمارے معاشرے میں ایک پیہم تہذیبی اثر کے ماتحت جس سانچے میں ڈھل گیا تھا وہ سانچا بکھر گیا ہے۔ جب ایسا سانچا بکھرتا ہے تو اخباروں میں اغوا اور قتل کی خبروں اور رسالوں میں رومانی نظموں اور افسانوں کی بہتات ہو جاتی ہے۔ رومانی شاعری اور رومانی افسانہ جذبات کے اغوا اور قتل کی واردات ہیں۔
آج کا ادب، اگر وہ صحیح اور سچے معنوں میں آج کا ادب ہے تو آج کے چالو معاشرتی معیارات کا ترجمان نہیں ہو سکتا۔
انگریزی پھول اور رومن حروف اجنبی زمینوں سے آئے ہیں ہمیں ان سے مہک نہیں آتی۔ شاید ہماری باطنی زندگی میں وہ رسوخ انہیں کبھی حاصل نہ ہو سکے جس کے بعد پھول اور حروف روحانی معنویت کے حامل بن جایا کرتے ہیں۔
ناموں کا جانا اور ناموں کا آنا معمولی واقعہ نہیں ہوتا۔ نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔ اپنے مستند ناموں کو رد کرکے کسی دوسری تہذیب کے ناموں کو سند سمجھنا، افکار و خیالات کے ایک نظام سے رشتہ توڑ کر کسی دوسرے نظام کی غلامی قبول کرنا ہے۔
نئی غزل وضع کرنے کا ٹوٹکا یہ ہے کہ نئی اشیا کے نام شعر میں استعمال کیجئے۔ جیسے کرسی، سائیکل، ٹیلیفون، ریل گاڑی، سگنل۔
اگر ہمیں کوئی نیا نظام بنانا ہے تو پرانے نظام کو یاد رکھنا چاہیے۔ اگر ہم نے پرانے نظام کو بھلا دیا تو پھر ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ کس قسم کی باتوں کے لئے جد و جہد کرنی چاہیے، اور ایک دن نوبت یہ آئے گی کہ ہم جد و جہد سے بھی تھک جائیں گے اور مشین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔
آدمی نے پہلے پہل براہ راست چیزوں کی تصویریں بنا کر صرف مطلب کا اظہار کیا۔ یہ تصویریں تجدیدی رنگ میں ڈھلے ڈھلتے رسم الخط بن گئیں۔
اشتہاروں کی طاقت یہ ہے کہ آج کوئی فرم یہ ٹھان لے کہ اسے غلیلوں کا کاروبار کرنا ہے تو وہ اسے کرکٹ کے برابر بھی مقبول بنا سکتی ہے۔
عورت یعنی چہ؟ محض جنسی جانور؟ پھر مرد کو بھی اسی خانے میں رکھئے۔ یہ کوئی الگ جانور تو نہیں ہے، اسی مادہ کا نر ہے۔
رسم الخط کی تبدیلی محض رسم الخط کی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنے باطن کو بھی بدلنے کا اقدام ہوتی ہے۔
بات یہ ہے کہ معلومات حواس سے بے تعلق رہیں اور افکار و خیالات خون کا حصہ نہ بنیں، یعنی فکر اور احساس کا سنجوگ نہ ہو سکے تو پھر یہ علم خشک علم رہتا ہے، حکمت نہیں بنتا۔ اس میں وہ تولیدی قوت پیدا نہیں ہوتی کہ خیال سے خیال پیدا ہو اور عملی زندگی کے ساتھ اس کے وصل سے کچھ نئے رنگ، کچھ تازہ خوشبوئیں جنم لیں۔
تخلیقی عمل ایک ہمہ گیر سرگرمی ہے۔ اس کا آغاز دکانوں اور باورچی خانوں سے ہوتا ہے اور تجربہ گاہوں اور آرٹ گیلریوں میں اس کا انجام ہوتا ہے۔ وہ روز مرہ کی بول چال اور نشست و برخاست سے شروع ہو کر افسانہ اور شاعری میں انتہا کو پہنچتا ہے۔
ہر متروک لفظ ایک گمشدہ شہر ہے اور ہر متروک اسلوبِ بیان ایک چھوڑا ہوا علاقہ۔
اشتہارات دل و دماغ پر یلغار کرتے ہیں اور عقل کے گرد گھیرا ڈالتے ہیں۔ وہ جدید نفسیاتی اسلحہ سے مسلح ہوتے ہیں جن کے آگے کوئی مدافعت نہیں چلتی اور دل و دماغ کو بالآخر پسپا ہونا پڑتا ہے۔
جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادہ اور معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں۔
بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔ بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے۔
کہتے ہیں کہ موجودہ بر اعظموں کے منجملہ پہلے ایک اور بر اعظم تھا جو سمندر میں غرق ہوگیا۔ اردو کی پرانی داستانوں اور پرانی شاعری میں جو رنگا رنگ اسالیب بیان اور ان گنت الفاظ نظر آتے ہیں، وہ پتا دیتے ہیں کہ اردو زبان بھی ایک پورا بر اعظم غرق کئے بیٹھی ہے۔
جب کسی زبان سے علامتیں گم ہونے لگتی ہیں تو وہ اس خطرے کا اعلان ہے کہ وہ معاشرہ اپنی روحانی واردات کو بھول رہا ہے، اپنی ذات کو فراموش کرنا چاہتا ہے۔ اردو میں حقیقت نگاری کی تحریک اصل میں اپنی ذات کو فراموش کرنے کی تحریک تھی۔
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1867
-